"مائیکرو فکشن : " کایا پلٹ
"مائیکرو فکشن : " کایا پلٹ
Mar 16, 2018
دیدبان شمارہ ۔ ۷
مائیکرو فکشن : " کایا پلٹ "
تحریر : سیدہ آیت ۔۔۔۔(سیدہ راحیلہ شیرازی)ساہیوال
جیسے دبے پاوں خزاں گلشن میں آ کر خاموشی سے بسیرا کر لے۔۔۔ کچھ اسی خاموشی سےوہ بھی اس کے اندر اترا تھا۔۔۔۔۔بنا بتائے۔۔۔بنا پوچھے۔۔۔۔۔۔۔پوچھنا، بتانا تو ایک طرف جب سے وہ اس میں سمایا تھا اس کی سلطنت ذات کے سب موسم بدل گئے تھے ۔۔۔چہکتی چڑیا۔۔۔۔۔۔اداس بلبل کے نام سے پکاری جانے لگی۔۔۔۔۔کسی غاصب حکمران کی طرح اس کی حدود ذات میں اپنےنام کا سکہ رائج کر کے وہ اس کے ہر قطرہ خوں پر اپنے اقتدار کی مہر لگا چکا تھا۔۔۔اندر باہر اس کی شاہی تھی۔۔۔۔۔جذبات و خیالات کی مہاروں کو مضبوطی سے گرفت میں لئے اسے جب جی چاہتااشاروں پہ نچاتا رہتا۔۔اور کسی گھنگرو کی طرح بجتی رہی۔۔ آسیب کی طرح وہ اس کی رگ جاں سے ایسے چمٹا تھا جیسے آکاس بیل کسی نرم و نازک پودے سے۔۔۔۔۔۔۔۔ گلابیوں میں زردیاں گھولناشادابیوں کے دشمن کا محبوب مشغلہ تھا۔۔۔۔۔۔ کبھی بھولے سے جو بیچاری کے لب بے ساختہ مسکرانے کو وا ہونے لگتے تو وہ کنڈلی مارے اندر بیٹھا ایسا ڈنگ مارتا کہ مسکراہٹ کا بدن نیلا پڑجاتا۔۔۔۔۔۔گلاب تبسم کھلنے سے پہلے مرجھا جاتا اور روشن دن سی چمکتی آنکھوں پہ اس کے خیال کا اماوس سایہ گہری مردہ رات کی سی تاریکی پھیلا دیتا۔۔۔۔ویران آنکھیں۔۔مدقوق رنگت اور خشک ہونٹ دیکھ کر اس ظالم کا پیمانہ مسرت چھلکتا۔۔۔اور وہ زرد پتوں کی طرح اسے کانپتا دیکھ کر اس کی بے بسی پر قہقہے لگاتا۔۔ہزار بار سر جھٹک جھٹک کر وہ اس کے خیال سے دامن چھڑانے کی کوشش کی۔۔ مگر ہر جتن بے سود۔۔۔۔آخر اسے اذیت بانٹ کر کیا حاصل ہوتا ہے ؟؟؟۔۔۔۔سوال دل کی دیواروں سے لپٹ کر سسکتا مگر لکنت-سوچ ، اذن- بیان نہ دیتی تھی۔۔۔دیتی بھی تو آخر کیسے۔۔؟؟؟؟ حرف و لفظ کی زبان تو پہلے دن ہی اس خود پسند نے کاٹ دی تھی ۔۔۔ اب فریاد گلے کا ایسا پھندا بن چکی تھی جس کی الم زدہ صورت آنکھوں سے بہتے پانی سے سرخی بن کر جھلکنے لگی تھی۔۔گرمئ جگر حد سے سوا ہوگئی تو آخر ایک دن اس نے روتے ہوئے خون تھوک دیا۔۔ خون کی بو میں ایسی تاثیر تھی کہ اندر کی طغیانی نے باہر ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔ یکلخت اقتدار کا تختہ الٹ گیا۔۔ جبر مسلسل کے موسم آخر کب تک ؟؟؟؟مصلحت-خستہ کی جس چھڑی کو لرزنے والی نےتھامرکھا تھا، اپنے ہی ہاتھوں سے اس کے دو ٹکڑے کر کے اس نے انہیں پس پشت پھینکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زنجیر-قہرکو مصمم ارادے کی دھار سے کاٹا اور حدود-جبر سے باہر نکل آئی۔۔۔۔ اس نے اپنے فلک پر آپ طلوع ہونا سیکھ لیا۔۔۔۔۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اب خون تھوکنے والی مسکراتی ہے اور قہقے لگانے والا کہیں دور ۔۔۔کالی دلدلوں کے پار گڑگڑاتا ہے۔سنا ہے وہ اب خون تھوکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیدبان شمارہ ۔ ۷
