ناکہ بندی

ناکہ بندی

Mar 12, 2018

دیدبان شمارہ ۔ ۷

ناکہ بندی

ڈاکٹر ریاض توحیدی

کشمیر

چار مہینے کا ننھا سا پھول دودھ کی ایک ایک بو ند کے لئے ترس رہا تھا۔ اُس کی دلخراش چیخیں ماں باپ کے جگر کو پارہ پارہ کررہی تھیں ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان کے کلیجے کو تیزدار تلوار سے کاٹا جارہا ہے ۔ بھوکے بچے کی ابتر حالت اور اپنی بے بسی و بے کسی کا رونا روتے روتے ساجدہ اور بشیر ملک کی آنکھیں پتھر ا گئی تھیں ۔بنجر زمین کے بنجر ذہن آدھی باسیوں نے سرسبز اور شاداب وادی کے بے مثل مہمان نواز انسانوں کا دانہ پانی بند کر دیا تھا ۔ کئی مہینوں سے چل رہی اقتصادی ناکہ بندی کے ٹوٹنے کے تمام راستے بلوایوں کے محسن جمہوریت پسند سیاستدانوں کی شاطرانہ مصلحت آمیزی اور جانبدار نہ پالیسوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے اور وادی کے طول و عرض میں قحط نما صورت حال تھی ۔

” بشیر ! منا بے ہوش ہو گیا ہے “ساجدہ نے رقت آمیز لہجے میں کہا ۔ ” کہیں سے آٹو کا انتظام کرو اس کو اسپتال لے جاینگے۔“

” اس اندھیری وحشت ناک رات میں ہم کس طرح گھر سے نکلیں گے ۔“ بشیر ملک نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا” باہر کرفیو لگا ہوا ہے

۔ صبح تک انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر .... صبح کو بھی کون اسپتال جانے دیگا ۔“

لیکن بشیر .... صبح ....؟ ساجدہ کچھ اور نہ کہہ سکی۔

” ساجدہ ! کسی پڑوسی سے منا کے لئے دودھ ادھار مانگ لو“ بشیر ملک نے کہا۔

ساجدہ غم ناک آواز میں بولی ” وہ لوگ مجھ سے ہی دودھ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ۔ان کے بچے بھی بھوک سے بلک رہے ہیں۔“

کچھ دیر کے بعد فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔ بشیر ملک نے ریسور اٹھایا ۔ جموں سے اُس کا چھوٹا بھائی عرفان ایک ہی سانس میں بول پڑا ” بھائی جان ! اندھیرے کا سہارالے کر میں ٹرک لے کر جموں سے گزر رہا ہوں ۔ فکر مت کرنا ! میں نے منے کے لئے دودھ کی ایک پیٹی بھی لائی ہے ،بشیر ملک نے یہ بات جب ساجدہ کو بتائی تو اس کا چہرہ کِھل اٹھا۔

بشیر ملک نے کرسی پر بیٹھ کر تھوڑی سی راحت محسوس کی۔ وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا اور گزرے دنوں کی خوشنما یا دوں میں کھو گیا ۔ اسے یاد آرہا تھا کہ کس طرح ہم کشمیری اپنی جنت میں وارد مہمانوں کا استقبال بے مثل فراخ دلی سے کرتے تھے اور اپنی مہمان نوازی کے حسین نقوش ان کے دلوں پر چھوڑ کر بار بار یہ ثابت کر تے آئے تھے کہ ” ذرا ذرا ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز۔“ اُس کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں لیکن وہ اب کچھ اور ہی محسوس کر رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس انسانی سلوک کے بدلے یہ لوگ حیوانیت پر اتر آئے ہیں، ان لوگوں نے اپنے زہر آلودہ منصوبوں سے وادی کے خوش نما اور خوبصورت پھولوں کو مسلنے کی قسم کھائی ہیں۔ ان کی خمیر میں ہی شاید منافرت کا زہر ملا ہوا ہے، نہیں تویہ لوگ کیسے بھول جاتے کہ جب یہ لوگ کشمیر میں اپنے مذہبی مقامات پر زیارت کے لئے آتے تھے تو ہم لوگ جگہ جگہ ان کے لئے کھانے پینے کا اعلیٰ انتظام کرتے تھے اور ماضی میں کئی بار جب موسم کی خرابی کی وجہ سے یہ لوگ مصیبت میں پھنس گئے تھے تو ہمارے گھر ان کے لئے بہترین اور پر امن پناہ گاہ ثابت ہوتے تھے اور آج یہی لوگ زمین کے وارثوں کو ہی کاشت کار بنانا چاہتے ہیں اور مکان کے مکینوں کو کرایہ دار .... !

