نور دین کا جگنو

نور دین کا جگنو

Mar 15, 2018

دیدبان شمارہ۔ ۶

نور دین کا جگنو

توصیف احمد ملک

’’ جگنو۔۔۔ اوئے جگنو‘‘

سکول سے چھٹی کا وقت تھا تو وہ ہر بچے کو غور سے دیکھتا اورپھر اس کی طرف لپکتا۔بچے اس سے مذاق کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ وہ ان دو گلیوں کے علاوہ کہیں اور نہیں جاتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی دنیا بس یہی دو گلیاں تھیں۔ مولوی نزاکت حسین نے اسے دیکھا تو اس نے بچوں کو ڈانٹا اور پھر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

’’ چل میرے ساتھ نور دین۔۔۔گھر سے نکلتا ہی کیوں ہے‘‘ اس نے بوڑھی آنکھیں کھول کر نزاکت حسین کو دیکھا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیا۔ مولوی نزاکت حسین اسے مسجد کے اندر لے گیا۔

’’ میں ظہر کی نماز پڑھ لوں نور دین۔۔۔ بیٹھ یہاں آرام سے۔۔۔ اللہ اللہ کر۔۔۔ اب میں کہاں سے لائوں تیرا جگنو۔۔۔‘‘ نزاکت حسین نے اپنی پلکوں سے نمی سمیٹی اور وضو کرنے لگا۔ نماز پڑھا کر اس نے نور دین کو اٹھایا اور مسجد کے باہر سیڑھیوں پہ بٹھا دیا۔۔۔اور خود بھی ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔

’’ دیکھ او نور دینا۔۔۔تیرے جگنو نے کیا کمال کیا۔۔۔ خود بجھ گیا اور کتنے لوگوں کے گھر بجھا گیا۔۔۔ ‘‘

--------------------------------------------------------------------------

نور دین پریشانی کے عالم میں اسلم پرچون والے کی دکان پہ پہنچا۔

’’ اوئے نور دین۔۔۔ خیر تو ہے۔۔۔ پسینے سے نہا گیا ہے ‘‘

نور دین نے آنکھوں کے کناروں پہ جمع ہوتی نمی کو برداشت کرتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر اسلم کو دیکھنے لگا۔

’’ جگنو گم گیا ہے اسلم۔۔۔ تجھے نظر آیا ہے کیا۔۔۔ ‘‘

’’ جگنو گم گیا ہے۔۔۔ اوئے صبح آیا تھا، جب تیرے گھر مہمان آئے تھے ‘‘

’’ ابھی دو گھنٹے پہلے کی بات ہے ۔۔۔گم گیا ہے‘‘ نور دین بڑ بڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

اقبال گلی کے نکڑ پہ میجر کا ہوٹل تھا۔ یار محمد سپاہی ریٹائرڈ ہوا تھا، لیکن سب اسے میجر ہی کہتے تھے۔ ہوٹل میں اس وقت مولوی نزاکت کے علاوہ بھی دو چار لوگ بیٹھے تھے۔ نور دین تھکے قدموں سے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ میجر اور مولوی نزاکت حسین نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر مولوی نزاکت حسین چائے کی پیالی اٹھا کر نور دین کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ ’’پریشان ہے نور دین۔۔۔؟‘‘ نزاکت حسین نے کہا تو نور دین نے کاندھے پہ پڑے رومال سے آنکھیں صاف کیں اور نزاکت حسین کو دیکھنے لگا۔

’’ جگنو گم گیا ہے۔۔۔ مولوی صاحب‘‘ نزاکت حسین نے حیرت سے نور دین کو دیکھا اور پھر میجر کو۔۔۔!

’’ میجر۔۔۔اوئے گل سن میری۔۔۔‘‘ میجر کے آنے پر نزاکت حسین نے اسے بتایا

’’ اوئے یہ کہتا ہے اس کا جگنو گم گیا ہے۔۔۔‘‘

’’ ہوا کیا ہے۔۔۔‘‘ نزاکت حسین نے پوچھا تو نور دین نے میجر کو دیکھا۔۔۔ جیسے وہ اس کے سامنے کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا۔ میجر دوبارہ جا کر تھڑے پہ بیٹھ گیا۔

’’ کچھ نہیں مولوی صاحب۔۔۔ بس ایسے ہی ناراض تھا تو گھر سے نکل گیا ہے‘‘

’’ بڑا بیبا بچہ ہے وہ تو۔۔۔ ایسے کیسے نکل گیا ہے۔۔۔ نور دین۔۔۔ سیدھی طرح نہیں بتائے گا تو کیسے پتہ چلے گا ‘‘

’’ مولوی صاحب مجھے جگنو نہیں مل رہا۔۔۔‘‘ نور دین پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔!

روتے روتے اٹھا اور ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ اس کا رخ بختیار کے گھر کی جانب تھا۔ بختیار لیاقت کی بیٹی تھی۔ لیاقت اور نور دین ایک مدت سے گہرے دوست تھے۔ بختیار لیاقت کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ وہ جگنو کے لیے بختیار کو ہی بیاہ کر لانا چاہتا تھا۔ بختیار نور دین کو دروازے پہ کھڑا دیکھ کر حیران رہ گئی۔

’’ چاچا۔۔۔آپ۔۔۔ آئیں اندر آئیں‘‘

’’ پتر۔۔۔ابا ہیں تیرے گھر پر۔۔۔؟‘‘

’’ نہیں چاچا۔۔۔ لیکن آپ رو کیوں رہے ہو۔۔۔‘‘

’’ جگنو گم گیا ہے میرا۔۔۔ تجھے کچھ پتہ ہے اس کا۔۔۔ موبائل بند ہے اس کا پتر‘‘

’’ نہیں چاچا۔۔۔ لیکن کہاں گیا ہے وہ۔۔۔ آپ اندر آئیں نا۔۔۔‘‘

’’ میری بہن امریکہ سے پاکستان آئی تو مجھ سے ملنے بھی آئی۔۔۔ اس نے مجھ سے پوچھ لیا کہ جگنو کو پتہ ہے اس کی ماں بھاگ گئی تھی ۔۔۔ بس یہی بات اس شودے نے سن لی ۔۔۔اوروہ مجھے غصے سے دیکھ کر نکل گیا ہے گھر سے۔۔۔ پتر تو اسے فون ملاتی رہ۔۔۔ تیری بات نہیں ٹالتا وہ۔۔۔جیتی رہ‘‘

نور دین اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر واپس آنے لگا تو بختیار نے اسے آواز دی۔

’’ چاچا۔۔۔ جاوید کے پاس دیکھیں اسے۔۔۔ وہ اکثر اس کے گھر جاتا رہتا ہے۔۔۔‘‘

’’ وہ جیدا کنگ پوریا۔۔۔؟‘‘ بختیار نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

کچھ دیر بعد جا کر اس نے جاوید کنگ پوریا کے دروازے پہ دستک دی‫.

’’ بھائی۔۔۔ چاچا نور دین آئے ہیں ‘‘ کنول کی آواز آئی تو جاوید نے بھاگ کر اوپر سے دیکھا اور پھر جگنو کو دیکھنے لگا۔

’’ اب تو جگنو صاحب۔۔۔ پتہ چل گیا ہے۔۔۔ کوئی چن چڑھا کر آئے ضرور ہو۔۔۔ چاچا جی۔۔۔ پہنچ گئے ہیں‘‘

جگنو سر جھکا کر بس ہتھیلیوں کو آپس میں ملتا رہا۔ نور دین سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا اور ادھ ملے غصے سے دیکھنے لگا۔

’’ جیدے پتر ۔۔۔میں تجھے اچھا نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔لیکن یہ سر جھکا کر یہاں بیٹھا ہے تو سمجھو اچھا سمجھنے لگ گیا ہوں ‘‘

جاوید بس مسکرا کر رہ گیا’’ چاچا کب سے یہاں بیٹھا ہے۔۔۔ کوئی چن چڑھا کر آیا ہے مجھے پتہ ہے۔۔۔ کیا ہے یہ نہیں بتا رہا‘‘

’’ اسے بتا جیدے پتر۔۔۔ جیسے تو لوگوں کو تڑیاں لگاتا ہے ۔۔۔ایسے ہی اسے بتا کہ پچیس سال میں نے اسے باپ کم اور ماں زیادہ بن کر پالا ہے۔۔۔ ناراض ہونے کے سو اور طریقے ہیں۔۔۔ پچیس سالوں کی ماں کو اس نے بس ایک جھٹکے میں مار دیا ہے کمینے نے‘‘

نور دین کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔جاوید نے جگنو کو دیکھا۔

’’ اوئے جگنو۔۔۔ مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ باپ جب ماں بھی ہو تو سمجھو دو بار عزت کرنی پڑتی ہے اور دگنی خدمت بھی۔۔۔اوئے گھر سے نکل آیا ہے تو ۔۔۔بے شرم‘‘

نور دین نے جاوید کو ٹوک دیا ’’ نہ جیدے۔۔۔ یہ نہ کہہ۔۔۔ بڑے شرم حیا والا ہے میرا جگنو۔۔۔ بس ناراض ہونے کا طریقہ نہیں آتا اسے۔۔۔ پتر کوئی گلہ شکوہ ہوتا ہے۔۔۔ آمنے سامنے بیٹھ کر حل کرلینے چاہیں۔۔۔ ‘‘

وہ خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھا رہا۔

’’ جیدے پتر۔۔۔اسے کہہ۔۔۔ اسے کہہ کہ میرے ساتھ گھر چلے۔۔۔ ساری گلیوں کی خاک چھان کر آیا ہے اس کا باپ‘‘ نور دین اٹھ کر کھڑا ہوا تو جگنو بھی کھڑا ہو گیا۔ بغیر کچھ کہے نور دین کے پیچھے پیچھے چل کر گھر آ گیا۔ وہ صحن میں ہی بیٹھ گیا تھا۔اس نے بھیگی آنکھوں سے باپ کو دیکھا۔

’’ مجھے شرم آتی ہے کہ میری ماں گھر سے بھاگ گئی‘‘

نور دین نے غور سے اسے دیکھا ’’ شرم نہ کر۔۔۔ ماں کا رتبہ بڑا نازک اور سوہنا ہوتا ہے میرے جگنو۔۔۔ شرم کر کے ماں کے رتبے کو برباد نہ کر۔۔۔کوئی بدنصیب سو میں سے ایک اپنے نصیب جلا کر اپنے قدموں سے جنت آپ ہی چھین لیتی ہے پتر۔۔۔ شرم نہ کر۔۔۔دیکھ پچیس سال میں نے باپ کم اور ماں زیادہ بن کر پالا ہے تجھے۔۔۔ تو میری خدمت کر۔۔۔ مجھے مسکرا کر دیکھ۔۔۔ اوپر والے کے تو کام ہی سارے نرالے اور انوکھے ہیں۔۔۔وہ تجھے جنت کیا۔۔۔جنت سے بھی بڑھ کر دے گا‘‘

’’ زندہ ہے۔۔۔؟‘‘ جگنو نے پوچھا تو نور دین نے نظریں پھیر لیں

’’ دیکھ او بھئی علی امیر۔۔۔اب تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔ تو ایسے سوال کیوں کر رہا ہے؟‘‘

جگنو نے نور دین کا چہرہ اپنی طرف گھما کر دیکھا ’’ ابا۔۔۔ بتا نا۔۔۔ تیری قسم۔۔۔ اب کوئی شرم نہیں کر رہا۔۔۔ مجھے بس غصہ ہے اس پر۔۔۔‘‘

نور دین نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ’’ نہ سوہنیا۔۔۔ غصہ بھی نہیں۔۔۔ ماں کے رتبے میں کوئی شرط نہیں رکھی اوپر والے نے۔۔۔نصیبوں والی ہو یا کوئی بدنصیب۔۔۔ ہوتی ماں ہے۔۔۔‘‘

’’ چل یہ بتا ۔۔۔ کہ وہ ہے کہاں۔۔۔ زندہ ہے یا نہیں ‘‘

نور دین جھنجھلا کر اٹھ کھڑا ہوا ’’ جگنو۔۔۔ تو کیوں میرے زخموں پہ مرچیں ڈال رہا ہے ۔۔۔اوئے وہ جدھر بھی ہے۔۔۔ اس سے اب تیرا یا میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔۔‘‘

’’ ابا ۔۔۔بس میں نے اسے ایک بار دیکھنا ہے۔۔۔ ‘‘

’’ اوئے تو مجھے دیکھ نا۔۔۔ مجھے دیکھ نا میرا پتر۔۔۔پچیس سال کی ماں سے ایسے آنکھیں نہ پھیر جگنو۔۔۔ قسم خدا کی۔۔۔مجھے مٹی مٹی کر کے گئی تھی وہ بد نصیب۔۔۔ اپنے اوپر رحم کھا۔۔۔ جا اندر ‘‘

جگنو اٹھ کھڑا ہوا ’’ ابا۔۔۔ وہ کہاں ہے۔۔۔میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔تو نہیں بتائے گا تو میں پھپھو سے پوچھ لوں گا۔۔۔ نہیں تو گائوں جا کر کسی اور سے ‘‘

نور دین نے مڑ کر انتہائی بے بسی سے بیٹے کو دیکھا اور بیٹھ گیا۔ اس کے پاس جگنو کو سب کچھ بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

’’ تنویر سرائیں کے پاس گئی تھی۔۔۔میں نے اسے کہا بھی تھا کہ بغیر شادی کے اس کے ساتھ مت رہو۔۔۔ طلاق تک میرے پاس ہی رہ۔۔۔ تنویر سرائیں گاؤں کا بڑا زمیندار ہے۔۔۔مجھے سرائیں کے حواریوں نے دھکے دے کر بھگا دیا۔۔۔میں نے اسے طلاق دی تو تنویر سرائیں نے اسے دھکے دے کر نکال دیا۔۔۔ ظاہر ہے اس نے جو کچھ لینا تھا لے لیا۔۔۔رلتی پلتی گھر پہنچ گئی وہ۔۔۔ وہاں اس کے باپ نے اسے نکال دیا۔۔۔ وہ شہر آ گئی۔۔۔ پڑھی لکھی تھی وہ۔۔۔اس لیے پڑھانے لگی۔۔۔وہیں اسے نصرت ملا۔۔۔ نصرت کا ایک بیٹا اس سکول میں پڑھتا تھا۔۔۔ اس کی بیوی مر چکی تھی۔۔۔ دونوں نے شادی کر لی۔۔۔اب اس کی اپنی بھی دو بیٹیاں ہیں۔۔۔اور ایک بیٹا۔۔۔کافی بڑی کوٹھی ہے اس کی شہر میں ۔۔۔نصرت کی کسی بڑی ساری کمپنی میں میڈم زبیدہ ہے وہ‘‘