مائیکرو فکشن : " کایا پلٹ "
تحریر : سیدہ آیت ۔۔۔۔(سیدہ راحیلہ شیرازی)ساہیوال
جیسے دبے پاوں خزاں گلشن میں آ کر خاموشی سے بسیرا کر لے۔۔۔ کچھ اسی خاموشی سےوہ بھی اس کے اندر اترا تھا۔۔۔۔۔بنا بتائے۔۔۔بنا پوچھے۔۔۔۔۔۔۔پوچھنا، بتانا تو ایک طرف جب سے وہ اس میں سمایا تھا اس کی سلطنت ذات کے سب موسم بدل گئے تھے ۔۔۔چہکتی چڑیا۔۔۔۔۔۔اداس بلبل کے نام سے پکاری جانے لگی۔۔۔۔۔کسی غاصب حکمران کی طرح اس کی حدود ذات میں اپنےنام کا سکہ رائج کر کے وہ اس کے ہر قطرہ خوں پر اپنے اقتدار کی مہر لگا چکا تھا۔۔۔اندر باہر اس کی شاہی تھی۔۔۔۔۔جذبات و خیالات کی مہاروں کو مضبوطی سے گرفت میں لئے اسے جب جی چاہتااشاروں پہ نچاتا رہتا۔۔اور کسی گھنگرو کی طرح بجتی رہی۔۔ آسیب کی طرح وہ اس کی رگ جاں سے ایسے چمٹا تھا جیسے آکاس بیل کسی نرم و نازک پودے سے۔۔۔۔۔۔۔۔ گلابیوں میں زردیاں گھولناشادابیوں کے دشمن کا محبوب مشغلہ تھا۔۔۔۔۔۔ کبھی بھولے سے جو بیچاری کے لب بے ساختہ مسکرانے کو وا ہونے لگتے تو وہ کنڈلی مارے اندر بیٹھا ایسا ڈنگ مارتا کہ مسکراہٹ کا بدن نیلا پڑجاتا۔۔۔۔۔۔گلاب تبسم کھلنے سے پہلے مرجھا جاتا اور روشن دن سی چمکتی آنکھوں پہ اس کے خیال کا اماوس سایہ گہری مردہ رات کی سی تاریکی پھیلا دیتا۔۔۔۔ویران آنکھیں۔۔مدقوق رنگت اور خشک ہونٹ دیکھ کر اس ظالم کا پیمانہ مسرت چھلکتا۔۔۔اور وہ زرد پتوں کی طرح اسے کانپتا دیکھ کر اس کی بے بسی پر قہقہے لگاتا۔۔ہزار بار سر جھٹک جھٹک کر وہ اس کے خیال سے دامن چھڑانے کی کوشش کی۔۔ مگر ہر جتن بے سود۔۔۔۔آخر اسے اذیت بانٹ کر کیا حاصل ہوتا ہے ؟؟؟۔۔۔۔سوال دل کی دیواروں سے لپٹ کر سسکتا مگر لکنت-سوچ ، اذن- بیان نہ دیتی تھی۔۔۔دیتی بھی تو آخر کیسے۔۔؟؟؟؟ حرف و لفظ کی زبان تو پہلے دن ہی اس خود پسند نے کاٹ دی تھی ۔۔۔ اب فریاد گلے کا ایسا پھندا بن چکی تھی جس کی الم زدہ صورت آنکھوں سے بہتے پانی سے سرخی بن کر جھلکنے لگی تھی۔۔گرمئ جگر حد سے سوا ہوگئی تو آخر ایک دن اس نے روتے ہوئے خون تھوک دیا۔۔ خون کی بو میں ایسی تاثیر تھی کہ اندر کی طغیانی نے باہر ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔ یکلخت اقتدار کا تختہ الٹ گیا۔۔ جبر مسلسل کے موسم آخر کب تک ؟؟؟؟مصلحت-خستہ کی جس چھڑی کو لرزنے والی نےتھامرکھا تھا، اپنے ہی ہاتھوں سے اس کے دو ٹکڑے کر کے اس نے انہیں پس پشت پھینکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زنجیر-قہرکو مصمم ارادے کی دھار سے کاٹا اور حدود-جبر سے باہر نکل آئی۔۔۔۔ اس نے اپنے فلک پر آپ طلوع ہونا سیکھ لیا۔۔۔۔۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اب خون تھوکنے والی مسکراتی ہے اور قہقے لگانے والا کہیں دور ۔۔۔کالی دلدلوں کے پار گڑگڑاتا ہے۔سنا ہے وہ اب خون تھوکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