یہ لوگ پریشانیوں کی وجہ سے کئی راتوں سے سو نہیں پائے تھے ۔ رات کے آخری حصے میں جب بشیر ملک کی آنکھ لگ گئی تو صبح سویرے انھیں فون پر کسی دوست نے اطلاع دی کہ آج کسی رضاکار تنظیم کی طرف سے انسانی حقوق کے دفتر کے سامنے ملک فوڈ بانٹا جائے گا۔ بشیر ملک یہ سُن کر گھر سے تیزی کے ساتھ نکلا اور شہر کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا اور بڑی مشکل سے دودھ کا ایک ڈبہ حاصل کر پایا ۔ ادھر ساجدہ اپنے بے ہوش لخت جگر کو لے کر اسپتال کی جانب دوڑ پڑی ۔ وہ جب پریشان حالت میں سنسان سڑک کو پار کر رہی تھی کہ اچانک کہیں سے آواز آئی ” کرفیو ں میں کہاں جارہی ہو:؟“

ساجدہ نے خوف کے مارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میںآنسو بہاتے ہوئے کہا ۔

” بچہ بیمار .... اسپتال....! “ یہ سنتے ہی کئی وردی پوش سڑک پر نمودار ہوگے۔ ساجدہ دہشت زدہ ہوئی، اُس نے بچے کو چھاتی سے لگایا۔

” اچھا ! بیما ر بچے کو اسپتال لے جانا ہے“ ایک وردی پوش بولا” اسپتا ل جا کر کیا کروگی وہاں تو دوائی نہیں ہے ۔“

چند لمحوں بعد کہیں سے ایک سنساتی ہوئی گولی آئی اور بچے کے پھول جیسے نازک بدن کو چیرتی ہوئی ماں کے دل میں پیوست ہو گی ۔ چاروں طرف ہنسنے کی آوازیں آئیں اور خون میںلت پت دونوں لاشیں گھر کے صحن میں پھینک دی گئیں ۔

بشیر ملک شہر کی گنجان آبادی سے چوری چھپے خوش ہو کر دودھ کا ڈبہ بغل میں چھپاتے ہوئے جب گھر کے مین گیٹ پر پہنچا ۔ تو صحن میں داخل ہوتے ہی اُس کی نظر بیوی اور بچے کی لاش پر پڑی ۔ وہ حواس باختہ ہو کر چیخنے چلانے لگا۔ اس کی چیخیں صدابہ صحرا ثابت ہو رہی تھیں کیونکہ وردی پوشوں کے خوف کی وجہ سے تمام لوگ گھروں کے اندر سہم گئے تھے۔

عرفان جب رات کے اندھیرے میں چاول سے بھرا ٹرک کشمیر کی طرف لے کر آرہا تھا تو بیچ سڑک پر اُسے بُلوایوں نے روکا ۔ وہ لوگ ہاتھوں میں تر شول اور سرپر کیسری رنگ کے کپڑے باندھے نعرہ لگا رہے تھے۔

” ہر ہر مہادیو ۔ وندے ماترم ....بلوایوں نے ٹرک پر حملہ کر کرے سارا چاول لوٹ لیا اور عرفان کو ٹرک کے ساتھ زندہ جلا ڈالا ۔ بشیر ملک اس اندوہ ناک صورت حال سے بے خبر تھا۔ اُس نے عرفان پر مو بائل پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اسے گھر کے سانحہ کے بارے میں بتائے لیکن عرفان کا موبائل بند آرہا تھا ۔ ایک گھنٹے کے بعد عرفان کے ایک ساتھی ڈرائیور کا فون آیا‘ اُس نے بشیر ملک کو عرفان کے حادثے کے بارے میں بتایا ۔ یہ خبر سنتے ہی بشیر ملک کے اوپر جیسے دو ہر ا آسمان ٹوٹ پڑا ۔ اُس کی آواز بند ہوگی۔

کرفیو میں آدھے گھنٹے کی ڈھیل دی گی ۔ بشیر ملک گھر سے باہر نکلا اور بازار کی طرف چل پڑا ۔ اُ س کے ہاتھ میں دودھ کا ڈبہ تھا ۔ کچھ لوگ سڑک پر جمع ہو گے۔ بشیر ملک کے ہاتھ میں مِلک فوڈ دیکھ کر ایک آدمی سامنے آیا اور بشیر ملک سے پوچھنے لگا۔

