مٹھی بھر باجرہ

مٹھی بھر باجرہ

May 26, 2019

کبوتر اور انسان کی کہانی


مٹھی بھر باجرہ

افسانہ نگار::: حمزہ حسن شیخ

اُس نے علی بھائی کو خاصے فاصلے سے دیکھ لیا تھا جوجوتے پہن رہے تھے اور جانے کے لیے بالکل تیار تھے۔ بہت دنوں بعد، وہ اپنے آبائی علاقے گیا تھا اور پچھلے کئی ہفتوں سے اُن کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ باقی سب کو چھوڑکر اُس کی جانب لپکا، جبکہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ خُوش گپیوں میں مصروف تھا۔ وہ اُس کے قریب جا کر انتظار کر نے لگا۔ جیسے ہی وہ دوسرے لوگوں سے فارغ ہوا اور مسجد سے باہر کی جانب قدم بڑھائے، وہ اُس کے پیچھے گیا اور بہت ہی گرم جوش آواز میں مخاطب ہوا؛

”السلام علیکم بھائی جان۔۔۔۔۔“اُس کی گرم جُوش آوازسن کر وہ حیرت سے واپس کی جانب مڑے اور اُسے گلے لگا لیا۔

”تم یہاں ہو۔۔۔۔جنرل صاحب۔۔۔۔!!!“ وہ ہمیشہ ہی جنرل صاحب کے نام سے پُکاراجاتا جیسے اُس کے چچا اُسے اس نام سے بچپن میں پُکارتے تھے جب وہ اسکول پڑھتا تھا کیونکہ اُس کے چچا کی خواہش تھی کہ وہ آرمی میں جنرل بنے۔

”میں بالکل ٹھیک ہوں اور آج ہی آیا ہوں۔۔۔۔“ اُس نے بتایاتو اچانک اُن کے چہرے کی خُوشی ہوا ہو گئی اور فورا کہا۔

”کیا تمہیں شہر کے حالات پتہ ہیں؟ ابھی ابھی ایک بندہ مارا گیا ہے۔ کیا تم اپنے علاقے میں نہیں رہ سکتے۔۔۔ یہاں زیادہ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“ اُن کی غصہ بھری آواز کے پیچھے دُکھ چھپا تھا۔ وہ روزمرہ کے معاملات زندگی کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے، مسجد کے مرکزی دروازے سے باہر آئے تو اس کے قریب، اُن کے بیشتر خاندان کی قبریں تھیں اور اُن دونوں کے باپ یہاں پر اپنی ابدی نیند سو رہے تھے۔ وہ دُعائے فاتحہ پڑھنے لگے۔ فاتحہ پڑھتے ہوئے اُس کی نظریں سامنے والے مزار کے گنبدکا تعاقب کر رہی تھی جو امام حسین ؑ کی یاد میں اُن کے مزار کی شبہیہ کے طورپہ بنایا گیا تھا۔ مزار کے گنبد پر کبوتر پر پھڑپھڑا رہے تھے اور اُن کی خوبصورت آواز ماحو ل میں گُونج رہی تھی۔گنبد کو دیکھتے ہوئے، اُس کی آنکھوں کے کونے بھیگے ہوئے تھے۔ ”اُمید ہے یہ اس اربعین تک مکمل ہو جائے گا۔“ اُس نے خُود کلامی کی اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ دوبارہ گنبد کا جائزہ لیا۔ وہ امام حسینؑ کا شیدائی تھا اوراس مزار کی تعمیر کا ایک معاون ہونے کے ناطے، وہ گنبد کی جلد از جلدتکمیل کا خواہش مند تھا۔

”اور کوئی میرے لائق حُکم۔۔۔“ علی بھائی نے رخصت ہوتے ہوئے اُس کو مخاطب کیا۔ ”یہاں پر زیادہ مت آیا کرو جب تک میری زندگی ہے۔۔۔ آپ لوگوں کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔“آخری الفاظ، اُس نے ادا کئے اور پھر وہ اپنی جیپ کی جانب چل پڑاجبکہ وہ اپنے قریبی گھر کی جانب چلا گیا۔

زندگی مصروف ہو گئی اور دونوں اپنی اپنی زندگی کے دائروں میں کھو گئے اور دوبارہ نہ مل پائے سوائے فون پر ایک دو بار بات چیت کے۔ وہ نوکری کے سلسلے میں دوسرے شہر میں مقیم تھاجبکہ علی بھائی اپنے آبائی علاقے میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ مسجد جاتے اور ہر بار مزار کی تعمیر کا جائزہ لیتے۔ جہاں پر کبوتر اللہ کی حمد و ثنا میں مگن رہتے اور سارا دن، ایک سے دوسرے مزار تک اُڑتے رہتے یا کبھی کبھار، قبرستان کی قبروں پر بیٹھے رہتے۔ جس طرح باقی سب لوگ مزار کی تکمیل کے لیے خواہش مند تھے، اسی طرح کبوتر بھی اس کی جلد از جلد تکمیل چاہتے تھے تاکہ اس مقدس مزار کا ٹھنڈا سایہ اُن کو میسر آ سکے۔ مزار اور قبرستان میں آنے والے لوگ اپنے ساتھ، گندم، مکئی، باجرہ اور دالیں لاتے اور مزار کے سامنے والے فرش پر بکھیر دیتے اور کبوتر اس خوراک کا خوب مزہ لیتے۔ اس لیے یہ کبوتر انسانوں کے اتنے عادی تھے کہ وہ بغیر کسی خوف اور جھجھک کے ان انسانی راستوں پر گُھومتے پھرتے۔ اگرچہ کبوتر انسانوں سے خوفزدہ نہ تھے لیکن انسان ایک دوسرے سے خوف کھاتے تھے اور یہ اس شہر کی ریت بن چکی تھی۔ اُن کو ایک دوسرے کے راستوں پر چلنے کا کوئی حق نہ تھااور اگر کوئی دوسرے کا راستہ استعمال کرتا تو اُسے راستے سے بھٹکا دیا جاتا اور کبھی کبھار تو اُس کے رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا۔ وہ اپنے خیالات میں کھویاایک تازہ لیپی ہوئی قبر کے پاس بیٹھا تھاکہ اچانک ایک بچے کی خوبصورت آواز نے اُس کے خیالات کو منتشر کر دیا؛

