اختر رضا سلیمی کے ناول"جگے ہیں خواب میں" کا لا زمانی غیر مختتم بیانیہ
اختر رضا سلیمی کے ناول"جگے ہیں خواب میں" کا لا زمانی غیر مختتم بیانیہ
Sep 9, 2024
اختر رضا سلیمی کے ناول"جگے ہیں خواب میں" کا لا زمانی غیر مختتم بیانیہ
علی رفاد فتیحی
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ادب میں ایک منفرد تکنیک ہے جو وقت کی روایتی حدوں کو عبور کرتی ہے اور قارئین کو مختلف ادوار اور حالتوں میں انسانی تجربات کی گہرائی میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف ماضی، حال، اور مستقبل کو ایک ساتھ جوڑتا ہے بلکہ ان سب کو ایک وحدت کی شکل میں پیش کر کے انسانی وجود کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تکنیک کا استعمال ادبی متن کو ایک ایسا سفر بناتا ہے جہاں قاری وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہوکر ایک وسیع اور متنوع تجربے سے گزرتا ہے۔لا زمانی بیانیہ کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وقت کی خطی اور سیدھی لکیر (Linear) کو رد کر کے ایک دائروی یا مخلوط وقت کی ساخت پیش کرتا ہے۔ اس میں وقت کی قید سے آزاد ہوکر بیانیہ ماضی، حال، اور مستقبل کے درمیان ایک تعامل پیدا کرتا ہے، جس سے انسانی تجربات کی ایک متوازی کائنات تشکیل پاتی ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے، کہانی وقت کے ایک لمحے میں محدود ہونے کی بجائے ایک وسیع اور بے وقت کائنات کی عکاسی کرتی ہے، جہاں تمام زمانی حقائق ایک ساتھ موجود ہیں۔
غیر مختتم بیانیہ کی دوسری اہم خصوصیت اس کا نہ ختم ہونے والا اور کھلا ہوا اختتام ہے۔ اس قسم کے بیانیہ میں کہانی کی روایتی تکمیل کی بجائے، بیانیہ کو ایک مسلسل عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے قاری کو ایک فعال شریک کے طور پر شامل ہونے کی دعوت ملتی ہے، جہاں وہ بیانیہ کو اپنی تفہیم اور تشریح کے مطابق آگے بڑھا سکتا ہے۔ غیر مختتم بیانیہ قاری کو مختلف ممکنات کے درمیان انتخاب کی آزادی فراہم کرتا ہے، جو بیانیہ کی ایک انفرادی اور متحرک ساخت کو جنم دیتا ہے۔
اختر رضا سلیمی کا ناول "جگے ہیں خواب میں" لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ کی عمدہ مثال ہے۔ اس ناول میں وقت کی قید سے آزاد ہوکر کہانی ماضی، حال، اور مستقبل کے لمحات کو ایک ساتھ جوڑتی ہے۔ مرکزی کردار زمان، جو ایک فزکس کا طالب علم ہے، ایک زلزلے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں ایک خوابیدہ سفر پر نکلتا ہے۔ اس سفر کے دوران، وہ نہ صرف اپنے حال کے تجربات سے گزرتا ہے بلکہ ماضی کی تاریخی یادوں اور مستقبل کے ممکنات سے بھی جڑ جاتا ہے۔سلیمی کا بیانیہ وقت اور شعور کے پیچیدہ سوالات کو ایک وسیع اور لا زمانی منظرنامے میں پیش کرتا ہے، جہاں لاشعور کی گہرائیوں، خواب کی تعبیر، اور تاریخی یادداشتوں کا ملاپ انسانی وجود کی ایک پیچیدہ مگر خوبصورت تصویر کشی کرتا ہے۔ سلیمی کا یہ لا زمانی بیانیہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وقت کی پابندیاں محض ایک سراب ہیں، اور حقیقی معنوں میں، تمام زمانی حقائق ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ادب میں ایک فنی تجربے کے طور پر قاری کی شمولیت اور تخلیقی تشریح کے عمل کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ بیانیہ ایک جامد حقیقت کی بجائے ایک متحرک اور متغیر حقیقت پیش کرتا ہے، جس میں قاری کو ایک شریک تخلیق کار کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے، ادب ایک محدود بیانیہ کی قید سے نکل کر ایک وسیع اور جامع تجربے کی تشکیل کرتا ہے، جو قاری کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو منعکس کرتا ہے۔
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ کی فلسفیانہ بنیادیں وقت اور وجود کی نوعیت کے بارے میں گہرے سوالات سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ بیانیہ وجود کی لازوالیت اور انسانی شعور کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتا ہے، جو ماضی، حال، اور مستقبل کو ایک مسلسل عمل کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے ذریعے، انسانی وجود کی غیر مختتم فطرت اور وقت کی دائروی ساخت کو نمایاں کیا جاتا ہے، جہاں حقیقت اور خواب، شعور اور لاشعور کی سرحدیں دھندلا جاتی ہیں۔
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ادب میں وقت اور وجود کی نوعیت کی گہری تفہیم فراہم کرتا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف وقت کی قید سے آزاد ہوکر انسانی تجربات کی ایک وسیع اور جامع تصویر پیش کرتا ہے بلکہ قاری کو ایک فعال شریک کے طور پر شامل کر کے ادب کی فنی اور فلسفیانہ وسعت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے، بیانیہ ایک نئے اور متنوع ادبی منظرنامے کی تشکیل کرتا ہے، جو قاری کو ایک منفرد تجربے سے روشناس کراتا ہے اور اسے وقت کی قید سے آزاد کر کے ایک بے وقت سفر پر لے جاتا ہے۔
