نظم : اقبال فہیم جوزی
نظم : اقبال فہیم جوزی
May 21, 2020
نظم
اقبال فہیم جوزی
باقی رہ گئے تین
تفتیشی افسر
تین بہن بھائیوں کو دیکھا
جن کی آنکھیں خوف مرگ سے
ابلی پڑتی تھیں
گردن کے پٹھے اینٹھ گئے تھے
باطن کے اک تشنج سے
وہ ابھی ابھی چھوٹی بہن کی لاش
دفن کرکے
دعاءے مغفرت کے قورمہ نان سے
فارغ ہوئے تھے
سب سے بڑے نے دل چیرا
اور اک ننھی سی
جلی ہوئی گٹھلی سی دکھائی ۔ کہا
وہ میرے خیا لوں سے آگے دیکھتی تھی
اور یہ ہے نفرت کی سیاہی
منجھلی نے پائنچہ سرکایا
اور اپنی پنڈلی پہ ابھرا ہوا
اک سرخ ناسور دکھایا
وہ ہواؤں پہ رقص کی طرح چلتی
اور یہ ہے کالی بد دعا
چھوٹے نے ایک پتلا دکھایا
جس میں سوءیاں گڑی تھیں
وہ پیدا ہوتے ہی
میری محبت میں شریک ہو گئی تھی
اور یہ ہے کالا جادو
تفتیشی افسر نے رونے کی وجہ پوچھی
تو انہوں آنسو پونچھے اور کہا
وہ ہمیں بہت پیاری لگتی تھی
تفتیشی افسر نے سگرٹ کا اک لمبا کش لیا
اور نوٹ بک میں لکھا۔
خود کشی کا یہ کیس نا قابل ثبوت ہے ۔
اور غائب ہو گیا
تینوں نے مڑ کر اپنی ماں کے آنسوؤں کی طرف دیکھا
جو آب زم زم کی طرح گر رہے تھے ۔
------------------------------------
اقبال فہیم جوزی
نظم
اقبال فہیم جوزی
باقی رہ گئے تین
تفتیشی افسر
تین بہن بھائیوں کو دیکھا
جن کی آنکھیں خوف مرگ سے
ابلی پڑتی تھیں
گردن کے پٹھے اینٹھ گئے تھے
باطن کے اک تشنج سے
وہ ابھی ابھی چھوٹی بہن کی لاش
دفن کرکے
دعاءے مغفرت کے قورمہ نان سے
فارغ ہوئے تھے
سب سے بڑے نے دل چیرا
اور اک ننھی سی
جلی ہوئی گٹھلی سی دکھائی ۔ کہا
وہ میرے خیا لوں سے آگے دیکھتی تھی
اور یہ ہے نفرت کی سیاہی
منجھلی نے پائنچہ سرکایا
اور اپنی پنڈلی پہ ابھرا ہوا
اک سرخ ناسور دکھایا
وہ ہواؤں پہ رقص کی طرح چلتی
اور یہ ہے کالی بد دعا
چھوٹے نے ایک پتلا دکھایا
جس میں سوءیاں گڑی تھیں
وہ پیدا ہوتے ہی
میری محبت میں شریک ہو گئی تھی
اور یہ ہے کالا جادو
تفتیشی افسر نے رونے کی وجہ پوچھی
تو انہوں آنسو پونچھے اور کہا
وہ ہمیں بہت پیاری لگتی تھی
تفتیشی افسر نے سگرٹ کا اک لمبا کش لیا
اور نوٹ بک میں لکھا۔
خود کشی کا یہ کیس نا قابل ثبوت ہے ۔
اور غائب ہو گیا
تینوں نے مڑ کر اپنی ماں کے آنسوؤں کی طرف دیکھا
جو آب زم زم کی طرح گر رہے تھے ۔
------------------------------------
اقبال فہیم جوزی