”چچا۔۔۔!!! کیا آپ پُھولوں کے ہار لیں گے؟ “ اُس نے اپنا سر اُٹھایا تواُس کے سامنے ایک ننھا لڑکا، چھوٹی سی لکڑی پر پھُولوں کے ہار سجائے کھڑا تھا اور وہ بہت خوبصورتی سے ہوا میں لہرا رہے تھے۔

”نہیں۔۔۔۔‘‘اُس کے منہ سے الفاظ پھسلے۔

”آپ لے لیں ناں۔۔۔ بس یہی تھوڑے سے رہ گئے ہیں۔۔۔“ چھوٹے لڑکے کی آواز میں بہت التجاتھی۔

”قبر کی مٹی ابھی گیلی ہے اور پُھول اس پر چمٹ جائیں گے۔“اُس نے جواب دیا۔

”بس آپ مجھ سے یہ لے لیں، قبر سُو کھ جائے گی۔“ لڑکے کے لہجے میں ایک منت سی تھی۔

”اگر میں یہ لے لوں تو تم کیا کرو گے؟“ اُس نے لڑکے کا معصوم اور طلب گار چہرہ دیکھ کرسادہ سا سوال کیا۔

”تو پھر میں گھر چلا جاؤں گا۔۔ بس یہی رہ گئے ہیں۔“ اُس کالہجہ درخواستانہ تھا۔ اُس کا معصوم چہرہ دیکھ کر، اُس کا دل پیار سے بھر آیا اور اُس نے کہا۔

”چلو یہ مجھے دے دو۔“ جیسے ہی اُس نے یہ کہا تو لڑکے کا چہرہ کھل اُٹھااور اُس نے لکڑی سے سارے پُھو ل اُتار کر اُس کے حوالے کر دئیے۔ اُس نے رقم ادا کی اور لڑکا خُوشی سے سرشار، ہنستا مسکراتا اپنے گھر کی جانب چلا گیا اور اُس کے اُداس ہونٹوں پر بھی ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔

یہ جمعے کا دن تھااور علی بھائی نے جمعہ نماز پڑھنے کے بعد، مسجد سے باہر قدم رکھا۔ وہ فاتحہ پڑھنے کے لیے اپنے خاندان والوں کی قبروں پر کھڑا ہوا جبکہ اُس کی آنکھیں سامنے مزار کے گنبد پر جمعی تھیں جہاں پر کبوتر ہوا میں پرپھڑ پھڑا رہے تھے۔ اب گنبد کا تھوڑا ساباقی کام مکمل ہونے کے قریب تھا۔ اُس کے قدموں تلے زمین اُسے آنے والے دن کے لیے پُکار رہی تھی لیکن وہ قدرت کی اس پُکار کے بارے میں ناواقف تھا۔ آنے والے کل وہ اپنے پُورے خاندان کو اپنے سامنے پانے جا رہا تھا اور آج اُن کو بھیجی جانے والی دُعائے فاتحہ آخری تھی۔ اُس کو ماحول میں ایک اجنبیت محسوس ہوئی جیسے مزار کے سارے کبوتر بہت اُداس ہوں۔ اُس نے فاتحہ پڑھنے کے بعد، مزار کے گنبد پر نظر ڈالتے ہوئے آگے قدم اُٹھایاکہ مزار کا رکھوالا اُسے راستے میں ملا اور بتایا کہ تعمیر کے لیے فنڈ ختم ہو چکے ہیں؛ اس لئے تعمیر کا کام بہت سُست ہو چکا ہے۔ آنے والے کل میں پیسوں کا وعدہ کر کے، اُس نے وہ جگہ چھوڑی اور یہ یقینی تھا کہ کل وہ دوبارہ قبرستان ضرور آئے گا۔

ہفتے کا دن تھا؛ چھٹی ہو نے کی وجہ سے وہ تاخیر سے جاگا۔ وہ ناشتے کی چائے کی آخری چُسکیاں لے رہا تھا۔ چائے کا پیالہ ابھی اُس کے ہاتھ میں تھا کہ اُس کے فون کی گھنٹی بجی اور یہ فون اُس کے گھر سے تھا۔ اُس نے فون کا ل کا جواب دیا اور دوسری جانب اُس کی بہن کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ اُس نے سلام کیا لیکن کوئی جواب نہ آیا بلکہ ایک کانپتی، گھبرائی اور روہانسی آوازگُونجی؛