نور دین نے جگنو کو دیکھا ۔ جس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھیں، نور دین اٹھ کر جگنو کے ساتھ بیٹھا اور اسے کاندھے سے پکڑ کر ہلایا ۔ دروازہ کھلا اور بختیار اندر داخل ہوئی۔

’’ جگنو۔۔۔‘‘

نور دین اور جگنو نے دروازے کی جانب دیکھا۔ نور دین بختیار کو دیکھ کر مسکرا دیا۔

’’ دیکھ۔۔۔ وہ آئی ہے۔۔۔‘‘

بختیار اس کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی ’’ تجھے شرم نہیں آتی۔۔۔ چاچا گلی محلے میں تجھے مارا مارا ڈھونڈتا ہے۔۔۔‘‘

’’ نہ میرا پتر۔۔۔‘‘ نور دین نے بختیار کو ٹوکا  ’’ بڑی مشکل سے مانا ہے۔۔۔ آ بیٹھ ‘‘

نور دین نے بختیار کو بٹھایا اور پھر جگنو کو دیکھا’’ دیکھ میرا پتر۔۔۔ عورت جب اپنے گھر سے دوبارہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے نکلتی ہے تو اس پہ سکون کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔۔۔ پھر وہ در بدر ٹھوکریں کھاتی ہے۔۔۔تیری ماں کی پتہ نہیں کون سی نیکی اس کے کام آئی ہے کہ اسے بس دو جگہ سے ٹھوکریں ملیں۔۔۔اور نصرت کے ساتھ جا کر بس گئی۔۔۔مجھے سب اس لیے پتہ ہے کہ تیری ماں سے مجھے بچپن سے محبت تھی۔۔۔ طلاق کے بعد شادی ختم ہو جاتی ہے سوہنیا۔۔۔محبت ختم ہونے کے لیے نہیں ہوتی۔۔۔اس لیے اس کی خبر لیتا رہا ہوں میں۔۔۔ لیکن تجھ پر محبت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا سوہنیا۔۔۔ اس لیے تو اس سے نفرت کر ۔۔۔تیری مرضی۔۔۔ لیکن نفرت کی بجائے کچھ نہ کر۔۔۔ بس مجھے پیار سے دیکھ ۔۔۔سمجھو کہ ماں کی خدمت کر لی تو نے‘‘

جگنو نے نور دین کو گلے سے لگا لیا۔

’’ چاچا پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا جگنو۔۔۔ ماں کے دکھ میں باپ کا دکھ بھولو گے تو میری نظر سے گر جائو گے‘‘ نور دین کے جانے کے بعد بختیار نے کہا تو جگنو نے اسے دیکھا اور مسکرا دیا۔

’’ وہ میرا باپ اور ماں دونوں ہے بختیار۔۔۔ مجھے یاد کروانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ چل آ تجھے گھر چھوڑ آئوں میں۔۔۔‘‘

بختیار نے اسے روک دیا ’’ نہ۔۔۔ امی کہتی ہے مجھے کہ نور دین چاچا کے گھر نہ جایا کرو۔۔۔اب تم بچی نہیں رہیں۔۔۔ لو بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ ساری عمر یہیں تو کھیلتی رہی ہوں میں ‘‘

جگنو مسکرا دیا ’’ خالہ ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔ لوگ باتیں بناتے ہیں۔۔۔‘‘

’’ لوگوں سے ڈرتا ہے تو؟‘‘

’’ نہیں۔۔۔ اپنے آپ سے ڈرتا ہوں۔۔۔ بات سن‘‘ وہ جاتے جاتے مڑی تو جگنو نے اندر کی جانب دیکھتے ہوئے بختیار کو دیکھا۔

’’ ایک چھوٹا ساکام کر میرا۔۔۔‘‘

’’ حکم کریں آپ۔۔۔ جان ہتھیلی پہ رکھ کر پیش کروں؟‘‘

’’ جان نہیں چاہیے۔۔۔ میڈم زبیدہ کا پتہ چاہیے‘‘

بختیار نے حیرت سے کہا ’’ میڈم زبیدہ۔۔۔؟‘‘

’’ ابا کو پتہ ہے۔۔۔ میں نے پوچھا نہیں۔۔۔ میں ابا کو پہچان گیا ہوں۔۔۔ ابا بھی ماں ہے نا۔۔۔ تو ماں سے ماں کا پوچھوں تو رونے لگتا ہے۔۔۔ تم کسی طرح سے پوچھ لینا۔۔۔‘‘

’’ جگنو۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔چاچا نور دین کے پاس اور کوئی شے نہیں ہے تمہارے سوا۔۔۔ ‘‘بختیار کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔

’’ یاد رکھوں گا۔۔۔‘‘

وہ دروازے سے نکلتے نکلتے مڑی ’’ چاچا نور دین اور میرا مسئلہ ایک جیسا ہے جگنو۔۔۔ ہم دونوں کے پاس تیرے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔ ‘‘

دو دن بعد وہ جاوید کنگ پوریا کے گھر گیا‫. دروازہ کھلا تو سامنے کنول تھی۔

’’ آ جاؤ۔۔ ‘‘

’’ جاوید ہے؟۔۔۔‘‘

’’ نہیں بھائی تو نہیں ہے۔۔۔ آپ آئیے اندر‘‘

وہ اندر آ گیا ’’ کچھ دیر پہلے موبائل پر بات ہوئی تو اس وقت تو تھا گھر پہ‘‘

’’ ہاں۔۔۔کوئی فون آیا تھا۔۔۔باہر گئے ہیں۔۔۔آ جائیں گے۔۔۔ آپ بیٹھیں۔۔۔ میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں ‘‘ وہ اندر آ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔اچانک رک کر اس نے مڑ کر کنول کو دیکھا۔

’’ تم مجھے آپ کیوں کہتی ہو۔۔۔تم کیوں نہیں کہتی ہو پہلے کی طرح؟‘‘

کنول مسکرائی ’’ آپ ایم بی اے کے طالب علم ہو کر بھی کچھ نہیں سمجھتے جگنو صاحب۔۔۔ اور بی اے کی ایک سپلی لے کر میں سب کچھ سمجھ گئی ہوں۔۔۔‘‘

جگنو نے کچھ دیر خاموش رہتے ہوئے کہا ’’ تمہیں پتہ ہے۔۔۔ بختیار کون ہے؟‘‘

’’ سکون سے اوپر جائیے جگنو صاحب۔۔۔اپنے بخت اورآپ کی بختیار دونوں کو بڑی اچھی طرح سمجھتی ہوں میں۔۔۔ دل میلا مت کیجیے۔۔۔میں کنول ہوں۔۔۔ جاوید کی بہن ہوں میں۔۔۔ اس جاوید کی جو ہر وقت انصاف کی خاطر موت کو سر پہ لاد کر رکھتا ہے۔۔۔چائے لاتی ہوں میں؟‘‘

’’ مجھے تمہاری نظریں عجیب عجیب سی لگتی ہیں۔۔۔ڈرلگنے لگا ہے۔۔۔حالانکہ بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں‘‘

’’ بچپن سے کہاں دیکھا ہے آ پ نے مجھے۔۔۔ جب مجھے بختیار کا پتہ ہونے کے باوجود ڈر نہیں لگتا تو آپ کو کیوں لگتا ہے۔۔۔اوپر جائیں جگنو جی۔۔۔ بی اے میں سپلی لینے والی کنول کے پاس اتنا علم تو ہے کہ وہ ایم بی اے کو چٹکی میں چٹک کر سکتی ہے۔۔۔ لیکن جس کی حد سے زیادہ عزت کی جائے اس سے ہار جانا ہی بہتر ہوتا ہے‘‘

وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اوپر آ گیا۔ جاوید کے پاس ہر نسل کے کبوتر موجود تھے۔ وہ جنون کی حد تک ان سے محبت کرتا تھا۔

’’ چائے۔۔۔‘‘کنول چائے لے کر آئی تو وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’ ماں کا پتہ چلا۔۔۔؟‘‘ کنول نے کہا تو چائے کی پیالی اس کے ہاتھ سے گرنے لگی تھی۔

اس نے چائے کی پیالی رکھی اور کنول کو عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا۔ ’’ بات پھیل گئی ہے آخر۔۔۔ بات تو پھیل جاتی ہے‘‘

وہ بڑ بڑایا تو کنول نے چائے کی پیالی اٹھا کر اس کے آگے کی ’’ دیکھو جگنو صاحب۔۔۔ چاچا لیاقت کا گھر اور جاوید بھائی کا گھر۔۔۔ چاچا نور دین کے گھر جیسے ہی ہیں۔۔۔یہی بات میں نے جاوید بھائی سے پوچھی تو کہنے لگا ۔۔۔کنول خبردار یہ بات کسی سے نہ کرنا۔۔۔ جیسے اس کی اپنی ماں کا مسئلہ ہے۔۔۔چائے پیو‘‘

اس نے چائے کی پیالی پکڑ لی اور سر جھکا کر پینے لگا۔

’’ سر جھکا کر آپ اگر اپنی عزت کم سمجھ رہے ہو آپ تو غلط ہو۔۔۔دیکھو اب۔۔۔ میرا باپ آج دوسری بیوی بچوں کے ساتھ خوش رہ رہا ہے۔۔۔ ایک دن آیا تھا یہاں ملنے۔۔۔ شکر ہے جاوید بھائی نہیں تھے۔۔۔ کیونکہ جاوید بھائی انہیں پہلے ہی کھری کھری سنا چکے تھے۔۔۔اس دن آئے تو میں نے کہا کہ مرحوم ابا جی۔۔۔ مرحوم اس لیے کہا کیونکہ جاوید بھائی نے کہا تھا کہ ہمارا باپ سمجھو مر گیا ہے۔۔۔ مرحوم ابا جی آئے ہو ، تو گھر کے اندر آنے کی غلطی نہ کرنا۔۔۔ کیونکہ میرا تو باپ اور ماں جاوید بھائی ہے۔۔۔انہوں نے منع کیا ہے۔۔۔ اس لیے دروازے کے اندر ہاتھ ڈالو، سر پر ہاتھ رکھو اور جائو۔۔۔ قسم اٹھوا لو مجھ سے جگنو صاحب۔۔۔ باپ کے لیے ذرا برابر نفرت نہیں ہے میرے دل میں۔۔۔وہ جو دروازے سے بھیجا تھا ان کو، وہ میرے مائی باپ جاوید بھائی کا حکم تھا۔۔۔ماں کے لیے دل میں نفرت نہ رکھو ۔۔۔ ماں کا رتبہ بڑا اونچا ہے ۔۔۔ وہ اب آپ کی نفرت سے کم تو نہیں ہو گا۔۔۔دیکھو میں نے کہا تھا نا کہ ایم بی اے میں کچھ نہیں پڑھاتے۔۔۔بی اے کا ایک مضمون فیل ہونے کے باوجود مجھے پتہ ہے کہ کوئی مرحوم ماں باپ دروازے پہ آ جائے تو مسکرا کر اس سے سر پر پیار لو اور دروازہ بند کر لو۔۔۔ نفرت نہ رکھو۔۔۔ تعلق ختم کرو۔۔۔چائے پی لو آپ۔۔۔ ٹھنڈی ہو رہی ہے‘‘ وہ خاموشی سے اٹھ کر نیچے آ گئی۔ چائے اس کے ہاتھ میں ہی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اس نے ایک ہی گھونٹ میں ساری چائے اپنے حلق میں انڈیلی اور گھر جانے لگا۔

واپس جانے کے لیے دروازہ کھولا ہی تھا کہ کنول نے آواز دی۔ ’’ میری کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کر دو۔۔۔ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں‘‘

وہ باقاعدہ رونے لگی تھی۔ جگنو حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اچانک آنسو کنول کے گالوں پہ بکھرنے لگے تھے۔ وہ ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑی تھی۔

’’ معافی نہ مانگو۔۔۔ زیادہ علم والا اگر کم علم والے سے معافی مانگے تو اچھا نہیں لگتا۔۔۔‘‘

وہ باہر نکل آیا۔ اس کا رخ نہ جانے کس طرف تھا۔۔۔! رات گئے وہ گھر لوٹا تو نور دین اس کا منتظر تھا۔

’’ قسم اٹھوا لے جگنو۔۔۔ مجھے اب تیرا اعتبار نہیں رہا۔۔۔‘‘

جگنو نے نور دین کو مسکرا کر دیکھا اور پھر کچن کی جانب بڑھ گیا۔ آگے بختیار کھڑی تھی۔پیچھے پیچھے نور دین بھی چلا آیا۔

’’ اعتبار کی کیا بات کرتا ہے تو۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے میرا جگنو ہی نہیں رہا۔۔۔ پتہ نہیں میرے نصیب میں خدا نے کیا کیا لکھا ہے۔۔۔ جو چلی گئی بھاگ کر اس کے لیے وہ جگنو مار ا مارا پھر رہا ہے ۔۔۔جسے میں نے پالا ہے۔۔۔ ماں بن کر۔۔۔ باپ بن کر۔۔۔‘‘

نور دین غم و غصے میں بڑ بڑاتا ہوا کمرے میں چلا گیا۔

’’ خدا کا واسطہ ہے جگنو۔۔۔چاچا نور دین کے پاس تیرے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ ‘‘

’’ میں تو پہلے کی طرح ہوں۔۔۔ابا ہی میرا ابا ہے ابا ہی میری اماں ہے۔۔۔ میں تو اس بات کو مانتا ہوں۔۔۔میرا کام کیا ہے تو نے‘‘

بختیار نے غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھا ’’ پتہ ہے میرا مسئلہ کیا ہے؟۔۔۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ اس لیے تجھے ناں نہیں کر سکتی۔۔۔اور اگر تم نے اپنی ماں سے کوئی بدتمیزی کی تو میری شکل بھی مت دیکھنا۔۔۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھوں گی‘‘

بختیار نے اسے میڈم زبیدہ کا پتہ بتایا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئی۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔نور دین نے کھانا گرم کیا اور اس کے پاس لے آیا۔

’’ دیکھ میرا پتر۔۔۔ بختیار مجھ سے پتہ لے گئی ہے اس کا۔۔۔ اس نے سمجھا کہ باتوں باتوں میں اس نے پوچھ لیا مجھ سے۔۔۔ لیکن میں جانتا ہوں تو نے ہی اسے کہا ہو گا‘‘

وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔

’’ ماں ہر جگہ ماں ہوتی ہے جگنو۔۔۔ اس کے پیروں میں جنت یوں ہی نہیں رکھ دی خدا نے۔۔۔ کوئی تو بات ہے نا اس رشتے میں۔۔۔ میں جانتا ہوں تو اب اس پتے پر جانے سے نہیں رکے گا۔۔۔ وہاں جب جائے تو کوئی بدتمیزی نہ کرنا۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے تجھے جانا ہی نہیں چاہیے۔۔۔ لیکن تو کہاں بات مانتا ہے۔۔۔اللہ خیر رکھے تیری۔۔۔ ‘‘

