نادیہ عنبر لودھی کی نظمیں

نادیہ عنبر لودھی کی نظمیں

Feb 8, 2019

چند تانیثی اور مزاحمتی نطمیں

مصنف

نادیہ عنبر لودھی

شمارہ

شمارہ - ٩

نظم : امید
۔۔۔۔۔

تم ٹھہرو ذرا!

میں آتی ہوں

سورج سے نُور کی کر نیں لے کر

کسی معصوم طفل کے لبوں سے ہنسی لے کر

کسی خُو شبو بھرے جنگل سے

تتلیاں پکڑ کر لاتی ہوں

تم ٹھہرو!

میں آتی ہوں

شام کے ڈھلتے منظر نامے میں

چند جنگو پکڑنے

میں تو ہمیشہ تنہا ہی جاتی ہوں

رات آۓ تو مت ڈرنا!

ستاروں سے رستے پوچھ کر

تم کو بتاتی ہوں

خواب بھری ان آنکھوں کے واسطے

نیند بھی لاتی ہوں

تم ٹھہرو میں آتی ہوں !

تم ٹھہرو میں آتی ہوں!

۔۔۔۔۔۔

------------------------------

نظم :گناہ

۔۔۔۔۔

زانیوں کے پاس نئی نئی دلیلیں ہیں

نئے نئے الفاظ ہیں

بے شمار جواز ہیں

بدلتے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر

یہ نئے قصے سناتے ہیں

سوچ کے نئے زاویے تلاش کرتے ہیں

اضطراب کا ایک ہی حل سوچتے ہیں

بدبودار لمحات کو

بستر کی سلو ٹوں میں سوۓ

پوشیدہ تجربات کو

شراب کے بُو میں گھول لیتے ہیں

پھر اسُ لمحے تھوڑ ا سا سچ بھی بول لیتے ہیں

گزرے لذت آشنا تجربات کا بھید بھی کھول لیتے ہیں

کسی نئے بدن کی خوشبو میں گمُ

میقاس الشباب سے

پُر کیف لمحات تک

شراب کے جام سے ناف تک

راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں

دلدل میں اُترتے قدموں کے واسطے

کوئی جواز بھی سوچ لیتے ہیں

حوا کے بیٹے

بنت ِ حوا سے کھیل لیتے ہیں

۔۔۔۔

--------------------------------------

نظم :خوش دامن

۔۔۔۔۔۔۔۔

خوش دامن کے دامن سے

گر وابستہ ہو خوشیاں

کیوں اٹھائیں

نوکیلے لفظوں کی ذلت

مجبور سماعتیں

گُنگ زبانیں

آگ میں جل کر

کبھی نہ مریں

پرائی بیٹیاں

۔۔۔

-------------------------------------------

نظم :خون کا اثر

۔۔۔۔۔

سب فرضی باتیں ہیں

قصے ہیں کہانیاں ہیں

خون کا اثر تربیت سے زیادہ ہوتا ہے

یہ طے شدہ نتیجہ ہے

تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے

تربیت مات نہیں دے سکتی فطرت کو

شفقت نہیں بدل سکتی خون کے اثر کو

نیک نیتی سے کی گئی نیکیاں

کبھی کبھی آزمائش بن جایا کرتی ہیں

خود کو مسلماں کہتے ہو

تو راضی برضا کیوں نہیں ہوتے

قرآن پڑ ھتے ہو

پھر رب کے فیصلے سے ٹکراتے ہو

جو فرض تم کو سونپا نہیں گیا چنا نہیں گیا

کیوں اس کا بار اٹھاتے ہو

اپنی ناقص عقل عقل کُل سے صلیب مقدر سے ٹکراتے ہو

حلال ، حرام برابر نہیں ہو سکتے

لے پالک بچے تمہاری ولدیت کے ساجھی نہیں بن سکتے

انہیں یتیم خانوں میں رہنے دو

مت توڑو ان کے ننھے دل

ان کے کمزور وجود کھلونا نہیں

یہ انسان ہیں

انسان کے گناہ کا حصہ نہیں

یہ خود گناہ گار نہیں ہیں

ناجائز بچے معاشرہ جائز نہیں کرتا

ان کو ان کی دنیا میں رہنے دو

بے خبری کی رو میں بہنے دو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم :ہجرت

۔۔۔۔۔

تم ہجرت کا کرب نہیں جانتے

تم نے انتظار حسین کے افسانے نہیں پڑھے

ناصر کاظمی کے اشعار میں چھپے ہوۓ نوحے نہیں سُنے

جو ہندوستان کو بنتے دیکھا ہوتا

گھروں کو جلتے دیکھا ہوتا

عصمتوں لٹتی ،گردنیں کٹتی

زندگی بکھرتی دیکھی ہوتی

تو شاید تم ہجرت کا کرب جان لیتے

فاسٹ فوڈ کے شوقین

اپنے حال میں گم

تمہارا کوئی مذہب کوئی نظریہ نہیں ہے

پیٹ کی بھوک سے جنس کی آسودگی تک

حیوانی فطرت

اس ہجرت کے درد کو کیسے محسوس کر سکتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

‍نادیہ عنبر لودھی

نظم : امید
۔۔۔۔۔

تم ٹھہرو ذرا!