”علی بھائی کو مار دیا ہے۔۔۔ بس تم جلدی سے آ جاؤ۔۔۔“ صرف ایک جُملہ بولا گیا اور پھر فون بند ہو گیا۔ وہ غم کا بُت بنا اپنی جگہ پہ بیٹھا رہ گیا۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے ساری دُنیا ساکن ہو گئی ہو۔ کچھ لمحوں کے لیے، وہ نایقینی کی سی صورت حا ل میں رہا، خالی الذہن ہو کرایک ہی جگہ پر بالکل ساکن۔ فون بند ہو گیا اور وہ پُوچھ بھی نہ سکا، ”کیسے۔۔؟ کب۔۔؟ کہاں۔۔؟کیوں۔۔۔؟اُس کے سارے سوالات اُس کے ذہن میں بغیر کسی جواب کے دفن ہو گئے۔ وہ اسے ایک واہمہ سمجھ رہا تھا جیسے اُس کی سماعتوں نے حقیقت سے بہت دُور کچھ ناقابل یقین سُنا ہو۔ اس غم اور غیر یقینی صورت حال میں دس سے زیادہ منٹ گزر گئے اور اُس کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے ذہن سے سوچنے کی قوت کو سلب کر لیا گیا ہو۔ اس ماؤف ہو نے والی صورت حال میں، اُس نے خود کو یقین کی دُنیا کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی کہ وہ واقعی اس دُنیا میں تھا۔اُسے خُود کوا س شاک سے نکالنے میں بہت دیر لگی۔ اُس نے دو جوڑے بیگ میں ڈالے اور فورا اپنے آبائی علاقے کی جانب روانہ ہو گیا۔ سارا راستہ، وہ شکوک و شبہات میں رہا کہ آیا یہ خبر سچ بھی تھی یا نہیں؟ دوران سفر، اُس کو اپنے علاقے کے ایک بندے کا ازراہ ہمدردی فون آیا اور پھر اُسے یقین آیا کہ یہ خبر سچی تھی۔ سارا راستہ، غیر یقینی کے عالم میں، وہ بہت مضطرب رہا اور اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی کے پر لگ جائیں اور اُسے جلد از جلد اپنے آبائی علاقے میں پہنچا دے۔ اُس کے د ل کی دھڑکن بہت تیز اور بے ترتیب تھی۔ بہت ہی تیز اور اُونچی۔۔۔ یہاں تک کہ وہ اپنی دل کی دھڑکن سننے کے قابل تھا۔دل مضطر، غم سے لبریز اُس کو مزید بے چین کر رہا تھا اور جب بھی گاڑی کچھ دیر کے لیے رُکتی تو وہ زیادہ بے چین ہو جاتاکیونکہ وہ بغیر کسی رُکاوٹ کے اپنا سفر جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اس سفر کے دوران، اُس کا فون، اُس کا دل چیرنے کے لیے مسلسل مختلف لوگوں کے تعزیتی پیغامات کے لیے گُونجتا رہا۔ آخری ملاقات کی ساری باتیں اُس کے ذہن میں گُونج رہی تھیں اور اب وہ مسکراتا چہرہ اس دُنیامیں نہیں رہا تھا۔ وہ اُس کی آخری نماز کے لیے اپنے دل اور دماغ کو تیار کر رہا تھا۔ وہ ابھی بھی عالم بے یقینی میں تھا، اگرچہ وہ سفر کر رہا تھا لیکن اُس کا دماغ کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ زندگی کی ساری ملاقاتیں، ساری خُوش گپیاں، سارے قہقہے، سارے اکٹھے گزرے لمحے اور ساری گفتگوئیں ایک فلم کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی تھیں۔ سات گھنٹے کی طویل مسافت نے اُسے اپنے آبائی شہر پہنچنے کے قابل بنایا اور اڈے پر اُترتے ہی اُس نے علی بھائی کے گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔ اُس کے دل میں چھُپا غم کسی طُوفان کی طرح پھٹنا چاہتا تھا۔ اُس کے بھائی کی لاش اُس کے سامنے تھی لیکن ابھی بھی اُس کے لیے ایک غیر یقینی صورت حال تھی۔ چہرے اور سینے پہ نو گولیاں کھانے کے بعد بھی اُس کے چہرے پہ ویسی ہی مسکراہٹ۔۔۔ ہاں، بالکل ویسی ہی مسکراہٹ۔۔۔جو ہر خُوش کُن جملے کے بعد اُس کے لبوں پر آتی اورپھر ایک دل آویز قہقہے میں بدل کر آسمان کی بلندیوں کو چُھو لیتی۔ اُس کے چہرے کی مسکراہٹ۔۔۔ایک جادوائی مسکراہٹ۔۔۔اُس کے قاتلوں کا مذاق اُڑا رہی تھی کہ اپنے جسم میں اتنی گولیاں سہنے کے باوجود بھی وہ مسکرا رہا تھا۔ اُن کو آخری پیغام دینے کے لیے کہ وہ ہار گئے تھے جبکہ وہ ایک فاتح تھا۔ وہ یہ مسکراتا چہرہ دیکھتا رہا اور پھراپنے آنسووں میں نہا گیا۔ وہ خاصی دیر آنسو بہاتا رہا اور پھر اُس کے بھائی کا سفر آخر شروع ہو گیا۔

اُس نے رکھوالے کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ آنے والے کل میں رقم لے کر آئے گا اوروہ کل اب آ گیا تھالیکن رقم کے بجائے، وہ اپنی زندگی کا خزانہ لایا تھا۔ اُس کواُسی جگہ دفن کیا جا رہا تھا جہاں ایک دن پہلے اُس نے دعُائے فاتحہ پڑھی تھی۔ وہ ہر بار یہاں کھڑے ہو کر گنبد کو دیکھتا تھا لیکن آج گنبد اُس کو دیکھ رہا تھا جبکہ وہ زمین کو گلے لگانے جا رہا تھا۔ گنبد پر رات کے سایے پڑے تھے اور تمام کبوتر اُداسی اور خاموشی کے ساتھ اُس کی تدفین دیکھ رہے تھے کہ اُن کے زیر تعمیر گنبد کا رکھوالا اب نہیں رہا تھا اور اُن کا مٹھی بھر باجرہ کھو گیا تھا۔

FISTFUL MILLET

BY: HAMZA HASSAN

           He had watched Ali Bhai from a distance while he was wearing his shoes and was ready to go. After many days, he had visited his native town and had no meeting with him from last many weeks. He rushed towards him, leaving all others while he was busy in talking to the other people. He went near him and then waited for him to be free. As he got freed and stepped back of the mosque, he went behind him and greeted in an excited voice;

“AOA brother…” On his exciting voice, he turned back surprisingly and hugged him.

“You are here… General sahib…” He always called him general sahib as his uncle (his father) called him with this name in his childhood when he was a school boy as his uncle wished that he might be a general in army.

“I am fine and I just got today….” He told him and then all of sudden happiness on his face faded and he addressed.

