نصیر احمد ناصر کی تین نظمیں
نصیر احمد ناصر کی تین نظمیں
Mar 26, 2024
دیدبان شمارہ مارچ 2024
میں تمہیں کبھی نہیں ملوں گا
نصیر احمد ناصر
میں تمہیں مِلوں گا
شام سے ذرا پہلے
جب چراغ ابھی روشن نہیں ہوئے ہوں گے
پہاڑوں سے اترتے ہوئے
ان چوبی مکانوں کے آس پاس
جن کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا ہو گا
میں تمہیں مِلوں گا
دن کے کسی بھی حصے میں
گھاس کے ان میدانوں میں
جہاں بھیڑوں کے ریوڑ ہانکتے ہوئے
بوڑھے چرواہے
آہستہ آہستہ ابد کی جانب گامزن ہوں گے
میں تمہیں مِلوں گا
رات کے آخری پہر
کسی دھند آلود ہموار نشیبی سطح پر
ایک خواب کے خیمے میں
جہاں دکھائی نہ دینے والے آسمان پر
چاند بجھ چکا ہو گا
اور صبح کاذب کی نیم تاریکی میں
دُور ایک آخری ستارہ ٹمٹما رہا ہو گا
میں تمہیں مِلوں گا
اِس عمر یا کسی بھی عمر کے دورانیے میں
سورج مکھی کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے
جہاں طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کا منظر ایک جیسا ہوتا ہے
میں تمہیں کہیں اور نہ ملا
تو نزار قبانی کی نظموں میں ضرور ملوں گا
میں تمہیں ملوں گا
آخری بار
ایک خواب کی ویرانی میں
جسے تمہارے اور میرے علاوہ کوئی نہیں
! دیکھ سکے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شِیلَم
نصیر احمد ناصر
شیلم ایک راستہ ہے
جس پر چلتے ہوئے
وقت کے پاوں تھک جاتے ہیں
شیلم ایک گیت ہے
جسے بارشیں
کبھی تیز کبھی مدھم
سُروں میں گاتی ہیں
شیلم ایک خواب ہے
جسے دیکھتے ہوئے
آنکھیں نیند سے باہر چلی جاتی ہیں
شیلم ایک نام ہے
جو صبح دم چہچہاتے پرندوں
اور بوڑھے درختوں پہ اچھلتی
گلہریوں کو ازبر ہے
شیلم ایک پھول ہے
جو کبھی سورج مکھی
کبھی چڑی جُھمکا
کبھی ہاتھوں کا موتیا
کبھی پاؤں کے گلاب بن کر
دلوں کے باغوں میں کِھلتا
اور مہکتا ہے
شیلم ایک لڑکی ہے
جس کی دوستی
نیم پختہ صحنوں میں پھرتی
مرغیوں، بلیوں
چوبی برآمدوں میں
خالی کرسیوں پر بیٹھی تنہائی
اور پہاڑوں کے اُس پار
ابدی چراگاہوں میں
بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ ہانکتے
چرواہوں سے
اور غاروں میں پلتی
چمگادڑوں اور مکڑیوں سے ہے
شیلم ایک لفظ ہے
قدیم پتھروں پر کندہ
اور محبت کی ازلی بارگاہ میں رکھی
ڈکشنری میں لکھا ہوا
جس کے معنی
میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا
شیلم ایک نظم ہے
جسے لکھنے کے لیے
!کسی لفظ کی ضرورت نہیں
..................
نظم لکھتے ہوئے
نصیر احمد ناصر
ہر روز میرے جسم سے
تیز آنکھوں والی کوئی چیز نکلتی ہے
اور دور دست جہانوں میں گھومنے چلی جاتی ہے
وہ جو کچھ دیکھتی ہے
غیبی آنکھوں سے مجھے بھی دکھائی دیتا ہے
میں نے دیکھا
تم شال اوڑھے ہوئے
نیم خوابیدہ صحن میں چکر کاٹ رہی تھیں
اور کچھ دیر بعد غسل گاہ میں
آئینے کے سامنے کھڑی
سینے پہ اُگ آنے والے پہاڑ دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں
اور اب میرے سامنے کسی دور دراز قصبے میں
سڑک کے کنارے
ایک لڑکی وائلن بجا رہی ہے
اور ایک بچہ
بِن بیاہی نو عمر ماں کی انگلی پکڑے
ننھے قدموں سے تھرک رہا ہے
وائلن بجاتی لڑکی خوبصورت ہے
اور ہوا اس کے بالوں کو بار بار چھیڑتی ہے
اچانک منظر بدل جاتا ہے
ایک خستہ حال آدمی رفع حاجت کے لیے جگہ ڈھونڈ رہا ہے
یہ شاید تیسری دنیا کا کوئی شہر ہے
جس کی مرکزی شاہراہ پر
بظاہر انسانوں کا ایک ہجوم نعرے لگاتا ہوا جا رہا ہے
میں ہر روز اس عذاب سے گزرتا ہوں
اور دعا کرتا ہوں
کہ کسی روز یہ نادیدہ شے میرے جسم سے نکلے
اور واپسی کا راستہ بھول جائے
یا غلطی سے کسی اور جسم کو میرا جسم سمجھ لے
یا کسی کےخواب میں اپنی آنکھیں گم کر آئے
اور اب جب میں یہ نظم لکھ رہا ہوں
تیز آنکھوں والی غیبی چیز
واپس میرے جسم میں داخل ہو رہی ہے
......................