اختر رضا سلیمی کے ناول "جگے ہیں خواب میں" لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ایک فنی اور لسانی تجربہ ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کے حالات کو اپنے بیانیے کے تانے بانے میں جوڑتا ہے۔ 2005 کے زلزلے کے پس منظر میں ترتیب دیا گیا، یہ ناول مرکزی کردار زمان کی پیروی کرتا ہے، جو فزکس کا طالب علم ہے، اور جو وقت اور شعور کے ذریعے زندگی کاسفر شروع کرتا ہے۔ اس ناول میں اختر رضا سلیمی خواب کی تعبیر، اور تاریخی یادداشت کے طریقہ کار کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ قاری زمان و مکان کی حدود کو باسانی عبور کر لیتا ہے ۔ یہ تکنیک لازمانی بیانیہ کی ترسیلی توانائ اور دسترس کا ایسا ثبوت ہے، جس سے انسانی نفسیات وجود کی گہرائی میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ ناول میں لاشعور کے نظریہ، خواب کی تعبیر، اور تاریخی یادداشت کے آمیزہ سے ایک ایسا بیانیہ وجود میں آتا ہے جس سے انسانی زندگی کی پیچیدگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اور جو وقت کی قید سے ماورا ہوکر قاری کو انسانی وجود کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس ناول کا منفرد پہلو اس کا غیر خطی اور غیر متوقع انداز ہے، جو ماضی، حال اور مستقبل کے حالات کو ایک ساتھ جوڑتا ہے۔ ناول کی کہانی 2005 کے تباہ کن زلزلے کے پس منظر میں ترتیب دی گئی ہے، جو نہ صرف ایک آسمانی آفت ہے بلکہ کہانی کی تھیماٹک (Thematic)اور علامتی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ مرکزی کردار زمان، جو کہ فزکس کا طالب علم ہے، وقت اور شعور کے پیچیدہ معاملات کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ زمان کی زندگی کا سفر دراصل وقت اور شعور کے ذریعے زندگی کو سمجھنے کا سفر ہے، جس میں ماضی کی یادیں، حال کے تجربات، اور مستقبل کے خواب مل کر ایک ایسی کہانی تخلیق کرتے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ناول کے پہلہ جملہ :"یہ سب خواب سا ہے بالکل خواب سا" زمان نے پتھریلے تکیہ پر سر رکھ کر خلا میں گھورتے ہوۓ سوچا " اس ناول میں پیش منظر (Foregrounding)کا کام کرتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ یہ جملہ ناول کے صفحہ 19 پر پھر نظر آتا ہے۔
"اس نےکمبل احتیاط سے بچھایا اور قریب پڑے ہوۓ ڈیڑھ فٹ لمبے اور فٹ بھر چوڑے پتھر کو تکیے کی جگہ کمبل کے نبچے رکھا۔"یہ سب خواب سا ہے بالکل خواب سا" اس نے پتھریلے تکیہ پر سر رکھتے ہوے خلا میں گھورتے ہوۓ سوچا"
یہ پیش منظر بیانیہ کی ترتیب و تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور نہ صرف ناول کی فضا کو متعین کرتا ہے بلکہ بیانیہ کے ساختیاتی عناصر کو بھی مربوط کرتا ہے، جس سے کہانی کے مختلف اجزاء ایک مکمل اور ہم آہنگ تصویر کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس پیش منظر کے ذریعے ناول میں زمانی اور مکانی فضا کی تشکیل کی گئ ہے جو کہانی کی لا زمانی نوعیت کو نمایاں کرتی ہے۔ سلیمی کے بیانیہ میں ماضی، حال، اور مستقبل کی فضا آپس میں گھل مل جاتی ہے، اور اس عمل میں پیش منظر کی وضاحت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مثلاً، شہر، گاؤں، یا کسی خیالی مقام کی تفصیل بیانیہ کو ایک مخصوص جگہ اور وقت سے وابستہ کرتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کے عناصری بیان میں تجریدی کیفیت بھی پائی جاتی ہے، جو لا زمانی بیانیہ کی حمایت کرتی ہے۔
پیش منظر صرف مکانی اور زمانی فضا کی تشکیل تک محدود نہیں رہتا بلکہ کرداروں کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ سلیمی کے ناول میں پیش منظر اکثر کرداروں کی اندرونی حالت کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے خراب موسم، اندھیرے کا منظر، یا گہری خاموشی۔ یہ سب عناصر کرداروں کے ذہنی اور جذباتی پس منظر کو واضح کرتے ہیں اور بیانیہ کی ترتیب میں ان کے تجربات کو مزید گہرا اور بامعنی بنا دیتے ہیں۔ پیش منظر بیانیہ کی روانی اور تسلسل میں بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کرداروں کے درمیان ہونے والے واقعات کو ایک متصل سلسلے کی شکل دیتا ہے اور بیانیہ کی غیر خطی نوعیت کو بھی مستحکم کرتا ہے۔ ناول میں پیش منظر کی باریک بینی سے ترتیب دی گئی تفصیلات کہانی کو ایک سلسلے کی شکل دیتی ہیں جو بظاہر غیر مربوط نظر آنے والے واقعات کو ایک مربوط اور مربوط بیانیہ میں تبدیل کرتی ہیں۔
"اس نے اپنی کلائ پر بندھی ہوئ گھڑی میں وقت دیکھا ۔۔۔۔ ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔
وقت اور خلا ایک دوسرے سے بندھے ہوۓ ہیں ۔۔ ہم اس وقت تک خلا میں نہیں دیکھ سکتے جب تک پیچھے مڑ کر وقت نہ دیکھیں " ( صفحہ26 )
اختر رضا سلیمی نے خواب کی تعبیر اور تاریخی یادداشت کے ذریعے ایک ایسا بیانیہ تخلیق کیا ہے جو لاشعوری طور پر قاری کو وقت اور شعور کی حدود سے آزاد کر دیتا ہے۔ یہ تکنیک صرف بیانیہ کی طاقت کی علامت نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی نفسیات کے گہرے رازوں کی کھوج کا بھی ذریعہ ہے۔ جو نہ صرف وقت کی حدود کو توڑتا ہے بلکہ زبان کے استعمال میں بھی انفرادیت اور تخلیقی صلاحیت کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ اس ناول کی لسانی خصوصیات بیانیہ کی لا زمانی اور غیر مختتم نوعیت کو مزید مستحکم کرتی ہیں، جو قاری کو ایک منفرد ادبی تجربے سے روشناس کراتی ہیں۔
"وہ خواب اور حقیقت کے درمیان معلق زمان و مکان سے باہر بسر کیے ہوۓ اپنی زندگی کے اس دورانیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا " (صفحہ 26)