“Do you know the condition of the city? Just now a man is killed.You can’t stay there in your area. No need to come here.” There was a pain behind this anger in his voice and then they generally began to discuss about the matters of life. They moved out of the main gate of the mosque and near it, there were graves of their family and fathers of both of them were sleeping their eternal sleep. They offered requiem and while offering requiem, his eyes were chasing the dome of the shrine in front, built as a memento of Imam Hussain (AS), resembling his holy shrine. The pigeons on the dome of the shrine were flattering and their beautiful voice echoed in the atmosphere. His eye-corners were wet while watching the dome. “Hopefully it will be completed till this Arabaeen.” He soliloquized and judged the dome again with wet eyes. He was a lover of Hussain (AS) and wished to complete the dome of the shrine as soon as possible as one of the donors for its completion.

“Any order for me…..” He addressed him while departing, “Don’t come here more until I have life, you don’t have to worry about anything.” The last words, he uttered to him and then moved towards his jeep while he turned towards his nearby home.

The life became busy and they both were lost in their own circles of life and could not meet again except twice or thrice on the phone call. He was living in other city due to job while he was leading life in the native town.He visited the mosque regularly and in all these visits, he kept on judging the construction of the dome; where pigeons praised the blessings of God and all the day, those kept on flattering from one shrine to the other or even sometimes sitting on the graves of the graveyard. As all people were desirous of completion of the shrine, same as the pigeons too wanted its early completion to get a cool shadow of this holy shrine. The visitors visiting the grave yard and the shrines brought grains of wheat, maize, millet and pulses and threw on the floor in front of shrine and they enjoyed this food. Therefore the pigeons were so habitual of humans that they kept on walking on human pathway without any fear. Though the pigeon were not afraid of humans but the humans were afraid of each other and it became a tradition of this city. They had no right to walk on the paths of each other and if anyone used the same track then he was made trackless and even sometimes his right of living was also snatched. He was sitting near freshly lapped grave, lost in deep meditations. All of sudden, a beautiful voice of a child disturbed his thoughts;

“Uncle..!Would you like to take these wreathes of flowers?” He raised his head then a small boy was standing in front of him, having wreathes of flowers on a small stick; waving in the breeze in a beautiful way.

“No.” The words slipped from his mouth.

“Please take these. Just these few are left.” The small boy requested him.

“Still mud of the grave is not dried and the flowers would be adhered on it.” He replied.

“Please you take from me, the grave will be dried.” The small boy requested again.

“If I take these then what will you do?” He asked him simply after watching his innocent and apologetic face.

“Then I will get back to my home. Just these few are left.” He said again with a request in his accent. Watching his innocent face, his heart was filled with love and he replied;

“Ok give all these to me.” As he said, the face of the boy was gleeful and taking all wreathes from the stick, he gave to him. He paid him money and then the little boy left towards his home happily; giggling and laughing and a smile waved on his lips too.

It was Friday and his brother stepped out of the mosque after offering Friday prayer. He stood on family graves to offer requiem while his eyes were fixed on the dome of the shrine where the pigeons were flattering. Nowa little work of the dome was left and seemed to be accomplished soon. The land under his feet was calling him the coming day but he was unknown about this call of destiny. Tomorrow, he may be going to meet his whole family lively and today was his last requiem sent to them. He felt strangeness in the atmosphere as all the pigeons of the dome seemed gloomy. He stepped forward after offering the requiem with his eyes on the dome that the guardian of the shrine met him inthe way and told that the funds had been finished; therefore the work had been slowed down. With a promise of payment tomorrow, he left the place and it was certain that tomorrow he would be coming to the graveyard again.  

It was Saturday; he got up very late and was having the last sips of his breakfast tea. Still the cup of tea was in his hand that he received a phone call from his home. He attended the call and on the other side was the voice of none other than his sister.  He paid compliments but there was no response and just a trembling-confused-raucousvoice echoed on the phone;

“The brother has been killed. Please you come hurriedly.” Just this sentence was told and then the phone was closed. He was fixed on his place shockingly. He felt as the world had become still. For many moments, he was in condition of unbelieving, still at one place with an empty mind. The phone was closed and he even could not ask, “How…? When…? Where…? Why…?” all his questions were left in his mind with no reply. He was taking it as a whim as his hearings had heard something unbelievable beyond reality. More than ten minutes passed in a shock and he felt as his mind had lost the thinking power.  In the condition of unconsciousness, he moved himself to believe that he was still in this world. It took him a long time to get out of shock. He took two suites in his bag and immediately moved towards his native town. All the way, he was in doubt that whether this news was true or false? During his journey, he received a phone call of condolence from one of the people from his town and then he believed that this news was true. All way, being in the plight of unconsciousness, he was feeling uneasiness and his heart was wishing that this van might have wings to reach his town as early as possible. His heart-beat was trembling disorderly, so fast and huge that even he was able to listen to his own heart-beats. The anxious heart, brimful of pain was making him anxious and when the van stopped for a while then he became more restless as he wanted to continue his journey without any stop. During this tensed journey, his cell-phone kept on ringing for different condolences messages from different people to pierce his heart. All sentences of last meeting were revolving in his mind and now that smiley face was no more. He was preparing his heart and mind to see his last rituals. He was still under a shock, though he was traveling but his mind was wandering somewhere else. All meetings of life, all jokes and laughter, all shared moments and conversations were glimpsing before his sight like a screen. The journey of six hours made him able to reach his native town and he rushed towards his brother’s house. His pain, saved in his heart wanted to burst out. The dead body of his brother was in front of him but still it was a plight of unbelieving. He was having same smile on his face after facing seven bullets in his chest and face. Yes, the same smile, he shared after every joke and then his echoing laughter touched the sky’s height. The smile on his face… the magical smile was mocking on his killers that after facing so many bullets in his body; he was still smiling to give them a message that they were loser while he was a conqueror. He kept on watching that smiling face and then burst into tears. He kept on showering tears for a long and then his brother started his last journey.