نور دین کہتا ہوا اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ اس کی چال سے واضح تھا کہ وہ ہار چکا تھا۔ صبح وہ بختیار کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ گیٹ پہ کھڑے سکیورٹی گارڈ نے اسے روک لیا تھا۔

’’ میڈم سے کہیں کہ نور دین کا بیٹا علی امیر آیا ہے۔۔۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ ہال میں ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خوش شکل ادھیڑ عمر عورت کو سیڑھیوں سے نیچے اترتے دیکھا۔وہ فوراََ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔اور غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے موبائل نکالا اور سکرین پہ اپنی شکل دیکھنے لگا۔

’’ کوئی شے نہیں ملتی آپ سے۔۔۔شکر ہے خدا کا میری شکل ماں پہ نہیں گئی‘‘

میڈم زبیدہ غور سے اسے دیکھتی رہی اور پھر اچانک کہنے لگی۔

’’ نور دین کے بیٹے ہو تم۔۔۔؟‘‘

میڈم زبیدہ نے کہا تو وہ مسکرا دیا

’’ جی۔۔۔صرف نور دین کا ہی بیٹا ہوں۔۔۔‘‘ ’’ کیوں آئے ہو۔۔۔ نور دین نے بھیجا ہے تمہیں؟‘‘

’’ میں آپ سے کچھ معلومات لینے آیا ہوں۔۔۔ یہاں کوئی بھی آ سکتا ہے۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میں آپ کے کمرے میں بات کر لوں آپ سے۔۔۔ اگر آپ کو برا نہ لگے؟‘‘

’’ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔ گھر میں کوئی نہیں ہے سوائے سکیورٹی گارڈز کے۔۔۔‘‘

’’ پھر بھی۔۔۔ یہاں بات کرنا مناسب نہیں ہے میڈم جی۔۔۔‘‘

’’ چلو۔۔۔‘‘

وہ پشت پہ ہاتھ باندھے اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آ گیا۔ میڈم زبیدہ نے اسے کرسی پہ بیٹھنے کا کہا۔

’’ مجھ سے ڈر نہیں لگا آپ کو۔۔۔ اجنبی ہونے کے باوجود آپ مجھے اپنے کمرے میں لے آئیں‘‘

’’ بات کرو تم۔۔۔‘‘

’’ میں آپ کو قتل کرنے آیا ہوں۔۔۔‘‘

جگنو نے کہا تو میڈم زبیدہ فوراََ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جگنو نے مسکرا کر انہیں روکا۔

’’ بیٹھ جائیں۔۔۔ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے میرا۔۔۔ میں بس آپ کو دیکھ کر گلہ کرنے آنا چاہتا تھا۔۔۔ بے فکر ہو کر بیٹھیں۔۔۔ کسی کو آواز لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جب مجھے پتہ چلا تو میرا گلہ شکوہ کرنے کاہی ارادہ تھا۔۔۔ پھر ابا بہت پریشان ہو گیا۔۔۔ اس نے مجھے بتایا کہ تیری ماں تنویر سرائیں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔۔۔ وہاں اس پر ظلم ہوا اور اس نے باہر نکال دیا۔۔۔ اب گلہ شکوہ کرنے نہیں آیا کیونکہ مرحوم ماں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا جاتا۔۔۔ وہ کہتی ہے میڈم جی کہ۔۔۔ ‘‘

میڈم زبیدہ نے کچھ کہنا چاہا تو جگنو نے ٹوک دیا ’’ میں بول رہا ہوں نا۔۔۔ میڈم جی۔۔۔ مجھے چھوڑ کر آپ بھاگیں تھیں۔۔۔تو میرا بولنا بنتا ہے‘‘

’’ علی امیر۔۔۔ میں تمہارے باپ کے ساتھ خوش نہیں تھی۔۔۔ تو مجھے جانا پڑا۔۔۔‘‘

جگنو مسکرا دیا ’’ ابا کہتا ہے کبھی کبھی۔۔۔ کہ اپنی خوشیوں میں ہم کتنے لوگوں کے دل توڑ دیتے ہیں۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ وہ کہتی ہے کہ مرحوم ماں باپ جب دروازے پہ آ جائے تو اس سے نفرت نہیں کرتے ۔۔۔ تعلق ختم کرتے ہیں۔۔۔ میرا کوئی تعلق نہیں ہے آپ سے۔۔۔ شکر ہے شکل بھی نہیں ملتی‫‫...آپ تو مرحومہ ہیں نا‫...آپ کی آنکھیں بھیگ رہی ہیں مجھے دیکھ کر ۔۔۔ لیکن یہ فطری ہے۔۔۔مجھے بس اتنا بتائیے کہ تنویر سرائیں نے کیا کیا آپ کے ساتھ؟‘‘

میڈم زبیدہ نے سر جھکا لیا تھا ، پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا ’’ اس بات کو سال گزر گئے ۔۔۔ کیوں پوچھ رہے تم اب‘‘

’’ مجھے تو لگتا ہے کہ وقت نہیں گزرا۔۔۔سچ جانے بغیر جائوں گا نہیں ‘‘

’’ وہ انتہائی عیاش آدمی تھا۔۔۔ مجھے طلاق کے بعد اس کا پتہ چلا۔۔۔ اور پھر جب اس کا مقصد پورا ہو گیا تو اس نے مجھے نکال دیا۔۔۔ ‘‘

وہ اٹھا تو میڈم زبیدہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’ آپ کا بہت شکریہ کہ مجھے وقت دیا آپ نے میڈم زبیدہ۔۔۔پریشان نہ ہوں۔۔۔ آئیندہ آپ سے کوئی ملاقات نہیں ہو گی۔۔۔‘‘

’’علی امیر سنو۔۔۔‘‘

وہ پلٹ کر میڈم زبیدہ کو دیکھنے لگا ’’ میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ ماں کےرتبے کو آپ نے ٹھکرایا تھا۔۔۔ میں بھی ٹھکرا دیتا اگر مجھے ابا اور وہ نہ سمجھاتے تو۔۔۔ میں ماں کے رتبے کو رسوا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ ابا کی قسم‘‘

وہ وہاں سے نکل کر گاؤں آ گیا. اس کی منزل ریاض جھانجر کے ہاتھوں میں تھی. اسی لیے وہ ریاض جھانجر کے پاس آ گیا.

’’ ہاں بھئی۔۔۔؟‘‘

ریاض جھانجر نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اسے دیکھا ’’ کون ہے۔۔۔اور کہاں سے آیا ہے۔۔۔ اور کیسے آ یا ہے‘‘

’’ ریاض جھانجر سے ملنے آیا ہوں۔۔۔‘‘

’’ تجھے نہیں لگتا ۔۔۔ کہ میں ریاض جھانجر ہوں؟‘‘

جگنو نے حیرت سے اس ستائیس اٹھائیس سال کے لڑکے کو دیکھا اور پھر اس کے گرد کھڑے پانچ ساتھیوں کو۔۔۔ ! اسے اِدھر اُدھر دیکھتے دیکھ کر وہ سارے ہنس دیے۔

’’ میں علی امیر ہوں۔۔۔ آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے‘‘ جگنو نے کہا تو ریاض جھانجر نے ساتھیوں کو دیکھا ، وہ برآمدے کے باہر جا کر چارپائیوں پہ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔

’’ میں نے تنویر سرائیں کا قتل کرنا ہے‘‘ ریاض جھانجر کو ایک جھٹکا لگا۔ اس نے ذرا سا آگے ہو کر اسے دیکھا۔

’’ اوئے۔۔۔ کوئی پاگل ہے یا نشئی؟۔۔۔ کدھر سے آیا ہے اور کیوں قتل کرنے آیا ہے؟‘‘

’’ اس نے ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔ جو رشتے میں میری ماں لگتی ہے جناب۔۔۔ میں سیدھا اس تک نہیں پہنچ سکتا۔۔۔ بازار میں ہوٹل میں سنا میں نے کہ۔۔۔ سرائیوں کا اس وقت سب سے بڑا دشمن ریاض جھا نجر ہے‘‘

’’ سنا تو ٹھیک ہے تو نے۔۔۔۔ اوئے فیاضے‘‘ ریاض نے فیاض کو آواز لگائی اور چائے بنانے کا کہا۔

’’ چل آ اندر۔۔۔ ‘‘ وہ جگنو کو ساتھ لے کر اندر کمرے میں چل دیا۔

’’ اس کے علاوہ اور کوئی جرم اس کا۔۔۔‘‘

’’ پتہ نہیں ہے اس کا۔۔۔ ‘‘

ریاض جھانجر ہنس دیا ’’ قتل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔سوچو تو آسان لگتا ہے۔۔۔ بندہ کتنی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔۔۔ اسے مارنا اتنا ہی مشکل۔۔۔ جب تیرے پاس اس کا اور کوئی جرم نہیں ہے تو۔۔۔ تجھے اپنے لیے اس کا قتل اچھا نہیں لگتا۔۔۔ پولیس کو جا کر بتا۔۔۔ ‘‘

’’ پولیس بھلا کہاں سنے گی میری۔۔۔ ویسے میں گیا نہیں ہوں۔۔۔ بس اندازہ ہے کہ اس کا اچھا خاصا اثر رسوخ ہے ‘‘

’’ لے بھئی۔۔۔ اب تیرا اندازہ ٹھیک ہے۔۔۔ پولیس میں اچھا خاصا مشہور ہے وہ۔۔۔ اثر رسوخ اوپر والا دیتا ہے ۔۔۔ اور وہ لوگوں پہ لاگو نہیں ہوتا۔۔۔ چائے پیتے ہیں پھر سوچتے ہیں۔۔۔ ‘‘ ریاض جھانجر سامنے بیٹھے جگنو کو بڑے غور سے دیکھے جا رہا تھا۔

پھر اچانک اس نے سوال کر دیا۔ ’’ جلدی میں لگتا ہے تو۔۔۔ قتل کرنے کی جلدی ہے یا۔۔۔ جیل جانے کی ‘‘

’’ جج۔۔۔۔ جی‘‘ جگنو جیسے کسی اور خیال میں ڈوبا ہوا تھا ۔

’’ پستول چلانی آتی ہے۔۔۔؟‘‘

’’ دیکھی ہوئی ہے بس۔۔۔ کبھی چلائی نہیں‘‘

’’ تو کیا سوچا ہے۔۔۔ کیسے قتل کرو گے اسے؟‘‘ جگنو نے کہا

’’ بس آپ مجھے اس تک پہنچا دو۔۔۔ آگے میں کر لوں گا‘‘

’’ لگتا ہے سکول کالج میں پڑھتا رہا ہے تو۔۔۔ نرا ان پڑھ ہے بھائی تو۔۔۔ ‘‘

’’ وہ بھی یہی کہتی ہے۔۔۔‘‘ وہ بڑ بڑایا ۔

’’ کون کہتی ہے۔۔۔‘‘ ’’ کوئی نہیں۔۔۔ وہ ایک پڑوسن ہے میری۔۔۔ بی اے میں اس کا ایک مضمون فیل ہوا ہے تو میری ایم بی اے کی پڑھائی کو فضول کہتی ہے۔۔۔‘‘

ریاض جھانجر ہنس دیا ’’ خدا کی قسم۔۔۔ سچ کہتی ہے۔۔۔ اب تجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ سرائیں کوئی تیرے انتظار میں تو نہیں بیٹھا ہو گا نا۔۔۔کہ تو آئے گا ، اس کا گلا دبا ئے گا اور وہ تجھے کہے گا۔۔۔ آئیے علی امیر صاحب۔۔۔ گلا حاضر ہے‘‘

جگنو نے اسے دیکھااور غصے میں کھڑا ہو گیا۔ جگنو نے چیخ کر کہا’’ تجھے ہنسنے کی پڑی ہے۔۔۔ تمہاری ماں کے ساتھ اس نے کچھ کیا ہوتا تو تجھے لگ پتہ جاتا‘‘

ریاض جھانجر نے پستول نکال کر اس پر تان لی ’’ چپ اوئے۔۔۔ ایک دم چپ کالجیٹ صاحب‫‫‫‫...چپ‘‘

اس کے دو ساتھی فوراََ اندر داخل ہوئے۔ اس نے پستول نیچے کی اور جگنو کے گال دباتے ہوئے بٹھا دیا۔ اس کے ساتھی دوبارہ باہر نکل گئے۔

’’ ماں کا ذکر نہ کر۔۔۔ تو نے جب سے بتایا ہے کہ اس نے تیری ماں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔ تو میں جانتا ہوں یا میرا رب۔۔۔ میرے اندر کیا ہو رہا ہے۔۔۔ لیکن میں تیری طرح کالج کا پڑھا لکھا نہیں ہوں کالجیٹ صاحب۔۔۔گاؤں کے سکول میں بس اے بی سی اور الف ب پ پڑھی ہے۔۔۔ گنتی مجھے سو تک آتی ہے۔۔۔ تیرے سے زیادہ علم ہے میرے پاس۔۔۔سرائیں کوئی مکھن کی ٹکی نہیں ہے جس پر تو شکر چھڑک کر حلق سے اتار لے گا۔۔۔ دو بیویوں سے اس کے چھ پتر ہیں۔۔۔ جوان ۔۔۔ ساروں کی ٹب میں پستول لگے ہوتے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ حویلی کے دوجے لوگ الگ۔۔۔ ادھر جانا ہے تو سینے پہ گولی کھانے کا انتظار لے کر جانا ہے‘‘

جگنو خاموشی سے اسے سنتا رہا۔

’’ چائے پی۔۔۔ اور یہ بتا ماں زندہ ہے تیری۔۔۔ کون ہے تیرے گھر میں ‘‘

’’ ماں اب نہیں ہے۔۔۔ وہ کہیں اور رہتی ہے۔۔۔ اور گھر میں ابا ہے بس‘‘

’’ کوئی معشوق۔۔۔؟‘‘

جگنو نے غور سے ریاض جھانجر کو دیکھا اور خاموشی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ریاض جھانجر مسکرا دیا

’’ معشوق مطلب۔۔۔ کوئی منگیتر۔۔۔ کوئی پیار کرنے والی؟‘‘

جگنو خاموش بیٹھا رہا۔

’’ تیرے پلے انتقام کے علاوہ ککھ نہیں ہے ۔۔۔ پیار پریت انتقام سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔۔۔ یہاں رہو۔۔۔ میں کہیں باہر جاؤں گا۔۔۔ فیاض، اور شاہو ادھر ہی ہیں۔۔۔ کوئی گن سن لیتے ہیں سرائیں کی۔۔۔ تجھے موقع ضرور دوں گا۔۔۔ ایک دو دن یہاں لگ سکتے ہیں موقع کی تلاش میں۔۔۔ میں اسے کب کا مار چکا ہوتا۔۔۔ لیکن اس سے بڑے حساب چکتے کرنے ہیں میں نے۔۔۔ لیکن اب لگتا ہے کمبخت کے آخری دن آ گئے ہیں۔۔۔ ایک دو دن کا وقت ملا ہے تو بیٹھ کر سوچ ۔۔۔ کہ پیار پریت انتقام سے بڑھ کر ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘

ریاض جھانجر کسی کام سے باہر نکل گیا۔ وہ دو دن بعد لوٹا تھا۔ اس دوران فیاض نے اسے پستول چلانی سکھا دی تھی۔ ریاض جھانجر کا ایک بازو زخمی تھا۔ رات کا دوسرا پہر تھا جب جگنو کمرے سے نکل کر چھت پہ چلا گیا۔۔۔ ریاض جھانجراور فیاض ہمیشہ چھت پر ہی سوتے تھے۔فیاض گہری نیند سویا ہوا تھا جبکہ ریاض جھانجر چھت کے ایک کونے پہ بیٹھا چاند کی چاندنی میں چمکتے ہوئے کھیتوں میں نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔

’’ ہمارے کام میں گولیاں چلتی رہتی ہیں یار۔۔۔سنا ہے پستول چلانی سیکھ گیا ہے تو؟‘‘

جگنو نے شلوار سے پستول نکال کر اس کے سامنے لہرائی

’’چلا کر دکھائوں"

"اوئے نہیں۔۔۔ لا مجھے دے پستول۔۔۔ تیرے پاس نہیں رہنی چاہیے۔۔۔‘‘

’’ کیوں۔۔۔ میرے پاس کیوں نہیں رہنی چاہیے۔۔۔؟‘‘

’’ ذرا آہستہ بات کر۔۔۔‘‘ ریاض جھانجر نے سوئے ہوئے فیاض کو دیکھتے ہوئے کہا

’’ فیاض جب سوتا ہے تو ہی سکون میں ہوتا ہے۔۔۔ جاگتے ہوئے اگر وہ مسکراتا نظر آئے تو یہ نہ سمجھو وہ خوش ہے۔۔۔ بڑے بڑے دکھ جھیلے ہیں اس نے‘‘

’’ تنویر سرائیں کی طرف کب جانا ہے۔۔۔؟‘‘

ریاض جھانجر نے غور سے اسے دیکھا ’’ فیصلہ کر لیا ہے تو نے۔۔۔؟‘‘

’’ ہاں۔۔۔‘‘

ریاض جھانجر نے سر پکڑ لیا۔سر اِدھر اُدھر ہلا کر اس نے اچانک جگنو کو دیکھا ۔

’’ چل میرے یار پھر۔۔۔ تیری آگ بھی ٹھنڈی کرتے ہیں‘‘

جگنو حیرت سے اسے اٹھتا ہوا دیکھنے لگا اور وہ اس کی پیروی کرتے ہوئے چھت سے نیچے اتر آیا۔ دیوار پہ شاہو بیٹھا ہلکی آواز میں گنگنا رہا تھا۔ انہیں آتا دیکھ کر وہ نیچے اتر آیا۔ ریاض جھانجر نے ہاتھ اٹھا کر اسے منع کر دیا۔

’’ ہم آتے ہیں ابھی۔۔۔فیاض کو سویا رہنے دے۔۔۔اور زیبی کو اٹھا کر اپنے ساتھ بٹھا لو۔۔۔ چوکنا رہنا۔۔۔‘‘

دونوں باہر نکلے اور کچھ دیر کھیتوں میں چلتے رہنے کے بعد ایک مٹی کی بنی ہوئی چھوٹی سی کٹیا سے ریاض جھانجر نے موٹر سائیکل باہر نکال لی۔ سارا گاؤں سائیں سائیں کر رہا تھا۔ ان کا رخ سرائیں ڈیری فارم ہاؤس کی طرف تھا۔ فارم ہاؤس سڑک سے ذرا سے فاصلے پر تھا۔ انہوں نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور ریاض جھانجر موبائل نکال کر کسی کو فون کرنے لگا۔ وہ راستے سے ہٹ کر فارم ہاؤس کی جانب بڑھنے لگے۔

’’ اب بھی وقت ہے۔۔۔ سوچ لو۔۔۔اس کا جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ قتل کیا جا سکے‘‘

’’ میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔‘‘

جگنو نے کہا تو ریاض جھانجر نے مسکراتے ہوئے اس کے شانے پہ ہاتھ مارا۔

’’ تو پھر میگزین کی ساری گولیاں اتار دینا اس میں۔۔۔ اور اس لیے نہ مارنا کہ اس نے تیری ماں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔ بلکہ اس لیے مارنا کہ وہ کلثوم اور ناجیہ کا قاتل ہے۔۔۔ اس لیے مارنا کہ اس کے مہمان خانے میں ہر دوسرے دن شہر سے لڑکیاں لائی جاتی ہیں۔۔۔ اور یہیں اس فارم ہاؤس پر انہیں ساری ساری رات نچایا اور بستر میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔ اس لیے مارنا کہ بڑھاپے میں اسے طاقت والی گولیاں کھانے کی زور کی عادت ہے‘‘

’’ کلثوم اور ناجیہ کون ہیں۔۔۔؟‘‘

’’ اس بات کو چھوڑو۔۔۔ بس ان دو نام کی دو گولیاں بھی سینے میں اتار دینا‘‘

ریاض جھانجر نے کہا اور اس کا چہرہ سخت ہوتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ فارم ہاوس کی پچھلی جانب سے گھومتے ہوئے رستے کی مخالف سمت میں آ پہنچے تھے۔ فارم ہاؤس دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک طرف گائے اور بھینسوں کا باڑہ تھا، جبکہ دوسری جانب مہمان خانہ تھا۔ وہ اس وقت باڑے کے اس دروازے کے ساتھ کھڑے تھے جو کھیتوں میں کھلتا تھا۔ دروازہ ہلکا سا کھلا تھا۔ یہ ریاض جھانجر نے کچھ دیر پہلے جو فون کیا تھا، اسی کا کمال تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ ہوتے ہوئے دوسرے حصے کے عین سامنے پہنچ گئے۔ جہاں ایک شخص اپنے سامنے تین کتوں کو کچھ کھلانے میں مصروف تھا۔ اس شخص نے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس حصے کی جانب دیکھا جہاں اس وقت ریاض جھانجر اور جگنو کھڑے تھے۔ اس شخص کے اشارے پر وہ آگے بڑھ گئے۔ مہمان خانے کا ایک دروازہ پچھلی جانب بھی تھا۔ وہ بھی کھلا تھا۔ گویا اس شخص نے اندر جانے کے سارے انتظامات کیے ہوئے تھے۔ وہ ایک چھوٹے سے کچن میں داخل ہوئے تھے۔مہمان خانہ گویا اندر مکمل روشن تھا۔ ابھی وہ وہیں تھے کہ کوئی شخص اونگھتا ہوا کچن میں داخل ہوا تھا۔ جگنو نے ہڑ بڑا کر اس پر فائر کر دیا۔ ریاض جھانجر فورا کچن سے ہال میں داخل ہوا تھا۔

’’ اس کمرے میں جاؤ۔۔۔‘‘

ریاض جھانجر نے جگنو کو چیخ کر کہا۔ مہمان خانے کی دوسری جانب سے دروازہ کھلا تھا اور چار مسلحہ شخص اندر داخل ہوئے تھے۔ ریاض جھانجر نے فائر کر کے انہیں وہیں روکا۔ جبکہ جگنو ریاض جھانجر کے بتائے ہوئے کمرے میں داخل ہو گیا۔ جہاں پچپن چھپن سال کا تنویر سرائیں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ انتہائی بے ہودہ حالت میں تھا۔ جگنو نے یکے بعد دیگرے نو گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں اور باہر جھانکا۔ ریاض جھانجر ایک کونے میں لگا دوسری طرف فائر کر رہا تھا۔ جگنو نے ذرا سا اور جھانکا اور اسے سیڑھیوں کے ساتھ ایک سر نظر آیا۔ وہ ذرا سا اور باہر نکلا اور اس سر کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ اس کا نشانہ خطا ہونا ہی تھا۔۔۔ لیکن سیڑھیوں کی دوسری جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ اسے چاٹ گئی تھی۔

وہاں ریاض جھا نجر کے ڈیرے پر شا ہو نے فیاض کو جگا دیا تھا۔ وہ تینوں ریاض جھانجر کے منع کرنے کے باوجود ان کے پیچھے آ گئے تھے۔ پہلے فائر کے بعد وہ سیدھے راستے سے مہمان خانے میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت باہربیٹھے چاروں مسلحہ شخص اندر گھس گئے تھے۔ فارم ہائوس میں اس وقت تنویر سرائیں سمیت اس کے تین بیٹے تھے۔ تینوں کے علاوہ چار محافظ بھی قتل ہو چکے تھے۔ جبکہ فارم ہاؤس پہ کام کرنے والوں میں سے ایک واپسی کے سفر میں ان کے ساتھ ہو لیا تھا۔ ریاض جھانجر جگنو کی لاش کو ساتھ لے آیا تھا۔ اس نے فوراََ اپنا ٹھکانہ بدل لیا تھا۔ٹھکانہ بدلتے ہی اس نے جگنو کو وہیں دفنا دیا تھا۔

وقت دو ماہ کتر کتر کر کھا گیا...!

تقریباََ دو ماہ بعد گیٹ پہ کھڑے محافظ نے میڈم زبیدہ کو آ کر بتایا تھا کہ کوئی نور دین اس سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ تیز تیز قدموں سے کمرے سے نکلی اور سیڑھیاں اترنے لگی۔اچانک جیسے رک کر اسے اپنا مقام یاد آ گیا۔ اس نے محافظ سے کہا کہ اسے اندر لے آئے ۔ کچھ دیر بعد نور دین اندر داخل ہو رہا تھا۔ وہ صوفے پر ہی بیٹھی رہی۔ نور دین زمین پہ بیٹھا تو اسے لگا جیسے اسے کسی نے آسمان سے زمین پر پٹخ دیا تھا۔

’’ جگنو کا پتہ کرنے آیا ہوں۔۔۔ ہے یہاں‘‘

زبیدہ نے حیرت سے اسے دیکھا ’’ یہاں نہیں ہے۔۔۔ اور تم کیوں آئے ہو‘‘

’’ہو گا یہاں۔۔۔ دیکھو اندر۔۔۔ ضد کی تھی۔۔۔ اس نے ضد کی تھی کہ ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ پتہ نہیں کہاں گیا ہے‘‘

’’ اوپر بیٹھ جاؤ۔۔۔‘‘ زبیدہ نے کہا تو وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ کاندھے پہ رکھی چادر سے ماتھا صاف کرنے لگا۔

’’ پتہ نہیں۔۔۔ کہتا تھا آؤں گا۔۔۔ آیا نہیں۔۔۔جگنو آئے گا‫‫‫...اپنی اماں سے ملنے گیا تھا...واپس نہیں آیا‫‫‫... ‘‘

وہ بڑ بڑاتے ہوبڑاتے ہوئے باہر آنے لگا تو زبیدہ نے اسے آواز دی۔

’’ دوبارہ مت آنا یہاں۔۔ ۔ ‘‘

نور دین اچانک رکا۔۔۔ مڑا اور پھر ہنس دیا۔

’’ تمہارے پاس بھی کوئی آیا تھا؟۔۔۔گائوں سے۔۔۔ میرے پاس تو آیا تھا کوئی۔۔۔ کہتا تھا جگنو کو اس نے دفنا دیا ہے۔۔۔وہ جانے سے پہلے کہتا تھا ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ جگنو آیا تھا ۔۔۔ نہیں آیا تھا۔۔۔ چلا گیا۔۔۔ماں کو دیکھنے گیا تھا جگنو۔۔۔میں اس کی ماں ہوں...اسے کہا تھا...اس کمبخت کو کہا تھا میں ماں ہوں...لیکن...‘‘ وہ ہنستے ہوئے، بڑ بڑاتے ہوئے باہر نکل گیا اور زبیدہ جیسے بت سی بن کر رہ گئی تھی۔

--------------------------------------------------------------------------

مولوی نزاکت حسین نے گلی کے شروع سے کنول کو آتے دیکھا تو مسکرا دیا۔

’’ دیکھ بھئی نور دینا۔۔۔آ گئی ہے تیرے جگنو کی دیوانی۔۔۔ بڑے پتے کا ہجر لگا ہے اسے بھی۔۔۔ رب اس کے نصیب روشن کرے۔۔۔ اوئے بد نصیبا۔۔۔ تیرے جگنو کی ماری وہ صبح ڈیوٹی پہ جاتی ہے۔۔۔ واپس آتی ہے تو اسے گھر میں ملا کر۔۔۔ دیکھ کیسے تجھے ڈھونڈتے ہوئے آ رہی ہے۔۔۔ بالکل ایسے جیسے تو جگنو کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔۔۔‘‘

’’ چاچا۔۔۔ میں کب سے تجھے ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔ چل آ گھر۔۔۔ ‘‘

کنول نے نور دین کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا اور پھر نزاکت حسین کو دیکھ کر سلام کرنے لگی۔

’’ وعلیکم السلام۔۔۔ جیتی رہ میری بچی ۔۔۔لے جا اپنے نور دین کو۔۔۔ نہلا دھلا اس کو۔۔۔‘‘

’’ مولوی صاحب۔۔۔ صبح تو نہلا دھلا کر جاتی ہوں۔۔۔ شام تک یہ حال کر لیتے ہیں۔۔۔ چل چاچا۔۔۔ ‘‘

’’ جگنو۔۔۔ جگنو کوئی جگنو ‘‘

نور دین بڑ بڑاتے ہوئے کنول کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ چل دیا۔ میجر قمیض کے بازو درست کرتا ہوا مسجد میں داخل ہونے لگا تو مولوی نزاکت حسین کو دیکھ کر اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔

’’ بڑی ہوشیار بچی ہے لیکن بیچاری کو بڑا روگ لگا ہے مولوی صاحب۔۔۔کتنا خوش قسمت ہے نور دین ‘‘

میجر نے کہا تو مولوی نزاکت حسین مسکرا دیا۔

’’روگ تو اسے لگا ہے میجر ۔۔۔جو کسی جگنو کی راہ دیکھتے دیکھتے کسی کی ڈولی میں جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ میں نے ہی نکاح پڑھوایا تھا اس کا۔۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔اور اس کو بیچاری اور نور دین کو خوش قسمت مت کہہ۔۔۔جس کی جھولی ہجر سے بھری ہو ، اسے بے چاری نہیں کہتے میجر صاحب ‘‘۔

