مشک پوری کی ملکہ

مشک پوری کی ملکہ

May 18, 2019

ناولا

مشک پوری کی ملکہ

ناولا

محمد عاطف علیم

(۱ )

پوری رات کا چاند ایک طویل اور اکتادینے والے سفر کے بعد افق کی کگر پر ذرا سا ٹکا بیٹھاتھا اور گلیات کی خوابیدہ وسعتوں سے چاندنی کو سمیٹ پاتال میں گم ہونے کی فکر میں تھا۔رات کا دم واپسی تھا۔کوئی دیر گذرتی کہ جنگل کے سحر خیز مکین اپنی گہری نیند سے جاگ اٹھتے سو ایک کاہلی سے ٹمٹماتے ستاروں نے بھی ماند پڑنے سے پہلے بوجھل پلکوں یونہی ذرا کی ذراغار کی تاریک گہرائی میں جھانکا جہاں اندھیرے میں دو  بیقرارآنکھیں فروزا ں تھیں۔

’’یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا۔۔۔آہ!‘‘

مشک پوری پہاڑسے ذرا دور ا یوبیہ نیشنل پارک کے ایک سنگلاخ ویرانے کی غارمیں وہ بے تکان چکر کاٹے اور اپنے ہی زہر میں گھلے جارہی تھی۔’’میرے ساتھ یہ کیسے ہوگیا ؟۔۔۔میں اتنی کمزور کیسے پڑگئی؟۔۔۔کیوں ۔۔۔آخر کیوں؟؟‘‘۔

وہ بے چین تھی اور زخم خوردہ تھی۔

معاملہ محض ایک ملکہ کے کوہ ِ پندارکے ریزہ ریزہ ہوجانے کا ہی نہیں ایک مامتا کو لگنے والے گہرے گھائو کا بھی تھا۔سو چین پڑتا بھی تو کیسے؟

ملکہ ایک دن اور ایک رات سے لڑکھڑاتے وجود اور لنگڑاتی ٹانگ سے مسلسل اپنی غار میں بند چکر کاٹے جارہی تھی۔ رگ و پے کو رہ رہ کر کاٹتے غصے کی ایک لہر تھی کہ رات بھر غضبناک دھاڑ میں اپنے وجود کا اظہار کرتی رہی تھی۔ہزیمت کے اس لمحے کی انی ایک بار پھر ملکہ کے دل میں چبھی توایک خارا شگاف دھاڑ نے ہمالیاتی وسعتوں میں دور تک خوف کا ارتعاش پھیلاد یا۔

گلیات کے نشیب و فراز میں اس روز ایک طرح سے غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ تھی جس میں ہر ذی روح عدم تحفظ کے احساس سے دوچار بولایا پھر رہا تھا۔جبھی رات بھر سے گھنے جنگل میں ہر نوع نے جگہ جگہ اپنی وچار سبھا سجارکھی تھی جس میں سبھی ایک سنسناہٹ کے عالم میںاپنی اپنی کہنے کی بے تابی میں مبتلا تھے۔تبھی جاسوس فاختہ نے غار کی اور سے اڑان بھری اور منڈلی منڈلی جا اپنا روزنامچہ بیان کیا۔ایک بلند درخت کی مضبوط شاخ پر جھولتے بندروں کے ایک گروہ نے خطرے سے انہیں آگاہ کیا تو ایکا ایکی سب نے اپنی پر شور سیانپ موقوف کی اور ان کی گردنیں غار کی سمت مڑگئیں۔سب نے ایک سہم سے دیکھا کہ کہ رات کے آخری پہروہ سر اٹھائے غار کے باہر کھڑی تھی۔

گلیات کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے متنوع جنگل کی زخم خوردہ ملکہ گلدارنے کھلے میں آکر پورا منہ کھولتے ہوئے جمائی لی تو اس کے لمبے مضبوط دانتوں پر چاند چمک اٹھا۔تب اس نے اپنی اگلی ٹانگیں پھیلا کر اپنے جسم کو تاحد امکان کھینچ طویل انگڑائی لی اوراس رات کی کوکھ میں پلنے والے ایک اور سفاک دن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوگئی۔

اچانک اسے سامنے دیکھ سارے میں کھلبلی سی مچ گئی۔پکھوئوں نے ہڑبڑاہٹ میںاڑانیں بھریں اور اپنے اپنے گھونسلوں میں جا دبکے۔جنگل میںرینگنے والی مخلوق اور گلہری جیسے بے اوقات جانوروں کی تو خیر کیا بساط ، ریچھ، گیدڑ اور لومڑی جیسے طرم خان بھی یوں اڑن چھو ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔رہے صدا کے ستم رسیدہ بندر تو انہوں نے بھی ملکہ کے زردی مائل گہرے سنہری جسم کی جھلک دیکھتے ہی اپنی اپنی دانش مندی کو بغل میں دابا اور ڈال ڈال پھدکتے محفوظ ٹھکانوں پر منتقل ہوگئے۔

جنگل کے گھنے پن کے بیچوں بیچ موجود اپنے غیض میں غلطاں اور اپنے احساس شکست سے جھنجھلائی ہوئی ملکہ نے گردن گھما کر چاروں اورکسی مانوس باس کا سراغ لگانے کی کوشش کی اور پھرمایوسی سے سرجھٹکتے ہوئے تلاش کے نئے سفر پر روانہ ہوگئی۔تھمے تھمے قدموں

چلتے رات تمام ہوئی اور ملگجے اندھیرے نے ایک تازہ دن کی آمد کا اعلان کیا۔

اس نئے دن بھی وہ جنگل جنگل بھٹکتی پھری۔اس کی اگلی بائیں ٹانگ کا زخم ابھی ہرا تھا اور پھر اس کی وحشی جبلت اسے باور کرارہی تھی کہ جنگل میں تلاش کی کھکھیڑ بیکار ہے اس کے باوجود کلیجے میں گڑی پھانس اسے ایک جا ٹک کر نہیں بیٹھنے دے رہی تھی۔وہ اپنی زخمی ٹانگ پر کم سے کم دبائو ڈالتے ہوئے چند قدم چلتی اور پھر دیر تک کسی سائے میں پڑ رہتی۔وہ کل سے بھوکی تھی کہ زخم خوردگی کے اس عالم میں اس کی دہشت اور شکارپر آناً فاناً جھپٹ پڑنے کی مہارت کسی کام کی نہ رہی تھی۔اس نے لنگڑاتے ہوئے بہت سے چھوٹے جانوروںپر جھپٹا مارنے کی کوشش کی لیکن پنجے ہوا میں لہرا کر رہ گئے۔کیا چھوٹے کیا بڑے، خدائی خوار ایک ہی دن میں اس قدر پھرتیلے ہوگئے تھے کہ اس کے ارادوں کی خبر ہوتے ہی اڑن چھو ہوجاتے۔ادھر کمزوری تھی کہ دم بدم بڑھتی جارہی تھی سو اس نے اپنی تلاش کو موقوف کیا اورسنجیدگی سے شکار پر توجہ مرکوز کردی۔کوئی بڑا نہ سہی چھوٹا موٹا ہی سہی ۔کم بخت پیٹ کا دوزخ تو کسی طور بھرے۔ آخر گھنٹوں کی خواری کے بعد ایک کاہل اور بے وقوف بندر ہاتھ لگ ہی گیا۔شکم پوری کا سامان ہوا توکھوئی ہوئی توانائی کسی قدر بحال ہوگئی۔اب اس کے سامنے ایک طویل اور مایوس کن دن پڑا تھا جسے جیسے تیسے تمام  کرنا تھا۔

جنگل میں گھومتے پھرتے دن ڈھلا تو ایک اور رات ملگجے اندھیرے اور گھنے تاریک سایوں سمیت آموجود ہوئی۔رات کی تاریکی ایک نئی کھوج کا عنوان تھی مگراس رات بھی اس کی کھوج نا تمام رہی۔اس دوران وہ بولائی ہوئی مامتا کا بوجھ اٹھائے بے تکان چلتی رہی۔مشک پوری سے میران جانی کے فراز کوہ تک اور ایوبیہ سے نتھیا گلی اور پھر ڈونگا گلی سے کوزہ گلی تک اس نے چیڑ اور دیو دار کی جنگلی وسعتوں کو کئی بار پھر چھان مارا۔ بلندیاں تہی داماں نکلتیں تو وہ دم بدم گہرے ہوتے اندیشوں کو جھٹکتی دل گرفتہ سی کگر کگر پھسلتی وادیوں میں اتر جاتی۔ جنگل کی کون ایسا جھاڑی اور گلیات کی کون ایسی گھاٹی ہوگی جس کا ایک انچ بھی اس کی تیز نگاہوں سے بچ رہا ہو لیکن وائے ناکامی کہ اسے اپنے گل گوتھنوں کا سراغ ملنا تھا سو نہ ملا۔اگلے دن وہ مایوس ہوکر پلٹی اور تھکے قدموں جھاڑیوں سے الجھتی مشک پوری کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔یہاں سے وہ چہار سمت دور تک دیکھ سکتی تھی۔سو اب وہ مشک پوری کی سب سے اونچی چٹان پر کھڑی تھی اور دور دھندلائے ہوئے افق کو تکے جارہی تھی۔اس دوران کتنے ہی آوارہ بادل اسے بھگوتے ہوئے گذر گئے مگر وہ اپنی لمبی اور پرشکوہ دم کو ایستادہ کیے ایک جا ساکت کھڑی رہی۔

دو دن پہلے تک ملکہ جب ملگجے اندھیروں میں اپنے گل گوتھنوں کو لے کر شکار پر نکلتی تو یونہی اپنی دم کو ایستادہ رکھا کرتی۔یہ دم ان شرارت کے پتلوں کیلئے نشان راہ کا کام کیا کرتی تھی۔شکار وکار سے خیر دلچسپی کسے تھی ۔انہیں تو تاریک سایوں میں چھپی سنسناہٹوںور چاند نی کے مدھم سروں سے اٹھکیلیاں کرنے سے مطلب تھا سو راتوں کی آوارگی کے دوران جب وہ دونوں ملکہ ماں کے پیچھے پیچھے چلا کرتے توتاریک پر اسرار سایوں کو پکڑتے اورایک دوسرے کے ساتھ کتے لاڈیاں کرتے اکثر دور نکل جاتے ۔ لیکن ملکہ ماں کی اٹھی ہوئی دم کی سفید پھننگ تھی جو انہیں راہ سے بے راہ نہ ہونے دیتی تھی۔

رات بھر کی مٹر گشت کے دوران جب کوئی شامت کا مارا شکار اچانک سامنے آجاتا تو ملکہ ماں کی بدن بولی یکسر بدل جایا کرتی۔تب وہ اپنے حواس کو تیز اور اپنے بدن کو قابو میں کیے کمال ارتکاز توجہ کے ساتھ دم سادھے، چور قدموں اس کی طرف بڑھنے لگتی۔اس بیچ اچانک کسی فیصلہ کن لمحے اس کی دم شدت سے لہرااٹھتی۔یہ دونوں نوآموز شکاریوں کیلئے ایک سخت انتباہ تھا بندے کے پتر بننے کا اور فضول کی بک بک بند کرکے چپ چاپ پیچھے چلتے آنے کا ۔

وہ دونوں ایک محفوظ فاصلے پر سانس روکے دیکھتے کہ بدنصیب شکا ر بے خبری کے عالم میں کھڑا ہے اور موت ان کی ماں کے روپ میں اس سے تھوڑے فاصلے پر دبکی بیٹھی ہے۔اور پھر جونہی بے خبر شکار دھیان سے بے دھیان ہوتا اچانک سنہری بجلی کا کوندا سا لپکتا اور اگلے ہی ثانئے زندگی سے اس ناطہ کٹ چکا ہوتا۔انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ شکار کی گدی پر ملکہ ماں کا نپا تلا ہاتھ پڑا ہو اور اس نے دوسری سانس بھی لی ہو۔بارہا ایسا بھی ہوا کہ شکار ہونے والے جانور کی معصومیت دیکھ ان کے دل میں دوستانہ جذبات پیدا ہوجاتے۔وہ اسے مار کھانے کی بجائے اسے کھلونے کی طرح اپنے پاس رکھنا چاہتے۔ایسے میں وہ ماں کی غراہٹ کی پرواہ کیے بغیر ماں کے اس سفاک مشغلے میں شامل ہونے سے انکار کردیتے۔ لیکن ماں ان کے بال پنے کو درخور اعتنا نہ سمجھتی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا من موہنا کھلونا گوشت اور خون کا لوتھڑا سا بنا ان کے سامنے پڑا ہوتا۔کچی عمر کی معصومیت اس کھلی سفاکی پر احتجاج کراٹھتی لیکن اگلے ہی لمحے وحشت کی جبلت ان کی معصومیت کو صاف پچھاڑ دیتی ۔ یوںجب ملکہ ماں شکار کی گردن میں اپنے دانت پیوست کرتی تو یہ دونوں بھی سب کچھ بھول بھال نمبر ٹانکنے کو مرے ہوئے شکار پر جھپٹ پڑتے۔تب ماں شکارکی گردن کو منہ میں دبوچنے سے پہلے انہیں ڈانٹ پلانا ضروری سمجھتی تھی۔ وہ دونوں بھی ایک لذت بھری ضیافت کا سوچتے ہوئے کان نیچے کیے ماں کی پھٹکار سنتے اور پھر کمال سعادت مندی کے ساتھ ماں کے پیچھے پیچھے چل پڑتے۔

تب باری آتی ضیافت اڑانے کی۔میلوں کا سفر کرکے ملکہ مشک پوری کے دامن میں اپنے صدر مقام پر پہنچتی اور پھر شکار کو لیے اپنے پسندیدہ درخت پر چڑھ بیٹھتی اوروہ دونوں بے تابی کے عالم میں گوشت کے لذیذ ترین حصے ہتھیانے کیلئے ایک دوسرے پر دانت نکوستے اور جانور کے مردہ جسم کو اپنی اپنی جانب گھسیٹنے لگتے۔خدایا!کوئی ایسا بدتہذیب بھی نہ ہو۔کبھی کبھار ماں جھنجھلا کر انہیں مار بیٹھتی اور وہ دونوں منہ پھلائے کسی پتھر کی اوٹ میں چھپ جاتے۔تب ملکہ ماں کو کس کس جتن سے انہیں منانا پڑتا یہ وہی جانتی تھی۔

مشک پوری کی بلند ترین چٹان پر ساکت کھڑی ملکہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کرکے منظر تیرتے جارہے تھے۔اور پھر وہ ہولناک منظر جس نے اس کے گدیلے پائوں تلے انگارے بچھا رکھے تھے۔

چند ہی روز پہلے موسم سرما مشک پوری سے برف کی آخری دھجی بھی سمیٹ کر اگلے کئی مہینوں کیلئے رخصت ہوچکا تھا جس کے بعد گلیات کے بلند سبزہ زاروں پر مست خرام ہوائوں نے ڈیرہ جمالیا تھا۔موسم سرما کے دوران گلیات کی وسعتیں برفانی جہنم کا روپ دھارن کرلیتی ہیں۔بندر جاتی تو اپنی گرم کھال کے طفیل ہنسی خوشی موسم کی شدت برداشت کرلیتے ہیں بلکہ وہ جنگل میں بھی کہاں رہتے ہیں۔جونہی برف کا پہلا گالا پہاڑ کی چوٹی پر اترتاہے وہ انسان لوگوں کے ساتھ اپنی اچھی پی آر کو کام میں لاتے ہوئے آبادیوں میں گرمائی ہوئی جگہوںپر جاڈیرے جماتے ہیں ۔رہی باقی مخلوق تو بیچاری تیز سرد ہوائوں سے اپنے کومل بدنوں کو بچانے کیلئے اپنی پناہ گاہوں میں دبک کر رہ جاتی ہے۔گلیات کی آٹھ نو ہزار فٹ اونچی پہاڑی وسعتوں میں ٹھنڈے موسم کا محاصر ہ ایسا سخت ہوتا ہے کہ اگر کسی نے مشکل دنوں کیلئے کچھ بچالیا تو واہ بھلا ورنہ شگوفے کھلنے تک بھوک کا عذاب تو ہے ہی۔اب گلدارلوگ گلہریوں جیسی دور اندیشی کہاںسے لائیں او ر پھر باسی تباسی گوشت کو ذخیرہ کون کرے سو تازہ گوشت کے رسیا گلداروںکیلئے موسم کا عذاب کچھ زیادہ ہی سخت ثابت ہوتا ہے۔کئی کئی روز فاقوں سے کٹ جاتے ہیں۔ جنگل میں حضرت انسان کی مہربانیوں کے طفیل شکار تو خیر پہلے ہی کون ایسا وافر ہوتا ہے مگر اس عذابناک موسم میں تو پورا جنگل گویا چیل کا گھونسلا بن جاتا ہے جس میں ماس نام کی کوئی چیز ان کیلئے نہیں رہتی۔یوں گلدار لوگوں کو اترائیوں میں جانا پڑتا ہے،انسانی بستیوں کی طرف جہاں راتوں کو آوارہ گھومتا کوئی کتا بلا مل گیاتو ٹھیک ورنہ انہیں باڑوں میں بند مویشیوں پر دھاوا بولنا پڑتا ہے جو جانو کسی جان جوکھوں میں ڈالنے والے ایڈونچر سے کم نہیں کہ اس مہم جوئی کے دوران کبھی کبھار باڑوں کے چوکس اور مسلح رکھوالوں سے ان کا ید پڑجاتا ہے جس کا نتیجہ اکثر گلدار کی ہلاکت کی صورت میں  نکلتا ہے۔

سوایک عذابناک جاڑا گذرنے پرموسم بہار نے کومل رنگوں کی سمفنی بکھیر ٹھٹھرے ہوئے جنگل کو جگایا تو ایک روز دن بھر کی نیند پوری کرنے کے بعد یونہی اس کے جی میں آئی کہ چشمے پر جاکر ٹھنڈے میٹھے پانی سے پیاس بجھائی جائے۔ اور پھر اس بہانے جنگل میں ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ بھی ہوجائے گا۔تب اس نے ان ازلی بدتمیزوں کو پیچھے لگایا اور اپنی راجدھانی کی سیر پر نکل کھڑی ہوئی ۔کھلے میں پہنچ کر وہ یہ دیکھ بشاش ہوگئے کہ بہار رت کے اس شوخ دن سامنے پھیلی ساری کائنات ایک دلنواز مسکان مسکرا رہی تھی جبکہ جنگل کی ہنسی تھی کہ تھمنے میں نہیں آرہی تھی۔چیڑ، صنوبر، دیودار اور بن خور کے بلند درختوں پر کھلے تازہ بتازہ سبزے نے لینڈ سکیپ میں زندگی کے رنگوں میں کچھ زیادہ ہی شوخی بھردی تھی۔اور پھر وہاںتاحد نگاہ پھولدار جھاڑیاں تھیں جن پر کھلے سفید، سرخ، اودھے، نیلے، پیلے اور بنفشی پھولوں نے ایک آفت سی مچارکھی تھی۔ایک طرف رنگوں کی چہکار تھی تو دوسری طرف طرح طرح کی آوازوں کا غوغا تھا۔وہ حیران تھی کہ جنگل کے ان بے وقوف پرندوں کے پاس کرنے کو کون ایسی ضروری باتیں ہوتی ہیں کہ ان کی چونچیں بند ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ملکہ کے دونوں لاڈلے بھی اپنی زندگی کے پہلے برفانی عذاب کے خاتمے پر نہال ہورہے تھے۔انہوں نے بھی ایک ترنگ میں چک پھیری لیتے ہوئے سارے میں نگاہ دوڑائی۔وہ حیران تھے کہ وہ جس جاڑے کو اصل حیات سمجھے ہوئے تھے اسے بہار نے پسپا کرکے یہاں سے جانے پر مجبور کردیا تھا۔اب وہ تھے اور اس جنگل کا کھلا پن تھا جہاں طرف چہکار سی چہکار اور ہر طرف مہکارسی مہکار تھی۔

وہ چشمے پر پہنچے تو آبشار کی پھوار نے گل گوتھنوں کو بدمست کردیا ، لگے ایک دوسرے کے ساتھ کتے لاڈیاں کرنے۔وہ انہیں دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کوئی دن کی بات ہے کہ دونوں سردیوں اور گرمیوں کے دو دو موسم پورے کرچکے ہوں گے۔تب وہ بالغ ہوجائیں گے اور اسے ہمیشہ کیلئے یوں چھوڑ جائیں گے جیسے ان کا آپس میں کبھی کوئی سمبندھ نہ رہا ہو۔سبھی گلدار بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔بے وفائی کی رسم پر چلتے ہوئے دو سال کی عمر میں نسل کشی کے قابل ہوتے ہی ماں کو بھول بھال کر اپنی اپنی دنیا بسانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔یہ بھی کسی روز اچانک آنکھیں پھیر لیں گے سو جب تک ان کا بچپنا ہے آنکھوں میں ٹھنڈک بھی ہے۔لیکن اب بچپنا بھی کہاں۔تب جاڑوں کی آمد آمد تھی جب یہ دونوں ایک ہی زچگی کے دوران پیدا ہوئے تھے۔اس حساب سے سات آٹھ مہینے سے کم کے کیا ہوں گے لیکن ان کا بچپنا تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آرہاتھا۔اچھے خاصے لونٹھے ہوچکے تھے لیکن حیف ہے ان کے چلبلے پن پر کہ ابھی انہیں ٹھیک سے شکار کرنا بھی نہیں آیا تھا۔کس جانور پر کب اور کیسے جھپٹا مارنا ہے۔کس موقع پر جست لگانی ہے، کیسے لگانی ہے اور کب دم دبا کر اپنی راہ لگنا ہے۔ان کی بلا جانے۔انہیں تو بس کیا کرایا شکار چاہیے۔ہر ماں کی طرح وہ سچ میں ان کیلئے پریشان تھی۔مصیبت یہ تھی کہ وہ اکیلی جان ساری سوچیں سوچنے کیلئے رہ گئی تھی۔ان کا باپ سدا کا ہری چگ، ان کی پیدائش کے کچھ ہی دن بعد اسے چھوڑ کر نئی مادائوں کی تلا ش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔اس کا ساتھ ہوتا تو یہ دونوں تیر کی طرح سیدھے ہوگئے ہوتے۔یوں تو وہ شکار کے بہانے اکثر منہ کالا کرنے نکل جایا کرتا تھا لیکن اب کی بار جانے کون کالے منہ والی اس کے متھے لگی تھی کہ واپسی کا راستہ ہی بھول گیا۔

’’بدبخت نہ ہو تو!۔‘‘ ملکہ گلدار نے ایک غصیلی غراہٹ میں اس سنگدل کو ایک نفرت سے یاد کیا۔

چشمے سے واپسی پر اپنے خیالوں میں الجھی وہ غار کی جانب جارہی تھی کہ اچانک آدم زاد کی مخصوص باس نے اس کے قدم تھام لیے۔اس نے دیکھا کہ دور سے دو ٹانگوں چلتے آدم زاد ادھر ادھر جھاڑیوں میں جھانکتے پھر رہے تھے۔وہ تعداد میں چار تھے اور ان کے انداز سے لگتا تھا کہ انہیں کسی خاص چیز کی تلاش ہے ۔

آہ بیچارے یہ جنگل باہر کے جانور! جو کسی ازلی حیاتیاتی معذوری کے باعث چار ٹانگوں پر چلنے کے فطری انداز سے محروم تھے۔چار ٹانگوں پرتمکنت چال چلنے کا زعم رکھنے والی ملکہ نے ان ازلی معذوروں کو ترس اور تحقیر کے ملے جلے احساس کے ساتھ دیکھا اور چاہا کہ انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے۔

ملکہ کو انسان نام کا یہ جانور کبھی ایک آنکھ نہ بھایا کہ گلداروںسمیت ہر اس جاندار کا ازلی دشمن تھا جوفطری تقاضوں کے مطابق چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔یہ وہی تھا جس نے جانے کتنے معصوم جانوروں کو اپنے گھروں میں باندھ رکھا تھا۔وہ جو چاہتا ان دکھیاروں کے ساتھ کرتا۔جسے چاہتا نکیل ڈالے پھراتا، جسے چاہتا ڈگڈگی پر نچاتا پھرتا گویا اس کے بھانویں ان میں کوئی عزت نفس ہی نہ ہو۔ اور پھر سفاکی کی انتہا دیکھوموج میں ہو تو دن دھاڑے ان معصوموں کو لٹال مشق گردن زدنی سے بھی باز نہیں آتا۔اس عالم میں کوئی اس کے چہرے پر غازیانہ نور ملاحظہ فرمائے۔ایک ملکہ ہونے کے تئیں اپنی رعایا کے ساتھ اس برتائو پر تائو کھانا بہرحال بلاجواز نہیں تھا۔اور پھر وہ کیسے بھولتی خود اپنی جاتی کے مقتولین کو۔اس کے لاشعور میں ان سب واجب القدر گلداروں کے چہرے محفوظ تھے جو بھوک سے بے تاب ہوکر انسانی بستیوں میں گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے کسی دوپائے کو دعوت مبازرت دی ہو۔یہ بیچارے تو اپنا حق وصولنے گئے تھے ، رات کی تاریکی میں دبے پائوں۔لیکن آہ۔۔۔۔!