مٹھی بھر باجرہ

افسانہ نگار::: حمزہ حسن شیخ

اُس نے علی بھائی کو خاصے فاصلے سے دیکھ لیا تھا جوجوتے پہن رہے تھے اور جانے کے لیے بالکل تیار تھے۔ بہت دنوں بعد، وہ اپنے آبائی علاقے گیا تھا اور پچھلے کئی ہفتوں سے اُن کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ باقی سب کو چھوڑکر اُس کی جانب لپکا، جبکہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ خُوش گپیوں میں مصروف تھا۔ وہ اُس کے قریب جا کر انتظار کر نے لگا۔ جیسے ہی وہ دوسرے لوگوں سے فارغ ہوا اور مسجد سے باہر کی جانب قدم بڑھائے، وہ اُس کے پیچھے گیا اور بہت ہی گرم جوش آواز میں مخاطب ہوا؛

”السلام علیکم بھائی جان۔۔۔۔۔“اُس کی گرم جُوش آوازسن کر وہ حیرت سے واپس کی جانب مڑے اور اُسے گلے لگا لیا۔

”تم یہاں ہو۔۔۔۔جنرل صاحب۔۔۔۔!!!“ وہ ہمیشہ ہی جنرل صاحب کے نام سے پُکاراجاتا جیسے اُس کے چچا اُسے اس نام سے بچپن میں پُکارتے تھے جب وہ اسکول پڑھتا تھا کیونکہ اُس کے چچا کی خواہش تھی کہ وہ آرمی میں جنرل بنے۔

”میں بالکل ٹھیک ہوں اور آج ہی آیا ہوں۔۔۔۔“ اُس نے بتایاتو اچانک اُن کے چہرے کی خُوشی ہوا ہو گئی اور فورا کہا۔

”کیا تمہیں شہر کے حالات پتہ ہیں؟ ابھی ابھی ایک بندہ مارا گیا ہے۔ کیا تم اپنے علاقے میں نہیں رہ سکتے۔۔۔ یہاں زیادہ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“ اُن کی غصہ بھری آواز کے پیچھے دُکھ چھپا تھا۔ وہ روزمرہ کے معاملات زندگی کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے، مسجد کے مرکزی دروازے سے باہر آئے تو اس کے قریب، اُن کے بیشتر خاندان کی قبریں تھیں اور اُن دونوں کے باپ یہاں پر اپنی ابدی نیند سو رہے تھے۔ وہ دُعائے فاتحہ پڑھنے لگے۔ فاتحہ پڑھتے ہوئے اُس کی نظریں سامنے والے مزار کے گنبدکا تعاقب کر رہی تھی جو امام حسین ؑ کی یاد میں اُن کے مزار کی شبہیہ کے طورپہ بنایا گیا تھا۔ مزار کے گنبد پر کبوتر پر پھڑپھڑا رہے تھے اور اُن کی خوبصورت آواز ماحو ل میں گُونج رہی تھی۔گنبد کو دیکھتے ہوئے، اُس کی آنکھوں کے کونے بھیگے ہوئے تھے۔ ”اُمید ہے یہ اس اربعین تک مکمل ہو جائے گا۔“ اُس نے خُود کلامی کی اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ دوبارہ گنبد کا جائزہ لیا۔ وہ امام حسینؑ کا شیدائی تھا اوراس مزار کی تعمیر کا ایک معاون ہونے کے ناطے، وہ گنبد کی جلد از جلدتکمیل کا خواہش مند تھا۔

”اور کوئی میرے لائق حُکم۔۔۔“ علی بھائی نے رخصت ہوتے ہوئے اُس کو مخاطب کیا۔ ”یہاں پر زیادہ مت آیا کرو جب تک میری زندگی ہے۔۔۔ آپ لوگوں کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔“آخری الفاظ، اُس نے ادا کئے اور پھر وہ اپنی جیپ کی جانب چل پڑاجبکہ وہ اپنے قریبی گھر کی جانب چلا گیا۔

زندگی مصروف ہو گئی اور دونوں اپنی اپنی زندگی کے دائروں میں کھو گئے اور دوبارہ نہ مل پائے سوائے فون پر ایک دو بار بات چیت کے۔ وہ نوکری کے سلسلے میں دوسرے شہر میں مقیم تھاجبکہ علی بھائی اپنے آبائی علاقے میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ مسجد جاتے اور ہر بار مزار کی تعمیر کا جائزہ لیتے۔ جہاں پر کبوتر اللہ کی حمد و ثنا میں مگن رہتے اور سارا دن، ایک سے دوسرے مزار تک اُڑتے رہتے یا کبھی کبھار، قبرستان کی قبروں پر بیٹھے رہتے۔ جس طرح باقی سب لوگ مزار کی تکمیل کے لیے خواہش مند تھے، اسی طرح کبوتر بھی اس کی جلد از جلد تکمیل چاہتے تھے تاکہ اس مقدس مزار کا ٹھنڈا سایہ اُن کو میسر آ سکے۔ مزار اور قبرستان میں آنے والے لوگ اپنے ساتھ، گندم، مکئی، باجرہ اور دالیں لاتے اور مزار کے سامنے والے فرش پر بکھیر دیتے اور کبوتر اس خوراک کا خوب مزہ لیتے۔ اس لیے یہ کبوتر انسانوں کے اتنے عادی تھے کہ وہ بغیر کسی خوف اور جھجھک کے ان انسانی راستوں پر گُھومتے پھرتے۔ اگرچہ کبوتر انسانوں سے خوفزدہ نہ تھے لیکن انسان ایک دوسرے سے خوف کھاتے تھے اور یہ اس شہر کی ریت بن چکی تھی۔ اُن کو ایک دوسرے کے راستوں پر چلنے کا کوئی حق نہ تھااور اگر کوئی دوسرے کا راستہ استعمال کرتا تو اُسے راستے سے بھٹکا دیا جاتا اور کبھی کبھار تو اُس کے رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا۔ وہ اپنے خیالات میں کھویاایک تازہ لیپی ہوئی قبر کے پاس بیٹھا تھاکہ اچانک ایک بچے کی خوبصورت آواز نے اُس کے خیالات کو منتشر کر دیا؛