دیدبان شمارہ مارچ 2024
میں تمہیں کبھی نہیں ملوں گا
نصیر احمد ناصر
میں تمہیں مِلوں گا
شام سے ذرا پہلے
جب چراغ ابھی روشن نہیں ہوئے ہوں گے
پہاڑوں سے اترتے ہوئے
ان چوبی مکانوں کے آس پاس
جن کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا ہو گا
میں تمہیں مِلوں گا
دن کے کسی بھی حصے میں
گھاس کے ان میدانوں میں
جہاں بھیڑوں کے ریوڑ ہانکتے ہوئے
بوڑھے چرواہے
آہستہ آہستہ ابد کی جانب گامزن ہوں گے
میں تمہیں مِلوں گا
رات کے آخری پہر
کسی دھند آلود ہموار نشیبی سطح پر
ایک خواب کے خیمے میں
جہاں دکھائی نہ دینے والے آسمان پر
چاند بجھ چکا ہو گا
اور صبح کاذب کی نیم تاریکی میں
دُور ایک آخری ستارہ ٹمٹما رہا ہو گا
میں تمہیں مِلوں گا
اِس عمر یا کسی بھی عمر کے دورانیے میں
سورج مکھی کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے
جہاں طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کا منظر ایک جیسا ہوتا ہے
میں تمہیں کہیں اور نہ ملا
تو نزار قبانی کی نظموں میں ضرور ملوں گا
میں تمہیں ملوں گا
آخری بار
ایک خواب کی ویرانی میں
جسے تمہارے اور میرے علاوہ کوئی نہیں
! دیکھ سکے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شِیلَم
نصیر احمد ناصر
شیلم ایک راستہ ہے
جس پر چلتے ہوئے
وقت کے پاوں تھک جاتے ہیں
شیلم ایک گیت ہے
جسے بارشیں
کبھی تیز کبھی مدھم
سُروں میں گاتی ہیں
شیلم ایک خواب ہے
جسے دیکھتے ہوئے
آنکھیں نیند سے باہر چلی جاتی ہیں
شیلم ایک نام ہے
جو صبح دم چہچہاتے پرندوں
اور بوڑھے درختوں پہ اچھلتی
گلہریوں کو ازبر ہے
شیلم ایک پھول ہے
جو کبھی سورج مکھی
کبھی چڑی جُھمکا
کبھی ہاتھوں کا موتیا
کبھی پاؤں کے گلاب بن کر
دلوں کے باغوں میں کِھلتا
اور مہکتا ہے
شیلم ایک لڑکی ہے
جس کی دوستی
نیم پختہ صحنوں میں پھرتی
مرغیوں، بلیوں
چوبی برآمدوں میں
خالی کرسیوں پر بیٹھی تنہائی
اور پہاڑوں کے اُس پار
ابدی چراگاہوں میں
بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ ہانکتے
چرواہوں سے
اور غاروں میں پلتی
چمگادڑوں اور مکڑیوں سے ہے
شیلم ایک لفظ ہے
قدیم پتھروں پر کندہ
اور محبت کی ازلی بارگاہ میں رکھی
ڈکشنری میں لکھا ہوا
جس کے معنی
میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا
شیلم ایک نظم ہے
جسے لکھنے کے لیے
!کسی لفظ کی ضرورت نہیں
..................
نظم لکھتے ہوئے
نصیر احمد ناصر
ہر روز میرے جسم سے
تیز آنکھوں والی کوئی چیز نکلتی ہے
اور دور دست جہانوں میں گھومنے چلی جاتی ہے
وہ جو کچھ دیکھتی ہے
غیبی آنکھوں سے مجھے بھی دکھائی دیتا ہے
میں نے دیکھا
تم شال اوڑھے ہوئے
نیم خوابیدہ صحن میں چکر کاٹ رہی تھیں
اور کچھ دیر بعد غسل گاہ میں
آئینے کے سامنے کھڑی
سینے پہ اُگ آنے والے پہاڑ دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں
اور اب میرے سامنے کسی دور دراز قصبے میں
سڑک کے کنارے
ایک لڑکی وائلن بجا رہی ہے
اور ایک بچہ
بِن بیاہی نو عمر ماں کی انگلی پکڑے
ننھے قدموں سے تھرک رہا ہے
وائلن بجاتی لڑکی خوبصورت ہے
اور ہوا اس کے بالوں کو بار بار چھیڑتی ہے
اچانک منظر بدل جاتا ہے
ایک خستہ حال آدمی رفع حاجت کے لیے جگہ ڈھونڈ رہا ہے
یہ شاید تیسری دنیا کا کوئی شہر ہے
جس کی مرکزی شاہراہ پر
بظاہر انسانوں کا ایک ہجوم نعرے لگاتا ہوا جا رہا ہے
میں ہر روز اس عذاب سے گزرتا ہوں
اور دعا کرتا ہوں
کہ کسی روز یہ نادیدہ شے میرے جسم سے نکلے
اور واپسی کا راستہ بھول جائے
یا غلطی سے کسی اور جسم کو میرا جسم سمجھ لے
یا کسی کےخواب میں اپنی آنکھیں گم کر آئے
اور اب جب میں یہ نظم لکھ رہا ہوں
تیز آنکھوں والی غیبی چیز
واپس میرے جسم میں داخل ہو رہی ہے
......................