ملکہ نے یاد کیا کہ جنگل میں یہ بات بھی عام تھی کہ لالچ اور لوبھ کی ماری انسان جاتی کے لوگ جنگل جنگل گھوم کر معصوم جانوروں کو مارتے ہیں اور پھر ان کی کھالوں کو دساور میں رہنے والے ہم جنسوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں یا ان میں بھس بھر کر اپنے اوطاقوں میں سجادیتے

ہیں۔جنگل میں شکار کی کمیابی اور گلداروں پر مسلط نیم فاقہ کشی کا باعث بھی یہی نامعقول مخلوق ہے کہ جنگل میں اس کی مسلسل مداخلت اور درختوں کی بیدریغ کٹائی کے سبب روز کتنے ہی جنوروں کو اپنے گھر بار چھوڑ ہجرتوں کے دکھ بھوگنا پڑتے ہیں۔اور پھر اللہ معافی!کوئی تکبر سا تکبر ہے کہ حضرت کے دماغ میں بھس یہ بھرا ہوا ہے کہ اس سرزمین کا واحد وارث یہی ایک تو ہے۔دیگر ساری مخلوق تو گویا اس کے گھر میں زبردستی گھس آئی ہے کہ اس کو آخری پناہ گاہ تک سے محروم کردینا اس پر واجب ٹھہر ا ہے۔ بہت بھاری مجبوری تھی کہ جنگل کے اصل وارثوں کو ان قاتل صفت دو پائیوںکے ساتھ رہنا پڑتا تھا، کشادہ دلی سے یہ مانتے ہوئے کہ وہ جیسا بھی ہے بہرحال اسی لینڈ سکیپ کا حصہ ہے ۔

ملکہ نے چاہا کہ سامنے سے آتے دوپائیوںسے کترا کر نکل جائے ۔لیکن وہ دونوں کہاں دفعان گئے؟ ۔اس نے گردن گھما کر دیکھا لیکن ان کم بختوں کا کہیں سراغ نہیں تھا۔اس نے اپنی دم کا پرچم بلند کرتے ہوئے انہیں اپنی موجودگی کے مقام سے آگاہ کیاپر مجال ہے جو انہوں نے ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو۔’’جوان ہوئے نہیں اور خرمستیاں پہلے شروع ہوگئیں‘‘۔اس نے دانت پیسے اور دم کو زور زور سے لہرایا۔تب کہیں بندہ ڈبائو گھاس کے ایک خشک قطعے سے وہ دونوں کھی کھی کرتے برآمدہوئے پر ایک ہی کم بخت تھے دونوں کہ اچانک ایک نیلے پروں والے پرندے نے غوطہ لگایا تو وہ دونوں ماں کی گھرکی بھول اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ملکہ کا دل دھک سے رہ گیا کہ وہ بجائے ماں کے ساتھ وہاں سے بچ نکلنے کی فکر کرتے ، اس پرندے کی طرف لپک پڑے۔وہ منحوس بھی انہیں اپنے پیچھے لگائے اس جانب لے گیا جہاں وہ دوپائے مشکوک حرکات میں مصروف تھے۔ملکہ نے خود کو کبھی اتنا کمزور محسوس نہیں کیا تھا۔اگر دوپائے انہیں دیکھ لیتے تو!؟۔۔۔وہ تو خیر گذری کہ ابھی تک دوپائیوں کی نگاہیں آس پاس جھاڑیوں میں الجھی ہوئی تھیں۔انہوں نے ملکہ کو دیکھا تھا نا بچوں کو لیکن تابہ کے۔

ملکہ عدم تحفظ کے احساس میں گھری دور سے اپنے بچوں پر نظر جمائے کھڑی تھی۔اس وقت تو یہی تھا جو وہ کرسکتی تھی۔اس نے ایک نظر دم بدم اپنی اور بڑھتے موذیوں کو دیکھا تو اچانک خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی کو برفاب کرگئی۔وہ یونہی جنگل میں نہتے نہیں گھوم رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں عجیب شکل کی چیزیں تھی۔جیسے درخت کی شاخیں ہوتی ہیںلمبی لمبی ۔ٹھاہ ٹھاہ کرنے والی اور آگ اگلنے والی۔اس کے بچپن کی یادوں میں محفوظ ایک دہشت ناک یاد کا تعلق اسی منحوس چیز سے بھی تھا جب ایک بار وہ دو دن کا فاقہ کاٹنے کے بعد اپنی والدہ مرحومہ کے ہمراہ رات کی تاریکی میں ایک بستی میں جانکلی تھی۔ اس کی ماں چلتے چلتے ایک بند دروازے کے سامنے رک گئی تھی۔تبھی ایک شامت کی ماری بکری اونچی آواز میں منمنائی اور ہمارے قدم جہاں تہاں تھم گئے۔یقینااس دووازے کے پار ہمارا پیٹ بھرنے کو کچھ جانور موجودتھے ۔

اس کی والدہ نے کواڑ پر نظریں جمائیں اور اپنی دم لہرا کر مخصوص اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ انہیں اس دروازے کو توڑ کر اپنا رزق کمانا ہے۔اس نے ماں کا عندیہ پاتے ہیں اس کے ہمراہ دروازے پر ہلہ بول دیا۔دروازہ کمزورتھا کہ پہلے ہلے میں ہی جھول گیا۔وہ دونوں ترنت اندھیرے کمرے میں داخل ہوئیں۔وہاں بہت سی فربہ بھیڑ بکریاں بند تھیں۔ ان احمقوں نے ہمیں دیکھتے ہی شور مچادیا۔ ابھی ماں سوچ ہی رہی تھی کہ کس بھیڑ کو اچک لے جائے کہ اچانک باہر شور بلند ہوا ۔دونوں نے تیزی سے پلٹ کر دیکھا تو اسی قبیل کے چند دوپائے ٹوٹے ہوئے دروازے کے پار جمع تھے۔ان کے ہاتھوں میں بھی یہی کچھ تھا۔وہ دونوںجونہی گھیرے میں آئیں تو ان شاخ نما چیزوں سے آگ نکلنا شروع ہوگئی۔سب کچھ آناً فاناً ہوگیا تھا۔اس کی ماں کو بس ایک دھاڑنے کی مہلت ہی مل پائی۔اس نے عین اپنے سامنے اپنی ماں کا لال لہو میں بھیگا لاشہ گرتے دیکھا ۔بدحواسی کے اس عالم میںبھی اس نے چاہا کہ کسی طرح سے مہلت مل پائے کہ وہ اپنی ماں کو جبڑوں میں دبا کر وہاں سے نکل جائے لیکن آگ کی نیلی چنگاریاں تھیں کہ برسے جارہی تھیں۔اس کا دل دکھ اور طیش سے بھرگیا۔اس نے چاہا کہ اپنی محبتوں ماری ماں کو الوداعی پیار کرلے اور اس کے ساتھ گذرے دنوں پرتھوڑا بین کرلے لیکن ماں کی لاش پر بین کرنا خود اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔سو اس نے ماں کی ڈوبتی نظروںسے اپنی آنکھیں پھیریں اور ان کے موذیوں کے سروں پر سے چھلانگ لگایہ جا اور وہ جا۔

وہ خود تو ٹھائیں ٹھائیں کرتی اس آگ سے بچ نکلی تھی لیکن اس کی روح میں اس منحوس آگ کی تپش اب تک تازہ تھی۔تب سے وہ ان  دوٹانگوں والے وحشیوں سے نفرت کی آگ میں گیلی لکڑی سمان سلگتی رہی تھی۔

ملکہ گھومی کہ ان منحوسوں کی نگاہوں سے بچ کر نکل جائے لیکن بدنصیبی یہ ہوئی کہ دونوں گل گوتھنے نیلے پروں والے پرندے سے مایوس ہوکر اچھلتے کودتے، ایک دوسرے کا تعاقب کرتے اسی جانب بھاگے چلے جارہے تھے جہاں وہ آدم زاد ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیزیں لیے  جانے کس کی بو سونگھتے پھررہے تھے۔اس نے بہتیرا اپنی دم کا پرچم لہرایا، بہت غرائی لیکن جانے کس چھچھوندر نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا کہ وہ جیسے اندھے بہرے ہوچکے تھے۔آخر ملکہ کو احتیاط کے تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے قدرے اونچی آواز میں غراکر ان کم بختوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا پڑا۔اس نے دیکھا کہ وہ دونوں ماں کی غراہٹ پر تھوڑے کھسیانے ہوئے اور پھر اپنی دمیں ہلا کر اسے ’’بس ابھی آئے‘‘ کا اشارہ کیا۔اس کے ساتھ ہی ہولناک بات یہ ہوئی کہ دونوں آدم زاد بھی ٹھٹک گئے۔انہوں نے پہلی بار اس کا نوٹس کیا اور پھر ان کی گردنیں ان گل گوتھنوں کی طرف گھوم گئیں۔

ملکہ نے دور سے ہی ان کی آنکھوں میں اس خباثت کو جھلکتے دیکھ لیا تھا جو ان گل گوتھنوں کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں کوندی تھی۔وہ نپے تلے قدموں آگے بڑھے۔ان میں سے ایک نے ملکہ کی جانب اس آگ اگلنے والی چیز کو سیدھا کیاایک اور تھا جس کے ہاتھ میں اسی طرح کی ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز دبی ہوئی تھی لیکن اس نے ملکہ کی طرف رخ کرنے کی بجائے اسے گل گوتھنوں کی جانب سیدھا کررکھا تھا۔ان دونوں کے باقی دو ساتھیوں نے یہ کیا کہ اپنے جسم کے ساتھ لپٹے لمبے چوڑے کپڑوں کو اتارا اور انہیں ہاتھ میں تولتے ہوئے گل گوتھنوں کی جانب بڑھنے لگے۔ملکہ نے ان کے ارادوں کو بھانپ لیا اور انہیں خوف زدہ کرنے کیلئے دھاڑی۔اس کی دھاڑ نے جنگل کو ایک بار تو لرزا دیا لیکن مجال ہے جو ان دونوں پر کوئی اثر ہوا ہو۔الٹا یہ ہوا کہ ملکہ کی طرف بڑھنے والے نے اپنے بازو لمبے کیے اور اچانک اس کے ہاتھوں میں دبی لمبی سی چیز نے ٹھائیں ٹھائیں نیلی چنگاریاں اگلنا شروع کردیں۔اچانک وونوں گل گوتھنے بھی اپنا نٹ کھٹ پنا بھول کر سیدھے ہوگئے۔

ایک ناقابل قیاس منظر ان کے سامنے تھا۔ان کی ماں تڑپ کر فضا میں بلند ہوئی اور پھر قلابازی سی کھاکر زمین پر گرگئی تھی۔اس دوران اس کے آس پاس نیلی چنگاریاں اڑتی رقص کرتی پھر رہی تھیں۔وہ اٹھی اور ایک زبردست دھاڑ کے ساتھ ان کی طرف بڑھنے کو ہوئی لیکن اس کے بدن میں پیوست ہوتی نیلی چنگاریوں نے اسے پھر دھول چٹادی۔وہ دونوں گل گوتھنے، نیلے پروں والے پرندوں اور رنگ برنگ تتلیوں کے تعاقب میں دوڑتے دوڑتے اچانک بڑے ہوگئے۔ان کی وحشی جبلت بل کھاکر بیدار ہوئی اور انہوں نے چاہا کہ وہ ان دو ٹانگوں والے

وحشیوں کو ایک ہی جست میں چیر پھاڑ دیں۔وہ ان کی جانب بھاگے ۔یہی وہ لمحہ تھا جب آدم زادوں نے نپے تلے انداز میں ان کی جانب بڑے بڑے سوراخوں والے جال اچھال دئیے اور وہ ان میں الجھ کر رہ گئے۔انہوں نے اس جال کو دانتوں اور پنجوں سے پھاڑ کر آزاد ہونا چاہا تھا کہ اس دوران ان کی نظر ان سے ذرا فاصلے پر کھڑے تیسرے آدم زاد پر پڑی۔اس نے ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز ان کی طرف سیدھی کی اور اچانک ان کے سنہری جسموںمیں سلگتے ہوئے تیر سے اتر گئے۔انہوں نے تب بھی پرواہ نہ کی اور خود کو اس سوراخ دار کپڑے کی قید سے آزاد کرنے میں مصروف رہے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ آہستہ آہستہ ان کا زور مدہم پڑنے لگا اور وہ ایک عجیب سی کیفیت میں ڈوبتے چلے گئے۔اور پھر یہ ہوا کہ انہیں بہت زوروں کی نیند آنے لگی اور پھر آپ ہی آپ ان کی آنکھیں مندھ گئیں ۔

ملکہ کیلئے یہ ایک ناقابل یقین منظر تھا۔کوئی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں کو لے جائے، ناممکن!۔وہ جسم و جاں کی پوری توانائی سے دھاڑی۔لیکن اس بار بھی اس کی دھاڑ بے اثر رہی تھی۔جنگل کا جنگل لرز گیا تھالیکن ان کم بختوں پر ذرا اثر نہ ہوا۔وہ اپنی طرف بڑھتی نیلی چنگاریوں سے بے نیاز بجلی کی سی تیزی سے ان کی جانب بڑھی لیکن وہ جس کے ہاتھ میں ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز تھی، پہلے سے تیار تھا۔اس نے نشانہ باندھا اوراچانک ملکہ کے پیٹ میں کوئی چیزکھٹ سے اترگئی جس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ میں آگ سی سلگ اٹھی۔اور پھر اگلے ہی لمحے بائیں ٹانگ میں بھی ویسی ہی آگ۔اس کے جسم میں پہلے سے کئی نیلی چنگاریاں اترچکی تھیں۔اب تو جیسے اس کے جسم سے رفتہ رفتہ جان نکلنے لگی ہو۔یہی وہ بدقسمت لمحہ تھا جب ملکہ پر خوف نے جھپٹا مارا اور وہ زخمی ٹانگ کو گھسیٹتی پسپا ہوگئی۔اس نے ایک محفوظ فاصلے پر پہنچ کر دیکھا کہ وہ بدبخت اس کے گل گوتھنوں کو ڈنڈا ڈولی کرتے لے جارہے تھے۔ملکہ نے پھر چاہا کہ ایک ہی جھپٹے میں وہ انہیں چیر پھاڑ کر رکھ دے لیکن آہ! جسم میں سلگتی ہوئی آگ۔

جنگل میںسب کچھ جوں کا توں تھا لیکن پھر بھی لگتا کہ بہت کچھ بدل چکا ہے۔مشک پوری سے میران جانی تک کئی کوس بنتے ہیں جہاں ملکہ کی حکمرانی اب بھی قائم تھی لیکن اس کی نوعیت اب بہت حد تک اخلاقی اور ’’آئینی‘‘ سی رہ گئی تھی۔جنگل کے تمام باسی جان چکے تھے کہ دونوں بیٹوں کی جدائی کے بعد ملکہ میں پہلے سا دم خم باقی نہیں رہا۔اس کی وہ لپک جھپک، وہ بجلی ایسی کوند اور وہ پر تمکنت انداز گئے دنوں کی بات لگتی تھی۔یوں بھی اب وہ کچھ گوشہ نشین سی ہوچلی تھی۔ پہلے دن کے اجالے میں یا چاندنی کی نرماہٹ میں وہ اکثر اپنے مخصوص راستوں میں گھومتی دکھائی دے جایا کرتی تھی لیکن اب صرف بھوک کی بے تابی ہی اسے غار سے باہر آنے پر مجبور کرتی تھی۔دیکھتی آنکھیں دیکھا کرتیں کہ گوہلکی سی لنگڑاہٹ کے باوجود اب بھی اس کی چال میں سجلتا اور وقار نمایاں تھا لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ اب چلتے ہوئے وہ اکثر عجیب سے انداز میں پیٹ کو جھٹکاتی اور پھر یک لخت رک جاتی جیسے خود کو کمپوز کرنے کے جتن میں ہو۔اس کے بعد جب وہ دوبارہ چلتی تو اس کے سنہرے جسم میں تکلیف کے احساس میں گندھی لرزش کو صاف دیکھا جاسکتا تھا۔جنگل باسیوں نے یہ بھی دیکھا کہ شکار سمے وہ اکثر بے دھیان ہوجایا کرتی تھی یوں شکار کو جان بچانے کی مہلت مل جاتی۔کہاں وہ وقت کہ وہ ایک سجلتا سے شکار کے تعاقب میں آتی تواس کا پورا جسم آنکھ بن جاتا اور پھر وہ پلک کی ایک جھپک میں جھپٹا مار اس کاکام تمام کردیتی اور کہاں یہ بے دلی اور اناڑی پن کہ اب سست الوجود جانور بھی اسے جل دے کر بھاگ کھڑے ہوتے اور اسے میلوں دور تک غیر متوازن چال کے ساتھ ا ن کے پیچھے خوار ہونا پڑتا تھا۔

ملکہ بھوکی تھی اور زخم خوردہ تھی۔

ملکہ تنہا تھی اور غم زدہ تھی۔

مگر ملکہ پرعزم اور پروقار تھی۔

وقت کی گذران کے ساتھ جب شمالی افق سے نمودار ہونے والے مسافر پرندے قافلہ در قافلہ نیشنل پارک میں اترنا شروع ہوئے تو ملکہ کا حصار غم کمزور پڑچکا تھا۔اس کے پلیٹ میں آگ کی سلگن بھی اب کبھی کبھار ہی دکھن دیتی۔ وہ بھی تب جب ملکہ کو بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔اور اب ملکہ کو بھاگ دوڑ کچھ زیادنہیں کرنا پڑتی تھی۔قویٰ کے مضبوط ہوتے ہی اس کی چال ہلکی سی لنگڑاہٹ کے باوجود پہلے سی سبک اور سجل ہوچلی تھی۔گو پہلے سی بات نہ سہی پر اس کی لپک اور جھپٹ اس قدر بہتر ضرور ہوچکی تھی کہ اسے شکار کے پیچھے کچھ زیادہ خوار نہ ہونا پڑتا تھا ۔اس خواری نے اسے اپنی نظروں میں کس قدرنامعتبر کردیا تھا یہ وہی جانتی تھی۔جو بات سب جان چکے تھے وہ خود ملکہ نہ جان پائی تھی کہ اس کی قویٰ کی بحالی میںکسی بھی اور عامل سے زیادہ اس نفرت کو دخل تھا جو اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔

ملکہ کی بے مقصد زندگی کو اس کی زخمی انا نے ایک عظیم تر مقصد میں ڈھال دیا تھا۔اب اس کے وجود کا ہر تار اس انتقام کی لے پر بج اٹھتا تھا جو اس نے دو ٹانگوں پر چلنے کی معذوری میں مبتلا نوع سے لینا تھا۔جنگل کے باسی جس ملکہ سے واقف تھے وہ کوئی اور تھی۔ایک باوقار اور بھری نیت والی ملکہ جو بھوک کی احتیاج پوری کرنے کے سوا اپنی رعایا سے کوئی تعرض نہ رکھتی تھی۔اس ملکہ کے راج میں وہ دو ٹانگوں والے نر اور مادہ بھی یکسر محفوظ تھے جو جنگل میں لکڑیاں چرانے یاجنگل کو کسی بھی اور طرح کی چھیڑ چھاڑ کرنے کی نیت سے آیا کرتے تھے۔لیکن وہ تب کی بات تھی۔اب کی بات یہ تھی کہ ملکہ اپنی روح کی گہرائیوں تک بدل چکی تھی۔اب جو ملکہ تھی وہ کوئی اور تھی۔طیش اور نفرت سے بھرا ہوا وجود، ایک دھکتی آگ کا گولہ جو جہاں سے گذر جائے آگ لگاتا جائے۔اب اگر وہ کچھ تھی تو صرف ایک غارت گر ۔اب وہ شکم کی تسکین کیلئے شکار نہیں کرتی تھی۔اپنی جاتی کی فطرت کے برعکس اب اسے ایذا پسندی اور لاشے گرانے سے کام تھا۔جن چھوٹے چھوٹے بے بضاعت جانوروں کی طرف اس نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھاوہ بھی اس کے دست ستم کی زد میں آچکے تھے۔اس کے نئے روپ نے بہت سے بندروں کو وداع جنگل پر مجبور کردیا تھا کہ اس کی غارت گری کا سب سے زیادہ ہدف یہی مخلوق تھی۔شاید اس لیے کہ وہ ان دو ٹانگوں پر چلنے والوں کے ساتھ دوستی کا دعویٰ رکھتے تھے اور ان کی صحبت میں خوش رہتے تھے۔اور تو اور ان کی شباہت اور فطرت تک اس موذی نوع کے اریب قریب تھی۔

اور پھر ایک روز جب ملکہ نے مدت بعد کسی تکلیف کے احساس کے بغیر جسم کو کھینچ کر انگڑائی لی تو وہ مسرت سے جھوم اٹھی۔اب وہ ایک طویل اور خونریز جنگ کیلئے تیار ہوچکی تھی۔

(۲)

پہلی خبر ڈونگا گلی سے آئی۔

دوسری چھانگلا گلی کے ایک پہاڑی گائوں سے اور تیسری ڈونگا گلی کے ہی ایک اور پہاڑی گائوں سے۔

صرف ایک ہفتے کے اندر تین ہلا کتوں نے پورے گلیات میں دہشت کی چادر تان دی۔یہ تینوں واقعات جنگل کے اندر شام کے جھٹپٹے میں ہوئے تھے۔ڈونگا گلی کے جنگل میں ہونے والی دو نوں ہلاکتوں کا شکارنوجوان لڑکیاں بنی تھیں ۔ان میں سے ایک اپنی بہن اور دوسری اپنی