دیدبان شمارہ۔ ۶

نور دین کا جگنو

توصیف احمد ملک

’’ جگنو۔۔۔ اوئے جگنو‘‘

سکول سے چھٹی کا وقت تھا تو وہ ہر بچے کو غور سے دیکھتا اورپھر اس کی طرف لپکتا۔بچے اس سے مذاق کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ وہ ان دو گلیوں کے علاوہ کہیں اور نہیں جاتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی دنیا بس یہی دو گلیاں تھیں۔ مولوی نزاکت حسین نے اسے دیکھا تو اس نے بچوں کو ڈانٹا اور پھر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

’’ چل میرے ساتھ نور دین۔۔۔گھر سے نکلتا ہی کیوں ہے‘‘ اس نے بوڑھی آنکھیں کھول کر نزاکت حسین کو دیکھا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیا۔ مولوی نزاکت حسین اسے مسجد کے اندر لے گیا۔

’’ میں ظہر کی نماز پڑھ لوں نور دین۔۔۔ بیٹھ یہاں آرام سے۔۔۔ اللہ اللہ کر۔۔۔ اب میں کہاں سے لائوں تیرا جگنو۔۔۔‘‘ نزاکت حسین نے اپنی پلکوں سے نمی سمیٹی اور وضو کرنے لگا۔ نماز پڑھا کر اس نے نور دین کو اٹھایا اور مسجد کے باہر سیڑھیوں پہ بٹھا دیا۔۔۔اور خود بھی ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔

’’ دیکھ او نور دینا۔۔۔تیرے جگنو نے کیا کمال کیا۔۔۔ خود بجھ گیا اور کتنے لوگوں کے گھر بجھا گیا۔۔۔ ‘‘

--------------------------------------------------------------------------

نور دین پریشانی کے عالم میں اسلم پرچون والے کی دکان پہ پہنچا۔

’’ اوئے نور دین۔۔۔ خیر تو ہے۔۔۔ پسینے سے نہا گیا ہے ‘‘

نور دین نے آنکھوں کے کناروں پہ جمع ہوتی نمی کو برداشت کرتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر اسلم کو دیکھنے لگا۔

’’ جگنو گم گیا ہے اسلم۔۔۔ تجھے نظر آیا ہے کیا۔۔۔ ‘‘

’’ جگنو گم گیا ہے۔۔۔ اوئے صبح آیا تھا، جب تیرے گھر مہمان آئے تھے ‘‘

’’ ابھی دو گھنٹے پہلے کی بات ہے ۔۔۔گم گیا ہے‘‘ نور دین بڑ بڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

اقبال گلی کے نکڑ پہ میجر کا ہوٹل تھا۔ یار محمد سپاہی ریٹائرڈ ہوا تھا، لیکن سب اسے میجر ہی کہتے تھے۔ ہوٹل میں اس وقت مولوی نزاکت کے علاوہ بھی دو چار لوگ بیٹھے تھے۔ نور دین تھکے قدموں سے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ میجر اور مولوی نزاکت حسین نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر مولوی نزاکت حسین چائے کی پیالی اٹھا کر نور دین کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ ’’پریشان ہے نور دین۔۔۔؟‘‘ نزاکت حسین نے کہا تو نور دین نے کاندھے پہ پڑے رومال سے آنکھیں صاف کیں اور نزاکت حسین کو دیکھنے لگا۔

’’ جگنو گم گیا ہے۔۔۔ مولوی صاحب‘‘ نزاکت حسین نے حیرت سے نور دین کو دیکھا اور پھر میجر کو۔۔۔!

’’ میجر۔۔۔اوئے گل سن میری۔۔۔‘‘ میجر کے آنے پر نزاکت حسین نے اسے بتایا

’’ اوئے یہ کہتا ہے اس کا جگنو گم گیا ہے۔۔۔‘‘

’’ ہوا کیا ہے۔۔۔‘‘ نزاکت حسین نے پوچھا تو نور دین نے میجر کو دیکھا۔۔۔ جیسے وہ اس کے سامنے کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا۔ میجر دوبارہ جا کر تھڑے پہ بیٹھ گیا۔

’’ کچھ نہیں مولوی صاحب۔۔۔ بس ایسے ہی ناراض تھا تو گھر سے نکل گیا ہے‘‘

’’ بڑا بیبا بچہ ہے وہ تو۔۔۔ ایسے کیسے نکل گیا ہے۔۔۔ نور دین۔۔۔ سیدھی طرح نہیں بتائے گا تو کیسے پتہ چلے گا ‘‘

’’ مولوی صاحب مجھے جگنو نہیں مل رہا۔۔۔‘‘ نور دین پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔!

روتے روتے اٹھا اور ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ اس کا رخ بختیار کے گھر کی جانب تھا۔ بختیار لیاقت کی بیٹی تھی۔ لیاقت اور نور دین ایک مدت سے گہرے دوست تھے۔ بختیار لیاقت کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ وہ جگنو کے لیے بختیار کو ہی بیاہ کر لانا چاہتا تھا۔ بختیار نور دین کو دروازے پہ کھڑا دیکھ کر حیران رہ گئی۔

’’ چاچا۔۔۔آپ۔۔۔ آئیں اندر آئیں‘‘

’’ پتر۔۔۔ابا ہیں تیرے گھر پر۔۔۔؟‘‘

’’ نہیں چاچا۔۔۔ لیکن آپ رو کیوں رہے ہو۔۔۔‘‘

’’ جگنو گم گیا ہے میرا۔۔۔ تجھے کچھ پتہ ہے اس کا۔۔۔ موبائل بند ہے اس کا پتر‘‘

’’ نہیں چاچا۔۔۔ لیکن کہاں گیا ہے وہ۔۔۔ آپ اندر آئیں نا۔۔۔‘‘

’’ میری بہن امریکہ سے پاکستان آئی تو مجھ سے ملنے بھی آئی۔۔۔ اس نے مجھ سے پوچھ لیا کہ جگنو کو پتہ ہے اس کی ماں بھاگ گئی تھی ۔۔۔ بس یہی بات اس شودے نے سن لی ۔۔۔اوروہ مجھے غصے سے دیکھ کر نکل گیا ہے گھر سے۔۔۔ پتر تو اسے فون ملاتی رہ۔۔۔ تیری بات نہیں ٹالتا وہ۔۔۔جیتی رہ‘‘

نور دین اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر واپس آنے لگا تو بختیار نے اسے آواز دی۔

’’ چاچا۔۔۔ جاوید کے پاس دیکھیں اسے۔۔۔ وہ اکثر اس کے گھر جاتا رہتا ہے۔۔۔‘‘

’’ وہ جیدا کنگ پوریا۔۔۔؟‘‘ بختیار نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

کچھ دیر بعد جا کر اس نے جاوید کنگ پوریا کے دروازے پہ دستک دی‫.

’’ بھائی۔۔۔ چاچا نور دین آئے ہیں ‘‘ کنول کی آواز آئی تو جاوید نے بھاگ کر اوپر سے دیکھا اور پھر جگنو کو دیکھنے لگا۔

’’ اب تو جگنو صاحب۔۔۔ پتہ چل گیا ہے۔۔۔ کوئی چن چڑھا کر آئے ضرور ہو۔۔۔ چاچا جی۔۔۔ پہنچ گئے ہیں‘‘

جگنو سر جھکا کر بس ہتھیلیوں کو آپس میں ملتا رہا۔ نور دین سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا اور ادھ ملے غصے سے دیکھنے لگا۔

’’ جیدے پتر ۔۔۔میں تجھے اچھا نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔لیکن یہ سر جھکا کر یہاں بیٹھا ہے تو سمجھو اچھا سمجھنے لگ گیا ہوں ‘‘

جاوید بس مسکرا کر رہ گیا’’ چاچا کب سے یہاں بیٹھا ہے۔۔۔ کوئی چن چڑھا کر آیا ہے مجھے پتہ ہے۔۔۔ کیا ہے یہ نہیں بتا رہا‘‘

’’ اسے بتا جیدے پتر۔۔۔ جیسے تو لوگوں کو تڑیاں لگاتا ہے ۔۔۔ایسے ہی اسے بتا کہ پچیس سال میں نے اسے باپ کم اور ماں زیادہ بن کر پالا ہے۔۔۔ ناراض ہونے کے سو اور طریقے ہیں۔۔۔ پچیس سالوں کی ماں کو اس نے بس ایک جھٹکے میں مار دیا ہے کمینے نے‘‘

نور دین کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔جاوید نے جگنو کو دیکھا۔

’’ اوئے جگنو۔۔۔ مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ باپ جب ماں بھی ہو تو سمجھو دو بار عزت کرنی پڑتی ہے اور دگنی خدمت بھی۔۔۔اوئے گھر سے نکل آیا ہے تو ۔۔۔بے شرم‘‘

نور دین نے جاوید کو ٹوک دیا ’’ نہ جیدے۔۔۔ یہ نہ کہہ۔۔۔ بڑے شرم حیا والا ہے میرا جگنو۔۔۔ بس ناراض ہونے کا طریقہ نہیں آتا اسے۔۔۔ پتر کوئی گلہ شکوہ ہوتا ہے۔۔۔ آمنے سامنے بیٹھ کر حل کرلینے چاہیں۔۔۔ ‘‘

وہ خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھا رہا۔

’’ جیدے پتر۔۔۔اسے کہہ۔۔۔ اسے کہہ کہ میرے ساتھ گھر چلے۔۔۔ ساری گلیوں کی خاک چھان کر آیا ہے اس کا باپ‘‘ نور دین اٹھ کر کھڑا ہوا تو جگنو بھی کھڑا ہو گیا۔ بغیر کچھ کہے نور دین کے پیچھے پیچھے چل کر گھر آ گیا۔ وہ صحن میں ہی بیٹھ گیا تھا۔اس نے بھیگی آنکھوں سے باپ کو دیکھا۔

’’ مجھے شرم آتی ہے کہ میری ماں گھر سے بھاگ گئی‘‘

نور دین نے غور سے اسے دیکھا ’’ شرم نہ کر۔۔۔ ماں کا رتبہ بڑا نازک اور سوہنا ہوتا ہے میرے جگنو۔۔۔ شرم کر کے ماں کے رتبے کو برباد نہ کر۔۔۔کوئی بدنصیب سو میں سے ایک اپنے نصیب جلا کر اپنے قدموں سے جنت آپ ہی چھین لیتی ہے پتر۔۔۔ شرم نہ کر۔۔۔دیکھ پچیس سال میں نے باپ کم اور ماں زیادہ بن کر پالا ہے تجھے۔۔۔ تو میری خدمت کر۔۔۔ مجھے مسکرا کر دیکھ۔۔۔ اوپر والے کے تو کام ہی سارے نرالے اور انوکھے ہیں۔۔۔وہ تجھے جنت کیا۔۔۔جنت سے بھی بڑھ کر دے گا‘‘

’’ زندہ ہے۔۔۔؟‘‘ جگنو نے پوچھا تو نور دین نے نظریں پھیر لیں

’’ دیکھ او بھئی علی امیر۔۔۔اب تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔ تو ایسے سوال کیوں کر رہا ہے؟‘‘

جگنو نے نور دین کا چہرہ اپنی طرف گھما کر دیکھا ’’ ابا۔۔۔ بتا نا۔۔۔ تیری قسم۔۔۔ اب کوئی شرم نہیں کر رہا۔۔۔ مجھے بس غصہ ہے اس پر۔۔۔‘‘

نور دین نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ’’ نہ سوہنیا۔۔۔ غصہ بھی نہیں۔۔۔ ماں کے رتبے میں کوئی شرط نہیں رکھی اوپر والے نے۔۔۔نصیبوں والی ہو یا کوئی بدنصیب۔۔۔ ہوتی ماں ہے۔۔۔‘‘

’’ چل یہ بتا ۔۔۔ کہ وہ ہے کہاں۔۔۔ زندہ ہے یا نہیں ‘‘

نور دین جھنجھلا کر اٹھ کھڑا ہوا ’’ جگنو۔۔۔ تو کیوں میرے زخموں پہ مرچیں ڈال رہا ہے ۔۔۔اوئے وہ جدھر بھی ہے۔۔۔ اس سے اب تیرا یا میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔۔‘‘

’’ ابا ۔۔۔بس میں نے اسے ایک بار دیکھنا ہے۔۔۔ ‘‘

’’ اوئے تو مجھے دیکھ نا۔۔۔ مجھے دیکھ نا میرا پتر۔۔۔پچیس سال کی ماں سے ایسے آنکھیں نہ پھیر جگنو۔۔۔ قسم خدا کی۔۔۔مجھے مٹی مٹی کر کے گئی تھی وہ بد نصیب۔۔۔ اپنے اوپر رحم کھا۔۔۔ جا اندر ‘‘

جگنو اٹھ کھڑا ہوا ’’ ابا۔۔۔ وہ کہاں ہے۔۔۔میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔تو نہیں بتائے گا تو میں پھپھو سے پوچھ لوں گا۔۔۔ نہیں تو گائوں جا کر کسی اور سے ‘‘

نور دین نے مڑ کر انتہائی بے بسی سے بیٹے کو دیکھا اور بیٹھ گیا۔ اس کے پاس جگنو کو سب کچھ بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

’’ تنویر سرائیں کے پاس گئی تھی۔۔۔میں نے اسے کہا بھی تھا کہ بغیر شادی کے اس کے ساتھ مت رہو۔۔۔ طلاق تک میرے پاس ہی رہ۔۔۔ تنویر سرائیں گاؤں کا بڑا زمیندار ہے۔۔۔مجھے سرائیں کے حواریوں نے دھکے دے کر بھگا دیا۔۔۔میں نے اسے طلاق دی تو تنویر سرائیں نے اسے دھکے دے کر نکال دیا۔۔۔ ظاہر ہے اس نے جو کچھ لینا تھا لے لیا۔۔۔رلتی پلتی گھر پہنچ گئی وہ۔۔۔ وہاں اس کے باپ نے اسے نکال دیا۔۔۔ وہ شہر آ گئی۔۔۔ پڑھی لکھی تھی وہ۔۔۔اس لیے پڑھانے لگی۔۔۔وہیں اسے نصرت ملا۔۔۔ نصرت کا ایک بیٹا اس سکول میں پڑھتا تھا۔۔۔ اس کی بیوی مر چکی تھی۔۔۔ دونوں نے شادی کر لی۔۔۔اب اس کی اپنی بھی دو بیٹیاں ہیں۔۔۔اور ایک بیٹا۔۔۔کافی بڑی کوٹھی ہے اس کی شہر میں ۔۔۔نصرت کی کسی بڑی ساری کمپنی میں میڈم زبیدہ ہے وہ‘‘