”چچا۔۔۔!!! کیا آپ پُھولوں کے ہار لیں گے؟ “ اُس نے اپنا سر اُٹھایا تواُس کے سامنے ایک ننھا لڑکا، چھوٹی سی لکڑی پر پھُولوں کے ہار سجائے کھڑا تھا اور وہ بہت خوبصورتی سے ہوا میں لہرا رہے تھے۔

”نہیں۔۔۔۔‘‘اُس کے منہ سے الفاظ پھسلے۔

”آپ لے لیں ناں۔۔۔ بس یہی تھوڑے سے رہ گئے ہیں۔۔۔“ چھوٹے لڑکے کی آواز میں بہت التجاتھی۔

”قبر کی مٹی ابھی گیلی ہے اور پُھول اس پر چمٹ جائیں گے۔“اُس نے جواب دیا۔

”بس آپ مجھ سے یہ لے لیں، قبر سُو کھ جائے گی۔“ لڑکے کے لہجے میں ایک منت سی تھی۔

”اگر میں یہ لے لوں تو تم کیا کرو گے؟“ اُس نے لڑکے کا معصوم اور طلب گار چہرہ دیکھ کرسادہ سا سوال کیا۔

”تو پھر میں گھر چلا جاؤں گا۔۔ بس یہی رہ گئے ہیں۔“ اُس کالہجہ درخواستانہ تھا۔ اُس کا معصوم چہرہ دیکھ کر، اُس کا دل پیار سے بھر آیا اور اُس نے کہا۔

”چلو یہ مجھے دے دو۔“ جیسے ہی اُس نے یہ کہا تو لڑکے کا چہرہ کھل اُٹھااور اُس نے لکڑی سے سارے پُھو ل اُتار کر اُس کے حوالے کر دئیے۔ اُس نے رقم ادا کی اور لڑکا خُوشی سے سرشار، ہنستا مسکراتا اپنے گھر کی جانب چلا گیا اور اُس کے اُداس ہونٹوں پر بھی ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔

یہ جمعے کا دن تھااور علی بھائی نے جمعہ نماز پڑھنے کے بعد، مسجد سے باہر قدم رکھا۔ وہ فاتحہ پڑھنے کے لیے اپنے خاندان والوں کی قبروں پر کھڑا ہوا جبکہ اُس کی آنکھیں سامنے مزار کے گنبد پر جمعی تھیں جہاں پر کبوتر ہوا میں پرپھڑ پھڑا رہے تھے۔ اب گنبد کا تھوڑا ساباقی کام مکمل ہونے کے قریب تھا۔ اُس کے قدموں تلے زمین اُسے آنے والے دن کے لیے پُکار رہی تھی لیکن وہ قدرت کی اس پُکار کے بارے میں ناواقف تھا۔ آنے والے کل وہ اپنے پُورے خاندان کو اپنے سامنے پانے جا رہا تھا اور آج اُن کو بھیجی جانے والی دُعائے فاتحہ آخری تھی۔ اُس کو ماحول میں ایک اجنبیت محسوس ہوئی جیسے مزار کے سارے کبوتر بہت اُداس ہوں۔ اُس نے فاتحہ پڑھنے کے بعد، مزار کے گنبد پر نظر ڈالتے ہوئے آگے قدم اُٹھایاکہ مزار کا رکھوالا اُسے راستے میں ملا اور بتایا کہ تعمیر کے لیے فنڈ ختم ہو چکے ہیں؛ اس لئے تعمیر کا کام بہت سُست ہو چکا ہے۔ آنے والے کل میں پیسوں کا وعدہ کر کے، اُس نے وہ جگہ چھوڑی اور یہ یقینی تھا کہ کل وہ دوبارہ قبرستان ضرور آئے گا۔

ہفتے کا دن تھا؛ چھٹی ہو نے کی وجہ سے وہ تاخیر سے جاگا۔ وہ ناشتے کی چائے کی آخری چُسکیاں لے رہا تھا۔ چائے کا پیالہ ابھی اُس کے ہاتھ میں تھا کہ اُس کے فون کی گھنٹی بجی اور یہ فون اُس کے گھر سے تھا۔ اُس نے فون کا ل کا جواب دیا اور دوسری جانب اُس کی بہن کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ اُس نے سلام کیا لیکن کوئی جواب نہ آیا بلکہ ایک کانپتی، گھبرائی اور روہانسی آوازگُونجی؛