ماں اور خالہ کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں اکٹھا کرنے گئی تھیں جبکہ چھانگلا گلی میں ایک نوجوان جنگل میں اپنے مویشی چراتے ہوئے جنگل میںدور تک نکل گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ان میں ایک مشترک بات یہ تھی کہ تینوں واقعات ایوبیہ نیشنل پارک کے نواح میں پانچ سے سات کلومیٹر کے دائرے میں پیش آئے تھے۔

آدم خوری کی ان وارداتوں کے ساتھ ساتھ درندے کی جانب سے گھروں میں گھس کر باڑوں سے جانور گھسیٹ لیے جانے کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ جاری رہے۔

ایوبیہ نیشنل پارک کے نواح میں ڈونگا گلی سے ٹھنڈیانی تک اور خانس پور سے گھوڑا ڈھاکہ تک بہت سے چھوٹے چھوٹے دیہات آباد ہیں۔دورسے دیکھنے پر گلیات کی ہریالی بلندیوں پر راستوں کا ایک جال سا بچھا نظر آتا ہے۔یہ وہ راستے ہیں جو ان دیہات کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرتے اور مقامی دیہی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔سرسبز پہاڑوں کی ڈھلوانوں اور فراز کوہ میںآباد ان دیہات سے شام سمے اٹھتا دھواں زندگی کی وہ واحد علامت ہے جو دور سے دکھائی دے جاتی ہے۔یہاں بڑے سے بڑے گائوں کی آبادی بھی ایک ہزار نفوس سے زیادہ نہیں جبکہ ایسے دیہات بھی ہیں جو محض چند گھروں پر مشتمل ہیں۔بنیادی انسانی سہولیات سے یکسر محروم اورغربت کی بدترین سطح پر زندگی بسر کرتے ان دیہات کے بچوں کو تعلیم کی عیاشی کم ہی میسر ہے ۔اگر کوئی پڑھائی پر تل ہی جائے تو اسے اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر میل ہا میل چلتے ہوئے مری یا ایبٹ آباد تک جانا پڑتا ہے اور اگر کوئی بیمار پڑجائے تو ہسپتال اور ڈاکٹر ندارد۔جب ان پہاڑوں پر برف اترتی ہے تو مہینوں یہ علاقے دنیا سے الگ تھلگ برفانی جزیروں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔گلیات کے سحر انگیز حسن کی تعریف میں رطب السان لوگ ان کٹھنائیوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو مقامی آبادی کی زندگی کا معمول ہیں۔

روز گار کی جو پوچھو تو جنگل ہی ان داتا اور جنگل ہی روزگار ہے، باقی رہے نام اللہ کا۔جنگل انہیں جلانے اور گھر بنانے کیلئے لکڑی فراہم کرتا ہے ۔اور پھر قیمتی جڑی بوٹیاں ہیں جو ان کے روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہیں اور میڈیکل سائنس کی جدتوں کا قدیم متبادل بھی۔اگر فارماسوٹیکل کمپنیوں کی ادویات میسر نہیں تو جڑی بوٹیاں تو ہیں جو فطرت کی گود میں پلنے والوں کو صدیوں سے چھوٹی موٹی بیماریوں کے خلاف مدافعت فراہم کرتی آرہی ہیں۔جنگل پر انحصار کا یہ عالم کہ جنگلی ساگ جیسی کئی خود رو سزیوں کیلئے بھی جنگل کا رخ کیا جاتا ہے ۔کئی طالع آزما ایسے ہیں جو جنگل میں گھس کر قیمتی پرندوں اور جانوروں سے ان کے بچے چھین کر لے جاتے ہیں اور شہر کے شوقین مزاجوں کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔وہ جنہیں طالع آزمائی کا حوصلہ کم کم میسر ہے وہ یہاں مردہ پرندوں اور چھوٹے موٹے جانوروں کو تلاش کرتے ہیں ۔ان کی کھالیں بھی اچھی قیمت دے جاتی ہیں۔اور پھر اس جنگل کے وسیع سبزہ زار ان کے مویشیوں کی آتش شکم بجھانے کیلئے اپنے بازو کشادہ رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگل ان کیلئے پانی کے حصول کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ہر روز صبح اور شام لڑکیاں اور بڑی عمر کی عورتیں سر پر ایلومینیم کے گھڑے سجائے قطار در قطار میلوں دور آبشاروں، نالوں اور چشموں کا رخ کرتی ہیں۔

گلیات کی تاریخ میں پہلی بار آدم خور کی آمد کی کوک پکار بلند ہوئی تودہشت نے ہر گھر اور ہر دل میں بسیرا کرلیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے فطرت زادوں نے نیلاہٹ میں گھلے اپنے پالن ہار جنگل سے منہ موڑ گھروں کے کواڑ بند کرلیے تھے۔

جنگل جو ہمیش سے ان کیلئے زندگی کا سندیس تھا اب موت کا پیغامبر بن چکا تھا۔اب اگر کوئی جنگل کا رخ کرنے کی ہمت کرتا بھی تو ہتھیاروں سے مسلح ہوکر اور مردوں اور عورتوں کی بڑی بڑی ٹولیوں کی صورت میں جو اپنی ضرورت پوری کرتے ہی تیز قدموں واپس پلٹ آتیں۔جو بوڑھے یا کم ہمت جنگل میں قدم رکھنے سے گریزاں تھے یا جن گھروں میں جوان لوگ نہیں تھے ان کی زندگیوں میں کھٹنائیوں کے سائے دراز تر ہونے لگے تھے۔

ایک دنیا یہ تھی اور ایک دنیا وہ تھی ، خوراک سے بوجھل شکموں اورعافیت کے ماروں کی دنیا۔گلیات میں آدم خور کی آمد کی خبر اڑی توبے فکروں نے اسے بھی دل لگی جانا۔یہ لوگ اپنے سنسنی بھرے دلوں میں آدم خور کی ایک دور کی جھلک دیکھنے کی تمنا جگائے وہاں پہنچنے لگے۔گو بال بچوں والوں نے اپنی گاڑیوں کے رخ دوسرے تفریحی مقامات کی جانب موڑ دئیے تھے اس کے باوجود ایبٹ آباد اور مری کی راہ اس جنت زار میں اترنے والوں کی تعداد میں کچھ زیادہ کمی نہ ہوئی تھی۔ ایوبیہ کی چیئر لفٹ میں رش تھا کہ اب بھی ٹوٹنے میں نہیں آرہا تھا۔مقامی دکانداروں اور ہوٹل والوںکی اب بھی پانچوں گھی میں تھیں۔ایک یہ عیش کوش دنیا تھی اور ایک پہاڑوں کے دامن میں آباد وہ دنیا تھی جہاں آدم خور کی ہمسائیگی  کا مطلب کچھ اور تھا۔دہشت اور افلاس میں لپٹی اس دنیا میں جہاںپینے کا تازہ پانی کم یاب تھا۔جہاں مویشی بھوکے تھے اور جہاں جلانے کی لکڑی بہت سے گھروںکیلئے اشیائے تعیش بن گئی تھی۔آدم خور نے اپنی آمد کی خبر کیا دی کہ اداسی اور محرومی سے بھری اس دنیا میںدلو ں کی دھڑکن کواڑ کی کنڈی کے ساتھ بندھ گئی۔

جنگل تو خیر جنگل ،دہشت نے انہیں گھروں کے اندر بھی غیر محفوظ کردیا تھاگا۔ہر دل میں ایک خوف بیٹھ گیا تھا کہ کسی بھی وقت راہ چلتے یا دالان میں کام کرتے وقت گلدار اچانک حملہ آور ہوجائے گا۔اس غارت گر سے بچنے کیلئے علاقے کے ہر گائوں اور ہرآبادی میں جنگی نوعیت کی حفاظتی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔جسے دیکھو ایک ہمہ ہمی میں مبتلا دکھائی دیتا تھا۔کوئی اپنے دروازے مضبوط کرارہا ہے تو کوئی زمین کا ٹکڑا بیچ کر گھر کی دیواریں اونچی کرارہا ہے۔کوئی دیکھے تو یہی سمجھے کہ یہاںکوئی لشکر دھاوا بولنے کو ہے۔تاریک راتوں میں خوابیدہ بستیوں پر دھاوا بولا جانا یوں تو معمول کی بات تھی لیکن اب اس کے تواتر میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوچلا تھا۔

ہر رات کسی نہ کسی گھر سے آوازہ بلند ہوتا اور صبح معلوم ہوتا کہ رات فلاں گائوں میں درندے نے شب خون مارا اور دروازے توڑ کر مویشی اڑا لے گیا۔کوئی بے بسی سی بے بسی تھی کہ دیواروں کو اونچا کرانا کام آرہا تھا نہ سرشام گھروں میں دبک کر بیٹھ رہنے سے مسائل حل ہورہے تھے۔تب آس پاس کے دیہات والے مل بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ ہر گائوں کے جوان مرد راتوں کو ٹھیکری پہرہ دیا کریں اور جونہی درندہ دکھائی دے اسے گھیر گھار کر ماردیں۔ایک اور فیصلہ یہ کیا گیا کہ یونہی چپ چاپ ڈرنے اور مرنے کی بجائے سرکار کو جھنجھوڑا جائے ۔طے ہوا کہ فلاں روز مری اور ایبٹ آباد جانے والے راستوںپر دھرنا دے کر ٹریفک روک دی جائے۔

دھرنا ہوا اور اس شان سے ہوا کہ اگلی صبح پو پھٹتے ہی گلیات سے ہزاروں کی تعداد میں عورتیں ،مرد، بوڑھے اور بچے ہاتھوں میں دھاتی برتن اٹھائے دو مخالف سمتوں میں قافلہ در قافلہ نکلے اور دونوں شاہراہوں پر جا بیٹھے۔اب جو انہوں نے برتنوں کو بجانا شروع کیا تو اس کا شور دور پشاور اور اسلام آباد کے سرکاری ایوانوں تک جاپہنچا۔جن شاہراہوں پر دھرنے دئیے گئے ان پر ٹریفک کی لین ڈوری ٹوٹنے میں نہیں آتی سو

یکا یک میلوں دور تک گاڑیوں کے تیز رفتار پہئے جہاں تہاں تھم گئے۔اب جو ہارن بجنا شروع ہوئے ہیں توخدا کی پناہ۔اس نامانوس شور کو سن کر جنگل کے پکھیرو بھی تماشا دیکھنے کو اپنے آشیانوں سے نکل پڑے۔

دھرنے اور ٹریفک کا ملا جلا شور بلند ہوا تو چسکے کے شیرے میں لتھڑے ہوئے ٹی وی چینلوں کی گاڑیاں بھی سروں پر سیٹلائٹ انٹینوں کی کلغیاں سجائے بھاگم بھاگ دھرنے کے مقامات پر پہنچ گئیں۔مائیک ٹیسٹ کیے گئے، کیمروں نے لینز کی سیاہ نقاب اتاری اور بریکنگ نیوز کا اعصاب شکن سلسلہ شروع ہوگیا۔وہ خبر جو پہلے چند دور افتادہ دیہات تک محدودتھی اب ہوا کے دوش پر سوار شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں رنگ جمانے لگی۔اس ہنگامی صورتحال پر سرکار کے تار جو کھڑکنا شروع ہوئے تو یوں کہ ٹیلیفون کی لائنیں تک سلگ اٹھیں۔صوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں میں ہنگامی اجلاس ہونا شروع ہوئے۔انتظامی افسروں،پولیس، جنگلات اور محکمہ وائلڈ لائف کے دفتروں میں کھلبلی مچی اور سرکاری گاڑیاں ہوٹر بجاتی دوڑ بھاگ میں لگ گئیں۔پہر بھر دن نہ گذرا تھا کہ دھرنے والوں کے پاس مذاکراتی ٹیمیں پہنچ گئیں۔ٹوٹی جوتیوں اور پھٹے حال والوں کی بن آئی۔اشراف کی صفوں میں یہ احساس جاگزیں ہوچکا تھاکہ معاملات کی سدھار کی کوئی صورت نہ بنی تو پھر صدیوں کی محرومی سوالوں کے ببول اگا سکتی تھی سو دور شہروں سے فون کالز آئیں تو فلک نشیں سیاسی نمائندوں اور کلف لگے سرکاری افسروں نے اپنی ساری اکٹر فوں ان خراب حالوں کے پائوں پر رکھ دی۔

دھرنے کے معتبرین حکومتی معتبرین پر خوب گرجے برسے ۔قرار دیا گیا کہ حکومت کے کہنے پر وائلڈ لائف والوں نے جان بوجھ کر ان کے جنگلات میں ’’شیر اور چیتے‘‘ چھوڑرکھے ہیں تاکہ علاقے کو گذشتہ الیکشنوں میں حکومتی پارٹی کے خلاف ووٹ دینے کی سزا دی جائے۔وائلڈ لائف کے انگریزی پڑھے افسر کامن لیپرڈ کیلئے ’’شیر اور چیتے‘‘ کے سخت ناموزوں القابات پر چیں بچیں تو ہوئے لیکن انہیں حیاتیات کا سبق پڑھانا کار لاحاصل اور سراسر وقت کا زیاں تھا۔وہ جانتے تھے کہ کوئی کچھ بھی کرلے گلیات کے لوگ لیپرڈیا گلدار سے نفرت کی بنا پر اس کی نوع تبدیل کرنے پر مصر رہیں گے۔خیر، مذاکرات کچھ دیر تک چلتے رہے آخربہت سی منت سماجت اور یقین دہانیوں کے بعد دھرنے والوں نے دھرنا ختم کرنے اور ایک زور دار ’’ورنہ‘‘ کے بعدفضا میں دو انگلیاں بلند کرتے ہوئے فاتحانہ واپسی کا اعلان کردیا۔

یہ سب ہوا لیکن مجال ہے کہ درندے کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔اس غارت گر نے اپنے معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ہر روز کسی نہ کسی گائوں میں خاموش راتوں میں ایک بجلی سی کوندتی اور کوئی نہ کوئی غریب اپنے قیمتی مویشی سے محروم ہوجاتا۔مشک پوری کے نواح میں آباد ڈونگا گلی سمیت کئی دیہات سے ایک عجیب گواہی ملی کہ کچھ دنوں سے ایک ایسا ’’چیتا‘‘ بھی دیکھا جارہا ہے جو کسی بستی میں گھستا ہے اور گھروں کے گرد منڈلاتا ہے اور پھر کوئی واردات کیے بغیرواپس چلاجاتا ہے۔

’’ہو نہ ہو یہ آدم خور ہے جو مویشیوں کی بجائے انسانوں کا شکار کرنے کیلئے بستیوں کا رخ کرتا ہے۔‘‘ علاقے کے جہاندیدہ بزرگوں کے دل میں ایک ہولناک خدشے کا سانپ لہرایا۔

خوش قسمتی یہ ہوئی کہ رات کے وقت لوگوں کے مضبوط دروازوں کی پناہ میں ہونے کے باعث ابھی تک اس چیتے کا سامنا کسی انسان سے نہیں ہوا تھا۔اس چیتے کی موجودگی کی اطلاع ٹھیکری پہرہ دینے والوں نے دی تھی جو رات کے وقت درندے پر نگاہ رکھنے کیلئے گائوں گائوں پہرہ دیتے تھے۔

ا پنی کارگذاری دکھانے کیلئے بہت سے سرکاری لوگوں کی جنگل میں آنیاں جانیاں شروع ہوچکی تھیں اور پھر بین الاقوامی میڈیانے بھی جنگلی حیات کے تحفظ کے نام پر اپنی دور بینوں کا رخ اس جانب کردیا تھا۔ان سرگرمیوں سے اور کیا ہوتا البتہ جنگل کو فائدہ ضرور ہوگیا تھا کہ کچھ روز کیلئے ہی سہی محکمہ جنگلات والوں نے حالات کی نزاکت کا واسطہ دیتے ہوئے ٹمبر مافیا کو درختوں کی بے دریغ کٹائی سے باز رہنے پر آمادہ کرلیاتھا۔جنگل میں گونجتی آہنی آروں کی گھر رر گھررر تھمی تو چند روز کیلئے رنگ برنگے پرندے اور گلہریاں بے گھری کے عذاب سے محفوظ ہوگئیں۔

سرکاری ایوانوںاورمحکمہ وائلڈ لائف کے پر آسائش دفتروں میں زیر بحث معاملہ یہ تھا کہ دھرنے والوں کی زور دار’’ورنہ‘‘ سے بچنے کیلئے جیسے بھی بن پڑے فوری طور پر آدم خور کو جہنم واصل کیا جائے۔طے پایا کہ اس موذی قاتل کو مارنے کیلئے ٹرافی ہنٹنگ کا اعلان کیا جائے ۔سو اس مقصد کیلئے  اگلے روز اخبارات میںدردمندانہ اپیل پر مشتمل اشتہارشائع کرادئیے گئے ۔ادھر سرکاری گرما گرمی جاری تھی اور ادھر ایک نامعلوم درندہ سرکار دربار کا چیلنج قبول کرتے ہوئے ایوبیہ نیشنل پارک سے متصل گائوں آدم کلاں کے ایک باڑے میں گھس گیا اور ایک پلی پلائی بکری کو اٹھا لے گیا۔یہ وہی گائوں تھا جس کی ایک لڑکی آدم خور کا پہلا شکار بنی تھی۔ اگلے روز تک مختلف دیہات میں اوپر تلے تین چار ایک سی وارداتیں ہوئیں تو ٹھیکری پہرے والے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

دوسری جانب وائلڈ لائف والوں کے رقت انگیز اشتہارتھے جنہوں نے کئی شوقیہ شکاریوں کے دلوں کو سنسنی سے بھر دیا۔دو ہی روز میں محکمے کے کمروں اور برآمدوں میں بھانت بھانت کی شکلیں براجمان ہوگئیں۔ان بیچاروں میں سے زیادہ تر ایسے تھے جنہوں نے گلدار کو صرف تصویروں میں ہی دیکھ رکھا تھا۔بڑے شکار کیلئے موزوں ہتھیاروں کا علم تو خیر کیا ہوتا بہت سوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کھیتوں میں سور مارنے اور دور افتادہ جنگلوں میںگلدار کو شکار کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے ۔بس کندھے پر کوئی سی بھی رائفل ٹکائی اور بن بیٹھے میاں شکاری۔ وائلڈ لائف کے صاحبوں کو ان بزعم خویش کیتھ اینڈرسوں کی بھیڑ چھانٹنے میں خاصی محنت کرنا پڑی تب کہیں جاکر تین چار قدرے گوارہ قسم کی شکار پارٹیاں تیار ہوسکیں۔ سرکاری اسلحے سے لیس یہ شکار پارٹیاں سرکاری جیپوں پر سوار ایبٹ آباد کی راہ گلیات میں پہنچیں تو ان کا مسیحا کی طرح استقبال کیا گیا۔ہر گلی اور ہر گائوں کے لوگوں نے ان دو دن کے مسیحائوں کی خاطر مدارات کیلئے اپنے خوان ہائے نعمت دراز کردئیے۔ہر ایک کو اطمینان تھا کہ اب کے موذی بچنے نہ پائے گا۔ ان  شکاریوں کی کامیابی کو یقینی بنانے مقامی لوگوں نے اپنے منتخب جوان چھانٹے اور انہیں مسلح کرکے ان کے ہمراہ سوئے جنگل روانہ کردیا۔ادھر سرکاری دبائو پر آدم خور کے قلع قمع کو مزید یقینی بنانے کیلئے وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے اضافی اقدام کے طور پر نیشنل پارک کے اندر اور انسانی گذرگاہوں کے ساتھ ساتھ کئی نائٹ ویژن کیمرے اور خاص طور پر تیار کرائے گئے ٹریپ بھی نصب کردئیے۔ان میں سے ہر ٹریپ میں ایک ایک بھیڑ بکری باندھ کر مسلح نشانہ بازوں کو تعینات کردیا گیا کہ جونہی درندہ ٹریپ میں داخل ہو اسے جیتا نہ چھوڑا جائے۔

(۳)

اس نے مشک پوری کی سرسبز بلندیوں سے جھانک کردیکھا کہ جنگل میں خوب چہل پہل ہورہی تھی۔دو ٹانگوں والے بہت سے جانور اپنے ہاتھوں میں ٹھائیں ٹھائیں آگ برسانے والی چیزیں تھامے جھاڑیوں کو سونگھتے پھررہے تھے۔ان میں سے کچھ تووہیں جنگل کے پلے بڑھے لوگ تھے جن کی وضع قطع مانوس تھی اور وہ انہیں دور سے پہچان سکتی تھی ۔ان کے ساتھ کچھ نئے لوگ بھی تھے، عجیب سے کسے کسائے لباس پہنے اور سروں کو پی کیپ یا سولا ہیٹ میں چھپائے سنبھلے قدموں چل رہے تھے۔ان کی اکھڑی اکھڑی چال سے صاف عیاں تھا کہ ان کے پائوں اس جنگل کی مٹی کے لمس سے مانوس نہیں ہیں۔یہ نامانوس لوگ نیم دائرہ بناتے مقامی لوگوں کے آگے  و دو تین تین کی ٹولیوں میں چل رہے تھے  ۔خوف کا یہ عالم کہ کسی جھاڑی سے کوئی تتلی بھی اڑان بھرتی تو یہ گھبرا کر ٹھائیں ٹھائیں کرنے لگتے۔

ملکہ مشک پوری کی بلندیوں پر ایک بڑے پتھر کی اوٹ لیے اس دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتی رہی۔

اس نے دیکھا کہ ان میں سے کچھ کا رخ مشک پوری کی بلندیوں کی طرف تھا۔وہ بنے بنائے ٹریکس پر چلتے مختلف سمتوں سے چٹانوں اور جھاڑیوں سے الجھتے گرتے پھسلتے مشک پوری کی عمودی ڈھلوانوں پر چڑھنے کے جتن کررہے تھے۔ایک بار تواس کے جی میں آئی کہ ایک ہی بار ان پر جاپڑے اور دو دو ہاتھ مار انہیں لمبا لٹادے لیکن پھر اس نے اس خیال کو جھٹک دیا۔ایک تو ان کے پاس آگ اگلنے والی چیزیں زیادہ تھیں دوسرے وہ چوکنے بھی بہت تھے۔ایسے میں بے قابو جذبات کا نتیجہ کچھ اور بھی ہوسکتا تھا۔ا سے صرف اپنی نفرت کی آگ کوٹھنڈا نہیں کرنا تھا بلکہ بستیوں میں گھس کر اپنے گل گوتھنوں کی صبر آزما تلاش بھی جاری رکھنا تھی۔تس پر اس کی جبلی مکاری نے صلاح دی کہ ابھی اپنی سفاک وحشت کو سنبھال رکھو اور وقت کو ٹال جائو۔ اسے اس جنگ میں مزا آرہا تھاکہ اس میں انعام کے طور پر انسان جاتی کا نمکین گوشت اور لہو ملتا تھا لہٰذا بہتر تھا

کہ اسے جس قدر ممکن ہو لمبا کھینچا جائے۔سو اس نے ہمیشہ کیلئے کھو جانے والے گل گوتھنوں کو یاد کرتے ہوئے دور تک پھیلی وادی کی وسعتوں پر ایک متلاشی نگاہ ڈالی اورایک طویل انگڑائی لیتے ہوئے جنگل کے گھنے الجھائو میں گم ہوگئی۔

(۴)

