نقش جمیل

نقش جمیل

May 19, 2019

مصور جمیل نقش کی باتیں

نقش جمیل

مصور جمیل نقش کی باتیں

تحریر:محمد اقبال دیوان

یہ ایک مختصر سا تاثراتی مضمون ہے۔دو ملاقاتوں پر مشتمل۔دونوں کا کل ملا کر دورانیہ تین گھنٹے سے شاید ہی کچھ زیادہ ہو۔

ہمارے ایک ماتحت ان دنوں بلدیہ میں پارکس کے افسر ہوتے تھے۔نستعلیق،خوش مزاج باذوق،سندھ کے ایک بڑے شاعر کے داماد مگر بیگم سے نالاں۔جمیل نقش کے کوئی عزیز ان کے ماتحت ہوتے تھے۔یوں روابط ہوگئے۔دنیا داری کا فن آتا تھا۔ کشادہ اور دھیمے شائستہ مزاج کے مالک تھے سو سب کو اچھے لگتے تھے

جمیل نقش ان دنوں کراچی ایڈمنسٹریٹو سوسائیٹی کے پچھواڑے میں نالے کی طرف پشت کیے مکان میں رہتے تھے۔ ایک ہزار گز کا خالی قطعہ اراضی ان کے گھر کے عقب میں لڑھکتا لڑھکتا، نالے میں جاگرتا تھا۔جمیل صاحب کا خیال تھا کہ اس میں سبزہ وغیرہ لگ جائے تو ان کا باغبانی کا شوق بھی پورا ہوجائے گا اور پاس پڑوس کی بدصورتی بھی مٹ جائے گی۔

بلدیہ ایسے پرسنل فیورز میں چوکتی تو نہ تھی۔یہاں ایم کیو ایم حقیقی کے ایک وزیر ارشاد احمد نے اپنی ایک عزیزہ کو اسلام کی پہلی خاتون موذن بھرتی کیا تھا ۔ہزاروں مسلمان جمعدار بھی بھرتی کررکھے تھے جو سوائے سرکار کی جیب کے علاوہ کسی اور شے کی صفائی نہ کرتے تھے ۔ہماری آمد پر اتنا ہوا کہ جب ان کی تنخواہیں روکی گئیں تو انہوں نے اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ غیر مسلم ملازمین پر خرچ کرکے علاقے میں صفائی کا انتظام آئوٹ سورس کردیا۔ ملازمین ہم سے ڈرتے تھے۔ماتحت شیخ صاحب نے بہت سلیقے سے جو سندھی بیوروکریسی کا سماجی اور ثقافتی وطیرہ ہے۔ ان کے ہاں

Informal تنظیم،

Formal

تنظیم پر بھاری ہو تی ہے۔

ہمیں کہا سر کچھ وقت ہو تو آپ کو علاقے کے کچھ پارکس بھی دکھادیتے ہیں۔بجٹ بن رہا

ہے۔اس میں ان پارکوں کا کام آپ کے معائنے کے بعد ڈال دیں گے۔

دورے پر جاتے ہوئے انہوں نے آرمین کی بیکری سے کیک لیا۔آرمین پارسی تھی ۔نوجوان دیدہ زیب، سجل اور اپنے کیکس کی طرح نرم و ملائم ۔ہم سے گجراتی بولی توشیخ صاحب کو لگا کہ مزاج کی شراب کو لگاوٹ کی برف مل گئی ہے۔ یوں انہیں ہمارے موڈ کی موزونیت کا علم ہوگیا۔

سیدھا سرکاری کار کا رخ جمیل نقش کے محلے کی جانب موڑ دیا مطلوب یہ تھا کہ جمیل صاحب کی فرمائش پر سرخرو ہوجائیں ۔ کہنے لگے’’ سر آپ کو ایک نفیس آرٹسٹ سے ملاتے ہیں۔ نوری ٹاکی کے ٹی سیٹ میں چائے پلاتے ہیں۔چائے کا ایک دور ختم نہیں ہوتا ک دوسرے نفیس ٹی سیٹ میں چائے آجاتی ہے۔ یہ ہمارے لیے دل چسپ نکتہ تھا۔

اس سے پہلے اردشیر کائوس جی ہمیں اپنے گھر پر سونے کی کناری والے ٹیبل ویر میں ناشتہ کراچکے تھے۔جس طرح مشہور صحافی سہیل وڑائچ کو لاہور کی ابھرتی اسٹیج اداکاروں کے ساتھ ایک دن بتانے کا بہت شوق ہے اس طرح ہماری بھی کوشش ہوتی تھی کہ سرکاری نوکری میں اہل ذوق سے ملاقات ہوجائے۔

شیخ صاحب کی تجویز تھی کہ مختلف پارکس کے دوسرے سے پہلے ان سے ملتے ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم ان کی رفاقت میں جمیل نقش صاحب کے آستانہ عالیہ پر موجود تھے۔اس سے قبل ہمارا واسطہ غریبوں کے جمیل نقش ،اقبال درانی سے پڑ چکا تھا ۔ہمارے ایک دوست انہیں اور مشکور ضا کو غریبوں کے جمیل نقش اور ایم ایف حسین کہتے تھے۔درانی صاحب نقش صاحب کی طرح کبوتر اور رضا میاںایم ایف حسین کی طرح گھوڑے پینٹ کرتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ اقبال درانی کے کبوتر اور مشکور رضا کے گھوڑے نسلی نہیں ہوتے اس لیے ان کی پینٹنگز دیگر دو نامور مصوروں جتنی مہنگی نہیں ہوتیں۔

آرٹسٹ ہمارے لیے نئے نہ تھے۔رحیم ناگوری سے رشتہ داری تھی اور مسرت مرزا کے ہم لاڈلے شاگرد تھے۔

امریکہ کے بھی آرٹ سین کا چھوٹا موٹا اندازہ تھا۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں جب دنیا بھر میں مقابلے کی ایک اسکالر شپ یعنی ہمفرے فیلو شپ جو افسران غلام پیشہ کے لیے مخصوص تھی جیت کر پہنچے تو بطور اختیاری مضمون میں فگر ڈرائینگ میں ہمیں ہم جماعت لنڈا اسمتھ لے گئی