میں آتی ہوں

سورج سے نُور کی کر نیں لے کر

کسی معصوم طفل کے لبوں سے ہنسی لے کر

کسی خُو شبو بھرے جنگل سے

تتلیاں پکڑ کر لاتی ہوں

تم ٹھہرو!

میں آتی ہوں

شام کے ڈھلتے منظر نامے میں

چند جنگو پکڑنے

میں تو ہمیشہ تنہا ہی جاتی ہوں

رات آۓ تو مت ڈرنا!

ستاروں سے رستے پوچھ کر

تم کو بتاتی ہوں

خواب بھری ان آنکھوں کے واسطے

نیند بھی لاتی ہوں

تم ٹھہرو میں آتی ہوں !

تم ٹھہرو میں آتی ہوں!

۔۔۔۔۔۔

------------------------------

نظم :گناہ

۔۔۔۔۔

زانیوں کے پاس نئی نئی دلیلیں ہیں

نئے نئے الفاظ ہیں

بے شمار جواز ہیں

بدلتے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر

یہ نئے قصے سناتے ہیں

سوچ کے نئے زاویے تلاش کرتے ہیں

اضطراب کا ایک ہی حل سوچتے ہیں

بدبودار لمحات کو

بستر کی سلو ٹوں میں سوۓ

پوشیدہ تجربات کو

شراب کے بُو میں گھول لیتے ہیں

پھر اسُ لمحے تھوڑ ا سا سچ بھی بول لیتے ہیں

گزرے لذت آشنا تجربات کا بھید بھی کھول لیتے ہیں

کسی نئے بدن کی خوشبو میں گمُ

میقاس الشباب سے

پُر کیف لمحات تک

شراب کے جام سے ناف تک

راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں

دلدل میں اُترتے قدموں کے واسطے

کوئی جواز بھی سوچ لیتے ہیں

حوا کے بیٹے

بنت ِ حوا سے کھیل لیتے ہیں

۔۔۔۔

--------------------------------------

نظم :خوش دامن

۔۔۔۔۔۔۔۔

خوش دامن کے دامن سے

گر وابستہ ہو خوشیاں

کیوں اٹھائیں

نوکیلے لفظوں کی ذلت

مجبور سماعتیں

گُنگ زبانیں

آگ میں جل کر

کبھی نہ مریں

پرائی بیٹیاں

۔۔۔

-------------------------------------------

نظم :خون کا اثر

۔۔۔۔۔

سب فرضی باتیں ہیں

قصے ہیں کہانیاں ہیں

خون کا اثر تربیت سے زیادہ ہوتا ہے

یہ طے شدہ نتیجہ ہے

تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے

تربیت مات نہیں دے سکتی فطرت کو

شفقت نہیں بدل سکتی خون کے اثر کو

نیک نیتی سے کی گئی نیکیاں

کبھی کبھی آزمائش بن جایا کرتی ہیں

خود کو مسلماں کہتے ہو

تو راضی برضا کیوں نہیں ہوتے

قرآن پڑ ھتے ہو

پھر رب کے فیصلے سے ٹکراتے ہو

جو فرض تم کو سونپا نہیں گیا چنا نہیں گیا

کیوں اس کا بار اٹھاتے ہو

اپنی ناقص عقل عقل کُل سے صلیب مقدر سے ٹکراتے ہو

حلال ، حرام برابر نہیں ہو سکتے

لے پالک بچے تمہاری ولدیت کے ساجھی نہیں بن سکتے

انہیں یتیم خانوں میں رہنے دو

مت توڑو ان کے ننھے دل

ان کے کمزور وجود کھلونا نہیں

یہ انسان ہیں

انسان کے گناہ کا حصہ نہیں

یہ خود گناہ گار نہیں ہیں

ناجائز بچے معاشرہ جائز نہیں کرتا

ان کو ان کی دنیا میں رہنے دو

بے خبری کی رو میں بہنے دو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم :ہجرت

۔۔۔۔۔

تم ہجرت کا کرب نہیں جانتے

تم نے انتظار حسین کے افسانے نہیں پڑھے

ناصر کاظمی کے اشعار میں چھپے ہوۓ نوحے نہیں سُنے

جو ہندوستان کو بنتے دیکھا ہوتا

گھروں کو جلتے دیکھا ہوتا

عصمتوں لٹتی ،گردنیں کٹتی

زندگی بکھرتی دیکھی ہوتی

تو شاید تم ہجرت کا کرب جان لیتے

فاسٹ فوڈ کے شوقین

اپنے حال میں گم

تمہارا کوئی مذہب کوئی نظریہ نہیں ہے

پیٹ کی بھوک سے جنس کی آسودگی تک

حیوانی فطرت

اس ہجرت کے درد کو کیسے محسوس کر سکتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

‍نادیہ عنبر لودھی

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024