” اے بھائی ! تمہیں یہ دودھ کا ڈبہ کہاں سے ملا؟ کیا اسے بیچو گے ؟“

بشیر ملک نے جب ہاں میں جواب دیا تو وہ آدمی حیران ہو کر بول پڑا ۔

” لیکن کیوں! تمہیں بھی تو اپنے بچے کے لئے اس کی ضرورت ہوگی۔“

” میرے بچے کو اب اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ کفن کے انتظار میں ہے ۔ جس کے لئے مجھے پیسے چائیں ۔“ یہ کہتے ہوئے بشیر ملک کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی دھار اُمنڈ پڑی۔

اسی دوران لوگوں نے ناکہ بندی اور کرفیو کے خلاف پر امن احتجاج شروع کیا۔ مظاہر ین کو خاموش کرانے کے لئے وردی پوشوں نے ان پر گولیوں کی برسات برسائی۔ آدھے گھنٹے کی ڈھیل ختم ہوتے ہی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ بشیر ملک کی لاش بھی گولیوں سے چھلنی سڑک پر کفن کا انتظار کر رہی تھی ۔ اور قانون کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لئے دودھ کے ڈبے کو بم بنا کر پیش کیا گیا....!

............٭٭٭........

Wadipora Handwara kashmir 193221 .India

email.drreyaztawheedi777@yahoo.com cell.7006544358

کالے بھوتوں کا بسیرا

ڈاکٹر رےاض توحےدی

وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر(انڈیا)193221

غروب آفتاب کے ساتھ ہی کالی رات کے دہشت ناک سائے بستی کے گلی کو چوں میں سنسناہٹ کے بےن بجانا شروع کر دےتے تھے۔ بےن کی خوفناک چےخوں نے بستی کو شبِ عاشورہ میں تبدےل کےا تھا اور برسوں سے چھائے ہوئے خو ف و دہشت کے ان پر اسرار سےاہ ساےوں نے بستی کو کالے بھوتوں کا بسےرا بنا ئے رکھا تھا ۔ بستی کے بے بس مکین اپنی خوف زدہ نئی نسل کو ان کالے بھوتوں کے خونین پنجوں سے بچائے رکھنے کے جتنے بھی گُر آزمالےتے وہ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اس وقت سراب معلوم ہوتے جب کسی اور بچے کے غائب ہونے کی منحوس خبر گھر گھر پھےل جاتی ۔ لوگوں کے ذہنوں میں انتشار کی رو تےز ہو رہی تھی کہ رات کے سےاہ ساےوں میں کونسے غےبی ہاتھ ان کی معصوم نسل کو اُن سے چھےن لےتے ہیں ۔

اُس دن..... طلوعِ آفتاب کے ساتھ ساتھ ..... موبائل پر شمشےر دےوانہ کو مبارک بادی کے پےغامات آنے شروع ہو گئے۔ ہر پےغام پر شمشےر دےوانہ خوشی سے جھوم اٹھتا کیونکہ پچھلے چند برسوں سے امن دشمن ، عوام دشمن اور دیش دشمن عناصر کا خاتمہ کرتے ہوئے اُس نے جو بہادرانہ،اےماندارانہ اور منصفانہ کارکردگی دکھائی تھی۔ اُس کے اعتراف میں سرکار نے انھےں فرض شناس پولیس آفےسر قرار دےکر" ستارئہ امن" کے مےڈل سے نوازنے کا فےصلہ کےا تھا ۔کرےم چاچا .....شمشےر دےوانہ کا پرانا گھرےلو خدمت گار.....بچپن سے ہی اس گھر میں اےمانداری اور وفاداری کے ساتھ اپنا فرض نبھاتے ہوئے اب بڑھاپے کی سرحدپر کھڑا تھا ۔ وہ مالک کی ترقی پر گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر تواضح کرنے میں فخر محسوس کر رہا تھا ۔ "ےومِ امن" کی تقرےب شروع ہونے والی تھی اور شمشےر دےوانہ کو اس تقرےب میں اعزازی میڈل ملنے والا تھا۔ وہ تقرےب میں جانے کے لئے تےار ہو رہا تھا ۔ کرےم چاچا نے اُسے اپنے گمشدہ بےٹے کی ےاد پھر دلائی ۔ کرےم چاچا کے بڑھاپے کا سہارا کچھ دنوں سے غائب تھا اور اُس کی امےدےں اپنے آقا اور نامور پولیس آفےسر سے وآبستہ تھیں ۔

”نئے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی میں اُسے تلاش کرونگا“ شمشےر دےوانہ نے مسکراتے ہوئے کرےم چاچا کو دلاسہ دےا۔ ” اس وقت تم اسپتال چلے جاو ¿۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ منّا کی حالت بگڑ رہی ہے ۔ “