ہم امریکہ کی فارن پالیسی کے کورس میں جانا چاہتے تھے۔

۔اس کا کہنا تھا کہ جہاں مائیکل جیکسن،مڈونا اور ٹام کروز جیسے آئی کن موجود ہوں وہاں ایک غریب ملک کے شاخ پردم سے لٹکے لنگور افسر کی کیا اوقات۔امریکہ اگر تمہارے جیسے غریب غربا کو اپنے نصاب میں اپنے راز بتانے لگے جائے تو پھر یہ سی آئی اے اور بوہیمین گرو âامریکہ کاایک بے حد خفیہ کلب جہاں امریکہ کے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔خواتین اس کی ممبر نہیں بن سکتیںáکو ہم پاکستان کے حوالے کردوں۔ندیا دھیرے بہو۔ابھی تک انہوں نے عمران خان پر ہاتھ نہیں رکھا تو بڑے آئے تم کو تم کو اس پروگرام میں کچھ مقام رفعت ملے گا۔مزار کے پھول دلہن کا گلدستہ نہیں بن سکتے ۔ میرے ساتھ

فگر ڈرائینگ کی کلاس میں شامل ہوجائو

دنیا فن ،سائینس اور آرٹ کو مانتی ہے۔امریکی فوج کا سپہ سالار کون ہے یہ یونی ورسٹی میں شاید ہی کسی طالب علم کو پتہ ہو مگر پارٹ ٹائم لوور کس نے گایا ہے یہ تمہاری سوئمنگ کوچ چیکی نیلسن کو بھی معلوم ہوگا۔سو ہم نے بھی گا کر کہا اب چاہے کہیں بھی لے جا ، تو آگے اور میں پیچھے

داخلے کے وقت ایڈمیشن کلرک کا کہنا تھا استاد محترم سے ملنا بہتر ہوگا ۔ان کی رضامندی لازم ہے۔ استاد محترم ہم عمر ہی تھے۔چپ چاپ ،شرمیلے، مگر فن مصوری میں طاق۔کہنے لگے آپ یقینا مسلمان ہیں۔مجھے داخلہ دینے میں کوئی عار نہیں مگر سوچا کہ جتا دوں کہ کلاس میں یوں ہوگا کہ جو ماڈل سامنے موجود ہوگی اس کے پورے بدن پر سوائے مسکراہٹ کے لیے کچھ اور نہ ہوگا۔ یہ سب کچھ شاید آپ کے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔ہم نے بات یہ کہہ کر ٹالی کے سیکس مذہب سے پہلے انسان کی زندگی میں اودھم مچاتی ہے۔
بہت ہنسے۔یہ سن کر اور بھی خوش ہوئے کہ یہ تاثر کہ اسلام اچھی
Anatomy
کا مخالف ہے، درست نہیں۔ اس سے مذہبی امتیاز کا شائبہ بھی گزرتا ہے۔فوراً سے کہنے لگے
Admitted
۔بہت دن بعد جب اپنی پڑوسن ڈورین میک آرتھر عمری انیس برس، رنگ گورا، خوش قامت جس کو دیکھ کر ہم اکثر سوچتے تھے کہ کسے نصیب بے پیرہن اسے دیکھے کو ہم نے کہا ہماری فگر ڈرائینگ کی کلاس میں ماڈل بنے گی۔ کہنے لگی وہاں تو بہت اچھے پیسے ملتے ہیں مگر

مجھے کوئی وہاں نہیں جانتا۔ ہم نے کہا کس کا ہے تم کو انتظار میں ہوں نا۔استاد محترم جن کا خیال تھا کہ ماڈل کو ہم کم اور کاغذ کو زیادہ دیکھیں تو پکاسو کو لینے کے دینے پڑسکتے ہیں ان کو ذکر کیا تو کہنے لگے۔ لے آئو۔سو جب ڈورین نے باتھ روب ایک طرف اچھالا تو مکیں ادھر کے بھی جلوئے ادھر کے دیکھتے ہی رہے۔

ذکر تھا غریبوں کے جمیل نقش، اقبال درانی کا۔ٹریفک چیکنگ میں ون وے کی خلاف ورزی

کے مرتکب پائے جانے پر انسپکٹر فرحت انہیں تھام کر لے آئے۔حضرت مشتعل تھے۔عدالت سے کہنے لگے۔جج صاحب اس ملک میں فن کی کیا یہی قدر ہے۔مجھے پولیس موبائیل میں بٹھا کر لایا گیا۔ہم نے کہا تحمل سے اس بات کا جواب دیں کہ پولیس نے آپ کو خراب پینٹنگ بنانے پر پکڑا ہے کہ ون

وے کی خلاف ورزی پر۔وہ اس کے باوجود مصر تھے کہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ہم نے کہا مثلاً کتنا۔ آپ کولن ڈیوڈ، سعید اختر، بشیر مرزا،اقبال حسین،گل جی سے بڑے آرٹسٹ ہیں۔نارتھ ناظم آباد کی ٹریفک چوکی پر مجسٹریٹ درجہ اول کے منھ سے اتنے اہم نام سن کر سکتے میں آگئے مگر پولیس کے رویے سے ان کی انا بری طرح مجروح ہوئی تھی۔وہی ضد کے مجھے صحیح مقام و منزلت نہیں ملی۔باہر کی دنیا تو آرٹسٹوں ،کھلاڑیوں کے نام پر بچھ بچھ جاتی ہے۔ہم نے پوچھا کہ مائیکل جیکسن کا نام سنا ہے۔کہنے لگا جی ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چمپیئن ہیں۔ہم نے کہا آج کل کہاں۔منمنائے جیل میں۔

ہم نے کہا ہماری گاڑی میں بیٹھ جائیں۔دفتر چلتے ہیں۔ آپ کو کھانا بھی کھلاتے ہیں ۔ آپ کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ایک منی بس والے پر پندرہ سو کا جرمانہ بارہ سو کرکے ان کے تین سو روپے ادا کرائے۔مرید ہوگئے ۔کہنے لگے آپ کو تو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہونا چاہیے۔بیگم کے ساتھ گھر آئے۔ ایک پینٹنگ اور رباعیات عمر خیام کا یہ نسخہ چھوڑ گئے۔یہ دونوں اب ہماری بیٹی کے پاس نیویارک میں ہیں۔

اسی دن ایک اور خاتون بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔ٹی وی کی نئی نویلی اداکارہ۔

بابرہ شریف کے برق کے اشتہار جیسی جس پر فریفتہ ہوکر شیوخ العرب نے چولستان آباد کردیا۔مردوں کی ایک محفل میں کسی نے پوچھا تھا کہ تین بہنوں فردوس، فاخرہ، بابرہ، اور دو بھایئوں نواز اور شہباز میں شریف کون ہے تو جواب آیا تھا ان کے والد۔یہ معصومہ اپنی مرضی سے سڑکوں پر ہر قسم کے کاغذات اور سگنل کی پابندی کی بھنج کڑی سندھی میں پامالی کرتی پولیس کے ہتھے لگی تھیں۔انار کلی جیسی کبوتر اڑانے والی شوخ طبیعت ۔ہم نے پوچھا کہ کاغذات