ان دنوںہر دماغ پربس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس دھرتی کو سنہری بدن گلداروںکے وجود سے ہمیشہ کیلئے پاک کردیا جائے سو چھانگلا گلی سے ٹھنڈیانی تک اور ڈونگا گلی سے نتھیا گلی اور خانس پور تک پائن اور دیودار کے گھنے جنگلات میں شکاریوں نے ڈال ڈال ، پات پات جنگل کا جنگل چھان مارالیکن گلدار تو کیا اس کا سایہ تک دیکھنا نصیب نہ ہوا۔کئی روز یونہی بیکار کی مارا ماری میں کٹ گئے۔شہروں سے آئی شکار پارٹیاں  بھی اب رفتہ رفتہ ایک بوجھل پن اور بے دلی کا شکار ہونے لگیںجو پہلے یہ سمجھے بیٹھی تھیں کہ سرزمین گلیات میں ان کے نزول کا سنتے ہی گلدار لوگ برضا و رغبت اپنی جان حزیں ان کے قدموں میں نچھاور کردیں گے ۔ایسا تو خیر کیا ہوتا الٹا ان کی موجودگی کے دنوں میں وہاں ایک نوجوان اپنے کھیت کو پانی لگاتے ہوئے گلدار کے حملے کا نشانہ بن کر ہسپتال جاپہنچا۔خوش قسمتی یہ رہی کہ وہاں اس کا باپ اور بھائی بھی موجود تھے جنہیں آمادہ پیکار دیکھ کر گلدار نے پسپائی اختیار کرنا مناسب سمجھا تھا ورنہ گلدار کے مقتولین کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوچکا ہوتا ۔اس کے ساتھ ساتھ کئی دیہات میں مویشیوں کے باڑوں میں شب خون مارے جانے کی خبریں بھی سنسنی پھیلاتی رہیں۔وارداتوں کے اس تسلسل میں مقامی آبادیوں کی نورستہ ا میدیں بھی وقت کے ساتھ دم توڑنے لگیں۔شکاری پارٹیاں تھیں کہ نامراد اور ان کی اپنی کوششیں تھیں کہ بے حصول۔اور تو اور گلدار کے مخصوص راستوں پر درختوں سے بندھے وائلڈ لائف والوں کے جدید کیمرے بھی کور چشم ثابت ہورہے تھے۔رہے ٹریپ تو چالاک گلداروں نے ان میں بندھی چارے کی بکریوں کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا تھا۔بیچاری بکریاںخود ہی ممیا ممیا کر خاموش ہوچلی تھیں۔

آخر کئی روز کی مارا ماری کے بعد کہیں جاکر شکار پارٹیوں کو سرخروئی ملی۔ایک روز دن ڈھلے آدم کلاں کی عورتوں اور بچوں نے دیکھا کہ نتھیا گلی کے جنگل کی اور سے دس بارہ لوگوں پر مشتمل ایک شکار پارٹی بازو لہراتی اور نعرے لگاتی ہوئی گائوں کی جانب آرہی ہے۔انہوں نے دو تین شکاریوں کو کندھوں پر اٹھارکھا تھا۔وہ قریب پہنچے تو یہ دیکھ کر سب خوشی سے ناچ اٹھے کہ وہ اپنے ساتھ ایک مردہ گلدار کو بھی ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے لے کرآئے تھے۔ خوشی سے تمتمائے لوگوں نے گائوں کی دہلیز پر آکر انہیں خوش آمدید کہا ۔اگر انہیں پھولوں کے ہار میسر ہوتے تو ان سب کو کانوں تک سرخ پھولوں سے لاد دیا جاتا۔وہ آئے تو گائوں کے عین درمیان گلدار کے مردہ جسم کو نمائش کیلئے رکھ دیا گیا۔ضرور یہ وہی آدم خور شیطان تھا جس نے کئی دنوں سے ان سب کے خون خشک کررکھے تھے۔

شکاریوں اوروائلڈ لائف کے اہلکاروں نے لیپرڈ کی پیمائش کی ۔ایک اہلکار نے اس کا منہ کھول کر دانتوں کا معائنہ کیا اور وہاں جمع متجسس چہروں کو اس کے بارے میں ضروری معلومات سے آگاہ کیا۔گلدار نر تھا اور عام گلداروں سے کہیںبڑی جسامت کا تھا۔ شکاری لوگ تھکے ماندے تھے سو ان کیلئے وہیں کھلے میں چارپائیاں بچھادی گئیں جن پر براجمان ہوکر شکاریوں نے حاضرین کو مرچ مصالحے کے ساتھ شکار کی تفصیلات بیان کیں۔گلدار کی لاش کو پرخیال نظروں سے تکتے ہوئے ہر کوئی اس خیال سے خوش تھا کہ اب بے فکری کا دور پھر سے لوٹ آنے والا ہے۔

اس عظیم کامیابی پر وہاں ایک ہما ہمی کا عالم تھا۔کوئی بھاگا کہ ڈونگا گلی بازار سے جاکر مٹھائی لے آئے اور کسی کی صلاح پر کوئی ترنت روانہ ہوا کہ پورے علاقے میں اس خبر کو پھیلانے کا اہتمام کیا جائے۔ گائوں کی مسجد میں بھی اعلان کردیا گیا کہ علاقے کے لوگ اور ان کے مال مویشی اب خدا کے فضل و کرم سے بالکل محفوظ ہیں۔موذی ’’چیتے‘‘ کے روپ میں موجود شیطان کو اللہ کے نیک بندوں نے جہنم واصل کردیا ہے اور اب لوگ اپنے معمول کے مطابق اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہونے کیلئے پھر سے جنگل کا رخ کرسکتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں تک بھی یہ خبر پہنچ گئی اور ایک پکے مکان کی بیٹھک میںجمع لوگوں نے اپنے سامنے رکھے ٹی وی پر چینل بدل بدل کر بریکنگ نیوز میںآج کے کارنامے کا احوال سنا۔

اگلے روز محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے ایوبیہ کے پی ٹی ڈی سی موٹل میں شکار پارٹی کے اعزاز میںپرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ ابھی وہاں مبارک سلامت کا شور تھما نہیں تھا کہ نتھیا گلی سے ایک ہرکارہ دھول اڑاتا آیا۔اس نے خوشخبری سنائی کہ میران جانی پہاڑ کے دامن میں واقع بڑے گائوں نملی میرا میں بھی لوگوں نے ایک گھر میں گھس آنے والے ’’چیتے‘‘ کو گھیرے میں لے کر ہلاک کردیا ہے۔اطلاع کے مطابق یہ مادہ تھی جو ایک گھر میں داخل ہونے کیلئے کواڑوں کے ساتھ زور آزمائی کر رہی تھی کہ پہلے سے خبردار لوگوں نے موقع پر جمع ہوکر اسے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ایک ہی دن اور رات میں ایک نر اور ایک مادہ۔لوگوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر شکر کے کلمات ادا کیے ۔خطرہ یقینی طور پر ٹل چکا تھا ۔

اگلے روز دونوں مرحوم گلداروں کو پوسٹ مارٹم کیلئے ایبٹ آباد روانہ کردیا گیا تو وائلڈ لائف کے اہلکاروں اور شکاریوں نے بھی اجازت چاہی۔ادھر گلیات کے دیہات پر کئی دنوں سے تنی دہشت اور بیچارگی کی چادر اتری تو مردوں نے کلہاڑیاں تیز کیں اور عورتوں نے ایلومینیم کے گھڑوں کو دھو دھا کر چمکا دیا۔ان کا اپنا جنگل جو ان سے روٹھ چکا تھا اب پھر سے بانہیں کھولے ان کا منتظر تھا۔

(۵)

ایوبیہ نیشنل پارک کے اطلاعاتی مرکز میں سیاحوں کے ایک گروپ کے ساتھ مغز کھپائی کے بعد مقامی افسر نے ہوا میں گھلتی خنکی محسوس کی تو جھرجھری سی لیتے ہوئے چائے کیلئے کال بیل بجادی۔بہت دنوں کی بعد اس عظیم الشان پارک کی رونقیں واپس آنا شروع ہوگئیں ورنہ توکئی روز سے یہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ادھر عین اسی وقت ایبٹ آباد میں وائلڈ لائف کے ریجنل ہیڈ کوارٹرز میں بھی چائے پر خوش گپیاں چل رہی تھیں۔دفتر کی خوش خصال خاتون ڈائریکٹر نے کبھی ایک کبھی دوسرے بہانے سے اور آخرکواس موذی آدم خور کے دخل در معقولات کی وجہ سے مسلسل ملتوی ہوتے رہنے والے ہنی مون کو مناہی چکنے کیلئے لیپ ٹاپ پر طو یل چھٹی کی درخواست ٹائپ کی اور ای میل کرنے سے پہلے یونہی ایک ذرا بلائنڈز ہٹا کر باہر جھانکا۔باہر موسم بہت سہانا ہورہا تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے جہاں چمکیلی دھوپ تھی اب وہاں سہ پہرکے دراز ہوتے ہوئے سائے منظر میں سرمئی رنگ کا اسرار گھول رہے تھے۔ تبھی بادلوں کی ایک آوارہ ٹولی لہر میں آئی تو اس نے کھڑکی کے پار منظر کو نرم سجیلی پھوار میں بھگونا شروع کردیا۔جب فطرت بند قباء سے آزاد ہونے لگے تو باد شمال کیوں پیچھے رہے سو ایک مست جھونکا آیا اور کھڑکی کے قریب دیودار کے پتوں کو گدگداتا چلاگیا۔

وہ چائے کا مگ ہاتھ میں تھامے وہ آنے والے رنگین دنوں میں دور تک ڈوبتی چلی گئی۔تبھی موبائل فون کی کرخت آواز نے اسے لمحہ موجود میں لا پٹخا۔اس نے ایک جھنجھلاہٹ سے نمبر چیک کیا۔ایوب میڈیکل کمپلیکس کا ایک سرجن اس سے بات کرنے کیلئے بے قرار ہورہا تھا۔اس نے کال اٹینڈ کی تو معلوم ہوا کہ وہ کوئی ضروری بات کرنے کیلئے کچھ ہی دیر میں اس کے دفتر وارد ہونے والا تھا۔مجبوری تھی ملنا تو پڑے گا سو خاتون ڈائریکٹر نے دستی آئینے میں جھانکتے ہوئے اپنی لپ سٹک درست کی اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔کچھ ہی دیر میںسرجن اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کے سامنے کرسیوں پر براجمان تھا۔اس نے خاموشی سے ایک فائل اس کی جانب سرکائی۔خاتون نے فائل کھول کر دیکھی تو اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔اس نے ایک گہری سانس لے کر سر کرسی کی پشت پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ہنی مون ایک بار ملتوی ہونے والا تھا۔

ہسپتال کی سرکاری طور پر جاری کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دونوں شکار کیے جانے والے گلدارآدم خور نہیں تھے۔

’’گویا آدم خور ابھی تک زندہ ہے۔‘‘ اس نے خالی کاغذ پر یونہی ایک پھول سا بناتے ہوئے سوچا۔’’اور جب تک یہ کم بخت زندہ ہے چھٹی منظور ہونے کا کوئی چانس نہیں ۔‘‘

ابھی کچھ ہی دیر میں یہ منحوس خبر عام ہونے والی تھی جس کے بعد جان ہلکان کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ مقامی لوگ اور میڈیا حکومت پر چڑھ دوڑیں گے اور جواب میں سرکار محکمے کی گردن پر سوار ہوجائے گی۔جانے کون کون معطل ہوگا، کس کس کی ملازمت جائے گی۔ابھی پوری طرح سب کچھ نارمل نہیں ہوا تھا کہ اضطراب اور خوف کی ایک نئی لہر سب کو اپنی لپیٹ میں لینے آرہی تھی۔ وہی جلتے بلتے اخباری بیان ، وہی کانوں کے پردے چیرتی بریکنگ نیوز،وہی مظاہرے اور دھرنے۔ گلیات میں اب کے سیاحت کا کاروبار ٹھپ ہوا تو جانے کب بحال ہوپائے گا۔

’’ہمیں کچھ کرنا ہوگا سر جی! ورنہ بہت بڑی گڑبڑ ہوجائے گی۔‘‘اس نے ریسور اٹھا کر جانے کس کس سے التجا کی۔

’’کچھ کرنا توہوگا لیکن کیا؟‘‘۔بہت سے بزرجمہر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔

’’آدم خور زندہ ہے۔۔۔!‘‘۔ایک آواز ہ بلند ہوا اور وادی وادی اس کی بازگشت پھیل گئی۔

یہ آواز جہاں جہاں پہنچی وہاں اچانک ایک چھناکے کے ساتھ بہت کچھ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ جنگل کی گہرائیوں میںپانی بھرنے کو آئی

گاگریں چھلک گئیں اور خشک درختوں میں گڑی کلہاڑیوں کے پھل وہیں گڑے کے گڑے رہ گئے۔گلیات کی ہر گلی کے بازاروں، ریستورانوں، دکانوں اور گھروں میں لوگ ہونق پن سے ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔اور پھر ڈونگا گلی سے آئی خبر نے بدترین اندیشوں کی تصدیق کردی۔وہاںرات کے وقت ایک ’’ چیتے‘‘ کو آبادی میں گھومتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔خبر کے مطابق اس نے کسی گھر، کسی باڑے میں گھسنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ آیا اورگھوم پھر کر واپس چلاگیا ۔جیسے اسے کسی خاص چیز کی تلاش ہو۔خبر نگار نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بھی بتایا کہ وہ ’’چیتا‘‘ چلتے ہوئے ہلکے ہلکے لنگڑا رہا تھا۔

اس بار دھڑکتے دلوں کو جس بد خبری کا انتظار تھا وہ خانس پور سے آئی۔جنگل کنارے کے ایک گھر میںایک نوجوان لڑکی رات کے پہلے پہر شب گذاری کیلئے صحن میں چارپائیاں بچھا رہی تھی کہ بیرونی دیوار کے ساتھ اگے درخت میں چھپے ایک ’’چیتے‘‘ نے اس پر چھلانگ لگادی۔اس سے پہلے کہ’’چیتے‘‘ کو اپنا کام دکھانے کی مہلت ملتی دہشت زدہ لڑکی نے چیخ پکار شروع کردی۔گھر کے دوسرے لوگ قریب ہی موجود تھے۔افراتفری میں جس کے ہاتھ جو لگا اٹھا کر چیتے پر جھپٹا ۔لمحہ بھر میں مچنے والی چیخم دھاڑ کے باعث چیتے کو لڑکی کی گردن دبوچنے کا موقع نہ مل سکا اور وہ اسے زخمی کرکے چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا۔لڑکی کو چہرے اور گردن پر گہرے گھائو آئے تھے ۔خبر کے مطابق اس حادثے کے بعد اسے ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلیکس منتقل کردیا گیاتھا ۔

اور پھر چھانگلا گلی جہاں سولہ سترہ برس کا لڑکا محمد پرویز جدون خانس پور کی لڑکی جتنا خوش قسمت نہ ثابت ہوسکا۔پرویز جدون چھانگلا گلی کے قریب ہی دس بارہ گھروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گائوں کا رہنے والا تھا۔وہ ایک چرواہا تھا، ہنس مکھ اور بڑھ چڑھ کر دوسروں کے کام آنے والا۔چھٹ پنے سے ہی اس کا معمول تھا کہ صبح منہ اندھیرے بکریوں کے ریوڑ لے کر مشکپوری اور گرد و نواع کے سرسبز جنگلی قطعات کی طرف نکل جاتا اور شام ڈھلے لوٹا کرتا ۔وہ اپنی روح کی گہرائیوں تک ایک فطرت زادہ تھا۔اسے سکون ملتا بھی تو صرف جنگل اور سبزہ زاروں میں جہاں وہ مویشیوں کو چرنے کیلئے چھوڑ دیا کرتا اور خود درختوں اور پودوں سے ہم کلامی میں مشغول ہوجاتا۔خانس پور میں لڑکی پر ہونے والے حملے سے اگلے ہی روز کی بات ہے کہ وہ مویشیوں کے باڑے میں بکریوں کی حفاظت کیلئے سویا ہوا تھا کہ ’’چیتا’’ بند دروازے کو توڑتا اندر گھس آیا۔اس نے بکریوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور سیدھے چارپائی پر سوئے لڑکے پر جھپٹا مارا اور ترنت اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا۔

دہشت کا چکر چلا تو چلتا چلا گیا۔ابھی پرویز جدون کے قل بھی نہ ہوئے تھے کہ مشک پوری سے تھوڑا دور نیشنل پارک کی حدود میں ایک ایک اور بدنصیب لکڑیاں کاٹتے ہوئے آدم خور کی درندگی کا نشانہ بن گیا۔نسیم عباسی نام کا یہ نوجوان ڈونگا گلی کے ایک پرائمری سکول میں استاد تھا اور اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے چھٹی کے دن مری میں مزدوری کیا کرتا تھا۔ڈونگا گلی میں یہ آدم خور کا دوسرا شکار تھا اور کچھ انہی حالات میں لقمہ اجل بنا تھا جن میں ڈونگا گلی کی اولین شکار آدم خور کے خونی جبڑوں میں اپنی جان گنواچکی تھی۔

ان خبروں کے عام ہوتے ہی ایک افراتفری سی مچ گئی۔جو جہاں جہاں بھاگ سکتا تھا بھاگ اٹھا۔پورے گلیات میں موجود ہر قسم کی گاڑیوں کے انجن کسی ایک لمحے میں جاگے اور مری اور ایبٹ آباد جانے والی شاہراہوں پر بے پناہ اژدھام کے باعث گاڑیاں ایک دوسرے میں پھنس کر رہ گئیں۔ان میں بہت سے مقامی اور بہت سے وہ لوگ تھے جو درندوں کے مارے جانے کی خبر سن کر وہاں خوش وقتی کیلئے آئے تھے اور اب آدم خور کے زندہ ہونے کی خبر سن کر افراتفری میں جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔

جنگل اور انسانوں کے درمیان پھر مغائرت پیدا ہوچکی تھی۔اس بار جنگل ہی ویران نہ ہوا تھا گلیات کے گلی کوچے بھی انسانوں کے وجود سے خالی ہوگئے تھے۔صرف تین دن کے وقفے سے دو لاشوں اور ایک نازک حالت میں موجود زخمی کی موجودگی میںکاروبار حیات تمام ہوا اور لوگ بند دروازوں پر نظریں جمائے گھروں میں بند ہوگئے۔ادھر مشک پوری اور دیگر پہاڑوں پر آباد دیہات نے بھی دور تک بچھے راستوں کے جال کو سمیٹ لیا۔اب صورت یہ تھی کہ یہ گائوں ایک دوسرے سے کٹے ہوئے بے آباد جزیرے تھے اور چاروں اور سے دہشت کے سیاہ پانیوں کی لہریں ان کے اداس ساحلوں سے سر ٹکرارہی تھیں۔

اس نئی افتاد پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھے۔شروع مئی کی ایک کپکپاتی شام وہ اپنی لوئیوں اور چادروں کی بکل مارے دیر تک خود میں گم بیٹھے رہے۔کوئی کہتا بھی تو کیادنوں دن بیت گئے تھے کہ کسی کا روزگار بچا تھا نہ مزدوری کا آسرا رہا تھا۔یہاں پہلے ہی کرنے کو کیا تھا ۔سال بھر میں ایک گرمیوں میں سیزن لگنے کا آسرا تھا سو اب وہ بھی گیا۔جب سیاح نہیں ہوں گے ، سیزن نہیں لگے گا تو بھوک کا بھوت ان کا گلا دبائے گا۔ایک جنگل تھا جو خدا کے بعد ان کا پالن ہار تھاسو وہ بھی ان سے روٹھ گیا۔اب جنگل میں جانے کا مطلب اپنی جان کا سودا کرنا تھا۔اگر جنگل نہیں اور مری گلیات میں سیاحوں سے ہونے والی کمائی نہیں توبیکاری اور بے روزگاری سے کون انہیں بچائے گا؟۔

انہوں نے اپنے بس کا سب کردیکھا۔اب اور کہنے اور کرنے کو کیا رہا تھا؟۔اب لہجوں میں جوش اور عزم کی جگہ مایوسی اور تھکن کی شکستگی نے لے لی تھی۔کسی نے کہا اور دوسروں نے مانا کہ آدم خور کوئی عام جنگلی درندہ نہیں ہوسکتا۔اگر ہوتا تو اب تک مارا گیا ہوتا۔ضرور یہ کوئی چھلاوہ ہوگا یا بدروح ہوگی جو ان سے اپنے قتل ناحق کا انتقام لے رہی ہے۔بہت سے دماغوں میں یہ بات جم کر بیٹھ گئی۔ان میں سے بہت سوں کا دعویٰ تھاانہوں نے بچشم خود جنگل میں غیر مرئی مخلوق کو گھومتے پھرتے دیکھ رکھا ہے۔کچھ ایسے بھی تھے جنہیں چاندنی راتوں میں گلیات کے کئی دیہات میں اس قسم کی مخلوق گھومتی پھرتی دکھائی دی تھی۔اب جو سہمے ہوئے دماغوں میں بد روح کا تصور قائم ہوا تو پریشان حالوںکے تن بدن میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی اور کواڑوں پر جمی حنائی انگلیاں خوف سے سفید پڑگئیں۔

جب کسی مسئلے کا کوئی حل سجھائی نہ دے تو جبینیں پر اسراریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجاتی ہیں سو یہاں بھی مسجدوں اور مزاروں میں رونق دکھائی دینے لگی۔نیکو کاری اور خوفزدگی میں قریبی تعلق کا ایک ثبوت ہاتھوں میں جھولتی تسبیح اور چوکھٹوں پر لٹکے دافع بلیات کے تعویذ بھی تھے جو اب کثرت سے دکھائی دینے لگے تھے۔

کارِ سرکار اور دھرنے ورنے کا نتیجہ معلوم سو اب کیا کیا جائے؟۔کوئی عامل، کوئی پیر، کوئی فقیر؟ یا پھر خدا ہی کوئی فرشتہ بھیج دے جو انہیں اس بدروح کے انتقام سے نجات دلا سکے۔آدم خور کوئی ذی روح ہوتا تو کوئی اسے مارنے کرنے کی بات بھی کرتا۔کوئی انسان کسی بدروح کا مقابلہ کیسے کرے؟۔اور پھر بدروح والی بات جہاں سے چلی تھی وہیں سے ایک نجات دہندہ بھی سامنے آگیا۔یہ تھاپیر بادشاہ ۔۔۔ہمارا تمہارا پیر بادشاہ!۔

(۶)

آدم خور کے زندہ ہونے کے حوالے سے پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے سیاسی مضمرات کا سوچتے ہی حکومت لرز اٹھی تھی۔ایک آپا دھاپی کی سی کیفیت پیدا ہوئی تو محکمہ وائلڈ لائف نے اپنے ترکش کا سب سے مہلک تیر پیش کردیا۔یہ جمشید کمال عرف جم کاربٹ ثانی تھا، ایک بین الاقوامی شہرت کا مالک شکاری جس نے کبھی ناکامی کا منہ نہ دیکھا تھا۔وہی ایک شکاری تھا جو کامن لیپرڈ کی نفسیات کا گہرا ادراک رکھتا تھا۔اسے تلاش کرنا اور پاکستان آنے پر آمادہ کرنا ازبس ضروری تھا لیکن اس تک پہنچنا بھی کار دارد تھا۔شکاریات کی دنیا میں آوارہ گرد شکاری کے نام سے پہچانے جانے والے اس نادر روزگار کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔وہ آج کینیا میں ہے تو کل آسٹریلیا کے ویرانوں کی خاک چھانتاپایا جائے گا۔وہاں سے جی اوبھے گا تو یورپ کے کسی گمنام قصبے کی کسی نیم تاریک بار یا وسط ایشیا کی کسی قدیم سرائے میں بیٹھا اپنے من کے جنگل میں خود کو تلاش کرتا دکھائی دے گا۔ایسے مفقود الخبر سیلانی کا پتا ملے تو کیسے؟۔۔۔یہ سوال اٹھا تو اس کا جواب خود چل کر آگیا۔یہ ایبٹ آباد میں تعینات محکمہ جنگلات کا ڈپٹی فارسٹ آفیسر زلفی تھا جو ثانی کا لنگوٹیا تھا اور اس کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔ ثانی کو پاکستان لانے کی ذمہ داری ڈپٹی نے بخوشی اپنے کندھوں پر لی ۔جب اس کے قدیمی دوست لانگ ڈسٹینس کال پر اسے پرانی دوستی اور حالات کی سنگینی کا واسطہ دیا تو وہ اس کی بات نہ ٹال سکا۔