اختر رضا سلیمی کا ناول زمان کا گہرا نفسیاتی تجزیہ فراہم کرتا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح اس کی نفسیات صرف مرکزی موضوع نہیں ہے بلکہ پوری داستان کے لیے محرک ہے۔ یہ تجزیہ نفسیاتی نظریات کو ادبی تنقید کے ساتھ مربوط کرتا ہے، جس میں زمان کے لاشعوری اور شعوری طرز عمل کو تلاش کرنے کے لیے فرا ئیڈین اور جنگی دونوں نقطہ نظر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے کی بنیادی موضوعی توجہ زمان کی نفسیات کو بیانیہ آلہ کے طور پر تلاش کرنا ہے۔ زمان کی خود شناسی، اس کی بیرونی دنیا سے لاتعلقی، اور اس کی یادوں اور اندرونی خیالات میں غرق ہونا ناول کے پلاٹ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یادداشت، سبجیکٹیوٹی،(Subjectivity) اور وجودی سوالات کے موضوعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، جو زمان کی اس کے ماضی، اس کی موجودہ ذہنی حالت اور اس کے غیر یقینی مستقبل کے ساتھ جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔
مزید برآں، یہ ناول زمان کی ذہنی حالت پر رشتوں کے اثرات، خاص طور پر عرفان اور ماہ نور کے ساتھ اس کے روابط کی کھوج کرتا ہے۔ یہ رشتے زمان کے نفسیاتی ارتقاء کے لیے ترغیب آفریں مہیج کے طور پر کام کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ بیرونی اثرات کس طرح کسی کی اندرونی دنیا پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ ناول وجودیت، شناخت اور معنی کی تلاش کے وسیع تر موضوعات کو بھی چھوتا ہے، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ زمان کس طرح اپنے پیچیدہ نفسیاتی منظر نامے کے گرد کس طرح گردش کرتا نظر آتا ہے۔
اس حوالے میں زمان کے کردار کی تشریح کے لیے نفسیاتی نظریات کا وسیع استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں مائیکل فوکو، سگمنڈ فرائیڈ اور کارل ینگ (Carl Jung)کے کاموں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جو زمان کے گہرے نفسیاتی تنازعات کو سمجھنے کے لیے ان کے نظریات کا اطلاق کرتے ہیں۔ فوکو کے آثار قدیمہ کے طریقہ کار کا ذکر زمان کے لاشعور کو تلاش کرنے کے طریقے کے طور پر کیا جاسکتا ہے، جب کہ کارل ینگ (Carl Jung) کے اجتماعی لاشعور کے تصور کو زمان کے اپنے آباؤ اجداد کے تجربات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔یہ بین الضابطہ نقطہ نظر نہ صرف کردار کے تجزیے کو تقویت بخشتے ہیں بلکہ زمان کے ذاتی سفر کو وسیع تر فلسفیانہ اور نفسیاتی سوالات سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اجتماعی لاشعور کے جنگ کے نظریہ کا استعمال، بیانیہ کو فرد سے ماورا ہونے اور عالمگیر انسانی تجربات کو چھونے کی اجازت دیتا ہے، جس سے کردار کے مطالعہ میں گہرائی کی تہوں کا اضافہ ہوتا ہے۔
زمان کی نفسیاتی کیفیت کی عکاسی کرنے میں علامتیت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس حوالے سے زمان کی قدرتی مناظر سے وابستگی، آسمانوں اور ستاروں کے ساتھ اس کی دلچسپی اور اس کے خود شناسی رجحانات کو اس کی داخلی جدوجہد اور معنی کی تلاش کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ تصاویر نہ صرف اس کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ اس کے وجودی سفر کے استعارے کے طور پر بھی کام کرتی ہیں، جو حقیقت اور تخیل کے درمیان اس کے دوہرے پن کی عکاسی کرتی ہیں۔
مخصوص علامتوں کا استعمال، جیسے کہ زمان کا اپنی ہتھیلیوں کی طرف دیکھنا یا ہونٹوں پر تل والی لڑکی کی طرف اس کی کشش، اس کی نفسیات کی بکھری ہوئی اور ابھرتی ہوئی فطرت پر زور دیتی ہے۔ یہ تفصیلات نہ صرف عجیب و غریب کردار کی خصوصیات کے طور پر پیش کی گئی ہیں بلکہ اس کی نفسیاتی حالت کے اہم اشارے کے طور پر پیش کی گئی ہیں، جو اس کے اندرونی تنازعات اور خواہشات کو ظاہر کرتی ہیں۔
بیانیہ تنقید، نفسیاتی نظریہ اور علامتی تشریح کے امتزاج کا استعمال کرتے ہوئے یہ حوالہ زمان کے کردار کا ایک جامع اسلوبیاتی تجزیہ فراہم کرتا ہے۔ یہ مؤثر طریقے سے پیش کرتا ہے کہ کس طرح زمان کی نفسیات صرف ایک کردار کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ایک مرکزی عنصر ہے جو ٹی کی پوری داستان کو تشکیل دیتا ہے۔
اس حوالے میں بیانیہ انداز تجزیاتی اور وضاحتی ہے، جو زمان کی نفسیات کی پیچیدگیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے۔ اس حوالے میں تیسرے شخص کی بیانیہ آواز کا استعمال کیا گیا ہے جو عکاس اور تشریحی دونوں ہے، نفسیاتی بصیرت کے ساتھ ادبی تجزیہ کو پُل کرتا ہے۔ یہ امتزاج زمان کے کردار کا ایک جامع نقطہ نظر پیدا کرنے کا کام کرتا ہے، جس میں اس نفسیاتی گہرائی اور پیچیدگی پر زور دیا جاتا ہے جو ناول کی بنیاد ہے۔ حوالے کی ساخت کو زمان کی نفسیات کی مختلف موضوعاتی تحقیقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز اس کی نفسیاتی حالت کے عمومی جائزہ کے ساتھ ہوتا ہے، اس کے بعد اس کے طرز عمل، خیالات اور اس کے دماغ کو تشکیل دینے والے بیرونی اثرات کے مخصوص تجزیے ہوتے ہیں۔ یہ اقتباس زمان کی عمومی خصوصیات سے لے کر اس کے اعمال اور ان کے بنیادی نفسیاتی محرکات کے مزید تفصیلی امتحانات تک منطقی طور پر تعمیر کرتا ہے۔
زبان اور لہجہ