”علی بھائی کو مار دیا ہے۔۔۔ بس تم جلدی سے آ جاؤ۔۔۔“ صرف ایک جُملہ بولا گیا اور پھر فون بند ہو گیا۔ وہ غم کا بُت بنا اپنی جگہ پہ بیٹھا رہ گیا۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے ساری دُنیا ساکن ہو گئی ہو۔ کچھ لمحوں کے لیے، وہ نایقینی کی سی صورت حا ل میں رہا، خالی الذہن ہو کرایک ہی جگہ پر بالکل ساکن۔ فون بند ہو گیا اور وہ پُوچھ بھی نہ سکا، ”کیسے۔۔؟ کب۔۔؟ کہاں۔۔؟کیوں۔۔۔؟اُس کے سارے سوالات اُس کے ذہن میں بغیر کسی جواب کے دفن ہو گئے۔ وہ اسے ایک واہمہ سمجھ رہا تھا جیسے اُس کی سماعتوں نے حقیقت سے بہت دُور کچھ ناقابل یقین سُنا ہو۔ اس غم اور غیر یقینی صورت حال میں دس سے زیادہ منٹ گزر گئے اور اُس کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے ذہن سے سوچنے کی قوت کو سلب کر لیا گیا ہو۔ اس ماؤف ہو نے والی صورت حال میں، اُس نے خود کو یقین کی دُنیا کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی کہ وہ واقعی اس دُنیا میں تھا۔اُسے خُود کوا س شاک سے نکالنے میں بہت دیر لگی۔ اُس نے دو جوڑے بیگ میں ڈالے اور فورا اپنے آبائی علاقے کی جانب روانہ ہو گیا۔ سارا راستہ، وہ شکوک و شبہات میں رہا کہ آیا یہ خبر سچ بھی تھی یا نہیں؟ دوران سفر، اُس کو اپنے علاقے کے ایک بندے کا ازراہ ہمدردی فون آیا اور پھر اُسے یقین آیا کہ یہ خبر سچی تھی۔ سارا راستہ، غیر یقینی کے عالم میں، وہ بہت مضطرب رہا اور اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی کے پر لگ جائیں اور اُسے جلد از جلد اپنے آبائی علاقے میں پہنچا دے۔ اُس کے د ل کی دھڑکن بہت تیز اور بے ترتیب تھی۔ بہت ہی تیز اور اُونچی۔۔۔ یہاں تک کہ وہ اپنی دل کی دھڑکن سننے کے قابل تھا۔دل مضطر، غم سے لبریز اُس کو مزید بے چین کر رہا تھا اور جب بھی گاڑی کچھ دیر کے لیے رُکتی تو وہ زیادہ بے چین ہو جاتاکیونکہ وہ بغیر کسی رُکاوٹ کے اپنا سفر جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اس سفر کے دوران، اُس کا فون، اُس کا دل چیرنے کے لیے مسلسل مختلف لوگوں کے تعزیتی پیغامات کے لیے گُونجتا رہا۔ آخری ملاقات کی ساری باتیں اُس کے ذہن میں گُونج رہی تھیں اور اب وہ مسکراتا چہرہ اس دُنیامیں نہیں رہا تھا۔ وہ اُس کی آخری نماز کے لیے اپنے دل اور دماغ کو تیار کر رہا تھا۔ وہ ابھی بھی عالم بے یقینی میں تھا، اگرچہ وہ سفر کر رہا تھا لیکن اُس کا دماغ کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ زندگی کی ساری ملاقاتیں، ساری خُوش گپیاں، سارے قہقہے، سارے اکٹھے گزرے لمحے اور ساری گفتگوئیں ایک فلم کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی تھیں۔ سات گھنٹے کی طویل مسافت نے اُسے اپنے آبائی شہر پہنچنے کے قابل بنایا اور اڈے پر اُترتے ہی اُس نے علی بھائی کے گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔ اُس کے دل میں چھُپا غم کسی طُوفان کی طرح پھٹنا چاہتا تھا۔ اُس کے بھائی کی لاش اُس کے سامنے تھی لیکن ابھی بھی اُس کے لیے ایک غیر یقینی صورت حال تھی۔ چہرے اور سینے پہ نو گولیاں کھانے کے بعد بھی اُس کے چہرے پہ ویسی ہی مسکراہٹ۔۔۔ ہاں، بالکل ویسی ہی مسکراہٹ۔۔۔جو ہر خُوش کُن جملے کے بعد اُس کے لبوں پر آتی اورپھر ایک دل آویز قہقہے میں بدل کر آسمان کی بلندیوں کو چُھو لیتی۔ اُس کے چہرے کی مسکراہٹ۔۔۔ایک جادوائی مسکراہٹ۔۔۔اُس کے قاتلوں کا مذاق اُڑا رہی تھی کہ اپنے جسم میں اتنی گولیاں سہنے کے باوجود بھی وہ مسکرا رہا تھا۔ اُن کو آخری پیغام دینے کے لیے کہ وہ ہار گئے تھے جبکہ وہ ایک فاتح تھا۔ وہ یہ مسکراتا چہرہ دیکھتا رہا اور پھراپنے آنسووں میں نہا گیا۔ وہ خاصی دیر آنسو بہاتا رہا اور پھر اُس کے بھائی کا سفر آخر شروع ہو گیا۔

اُس نے رکھوالے کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ آنے والے کل میں رقم لے کر آئے گا اوروہ کل اب آ گیا تھالیکن رقم کے بجائے، وہ اپنی زندگی کا خزانہ لایا تھا۔ اُس کواُسی جگہ دفن کیا جا رہا تھا جہاں ایک دن پہلے اُس نے دعُائے فاتحہ پڑھی تھی۔ وہ ہر بار یہاں کھڑے ہو کر گنبد کو دیکھتا تھا لیکن آج گنبد اُس کو دیکھ رہا تھا جبکہ وہ زمین کو گلے لگانے جا رہا تھا۔ گنبد پر رات کے سایے پڑے تھے اور تمام کبوتر اُداسی اور خاموشی کے ساتھ اُس کی تدفین دیکھ رہے تھے کہ اُن کے زیر تعمیر گنبد کا رکھوالا اب نہیں رہا تھا اور اُن کا مٹھی بھر باجرہ کھو گیا تھا۔

FISTFUL MILLET

BY: HAMZA HASSAN

           He had watched Ali Bhai from a distance while he was wearing his shoes and was ready to go. After many days, he had visited his native town and had no meeting with him from last many weeks. He rushed towards him, leaving all others while he was busy in talking to the other people. He went near him and then waited for him to be free. As he got freed and stepped back of the mosque, he went behind him and greeted in an excited voice;

“AOA brother…” On his exciting voice, he turned back surprisingly and hugged him.

“You are here… General sahib…” He always called him general sahib as his uncle (his father) called him with this name in his childhood when he was a school boy as his uncle wished that he might be a general in army.

“I am fine and I just got today….” He told him and then all of sudden happiness on his face faded and he addressed.