لائسنس۔کہنے لگی ابھی میٹرک کا امتحان دیاہے ۔آج فرصت ملی ہے تو وہی بنوانے جارہی تھی۔ ہم نے کہا کیا سزا دیں تجھے۔جواب ملا پانچ ستارہ چورنگی کے پیچھے ہمارا گھر ہے وہاں آکرکھانا کھالیں۔

کہنے لگی اماں اور کک مل کر کھانے کی جو ریڑھ مارتے ہیں وہ ہماری سزا سمجھیں۔میٹرک کی لڑکی کو سزا دیں گے تو سزا باپ کو ملے گی۔استدلال اچھا لگا۔

بعد میں اچھے مراسم ہوگئے ۔قریش پور سے رشتہ داری تھی سو پی ٹی وی میں جاگھسیں۔افتخار عارف، عبیدا للہ بیگ اور وہ ان دنوں پی ٹی وی کے بڑے نام تھے۔ایک دن دفتر آگئیں کہ آئی ڈی ایک لڑکے کا رشتہ آیا ہے۔ چھوکرا ایک دم چکاس ہے۔ باپ کے پاس پیسا بھی ہے۔قریش پور کسی سیریل کے چکر میں مجھے فٹ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ روک رہے ہیں۔ لڑکا کہتا ہے اس ہفتے شادی اگلے ہفتے برطانیہ۔اماں مان گئی ہیں ابا کہتے ہیں کہ ملت جعفریہ کا نہیں۔ میرے نزدیک فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کئیریر اہم ہے یا شادی کرنا۔ہم نے کہا یہ بتا تو قریش پور کے سہارے مدھوبالا ، نرگس،مارلن منرو اور صوفیہ لارین سے بڑی اداکارہ بن سکتی ہے ۔ کہنے لگی نہیں۔ہم نے پوچھا ۔انہوں نے کیا کیا ۔ جواب ملا شادی۔ہم نے سمجھایا کہ تو بھی بڑوں کا کہنا مان اپنے ہاتھ پیلے اور لڑکے کی دولت کا منھ لال کردے۔

کہنے لگیں ’ابا کے پاس فوری ہال بک کرنے کے پیسے نہیں۔سارا کام جلدی میں ہے۔ ہم نے بھی یہ

سوچ کر کہ کس گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعدغالب زیڈ اے نظامی صاحب کی طرف آدمی دوڑایا کہ بچی یتیم ہے اور خوش رہنا چاہتی ہے۔ وہ ڈی۔ جی ،کے ڈی اے تھے۔ درخواست کی کہ بچی خوش رہنا چاہتی ہے وہ مغل سریے والوں سے بات کریں ۔وہ کہنے لگے’ ارے ہمارا آفیسر کلب ہے نا ، کہے دیتے ہیں یوں سو آدمیوں کاکھانا اور شادی دونوں ہی ان کی عنایت سے ہوگئے ۔وہ بھی بہت بڑے سرکاری ملک ریاض تھے۔کروڑوں کو لوٹ کر ہزاروں پر لٹاتے تھے۔ انہیں کلب والوں کے ذریعے علم ہوگیا کہ بچی یتیم نہیں۔بہت بعد میں سی ایم ہائوس میں ملے تو کہنے لگے۔ویسے قرآن الکریم میں دو تین تین سے جو شادی کا حکم ہے وہ ایسی ہی خواتین کے لیے ہے۔

ہم کہہ رہے تھے کہ جمیل نقش صاحب ہماری آمد پر خوش ہوئے۔ہم نے وہاں ان کی فرمائش سنی اور حکم یہ دیا کہ ایک مشین لگا کر نالے کے پانی سے گھاس کا ایک بڑا سا پبلک لان یہ چھ سات بنگلوں کے سامنے بنادیں۔ایک مالی کی پڑوس کے پارک سے یہاں ڈیوٹی لگادیں۔

جب تک نشست رہی تین دفعہ تین مختلف سیٹس میں چائے آئی۔ایک دفعہ ایک خاتون بھی آن کر بیٹھیں۔ہمیں اتنا یاد ہے کہ ہمارے کولیگ نے ان کا نام شاید نجمی سوری لیا تھا۔ جمیل صاحب کہنے لگے ۔دیوان صاحب مائی ہیلگا۔ہیلگا مشہور امریکی پینٹر انڈریو وائتھ کی ماڈل تھیں۔ہم نے چھیڑا کوئی ایڈیل بلوچ بائر ہوں تو ان سے بھی ملوادیں.یہ گستائو کلمٹ ویانا کی جرمن ماڈل تھیں

مغرب میں ہمہ وقت دستیاب فنا فی ارٹ ایسی خواتین کو

Muse
کہا جاتا ہے۔اردو میں اختر شیرانی کو سلمی کے علاوہ کوئی نہیں ملی۔مجاز کی ہمشیرہ ، شاعر جاوید اختر کی والدہ صفیہ بھی جان نثار اختر کی میوز تھیں۔ان کے خطوط زیر لب کے نام سے پڑھیے گا۔جس طرح کے گھٹے گھٹے،اردو میڈیم رومانس کا اظہار ان خطوط میں موجود ہے وہ سیل فون میں صبا بن کر بیلنس مانگنے والی اور ٹی وی کے مارننگ

شوز کی بے باکی سے آسودہ خواتین کے سامنے جیل کے قیدیوں کو دی جانے والی کی دال کا سا اسٹیٹس رکھتا ہے۔ہم سے رہ نہ جائے کولن ڈیوڈ کی تصاویر میں بھی ایک میوز ہے۔ جو پنجاب یونی ورسٹی میں ان کے شعبہئ آرٹ کی بانی پروفیسر انا ملکہ احمد کی صاحبزادی زارا احمد۔ بعد میں دونوں کی شادی ہوگئی تھی یعنی زارا اور کولن کی اور وہ ختم بھی ہوگئی۔کولن ڈیوڈ کا کام پاکستان میں کم مشہور ہوا۔ان سے اچھی نیوڈز پاکستان میں صرف ایک خاتون پروفیسر مسز حسین بناتی تھیں۔ یہ ہم نے رحیم ناگوری سے سنا ہے جن کی ان سب سے بہت دوستی تھی۔

جمیل نقش صاحب نے خاتون کا نام نہیں بتایا اور ہم نے بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ماڈل اور ماتحت دونوں ہی اپنی اپنی دنیا میں کھوئے تھے۔ماتحت اگر فوجی مہاجر یا سندھی ہو تو کہتا ہے کہ افسر اور پیر راضی تو رب راضی۔ماڈل کچھ نہ بھی کہتی تو ہمیں یقین تھا کہ وہ ان کی نیوڈ ماڈل تھی۔بھرے بھرے ،برتے ہوئے ، آشنا ، بے تکلف، لبھائو سے عاری خطوط۔