استعمال ہونے والی زبان رسمی اور علمی ہے، جو ادبی تنقید کے لیے علمی نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے۔ نفسیات کی تکنیکی اصطلاحات، جیسے کہ "سبجیکٹیوٹی،" "علمیات،" "بے ہوش،" اور "اجتماعی لاشعور،" کو تجزیہ کو گہرا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مطلوبہ سامعین ادبی تنقید اور نفسیاتی نظریہ دونوں سے واقف ہیں۔
لہجہ فکر انگیز اور تنقیدی ہے، جو زمان کے کردار کے مشاہدات اور تشخیص دونوں فراہم کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے، خاص طور پر ان باریک طریقے سے جن میں ماضی کے تجربات اور لاشعوری عمل رویے اور تاثر کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ تجزیاتی لہجہ قارئین کو متن کے ساتھ گہرائی سے مشغول ہونے اور زمان کے نفسیاتی سفر کے وسیع تر مضمرات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
موضوعاتی عناصر
۱. لسانی استعارے اور تشبیہات
سلیمی کے ناول میں لسانی استعارے اور تشبیہات وقت کی غیر خطی اور پیچیدہ ساخت کی عکاسی کرتے ہیں۔ زبان کے استعمال میں استعارے اور تشبیہات صرف بیانیہ کو خوبصورت نہیں بناتے بلکہ قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں وقت کے روایتی تصورات تحلیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً، خواب، آئینہ، اور پرچھائیں جیسے استعارے وقت کے متوازی وجود کو ظاہر کرتے ہیں اور کرداروں کے نفسیاتی سفر کی نمائندگی کرتے ہیں۔
۲. شعوری بہاؤ کی تکنیک
شعوری بہاؤ (Stream of Consciousness) کی تکنیک، جو سلیمی نے ناول میں مہارت کے ساتھ استعمال کی ہے، بیانیہ کی لا زمانی اور غیر مختتم نوعیت کو لسانی سطح پر بھی تقویت بخشتی ہے۔ یہ تکنیک کرداروں کے ذہنی اور شعوری عمل کی براہِ راست عکاسی کرتی ہے، جہاں ماضی، حال، اور مستقبل کے خیالات بے ترتیب مگر جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ طریقہ کار وقت کی روایتی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور قاری کو کرداروں کے شعور کے اندر جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس سے لا زمانی بیانیہ کی کیفیت مزید گہری ہوتی ہے۔
۳. زبان کا مابعدالطبعی استعمال
سلیمی کی زبان میں مابعدالطبعی (Metaphysical) عناصر کی جھلک بھی واضح ہوتی ہے، جو بیانیہ کی لا زمانی کیفیت کو ابھارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ وقت اور وجود کے مابعدالطبعی سوالات کو زبان کے ذریعے اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ قاری وقت کی قید سے آزاد ہوکر ایک وسیع تر وجودی تجربے کا حصہ بن جاتا ہے۔ مثلاً، خواب اور حقیقت کے ملاپ کے ذریعے ایک ایسی دنیا کی تشکیل کی جاتی ہے جہاں قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وقت اور حقیقت کی حدود غیر معینہ ہیں۔
۴. مبہم اور تجریدی بیانیہ
سلیمی کا بیانیہ اکثر مبہم اور تجریدی (Abstract) ہوتا ہے، جس سے کہانی کی لا زمانی اور غیر مختتم نوعیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ تجریدی زبان کا استعمال قاری کو مختلف تشریحات کے درمیان آزاد چھوڑتا ہے، جو بیانیہ کی غیر مختتم کیفیت کو تقویت بخشتا ہے۔ کرداروں کے خیالات اور مکالمات میں غیر واضح اور ادھورے جملے، منقطع خیالات، اور غیریقینی تشبیہات ناول کی لسانی ساخت کو مزید پُراسرار بناتے ہیں۔
۵. علامتی زبان
سلیمی کی زبان میں علامات کا استعمال بھی نمایاں ہے جو لا زمانی بیانیہ کی حمایت کرتا ہے۔ مثلاً، زلزلہ، خواب، اور ماضی کی یادیں، یہ سب علامات کرداروں کے اندرونی اور بیرونی سفر کی عکاسی کرتی ہیں اور بیانیہ کو وقت کی قید سے ماورا بنا دیتی ہیں۔ ان علامتی عناصر کے ذریعے، زبان ایک مستقل عمل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، جو کہانی کی غیر مختتمیت کی فضا کو مضبوط کرتی ہے۔
۶. مکالماتی ساخت
مکالمات کا استعمال بھی لا زمانی بیانیہ کی لسانی خصوصیات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سلیمی کے مکالمات نہ صرف کرداروں کے خیالات اور احساسات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان موجود زمانی اور مکانی فاصلے کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔ یہ مکالمات اکثر کرداروں کے ذہن میں جاری رہتے ہیں اور ماضی، حال، اور مستقبل کے خیالات کو ایک ساتھ جوڑنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
۷. زبان کی تنوع اور ہائبرڈٹی
سلیمی نے اپنے ناول میں مختلف زبانوں کے عناصر کو بھی شامل کیا ہے، جو بیانیہ کی لا زمانی خصوصیت کو تقویت دیتے ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور دیگر مقامی زبانوں کے الفاظ اور محاورات کا استعمال ناول کی زبان کو ایک ہائبرڈ اور متنوع ساخت فراہم کرتا ہے۔ یہ لسانی تنوع بیانیہ کی وسعت اور مختلف تہذیبی اور زمانی تجربات کے ملاپ کو ظاہر کرتا ہے۔
نتیجہ
اختر رضا سلیمی کا ناول "جگے ہیں خواب میں" نہ صرف لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ کا ایک عمدہ ادبی نمونہ ہے بلکہ اس کی لسانی خصوصیات بھی اس بیانیہ کو ایک منفرد اور گہرائی والا تجربہ بناتی ہیں۔ استعارے، شعوری بہاؤ، مبہم بیانیہ، علامتی زبان، اور زبان کی ہائبرڈٹی جیسی خصوصیات ناول کو ایک وسیع تر وجودی اور زمانی تجربے کی شکل دیتی ہیں۔ ان لسانی تکنیکوں کے ذریعے، سلیمی نے وقت اور وجود کی پیچیدگیوں کو ایک ادبی فن پارے میں اس طرح سمویا ہے کہ قاری وقت کی قید سے آزاد ہوکر ایک بے وقت اور لامحدود بیانیہ کی سیر کرتا ہے۔