جب اس نے گلیات کے آدم خور کو مارنے کی حامی بھری تب اسے خوب اندازہ تھا کہ اس کا سامنا زندگی کی سب سے بڑی آزمائش

سے پالا پڑنے والا۔وہ نارمل قسم کے گلدار وں کے بارے میں تو بہت کچھ جانتا تھا لیکن کسی آدم خور گلدار کے بارے میں اس کا کل علم اپنے روحانی مرشد جم کاربٹ کی شکار کہانیوں تک محدود تھا۔لیکن ساتھ ہی اسے یہ احسا س بھی تھا کہ شاید یہ کہانیاں اس کیلئے بیکار ثابت ہوں کہ یہ انیسویں صدی کا ہندوستان تھا نہ وہ جم کاربٹ تھا۔اس نے ملکوں ملکوں جنگل پیمائی کی تھی لیکن اس بار شاید کوئی نیا چیلنج یا شاید کوئی ہولناک تجربہ اس کا منتظر تھا۔

کسی سچ مچ کے آدم خور گلدار کے ساتھ پنجہ لڑانا اس کیلئے نئی بات ضرور تھی تاہم برسہا برس سے وہ درندوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کر ان کے دانت گنتا آیا تھا لہٰذا خدشات کے باوجود اندر کہیںیہ اعتماد بھی موجود تھا کہ آخر کو بازی اسی کے ہاتھ لگے گی۔ایک فطری مہم جو ہونے کے ناطے وہ بے دھڑک خطرات میں کود جانے کا عادی تھا۔اس کے گواہ وہ گھائو تھے جو اس کے جسم پر جنگی تمغوں کی طرح سجے ہوئے تھے۔

وہ نتھیا گلی پہنچا تو محکمے نے مقامی لوگوں کے ایک وفد کی ساتھ اس کی رسمی ملاقات کا اہتمام کیا تھا تاکہ وہ صورتحال کو اچھی طرح سے سمجھ سکے۔یوںوہ اس وقت نتھیا گلی کے سرکاری ریسٹ ہائوس میں اپنی جدید شکاری رائفلوں سمیت موجود تھا۔ ریسٹ ہائوس کے سرسبز لان میں جمع جذبات سے گرمائے ہوئے ہجوم نے قدرے ناگواری سے دیکھا کہ وہ ان کی باتوں پر کوئی خاص تاثر ظاہر کیے بغیر ایک شان بے نیازی سے اپنی بارہ بور کی ڈبل بیرل پرنسس میں ’’پھلترو‘‘ پھیرے جارہا تھا۔

نتھیا گلی کے اس سرکاری ریسٹ ہائوس میں براجمان ہونے سے پہلے وہ اپنے طور پر گلیات کے مختلف علاقوں میں آدم خور کا شکار بننے والوں کے گھروں میں گیا تھا جن کے عزیز اس آدم خور کا شکا ر ہوئے تھے۔وہ ان سے مل کر واقعات کی تفصیل معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن عجیب بات تھی کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے سامنے زبان کھولنے پر آمادہ نہ ہوا تھا۔وہ اپنے ساتھ ہونے والے واردات کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر بھول جانے کے جتن میں تھے۔ ان کی چہرے سرد تھے اور آنکھوں میں خوف تھا۔وہ ان کا دکھ بانٹنا چاہتا تھا لیکن کوئی اس کے سامنے دل کھولنے پر آمادہ نہ تھا۔وہ ان کی مدد کرنے آیا تھالیکن کوئی اس سے مدد کا خواہاں نہیں تھا۔وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر ان جگہوں پر جانا چاہتا تھا جہاں گلدار نے ان کے نمکین خون سے اپنی پیاس بجھائی تھی لیکن کسی کے پاس اس کیلئے فرصت نہیں تھی۔ثانی کیلئے ان کے پاس صرف بے اعتنائی تھی اور وہ اس بے عتنائی کو سمجھنے سے قاصر تھا۔اس کے باوجود یہ بھی سچ تھا کہ جو کہانیاں وہ کہنا نہیں چاہ رہے تھے ان میں بھرے دکھ کی آنچ وہ صاف محسوس کرسکتا تھا۔ڈونگا گلی میں لکڑیاں چننے والی لڑکی ،چھانگلا گلی کا چرواہا اور پھر ڈونگا گلی کے پرائمری سکول کا استاد۔یہ سب جوانی کی دہلیز پر کھڑے تھے۔ابھی ان کے سامنے عمر بھر کا سفر پڑا تھا کہ بے رحم درندے نے انہیں صفحہ ہستی سے یوں غائب کردیا کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ ان بدنصیبوں کا جنازہ اٹھ پایا تھا نہ ان کا مزار بناتھا۔وہ زندہ تھے تو صرف اپنے روتے بلکتے عزیزوں کے دلوں میں۔درد بھرے دلوں میں بھی ان کے مزار کب تک باقی رہتے۔ ایک روزیہ ہونا تھا کہ وقت کے گلدار نے چپکے سے آناتھا اور یادوں میں بسے ان کے خواب وجودوں پر جھپٹا مار انہیں فراموشی کے پاتال میں لے جانا تھا۔

ثانی نے ڈونگا گلی کی پائپ لائن پر کھڑے ہوکر وادی کی گود میں پھیلتے دھندلکے کو دیکھا اور زلفی کو ساتھ لیے بے نیل و مرام ریسٹ ہائوس لوٹ آیا۔

اس روز جیسے سارا گلیات ریسٹ ہائوس میں امنڈ پڑا تھا۔لان میں بچھی کرسیاں کم پڑگئیں تو بہت سوں نے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے یا کھڑے ہونے پر ہی اکتفا کرلیا۔یہ وہ لوگ تھے جو بدروح کی افتراع سے متاثر تو تھے لیکن دل میں امید بھی لگائے بیٹھے تھے کہ ممکن ہے

حکومت یا نئے شکاری صاحب کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہو کہ وہ انہیں آدم خور کے دست ستم سے نجات دلاسکیں۔ان میں سے زیادہ تر لوگ متاثرہ دیہات سے آئے تھے اور اکثر آدم خور کا شکار بننے والوں کے رشتے دار تھے۔وہاںبیک وقت بہت سے لوگ بولے چلے جارہے تھے۔ہر کوئی خوفزدہ تھا اور ہر کوئی اپنی بات کہنے پر مصر تھا ۔وہ سب غیر متعلقہ باتیں کررہے تھے جن سے ثانی کو کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔ سو اس نے اپنے چہرے پر بے اعتنائی اوڑھ لی اور چپ چاپ رائفل کی نال سے پل تھرو گذارنے کی مشق کرنے میں مگن رہا۔

’’اگر فوری طور پر اس چیتے کو نہ مارا گیا تو ہم زمین آسمان ایک کردیں گے‘‘۔معتبرین میں سے ایک نے مکا لہراتے ہوئے کہا۔

’’اوں ہوں! چیتا نہیں لیپرڈ، کامن لیپرڈ‘‘۔ زلفی نے ترنت تصحیح کی۔

’’نہیں چیتا بلکہ چیتا بھی نہیں بدروح۔‘‘ جواب میں قطعی لہجے میں کہا گیا۔

’’ہاں ہاں، وہ بدروح ہے۔وہ صاف ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیاروں کو اٹھا لے جاتا ہے اور ہم کچھ نہیں کرپاتے۔‘‘

’’وہ بدروح ہے جبھی تو اس پر گولی اثر نہیں کرتی۔‘‘

’’اگر وہ بدروح نہیں تو چھلاوہ ضرور ہے۔وہ بجلی کی طرح کوندتا ہے اور اپنا کام کرکے غائب ہوجاتا ہے۔‘‘

’’نہیں چھلاوہ شلاوہ کچھ نہیں۔وہ بدروح ہے‘‘۔ایک آواز بلند ہوئی۔

’’یہ ہمارے گناہ اور ہماری بداعمالیاں ہیں جو اس بد روح کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہیں۔‘‘ ایک مولانا صاحب نے اپنے سر پر صافہ درست کرتے ہوئے کہا۔

’’بے شک۔۔۔بے شک۔‘‘ جواب میں بہت سی تائیدی آوازیں بلند ہوئی۔

ثانی نے کھٹاک سے رائفل بند کی اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔معاملہ اس سے زیادہ گھمبیر تھا جتنا بتانے والوں نے اسے بتایا تھا۔دہشت نے ان لوگوں میں مایوسی کو جنم دے دیا تھا اور مایوسی نے انہیں توہم پرستی کا راستہ دکھلا دیا تھا۔ثانی نے جی داری کے ساتھ حالات سے لڑنا سیکھا تھا لیکن ماہر نفسیات وہ بہرحال نہیں تھا کہ ان کے نفسیاتی مسائل کا مداوا کرسکتا۔  اس نے بے بسی سے نوجوان ڈپٹی فارسٹ آفیسر کی جانب دیکھا جو غائب دماغی اور الجھاوے کی کیفیات میں کھویا مونچھوں کو مروڑے جارہا تھا۔

ثانی کو دیکھتے ہوئے ڈپٹی نے کھنگار کا گلا صاف کیا اور لوگوں کی توہم پرستی کا رد کرنے کیلئے سائنس، فلسفے اور نفسیات کے ملغوبے پر مشتمل دلائل کا ایک انبار ان کے سامنے رکھ دیا لیکن واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ اس کی نہایت دانش ورانہ گفتگو کا حاصل اگر کچھ تھا تو لاحاصلی تھی۔کچھ لوگ تو اپنے دل کی بات صاف لفظوں میں کہہ رہے تھے لیکن کچھ مصلحت اندیش بھی تھے جو نظریں چراتے ہوئے گھما پھرا کر بات کررہے تھے۔ ہر دو قسم کے لوگوں کی آنکھوں میں واضح بے اعتمادی جھلک رہی تھی۔ثانی یہ محسوس کیے بغیر بھی نہ رہ سکا کہ ان میں کئی لوگ اس کی آمد سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔اگر واقعی ایسا تھا تو یہ سرکاری متعلقین اور خود ثانی کیلئے تشویش کی بات تھی۔ثانی کو جنگل میں داخل ہونے سے پہلے بہرصورت ان کے تعاون کی ضرورت تھی۔اور پھر اسے ان خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہنا تھا جن کے عزیز اس آدم خور کی بھوک کا شکار ہوئے تھے۔اسے ان عینی شاہدین سے معلومات بھی درکار تھیںجن کے سامنے یہ واقعات رونما ہوئے تھے۔اور تو اور اسے ایسے گائیڈ درکار تھے جو جنگل کے چپے چپے سے واقف ہوں۔اگر یہ لوگ بدروح کے چکر میں پڑے رہے تو اس کیلئے ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ چپ چاپ سامان باندھے اور واپسی کی راہ دیکھے۔لیکن یہ بھی طے تھا کہ ایک شرمناک پسپائی اس کی سرشت میں نہیں تھی۔

’’تو کیا کیا جائے۔۔۔!؟‘‘۔اس کا دماغ اندیشوں اور امکانات کے درمیان پھنس کر رہ گیا تھا۔

ثانی کے ساتھ بیٹھے سرکاری حکام بھی واقعات کے اس خطرناک موڑ کو افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔انہوں نے اپنے اگلوں کو رپورٹ دینا تھی۔وہ کسی طور پر اپنے کندھے جھٹک کر فارغ البال نہیں ہوسکتے تھے۔ اس طور انہوں نے بھی ہر ممکن زور لگا دیکھا ۔جب دیکھا کہ محض دل جیتنے کے حربے مقامی عمائدین پر کارگر نہیں ہورہے تو ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیاں تک دے ڈالیں۔اس پر کچھ مصلحت شناس لوگوں کی زبانوں نے پلٹا کھایا، لہجے نرم ہوئے لیکن آنکھیں الفاظ کا ساتھ دینے سے انکاری رہیں ۔ آخر انہوں نے کچھ نیم دلانہ اور مبہم سے وعدے کیے اور اجازت چاہ کرجانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔جب وہ ملاقات کے کمرے سے نکل رہے تھے تو ان میں سے دو تین لوگ پلٹ آئے اور راز داری کے انداز میں ثانی کو ایک جانب لے گئے۔ان میں سے ایک نے ثانی کی نظرمیں نظر جمائی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’ثانی صاحب!ماشاء اللہ سے آپ کے بچے تو ہوں گے۔انہیں آپ کی ضرورت بھی ہو گی۔‘‘

’’مطلب؟۔‘‘ثانی نے الجھن سے کہا۔

’’بہتر ہے کہ آپ اس کام میں نہ پڑو۔‘‘

’’ورنہ۔۔۔؟؟؟‘‘۔ثانی کے ماتھے پر ایک شکن گہری ہوگئی۔

’’صاحب! برا نہ منائیں،آپ یقینا بہت جی دار شکار ی ہوںگے لیکن وہ کوئی جنگلی جانور نہیں بدروح ہے۔آپ اس کا مقابلہ نہیں کرسکو گے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کو بدروح کے غضب کا سامنا کرنا پڑجائے۔‘‘ اس نے ثانی کی خفگی کو برطرف کرتے میٹر آف فیکٹ لہجے میں کہا۔

’’اور اگر آپ نے بدروح کو مشتعل کردیا تو اس کی قیمت ہمیں بھی چکانا پڑے گی۔اپنی جانوں کی صورت میں۔‘‘ایک اور شخص نے بات آگے بڑھائی۔

’’صاحب! ہم مہمان نواز لوگ ہیں ۔آپ کی خاطر مدارت ہمارا فرض ہے لیکن بہتر ہے کہ شکار وکار کو بھول جائیں۔‘‘تیسرے شخص نے دھیرے سے کہا۔

’’ویسے بھی آپ جس کام کیلئے آئے ہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ہم نے ایک اللہ والے سے رابطہ کرلیا ہے۔وہی ہمیں اس موذی سے نجاتے دلائے گا‘‘دوسرے والے کے لہجے میں اس کیلئے واضح انتباہ تھا۔

’’صاحب! ہم چلتے ہیں۔ویسے ہم نے جو بھی کہا نیک نیتی سے کہا۔آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔‘‘پہلے شخص نے جانے وقت مڑتے ہوئے کہا اور اپنے قدم بڑھادئیے۔

ثانی انہیں روکتا رہ گیا لیکن وہ سنی ان سنی کرکے باہر جاچکے تھے۔

وہ رات کے کھانے سے فارغ ہوکروہ زلفی کے ہمراہ ریسٹ ہائوس کے برآمدے میں بیٹھا گرم قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا۔وہ دونوں دیر تک صورتحال کی گھمبیرتا پر غور کرتے رہے۔آخر یہی طے پایا کہ ان لوگوں کی باتوں کو وقعت دینے کی بجائے وہی کیا جائے جو انہیں کرنا چاہیے۔زلفی نے قہوے کی آخری چسکی لے کر اس کا کندھا تھپتھپایا اور صبح واپس آنے کا کہہ کر رخصت ہوگیا۔ زلفی چلا گیا اور وہ اپنے خیالوں میں کھویا وہیں بیٹھادور تک پھیلی ستاروں کی نرم سجیلی لوسے لطف اندوز ہوتا رہا۔نتھیا گلی کے بلند پہاڑوں کو چھو کر آنے والی خنک ہوا جنگل کی مخصوص خوشبو سے بوجھل تھی۔رات کے وقت جنگل کی یہ مہکار اس مہکار سے مختلف تھی جو دن بھر جنگل کے مساموں سے پھوٹا کرتی ہے۔وہ دنیا بھر میں جنگل جنگل گھوما تھا لیکن اس کے سامنے چرخ نیلی فام سے محوکلام پہاڑوں اور سرمئی وادیوں میں دور فاصلوں تک پھیلے نیلگوں جنگل کی خوشبو میں کچھ الگ سی مدھرتا تھی ۔اگلے روز اسے اس مدھر جنگل کی پر اسرار گہرائیوں میں اترنا تھا جہاں اسے نا صرف ایک آدم خور درندے سے دو دو ہاتھ کرنا تھے بلکہ لوگوں کی توہم پرستی کا مقابلہ بھی کرنا تھا۔آج یہ طے ہوگیا تھا کہ اس کٹھن چیلنج کے دوران اسے مقامی لوگوں کا تعاون ملنے کی توقع سے ہاتھ کھینچنا ہوں گے۔اچانک اس کے خیالات کا تانا بانا ٹوٹ گیا۔دروازے پر ریسٹ ہائوس کا چوکیدار ایک اجنبی نوجوان کے ساتھ اندر داخل ہورہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس مضبوط ہڈ کاٹھ والے جوان آدمی کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھیں ۔

’’صاب! یہ نور محمد ہے ، نور محمد عباسی ۔میرا گرائیں ہے اورڈونگا گلی سے سیدھا آپ سے ملنے آیا ہے ۔اس کے پاس ایک خبر ہے۔‘‘چوکیدار نے قریب آکر اس شخص کا تعارف کرایا۔

’’بولو نوجوان!کیا بات ہے؟‘‘ ثانی نے قہوہ کی پیالی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔اسے نووارد کے الجھے ہوئے بالوں اور آنکھوں سے ٹپکتی وحشت سے خبر کی نوعیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔

ثانی نے قریب آنے پر گہری نظروں سے اسے دیکھا۔اس کی عمر پچیس سے تیس برس برس کے درمیان رہی ہوگی لیکن اس کے چہرے

پر چھائی سنجیدگی نے اس کی عمر میں اضافہ کردیا تھا ۔ قد اس کا چھ فٹ سے نکلتا ہوا تھا جبکہ کاٹھی مضبوط اور چہرے پر برسوں کی مشقت سے پیدا ہونے والی سختی تھی۔دیکھنے میں وہ کچھ پڑھا لکھا بھی دکھائی دے رہا تھا۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر اس کے قریب زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ایک پختہ عمری کو چھوتے ہوئے مضبوط شخص کو اس طرح بکھرے ہوئے دیکھنا خاصا تکلیف دہ تھا۔ثانی نے اسے اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کو کہا لیکن اس نے ہاتھ بلند کرکے انکار کردیا۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن ہونٹ چبا کر رہ گیا۔اس کی آنکھوں میں پانی جھلملارہا تھا جسے بہنے سے روکنے کیلئے وہ پلکیں جھپکا رہا تھا۔ثانی کے اشارے پر چوکیدار فوراً ہی پانی کا گلاس لے کر آگیا جو اس نے ایک ہی سانس میں خالی کردیا۔

’’اب بتائو کیا ماجراہے؟‘‘۔ ثانی نے اس کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

نور محمد کسی حد تک خود پر قابو پاچکا تھا۔ اس نے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں بتایا کہ وہ خاص ڈونگا گلی سے آیا ہے۔چند گھنٹے پہلے شام کے وقت اس کی منکوحہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں چننے گئی تو اچانک آدم خور نے اس پر حملہ کردیا اور آناً فاناً اسے لے کر غائب ہوگیا۔ثانی کے ہمدردانہ روئیے پر اس کا اعتماد بحال ہوا تو اس نے لڑکھڑائے لہجے میں بتایا کہ اس کی منکوحہ گلابے جس کی رخصتی چند روز بعد طے پائی تھی اپنی بہن سفیدہ بیگم کے ساتھ جنگل میں گئی تھی۔دونوں کسی ممکنہ حادثے کے خوف سے جنگل میں جانے سے ڈر رہی تھیں لیکن مجبوری تھی کہ گھر میں جلانے کی لکڑی ختم ہوچکی تھی۔لکڑیاں کاٹتے ہوئے انہیں شام ہوگئی تو وہ جلدی سے واپس ہوئیں لیکن تب تک بلا ان کے سر پر پہنچ چکی تھی۔یہ بتاتے ہوئے اچانک نوجوان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آواز اس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئی۔چوکیدار نے اسے پانی پلایا تواس نے سنبھالا لیا اور ایک عزم کے ساتھ  اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا۔اس کے اندر آتش فشاں کھول رہا تھا اور لاوے کو بہہ نکلنے سے روکنے کی کوشش میں اس کی آنکھوںمیں لہو کے ڈورے نمایاں ہورہے تھے۔

’’صاحب! ابھی میرے ساتھ چلو ہم اس بلا کو ماریں گے۔اب یا وہ بلا زندہ رہے گی یا میں۔۔۔اس نے میری محبت کا خون کیا ہے میں اسے اپنے ہاتھوں سے ماروںگا۔‘‘

’’لیکن نور محمد ! علاقے کے لوگ تو چاہتے ہی نہیں کہ میں لیپرڈ میرا مطلب چیتے کے پیچھے جائوں۔ان کا خیال ہے کہ وہ کوئی بدروح ہے جس کا مقابلہ کوئی عامل ہی کرسکتا تھا۔‘‘

’’سب بکواس ہے اور اس بدبخت پیر بادشاہ کی کا رستانی ہے۔سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف بنانا اس کا پیشہ ہے صاب!لیکن میں کسی جھانسے میں نہیں آسکتا۔ میں نے پندرہ سال لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ڈرائیوری کی ہے۔بہت عامل بابے اور بہت بدروحیں دیکھی ہیں میں نے۔سب فراڈئیے، کوئی سیر تو کوئی سوا سیر۔بس آپ میرے ساتھ چلو ۔ہم دونوں مل کر اس شیطان کو ماریں گے۔‘‘اس نے جذبات کی شدت میں ثانی کا بازو پکڑ لیا اور اسے کھینچنے لگا۔

ثانی کو کچھ نہ سوجھا کہ اسے کیا جواب دے۔رات کے وقت بغیر تیاری کے اٹھ کر چل پڑنا وہ بھی ایک اجنبی کے ساتھ نامناسب بھی تھا خطرناک بھی۔اس نے دھیرے سے اپنا بازو چھڑایا اور بہت مشکلوں سے اسے سمجھانے میں کامیاب ہوا کہ رات کی تاریکی میں جنگل میں جانا مناسب نہیں۔صبح ہوتے ہی وہ ضرور وہاں پہنچ جائے گا۔اس نے ڈرائیور کو بلا کر کہا کہ نوجوان کو بحفاظت اس کے گھر تک پہنچا آئے۔یہ سن کر ڈرائیور کی آنکھوں میں بھی خوف کا سایہ لہراگیا۔

’’لیکن صاحب!اس وقت ہم کیسے جائے گا ڈونگا گلی جانے والی روڈ ویران ہوگی۔‘‘

‘‘تو۔۔۔!؟‘‘۔

’’رات کے وقت وہاں بدروح کا راج ہوتا ہے صاحب!اورگھر میں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘

’’بکواس ہے یہ۔کوئی بدروح شدروح نہیں۔۔۔اور پھرکیا تم اپنے گرائیں کیلئے خطرہ مول نہیں لے سکتے؟‘‘