لان کا خطہ تیار ہوگیا تو ماتحت کولیگ کو انہوں نے اپنی دو عدد تصاویرخدمت کے اعتراف میں دیں۔ہم ایک مرتبہ پھر ملاقات کو گئے ۔وہی چائے ویسی ہی نستعلیق کراکری۔ہم نے اس دن آرٹ پر بات کی ۔

ہمیں جمیل نقش کی تصاویر میں دو علامات بہت نمایاں لگیں ۔ان کا فن ان اپنی زندگی کا عکس تھا۔بالکل ویسے ہی جیسا اقبال حسین ککو کا ہے۔

ککو میاں کے ہاں طوائفیں ہیں۔ وہ بھی فرانسیسی مصور ہنری لاٹرک کی طرح انہیں کو موضوع بناتے ہیں جنہیں جانتے ہیں۔ بالکل سعادت حسین منٹو کی طرح ۔اسی لیے ککو میاں کے فن پاروں میں ہیرا منڈی کی اداسیاں اپنی آشنائی اور محرومیوں سمیت۔ککو کے ہاں طوائف جنسی جذبات کو مجروح کرتی ہے ابھارتی نہیں۔

جمیل نقش کامعاملہ اس کے برعکس ہے۔ یوپی کا قصبہ کیرانہ جہاں وہ قیام پاکستان سے پہلے پیدا ہوئے۔وہاں سے وہ دو بہت گہرے تاثرات جو بچپن میں شعور اور لاشعور کی پیتل پلیٹ پر ایسے

Etch
ہوتے ہیں ۔وہ اس کے ساتھ ترک سکونت کر گئے اور لاہور آن بسے۔تب این سی اے میو کالج آف ارٹس کہلاتا تھا کیرانہ کے کبوتر اور وہاں کی عورت کا پرتو ہر فن پارے میں جھلکتا ہے۔اس وقت بھی جب وہ اپنے دور پرے کی عزیزہ اور ہونہار شاگرد نجمی سوری کو ماڈل بنا کر کراچی میں پینٹ کررہے ہوتے تھے۔

ان فن پاروں میں بچپن سے سمیٹی ہوئی یادون کا پرتو چھت کی منڈیر پر بیٹھے کبوتر،بھرے سینے کی چولیاں،بے پناہ بے اعتبار آنکھیں، سیدھی مانگ اور مشرقی چہرے وہیں سے آیاہے۔کوئی مرد ان کی تصویر کا ماڈل نہیں بن پایا اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ

miniature painting
میں وہ استاد شریف کے شاگرد رہے۔ مغل مصوری کا مقابلہ اس دور کے یورپی مصوروں بلیک،گویا،کانسٹبل اور رفائیل سے کریں تو یہ پیینٹنگ بہت بچکانہ لگتی ہیں مگر تاریخ انہیں ایک پردہ نشین معاشرے کے حساب سے یقینا اہمیت دیتی ہے۔

جمیل نقش اسی تاریخی آشنائی اور استاد شریف کی شاگردی کے فیض کی وجہ سے اپنی مصوری میں تین عوامل کو بہت اچھا برتتے ہیں پہلا

texture
جو یقینا ان کے ہاں مشرق سے نہیں مغرب سے آیا ہے۔ دوسرا رنگ جو حیرت ناک طور پر مدھم ہے۔جس گنگا جمنی تہزیب کے وہ پروردہ تھے وہاں رنگ تو پچکاری بن کر دکھائی دیتے ہوں گے مگر جمیل نقش انہیں ضبط کرگئے

اور آخری جز

composition
ہے جو لائن، بہائو۔
Variety

اور
Shape

کا ہے۔تصویر کا آغاز و اختتام محسوس کرنا ان کے ہاں آسان ہے۔ہمیں ان کی تصویروں میں جتنے اچھے کبوتر لگتے ہیں اتنی ان کی نیوڈز نہیں لگتیں۔وہ ایک ایسے مسلسل جسم کا عکس ہے جس کے خطوط چربی کی تہہ سے بوجھل ہوکر ایک تھکاوٹ کا شکار ہوں۔

کراچی میں پارسیوں کا ایک ہسپتال لیڈی ڈفرن کے نام سے ہے۔اس کے روح رواں فریدوں سیٹھنا سے جمیل نقش کی بہت دوستی تھی۔یہ زچہ بچہ کا ہسپتال ہے ،بے نظیر صاحبہ کے تینوں بچے یہیں پیدا ہوئے۔1977

میں اپنی دوستانہ رفاقت اور بچپن میں والدہ کے پیار سے محرومی کو سامنے

پچیس واٹر کلر پینٹنگز جن کا موضوع ماں اور بچے کا پیار ہے۔یہ پینٹنگز انہوں نے اس ہسپتال کو دان دی ہیں۔جمیل نقش صاحب کے فن کا لوہا یوں تو کئی مقامات پر ایوارڈ اور پذیرائی کی صورت میں مانا گیا مگر وہ اس وقت بہت خوش ہوئے تھے جب پاکستان کے مشہور مصور شاکر علی نے اپنا برش یہ کہہ کر توڑ دیا کہ دل نہیں چاہتا کے جمیل نقش سے بہتر کام کرنے کا میں دل میں خیال بھی لائوں ۔۔

اے آر صدیقی 1963 کے سی ایس پی تھے۔ڈاکٹر ظفر الطاف سے ان کی بہت یاد اللہ تھی۔وہ ان کے ہاں ٹہرتے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں ضیاالدین ہسپتال کلفٹن کے پاس قیام تھا۔مخصوص نشست جہاں وہ بیٹھتے تھے وہاں اوپر جمیل نقش کی بہت تفصیل بخش نیوڈ لگی تھی ۔ صدیقی صاحب نے ایک دن ہماری نگاہ ہوس ناک کو چیک کرلیا ۔ ہمیں چھیڑنے کے لیے کہنے لگے کبھی ہم ریٹائرڈ لوگوں کو بھی اس محبت سے دیکھ لیا کرو جس محبت سے جمیل نقش کی پینٹنگ دیکھتے ہو۔

ڈاکٹر ظفر الطاف جو ان سے دو سال جوئنیر تھے واپسی پر ہم سے پوچھنے لگے ’’ آپ کو جمیل نقش کی پینٹنگ اچھی لگتی ہے۔؟

ہم نے کہا اے آر کے گنجے سر پر اس کے عریاں عورت کےاس عکس نے عجیب نظارہ باندھ رکھا تھا۔وہ تا دیر ہنسا کیے۔

جمیل نقش اپنی میوز نجمی سوری کے ساتھ اب سے چھ سال پہلے برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔اس ماہ وہ وہیں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