کرےم چاچا اپنے گمشدہ بےٹے کا غم بھول کر مالک کے بےٹے کی دےکھ بھال کے لئے اسپتال کی طرف روانہ ہو گےا ۔

شمشےر دےوانہ جب اپنے محل نما حویلی سے نکل کر لان کی طرف بڑھنے لگا تو گاو ¿ں کے لوگ قطار میں کھڑے ہو کر اس کے استقبال میں کھڑے تھے ۔ مبارک،مبارک کی آوازیں ہر طرف سے آرہی تھیں اور وہ شکرےہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ۔گاو ¿ں کے بزرگ اُس کی طرف آس بھری نظروں سے دےکھ رہے تھے اور گمشدہ بچوں کی مائیں زار و قطار رو رہی تھیں ۔ ” آپ کے بچے مجھے اپنے بچے جیسے ہیں۔ “ شمشےر دےوانہ نے ہمدردانہ لہجے میں ان سے کہا ” میں سرکار سے خصوصی اختےارات حاصل کر کے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔“

شمشےر دےوانہ سرکاری گاڑی میں سوار ہو کر تقرےب کی جانب روانہ ہوا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی درجن بھر سفےد و سبز رنگ گاڑےاں سائرن بجاتے ہوئے قافلے کی صورت میں اُس کے ساتھ دوڑ رہی تھیں ۔ شمشےر دےوانہ اسپےشل فورس کا آفیسر تھا ۔اس کو جہاںکا بھی چارج دیا جاتا تو وہ اپنا فرض اس سلےقے سے انجام دےتا تھا کہ ڈےپارٹمنٹ میں وہ انکاونٹرماسٹر کے نام سے مشہور ہو گےا تھا اور وہاں پر کسی انسان کو لا اےنڈ آڈر کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہ رہ جاتی تھی۔

تقرےب شروع ہونے کے ساتھ ہی شمشےر دےوانہ کو اسٹےج پر بلاےا گےا ۔وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنی نشست پر بےٹھ گےا ۔ جلسہ گاہ میں لوگوں کی کافی تعداد موجود تھی۔ پولیس آفیسرز اور سےاست دان اپنے اپنے مخصوص انداز میں شمشےر دےوانہ اور دوسرے پولیس آفےسرز کی فرض شناسی، امن دوستی اور وطن پرستی کی داستانیں بڑھا چڑھا کر سُنا رہے تھے۔ تقرےب کے آخر پر شمشےر دےوانہ کو ڈائس پر بلاےا گےا ۔ وہ تالےوں کی گونج میں جذباتی اندازسے تقرےر کرنے لگا :

”کچھ شر پسند اور دیش دشمن عناصر اپنے حقےر مفادات کی خاطر ہمارے معصوم اور بے گناہ جوانوں کو دہشت گردی کے جال میں پھنساتے ہیں اور ان کی معصو م زندگےوںسے کھےلتے ہیں جس کا عذاب سارے ملک کو جھےلنا پڑتا ہے۔آپ لوگ ہمارے محکمے پرپورا بھروسہ رکھیں وہ سب بے ضمیر درندے اور انسانےت کے دشمن جلد ہی بے نقاب ہو جاینگے اور ےہاں پھر سے امن بحال ہوگا۔“

تقرےر ختم کرنے کے بعدشمشےر دےوانہ کو "ستارئہ امن "سے نوازنے کی تےاری ہو رہی تھی ۔ اچانک میڈیا کی اےک گاڑی جلسہ گاہ میںنمودار ہوئی اور اسٹیج کے سامنے رک گئی۔میڈیا کے افراد ایک زخمی نوجوان کو سہارا دیتے ہوئے اسٹیج پر چڑھ گئے ۔ نوجوان کے لباس پر خون کے دھبے تھے۔سبھی لوگ اس غیر متوقع صور ت حال سے حیران ہوگئے اور جلسہ گاہ پر سناٹا چھا گیا۔ خاموش سمندر میں سونامی کی لہریں اٹھنے لگیں ۔ لہروں نے کالے بھوتوں کے بسیر ے کواپنی لپےٹ میں لے لےا ۔ غےبی ہاتھوں پررعشہ طاری ہوگیا۔شمشیر دیوانہ کے چہرے پر خوف کی ہوائیں اڑنے لگیں اورڈر کے مارے منہ سے وحشت بھری آواز نکل پڑی:

”کریم چاچا کا گمشدہ بیٹا۔۔۔۔؟“

دیدبان شمارہ ۔ ۷

ناکہ بندی

ڈاکٹر ریاض توحیدی

کشمیر

چار مہینے کا ننھا سا پھول دودھ کی ایک ایک بو ند کے لئے ترس رہا تھا۔ اُس کی دلخراش چیخیں ماں باپ کے جگر کو پارہ پارہ کررہی تھیں ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان کے کلیجے کو تیزدار تلوار سے کاٹا جارہا ہے ۔ بھوکے بچے کی ابتر حالت اور اپنی بے بسی و بے کسی کا رونا روتے روتے ساجدہ اور بشیر ملک کی آنکھیں پتھر ا گئی تھیں ۔بنجر زمین کے بنجر ذہن آدھی باسیوں نے سرسبز اور شاداب وادی کے بے مثل مہمان نواز انسانوں کا دانہ پانی بند کر دیا تھا ۔ کئی مہینوں سے چل رہی اقتصادی ناکہ بندی کے ٹوٹنے کے تمام راستے بلوایوں کے محسن جمہوریت پسند سیاستدانوں کی شاطرانہ مصلحت آمیزی اور جانبدار نہ پالیسوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے اور وادی کے طول و عرض میں قحط نما صورت حال تھی ۔

” بشیر ! منا بے ہوش ہو گیا ہے “ساجدہ نے رقت آمیز لہجے میں کہا ۔ ” کہیں سے آٹو کا انتظام کرو اس کو اسپتال لے جاینگے۔“

” اس اندھیری وحشت ناک رات میں ہم کس طرح گھر سے نکلیں گے ۔“ بشیر ملک نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا” باہر کرفیو لگا ہوا ہے

۔ صبح تک انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر .... صبح کو بھی کون اسپتال جانے دیگا ۔“

لیکن بشیر .... صبح ....؟ ساجدہ کچھ اور نہ کہہ سکی۔

” ساجدہ ! کسی پڑوسی سے منا کے لئے دودھ ادھار مانگ لو“ بشیر ملک نے کہا۔

ساجدہ غم ناک آواز میں بولی ” وہ لوگ مجھ سے ہی دودھ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ۔ان کے بچے بھی بھوک سے بلک رہے ہیں۔“

کچھ دیر کے بعد فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔ بشیر ملک نے ریسور اٹھایا ۔ جموں سے اُس کا چھوٹا بھائی عرفان ایک ہی سانس میں بول پڑا ” بھائی جان ! اندھیرے کا سہارالے کر میں ٹرک لے کر جموں سے گزر رہا ہوں ۔ فکر مت کرنا ! میں نے منے کے لئے دودھ کی ایک پیٹی بھی لائی ہے ،بشیر ملک نے یہ بات جب ساجدہ کو بتائی تو اس کا چہرہ کِھل اٹھا۔

بشیر ملک نے کرسی پر بیٹھ کر تھوڑی سی راحت محسوس کی۔ وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا اور گزرے دنوں کی خوشنما یا دوں میں کھو گیا ۔ اسے یاد آرہا تھا کہ کس طرح ہم کشمیری اپنی جنت میں وارد مہمانوں کا استقبال بے مثل فراخ دلی سے کرتے تھے اور اپنی مہمان نوازی کے حسین نقوش ان کے دلوں پر چھوڑ کر بار بار یہ ثابت کر تے آئے تھے کہ ” ذرا ذرا ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز۔“ اُس کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں لیکن وہ اب کچھ اور ہی محسوس کر رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس انسانی سلوک کے بدلے یہ لوگ حیوانیت پر اتر آئے ہیں، ان لوگوں نے اپنے زہر آلودہ منصوبوں سے وادی کے خوش نما اور خوبصورت پھولوں کو مسلنے کی قسم کھائی ہیں۔ ان کی خمیر میں ہی شاید منافرت کا زہر ملا ہوا ہے، نہیں تویہ لوگ کیسے بھول جاتے کہ جب یہ لوگ کشمیر میں اپنے مذہبی مقامات پر زیارت کے لئے آتے تھے تو ہم لوگ جگہ جگہ ان کے لئے کھانے پینے کا اعلیٰ انتظام کرتے تھے اور ماضی میں کئی بار جب موسم کی خرابی کی وجہ سے یہ لوگ مصیبت میں پھنس گئے تھے تو ہمارے گھر ان کے لئے بہترین اور پر امن پناہ گاہ ثابت ہوتے تھے اور آج یہی لوگ زمین کے وارثوں کو ہی کاشت کار بنانا چاہتے ہیں اور مکان کے مکینوں کو کرایہ دار .... !