نور دین نے جگنو کو دیکھا ۔ جس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھیں، نور دین اٹھ کر جگنو کے ساتھ بیٹھا اور اسے کاندھے سے پکڑ کر ہلایا ۔ دروازہ کھلا اور بختیار اندر داخل ہوئی۔

’’ جگنو۔۔۔‘‘

نور دین اور جگنو نے دروازے کی جانب دیکھا۔ نور دین بختیار کو دیکھ کر مسکرا دیا۔

’’ دیکھ۔۔۔ وہ آئی ہے۔۔۔‘‘

بختیار اس کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی ’’ تجھے شرم نہیں آتی۔۔۔ چاچا گلی محلے میں تجھے مارا مارا ڈھونڈتا ہے۔۔۔‘‘

’’ نہ میرا پتر۔۔۔‘‘ نور دین نے بختیار کو ٹوکا  ’’ بڑی مشکل سے مانا ہے۔۔۔ آ بیٹھ ‘‘

نور دین نے بختیار کو بٹھایا اور پھر جگنو کو دیکھا’’ دیکھ میرا پتر۔۔۔ عورت جب اپنے گھر سے دوبارہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے نکلتی ہے تو اس پہ سکون کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔۔۔ پھر وہ در بدر ٹھوکریں کھاتی ہے۔۔۔تیری ماں کی پتہ نہیں کون سی نیکی اس کے کام آئی ہے کہ اسے بس دو جگہ سے ٹھوکریں ملیں۔۔۔اور نصرت کے ساتھ جا کر بس گئی۔۔۔مجھے سب اس لیے پتہ ہے کہ تیری ماں سے مجھے بچپن سے محبت تھی۔۔۔ طلاق کے بعد شادی ختم ہو جاتی ہے سوہنیا۔۔۔محبت ختم ہونے کے لیے نہیں ہوتی۔۔۔اس لیے اس کی خبر لیتا رہا ہوں میں۔۔۔ لیکن تجھ پر محبت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا سوہنیا۔۔۔ اس لیے تو اس سے نفرت کر ۔۔۔تیری مرضی۔۔۔ لیکن نفرت کی بجائے کچھ نہ کر۔۔۔ بس مجھے پیار سے دیکھ ۔۔۔سمجھو کہ ماں کی خدمت کر لی تو نے‘‘

جگنو نے نور دین کو گلے سے لگا لیا۔

’’ چاچا پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا جگنو۔۔۔ ماں کے دکھ میں باپ کا دکھ بھولو گے تو میری نظر سے گر جائو گے‘‘ نور دین کے جانے کے بعد بختیار نے کہا تو جگنو نے اسے دیکھا اور مسکرا دیا۔

’’ وہ میرا باپ اور ماں دونوں ہے بختیار۔۔۔ مجھے یاد کروانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ چل آ تجھے گھر چھوڑ آئوں میں۔۔۔‘‘

بختیار نے اسے روک دیا ’’ نہ۔۔۔ امی کہتی ہے مجھے کہ نور دین چاچا کے گھر نہ جایا کرو۔۔۔اب تم بچی نہیں رہیں۔۔۔ لو بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ ساری عمر یہیں تو کھیلتی رہی ہوں میں ‘‘

جگنو مسکرا دیا ’’ خالہ ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔ لوگ باتیں بناتے ہیں۔۔۔‘‘

’’ لوگوں سے ڈرتا ہے تو؟‘‘

’’ نہیں۔۔۔ اپنے آپ سے ڈرتا ہوں۔۔۔ بات سن‘‘ وہ جاتے جاتے مڑی تو جگنو نے اندر کی جانب دیکھتے ہوئے بختیار کو دیکھا۔

’’ ایک چھوٹا ساکام کر میرا۔۔۔‘‘

’’ حکم کریں آپ۔۔۔ جان ہتھیلی پہ رکھ کر پیش کروں؟‘‘

’’ جان نہیں چاہیے۔۔۔ میڈم زبیدہ کا پتہ چاہیے‘‘

بختیار نے حیرت سے کہا ’’ میڈم زبیدہ۔۔۔؟‘‘

’’ ابا کو پتہ ہے۔۔۔ میں نے پوچھا نہیں۔۔۔ میں ابا کو پہچان گیا ہوں۔۔۔ ابا بھی ماں ہے نا۔۔۔ تو ماں سے ماں کا پوچھوں تو رونے لگتا ہے۔۔۔ تم کسی طرح سے پوچھ لینا۔۔۔‘‘

’’ جگنو۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔چاچا نور دین کے پاس اور کوئی شے نہیں ہے تمہارے سوا۔۔۔ ‘‘بختیار کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔

’’ یاد رکھوں گا۔۔۔‘‘

وہ دروازے سے نکلتے نکلتے مڑی ’’ چاچا نور دین اور میرا مسئلہ ایک جیسا ہے جگنو۔۔۔ ہم دونوں کے پاس تیرے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔ ‘‘

دو دن بعد وہ جاوید کنگ پوریا کے گھر گیا‫. دروازہ کھلا تو سامنے کنول تھی۔

’’ آ جاؤ۔۔ ‘‘

’’ جاوید ہے؟۔۔۔‘‘

’’ نہیں بھائی تو نہیں ہے۔۔۔ آپ آئیے اندر‘‘

وہ اندر آ گیا ’’ کچھ دیر پہلے موبائل پر بات ہوئی تو اس وقت تو تھا گھر پہ‘‘

’’ ہاں۔۔۔کوئی فون آیا تھا۔۔۔باہر گئے ہیں۔۔۔آ جائیں گے۔۔۔ آپ بیٹھیں۔۔۔ میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں ‘‘ وہ اندر آ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔اچانک رک کر اس نے مڑ کر کنول کو دیکھا۔

’’ تم مجھے آپ کیوں کہتی ہو۔۔۔تم کیوں نہیں کہتی ہو پہلے کی طرح؟‘‘

کنول مسکرائی ’’ آپ ایم بی اے کے طالب علم ہو کر بھی کچھ نہیں سمجھتے جگنو صاحب۔۔۔ اور بی اے کی ایک سپلی لے کر میں سب کچھ سمجھ گئی ہوں۔۔۔‘‘

جگنو نے کچھ دیر خاموش رہتے ہوئے کہا ’’ تمہیں پتہ ہے۔۔۔ بختیار کون ہے؟‘‘

’’ سکون سے اوپر جائیے جگنو صاحب۔۔۔اپنے بخت اورآپ کی بختیار دونوں کو بڑی اچھی طرح سمجھتی ہوں میں۔۔۔ دل میلا مت کیجیے۔۔۔میں کنول ہوں۔۔۔ جاوید کی بہن ہوں میں۔۔۔ اس جاوید کی جو ہر وقت انصاف کی خاطر موت کو سر پہ لاد کر رکھتا ہے۔۔۔چائے لاتی ہوں میں؟‘‘

’’ مجھے تمہاری نظریں عجیب عجیب سی لگتی ہیں۔۔۔ڈرلگنے لگا ہے۔۔۔حالانکہ بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں‘‘

’’ بچپن سے کہاں دیکھا ہے آ پ نے مجھے۔۔۔ جب مجھے بختیار کا پتہ ہونے کے باوجود ڈر نہیں لگتا تو آپ کو کیوں لگتا ہے۔۔۔اوپر جائیں جگنو جی۔۔۔ بی اے میں سپلی لینے والی کنول کے پاس اتنا علم تو ہے کہ وہ ایم بی اے کو چٹکی میں چٹک کر سکتی ہے۔۔۔ لیکن جس کی حد سے زیادہ عزت کی جائے اس سے ہار جانا ہی بہتر ہوتا ہے‘‘

وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اوپر آ گیا۔ جاوید کے پاس ہر نسل کے کبوتر موجود تھے۔ وہ جنون کی حد تک ان سے محبت کرتا تھا۔

’’ چائے۔۔۔‘‘کنول چائے لے کر آئی تو وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’ ماں کا پتہ چلا۔۔۔؟‘‘ کنول نے کہا تو چائے کی پیالی اس کے ہاتھ سے گرنے لگی تھی۔

اس نے چائے کی پیالی رکھی اور کنول کو عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا۔ ’’ بات پھیل گئی ہے آخر۔۔۔ بات تو پھیل جاتی ہے‘‘

وہ بڑ بڑایا تو کنول نے چائے کی پیالی اٹھا کر اس کے آگے کی ’’ دیکھو جگنو صاحب۔۔۔ چاچا لیاقت کا گھر اور جاوید بھائی کا گھر۔۔۔ چاچا نور دین کے گھر جیسے ہی ہیں۔۔۔یہی بات میں نے جاوید بھائی سے پوچھی تو کہنے لگا ۔۔۔کنول خبردار یہ بات کسی سے نہ کرنا۔۔۔ جیسے اس کی اپنی ماں کا مسئلہ ہے۔۔۔چائے پیو‘‘

اس نے چائے کی پیالی پکڑ لی اور سر جھکا کر پینے لگا۔

’’ سر جھکا کر آپ اگر اپنی عزت کم سمجھ رہے ہو آپ تو غلط ہو۔۔۔دیکھو اب۔۔۔ میرا باپ آج دوسری بیوی بچوں کے ساتھ خوش رہ رہا ہے۔۔۔ ایک دن آیا تھا یہاں ملنے۔۔۔ شکر ہے جاوید بھائی نہیں تھے۔۔۔ کیونکہ جاوید بھائی انہیں پہلے ہی کھری کھری سنا چکے تھے۔۔۔اس دن آئے تو میں نے کہا کہ مرحوم ابا جی۔۔۔ مرحوم اس لیے کہا کیونکہ جاوید بھائی نے کہا تھا کہ ہمارا باپ سمجھو مر گیا ہے۔۔۔ مرحوم ابا جی آئے ہو ، تو گھر کے اندر آنے کی غلطی نہ کرنا۔۔۔ کیونکہ میرا تو باپ اور ماں جاوید بھائی ہے۔۔۔انہوں نے منع کیا ہے۔۔۔ اس لیے دروازے کے اندر ہاتھ ڈالو، سر پر ہاتھ رکھو اور جائو۔۔۔ قسم اٹھوا لو مجھ سے جگنو صاحب۔۔۔ باپ کے لیے ذرا برابر نفرت نہیں ہے میرے دل میں۔۔۔وہ جو دروازے سے بھیجا تھا ان کو، وہ میرے مائی باپ جاوید بھائی کا حکم تھا۔۔۔ماں کے لیے دل میں نفرت نہ رکھو ۔۔۔ ماں کا رتبہ بڑا اونچا ہے ۔۔۔ وہ اب آپ کی نفرت سے کم تو نہیں ہو گا۔۔۔دیکھو میں نے کہا تھا نا کہ ایم بی اے میں کچھ نہیں پڑھاتے۔۔۔بی اے کا ایک مضمون فیل ہونے کے باوجود مجھے پتہ ہے کہ کوئی مرحوم ماں باپ دروازے پہ آ جائے تو مسکرا کر اس سے سر پر پیار لو اور دروازہ بند کر لو۔۔۔ نفرت نہ رکھو۔۔۔ تعلق ختم کرو۔۔۔چائے پی لو آپ۔۔۔ ٹھنڈی ہو رہی ہے‘‘ وہ خاموشی سے اٹھ کر نیچے آ گئی۔ چائے اس کے ہاتھ میں ہی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اس نے ایک ہی گھونٹ میں ساری چائے اپنے حلق میں انڈیلی اور گھر جانے لگا۔

واپس جانے کے لیے دروازہ کھولا ہی تھا کہ کنول نے آواز دی۔ ’’ میری کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کر دو۔۔۔ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں‘‘

وہ باقاعدہ رونے لگی تھی۔ جگنو حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اچانک آنسو کنول کے گالوں پہ بکھرنے لگے تھے۔ وہ ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑی تھی۔

’’ معافی نہ مانگو۔۔۔ زیادہ علم والا اگر کم علم والے سے معافی مانگے تو اچھا نہیں لگتا۔۔۔‘‘

وہ باہر نکل آیا۔ اس کا رخ نہ جانے کس طرف تھا۔۔۔! رات گئے وہ گھر لوٹا تو نور دین اس کا منتظر تھا۔

’’ قسم اٹھوا لے جگنو۔۔۔ مجھے اب تیرا اعتبار نہیں رہا۔۔۔‘‘

جگنو نے نور دین کو مسکرا کر دیکھا اور پھر کچن کی جانب بڑھ گیا۔ آگے بختیار کھڑی تھی۔پیچھے پیچھے نور دین بھی چلا آیا۔

’’ اعتبار کی کیا بات کرتا ہے تو۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے میرا جگنو ہی نہیں رہا۔۔۔ پتہ نہیں میرے نصیب میں خدا نے کیا کیا لکھا ہے۔۔۔ جو چلی گئی بھاگ کر اس کے لیے وہ جگنو مار ا مارا پھر رہا ہے ۔۔۔جسے میں نے پالا ہے۔۔۔ ماں بن کر۔۔۔ باپ بن کر۔۔۔‘‘

نور دین غم و غصے میں بڑ بڑاتا ہوا کمرے میں چلا گیا۔

’’ خدا کا واسطہ ہے جگنو۔۔۔چاچا نور دین کے پاس تیرے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ ‘‘

’’ میں تو پہلے کی طرح ہوں۔۔۔ابا ہی میرا ابا ہے ابا ہی میری اماں ہے۔۔۔ میں تو اس بات کو مانتا ہوں۔۔۔میرا کام کیا ہے تو نے‘‘

بختیار نے غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھا ’’ پتہ ہے میرا مسئلہ کیا ہے؟۔۔۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ اس لیے تجھے ناں نہیں کر سکتی۔۔۔اور اگر تم نے اپنی ماں سے کوئی بدتمیزی کی تو میری شکل بھی مت دیکھنا۔۔۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھوں گی‘‘

بختیار نے اسے میڈم زبیدہ کا پتہ بتایا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئی۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔نور دین نے کھانا گرم کیا اور اس کے پاس لے آیا۔

’’ دیکھ میرا پتر۔۔۔ بختیار مجھ سے پتہ لے گئی ہے اس کا۔۔۔ اس نے سمجھا کہ باتوں باتوں میں اس نے پوچھ لیا مجھ سے۔۔۔ لیکن میں جانتا ہوں تو نے ہی اسے کہا ہو گا‘‘

وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔

’’ ماں ہر جگہ ماں ہوتی ہے جگنو۔۔۔ اس کے پیروں میں جنت یوں ہی نہیں رکھ دی خدا نے۔۔۔ کوئی تو بات ہے نا اس رشتے میں۔۔۔ میں جانتا ہوں تو اب اس پتے پر جانے سے نہیں رکے گا۔۔۔ وہاں جب جائے تو کوئی بدتمیزی نہ کرنا۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے تجھے جانا ہی نہیں چاہیے۔۔۔ لیکن تو کہاں بات مانتا ہے۔۔۔اللہ خیر رکھے تیری۔۔۔ ‘‘