اختر رضا سلیمی کے ناول"جگے ہیں خواب میں" کا لا زمانی غیر مختتم بیانیہ
علی رفاد فتیحی
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ادب میں ایک منفرد تکنیک ہے جو وقت کی روایتی حدوں کو عبور کرتی ہے اور قارئین کو مختلف ادوار اور حالتوں میں انسانی تجربات کی گہرائی میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف ماضی، حال، اور مستقبل کو ایک ساتھ جوڑتا ہے بلکہ ان سب کو ایک وحدت کی شکل میں پیش کر کے انسانی وجود کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تکنیک کا استعمال ادبی متن کو ایک ایسا سفر بناتا ہے جہاں قاری وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہوکر ایک وسیع اور متنوع تجربے سے گزرتا ہے۔لا زمانی بیانیہ کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وقت کی خطی اور سیدھی لکیر (Linear) کو رد کر کے ایک دائروی یا مخلوط وقت کی ساخت پیش کرتا ہے۔ اس میں وقت کی قید سے آزاد ہوکر بیانیہ ماضی، حال، اور مستقبل کے درمیان ایک تعامل پیدا کرتا ہے، جس سے انسانی تجربات کی ایک متوازی کائنات تشکیل پاتی ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے، کہانی وقت کے ایک لمحے میں محدود ہونے کی بجائے ایک وسیع اور بے وقت کائنات کی عکاسی کرتی ہے، جہاں تمام زمانی حقائق ایک ساتھ موجود ہیں۔
غیر مختتم بیانیہ کی دوسری اہم خصوصیت اس کا نہ ختم ہونے والا اور کھلا ہوا اختتام ہے۔ اس قسم کے بیانیہ میں کہانی کی روایتی تکمیل کی بجائے، بیانیہ کو ایک مسلسل عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے قاری کو ایک فعال شریک کے طور پر شامل ہونے کی دعوت ملتی ہے، جہاں وہ بیانیہ کو اپنی تفہیم اور تشریح کے مطابق آگے بڑھا سکتا ہے۔ غیر مختتم بیانیہ قاری کو مختلف ممکنات کے درمیان انتخاب کی آزادی فراہم کرتا ہے، جو بیانیہ کی ایک انفرادی اور متحرک ساخت کو جنم دیتا ہے۔
اختر رضا سلیمی کا ناول "جگے ہیں خواب میں" لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ کی عمدہ مثال ہے۔ اس ناول میں وقت کی قید سے آزاد ہوکر کہانی ماضی، حال، اور مستقبل کے لمحات کو ایک ساتھ جوڑتی ہے۔ مرکزی کردار زمان، جو ایک فزکس کا طالب علم ہے، ایک زلزلے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں ایک خوابیدہ سفر پر نکلتا ہے۔ اس سفر کے دوران، وہ نہ صرف اپنے حال کے تجربات سے گزرتا ہے بلکہ ماضی کی تاریخی یادوں اور مستقبل کے ممکنات سے بھی جڑ جاتا ہے۔سلیمی کا بیانیہ وقت اور شعور کے پیچیدہ سوالات کو ایک وسیع اور لا زمانی منظرنامے میں پیش کرتا ہے، جہاں لاشعور کی گہرائیوں، خواب کی تعبیر، اور تاریخی یادداشتوں کا ملاپ انسانی وجود کی ایک پیچیدہ مگر خوبصورت تصویر کشی کرتا ہے۔ سلیمی کا یہ لا زمانی بیانیہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وقت کی پابندیاں محض ایک سراب ہیں، اور حقیقی معنوں میں، تمام زمانی حقائق ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ادب میں ایک فنی تجربے کے طور پر قاری کی شمولیت اور تخلیقی تشریح کے عمل کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ بیانیہ ایک جامد حقیقت کی بجائے ایک متحرک اور متغیر حقیقت پیش کرتا ہے، جس میں قاری کو ایک شریک تخلیق کار کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے، ادب ایک محدود بیانیہ کی قید سے نکل کر ایک وسیع اور جامع تجربے کی تشکیل کرتا ہے، جو قاری کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو منعکس کرتا ہے۔
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ کی فلسفیانہ بنیادیں وقت اور وجود کی نوعیت کے بارے میں گہرے سوالات سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ بیانیہ وجود کی لازوالیت اور انسانی شعور کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتا ہے، جو ماضی، حال، اور مستقبل کو ایک مسلسل عمل کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے ذریعے، انسانی وجود کی غیر مختتم فطرت اور وقت کی دائروی ساخت کو نمایاں کیا جاتا ہے، جہاں حقیقت اور خواب، شعور اور لاشعور کی سرحدیں دھندلا جاتی ہیں۔
لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ادب میں وقت اور وجود کی نوعیت کی گہری تفہیم فراہم کرتا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف وقت کی قید سے آزاد ہوکر انسانی تجربات کی ایک وسیع اور جامع تصویر پیش کرتا ہے بلکہ قاری کو ایک فعال شریک کے طور پر شامل کر کے ادب کی فنی اور فلسفیانہ وسعت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے، بیانیہ ایک نئے اور متنوع ادبی منظرنامے کی تشکیل کرتا ہے، جو قاری کو ایک منفرد تجربے سے روشناس کراتا ہے اور اسے وقت کی قید سے آزاد کر کے ایک بے وقت سفر پر لے جاتا ہے۔