یہ لوگ پریشانیوں کی وجہ سے کئی راتوں سے سو نہیں پائے تھے ۔ رات کے آخری حصے میں جب بشیر ملک کی آنکھ لگ گئی تو صبح سویرے انھیں فون پر کسی دوست نے اطلاع دی کہ آج کسی رضاکار تنظیم کی طرف سے انسانی حقوق کے دفتر کے سامنے ملک فوڈ بانٹا جائے گا۔ بشیر ملک یہ سُن کر گھر سے تیزی کے ساتھ نکلا اور شہر کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا اور بڑی مشکل سے دودھ کا ایک ڈبہ حاصل کر پایا ۔ ادھر ساجدہ اپنے بے ہوش لخت جگر کو لے کر اسپتال کی جانب دوڑ پڑی ۔ وہ جب پریشان حالت میں سنسان سڑک کو پار کر رہی تھی کہ اچانک کہیں سے آواز آئی ” کرفیو ں میں کہاں جارہی ہو:؟“

ساجدہ نے خوف کے مارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میںآنسو بہاتے ہوئے کہا ۔

” بچہ بیمار .... اسپتال....! “ یہ سنتے ہی کئی وردی پوش سڑک پر نمودار ہوگے۔ ساجدہ دہشت زدہ ہوئی، اُس نے بچے کو چھاتی سے لگایا۔

” اچھا ! بیما ر بچے کو اسپتال لے جانا ہے“ ایک وردی پوش بولا” اسپتا ل جا کر کیا کروگی وہاں تو دوائی نہیں ہے ۔“

چند لمحوں بعد کہیں سے ایک سنساتی ہوئی گولی آئی اور بچے کے پھول جیسے نازک بدن کو چیرتی ہوئی ماں کے دل میں پیوست ہو گی ۔ چاروں طرف ہنسنے کی آوازیں آئیں اور خون میںلت پت دونوں لاشیں گھر کے صحن میں پھینک دی گئیں ۔

بشیر ملک شہر کی گنجان آبادی سے چوری چھپے خوش ہو کر دودھ کا ڈبہ بغل میں چھپاتے ہوئے جب گھر کے مین گیٹ پر پہنچا ۔ تو صحن میں داخل ہوتے ہی اُس کی نظر بیوی اور بچے کی لاش پر پڑی ۔ وہ حواس باختہ ہو کر چیخنے چلانے لگا۔ اس کی چیخیں صدابہ صحرا ثابت ہو رہی تھیں کیونکہ وردی پوشوں کے خوف کی وجہ سے تمام لوگ گھروں کے اندر سہم گئے تھے۔

عرفان جب رات کے اندھیرے میں چاول سے بھرا ٹرک کشمیر کی طرف لے کر آرہا تھا تو بیچ سڑک پر اُسے بُلوایوں نے روکا ۔ وہ لوگ ہاتھوں میں تر شول اور سرپر کیسری رنگ کے کپڑے باندھے نعرہ لگا رہے تھے۔

” ہر ہر مہادیو ۔ وندے ماترم ....بلوایوں نے ٹرک پر حملہ کر کرے سارا چاول لوٹ لیا اور عرفان کو ٹرک کے ساتھ زندہ جلا ڈالا ۔ بشیر ملک اس اندوہ ناک صورت حال سے بے خبر تھا۔ اُس نے عرفان پر مو بائل پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اسے گھر کے سانحہ کے بارے میں بتائے لیکن عرفان کا موبائل بند آرہا تھا ۔ ایک گھنٹے کے بعد عرفان کے ایک ساتھی ڈرائیور کا فون آیا‘ اُس نے بشیر ملک کو عرفان کے حادثے کے بارے میں بتایا ۔ یہ خبر سنتے ہی بشیر ملک کے اوپر جیسے دو ہر ا آسمان ٹوٹ پڑا ۔ اُس کی آواز بند ہوگی۔

کرفیو میں آدھے گھنٹے کی ڈھیل دی گی ۔ بشیر ملک گھر سے باہر نکلا اور بازار کی طرف چل پڑا ۔ اُ س کے ہاتھ میں دودھ کا ڈبہ تھا ۔ کچھ لوگ سڑک پر جمع ہو گے۔ بشیر ملک کے ہاتھ میں مِلک فوڈ دیکھ کر ایک آدمی سامنے آیا اور بشیر ملک سے پوچھنے لگا۔