ثانی نے ڈرائیور کو آنکھیں دکھائیں تو وہ منہ بسورتے ہوئے اس کے ساتھ چل دیا۔

’’اور ہاں ! نور محمد سے اس کے گھر کا اتا پتا بھی اچھی طرح سمجھ لینا اور رابطے کیلئے میرا نام اسے دے کر اس کا نمبر یاد سے لے لینا۔ہم کل صبح ہی اس کے پاس پہنچ جائیں گے۔‘‘ ثانی نے جاتے ہوئے ڈرائیور کو تاکید کی۔

الجھائو سے بوجھل رات گذارنے کے بعد وہ اگلے ہی روز وہ صبح سویرے ڈونگا گلی پہنچ چکا تھا۔سرکاری طور پر اسے مطلع کردیا گیا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کیلئے جس قسم کی سیکورٹی چاہتا ہے فراہم کردی جائے گی لیکن ثانی نے ایسی کسی بھی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔یوں بھی اس کام میں ہاتھ ڈالتے وقت اس نے شرط عائد کردی تھی کہ وہ اپنے انداز میں اور بغیر کسی مداخلت کے کام کرے گا۔صرف شکار کا شوقین ڈپٹی فارسٹ آفیسر اس کے ہمراہ تھا وہ بھی اس لیے کہ وہ گلیات کے جنگل کو سب سے بہتر سمجھتا تھا۔ڈی ایف او زلفی اچھی بھی خاصی ایڈونچرس روح تھا اور ایڈونچر کے اس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے دینے کے موڈ میں نہیں تھا ۔ وہ رات ہی اپنی شاٹ گن سمیت ریسٹ ہائوس پہنچ گیا تھا اور اب اس کے ساتھ ڈونگا گلی میں موجود تھا۔رات سونے سے پہلے ثانی نے ڈپٹی کو نور محمد عباسی کے کیس سے آگاہ کیا تھا اور بتایا کہ وہ اس کی منکوحہ گلابے کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے ڈونگا گلی کے جنگل سے اپنے کام کا آغاز کریں گے۔ڈپٹی نے اس کے منصوبے سے اتفاق کرتے ہوئے اسی وقت موبائل پر ڈونگا گلی میں کسی سے رابطہ کیا اور اس سے اگلی صبح ملاقات طے کی کرلی تھی۔ڈپٹی نے اسے بتایا کہ لائن کی دوسری جانب علاقے کا سب سے بااثر آدمی حاجی نثار عباسی تھا جس کا تعاون حاصل ہوجائے تو ان کیلئے بہت سی آسانیاں پیدا ہوسکتی تھیں۔

نتھیا گلی روڈ سے ڈونگا گلی میں داخل ہونے تک ڈپٹی اسے حاجی کے بارے میں بریف کرتا رہا تھا۔ڈپٹی نے اس کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بھی بتائیں جو حاجی کی شخصیت کے عجائب اور تضادات کو اجاگر کرتی تھیں۔

’’حاجی سے بات کرتے ہوئے تمہیں کئی بار جھنجھلانا اور کئی بار مسکرانا پڑے گا لیکن کوشش کرنا اپنے اندر کی کیفیات کو الفاظ یا چہرے کے تاثرات سے ظاہر نہ ہونے دو۔بس تم یہی ظاہر کرتے رہنا کہ تم اس کی شخصیت اور اس کی مفروضہ ذہانت سے از حد متاثر ہورہے ہو۔‘‘ڈپٹی نے مشکپوری پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد دلفریب نظاروں کی دنیاڈونگا گلی بازار میں داخل ہونے کے بعد شمال مشرق کی جانب گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے اسے انتباہ کیا۔

’’لیکن ہمارا اس سے ملنا کیوں ضروری ہے۔کیا اس طرح ہمارے اصل کام کا حرج نہیں ہوگا؟‘‘ثانی نے احتجاج کیا۔’’اور پھر میں تمہیں صاف بتادوں کہ میں بہت ہی برا اداکار ہوں۔ میرے اندر کسی فضول شخصیت کو برداشت کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت نہیں ہے۔‘‘

’’ جانتا ہوں لیکن یہ کڑوا گھونٹ تو بھرناہی ہوگا۔‘‘

اچانک ثانی کے موبائل کی سکرین روشن ہوگئی۔اس نے چیک کیا تو نور محمد عباسی کا نمبر تھا۔ثانی نے کال اٹینڈ کی اور نور محمد کو بتایا کہ وہ ڈونگا گلی میں ہی ہیں اور کسی سے ملنے جارہے ہیں تھوڑی دیر کیلئے۔ وہاں سے واپسی پر اس سے رابطہ کریں گے۔

’’لیکن سوال تو وہی ہے کہ جس گائوں نہیں جانا اس کا راستہ کیوں پوچھا جائے؟‘‘۔ثانی نے گریز کی کوئی صورت تلاش کرنے کی کوشش کی۔

’’مجبوری ہے، اس وقت یہاں کے لوگ ایک عجیب قسم کی کنفیوژن کا شکار ہیں جو ہمارے مشن کو مشن امپوسبل بناسکتی ہے۔ایسے میں صرف حاجی ہی ہمارے کام آسکتا ہے۔بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ ایک چھوٹا موٹا سا ان داتا ہے۔بہت سے لوگ اس کے احسانات تلے دبے ہوئے ہیں۔ایسے میںکوئی اس کی بات کو رد نہیں کرسکتا۔‘‘ڈپٹی نے مین روڈ کو چھوڑتے ہوئے جیپ کو ایک ذیلی سڑک پر ڈال دیا۔یہ سڑک ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بل کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔پہاڑی زیادہ تر اخروٹ،خوبانی، سیب اور آڑو جیسے پھلدار پودوں سے ڈھکی ہوئی تھی جن کے درمیان چیڑ ،بلیو پائن اور دیودار جیسے جناتی درخت بھی کثرت سے موجود تھے۔سب درخت ایک خاص ترتیب میں لگے ہوئے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں ایک پلاننگ کے تحت وہاں اگایا گیا ہے۔

’’وہ رہا حاجی کا غریب خانہ‘‘۔اس نے پہاڑی کی کوہان پر بنے ایک محل نما گھر کی طرف اشارہ کیا۔

’’غریب خانہ؟‘‘ ثانی اس پرشکوہ مکان کو دیکھتے ہوئے تعجب سے مسکرایا۔

’’کم از کم نیم پلیٹ کی حد تک تو ہے۔‘‘

انہوں نے گھر سے کچھ دور بنی سیکورٹی چیک پوسٹ پر اپنی شناخت کرائی ۔مودب سیکورٹی گارڈ نے تصدیق کے بعد بیرئر ہٹادیا ۔ڈپٹی نے جیپ گیئر میںڈالنے سے پہلے ثانی کو بتانا ضروری سمجھا کہ جس پستہ قد پہاڑی پر حاجی کا گھر بنا ہوا ہے وہ کلہم حاجی کی ذاتی ملکیت ہے۔ثانی کیلئے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔اس نے یورپ اور آسٹریلیا میں کئی ایسے رئیس دیکھے تھے جو پورے کے پورے جزیرے یا پہاڑیاں خرید کر اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرنے کے عادی تھے۔مقصد ان سب کا لوٹ مار کرکے جمع کیے گئے کالے دھن کو سفید کرنا اور پھر اس دھن کی دھنا دھن نمائش کرنا ہوتا ہے ۔ڈپٹی کی فراہم کردہ معلومات پر اس نے کسی خاص تاثر کا اظہار نہ کیا۔

اب وہ اس گھر کے ڈرائیو وے میں داخل ہورہے تھے۔ یہ وسیع و عریض اور عالیشان مکان پرانی حویلیوں کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا ۔ثانی نے دیکھا کہ ایک غیر معمولی طور پر لحیم شحیم آدمی داخلی دروازے کے باہر کھڑا ان کا منتظر تھا۔یہ گلیات کی ہوٹل مالکان اور پلازوں کے کرایوں پر زندہ مختصر سی اشرافیہ کا نمائندہ حاجی نثار عباسی تھا۔ثانی پہلی نظر میں اس سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔یقینا وہ ایک بارعب شخصیت کا مالک تھا۔پندرہ بیس بندوں کے ہجوم میں گھرا ہو تب بھی سب سے الگ دکھائی دے۔

حاجی انہیں دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھا۔

’’آئیے، آئیے ، تشریف لائیے ڈپٹی فارسٹ آفیسر صاحب۔‘‘

ثانی کو پہلا جھٹکا اس کی آواز سن کر لگا۔ایک پختہ عمر کا لحیم شحیم آدمی چھ آٹھ سال کے بچے کی آواز میں بول رہا تھا۔صرف آواز ہی نہیں اس کا دکھاوے بھرا لہجہ بھی سننے والے میں بیزاری کے تاثرات جگاتا تھا۔ایک ہی لمحے میںاس کی شخصیت کا سارا طلسم ایک چھناکے سے ٹوٹ کر بکھر گیا۔ڈپٹی نے ثانی کی طرف دیکھا اور معنی خیز انداز میں مسکرایا۔حاجی کے اشارے پر اس کا ایک باوردی خادم گاڑی پر جھپٹا اور دونوں جانب کے دروازے کھول دئیے۔وہ دونوں گاڑی سے باہر آئے تو حاجی نے تالی بجاتے ہوئے بچگانہ انداز میں اظہار مسرت کیا اور پھر آگے بڑھ کر انہیں باری باری سینے سے لگایا۔ڈپٹی نے ثانی کا تعارف کرایا تو حاجی کی باچھیں کچھ اور پھیل گئیں۔اب ثانی زبردستی کے معانقے کی زد میں تھا۔معانقوں کا سلسلہ ختم ہوا تو حاجی نے انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔

وہ اس کے پیچھے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو نشست سنبھالنے تک حاجی کے اظہار مسرت کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران اس نے گن کوئی پانچ سات مرتبہ ’’زہے نصیب‘‘کے الفاظ کا ٹانکا لگایا تھا۔ثا نی کیلئے یہ بات تعجب انگیز تھی کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے مل کر اس قدر خوش ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کا آپس میں کوئی خاص تعلق واسطہ بھی نہ ہو۔وہ سمجھ گیا کہ حاجی خطرناک حد تک خوش اخلاق ہے جس سے ایک محتاط فاصلے پر رہنے میں ہی بہتری ہے۔

حاجی کا ڈرائنگ روم جنوبی ایشیا کے مخصوص نودولتیا چھچھورے پن کا شہکار تھا۔اس نے دنیا بھر سے جانے کیا الم غلم لاکریہاں ڈمپ کردیا تھا۔یہ ڈرائنگ روم کم اور جعلی نوادرات کا شو روم زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔اس قسم کے شو روم اس نے پرانے دمشق کے بازاروں کی تنگ  اور پیچیدہ گلیوں میں دیکھ رکھے تھے۔ڈپٹی معنی خیز نظروں سے ثانی کی طرف دیکھتے ہوئے حاجی کے اوصاف بیان کررہا تھا۔وہ بتا رہا تھا کہ حاجی نثار عباسی اس پورے علاقے کا بادشاہ گر ہے۔علاقے کے جتنے نمایاں دکھائی دینے والے لوگ تھے حاجی کی شان سرپرستی کے مرہون منت تھے۔گذ شتہ دھرنوں کا ماسٹر مائنڈ بھی حاجی نثار عباسی ہی تھا۔اثر و رسوخ کا یہ عالم کہ جنگل میں کوئی دیودار سانس لیتا ہے یا کوئی پرندہ چہچہاتا ہے تواحتیاطاً حاجی صاحب کی مرضی معلوم کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ وہ یہ بھی بتارہا تھا کہ مری سے خیرہ گلی تک ہر ہل اسٹیشن پر حاجی کے عالیشان ہوٹل اور رہائشی پلازے ہیں اور یہ کہ جنگل میں کٹنے والے ہر درخت میں حاجی کا حصہ مقرر ہوتا ہے لیکن مجال ہے کہ حاجی صاحب میں غرور نام کی کوئی چیز موجود ہو۔

’’کیوں حاجی صاحب! میں نے غلط تو نہیں کہا۔‘‘ ڈپٹی نے پلٹ کر اس سے پوچھا تو اس کے لہجے میں طنز کی ہلکی سی آمیزش تھی جسے حاجی کے اندر کا بچہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

جواب میں حاجی نے بچے کی طرح کلکارتے ہوئے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا۔

ثانی کیلئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت سا تھا لیکن وہ مارے بندھے بیٹھا ہوا تھا اور حقیقت میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ڈپٹی جیسا معقول آدمی کیوں اس کی اتنی چاپلوسی کررہا ہے۔اسے یہ بھی الجھن تھی کہ نور محمد عباسی ان کا انتظار کررہا ہوگا۔دن بھی خاصا چڑھ آیا تھا۔مزید وقت برباد کرنا لاحاصل تھا۔ادھر ڈپٹی تھا کہ حاجی کو کلکاریاں مارنے کا ہر موقع فراہم کرنے پر تلا ہوا تھا۔

ثانی کے موبائل کی سکرین دوبارہ روشن ہوئی۔دوسری طرف نور محمد تھا۔اس وقت بات کرنا مناسب نہ جانتے ہوئے ثانی نے کال ریجیکٹ کرکے موبائل بند کردیا۔

باتیں باتیں اور باتیں۔

اکتادینے والی بیکار باتوں کا ڈھیر بڑھتا جارہا تھا۔تبھی ثانی نے موقع پاکر گلیات کے آدم خور کا تذکرہ چھیڑ دیا اور یہ بھی بتایا کہ سرکاری طور پر اسے اس آدم خور کو مارنے کا کام سونپا گیا ہے۔حاجی نے چونک کر اسے دیکھا۔اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور بردباری سی چھاگئی جو اس کی شخصیت سے قطعی میل نہیں کھارہی تھی۔ڈپٹی نے بھی کیو لیتے ہوئے بات آگے بڑھائی اور اس آدم خور کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خوف اور مزید انسانی جانوں کے اتلاف کا خدشہ ظاہر کیا اور اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر کوششیں کرنے کی بات کی۔خلاف توقع حاجی کی فراخ پیشانی پر ایک شکن ابھری اور اس نے سرسری سی ہوں ہاں کے بعد بات کا رخ موڑ دیا۔اس نے اچانک کسی یورپی ملک میں پیش آنے والی کوئی واردات بمع فضول جزویات کے ان کے گوش گذار کرنا شروع کردی۔ڈپٹی اور ثانی نے الجھی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور حاجی کی بے معنی باتوں میں زبردستی کی دلچسپی لینے لگے۔اسی حیض بیض میں باوردی ملازم نے اطلاع دی کہ ناشتہ لگ گیا۔ثانی نے کہنا چاہا کہ وہ ریسٹ ہائوس سے ناشتہ کرکے چلے تھے لیکن ڈپٹی نے آنکھ ٹکاتے ہوئے اسے چپ رہنے کا کہہ دیا۔ثانی نے گہری سانس لی۔یہاں جو کچھ ہورہا تھا اس کی توقع کے خلاف ہورہا تھا۔

ڈائننگ روم میں بھی دولت کی نمائش کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ایک وسیع و عریض ڈائننگ ٹیبل پرہلکے پھلکے ناشتے کے نام پر جانے کس کس نسل کے کھانے چن دئیے گئے تھے۔یہاں بھی ڈپٹی کی چاپلوسیوںاور حاجی کی جوابی بچگانہ کلکاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ناشتے پر دونوں نے پھر کوشش کی کہ باتوں کا رخ آدم خور کی جانب مڑ جائے لیکن اس بار بھی حاجی نے جھکائی دے کر وار خالی جانے دیا۔ثانی کیلئے یہ ازحد مایوس کن تھا۔اس نے میز کے نیچے سے ڈپٹی کا پائوں دبایا اور اسے اٹھ چلنے کا اشارہ کیا لیکن لگتا تھا کہ ڈپٹی پر بھی حاجی کی صحبت اثر انداز ہونا شروع ہوگئی ہے۔اس نے جواباً زیادہ زور سے ثانی کا پائوں دباتے ہوئے اسے کچھ کہنے کی کوشش کی جسے وہ نہ سمجھ پایا۔بددل سا ہوکرثانی نے خود کو اس صورتحال سے الگ رکھنے کا فیصلہ کرلیا ۔اس نے ایک سلائس پر ذرا سا مارجرین لگایا اور چائے کے ساتھ کترنے لگا۔حاجی کی جانب سے اسے اپنی بچگانہ گفتگو میں زبردستی انوالو وکیے جانے پر وہ یونہی ہوں ہاں کردیتا اور پھر اپنے سلائس کے ساتھ مصروف ہوجاتا ہے۔ایک موقع آیا جب حاجی مسرت سے بے قابو سا ہوگیا۔تب ڈپٹی نے دھیرے سے بات کا رخ اس کے نجی چڑیا گھر کی طرف موڑ دیا۔وہ ثانی سے مخاطب ہوکر اسے بتانے لگا کہ حاجی صاحب نے اپنے ذاتی چڑیا گھر میں کس کس ذات کے جانور جمع کررکھے ہیں۔

’’ذرا ہمیں بھی تو اپنے چڑیا گھر کے درشن کرادیجئے۔شکاری بچہ جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوجائے گا۔‘‘ ڈپٹی نے ثانی کی طرف دیکھ کر خوشامد میں لتھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔

اچانک حاجی کے چہرے پرپریشانی کے آثار ابھرے۔لگا وہ کسی کشمکش کا شکار ہوگیا ہے لیکن اگلے ہی لمحے اس نے کچھ سوچ کر آمادگی ظاہر کردی۔ثانی کو پنجروں میں بند جانور دیکھنے سے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی اور پھر دن بھی کھوٹا ہوا جارہا تھا۔ادھر ڈپٹی تھا کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی جانے کس چکر میں بچے کے ساتھ مل کر بچہ بنا ہوا تھا۔ثانی نے دیکھا کہ ڈپٹی کے لہجے میں پہلا سا جوش باقی نہیں رہا تھا لیکن پھر بھی وہ چڑیا گھر دیکھنے کی ایکسائٹمنٹ میں مبتلا تھا۔حاجی کے پیچھے پیچھے اس کے محل نما گھر کے پچھواڑے کی طرف جاتے ہوئے ڈپٹی نے گرم جوشی سے ثانی کا ہاتھ دباتے ہوئے اسے بھی اپنی ایکسائٹمنٹ میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن ثانی نے بے رخی سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔

حاجی کا چڑیا گھرپہاڑی کے عقبی دامن میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔جانوروں کے پنجرے ایک خاص ترتیب سے نصب کیے گئے تھے۔شروع کے حصے میں رنگ برنگ پرندوں کے پنجرے تھے۔ان کے قریب ہی ایک تالاب تھا جہاں سارس، کونجیں اور دیگر پانیوں کے متوالے پرندے تیراکی یا چہل قدمی میںمشغول تھے۔ان کے سامنے کے رخ چھوٹے جانوروں کے پرندے تھے۔تھوڑا آگے چل کر خالی قطعات تھے جنہیں بلند آہنی جالیوں کی مددسے ایک دوسرے سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ان قطعات کی کھلی فضا میں ہرن کی نسل کے کئی جانور، ریچھ، مار خور، زیبرے اور کئی دیگر جانور موجود تھے۔

حاجی نثار عباسی اصیل مرغے کی طرح گردن تانے آگے چلتے ہوئے انہیں ایک ایک جانور سے متعارف کرارہا تھا۔چلتے ہوئے شیر کی دھاڑ نے ان کا استقبال کیا۔

’’آگئے بھئی آگئے، پریشان کیوں ہوتے ہو؟‘‘۔حاجی نے خوش مزاجی سے دھاڑنے والے شیر کو اپنی آمد کی خوشخبری سنائی۔

وہ ایک چٹان کے پہلو کے ساتھ مڑے تو ان کے سامنے آہنی جالیوں کی دیواروں میں تقسیم کچھ اور قطعات تھے۔انہوں نے ایک ایک پارٹیشن میں جاکر دیکھا ۔وہاں شیر،شیرنیاں، چیتے اور لگڑ بگڑ اپنے کشادہ قید خانوں میں گھوم رہے تھے۔ایک تربیت یافتہ ملازم ایک ایک پنجرے میں جاکر ان کے لنچ کیلئے گوشت کے بڑے بڑے پارچے رکھ رہا تھا

’’ویسے ایک بات ماننے کی ہے۔‘‘ ڈپٹی کا روئے سخن ثانی کی طرف تھا۔’’حاجی صاحب کمال کے آدمی ہیں۔ان کے ذاتی چڑیا گھر میں جتنی بائیو ڈائیورسٹی ہے اتنی تو ایوبیہ نیشنل پارک میں بھی نہیں۔کیوں حاجی صاحب! ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں!‘‘۔

حاجی اس فراخدلانہ چاپلوسی پر اس بری طرح شرمایا کہ ثانی کو گھن آگئی۔ڈپٹی نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے رازدارانہ لہجے میں حاجی سے کہا۔

’’حاجی صاحب! وہ خاص چیز تو دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘

’’خاص چیز؟‘‘ حاجی نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’وہی دو قیمتی نگ جو مشکپوری کے قریب ایوبیہ نیشنل پارک کے جنگل میں آپ کے ہاتھ لگے تھے۔‘‘

’’اوہ! اچھا وہ؟‘‘ حاجی باریک آواز میں ہنسا اور دیر تک تالیاں بجاتے ہوئے ہنستا رہا۔’’ہاں ہاں! کیوں نہیں۔اس آخری والی پارٹیشن میں جھانک کر دیکھ لیجئے۔‘‘

ڈپٹی نے ثانی کا ہاتھ تھاما اور اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے آخری پارٹیشن کی طرف لے چلا۔

پارٹیشن میں ثانی نے دیکھا کہ دو گل گوتھنے سے گلداربچے مئی کی نرم تازہ دھوپ میں اونگھ رہے تھے۔حاجی نے ملازم کو اشارہ کیا تو وہ گوشت لے کر آگیا اور انہیں ششکار کر گوشت کے چند بڑے بڑے ٹکڑے ان کے آگے ڈال دئیے۔دونوں شاید دیر سے بھوکے تھے کہ بے تابی سے گوشت پر جھپٹے اور ایک دوسرے کے ساتھ چھینا جھپٹی میں مصروف ہوگئے۔ثانی جو جم کاربٹ کی طرح سنہری بدن اور سیاہ گلابوں جیسے دھبوںوالی اس نوع کا عاشق زار تھا مبہوت ہوکر انہیں دیکھتا رہا۔ڈپٹی نے حاجی سے اجازت چاہی کہ وہ ان گلداربچوں کی کچھ تصویریں بنالے۔حاجی نے کچھ سوچا اور پھر جانے کس موڈ میں اس نے اجازت دے دی جس پر ڈپٹی نے اپنے موبائل کیمرے سے ان نٹ کھٹ گلداروں کی مختلف زاویوں سے تصویریں بنالیں۔

’’میرا تو خیال تھا کہ ایوبیہ نیشنل پارک ایک پروٹیکٹیڈ ایریا ہے اور وہاں شکار کرنا اور جانوروں کو زندہ پکڑنا قابل سزا جرم ہے!؟۔‘‘ثانی نے حاجی کو غور سے دیکھتے ہوئے ڈپٹی سے پوچھا۔

ثانی کی اس کھلی جارحیت پر حاجی کا  چہرہ غصے سے سرخ ہوگیالیکن ڈپٹی نے قہقہہ لگاتے ہوئے صورتحال کو سنبھال لیا۔