اختر رضا سلیمی کے ناول "جگے ہیں خواب میں" لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ ایک فنی اور لسانی تجربہ ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کے حالات کو اپنے بیانیے کے تانے بانے میں جوڑتا ہے۔ 2005 کے زلزلے کے پس منظر میں ترتیب دیا گیا، یہ ناول مرکزی کردار زمان کی پیروی کرتا ہے، جو فزکس کا طالب علم ہے، اور جو وقت اور شعور کے ذریعے زندگی کاسفر شروع کرتا ہے۔ اس ناول میں اختر رضا سلیمی خواب کی تعبیر، اور تاریخی یادداشت کے طریقہ کار کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ قاری زمان و مکان کی حدود کو باسانی عبور کر لیتا ہے ۔ یہ تکنیک لازمانی بیانیہ کی ترسیلی توانائ اور دسترس کا ایسا ثبوت ہے، جس سے انسانی نفسیات وجود کی گہرائی میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ ناول میں لاشعور کے نظریہ، خواب کی تعبیر، اور تاریخی یادداشت کے آمیزہ سے ایک ایسا بیانیہ وجود میں آتا ہے جس سے انسانی زندگی کی پیچیدگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اور جو وقت کی قید سے ماورا ہوکر قاری کو انسانی وجود کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس ناول کا منفرد پہلو اس کا غیر خطی اور غیر متوقع انداز ہے، جو ماضی، حال اور مستقبل کے حالات کو ایک ساتھ جوڑتا ہے۔ ناول کی کہانی 2005 کے تباہ کن زلزلے کے پس منظر میں ترتیب دی گئی ہے، جو نہ صرف ایک آسمانی آفت ہے بلکہ کہانی کی تھیماٹک (Thematic)اور علامتی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ مرکزی کردار زمان، جو کہ فزکس کا طالب علم ہے، وقت اور شعور کے پیچیدہ معاملات کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ زمان کی زندگی کا سفر دراصل وقت اور شعور کے ذریعے زندگی کو سمجھنے کا سفر ہے، جس میں ماضی کی یادیں، حال کے تجربات، اور مستقبل کے خواب مل کر ایک ایسی کہانی تخلیق کرتے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ناول کے پہلہ جملہ :"یہ سب خواب سا ہے بالکل خواب سا" زمان نے پتھریلے تکیہ پر سر رکھ کر خلا میں گھورتے ہوۓ سوچا " اس ناول میں پیش منظر (Foregrounding)کا کام کرتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ یہ جملہ ناول کے صفحہ 19 پر پھر نظر آتا ہے۔
"اس نےکمبل احتیاط سے بچھایا اور قریب پڑے ہوۓ ڈیڑھ فٹ لمبے اور فٹ بھر چوڑے پتھر کو تکیے کی جگہ کمبل کے نبچے رکھا۔"یہ سب خواب سا ہے بالکل خواب سا" اس نے پتھریلے تکیہ پر سر رکھتے ہوے خلا میں گھورتے ہوۓ سوچا"
یہ پیش منظر بیانیہ کی ترتیب و تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور نہ صرف ناول کی فضا کو متعین کرتا ہے بلکہ بیانیہ کے ساختیاتی عناصر کو بھی مربوط کرتا ہے، جس سے کہانی کے مختلف اجزاء ایک مکمل اور ہم آہنگ تصویر کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس پیش منظر کے ذریعے ناول میں زمانی اور مکانی فضا کی تشکیل کی گئ ہے جو کہانی کی لا زمانی نوعیت کو نمایاں کرتی ہے۔ سلیمی کے بیانیہ میں ماضی، حال، اور مستقبل کی فضا آپس میں گھل مل جاتی ہے، اور اس عمل میں پیش منظر کی وضاحت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مثلاً، شہر، گاؤں، یا کسی خیالی مقام کی تفصیل بیانیہ کو ایک مخصوص جگہ اور وقت سے وابستہ کرتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کے عناصری بیان میں تجریدی کیفیت بھی پائی جاتی ہے، جو لا زمانی بیانیہ کی حمایت کرتی ہے۔
پیش منظر صرف مکانی اور زمانی فضا کی تشکیل تک محدود نہیں رہتا بلکہ کرداروں کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ سلیمی کے ناول میں پیش منظر اکثر کرداروں کی اندرونی حالت کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے خراب موسم، اندھیرے کا منظر، یا گہری خاموشی۔ یہ سب عناصر کرداروں کے ذہنی اور جذباتی پس منظر کو واضح کرتے ہیں اور بیانیہ کی ترتیب میں ان کے تجربات کو مزید گہرا اور بامعنی بنا دیتے ہیں۔ پیش منظر بیانیہ کی روانی اور تسلسل میں بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کرداروں کے درمیان ہونے والے واقعات کو ایک متصل سلسلے کی شکل دیتا ہے اور بیانیہ کی غیر خطی نوعیت کو بھی مستحکم کرتا ہے۔ ناول میں پیش منظر کی باریک بینی سے ترتیب دی گئی تفصیلات کہانی کو ایک سلسلے کی شکل دیتی ہیں جو بظاہر غیر مربوط نظر آنے والے واقعات کو ایک مربوط اور مربوط بیانیہ میں تبدیل کرتی ہیں۔
"اس نے اپنی کلائ پر بندھی ہوئ گھڑی میں وقت دیکھا ۔۔۔۔ ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔
وقت اور خلا ایک دوسرے سے بندھے ہوۓ ہیں ۔۔ ہم اس وقت تک خلا میں نہیں دیکھ سکتے جب تک پیچھے مڑ کر وقت نہ دیکھیں " ( صفحہ26 )
اختر رضا سلیمی نے خواب کی تعبیر اور تاریخی یادداشت کے ذریعے ایک ایسا بیانیہ تخلیق کیا ہے جو لاشعوری طور پر قاری کو وقت اور شعور کی حدود سے آزاد کر دیتا ہے۔ یہ تکنیک صرف بیانیہ کی طاقت کی علامت نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی نفسیات کے گہرے رازوں کی کھوج کا بھی ذریعہ ہے۔ جو نہ صرف وقت کی حدود کو توڑتا ہے بلکہ زبان کے استعمال میں بھی انفرادیت اور تخلیقی صلاحیت کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ اس ناول کی لسانی خصوصیات بیانیہ کی لا زمانی اور غیر مختتم نوعیت کو مزید مستحکم کرتی ہیں، جو قاری کو ایک منفرد ادبی تجربے سے روشناس کراتی ہیں۔
"وہ خواب اور حقیقت کے درمیان معلق زمان و مکان سے باہر بسر کیے ہوۓ اپنی زندگی کے اس دورانیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا " (صفحہ 26)