﴾﴿

نقش جمیل

مصور جمیل نقش کی باتیں

تحریر:محمد اقبال دیوان

یہ ایک مختصر سا تاثراتی مضمون ہے۔دو ملاقاتوں پر مشتمل۔دونوں کا کل ملا کر دورانیہ تین گھنٹے سے شاید ہی کچھ زیادہ ہو۔

ہمارے ایک ماتحت ان دنوں بلدیہ میں پارکس کے افسر ہوتے تھے۔نستعلیق،خوش مزاج باذوق،سندھ کے ایک بڑے شاعر کے داماد مگر بیگم سے نالاں۔جمیل نقش کے کوئی عزیز ان کے ماتحت ہوتے تھے۔یوں روابط ہوگئے۔دنیا داری کا فن آتا تھا۔ کشادہ اور دھیمے شائستہ مزاج کے مالک تھے سو سب کو اچھے لگتے تھے

جمیل نقش ان دنوں کراچی ایڈمنسٹریٹو سوسائیٹی کے پچھواڑے میں نالے کی طرف پشت کیے مکان میں رہتے تھے۔ ایک ہزار گز کا خالی قطعہ اراضی ان کے گھر کے عقب میں لڑھکتا لڑھکتا، نالے میں جاگرتا تھا۔جمیل صاحب کا خیال تھا کہ اس میں سبزہ وغیرہ لگ جائے تو ان کا باغبانی کا شوق بھی پورا ہوجائے گا اور پاس پڑوس کی بدصورتی بھی مٹ جائے گی۔

بلدیہ ایسے پرسنل فیورز میں چوکتی تو نہ تھی۔یہاں ایم کیو ایم حقیقی کے ایک وزیر ارشاد احمد نے اپنی ایک عزیزہ کو اسلام کی پہلی خاتون موذن بھرتی کیا تھا ۔ہزاروں مسلمان جمعدار بھی بھرتی کررکھے تھے جو سوائے سرکار کی جیب کے علاوہ کسی اور شے کی صفائی نہ کرتے تھے ۔ہماری آمد پر اتنا ہوا کہ جب ان کی تنخواہیں روکی گئیں تو انہوں نے اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ غیر مسلم ملازمین پر خرچ کرکے علاقے میں صفائی کا انتظام آئوٹ سورس کردیا۔ ملازمین ہم سے ڈرتے تھے۔ماتحت شیخ صاحب نے بہت سلیقے سے جو سندھی بیوروکریسی کا سماجی اور ثقافتی وطیرہ ہے۔ ان کے ہاں

Informal تنظیم،

Formal

تنظیم پر بھاری ہو تی ہے۔

ہمیں کہا سر کچھ وقت ہو تو آپ کو علاقے کے کچھ پارکس بھی دکھادیتے ہیں۔بجٹ بن رہا

ہے۔اس میں ان پارکوں کا کام آپ کے معائنے کے بعد ڈال دیں گے۔

دورے پر جاتے ہوئے انہوں نے آرمین کی بیکری سے کیک لیا۔آرمین پارسی تھی ۔نوجوان دیدہ زیب، سجل اور اپنے کیکس کی طرح نرم و ملائم ۔ہم سے گجراتی بولی توشیخ صاحب کو لگا کہ مزاج کی شراب کو لگاوٹ کی برف مل گئی ہے۔ یوں انہیں ہمارے موڈ کی موزونیت کا علم ہوگیا۔

سیدھا سرکاری کار کا رخ جمیل نقش کے محلے کی جانب موڑ دیا مطلوب یہ تھا کہ جمیل صاحب کی فرمائش پر سرخرو ہوجائیں ۔ کہنے لگے’’ سر آپ کو ایک نفیس آرٹسٹ سے ملاتے ہیں۔ نوری ٹاکی کے ٹی سیٹ میں چائے پلاتے ہیں۔چائے کا ایک دور ختم نہیں ہوتا ک دوسرے نفیس ٹی سیٹ میں چائے آجاتی ہے۔ یہ ہمارے لیے دل چسپ نکتہ تھا۔

اس سے پہلے اردشیر کائوس جی ہمیں اپنے گھر پر سونے کی کناری والے ٹیبل ویر میں ناشتہ کراچکے تھے۔جس طرح مشہور صحافی سہیل وڑائچ کو لاہور کی ابھرتی اسٹیج اداکاروں کے ساتھ ایک دن بتانے کا بہت شوق ہے اس طرح ہماری بھی کوشش ہوتی تھی کہ سرکاری نوکری میں اہل ذوق سے ملاقات ہوجائے۔

شیخ صاحب کی تجویز تھی کہ مختلف پارکس کے دوسرے سے پہلے ان سے ملتے ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم ان کی رفاقت میں جمیل نقش صاحب کے آستانہ عالیہ پر موجود تھے۔اس سے قبل ہمارا واسطہ غریبوں کے جمیل نقش ،اقبال درانی سے پڑ چکا تھا ۔ہمارے ایک دوست انہیں اور مشکور ضا کو غریبوں کے جمیل نقش اور ایم ایف حسین کہتے تھے۔درانی صاحب نقش صاحب کی طرح کبوتر اور رضا میاںایم ایف حسین کی طرح گھوڑے پینٹ کرتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ اقبال درانی کے کبوتر اور مشکور رضا کے گھوڑے نسلی نہیں ہوتے اس لیے ان کی پینٹنگز دیگر دو نامور مصوروں جتنی مہنگی نہیں ہوتیں۔

آرٹسٹ ہمارے لیے نئے نہ تھے۔رحیم ناگوری سے رشتہ داری تھی اور مسرت مرزا کے ہم لاڈلے شاگرد تھے۔

امریکہ کے بھی آرٹ سین کا چھوٹا موٹا اندازہ تھا۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں جب دنیا بھر میں مقابلے کی ایک اسکالر شپ یعنی ہمفرے فیلو شپ جو افسران غلام پیشہ کے لیے مخصوص تھی جیت کر پہنچے تو بطور اختیاری مضمون میں فگر ڈرائینگ میں ہمیں ہم جماعت لنڈا اسمتھ لے گئی

ہم امریکہ کی فارن پالیسی کے کورس میں جانا چاہتے تھے۔

۔اس کا کہنا تھا کہ جہاں مائیکل جیکسن،مڈونا اور ٹام کروز جیسے آئی کن موجود ہوں وہاں ایک غریب ملک کے شاخ پردم سے لٹکے لنگور افسر کی کیا اوقات۔امریکہ اگر تمہارے جیسے غریب غربا کو اپنے نصاب میں اپنے راز بتانے لگے جائے تو پھر یہ سی آئی اے اور بوہیمین گرو âامریکہ کاایک بے حد خفیہ کلب جہاں امریکہ کے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔خواتین اس کی ممبر نہیں بن سکتیںáکو ہم پاکستان کے حوالے کردوں۔ندیا دھیرے بہو۔ابھی تک انہوں نے عمران خان پر ہاتھ نہیں رکھا تو بڑے آئے تم کو تم کو اس پروگرام میں کچھ مقام رفعت ملے گا۔مزار کے پھول دلہن کا گلدستہ نہیں بن سکتے ۔ میرے ساتھ