’’ارے بھائی! آپ بھی بھولے بادشاہ ہو ۔قانون حاجی صاحب کے آگے کیا بیچتا ہے۔حاجی صاحب تو شیر ہیں شیر۔اب ان کی مرضی انڈہ دیں یا بچہ دیں۔کیوں حاجی صاحب؟‘‘

اس خوشامد نے حاجی پر فوری اثر کیا اور وہ اسی طرح دانت نکال کر کھکھیانے لگا۔

’’لیکن برادر! انڈہ یا بچے دینے کیلئے شیر نہیں شیرنی ہونا ضروری ہے۔‘‘اس نے اپنی ٹھنڈی جگت پر ہنستے ہوئے تالی بجا کر خود کو داد دی۔

’’میرا خیال ہے اب چلا جائے۔‘‘ثانی نے یہ کہتے ہوئے گہری نظر ڈال کر ڈپٹی کو کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔

’’اوہ! ہاں ضرور۔‘‘ڈپٹی نے ایڑھیوں کے بل گھومتے ہوئے کہا۔

دھلی دھلائی بجری سے مزین ڈرائیو وے پر واپس آتے ہوئے ڈپٹی نے حاجی کے ساتھ آدم خور کے شکار اور مقامی لوگوں کی توہم پرستی  کی بات چھیڑ دی۔حاجی کچھ سوچ میں پڑگیا اور پھر اپنے بھاری بھرکم ہاتھوں سے ثانی کے کندھے کو دباتے ہوئے اپنی منحنی آواز میں معنی خیزی بھرتے ہوئے گویا ہوا۔

’’میری مانیں تو اس آدم خور وغیرہ کو بھول جائیں۔بہتر ہے کہ دوچار دن میری مہمان نوازی سے لطف اٹھائیں۔خوب گھومیں پھریں دھوم مچائیں۔‘‘

ڈپٹی اور ثانی دونوں کیلئے یہ بات سخت غیر متوقع تھی۔حاجی نے پہلے بھی اس موضوع پر آنے سے گریز کیا تھا اور اب تو اس انتہائی حساس موضوع کوقابل بحث سمجھنے سے بھی انکاری ہوگیا تھا۔ڈپٹی کھسیانا سا ہو سرکھجانے لگا۔ثانی نے مایوسی سے سرجھٹکا۔

’’لیکن حاجی صاحب! آپ جانتے ہیں کہ۔۔۔‘‘ثانی نے اس کا ہاتھ کندھوں سے ہٹاتے ہوئے کہنا چاہا لیکن حاجی نے اس کی بات درمیان میں اچک لی۔

’’ جانتا ہوں تبھی تو کہہ رہا ہوں۔‘‘

دونوں نے اس کی طرف الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

’’دیکھیں آپ نہیں جانتے یہاں کے لوگوں کو۔سخت مذہبی اور توہم پرست ہیں۔انہوں نے اس بدروح میرا مطلب اس آدم خور کو بھگانے کا کام ایک بہت پہنچے ہوئے بزرگ پیر بادشاہ کے سپرد کردیا ہے۔‘‘

دونوں نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔

’’لیکن ایک جانور پر کوئی الٹا سیدھا عمل کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے؟‘‘ڈپٹی نے حجت پیش کی۔

’’حاجی صاحب! ہزاروں انسانی زندگیوں کو کسی جاہل مطلق پیر بادشاہ پر چھوڑدینا جہالت کی انتہا ہے۔‘‘ ثانی نے اپنی مایوسی اور غصے کو دباتے ہوئے کہا۔

پیر بادشاہ کی شان میں اس صریح گستاخی پر حاجی کے چہرے پر بل پڑے لیکن فوراً ہی اس نے اپنے تاثرات چھپالیے۔

’’بس جی کیا کریںیہاں ہر کوئی مرضی والا ہے۔‘‘حاجی نے لاتعلق سے لہجے میں کہا۔

’’لیکن حاجی صاحب ! آپ تو جہاں دیدہ آدمی ہیں۔کچھ آپ نے ہی لوگوں کو سمجھایا ہوتا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ آپ کی مرضی کے خلاف چلیں؟‘‘ڈپٹی نے کہا۔

’’ڈپٹی صاحب! توہم پرستی کی دیوار کے ساتھ کوئی پاگل ہی سر پھوڑ سکتا ہے اور میں بہرحال پاگل نہیں ہوں۔‘‘ وہ ہی ہی کرکے ہنسا۔اس کی بے محل ہنسی دونوں کو ناگوار گذری۔

’’لیکن یہ توہم پرستی نہیں سراسر دیوانگی ہے اور اس دیوانگی کا ساتھ دینے کا مطلب لوگوں کے قتل میں معاونت کرنا ہے۔‘‘ثانی کیلئے اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہورہا تھا۔

حاجی آسمان پر تیرتے پرندوں کا نظارہ کرتے ہوئے ایک جھٹکے سے ثانی کی طرف مڑا ۔کچھ دیر سفاک نظروں سے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور پھر اچانک تالیاں پیٹتے ہوئے اپنا مخصوص بچگانہ قہقہہ لگایا۔دونوں مہمانوں نے اپنے عجیب و غریب مہمان کو الجھن سے دیکھا۔ہنسی کا دورہ تھمنے پر حاجی نے کٹیلے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’دیکھو جی شکاری صاحب! تم نہیں جانتے کہ میں عوامی آدمی ہوں۔اپنے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانا میری مجبوری ہے۔۔۔‘‘

’’لیکن حاجی صاحب۔۔۔‘‘ ثانی نے کچھ کہنا چاہتا تو ہاتھ کے ایک غصیلے لہرئیے میں اس نے ثانی کو روک دیا۔

’’اور پھر غلط کیا ہے؟۔وہ بدروح ہی تو ہے۔میں خود مانتا ہوں۔‘‘

اچانک حاجی ایڑھیوںپر گھوما اور کچھ کہے سنے بغیر چلتا بنا۔دونوں مہمانوں نے بھی گہری سانس چھوڑتے ہوئے تنائو کو کم کرنے کی کوشش کی اور جیپ میں سوار ہوگئے۔

جیب تھکی تھکائی رفتار سے پھسلتی ہوئی ڈھلوان سے نیچے اتر رہی تھی۔ڈپٹی نے ایک موڑ پر سٹیرنگ گھماتے ہوئے ثانی کے ستے ہوئے چہرے کو دیکھا اور اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔

’’لگتا ہے میرا دوست مجھ سے ناراض ہے۔‘‘

ثانی ہونٹ بھینچے باہر جھانکتا رہا۔

’’تمہیں ناراض ہونا بھی چاہیے۔میں خود اپنے آپ سے سخت ناراض ہوں۔کاتب تقدیر نے میرے کوٹے میں جتنی خوشامد لکھی تھی ساری کی ساری میںنے ایک ہی دن میں خرچ کردی۔‘‘

’’لیکن کیوں؟۔۔۔آخر کیا ضرورت تھی ایک بیہودہ آدمی کے سامنے بچھ بچھ جانے کی ؟‘‘

’’مجھے توقع تھی کہ اگر ہم نے حاجی کو شیشے میں اتار لیا تو ہمیں مقامی آبادی کا تعاون حاصل ہوسکے گا۔لیکن افسوس!۔۔۔اور پھر ایک وجہ اور بھی تھی۔‘‘ڈپٹی نے ڈیش بورڈ پر پڑا موبائل اس کی طرف بڑھادیا۔’’اس کی پکچر گیلری میں دیکھ لو۔‘‘

ثانی نے کچھ نہ سمجھتے ہو موبائل کی پکچر گیلری کو کلک کیا تو وہاں حاجی کے چڑیا گھر میں قید دونوں گلدار بچوں کی تصاویر تھیں۔ثانی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ڈپٹی گویا ہوا۔

’’یہ شخص ایک چھوٹا موٹا مافیا ڈان ہے۔ٹمبر مافیا سے شکار مافیا تک اس کی غارت گری کا سلسلہ دراز ہے۔اس کا آزاد پھرنا گلیات کے حسن اور اس کی جنگلی حیات کیلئے تباہی کا پیغام ہے۔‘‘

’’کیا بگاڑ لو گے تم اس کا۔اور یہ تصویریں کس کام آئیں گی؟‘‘

’’میرا سارا ڈوم پن انہی تصاویر کیلئے تھا۔حاجی نے چڑیا گھر مخصوص ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی دل لگی کیلئے بنا رکھا ہے۔ مجھ جیسوں کو تو وہ قریب نہ پھٹکنے دے۔دوسری طرف میں ہر ممکن طرح سے ان تصاویر کو حاصل کرنا چاہتا تھاتاکہ اس کے خلاف میری فائل مضبوط ہوجائے۔‘‘

’’تمہاری عظمت کو سلام لیکن ساڑھے چھ فٹ کا یہ بچہ ان لوگوں میں سے ہے کہ کوئی فائل ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔تم نے یونہی بیکار کی کھکھیڑ کی۔کچھ نہیں بگاڑ سکو گے اس کا‘‘۔

ڈپٹی نے جیب کو ایک سائیڈ پر لگادیا اور ایک جوش کے ساتھ اپنے کیس کو بیان کرنے لگا۔

’’دیکھو، جنگلات میری جیورسڈکشن میں ہیں۔یہاں پتا بھی ہلے تو میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ان جنگلات میں انسان اور جنگلی حیات صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کررہتے آئے ہیں۔ان کے درمیان تلخ و شیریں تعلقات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ جنگلات کی کٹائی اور یہاں پر انسانی تعمیرات کے پھیلائو کے نتیجے میں یہاں گلدارکیلئے شکار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور یہ بھوک سے بے تاب ہوکر دیہات میں دھاوا بولتے رہتے ہیں۔یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی گلدار نے بلاوجہ انسانوں پر حملہ کرنے کی جرات کی ہو۔پوچھو کیوں؟‘‘

ثانی اس کے جوشیلے انداز پر ہنس پڑا۔’’پوچھنے کی ضرورت نہیں۔میں لیپرڈ آئی مین گلدار کی نفسیات تم سے زیادہ جانتا ہوں۔یہ کہ اس  جیسا خونخوار اور سفاک درندہ انسان کے سامنے آکر بکری بن جاتا ہے۔ا س کے دماغ کے کسی گوشے میں ازل سے انسان کا خوف چھپ کر بیٹھا ہواہے۔ جونہی دو پائوں پر چلتے اس جانور سے اس کا سامنا ہوتا ہے یہ راستہ بدل لیتا ہے۔اتنا کافی ہے یا اور بتائوں؟‘‘۔

’’گڈ!تو پھر ایسا کیا ہوا کہ اس کا خوف نفرت میں بدل گیااور یوں بدلا کہ اس نے آدم خوری کو اپنا کسب بنالیا؟‘‘۔

ثانی ایک گہری ’’ہوں‘‘ کے ساتھ سو چ میں پڑگیا۔

’’میں نے جب کھوج لگانا شروع کیا تو ایک عجیب اتفاق سے میرا سامنا ہوا۔گلیات کے جنگل میں آدم خوری کا پہلا واقعہ پیش آنے سے صرف چند روز پہلے مشکپوری کے نواح میں کچھ لوگوں نے ایک مادہ چیتے کو گولی مار کر زخمی کردیاتھا اور پھر اس کے دو کمسن بچوں کو اغوا کرکے لے گئے تھے۔میری اطلاع کے مطابق وہ حاجی نثار عباسی کے آدمی تھے۔اگر یہ سچ تھا تو ضرور ان گلداربچوں کو حاجی کے ذاتی چڑیا گھر میں ہونا چاہیے تھا۔‘‘

’’تمہارا مطلب ہے کہ۔۔۔اوہ مائی گاڈ!یعنی یہ کہ حاجی نثار عباسی ان ہلاکتوں کا واحد ذمہ دار ہے جو ہوچکی ہیں اور جو ہونا باقی ہیں۔‘‘

’’اگر میں حاجی پر ہاتھ نہ ڈال سکا تو میں بھی نوکری کا دھندہ چھوڑ شکار کھیلا کروں گا‘‘۔

’’یعنی؟‘‘

’’ان درندوں کا شکار جو قانون سے پہنچ سے ہمیش اونچے رہتے ہیں‘‘۔

’’بکو مت‘‘۔اچانک ثانی کو کچھ خیال آیا۔اس نے جیب سے موبائل فون نکال کر اسے آن کیا تو دیکھا کہ نورمحمد کی بہت سی بے تاب مس کالیں موجود تھیں۔’’سوری فار نور محمد ۔بیچارہ دیر سے کال پر کال کیے جارہا ہے۔‘‘

ڈپٹی نے اگنیشن میں چابی گھمائی اور جیپ اپنے پیچھے دھول کا مرغولہ چھوڑتی تیزی سے ڈھلوان سے پھسلنے لگی۔

نور محمد بڑی سڑک کے سنگم پر ان کا منتظر تھا۔وہ  اس کے پاس سے ہوکر نکل گئے پھر بیک ویو مرر میں اسے بازو لہراتے ہوئے دیکھا تو ڈپٹی نے گاڑی ریورس کی اور اس کے پاس جاکر بریک لگادی۔

’’ارے نور محمد!تم کب سے یہاں کھڑے ہو؟‘‘ثانی نے تعجب سے پوچھا۔

’’بہت دیر سے صاب! میں نے بہت سی کالیں کی لیکن آپ کا فون بند جارہا تھا‘‘۔نور محمد نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔

’’سوری یار! بس ایویں ای دیر ہوگئی۔لیکن تمہیں کیسے معلوم تھا کہ ہم اوپر پہاڑی پرہیں؟‘‘

’’یونہی میرا اندازہ تھا‘‘۔

چلو آئو بیٹھو ۔اب ہم صرف تمہاری ڈسپوزل پر ہیں۔‘‘

راستے میں حاجی کا تذکرہ چھڑا توجیسے اس کے منہ میں کڑواہٹ گھل گئی ہو۔

’’آپ نہیں جانتے صاحب! یہ حاجی ایک فتنہ ہے۔اسی نے بدروح کا شوشہ چھوڑرکھا ہے اور پیر بادشاہ تو خاص اس کا مرشد ہے۔اس کے ذریعے تو وہ اس علاقے پر حکومت کرتا ہے‘‘۔

’’لیکن بدروح کا شوشہ چھوڑنے کا مقصد؟‘‘۔

’’پتا نہیں صاب! لیکن اس کے دماغ میں یہ خناس گھسا ہواہے کہ لوگ صرف اس کے دماغ سے سوچیں اور اس کی آنکھوں سے دیکھیں۔‘‘

’’اور تم؟‘‘

’’میں صرف انتقام ہوں صاب!وہ بدروح ہے یا کچھ اور مجھے اس سے اپنی گلابے کا انتقام لینا ہے اور بس!‘‘

’’نور محمد! ہمارے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں ہے لیکن اس سے پہلے تمہاری سالی آئی مین تمہاری کزن سے ملنا پڑے گا۔میں چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ موقع پر چل کر حادثے کی تفصیل بتائے‘‘۔

نور محمد کچھ دیر کیلئے خاموش ہوگیا اور پھر گویا ہوا۔

’’بہت مشکل ہے صاب! اپنی بہن کی موت پر اسے چپ سی لگ گئی ہے اور پھر وہ اپنے حواسوں میں بھی نہیں ہے‘‘۔

ثانی نے اس کا کندھا دبا کر ہمدردی کا اظہار کیا۔

’’اور پھر ایک اوربات بھی ہے صاب! کہ میرا چاچا اسے آپ کے سامنے نہیں آنے دے گا‘‘۔

ثانی کوپسماندہ پہاڑی علاقوں میں پردے کے جبر کا اندازہ تھا لیکن ایسا بھی کیا جبرکہ اس آڑ میں اپنے مدد گار کی مدد نہ کی جائے۔

’’تمہیں کچھ کرنا پڑے گا نور محمد!‘‘ثانی نے قطعی لہجے میں کہا۔

’’ٹھیک ہے صاب! کوشش کرتا ہوں۔چلیں پہلے چاچے کے گھر چلتے ہیں‘‘۔

راستے میں بازار پڑا تو دیکھا کہ عجب سماں تھا۔ڈونگا گلی کے چھوٹے سے لاری اڈے کے آس پاس دور تک ہر قسم کی گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی تھیں۔یہ گاڑیاں کہیں نہیں جارہی تھیں ۔اپنے غراتے ہوئے اور دھواں چھوڑتے ہوئے انجنوں کے ساتھ ایک دوسرے میں پھنسی جہاں تہاں ساکت کھڑی تھیں۔ان میں انٹر سٹی چلنے والی بڑی ائرکنڈیشنڈ کوچز اور بسیں بھی تھیں اور راولپنڈی یا ایبٹ آباد کی طرف جانے والی ویگنیں بھی تھیں۔ساتھ ہی سوزوکی پک اپ اور ٹیکسیاں بھی تھیں اور پرائیویٹ کاریں بھی تھیں۔پرائیویٹ کاروں میں تو خیر فیملیاں تھیں لیکن دوسری تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح بندے ٹھنسے ہوئے تھے۔گاڑیوں کی چھتوں پر ڈھیروں ڈھیر سامان بندھا ہوا تھا اور اس سامان کے درمیان میں مسافر پھنس پھنسا کر بیٹھے ہوئے تھے۔یہ وہ تھے جنہیں گاڑیوں کے اندر بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی عیاشی میسر نہ آسکی تھی۔جو جہاںسما سکاسما گیا اور یوں سمایا کہ کوئی چاہے بھی تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔جہاں کسی کا بازو ختم ہوتا تھا وہاں کسی اور کی ٹانگ کی آئینی حدود شروع ہوجاتی تھیں۔لوگ صرف گاڑیوں میں نہیںگاڑیوں کے باہر بھی ایک دوسرے کے ساتھ پھنسے پھنسائے ایک ایمرجنسی کی سی حالت میں آجارہے تھے۔ان سب کی بدن بولی سے سراسیمگی اور خوف عیاں تھا۔

انہوں نے چند گھنٹے پہلے صبح سویرے جن فضائو ں میں سکون اور خاموشی کو براجے ہوئے دیکھا تھا اب وہاں گاڑیوں کے بے تاب اور غصیلے ہارنوں کے باعث کا ن پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔اس کے ساتھ ہی مختلف طرح کی آوازوں کا ایک عذابناک امتزاج وہاں ٹھونس ٹھونس کر بھرا ہوا تھا۔ان آوازوں میں ٹریفک پولیس اور تھانے کی پولیس کے اہلکاروں کی سیٹیاں بھی شامل تھیں۔پولیس اور انتظامیہ والے ایک بیچارگی کے عالم میں اس بے ہنگم ہجوم کو ان آرڈر رکھنے کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔اس ہجوم کو فراز کوہ سے دیکھا جائے تو یوں لگے جیسے ابھی ابھی ان لوگوں کو قیامت کے آنے کی خبر ملی ہے اور یہ لوگ بھاگ کر کسی ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں جو قیامت کی رسائی سے دور ہو۔

ان کے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ لوگ ایک دوسرے پر چیختے چلاتے ہوئے آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔بسوں اور گاڑیوں میں ٹھنسے لوگ کھڑکیوں سے سر نکال کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم ان کی طرف لپکا۔کچھ لوگ انہیں چھڑوانا چاہتے تھے جبکہ باقی کا مقصدمحض ذوق تماشا کی تسکین تھا۔کچھ پولیس والے بھی تھے جو سیٹیاں بجاتے اور ڈنڈے لہراتے ہجوم میں سے راستہ بناتے ہوئے اس واٹر لو تک پہنچنے کیلئے کوشاں تھے۔

’’مائی گاڈ!‘‘۔ ثانی اس Medening Crowd کو دیکھ دیکھ پریشان ہوا جارہا تھا۔

کچھ دیر پہلے تک تو ایسا کچھ نہیں تھا۔اب یکایک ایسی کیا افتاد پڑگئی تھی؟۔یہ سوال اپنی آنکھوں میں لیے ایک دوسرے کی طرف ایک ہونق پن سے دیکھ رہے تھے۔وہ ابھی تک ہجوم کا حصہ نہیں بنے تھے۔

’’کچھ دیرپہلے جب میں یہاں سے گذرا تھا تو ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوچکا تھا۔گاڑیاں ایک دوسری سے آگے نکلنے کیلئے کوشش کررہی تھیں لیکن اس وقت تک ٹریفک جیم نہیں ہوئی تھی۔کل سے یونہی ہورہاہے ‘‘۔ نور محمد نے انہیں اطلاع دی۔

’’آخر اچانک ایسی کیا مصیبت آن پڑی ہے ان لوگوں پر؟‘‘۔ثانی نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں پوچھا۔

’’بدروح‘‘۔ نور محمد نے مختصر سا جواب دیا۔

’’بدروح؟‘‘ڈپٹی نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھا۔

’’ہاں! وہی کم بخت بدروح۔یہاں صبح سے مسجدوں کے لائوڈ سپیکروں اور میگا فونز پر اعلان کیے جارہے ہیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کسی وقت بدروح یہاں حملہ آور ہونے والی ہے۔جس جس کو اپنی جان عزیز ہے وہ شام سے پہلے یہاں سے نکل جائے۔‘‘

’’واقعی؟۔۔۔اور لوگ اس بات کو سچ مان کر یہاں سے نکلنا شروع ہورہے ہیں!؟‘‘۔ ڈپٹی نے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا۔

’’ہاں صاب! پہلے اسی طرح کے اعلان کرکے سیاحوں کو یہاں سے نکالا گیا۔اب مقامی آبادی سے بھی علاقے کو خالی کرایا جارہا ہے۔‘‘

’’یہ تو سیدھا سیدھا لا ء اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔اس پر ایکشن ہونا چاہیے۔‘‘

ثانی نے ایک گہری سانس لی۔’’اسی سے سمجھ لو کہ حاجی اور اس کے گرگوں کی پراپیگنڈہ پاور کس قدر زیادہ ہے‘‘۔

’’نہیں، نیم خواندہ حاجی کیا اور اس کی اوقات کیا۔یہ وہ توہم پرستی ہے جس نے صدیوں سے تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے شکار اس علاقے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے‘‘۔ڈپٹی نے تاسف سے اپنا سر سیٹ پر ٹکاتے ہوئے کہا۔’’یہ ہے وہ پسماندگی جو اس ملک کے ہر حصے میں راج کررہی ہے اور یہ وہ چیز ہے جو ہمارے حکمران طبقے نے بڑی محنتوں سے ہم پر مسلط کی ہے۔‘‘

’’دوست! تم تو اچھے خاصے سوشل سائنٹسٹ ہو‘‘۔ثانی نے ایک بے جان قہقہہ لگاتے ہوئے خود پر چھاتی جھنجھلاہٹ کو جھٹکنے کی کوشش کی۔

’’ملاحظہ کرو کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور بد روح کے خوف سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔مائی فٹ!!‘‘ڈپٹی بڑبڑایا۔

’’تم نے بتایا تھا کہ سب کے سب سیاح یہاں سے پہلے ہی جاچکے ہیں!‘‘۔ ثانی نے نور محمد سے استفسار کیا۔

’’ہاں صاب! لیکن ابھی تک بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔اور صرف سیاح ہی نہیں ہوٹلوں والے، دکاندار، مزدور پیشہ لوگ اور بہت سے مقامی لوگ بھی جن کے راولپنڈی یا ایبٹ آباد وغیرہ میں اپنے گھر ہیں یا وہاں ان کے رشتہ دار رہتے ہیں۔یہ سب لوگ یہاں سے نکلنے کی جلدی میں ہیں۔‘‘