اختر رضا سلیمی کا ناول زمان کا گہرا نفسیاتی تجزیہ فراہم کرتا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح اس کی نفسیات صرف مرکزی موضوع نہیں ہے بلکہ پوری داستان کے لیے محرک ہے۔ یہ تجزیہ نفسیاتی نظریات کو ادبی تنقید کے ساتھ مربوط کرتا ہے، جس میں زمان کے لاشعوری اور شعوری طرز عمل کو تلاش کرنے کے لیے فرا ئیڈین اور جنگی دونوں نقطہ نظر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے کی بنیادی موضوعی توجہ زمان کی نفسیات کو بیانیہ آلہ کے طور پر تلاش کرنا ہے۔ زمان کی خود شناسی، اس کی بیرونی دنیا سے لاتعلقی، اور اس کی یادوں اور اندرونی خیالات میں غرق ہونا ناول کے پلاٹ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یادداشت، سبجیکٹیوٹی،(Subjectivity) اور وجودی سوالات کے موضوعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، جو زمان کی اس کے ماضی، اس کی موجودہ ذہنی حالت اور اس کے غیر یقینی مستقبل کے ساتھ جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔
مزید برآں، یہ ناول زمان کی ذہنی حالت پر رشتوں کے اثرات، خاص طور پر عرفان اور ماہ نور کے ساتھ اس کے روابط کی کھوج کرتا ہے۔ یہ رشتے زمان کے نفسیاتی ارتقاء کے لیے ترغیب آفریں مہیج کے طور پر کام کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ بیرونی اثرات کس طرح کسی کی اندرونی دنیا پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ ناول وجودیت، شناخت اور معنی کی تلاش کے وسیع تر موضوعات کو بھی چھوتا ہے، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ زمان کس طرح اپنے پیچیدہ نفسیاتی منظر نامے کے گرد کس طرح گردش کرتا نظر آتا ہے۔
اس حوالے میں زمان کے کردار کی تشریح کے لیے نفسیاتی نظریات کا وسیع استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں مائیکل فوکو، سگمنڈ فرائیڈ اور کارل ینگ (Carl Jung)کے کاموں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جو زمان کے گہرے نفسیاتی تنازعات کو سمجھنے کے لیے ان کے نظریات کا اطلاق کرتے ہیں۔ فوکو کے آثار قدیمہ کے طریقہ کار کا ذکر زمان کے لاشعور کو تلاش کرنے کے طریقے کے طور پر کیا جاسکتا ہے، جب کہ کارل ینگ (Carl Jung) کے اجتماعی لاشعور کے تصور کو زمان کے اپنے آباؤ اجداد کے تجربات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔یہ بین الضابطہ نقطہ نظر نہ صرف کردار کے تجزیے کو تقویت بخشتے ہیں بلکہ زمان کے ذاتی سفر کو وسیع تر فلسفیانہ اور نفسیاتی سوالات سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اجتماعی لاشعور کے جنگ کے نظریہ کا استعمال، بیانیہ کو فرد سے ماورا ہونے اور عالمگیر انسانی تجربات کو چھونے کی اجازت دیتا ہے، جس سے کردار کے مطالعہ میں گہرائی کی تہوں کا اضافہ ہوتا ہے۔
زمان کی نفسیاتی کیفیت کی عکاسی کرنے میں علامتیت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس حوالے سے زمان کی قدرتی مناظر سے وابستگی، آسمانوں اور ستاروں کے ساتھ اس کی دلچسپی اور اس کے خود شناسی رجحانات کو اس کی داخلی جدوجہد اور معنی کی تلاش کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ تصاویر نہ صرف اس کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ اس کے وجودی سفر کے استعارے کے طور پر بھی کام کرتی ہیں، جو حقیقت اور تخیل کے درمیان اس کے دوہرے پن کی عکاسی کرتی ہیں۔
مخصوص علامتوں کا استعمال، جیسے کہ زمان کا اپنی ہتھیلیوں کی طرف دیکھنا یا ہونٹوں پر تل والی لڑکی کی طرف اس کی کشش، اس کی نفسیات کی بکھری ہوئی اور ابھرتی ہوئی فطرت پر زور دیتی ہے۔ یہ تفصیلات نہ صرف عجیب و غریب کردار کی خصوصیات کے طور پر پیش کی گئی ہیں بلکہ اس کی نفسیاتی حالت کے اہم اشارے کے طور پر پیش کی گئی ہیں، جو اس کے اندرونی تنازعات اور خواہشات کو ظاہر کرتی ہیں۔
بیانیہ تنقید، نفسیاتی نظریہ اور علامتی تشریح کے امتزاج کا استعمال کرتے ہوئے یہ حوالہ زمان کے کردار کا ایک جامع اسلوبیاتی تجزیہ فراہم کرتا ہے۔ یہ مؤثر طریقے سے پیش کرتا ہے کہ کس طرح زمان کی نفسیات صرف ایک کردار کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ایک مرکزی عنصر ہے جو ٹی کی پوری داستان کو تشکیل دیتا ہے۔
اس حوالے میں بیانیہ انداز تجزیاتی اور وضاحتی ہے، جو زمان کی نفسیات کی پیچیدگیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے۔ اس حوالے میں تیسرے شخص کی بیانیہ آواز کا استعمال کیا گیا ہے جو عکاس اور تشریحی دونوں ہے، نفسیاتی بصیرت کے ساتھ ادبی تجزیہ کو پُل کرتا ہے۔ یہ امتزاج زمان کے کردار کا ایک جامع نقطہ نظر پیدا کرنے کا کام کرتا ہے، جس میں اس نفسیاتی گہرائی اور پیچیدگی پر زور دیا جاتا ہے جو ناول کی بنیاد ہے۔ حوالے کی ساخت کو زمان کی نفسیات کی مختلف موضوعاتی تحقیقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز اس کی نفسیاتی حالت کے عمومی جائزہ کے ساتھ ہوتا ہے، اس کے بعد اس کے طرز عمل، خیالات اور اس کے دماغ کو تشکیل دینے والے بیرونی اثرات کے مخصوص تجزیے ہوتے ہیں۔ یہ اقتباس زمان کی عمومی خصوصیات سے لے کر اس کے اعمال اور ان کے بنیادی نفسیاتی محرکات کے مزید تفصیلی امتحانات تک منطقی طور پر تعمیر کرتا ہے۔
زبان اور لہجہ
