ڈاکٹر پرویزشہریارکی نظمیں
ڈاکٹر پرویزشہریارکی نظمیں
Feb 8, 2019
تم نہیں سمجھو گی
تم کیا جانو !
باجرے کے دانے شیشی میں جب بھرنے لگتے ہیں
بوجھل ہو کے عجب ا ٓھنگ سے وہ بجنے لگتے ہیں
اُس ساعت، مرد کی کیفیت
اُس سانپ کی سی ہو جاتی ہے
جو اپنی کینچلی اُتارنے کی خاطر
خود کو تنگ پتھریلی راہوں سے گزارتا ہے
خارردار جھاڑیوں سے اُلجھتا ہے
بدن پر جابجا خراشیں پڑجاتی ہیں
حتیٰ کہ جسم پر نیل کے دھبّے سے پڑنے لگتے ہیں
تب کہیں جاکے
اپنی کینچلی اُتارنے میںوہ کامیاب ہو پاتا ہے
نیم خوابیدہ نیم بیدار
حواس کے سہارے
تاریک سرنگوں سے گزرنا
جس کے اختتام پر روشنی کی کرنیںہوں رقصاں
کتنا انبساط انگیز ہوتا ہے وہ لمحہ
کتنا جاں فزا ہوتا ہے وہ سماں
تم کیا جانو!
تنگ پتھریلی راہوں سے دیوانہ وار گزرنے کا کرب
خاردار جھاڑیوں سے مجذوبانہ اُلجھنے کا حظ
بدن پر جابجا خراشیں پڑجانے کا مستانہ درد
تم نہیں سمجھو گی
کہتے ہیں
مرد اور گھوڑے
کبھی ہوتے نہیں بوڑھے
گھوڑا کتنا بھی کبر سنی کو پہنچ جائے
ہنہناتا ضرور ہے
مرد بھی اپنے ہمزاد کی افزائش کابہانہ
بناتاضرور ہے
لیکن تم کیا جانو یہ سب!
کہتے ہیں تخریب میں ہیں پوشیدہ تعمیر کے مراحل
اماوس میں نہاں ہوتے ہیں
پورنیماشی کے منازل
تخلیق کے کرب بنا ممکن نہیں
روشنی کا سفر
لیکن یہ سب تم نہیں سمجھو گی
تم کیا جانو!
٭٭
(2)
جھیل جیسی آنکھیں
لعل بدخشاں ہونٹ
بل کھاتی سیاہ رلفیں
کشش چاروں کھونٹ
یہ سب بھول بھلیاں ہیں
چہرہ مہرہ
دراصل ایک پردہ ہے
منزلِ مقصودسے بھٹکانے کا ایک حربہ ہے
اصلی عورت
کہیں اور ہوتی ہے
جسم کے انڈیکس سے پرے
کنڈلی مارے بیٹھی ، کسی برہن کی طرح
غیر مری سی
اودے اودے بادلوں کے خواب جیسی
اَماوس کی سیاہ رات جیسی
برق خوابیدہ
اپنی توانائیوں سے بھر پور
کنڈل جگانے میں
بڑی تپسیہ ہوتی ہے
’پریم‘ ------- عورت کے اندر کا سچا موتی ہے
اُس کے جسم کے پار جاکرہی
اُسے ڈھوندا جا سکتا ہے
جسم کے گرداب میں
رکھا ہے، کچھ بھی نہیں
مرد اپنے بازو¿و ںکے زورپر
قابض ہونا چاہتا ہے
’عورت ‘ کے جسمِ بلا شورپر
لیکن -------
بدن ریت کا ٹیلہ ہے
خواہشوں کا میلہ ہے
وہاں سراب ہی سراب ہے
عورت
ظاہرمیں نہیں
باطن میں ہوتی ہے پوشیدہ
اپنے ایپک سینٹر کے متلاشی
کسی منھ زور جوالا مکھی کی طرح
آدمی تمام عمر
بھاگتا رہتا ہے حسین چہروں کے پیچھے
اُس مردِ ناداں کی طرح
جو سمندر کی سطحِ آب پر
اُبھرتی ڈوبتی لہروں کو نہارتا رہتا ہے
اپنی پُر شوق نگاہوں سے
ساحل سمندر ریت پر
سیپیوں سے کھیلتا رہتا ہے عمر بھر
شاید اُسے معلوم نہیں
سچے ّ موتی
سمندر کی اندرونی تہوں میں غوطہ زن رہتے ہیں ہر دم
ایسے انمول موتیوں کو پانے کے لیے
سیپیوں کے لب کھلنے تک کرنا ہوتا ہے انتظار
عورت کے اصلی جوہر کی خاطر
جسم کے انڈیکس سے پرے
چہرے کے پُرفریب پردہ کو ہٹاکر
کسی غوطہ خور کی طرح
اُس کے نہاں خانہ¿ دل میں اُترنا ہوگا
روح کے بند دریچوں پر دستکیں دینے ہوں گے متواتر
عورت سامانِ تعش نہیں
جنسِ بازار نہیں
جسم بھی نہیں ہے
عورت کا اسمِ ثانی محبت ہے، محبت ہے،
محبت ہی ہے !