” اے بھائی ! تمہیں یہ دودھ کا ڈبہ کہاں سے ملا؟ کیا اسے بیچو گے ؟“

بشیر ملک نے جب ہاں میں جواب دیا تو وہ آدمی حیران ہو کر بول پڑا ۔

” لیکن کیوں! تمہیں بھی تو اپنے بچے کے لئے اس کی ضرورت ہوگی۔“

” میرے بچے کو اب اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ کفن کے انتظار میں ہے ۔ جس کے لئے مجھے پیسے چائیں ۔“ یہ کہتے ہوئے بشیر ملک کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی دھار اُمنڈ پڑی۔

اسی دوران لوگوں نے ناکہ بندی اور کرفیو کے خلاف پر امن احتجاج شروع کیا۔ مظاہر ین کو خاموش کرانے کے لئے وردی پوشوں نے ان پر گولیوں کی برسات برسائی۔ آدھے گھنٹے کی ڈھیل ختم ہوتے ہی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ بشیر ملک کی لاش بھی گولیوں سے چھلنی سڑک پر کفن کا انتظار کر رہی تھی ۔ اور قانون کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لئے دودھ کے ڈبے کو بم بنا کر پیش کیا گیا....!

............٭٭٭........

Wadipora Handwara kashmir 193221 .India

email.drreyaztawheedi777@yahoo.com cell.7006544358

کالے بھوتوں کا بسیرا

ڈاکٹر رےاض توحےدی

وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر(انڈیا)193221

غروب آفتاب کے ساتھ ہی کالی رات کے دہشت ناک سائے بستی کے گلی کو چوں میں سنسناہٹ کے بےن بجانا شروع کر دےتے تھے۔ بےن کی خوفناک چےخوں نے بستی کو شبِ عاشورہ میں تبدےل کےا تھا اور برسوں سے چھائے ہوئے خو ف و دہشت کے ان پر اسرار سےاہ ساےوں نے بستی کو کالے بھوتوں کا بسےرا بنا ئے رکھا تھا ۔ بستی کے بے بس مکین اپنی خوف زدہ نئی نسل کو ان کالے بھوتوں کے خونین پنجوں سے بچائے رکھنے کے جتنے بھی گُر آزمالےتے وہ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اس وقت سراب معلوم ہوتے جب کسی اور بچے کے غائب ہونے کی منحوس خبر گھر گھر پھےل جاتی ۔ لوگوں کے ذہنوں میں انتشار کی رو تےز ہو رہی تھی کہ رات کے سےاہ ساےوں میں کونسے غےبی ہاتھ ان کی معصوم نسل کو اُن سے چھےن لےتے ہیں ۔

اُس دن..... طلوعِ آفتاب کے ساتھ ساتھ ..... موبائل پر شمشےر دےوانہ کو مبارک بادی کے پےغامات آنے شروع ہو گئے۔ ہر پےغام پر شمشےر دےوانہ خوشی سے جھوم اٹھتا کیونکہ پچھلے چند برسوں سے امن دشمن ، عوام دشمن اور دیش دشمن عناصر کا خاتمہ کرتے ہوئے اُس نے جو بہادرانہ،اےماندارانہ اور منصفانہ کارکردگی دکھائی تھی۔ اُس کے اعتراف میں سرکار نے انھےں فرض شناس پولیس آفےسر قرار دےکر" ستارئہ امن" کے مےڈل سے نوازنے کا فےصلہ کےا تھا ۔کرےم چاچا .....شمشےر دےوانہ کا پرانا گھرےلو خدمت گار.....بچپن سے ہی اس گھر میں اےمانداری اور وفاداری کے ساتھ اپنا فرض نبھاتے ہوئے اب بڑھاپے کی سرحدپر کھڑا تھا ۔ وہ مالک کی ترقی پر گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر تواضح کرنے میں فخر محسوس کر رہا تھا ۔ "ےومِ امن" کی تقرےب شروع ہونے والی تھی اور شمشےر دےوانہ کو اس تقرےب میں اعزازی میڈل ملنے والا تھا۔ وہ تقرےب میں جانے کے لئے تےار ہو رہا تھا ۔ کرےم چاچا نے اُسے اپنے گمشدہ بےٹے کی ےاد پھر دلائی ۔ کرےم چاچا کے بڑھاپے کا سہارا کچھ دنوں سے غائب تھا اور اُس کی امےدےں اپنے آقا اور نامور پولیس آفےسر سے وآبستہ تھیں ۔

”نئے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی میں اُسے تلاش کرونگا“ شمشےر دےوانہ نے مسکراتے ہوئے کرےم چاچا کو دلاسہ دےا۔ ” اس وقت تم اسپتال چلے جاو ¿۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ منّا کی حالت بگڑ رہی ہے ۔ “