“Do you know the condition of the city? Just now a man is killed.You can’t stay there in your area. No need to come here.” There was a pain behind this anger in his voice and then they generally began to discuss about the matters of life. They moved out of the main gate of the mosque and near it, there were graves of their family and fathers of both of them were sleeping their eternal sleep. They offered requiem and while offering requiem, his eyes were chasing the dome of the shrine in front, built as a memento of Imam Hussain (AS), resembling his holy shrine. The pigeons on the dome of the shrine were flattering and their beautiful voice echoed in the atmosphere. His eye-corners were wet while watching the dome. “Hopefully it will be completed till this Arabaeen.” He soliloquized and judged the dome again with wet eyes. He was a lover of Hussain (AS) and wished to complete the dome of the shrine as soon as possible as one of the donors for its completion.

“Any order for me…..” He addressed him while departing, “Don’t come here more until I have life, you don’t have to worry about anything.” The last words, he uttered to him and then moved towards his jeep while he turned towards his nearby home.

The life became busy and they both were lost in their own circles of life and could not meet again except twice or thrice on the phone call. He was living in other city due to job while he was leading life in the native town.He visited the mosque regularly and in all these visits, he kept on judging the construction of the dome; where pigeons praised the blessings of God and all the day, those kept on flattering from one shrine to the other or even sometimes sitting on the graves of the graveyard. As all people were desirous of completion of the shrine, same as the pigeons too wanted its early completion to get a cool shadow of this holy shrine. The visitors visiting the grave yard and the shrines brought grains of wheat, maize, millet and pulses and threw on the floor in front of shrine and they enjoyed this food. Therefore the pigeons were so habitual of humans that they kept on walking on human pathway without any fear. Though the pigeon were not afraid of humans but the humans were afraid of each other and it became a tradition of this city. They had no right to walk on the paths of each other and if anyone used the same track then he was made trackless and even sometimes his right of living was also snatched. He was sitting near freshly lapped grave, lost in deep meditations. All of sudden, a beautiful voice of a child disturbed his thoughts;

“Uncle..!Would you like to take these wreathes of flowers?” He raised his head then a small boy was standing in front of him, having wreathes of flowers on a small stick; waving in the breeze in a beautiful way.

“No.” The words slipped from his mouth.

“Please take these. Just these few are left.” The small boy requested him.

“Still mud of the grave is not dried and the flowers would be adhered on it.” He replied.

“Please you take from me, the grave will be dried.” The small boy requested again.

“If I take these then what will you do?” He asked him simply after watching his innocent and apologetic face.

“Then I will get back to my home. Just these few are left.” He said again with a request in his accent. Watching his innocent face, his heart was filled with love and he replied;

“Ok give all these to me.” As he said, the face of the boy was gleeful and taking all wreathes from the stick, he gave to him. He paid him money and then the little boy left towards his home happily; giggling and laughing and a smile waved on his lips too.

It was Friday and his brother stepped out of the mosque after offering Friday prayer. He stood on family graves to offer requiem while his eyes were fixed on the dome of the shrine where the pigeons were flattering. Nowa little work of the dome was left and seemed to be accomplished soon. The land under his feet was calling him the coming day but he was unknown about this call of destiny. Tomorrow, he may be going to meet his whole family lively and today was his last requiem sent to them. He felt strangeness in the atmosphere as all the pigeons of the dome seemed gloomy. He stepped forward after offering the requiem with his eyes on the dome that the guardian of the shrine met him inthe way and told that the funds had been finished; therefore the work had been slowed down. With a promise of payment tomorrow, he left the place and it was certain that tomorrow he would be coming to the graveyard again.  

It was Saturday; he got up very late and was having the last sips of his breakfast tea. Still the cup of tea was in his hand that he received a phone call from his home. He attended the call and on the other side was the voice of none other than his sister.  He paid compliments but there was no response and just a trembling-confused-raucousvoice echoed on the phone;

“The brother has been killed. Please you come hurriedly.” Just this sentence was told and then the phone was closed. He was fixed on his place shockingly. He felt as the world had become still. For many moments, he was in condition of unbelieving, still at one place with an empty mind. The phone was closed and he even could not ask, “How…? When…? Where…? Why…?” all his questions were left in his mind with no reply. He was taking it as a whim as his hearings had heard something unbelievable beyond reality. More than ten minutes passed in a shock and he felt as his mind had lost the thinking power.  In the condition of unconsciousness, he moved himself to believe that he was still in this world. It took him a long time to get out of shock. He took two suites in his bag and immediately moved towards his native town. All the way, he was in doubt that whether this news was true or false? During his journey, he received a phone call of condolence from one of the people from his town and then he believed that this news was true. All way, being in the plight of unconsciousness, he was feeling uneasiness and his heart was wishing that this van might have wings to reach his town as early as possible. His heart-beat was trembling disorderly, so fast and huge that even he was able to listen to his own heart-beats. The anxious heart, brimful of pain was making him anxious and when the van stopped for a while then he became more restless as he wanted to continue his journey without any stop. During this tensed journey, his cell-phone kept on ringing for different condolences messages from different people to pierce his heart. All sentences of last meeting were revolving in his mind and now that smiley face was no more. He was preparing his heart and mind to see his last rituals. He was still under a shock, though he was traveling but his mind was wandering somewhere else. All meetings of life, all jokes and laughter, all shared moments and conversations were glimpsing before his sight like a screen. The journey of six hours made him able to reach his native town and he rushed towards his brother’s house. His pain, saved in his heart wanted to burst out. The dead body of his brother was in front of him but still it was a plight of unbelieving. He was having same smile on his face after facing seven bullets in his chest and face. Yes, the same smile, he shared after every joke and then his echoing laughter touched the sky’s height. The smile on his face… the magical smile was mocking on his killers that after facing so many bullets in his body; he was still smiling to give them a message that they were loser while he was a conqueror. He kept on watching that smiling face and then burst into tears. He kept on showering tears for a long and then his brother started his last journey.

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024