فگر ڈرائینگ کی کلاس میں شامل ہوجائو

دنیا فن ،سائینس اور آرٹ کو مانتی ہے۔امریکی فوج کا سپہ سالار کون ہے یہ یونی ورسٹی میں شاید ہی کسی طالب علم کو پتہ ہو مگر پارٹ ٹائم لوور کس نے گایا ہے یہ تمہاری سوئمنگ کوچ چیکی نیلسن کو بھی معلوم ہوگا۔سو ہم نے بھی گا کر کہا اب چاہے کہیں بھی لے جا ، تو آگے اور میں پیچھے

داخلے کے وقت ایڈمیشن کلرک کا کہنا تھا استاد محترم سے ملنا بہتر ہوگا ۔ان کی رضامندی لازم ہے۔ استاد محترم ہم عمر ہی تھے۔چپ چاپ ،شرمیلے، مگر فن مصوری میں طاق۔کہنے لگے آپ یقینا مسلمان ہیں۔مجھے داخلہ دینے میں کوئی عار نہیں مگر سوچا کہ جتا دوں کہ کلاس میں یوں ہوگا کہ جو ماڈل سامنے موجود ہوگی اس کے پورے بدن پر سوائے مسکراہٹ کے لیے کچھ اور نہ ہوگا۔ یہ سب کچھ شاید آپ کے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔ہم نے بات یہ کہہ کر ٹالی کے سیکس مذہب سے پہلے انسان کی زندگی میں اودھم مچاتی ہے۔
بہت ہنسے۔یہ سن کر اور بھی خوش ہوئے کہ یہ تاثر کہ اسلام اچھی
Anatomy
کا مخالف ہے، درست نہیں۔ اس سے مذہبی امتیاز کا شائبہ بھی گزرتا ہے۔فوراً سے کہنے لگے
Admitted
۔بہت دن بعد جب اپنی پڑوسن ڈورین میک آرتھر عمری انیس برس، رنگ گورا، خوش قامت جس کو دیکھ کر ہم اکثر سوچتے تھے کہ کسے نصیب بے پیرہن اسے دیکھے کو ہم نے کہا ہماری فگر ڈرائینگ کی کلاس میں ماڈل بنے گی۔ کہنے لگی وہاں تو بہت اچھے پیسے ملتے ہیں مگر

مجھے کوئی وہاں نہیں جانتا۔ ہم نے کہا کس کا ہے تم کو انتظار میں ہوں نا۔استاد محترم جن کا خیال تھا کہ ماڈل کو ہم کم اور کاغذ کو زیادہ دیکھیں تو پکاسو کو لینے کے دینے پڑسکتے ہیں ان کو ذکر کیا تو کہنے لگے۔ لے آئو۔سو جب ڈورین نے باتھ روب ایک طرف اچھالا تو مکیں ادھر کے بھی جلوئے ادھر کے دیکھتے ہی رہے۔

ذکر تھا غریبوں کے جمیل نقش، اقبال درانی کا۔ٹریفک چیکنگ میں ون وے کی خلاف ورزی

کے مرتکب پائے جانے پر انسپکٹر فرحت انہیں تھام کر لے آئے۔حضرت مشتعل تھے۔عدالت سے کہنے لگے۔جج صاحب اس ملک میں فن کی کیا یہی قدر ہے۔مجھے پولیس موبائیل میں بٹھا کر لایا گیا۔ہم نے کہا تحمل سے اس بات کا جواب دیں کہ پولیس نے آپ کو خراب پینٹنگ بنانے پر پکڑا ہے کہ ون

وے کی خلاف ورزی پر۔وہ اس کے باوجود مصر تھے کہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ہم نے کہا مثلاً کتنا۔ آپ کولن ڈیوڈ، سعید اختر، بشیر مرزا،اقبال حسین،گل جی سے بڑے آرٹسٹ ہیں۔نارتھ ناظم آباد کی ٹریفک چوکی پر مجسٹریٹ درجہ اول کے منھ سے اتنے اہم نام سن کر سکتے میں آگئے مگر پولیس کے رویے سے ان کی انا بری طرح مجروح ہوئی تھی۔وہی ضد کے مجھے صحیح مقام و منزلت نہیں ملی۔باہر کی دنیا تو آرٹسٹوں ،کھلاڑیوں کے نام پر بچھ بچھ جاتی ہے۔ہم نے پوچھا کہ مائیکل جیکسن کا نام سنا ہے۔کہنے لگا جی ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چمپیئن ہیں۔ہم نے کہا آج کل کہاں۔منمنائے جیل میں۔

ہم نے کہا ہماری گاڑی میں بیٹھ جائیں۔دفتر چلتے ہیں۔ آپ کو کھانا بھی کھلاتے ہیں ۔ آپ کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ایک منی بس والے پر پندرہ سو کا جرمانہ بارہ سو کرکے ان کے تین سو روپے ادا کرائے۔مرید ہوگئے ۔کہنے لگے آپ کو تو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہونا چاہیے۔بیگم کے ساتھ گھر آئے۔ ایک پینٹنگ اور رباعیات عمر خیام کا یہ نسخہ چھوڑ گئے۔یہ دونوں اب ہماری بیٹی کے پاس نیویارک میں ہیں۔

اسی دن ایک اور خاتون بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔ٹی وی کی نئی نویلی اداکارہ۔

بابرہ شریف کے برق کے اشتہار جیسی جس پر فریفتہ ہوکر شیوخ العرب نے چولستان آباد کردیا۔مردوں کی ایک محفل میں کسی نے پوچھا تھا کہ تین بہنوں فردوس، فاخرہ، بابرہ، اور دو بھایئوں نواز اور شہباز میں شریف کون ہے تو جواب آیا تھا ان کے والد۔یہ معصومہ اپنی مرضی سے سڑکوں پر ہر قسم کے کاغذات اور سگنل کی پابندی کی بھنج کڑی سندھی میں پامالی کرتی پولیس کے ہتھے لگی تھیں۔انار کلی جیسی کبوتر اڑانے والی شوخ طبیعت ۔ہم نے پوچھا کہ کاغذات