٭٭
ڈاکٹر پرویز شہریار
تم نہیں سمجھو گی
تم کیا جانو !
باجرے کے دانے شیشی میں جب بھرنے لگتے ہیں
بوجھل ہو کے عجب ا ٓھنگ سے وہ بجنے لگتے ہیں
اُس ساعت، مرد کی کیفیت
اُس سانپ کی سی ہو جاتی ہے
جو اپنی کینچلی اُتارنے کی خاطر
خود کو تنگ پتھریلی راہوں سے گزارتا ہے
خارردار جھاڑیوں سے اُلجھتا ہے
بدن پر جابجا خراشیں پڑجاتی ہیں
حتیٰ کہ جسم پر نیل کے دھبّے سے پڑنے لگتے ہیں
تب کہیں جاکے
اپنی کینچلی اُتارنے میںوہ کامیاب ہو پاتا ہے
نیم خوابیدہ نیم بیدار
حواس کے سہارے
تاریک سرنگوں سے گزرنا
جس کے اختتام پر روشنی کی کرنیںہوں رقصاں
کتنا انبساط انگیز ہوتا ہے وہ لمحہ
کتنا جاں فزا ہوتا ہے وہ سماں
تم کیا جانو!
تنگ پتھریلی راہوں سے دیوانہ وار گزرنے کا کرب
خاردار جھاڑیوں سے مجذوبانہ اُلجھنے کا حظ
بدن پر جابجا خراشیں پڑجانے کا مستانہ درد
تم نہیں سمجھو گی
کہتے ہیں
مرد اور گھوڑے
کبھی ہوتے نہیں بوڑھے
گھوڑا کتنا بھی کبر سنی کو پہنچ جائے
ہنہناتا ضرور ہے
مرد بھی اپنے ہمزاد کی افزائش کابہانہ
بناتاضرور ہے
لیکن تم کیا جانو یہ سب!
کہتے ہیں تخریب میں ہیں پوشیدہ تعمیر کے مراحل
اماوس میں نہاں ہوتے ہیں
پورنیماشی کے منازل
تخلیق کے کرب بنا ممکن نہیں
روشنی کا سفر
لیکن یہ سب تم نہیں سمجھو گی
تم کیا جانو!
٭٭
(2)
جھیل جیسی آنکھیں
لعل بدخشاں ہونٹ
بل کھاتی سیاہ رلفیں
کشش چاروں کھونٹ
یہ سب بھول بھلیاں ہیں
چہرہ مہرہ
دراصل ایک پردہ ہے
منزلِ مقصودسے بھٹکانے کا ایک حربہ ہے
اصلی عورت
کہیں اور ہوتی ہے
جسم کے انڈیکس سے پرے
کنڈلی مارے بیٹھی ، کسی برہن کی طرح
غیر مری سی
اودے اودے بادلوں کے خواب جیسی
اَماوس کی سیاہ رات جیسی
برق خوابیدہ
اپنی توانائیوں سے بھر پور
کنڈل جگانے میں
بڑی تپسیہ ہوتی ہے
’پریم‘ ------- عورت کے اندر کا سچا موتی ہے
اُس کے جسم کے پار جاکرہی
اُسے ڈھوندا جا سکتا ہے
جسم کے گرداب میں
رکھا ہے، کچھ بھی نہیں
مرد اپنے بازو¿و ںکے زورپر
قابض ہونا چاہتا ہے
’عورت ‘ کے جسمِ بلا شورپر
لیکن -------
بدن ریت کا ٹیلہ ہے
خواہشوں کا میلہ ہے
وہاں سراب ہی سراب ہے
عورت
ظاہرمیں نہیں
باطن میں ہوتی ہے پوشیدہ
اپنے ایپک سینٹر کے متلاشی
کسی منھ زور جوالا مکھی کی طرح
آدمی تمام عمر
بھاگتا رہتا ہے حسین چہروں کے پیچھے
اُس مردِ ناداں کی طرح
جو سمندر کی سطحِ آب پر
اُبھرتی ڈوبتی لہروں کو نہارتا رہتا ہے
اپنی پُر شوق نگاہوں سے
ساحل سمندر ریت پر
سیپیوں سے کھیلتا رہتا ہے عمر بھر
شاید اُسے معلوم نہیں
سچے ّ موتی
سمندر کی اندرونی تہوں میں غوطہ زن رہتے ہیں ہر دم
ایسے انمول موتیوں کو پانے کے لیے
سیپیوں کے لب کھلنے تک کرنا ہوتا ہے انتظار
عورت کے اصلی جوہر کی خاطر
جسم کے انڈیکس سے پرے
چہرے کے پُرفریب پردہ کو ہٹاکر
کسی غوطہ خور کی طرح
اُس کے نہاں خانہ¿ دل میں اُترنا ہوگا
روح کے بند دریچوں پر دستکیں دینے ہوں گے متواتر
عورت سامانِ تعش نہیں
جنسِ بازار نہیں
جسم بھی نہیں ہے
عورت کا اسمِ ثانی محبت ہے، محبت ہے،
محبت ہی ہے !
٭٭
ڈاکٹر پرویز شہریار