استعمال ہونے والی زبان رسمی اور علمی ہے، جو ادبی تنقید کے لیے علمی نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے۔ نفسیات کی تکنیکی اصطلاحات، جیسے کہ "سبجیکٹیوٹی،" "علمیات،" "بے ہوش،" اور "اجتماعی لاشعور،" کو تجزیہ کو گہرا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مطلوبہ سامعین ادبی تنقید اور نفسیاتی نظریہ دونوں سے واقف ہیں۔
لہجہ فکر انگیز اور تنقیدی ہے، جو زمان کے کردار کے مشاہدات اور تشخیص دونوں فراہم کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے، خاص طور پر ان باریک طریقے سے جن میں ماضی کے تجربات اور لاشعوری عمل رویے اور تاثر کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ تجزیاتی لہجہ قارئین کو متن کے ساتھ گہرائی سے مشغول ہونے اور زمان کے نفسیاتی سفر کے وسیع تر مضمرات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
موضوعاتی عناصر
۱. لسانی استعارے اور تشبیہات
سلیمی کے ناول میں لسانی استعارے اور تشبیہات وقت کی غیر خطی اور پیچیدہ ساخت کی عکاسی کرتے ہیں۔ زبان کے استعمال میں استعارے اور تشبیہات صرف بیانیہ کو خوبصورت نہیں بناتے بلکہ قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں وقت کے روایتی تصورات تحلیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً، خواب، آئینہ، اور پرچھائیں جیسے استعارے وقت کے متوازی وجود کو ظاہر کرتے ہیں اور کرداروں کے نفسیاتی سفر کی نمائندگی کرتے ہیں۔
۲. شعوری بہاؤ کی تکنیک
شعوری بہاؤ (Stream of Consciousness) کی تکنیک، جو سلیمی نے ناول میں مہارت کے ساتھ استعمال کی ہے، بیانیہ کی لا زمانی اور غیر مختتم نوعیت کو لسانی سطح پر بھی تقویت بخشتی ہے۔ یہ تکنیک کرداروں کے ذہنی اور شعوری عمل کی براہِ راست عکاسی کرتی ہے، جہاں ماضی، حال، اور مستقبل کے خیالات بے ترتیب مگر جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ طریقہ کار وقت کی روایتی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور قاری کو کرداروں کے شعور کے اندر جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس سے لا زمانی بیانیہ کی کیفیت مزید گہری ہوتی ہے۔
۳. زبان کا مابعدالطبعی استعمال
سلیمی کی زبان میں مابعدالطبعی (Metaphysical) عناصر کی جھلک بھی واضح ہوتی ہے، جو بیانیہ کی لا زمانی کیفیت کو ابھارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ وقت اور وجود کے مابعدالطبعی سوالات کو زبان کے ذریعے اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ قاری وقت کی قید سے آزاد ہوکر ایک وسیع تر وجودی تجربے کا حصہ بن جاتا ہے۔ مثلاً، خواب اور حقیقت کے ملاپ کے ذریعے ایک ایسی دنیا کی تشکیل کی جاتی ہے جہاں قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وقت اور حقیقت کی حدود غیر معینہ ہیں۔
۴. مبہم اور تجریدی بیانیہ
سلیمی کا بیانیہ اکثر مبہم اور تجریدی (Abstract) ہوتا ہے، جس سے کہانی کی لا زمانی اور غیر مختتم نوعیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ تجریدی زبان کا استعمال قاری کو مختلف تشریحات کے درمیان آزاد چھوڑتا ہے، جو بیانیہ کی غیر مختتم کیفیت کو تقویت بخشتا ہے۔ کرداروں کے خیالات اور مکالمات میں غیر واضح اور ادھورے جملے، منقطع خیالات، اور غیریقینی تشبیہات ناول کی لسانی ساخت کو مزید پُراسرار بناتے ہیں۔
۵. علامتی زبان
سلیمی کی زبان میں علامات کا استعمال بھی نمایاں ہے جو لا زمانی بیانیہ کی حمایت کرتا ہے۔ مثلاً، زلزلہ، خواب، اور ماضی کی یادیں، یہ سب علامات کرداروں کے اندرونی اور بیرونی سفر کی عکاسی کرتی ہیں اور بیانیہ کو وقت کی قید سے ماورا بنا دیتی ہیں۔ ان علامتی عناصر کے ذریعے، زبان ایک مستقل عمل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، جو کہانی کی غیر مختتمیت کی فضا کو مضبوط کرتی ہے۔
۶. مکالماتی ساخت
مکالمات کا استعمال بھی لا زمانی بیانیہ کی لسانی خصوصیات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سلیمی کے مکالمات نہ صرف کرداروں کے خیالات اور احساسات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان موجود زمانی اور مکانی فاصلے کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔ یہ مکالمات اکثر کرداروں کے ذہن میں جاری رہتے ہیں اور ماضی، حال، اور مستقبل کے خیالات کو ایک ساتھ جوڑنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
۷. زبان کی تنوع اور ہائبرڈٹی
سلیمی نے اپنے ناول میں مختلف زبانوں کے عناصر کو بھی شامل کیا ہے، جو بیانیہ کی لا زمانی خصوصیت کو تقویت دیتے ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور دیگر مقامی زبانوں کے الفاظ اور محاورات کا استعمال ناول کی زبان کو ایک ہائبرڈ اور متنوع ساخت فراہم کرتا ہے۔ یہ لسانی تنوع بیانیہ کی وسعت اور مختلف تہذیبی اور زمانی تجربات کے ملاپ کو ظاہر کرتا ہے۔
نتیجہ
اختر رضا سلیمی کا ناول "جگے ہیں خواب میں" نہ صرف لا زمانی اور غیر مختتم بیانیہ کا ایک عمدہ ادبی نمونہ ہے بلکہ اس کی لسانی خصوصیات بھی اس بیانیہ کو ایک منفرد اور گہرائی والا تجربہ بناتی ہیں۔ استعارے، شعوری بہاؤ، مبہم بیانیہ، علامتی زبان، اور زبان کی ہائبرڈٹی جیسی خصوصیات ناول کو ایک وسیع تر وجودی اور زمانی تجربے کی شکل دیتی ہیں۔ ان لسانی تکنیکوں کے ذریعے، سلیمی نے وقت اور وجود کی پیچیدگیوں کو ایک ادبی فن پارے میں اس طرح سمویا ہے کہ قاری وقت کی قید سے آزاد ہوکر ایک بے وقت اور لامحدود بیانیہ کی سیر کرتا ہے۔