نور دین کہتا ہوا اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ اس کی چال سے واضح تھا کہ وہ ہار چکا تھا۔ صبح وہ بختیار کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ گیٹ پہ کھڑے سکیورٹی گارڈ نے اسے روک لیا تھا۔

’’ میڈم سے کہیں کہ نور دین کا بیٹا علی امیر آیا ہے۔۔۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ ہال میں ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خوش شکل ادھیڑ عمر عورت کو سیڑھیوں سے نیچے اترتے دیکھا۔وہ فوراََ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔اور غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے موبائل نکالا اور سکرین پہ اپنی شکل دیکھنے لگا۔

’’ کوئی شے نہیں ملتی آپ سے۔۔۔شکر ہے خدا کا میری شکل ماں پہ نہیں گئی‘‘

میڈم زبیدہ غور سے اسے دیکھتی رہی اور پھر اچانک کہنے لگی۔

’’ نور دین کے بیٹے ہو تم۔۔۔؟‘‘

میڈم زبیدہ نے کہا تو وہ مسکرا دیا

’’ جی۔۔۔صرف نور دین کا ہی بیٹا ہوں۔۔۔‘‘ ’’ کیوں آئے ہو۔۔۔ نور دین نے بھیجا ہے تمہیں؟‘‘

’’ میں آپ سے کچھ معلومات لینے آیا ہوں۔۔۔ یہاں کوئی بھی آ سکتا ہے۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میں آپ کے کمرے میں بات کر لوں آپ سے۔۔۔ اگر آپ کو برا نہ لگے؟‘‘

’’ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔ گھر میں کوئی نہیں ہے سوائے سکیورٹی گارڈز کے۔۔۔‘‘

’’ پھر بھی۔۔۔ یہاں بات کرنا مناسب نہیں ہے میڈم جی۔۔۔‘‘

’’ چلو۔۔۔‘‘

وہ پشت پہ ہاتھ باندھے اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آ گیا۔ میڈم زبیدہ نے اسے کرسی پہ بیٹھنے کا کہا۔

’’ مجھ سے ڈر نہیں لگا آپ کو۔۔۔ اجنبی ہونے کے باوجود آپ مجھے اپنے کمرے میں لے آئیں‘‘

’’ بات کرو تم۔۔۔‘‘

’’ میں آپ کو قتل کرنے آیا ہوں۔۔۔‘‘

جگنو نے کہا تو میڈم زبیدہ فوراََ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جگنو نے مسکرا کر انہیں روکا۔

’’ بیٹھ جائیں۔۔۔ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے میرا۔۔۔ میں بس آپ کو دیکھ کر گلہ کرنے آنا چاہتا تھا۔۔۔ بے فکر ہو کر بیٹھیں۔۔۔ کسی کو آواز لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جب مجھے پتہ چلا تو میرا گلہ شکوہ کرنے کاہی ارادہ تھا۔۔۔ پھر ابا بہت پریشان ہو گیا۔۔۔ اس نے مجھے بتایا کہ تیری ماں تنویر سرائیں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔۔۔ وہاں اس پر ظلم ہوا اور اس نے باہر نکال دیا۔۔۔ اب گلہ شکوہ کرنے نہیں آیا کیونکہ مرحوم ماں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا جاتا۔۔۔ وہ کہتی ہے میڈم جی کہ۔۔۔ ‘‘

میڈم زبیدہ نے کچھ کہنا چاہا تو جگنو نے ٹوک دیا ’’ میں بول رہا ہوں نا۔۔۔ میڈم جی۔۔۔ مجھے چھوڑ کر آپ بھاگیں تھیں۔۔۔تو میرا بولنا بنتا ہے‘‘

’’ علی امیر۔۔۔ میں تمہارے باپ کے ساتھ خوش نہیں تھی۔۔۔ تو مجھے جانا پڑا۔۔۔‘‘

جگنو مسکرا دیا ’’ ابا کہتا ہے کبھی کبھی۔۔۔ کہ اپنی خوشیوں میں ہم کتنے لوگوں کے دل توڑ دیتے ہیں۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ وہ کہتی ہے کہ مرحوم ماں باپ جب دروازے پہ آ جائے تو اس سے نفرت نہیں کرتے ۔۔۔ تعلق ختم کرتے ہیں۔۔۔ میرا کوئی تعلق نہیں ہے آپ سے۔۔۔ شکر ہے شکل بھی نہیں ملتی‫‫...آپ تو مرحومہ ہیں نا‫...آپ کی آنکھیں بھیگ رہی ہیں مجھے دیکھ کر ۔۔۔ لیکن یہ فطری ہے۔۔۔مجھے بس اتنا بتائیے کہ تنویر سرائیں نے کیا کیا آپ کے ساتھ؟‘‘

میڈم زبیدہ نے سر جھکا لیا تھا ، پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا ’’ اس بات کو سال گزر گئے ۔۔۔ کیوں پوچھ رہے تم اب‘‘

’’ مجھے تو لگتا ہے کہ وقت نہیں گزرا۔۔۔سچ جانے بغیر جائوں گا نہیں ‘‘

’’ وہ انتہائی عیاش آدمی تھا۔۔۔ مجھے طلاق کے بعد اس کا پتہ چلا۔۔۔ اور پھر جب اس کا مقصد پورا ہو گیا تو اس نے مجھے نکال دیا۔۔۔ ‘‘

وہ اٹھا تو میڈم زبیدہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’ آپ کا بہت شکریہ کہ مجھے وقت دیا آپ نے میڈم زبیدہ۔۔۔پریشان نہ ہوں۔۔۔ آئیندہ آپ سے کوئی ملاقات نہیں ہو گی۔۔۔‘‘

’’علی امیر سنو۔۔۔‘‘

وہ پلٹ کر میڈم زبیدہ کو دیکھنے لگا ’’ میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ ماں کےرتبے کو آپ نے ٹھکرایا تھا۔۔۔ میں بھی ٹھکرا دیتا اگر مجھے ابا اور وہ نہ سمجھاتے تو۔۔۔ میں ماں کے رتبے کو رسوا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ ابا کی قسم‘‘

وہ وہاں سے نکل کر گاؤں آ گیا. اس کی منزل ریاض جھانجر کے ہاتھوں میں تھی. اسی لیے وہ ریاض جھانجر کے پاس آ گیا.

’’ ہاں بھئی۔۔۔؟‘‘

ریاض جھانجر نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اسے دیکھا ’’ کون ہے۔۔۔اور کہاں سے آیا ہے۔۔۔ اور کیسے آ یا ہے‘‘

’’ ریاض جھانجر سے ملنے آیا ہوں۔۔۔‘‘

’’ تجھے نہیں لگتا ۔۔۔ کہ میں ریاض جھانجر ہوں؟‘‘

جگنو نے حیرت سے اس ستائیس اٹھائیس سال کے لڑکے کو دیکھا اور پھر اس کے گرد کھڑے پانچ ساتھیوں کو۔۔۔ ! اسے اِدھر اُدھر دیکھتے دیکھ کر وہ سارے ہنس دیے۔

’’ میں علی امیر ہوں۔۔۔ آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے‘‘ جگنو نے کہا تو ریاض جھانجر نے ساتھیوں کو دیکھا ، وہ برآمدے کے باہر جا کر چارپائیوں پہ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔

’’ میں نے تنویر سرائیں کا قتل کرنا ہے‘‘ ریاض جھانجر کو ایک جھٹکا لگا۔ اس نے ذرا سا آگے ہو کر اسے دیکھا۔

’’ اوئے۔۔۔ کوئی پاگل ہے یا نشئی؟۔۔۔ کدھر سے آیا ہے اور کیوں قتل کرنے آیا ہے؟‘‘

’’ اس نے ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔ جو رشتے میں میری ماں لگتی ہے جناب۔۔۔ میں سیدھا اس تک نہیں پہنچ سکتا۔۔۔ بازار میں ہوٹل میں سنا میں نے کہ۔۔۔ سرائیوں کا اس وقت سب سے بڑا دشمن ریاض جھا نجر ہے‘‘

’’ سنا تو ٹھیک ہے تو نے۔۔۔۔ اوئے فیاضے‘‘ ریاض نے فیاض کو آواز لگائی اور چائے بنانے کا کہا۔

’’ چل آ اندر۔۔۔ ‘‘ وہ جگنو کو ساتھ لے کر اندر کمرے میں چل دیا۔

’’ اس کے علاوہ اور کوئی جرم اس کا۔۔۔‘‘

’’ پتہ نہیں ہے اس کا۔۔۔ ‘‘

ریاض جھانجر ہنس دیا ’’ قتل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔سوچو تو آسان لگتا ہے۔۔۔ بندہ کتنی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔۔۔ اسے مارنا اتنا ہی مشکل۔۔۔ جب تیرے پاس اس کا اور کوئی جرم نہیں ہے تو۔۔۔ تجھے اپنے لیے اس کا قتل اچھا نہیں لگتا۔۔۔ پولیس کو جا کر بتا۔۔۔ ‘‘

’’ پولیس بھلا کہاں سنے گی میری۔۔۔ ویسے میں گیا نہیں ہوں۔۔۔ بس اندازہ ہے کہ اس کا اچھا خاصا اثر رسوخ ہے ‘‘

’’ لے بھئی۔۔۔ اب تیرا اندازہ ٹھیک ہے۔۔۔ پولیس میں اچھا خاصا مشہور ہے وہ۔۔۔ اثر رسوخ اوپر والا دیتا ہے ۔۔۔ اور وہ لوگوں پہ لاگو نہیں ہوتا۔۔۔ چائے پیتے ہیں پھر سوچتے ہیں۔۔۔ ‘‘ ریاض جھانجر سامنے بیٹھے جگنو کو بڑے غور سے دیکھے جا رہا تھا۔

پھر اچانک اس نے سوال کر دیا۔ ’’ جلدی میں لگتا ہے تو۔۔۔ قتل کرنے کی جلدی ہے یا۔۔۔ جیل جانے کی ‘‘

’’ جج۔۔۔۔ جی‘‘ جگنو جیسے کسی اور خیال میں ڈوبا ہوا تھا ۔

’’ پستول چلانی آتی ہے۔۔۔؟‘‘

’’ دیکھی ہوئی ہے بس۔۔۔ کبھی چلائی نہیں‘‘

’’ تو کیا سوچا ہے۔۔۔ کیسے قتل کرو گے اسے؟‘‘ جگنو نے کہا

’’ بس آپ مجھے اس تک پہنچا دو۔۔۔ آگے میں کر لوں گا‘‘

’’ لگتا ہے سکول کالج میں پڑھتا رہا ہے تو۔۔۔ نرا ان پڑھ ہے بھائی تو۔۔۔ ‘‘

’’ وہ بھی یہی کہتی ہے۔۔۔‘‘ وہ بڑ بڑایا ۔

’’ کون کہتی ہے۔۔۔‘‘ ’’ کوئی نہیں۔۔۔ وہ ایک پڑوسن ہے میری۔۔۔ بی اے میں اس کا ایک مضمون فیل ہوا ہے تو میری ایم بی اے کی پڑھائی کو فضول کہتی ہے۔۔۔‘‘

ریاض جھانجر ہنس دیا ’’ خدا کی قسم۔۔۔ سچ کہتی ہے۔۔۔ اب تجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ سرائیں کوئی تیرے انتظار میں تو نہیں بیٹھا ہو گا نا۔۔۔کہ تو آئے گا ، اس کا گلا دبا ئے گا اور وہ تجھے کہے گا۔۔۔ آئیے علی امیر صاحب۔۔۔ گلا حاضر ہے‘‘

جگنو نے اسے دیکھااور غصے میں کھڑا ہو گیا۔ جگنو نے چیخ کر کہا’’ تجھے ہنسنے کی پڑی ہے۔۔۔ تمہاری ماں کے ساتھ اس نے کچھ کیا ہوتا تو تجھے لگ پتہ جاتا‘‘

ریاض جھانجر نے پستول نکال کر اس پر تان لی ’’ چپ اوئے۔۔۔ ایک دم چپ کالجیٹ صاحب‫‫‫‫...چپ‘‘

اس کے دو ساتھی فوراََ اندر داخل ہوئے۔ اس نے پستول نیچے کی اور جگنو کے گال دباتے ہوئے بٹھا دیا۔ اس کے ساتھی دوبارہ باہر نکل گئے۔

’’ ماں کا ذکر نہ کر۔۔۔ تو نے جب سے بتایا ہے کہ اس نے تیری ماں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔ تو میں جانتا ہوں یا میرا رب۔۔۔ میرے اندر کیا ہو رہا ہے۔۔۔ لیکن میں تیری طرح کالج کا پڑھا لکھا نہیں ہوں کالجیٹ صاحب۔۔۔گاؤں کے سکول میں بس اے بی سی اور الف ب پ پڑھی ہے۔۔۔ گنتی مجھے سو تک آتی ہے۔۔۔ تیرے سے زیادہ علم ہے میرے پاس۔۔۔سرائیں کوئی مکھن کی ٹکی نہیں ہے جس پر تو شکر چھڑک کر حلق سے اتار لے گا۔۔۔ دو بیویوں سے اس کے چھ پتر ہیں۔۔۔ جوان ۔۔۔ ساروں کی ٹب میں پستول لگے ہوتے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ حویلی کے دوجے لوگ الگ۔۔۔ ادھر جانا ہے تو سینے پہ گولی کھانے کا انتظار لے کر جانا ہے‘‘

جگنو خاموشی سے اسے سنتا رہا۔

’’ چائے پی۔۔۔ اور یہ بتا ماں زندہ ہے تیری۔۔۔ کون ہے تیرے گھر میں ‘‘

’’ ماں اب نہیں ہے۔۔۔ وہ کہیں اور رہتی ہے۔۔۔ اور گھر میں ابا ہے بس‘‘

’’ کوئی معشوق۔۔۔؟‘‘

جگنو نے غور سے ریاض جھانجر کو دیکھا اور خاموشی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ریاض جھانجر مسکرا دیا

’’ معشوق مطلب۔۔۔ کوئی منگیتر۔۔۔ کوئی پیار کرنے والی؟‘‘

جگنو خاموش بیٹھا رہا۔

’’ تیرے پلے انتقام کے علاوہ ککھ نہیں ہے ۔۔۔ پیار پریت انتقام سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔۔۔ یہاں رہو۔۔۔ میں کہیں باہر جاؤں گا۔۔۔ فیاض، اور شاہو ادھر ہی ہیں۔۔۔ کوئی گن سن لیتے ہیں سرائیں کی۔۔۔ تجھے موقع ضرور دوں گا۔۔۔ ایک دو دن یہاں لگ سکتے ہیں موقع کی تلاش میں۔۔۔ میں اسے کب کا مار چکا ہوتا۔۔۔ لیکن اس سے بڑے حساب چکتے کرنے ہیں میں نے۔۔۔ لیکن اب لگتا ہے کمبخت کے آخری دن آ گئے ہیں۔۔۔ ایک دو دن کا وقت ملا ہے تو بیٹھ کر سوچ ۔۔۔ کہ پیار پریت انتقام سے بڑھ کر ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘

ریاض جھانجر کسی کام سے باہر نکل گیا۔ وہ دو دن بعد لوٹا تھا۔ اس دوران فیاض نے اسے پستول چلانی سکھا دی تھی۔ ریاض جھانجر کا ایک بازو زخمی تھا۔ رات کا دوسرا پہر تھا جب جگنو کمرے سے نکل کر چھت پہ چلا گیا۔۔۔ ریاض جھانجراور فیاض ہمیشہ چھت پر ہی سوتے تھے۔فیاض گہری نیند سویا ہوا تھا جبکہ ریاض جھانجر چھت کے ایک کونے پہ بیٹھا چاند کی چاندنی میں چمکتے ہوئے کھیتوں میں نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔

’’ ہمارے کام میں گولیاں چلتی رہتی ہیں یار۔۔۔سنا ہے پستول چلانی سیکھ گیا ہے تو؟‘‘

جگنو نے شلوار سے پستول نکال کر اس کے سامنے لہرائی

’’چلا کر دکھائوں"

"اوئے نہیں۔۔۔ لا مجھے دے پستول۔۔۔ تیرے پاس نہیں رہنی چاہیے۔۔۔‘‘

’’ کیوں۔۔۔ میرے پاس کیوں نہیں رہنی چاہیے۔۔۔؟‘‘

’’ ذرا آہستہ بات کر۔۔۔‘‘ ریاض جھانجر نے سوئے ہوئے فیاض کو دیکھتے ہوئے کہا

’’ فیاض جب سوتا ہے تو ہی سکون میں ہوتا ہے۔۔۔ جاگتے ہوئے اگر وہ مسکراتا نظر آئے تو یہ نہ سمجھو وہ خوش ہے۔۔۔ بڑے بڑے دکھ جھیلے ہیں اس نے‘‘

’’ تنویر سرائیں کی طرف کب جانا ہے۔۔۔؟‘‘

ریاض جھانجر نے غور سے اسے دیکھا ’’ فیصلہ کر لیا ہے تو نے۔۔۔؟‘‘

’’ ہاں۔۔۔‘‘

ریاض جھانجر نے سر پکڑ لیا۔سر اِدھر اُدھر ہلا کر اس نے اچانک جگنو کو دیکھا ۔

’’ چل میرے یار پھر۔۔۔ تیری آگ بھی ٹھنڈی کرتے ہیں‘‘

جگنو حیرت سے اسے اٹھتا ہوا دیکھنے لگا اور وہ اس کی پیروی کرتے ہوئے چھت سے نیچے اتر آیا۔ دیوار پہ شاہو بیٹھا ہلکی آواز میں گنگنا رہا تھا۔ انہیں آتا دیکھ کر وہ نیچے اتر آیا۔ ریاض جھانجر نے ہاتھ اٹھا کر اسے منع کر دیا۔

’’ ہم آتے ہیں ابھی۔۔۔فیاض کو سویا رہنے دے۔۔۔اور زیبی کو اٹھا کر اپنے ساتھ بٹھا لو۔۔۔ چوکنا رہنا۔۔۔‘‘

دونوں باہر نکلے اور کچھ دیر کھیتوں میں چلتے رہنے کے بعد ایک مٹی کی بنی ہوئی چھوٹی سی کٹیا سے ریاض جھانجر نے موٹر سائیکل باہر نکال لی۔ سارا گاؤں سائیں سائیں کر رہا تھا۔ ان کا رخ سرائیں ڈیری فارم ہاؤس کی طرف تھا۔ فارم ہاؤس سڑک سے ذرا سے فاصلے پر تھا۔ انہوں نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور ریاض جھانجر موبائل نکال کر کسی کو فون کرنے لگا۔ وہ راستے سے ہٹ کر فارم ہاؤس کی جانب بڑھنے لگے۔

’’ اب بھی وقت ہے۔۔۔ سوچ لو۔۔۔اس کا جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ قتل کیا جا سکے‘‘

’’ میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔‘‘

جگنو نے کہا تو ریاض جھانجر نے مسکراتے ہوئے اس کے شانے پہ ہاتھ مارا۔

’’ تو پھر میگزین کی ساری گولیاں اتار دینا اس میں۔۔۔ اور اس لیے نہ مارنا کہ اس نے تیری ماں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔ بلکہ اس لیے مارنا کہ وہ کلثوم اور ناجیہ کا قاتل ہے۔۔۔ اس لیے مارنا کہ اس کے مہمان خانے میں ہر دوسرے دن شہر سے لڑکیاں لائی جاتی ہیں۔۔۔ اور یہیں اس فارم ہاؤس پر انہیں ساری ساری رات نچایا اور بستر میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔ اس لیے مارنا کہ بڑھاپے میں اسے طاقت والی گولیاں کھانے کی زور کی عادت ہے‘‘

’’ کلثوم اور ناجیہ کون ہیں۔۔۔؟‘‘

’’ اس بات کو چھوڑو۔۔۔ بس ان دو نام کی دو گولیاں بھی سینے میں اتار دینا‘‘

ریاض جھانجر نے کہا اور اس کا چہرہ سخت ہوتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ فارم ہاوس کی پچھلی جانب سے گھومتے ہوئے رستے کی مخالف سمت میں آ پہنچے تھے۔ فارم ہاؤس دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک طرف گائے اور بھینسوں کا باڑہ تھا، جبکہ دوسری جانب مہمان خانہ تھا۔ وہ اس وقت باڑے کے اس دروازے کے ساتھ کھڑے تھے جو کھیتوں میں کھلتا تھا۔ دروازہ ہلکا سا کھلا تھا۔ یہ ریاض جھانجر نے کچھ دیر پہلے جو فون کیا تھا، اسی کا کمال تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ ہوتے ہوئے دوسرے حصے کے عین سامنے پہنچ گئے۔ جہاں ایک شخص اپنے سامنے تین کتوں کو کچھ کھلانے میں مصروف تھا۔ اس شخص نے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس حصے کی جانب دیکھا جہاں اس وقت ریاض جھانجر اور جگنو کھڑے تھے۔ اس شخص کے اشارے پر وہ آگے بڑھ گئے۔ مہمان خانے کا ایک دروازہ پچھلی جانب بھی تھا۔ وہ بھی کھلا تھا۔ گویا اس شخص نے اندر جانے کے سارے انتظامات کیے ہوئے تھے۔ وہ ایک چھوٹے سے کچن میں داخل ہوئے تھے۔مہمان خانہ گویا اندر مکمل روشن تھا۔ ابھی وہ وہیں تھے کہ کوئی شخص اونگھتا ہوا کچن میں داخل ہوا تھا۔ جگنو نے ہڑ بڑا کر اس پر فائر کر دیا۔ ریاض جھانجر فورا کچن سے ہال میں داخل ہوا تھا۔

’’ اس کمرے میں جاؤ۔۔۔‘‘

ریاض جھانجر نے جگنو کو چیخ کر کہا۔ مہمان خانے کی دوسری جانب سے دروازہ کھلا تھا اور چار مسلحہ شخص اندر داخل ہوئے تھے۔ ریاض جھانجر نے فائر کر کے انہیں وہیں روکا۔ جبکہ جگنو ریاض جھانجر کے بتائے ہوئے کمرے میں داخل ہو گیا۔ جہاں پچپن چھپن سال کا تنویر سرائیں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ انتہائی بے ہودہ حالت میں تھا۔ جگنو نے یکے بعد دیگرے نو گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں اور باہر جھانکا۔ ریاض جھانجر ایک کونے میں لگا دوسری طرف فائر کر رہا تھا۔ جگنو نے ذرا سا اور جھانکا اور اسے سیڑھیوں کے ساتھ ایک سر نظر آیا۔ وہ ذرا سا اور باہر نکلا اور اس سر کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ اس کا نشانہ خطا ہونا ہی تھا۔۔۔ لیکن سیڑھیوں کی دوسری جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ اسے چاٹ گئی تھی۔

وہاں ریاض جھا نجر کے ڈیرے پر شا ہو نے فیاض کو جگا دیا تھا۔ وہ تینوں ریاض جھانجر کے منع کرنے کے باوجود ان کے پیچھے آ گئے تھے۔ پہلے فائر کے بعد وہ سیدھے راستے سے مہمان خانے میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت باہربیٹھے چاروں مسلحہ شخص اندر گھس گئے تھے۔ فارم ہائوس میں اس وقت تنویر سرائیں سمیت اس کے تین بیٹے تھے۔ تینوں کے علاوہ چار محافظ بھی قتل ہو چکے تھے۔ جبکہ فارم ہاؤس پہ کام کرنے والوں میں سے ایک واپسی کے سفر میں ان کے ساتھ ہو لیا تھا۔ ریاض جھانجر جگنو کی لاش کو ساتھ لے آیا تھا۔ اس نے فوراََ اپنا ٹھکانہ بدل لیا تھا۔ٹھکانہ بدلتے ہی اس نے جگنو کو وہیں دفنا دیا تھا۔

وقت دو ماہ کتر کتر کر کھا گیا...!

تقریباََ دو ماہ بعد گیٹ پہ کھڑے محافظ نے میڈم زبیدہ کو آ کر بتایا تھا کہ کوئی نور دین اس سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ تیز تیز قدموں سے کمرے سے نکلی اور سیڑھیاں اترنے لگی۔اچانک جیسے رک کر اسے اپنا مقام یاد آ گیا۔ اس نے محافظ سے کہا کہ اسے اندر لے آئے ۔ کچھ دیر بعد نور دین اندر داخل ہو رہا تھا۔ وہ صوفے پر ہی بیٹھی رہی۔ نور دین زمین پہ بیٹھا تو اسے لگا جیسے اسے کسی نے آسمان سے زمین پر پٹخ دیا تھا۔

’’ جگنو کا پتہ کرنے آیا ہوں۔۔۔ ہے یہاں‘‘

زبیدہ نے حیرت سے اسے دیکھا ’’ یہاں نہیں ہے۔۔۔ اور تم کیوں آئے ہو‘‘

’’ہو گا یہاں۔۔۔ دیکھو اندر۔۔۔ ضد کی تھی۔۔۔ اس نے ضد کی تھی کہ ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ پتہ نہیں کہاں گیا ہے‘‘

’’ اوپر بیٹھ جاؤ۔۔۔‘‘ زبیدہ نے کہا تو وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ کاندھے پہ رکھی چادر سے ماتھا صاف کرنے لگا۔

’’ پتہ نہیں۔۔۔ کہتا تھا آؤں گا۔۔۔ آیا نہیں۔۔۔جگنو آئے گا‫‫‫...اپنی اماں سے ملنے گیا تھا...واپس نہیں آیا‫‫‫... ‘‘

وہ بڑ بڑاتے ہوبڑاتے ہوئے باہر آنے لگا تو زبیدہ نے اسے آواز دی۔

’’ دوبارہ مت آنا یہاں۔۔ ۔ ‘‘

نور دین اچانک رکا۔۔۔ مڑا اور پھر ہنس دیا۔

’’ تمہارے پاس بھی کوئی آیا تھا؟۔۔۔گائوں سے۔۔۔ میرے پاس تو آیا تھا کوئی۔۔۔ کہتا تھا جگنو کو اس نے دفنا دیا ہے۔۔۔وہ جانے سے پہلے کہتا تھا ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ ماں کو دیکھنا ہے۔۔۔ جگنو آیا تھا ۔۔۔ نہیں آیا تھا۔۔۔ چلا گیا۔۔۔ماں کو دیکھنے گیا تھا جگنو۔۔۔میں اس کی ماں ہوں...اسے کہا تھا...اس کمبخت کو کہا تھا میں ماں ہوں...لیکن...‘‘ وہ ہنستے ہوئے، بڑ بڑاتے ہوئے باہر نکل گیا اور زبیدہ جیسے بت سی بن کر رہ گئی تھی۔

--------------------------------------------------------------------------

مولوی نزاکت حسین نے گلی کے شروع سے کنول کو آتے دیکھا تو مسکرا دیا۔

’’ دیکھ بھئی نور دینا۔۔۔آ گئی ہے تیرے جگنو کی دیوانی۔۔۔ بڑے پتے کا ہجر لگا ہے اسے بھی۔۔۔ رب اس کے نصیب روشن کرے۔۔۔ اوئے بد نصیبا۔۔۔ تیرے جگنو کی ماری وہ صبح ڈیوٹی پہ جاتی ہے۔۔۔ واپس آتی ہے تو اسے گھر میں ملا کر۔۔۔ دیکھ کیسے تجھے ڈھونڈتے ہوئے آ رہی ہے۔۔۔ بالکل ایسے جیسے تو جگنو کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔۔۔‘‘

’’ چاچا۔۔۔ میں کب سے تجھے ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔ چل آ گھر۔۔۔ ‘‘

کنول نے نور دین کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا اور پھر نزاکت حسین کو دیکھ کر سلام کرنے لگی۔

’’ وعلیکم السلام۔۔۔ جیتی رہ میری بچی ۔۔۔لے جا اپنے نور دین کو۔۔۔ نہلا دھلا اس کو۔۔۔‘‘

’’ مولوی صاحب۔۔۔ صبح تو نہلا دھلا کر جاتی ہوں۔۔۔ شام تک یہ حال کر لیتے ہیں۔۔۔ چل چاچا۔۔۔ ‘‘

’’ جگنو۔۔۔ جگنو کوئی جگنو ‘‘

نور دین بڑ بڑاتے ہوئے کنول کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ چل دیا۔ میجر قمیض کے بازو درست کرتا ہوا مسجد میں داخل ہونے لگا تو مولوی نزاکت حسین کو دیکھ کر اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔

’’ بڑی ہوشیار بچی ہے لیکن بیچاری کو بڑا روگ لگا ہے مولوی صاحب۔۔۔کتنا خوش قسمت ہے نور دین ‘‘

میجر نے کہا تو مولوی نزاکت حسین مسکرا دیا۔

’’روگ تو اسے لگا ہے میجر ۔۔۔جو کسی جگنو کی راہ دیکھتے دیکھتے کسی کی ڈولی میں جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ میں نے ہی نکاح پڑھوایا تھا اس کا۔۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔اور اس کو بیچاری اور نور دین کو خوش قسمت مت کہہ۔۔۔جس کی جھولی ہجر سے بھری ہو ، اسے بے چاری نہیں کہتے میجر صاحب ‘‘۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024