لائسنس۔کہنے لگی ابھی میٹرک کا امتحان دیاہے ۔آج فرصت ملی ہے تو وہی بنوانے جارہی تھی۔ ہم نے کہا کیا سزا دیں تجھے۔جواب ملا پانچ ستارہ چورنگی کے پیچھے ہمارا گھر ہے وہاں آکرکھانا کھالیں۔

کہنے لگی اماں اور کک مل کر کھانے کی جو ریڑھ مارتے ہیں وہ ہماری سزا سمجھیں۔میٹرک کی لڑکی کو سزا دیں گے تو سزا باپ کو ملے گی۔استدلال اچھا لگا۔

بعد میں اچھے مراسم ہوگئے ۔قریش پور سے رشتہ داری تھی سو پی ٹی وی میں جاگھسیں۔افتخار عارف، عبیدا للہ بیگ اور وہ ان دنوں پی ٹی وی کے بڑے نام تھے۔ایک دن دفتر آگئیں کہ آئی ڈی ایک لڑکے کا رشتہ آیا ہے۔ چھوکرا ایک دم چکاس ہے۔ باپ کے پاس پیسا بھی ہے۔قریش پور کسی سیریل کے چکر میں مجھے فٹ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ روک رہے ہیں۔ لڑکا کہتا ہے اس ہفتے شادی اگلے ہفتے برطانیہ۔اماں مان گئی ہیں ابا کہتے ہیں کہ ملت جعفریہ کا نہیں۔ میرے نزدیک فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کئیریر اہم ہے یا شادی کرنا۔ہم نے کہا یہ بتا تو قریش پور کے سہارے مدھوبالا ، نرگس،مارلن منرو اور صوفیہ لارین سے بڑی اداکارہ بن سکتی ہے ۔ کہنے لگی نہیں۔ہم نے پوچھا ۔انہوں نے کیا کیا ۔ جواب ملا شادی۔ہم نے سمجھایا کہ تو بھی بڑوں کا کہنا مان اپنے ہاتھ پیلے اور لڑکے کی دولت کا منھ لال کردے۔

کہنے لگیں ’ابا کے پاس فوری ہال بک کرنے کے پیسے نہیں۔سارا کام جلدی میں ہے۔ ہم نے بھی یہ

سوچ کر کہ کس گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعدغالب زیڈ اے نظامی صاحب کی طرف آدمی دوڑایا کہ بچی یتیم ہے اور خوش رہنا چاہتی ہے۔ وہ ڈی۔ جی ،کے ڈی اے تھے۔ درخواست کی کہ بچی خوش رہنا چاہتی ہے وہ مغل سریے والوں سے بات کریں ۔وہ کہنے لگے’ ارے ہمارا آفیسر کلب ہے نا ، کہے دیتے ہیں یوں سو آدمیوں کاکھانا اور شادی دونوں ہی ان کی عنایت سے ہوگئے ۔وہ بھی بہت بڑے سرکاری ملک ریاض تھے۔کروڑوں کو لوٹ کر ہزاروں پر لٹاتے تھے۔ انہیں کلب والوں کے ذریعے علم ہوگیا کہ بچی یتیم نہیں۔بہت بعد میں سی ایم ہائوس میں ملے تو کہنے لگے۔ویسے قرآن الکریم میں دو تین تین سے جو شادی کا حکم ہے وہ ایسی ہی خواتین کے لیے ہے۔

ہم کہہ رہے تھے کہ جمیل نقش صاحب ہماری آمد پر خوش ہوئے۔ہم نے وہاں ان کی فرمائش سنی اور حکم یہ دیا کہ ایک مشین لگا کر نالے کے پانی سے گھاس کا ایک بڑا سا پبلک لان یہ چھ سات بنگلوں کے سامنے بنادیں۔ایک مالی کی پڑوس کے پارک سے یہاں ڈیوٹی لگادیں۔

جب تک نشست رہی تین دفعہ تین مختلف سیٹس میں چائے آئی۔ایک دفعہ ایک خاتون بھی آن کر بیٹھیں۔ہمیں اتنا یاد ہے کہ ہمارے کولیگ نے ان کا نام شاید نجمی سوری لیا تھا۔ جمیل صاحب کہنے لگے ۔دیوان صاحب مائی ہیلگا۔ہیلگا مشہور امریکی پینٹر انڈریو وائتھ کی ماڈل تھیں۔ہم نے چھیڑا کوئی ایڈیل بلوچ بائر ہوں تو ان سے بھی ملوادیں.یہ گستائو کلمٹ ویانا کی جرمن ماڈل تھیں

مغرب میں ہمہ وقت دستیاب فنا فی ارٹ ایسی خواتین کو

Muse
کہا جاتا ہے۔اردو میں اختر شیرانی کو سلمی کے علاوہ کوئی نہیں ملی۔مجاز کی ہمشیرہ ، شاعر جاوید اختر کی والدہ صفیہ بھی جان نثار اختر کی میوز تھیں۔ان کے خطوط زیر لب کے نام سے پڑھیے گا۔جس طرح کے گھٹے گھٹے،اردو میڈیم رومانس کا اظہار ان خطوط میں موجود ہے وہ سیل فون میں صبا بن کر بیلنس مانگنے والی اور ٹی وی کے مارننگ

شوز کی بے باکی سے آسودہ خواتین کے سامنے جیل کے قیدیوں کو دی جانے والی کی دال کا سا اسٹیٹس رکھتا ہے۔ہم سے رہ نہ جائے کولن ڈیوڈ کی تصاویر میں بھی ایک میوز ہے۔ جو پنجاب یونی ورسٹی میں ان کے شعبہئ آرٹ کی بانی پروفیسر انا ملکہ احمد کی صاحبزادی زارا احمد۔ بعد میں دونوں کی شادی ہوگئی تھی یعنی زارا اور کولن کی اور وہ ختم بھی ہوگئی۔کولن ڈیوڈ کا کام پاکستان میں کم مشہور ہوا۔ان سے اچھی نیوڈز پاکستان میں صرف ایک خاتون پروفیسر مسز حسین بناتی تھیں۔ یہ ہم نے رحیم ناگوری سے سنا ہے جن کی ان سب سے بہت دوستی تھی۔

جمیل نقش صاحب نے خاتون کا نام نہیں بتایا اور ہم نے بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ماڈل اور ماتحت دونوں ہی اپنی اپنی دنیا میں کھوئے تھے۔ماتحت اگر فوجی مہاجر یا سندھی ہو تو کہتا ہے کہ افسر اور پیر راضی تو رب راضی۔ماڈل کچھ نہ بھی کہتی تو ہمیں یقین تھا کہ وہ ان کی نیوڈ ماڈل تھی۔بھرے بھرے ،برتے ہوئے ، آشنا ، بے تکلف، لبھائو سے عاری خطوط۔