کرےم چاچا اپنے گمشدہ بےٹے کا غم بھول کر مالک کے بےٹے کی دےکھ بھال کے لئے اسپتال کی طرف روانہ ہو گےا ۔

شمشےر دےوانہ جب اپنے محل نما حویلی سے نکل کر لان کی طرف بڑھنے لگا تو گاو ¿ں کے لوگ قطار میں کھڑے ہو کر اس کے استقبال میں کھڑے تھے ۔ مبارک،مبارک کی آوازیں ہر طرف سے آرہی تھیں اور وہ شکرےہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ۔گاو ¿ں کے بزرگ اُس کی طرف آس بھری نظروں سے دےکھ رہے تھے اور گمشدہ بچوں کی مائیں زار و قطار رو رہی تھیں ۔ ” آپ کے بچے مجھے اپنے بچے جیسے ہیں۔ “ شمشےر دےوانہ نے ہمدردانہ لہجے میں ان سے کہا ” میں سرکار سے خصوصی اختےارات حاصل کر کے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔“

شمشےر دےوانہ سرکاری گاڑی میں سوار ہو کر تقرےب کی جانب روانہ ہوا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی درجن بھر سفےد و سبز رنگ گاڑےاں سائرن بجاتے ہوئے قافلے کی صورت میں اُس کے ساتھ دوڑ رہی تھیں ۔ شمشےر دےوانہ اسپےشل فورس کا آفیسر تھا ۔اس کو جہاںکا بھی چارج دیا جاتا تو وہ اپنا فرض اس سلےقے سے انجام دےتا تھا کہ ڈےپارٹمنٹ میں وہ انکاونٹرماسٹر کے نام سے مشہور ہو گےا تھا اور وہاں پر کسی انسان کو لا اےنڈ آڈر کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہ رہ جاتی تھی۔

تقرےب شروع ہونے کے ساتھ ہی شمشےر دےوانہ کو اسٹےج پر بلاےا گےا ۔وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنی نشست پر بےٹھ گےا ۔ جلسہ گاہ میں لوگوں کی کافی تعداد موجود تھی۔ پولیس آفیسرز اور سےاست دان اپنے اپنے مخصوص انداز میں شمشےر دےوانہ اور دوسرے پولیس آفےسرز کی فرض شناسی، امن دوستی اور وطن پرستی کی داستانیں بڑھا چڑھا کر سُنا رہے تھے۔ تقرےب کے آخر پر شمشےر دےوانہ کو ڈائس پر بلاےا گےا ۔ وہ تالےوں کی گونج میں جذباتی اندازسے تقرےر کرنے لگا :

”کچھ شر پسند اور دیش دشمن عناصر اپنے حقےر مفادات کی خاطر ہمارے معصوم اور بے گناہ جوانوں کو دہشت گردی کے جال میں پھنساتے ہیں اور ان کی معصو م زندگےوںسے کھےلتے ہیں جس کا عذاب سارے ملک کو جھےلنا پڑتا ہے۔آپ لوگ ہمارے محکمے پرپورا بھروسہ رکھیں وہ سب بے ضمیر درندے اور انسانےت کے دشمن جلد ہی بے نقاب ہو جاینگے اور ےہاں پھر سے امن بحال ہوگا۔“

تقرےر ختم کرنے کے بعدشمشےر دےوانہ کو "ستارئہ امن "سے نوازنے کی تےاری ہو رہی تھی ۔ اچانک میڈیا کی اےک گاڑی جلسہ گاہ میںنمودار ہوئی اور اسٹیج کے سامنے رک گئی۔میڈیا کے افراد ایک زخمی نوجوان کو سہارا دیتے ہوئے اسٹیج پر چڑھ گئے ۔ نوجوان کے لباس پر خون کے دھبے تھے۔سبھی لوگ اس غیر متوقع صور ت حال سے حیران ہوگئے اور جلسہ گاہ پر سناٹا چھا گیا۔ خاموش سمندر میں سونامی کی لہریں اٹھنے لگیں ۔ لہروں نے کالے بھوتوں کے بسیر ے کواپنی لپےٹ میں لے لےا ۔ غےبی ہاتھوں پررعشہ طاری ہوگیا۔شمشیر دیوانہ کے چہرے پر خوف کی ہوائیں اڑنے لگیں اورڈر کے مارے منہ سے وحشت بھری آواز نکل پڑی:

”کریم چاچا کا گمشدہ بیٹا۔۔۔۔؟“

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024