لان کا خطہ تیار ہوگیا تو ماتحت کولیگ کو انہوں نے اپنی دو عدد تصاویرخدمت کے اعتراف میں دیں۔ہم ایک مرتبہ پھر ملاقات کو گئے ۔وہی چائے ویسی ہی نستعلیق کراکری۔ہم نے اس دن آرٹ پر بات کی ۔

ہمیں جمیل نقش کی تصاویر میں دو علامات بہت نمایاں لگیں ۔ان کا فن ان اپنی زندگی کا عکس تھا۔بالکل ویسے ہی جیسا اقبال حسین ککو کا ہے۔

ککو میاں کے ہاں طوائفیں ہیں۔ وہ بھی فرانسیسی مصور ہنری لاٹرک کی طرح انہیں کو موضوع بناتے ہیں جنہیں جانتے ہیں۔ بالکل سعادت حسین منٹو کی طرح ۔اسی لیے ککو میاں کے فن پاروں میں ہیرا منڈی کی اداسیاں اپنی آشنائی اور محرومیوں سمیت۔ککو کے ہاں طوائف جنسی جذبات کو مجروح کرتی ہے ابھارتی نہیں۔

جمیل نقش کامعاملہ اس کے برعکس ہے۔ یوپی کا قصبہ کیرانہ جہاں وہ قیام پاکستان سے پہلے پیدا ہوئے۔وہاں سے وہ دو بہت گہرے تاثرات جو بچپن میں شعور اور لاشعور کی پیتل پلیٹ پر ایسے

Etch
ہوتے ہیں ۔وہ اس کے ساتھ ترک سکونت کر گئے اور لاہور آن بسے۔تب این سی اے میو کالج آف ارٹس کہلاتا تھا کیرانہ کے کبوتر اور وہاں کی عورت کا پرتو ہر فن پارے میں جھلکتا ہے۔اس وقت بھی جب وہ اپنے دور پرے کی عزیزہ اور ہونہار شاگرد نجمی سوری کو ماڈل بنا کر کراچی میں پینٹ کررہے ہوتے تھے۔

ان فن پاروں میں بچپن سے سمیٹی ہوئی یادون کا پرتو چھت کی منڈیر پر بیٹھے کبوتر،بھرے سینے کی چولیاں،بے پناہ بے اعتبار آنکھیں، سیدھی مانگ اور مشرقی چہرے وہیں سے آیاہے۔کوئی مرد ان کی تصویر کا ماڈل نہیں بن پایا اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ

miniature painting
میں وہ استاد شریف کے شاگرد رہے۔ مغل مصوری کا مقابلہ اس دور کے یورپی مصوروں بلیک،گویا،کانسٹبل اور رفائیل سے کریں تو یہ پیینٹنگ بہت بچکانہ لگتی ہیں مگر تاریخ انہیں ایک پردہ نشین معاشرے کے حساب سے یقینا اہمیت دیتی ہے۔

جمیل نقش اسی تاریخی آشنائی اور استاد شریف کی شاگردی کے فیض کی وجہ سے اپنی مصوری میں تین عوامل کو بہت اچھا برتتے ہیں پہلا

texture
جو یقینا ان کے ہاں مشرق سے نہیں مغرب سے آیا ہے۔ دوسرا رنگ جو حیرت ناک طور پر مدھم ہے۔جس گنگا جمنی تہزیب کے وہ پروردہ تھے وہاں رنگ تو پچکاری بن کر دکھائی دیتے ہوں گے مگر جمیل نقش انہیں ضبط کرگئے

اور آخری جز

composition
ہے جو لائن، بہائو۔
Variety

اور
Shape

کا ہے۔تصویر کا آغاز و اختتام محسوس کرنا ان کے ہاں آسان ہے۔ہمیں ان کی تصویروں میں جتنے اچھے کبوتر لگتے ہیں اتنی ان کی نیوڈز نہیں لگتیں۔وہ ایک ایسے مسلسل جسم کا عکس ہے جس کے خطوط چربی کی تہہ سے بوجھل ہوکر ایک تھکاوٹ کا شکار ہوں۔

کراچی میں پارسیوں کا ایک ہسپتال لیڈی ڈفرن کے نام سے ہے۔اس کے روح رواں فریدوں سیٹھنا سے جمیل نقش کی بہت دوستی تھی۔یہ زچہ بچہ کا ہسپتال ہے ،بے نظیر صاحبہ کے تینوں بچے یہیں پیدا ہوئے۔1977

میں اپنی دوستانہ رفاقت اور بچپن میں والدہ کے پیار سے محرومی کو سامنے

پچیس واٹر کلر پینٹنگز جن کا موضوع ماں اور بچے کا پیار ہے۔یہ پینٹنگز انہوں نے اس ہسپتال کو دان دی ہیں۔جمیل نقش صاحب کے فن کا لوہا یوں تو کئی مقامات پر ایوارڈ اور پذیرائی کی صورت میں مانا گیا مگر وہ اس وقت بہت خوش ہوئے تھے جب پاکستان کے مشہور مصور شاکر علی نے اپنا برش یہ کہہ کر توڑ دیا کہ دل نہیں چاہتا کے جمیل نقش سے بہتر کام کرنے کا میں دل میں خیال بھی لائوں ۔۔

اے آر صدیقی 1963 کے سی ایس پی تھے۔ڈاکٹر ظفر الطاف سے ان کی بہت یاد اللہ تھی۔وہ ان کے ہاں ٹہرتے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں ضیاالدین ہسپتال کلفٹن کے پاس قیام تھا۔مخصوص نشست جہاں وہ بیٹھتے تھے وہاں اوپر جمیل نقش کی بہت تفصیل بخش نیوڈ لگی تھی ۔ صدیقی صاحب نے ایک دن ہماری نگاہ ہوس ناک کو چیک کرلیا ۔ ہمیں چھیڑنے کے لیے کہنے لگے کبھی ہم ریٹائرڈ لوگوں کو بھی اس محبت سے دیکھ لیا کرو جس محبت سے جمیل نقش کی پینٹنگ دیکھتے ہو۔

ڈاکٹر ظفر الطاف جو ان سے دو سال جوئنیر تھے واپسی پر ہم سے پوچھنے لگے ’’ آپ کو جمیل نقش کی پینٹنگ اچھی لگتی ہے۔؟

ہم نے کہا اے آر کے گنجے سر پر اس کے عریاں عورت کےاس عکس نے عجیب نظارہ باندھ رکھا تھا۔وہ تا دیر ہنسا کیے۔

جمیل نقش اپنی میوز نجمی سوری کے ساتھ اب سے چھ سال پہلے برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔اس ماہ وہ وہیں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

﴾﴿

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024