’’باقی رہ جائیں گے وہ لوگ جن کیلئے کوئی جائے فرار نہیں۔اب وہ جانیں اور عزیزہ بدروح سلمہ جانے‘‘۔ڈپٹی نے ونڈ سکرین کے پار گھورتے ہوئے کہا۔

’’بہر طور اب ہم کیا کریں؟‘‘ثانی نے بے ہنگم ہجوم پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔

’’کوئی متبادل راستہ تو ہوگا تمہارے چاچے کے گھر کا؟‘‘ ڈپٹی نے پوچھا۔

’’ہے تو سہی لیکن ہمیں تین چار کلومیٹر واپس جانا پڑے گا ۔حاجی کی پہاڑی سے تھوڑا آگے نکل کر مغرب کی طرف سے ہوکر ایک مشکل ساراستہ جاتا تو ہے۔‘‘نور محمد نے جواب دیا۔’’بہتر ہے جیپ میں چلائوں۔آپ کیلئے وہ راستہ ذرا مشکل ہوگا۔‘‘

’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘۔ڈپٹی نے ڈرائیونگ سیٹ نور محمد کیلئے خالی کردی۔نور محمد نے گاڑی گیئر میں ڈالی اور جیپ ایک تیز موڑ کاٹ کر دھول پتھر اڑاتی واپس روانہ ہوگئی۔

انہیں سکون کا ایک آدھ فرلانگ ہی میسر ہوا ہوگاکہ ان کی جیپ فراٹے بھرنا بھول گئی۔دوسری سمت سے پچاس سو آدمیوں کا ایک جلوس نمودار ہوا اور ان کے راستے میں حائل ہوگیا۔ان کے آگے آگے کچھ لوگ ایک سبز چادر کو چاروں کونوں سے پکڑے چل رہے تھے۔ چادر کے چاروں کناروں پر گوٹے کی چوڑی پٹی تھی جبکہ درمیان میں سرخ اور سنہرے دھاگوں سے کچھ مذہبی علامات کڑھی ہوئی تھیں۔چادر والوں کے پیچھے دو ڈھولچی بڑے بڑے ڈھول گلے میں ڈالے ایک مخصوص خون گرمانے والی تھاپ پر انہیں بجائے جارہے تھے۔ان کے پیچھے ایک قطار میں کچھ لوگوں نے سبز اور سیاہ رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔باقی جو لوگ تھے۔۔۔ جن میں زیادہ تر چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے مرد اور چھوٹے بچے تھے۔۔۔وہ ڈھول کی تھاپ پر دھمال اور بھنگڑے کے بین بین کوئی بے ڈھنگا سا ناچ ناچتے ہوئے بے حال ہوئے جارہے تھے۔

’’اب یہ کیا سلسلہ ہے بھائی!؟‘‘ ثانی نے تقریباً روتے ہوئے دہائی دی۔

’’یہ پیر بادشاہ کی ڈالی ہے‘‘۔نور محمد نے رسان سے کہا۔

’’ایں۔۔۔!؟‘‘

’’تم مغربی ملکوں میں رہتے رہتے شاید یہاں کے ثقافتی رنگوں کو بھول چکے ہو ‘‘۔ڈپٹی نے موقع غنیمت جانا کر ثانی کے علم میں اضافہ کرنا شروع کیا۔’’پورے ملک میں جہاں پیر پرستی عام ہے وہاں پیر کے نام کی ڈالیاں نکالی جاتی ہیں۔یہ جو چادر تم دیکھ رہے ہو یہ ایک طرح سے کیش رجسٹر ہے۔جہاں جہاں سے ڈالی گذرتی ہے لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی توفیق کے مطابق اس میں کرنسی نوٹ ڈالتے ہیں۔تم یہ سمجھ لو کہ یہ ایک طرح کارضاکارانہ ٹیکس ہے جو پیر یا گدی نشین عقیدت مندوں سے وصول کرتے ہیں۔جب کسی درگاہ پر ہونے والے عرس کی تاریخ قریب آتی ہے تو یہ ڈالیاں عام گھومتی دکھائی دیتی ہیں‘‘۔

’’لیکن صاب! ہمارے پیر بادشاہ کا ٹیکس رضاکارانہ نہیں ہوتا۔اس کی ڈالی ہر گھر اور ہر دکان یا ہوٹل وغیرہ کا رخ کرتی ہے اور لوگوں کو ہر صورت ایک بڑی رقم اس چادر میں ڈالنا ہوتی ہے‘‘۔نور محمد نے کہا۔

’’اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو؟‘‘ثانی نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

’’تو اس شخص یا گھرانے پر کوئی نہ کوئی عذاب ضرور نازل ہوتا ہے‘‘۔

’’عذاب؟‘‘

’’ہاں صاب! عذاب۔اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہوجاتا ہے۔کبھی چوری کی واردات ہوجاتی ہے اور کبھی اچانک آگ لگ جاتی ہے اس کے گھر میں‘‘۔

ثانی کے منہ سے بے اختیار سیٹی نکل گئی۔

’’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ شخص اندھیرے اجالے کسی سنسان جگہ سے گذر رہا ہو تو اچانک جنات اس پر چادر ڈال کر اسے مارمار کرادھ موا  کردیں۔

بے یقینی کے مارے ثانی کا منہ کھل گیا۔"Is it so?"

’’ہاں!‘‘ نور محمد کی بجائے ڈپٹی نے جواب دیا۔’’اسی سے تم پیر بادشاہوں کی طاقت اور ان کے لمبے ہاتھوں کا اندازہ کرلو‘‘۔

’’صاب! آج یا کل میں پیر بادشاہ میرے چاچے کے گھر بھی آئے گا دعا کیلئے۔‘‘نور محمد گویا ہوا۔

’’مطلب تمہاری منکوحہ کیلئے دعائے خیر کرنے؟‘‘ ڈپٹی نے پوچھا۔

’’نہیں صاب!وہ بدروح کو ہمارے گھرانے سے دو ر رکھنے کیلئے دعا کرے گا۔پتا نہیں میرے چاچے کو کیا کچھ بیچنا پڑے گااس دعا کی قیمت ادا کرنے کیلئے‘‘۔

دونوں نے نا سمجھنے والے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

’’صاب! اس کی دعا بہت مہنگی پڑتی ہے۔جس گھر میں یہ پیر آتا ہے انہیں منہ مانگا نذرانہ دینا پڑتا ہے۔اور پھر صاب! اس کے ساتھ بہت سے مرید بھی ہوتے ہیں جو بہت کھاتے ہیں۔نرا اجاڑا ہیں وہ لوگ۔‘‘

ثانی کو ایک جھرجھری سی آگئی۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن پھر منہ بند کرلیا۔پیر کی ڈالی اب ان کے سر پر چڑھ آئی تھی۔چادر اٹھائے لوگوں نے استفہامیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا اور انہوں نے بلا حیل و حجت چادر میں سو سو کے چند نوٹ ڈال دئیے۔ڈالی آگے بڑھ گئی تو ان کی جیپ کا انجن بھی جاگ اٹھا۔

کچے پکے پہاڑی راستوں سے گذرتے ہوئے وہ ایک غریبانہ سی آبادی میں جانکلے۔پختہ سڑک سے گذرتے ہوئے نورمحمد نے بہت نیچے موجود ایک کچے اور تنگ راستے کی طرف اشارہ کیا توڈپٹی نے ایک موڑ کاٹتے ہوئے پختہ سڑک چھوڑ کر اس کچے راستے پر جیب ڈال دی۔ ثانی نے دیکھا کہ دیگر پہاڑی علاقوں کی طرح یہاں بھی ناہموار زمین کے باعث مکانات کی قطاریں اس بین ترتیب میں نہیں تھیں جیسی میدانی

علاقوں میں دکھائی دیتی ہے۔ڈونگا گلی یوں بھی پہاڑ کے ڈھلوان پر آباد ہے۔یوں اکثر رہائشی مکانات افقی کی بجائے عمودی ترتیب میں بنے ہوئے تھے۔جیپ چار چھ گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بند گلی کے قریب آکر رکی۔اس گلی کے تمام گھر بھی علاقے کے زیادہ تر غریب گھروں کی طرح بے ڈھب پتھروں کو جوڑ کر بنائے گئے تھے۔یہاں پرانے بنے ہوئے گھر زیادہ تر ایک ہی نقشے اور طرز تعمیر کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔سامنے کے رخ کچا صحن اور اس کے پیچھے دو یا تین اونچی چھت کے کمرے۔پتھروں کو اوپر نیچے رکھ کر بنائی گئی مضبوط دیواروں میں لکڑی کی گیلیاں چن کر انہیں زلزلہ پروف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان گھروں کی ایک منفرد خصوصیت کچے صحن کی موجودگی ہے ۔یہاں بھی کشادہ کچے صحنوں میں پھلدار درخت کچے پکے موسمی پھلوں سے لدے دکھائی گلی میں جھانک رہے تھے۔انہوں نے جیپ وہیں چھوڑی اور پیدل بند گلی میں داخل ہوگئے۔نور محمد انہیں بیٹھنے کا کہہ کر خود گھر کے اندر چلا گیا۔

سوگ والے گھر کے باہر اور گھر کے اندر پُرسے کیلئے آئے لوگوں کا ایک ہجوم جمع تھا۔ماحول میں رچی سوگ کی مخصوص بوجھلتا اور باتوں کی دبی دبی سی بھنبھناہٹ نے سارے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ماحول پر چھائے سکوت میں اندر سے آنے والی بین کی دبی دبی آوازیں کرب کے رنگ گھول رہی تھیں۔ پہاڑی باشندوں کے ہجوم میں وہ خود کو الجھن کی حد تک اجنبی محسوس کررہے تھے۔ان کے لباس اور وضع قطع انہیں دوسروں سے نمایاں کررہے تھے۔زیادہ الجھن کی بات یہ تھی کہ اتنے بہت سے لوگوں میں وہی تھے جو سوگوار ماحول کا حصہ نہیں تھے۔ صرف وہی تھے جو کسی کو جانتے تھے نہ کوئی انہیں جانتا تھا۔انہوں نے وہاں پہنچ کر سلام کیا تو چند لوگوں نے گردن گھما کر انہیں لاتعلق نظروں سے دیکھا اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔انہوں نے ایک خالی چارپائی دیکھی تو اسے گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ لگایا اور اس پر ٹک گئے۔

خاصے انتظار کے بعد نور محمد نے اپنی جھلک دکھلائی۔اس کے ساتھ تین چار بڑی عمر کے لوگ بھی اندر سے نکل کر سیدھے انہی کی طرف بڑھے۔قریب پہنچ کر نور محمد نے بزرگوں سے ان دونوں کا تعارف کرایا اور بزرگوں کے بارے میں بھی بتایا کہ ایک اس کا باپ اور دوسرا چچا سسر تھا۔ثانی اور ڈپٹی نے انہیں سلام کی تو انہوں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سلام کوسنا ان سنا کردیا۔ان کا انداز دوستانہ ہرگز نہیں تھا۔ابھی وہ دونوں تعزیت کیلئے مناسب الفاظ تلاش کر ہی رہے تھے کہ اس بزرگ نے جسے نور محمد نے اپنا باپ بتایا تھا گلیاتی لہجے کی پوٹھواری میں خاصے روکھے انداز میں پوچھا۔

’’کیا لینے آئے ہو یہاں؟‘‘۔

انہوں نے چونک کر نور محمد کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں چرالیں۔

کسی جواب سے پہلے نور محمد کے چاچے نے کیو لیا اور اسی انداز میں ان پر برس پڑا۔

’’تم میری بیٹی کے قاتل ہو۔ یہاں آنے کی جرات کیسے کی تم نے؟‘‘۔

’’واٹ۔۔۔؟‘‘مارے حیرت کے ان کے منہ کھلے رہ گئے۔

’’ابھی چلے جائو یہاں سے اور جاکر اپنی حکومت سے کہہ دو اگر آئندہ کسی نے جنگل میں چیتے چھوڑے تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔

’’لیکن چاچا۔۔۔‘‘ نور محمد نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو چاچے نے اسے جھاڑ کر چپ رہنے کا حکم صادر کردیا۔

وہاں بیٹھے تمام لوگ اس غیر متوقع تماشے کو دیکھ کر حیرت زدہ دکھائی دے رہے تھے ۔اپنے مہمانوں سے یہ بدسلوکی نور محمد کی برداشت سے باہر ہونے لگی تو اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے ان دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’چاچا ! یہ سرکاری لوگ ہیں اور میرے مہمان بھی ہیں۔ان سے ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو۔‘‘

’’ورنہ کیا کرلو گے تم؟‘‘ نور محمد کے چاچے نے مبارزت طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میں کچھ نہیں کروں گا لیکن آپ بھی اپنی حد میں رہیں آپ کو کوئی حق نہیںکہ۔۔۔‘‘نور محمد نے نرم لیکن مضبوط لہجے میں کہا۔

چاچا کے طیش کا گراف مسلسل بلند ہوتا جارہا تھا۔اس نے ایک للکار کے انداز میں نور محمد کی بات کاٹ دی۔

’’اوئے!میرے ساتھ زیادہ حق شق نہ کرو ورنہ۔۔۔‘‘

اس نے مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا تو نور محمد کے باپ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’بس کرو سردار محمد! جاتک جوان ہے کچھ خیال کرو‘‘۔

’’لیکن یہ میری بیٹی کے قاتلوں کو یہاں لے کر کیوں آیا؟۔۔۔ابھی تو اسے مرے دوسرے سے تیسرا دن نہیں ہوا‘‘۔

’’کیا وہ صرف تمہاری بیٹی تھی میری کچھ نہیں لگتی تھی؟‘‘۔نور محمد کے لہجے میں کرب کا ناگ سرسرایا۔

’’یہ جو کوئی بھی ہیں ان سے کہو کہ ابھی گائوں سے نکل جائیں۔ایسا نہ ہو کہ ان کی وجہ سے گائوں پر کوئی اور آفت ٹوٹ پڑے۔‘‘

’’چاچا ! عقل کو ہاتھ مارو۔یہ بیچارے تو ہمیں اس بلا سے نجات دلانے آئے ہیں۔‘‘

’’کیوں ، تمہیں نہیں پتا پیر بادشاہ نے کیا کہا ہے؟‘‘

’’بکواس کرتا ہے آپ کا پیر بادشاہ!وہ آپ لوگوں کو بے وقوف بنا کراپنی دکان چمکانا چاہتا ہے۔‘‘اب کے نور محمد کی آواز بھی بلند ہوگئی۔

’’تم۔۔۔تم۔۔۔تمہاری یہ مجال۔۔۔؟‘‘مارے طیش کے الفاظ بوڑھے کا ساتھ چھوڑ گئے۔

’’نکے! اپنے چاچے سے تمیز سے بات کرورنہ۔۔۔‘‘دوسرا بوڑھا جو اب تک چپ کھڑا تھا ایک تحکم سے بولا۔

وہاں موجود تمام لوگ بھی ان کی بلند آوازیں سن کر وہاں مجمع لگا چکے تھے جس کی وجہ سے ڈپٹی اور ثانی شرمساری کے احساس میں ڈوبے جارہے تھے۔اس سے پہلے کہ نور محمد اپنے باپ کو کوئی سخت جواب دیتا،ثانی اور ڈپٹی نے اسے روک دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے سر راہ جمع ہونے والے مجمع سے باہر لے چلے۔نور محمد بھی کسی مزاحمت کے بغیر ان کے ہمراہ چل پڑا۔

وہ لوگ جیپ میں بیٹھے تو نور محمد سخت شرمندہ دکھائی دے رہا تھا اور ان سے بار بار معافی مانگے جارہا تھا۔ان دونوں نے تنائو کو کم کرنے کیلئے مزاح کا سہارا لیا تو نور محمد کے چہرے کا کھنچائو بھی کچھ کم ہوا۔

’’آپ فکر نہ کریں صاب!سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

یہی وہ وقت تھا جب ڈپٹی کے موبائل کی سکرین روشن ہوگئی۔اس نے نمبر چیک کیا تو نامعلوم نمبر تھا۔ڈپٹی نے الجھن سے ثانی کی طرف دیکھا۔

’’سن لو کوئی ضروری کال بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ثانی نے اسے مشورہ دیا۔

ڈپٹی نے کال اٹینڈ کرنے سے پہلے سپیکر کھول دئیے۔ دوسری جانب ایک بوجھل آواز تھی۔

’’ڈپٹی صاحب!نور محمد کے سسرال میں آپ کے ساتھ جو ہوا وہ صرف ایک ٹریلر تھا۔۔۔‘‘

’’کون ہو تم؟‘‘ ۔

’’فضول سوال ہے۔میری بات مکمل ہونے دو۔۔۔تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر آپ کو ہارر مووی دیکھنے کا شوق نہیں ہے تو براہ مہربانی اپنے شکاری دوست سے کہہ دیں کہ وہ شکار کا خیال دماغ سے نکال دے اورکل صبح گلیات سے نکل جائے۔‘‘

’’تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟۔۔۔ہیلو !۔۔۔ہیلو!!۔۔۔‘‘

’’شٹ! فون بند کردیا کم بخت نے‘‘۔

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف پر خیال نظروں سے دیکھا۔

’’کون ہوسکتا ہے یہ شخص؟‘‘۔ڈپٹی نے ایک الجھن میں خود کلامی کی۔

’’ظاہر ہے صاب! یہ کوئی حاجی کا بندہ ہی ہوگا‘‘۔نور محمد نے کہا۔

یہ ایک کھلی دھمکی تھی جو انہیں کچھ سوچنے پر مجبور کررہی تھی۔ان کے اصرار پر نور محمد نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور وہ تنگ گلیوں سے نکل کر کھلے میں آگئے۔

’’میرا خیال ہے کہ مجھے اپنے ڈیپارٹمنٹ کو سچویشن سے آگاہ کردینا چاہیے۔‘‘راستے میں ڈپٹی نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’نہیں ڈپٹی ! اب یہ تمہارے محکمے کا نہیں میرا ذاتی مسئلہ بن چکا ہے اور میں اپنے مسائل کو خود Teckle کرنا جانتا ہوں۔‘‘ثانی نے اٹل لہجے میں کہا۔

’’لیکن مجھے سیکورٹی کا بندوبست تو کرنا ہی ہوگا۔میں یہاں صاف خطرے کی بو سونگھ رہا ہوں۔‘‘

’’صاحب! یہ بزدل اور بے ضرر لوگ ہیں ۔صرف دور دور سے ڈرا سکتے ہیں۔نزدیک آنے کی ہمت کوئی نہیں کرے گا۔‘‘

’’کام ہمیشہ دور سے ہی دکھایا جاتا ہے نور محمد!‘‘ڈپٹی نے کہا۔’’کوئی بیوقوف بدمعاش ہی نزدیک آکر اپنا تعارف کراتا ہے‘‘۔

’’تم کیوں پریشان ہوتے ہو یار! اللہ مالک ہے‘‘۔ثانی نے ڈپٹی کا کندھا تھپتھپایا ۔’’ہم کوئی باز آنے والے لوگ ہیں‘‘۔

’’ہاں، ہم باز آنے والے لوگ نہیں ہیں‘‘۔ڈپٹی نے کندھے جھٹکے اور مسکرادیا۔

دوپہر سہ پہر میں ڈھلنے کوتھی۔آج کا دن کسی کام نہ آسکا تھا۔طے پایا کہ رات نور محمد کے گھر گذاری جائے اور کل صبح سویرے جنگل کا رخ کیا جائے۔راستے میں ایک سنسان پڑے ہوٹل میں انہوں نے کھانا کھایا اور نور محمد کے گھر کی راہ پکڑی۔

نور محمد کا گھر ڈونگا گلی بازار اور مرکزی آبادی سے ڈیڑھ دو کلومیٹر جنگل کے رخ واقع تھا اور جنگل سے اس قدر قریب کہ دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہی جنگل شروع ہوجاتا تھا۔یہ گھر بھی بستی کے دیگر غریب گھروں کی طرح دو کمروں پر مشتمل اور پتھروں سے بنا ہوا تھا۔اس نے کچھ ہی دیر پہلے یہ چھوٹا سا گھر تعمیر کرایا تھا تاکہ وہ گلابے کے ساتھ مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھ سکے۔

نور محمد نے گھر سے کچھ فاصلے پر پھولدار جھاڑیوں کی اوٹ میں جیپ روکی اور پھر وہ لوگ پتھروں پر جما جماکر قدم رکھتے پندرہ بیس فٹ اترائی میں واقع اس کے گھر پہنچ گئے۔جیپ کو روکتے ہی نور محمد کو ایک خیال سوجھا۔

’’صاب! ہمیں جیپ کی کوئی ضرورت تو ہے نہیں۔جنگل میں ہمیں پیدل ہی پھرنا ہوگا‘‘۔

انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میرا خیال ہے کہ جیپ کو کسی محفوظ مقام پر چھپا دینا چاہیے۔مجھے وہم سا ہورہا ہے کہ کوئی جیپ میں گڑبڑ کرکے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتا ہے‘‘۔

’’یار نور محمد! تم تو جینیئس ہو۔کیا دور کی کوڑی لائے ہو‘‘۔ڈپٹی نے اس کاکندھا تھپتھپایا۔

’’یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ہم یہاں دشمنوںمیں گھرے ہوئے ہیں۔کوئی اگر چپکے سے اس کے بریک ہی ڈھیلے کردے تو ہم کیا کرسکتے ہیں‘‘۔ثانی نے خیال آرائی کی۔

’’تو ٹھیک ہے ،آپ یہیں رکیںمیں جیپ اپنے دوست کے گھر چھوڑ آئوں۔زیادہ دور نہیں ہے ۔ دس منٹ میں واپس آجائوں گا‘‘۔نور محمد نے جیپ سٹارٹ کرکے ایک ڈھلوانی راستے پر ڈال دی۔وعدے کے مطابق وہ جلدی ہی واپس آگیا تو انہوں نے درختوں کی سبز چھایا میں گھرے ہوئے اس کے چھوٹے سے گھر کی جانب قدم بڑھادئیے۔

مشک پوری کی ڈھلوان پرہونے کی وجہ سے اس گھر کے سامنے دور تک بادلوں کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی نیلگوں وادی پھیلی دکھائی دیتی تھی۔یہاں تین چار گھر اور بھی تھے لیکن وہ ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر تنہا تنہا دکھائی دیتے تھے۔نور محمد دروازے پر لگے تالے میں چابی گھما رہا تھا اور ثانی سحر زدہ سا وادی کی پنہائیوں میں کھویا ہوا تھا۔سارے میں ایک گہری بھید بھری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔جنگل کی گہرائیوں سے بھیگی ہوئی خوشبو کا ایک جھونکا آیا تو ثانی نے گہری سانس لیتے ہوئے زندگی کے اس انمول پیغام کو اپنی رگوں میں بھر لیا۔سامنے تاحد نگاہ ایک پرشکوہ جنگل پھیلا تھا اور اس کے سامنے جنگل کا یہ عاشق زار مبہوت کھڑا تھا جس نے عمر کا بڑا حصہ جنگل جنگل پھرتے گذاردیا تھا۔یہ عین وہی جگہ تھی جہاں اس نے بچپن سے رہنے بسنے کا سوچ رکھا تھا۔

ٍ ’’ہوووو۔۔۔اووو!!!‘‘کوئی دور سے ٹارزن کی طرح پکارا۔ثانی نے پلٹ کر دیکھا تو یہ ڈپٹی تھا جو منہ پر ہاتھوں کا بھونپو جمائے جنگل کے رخ کھڑا تھا۔وہ جیپ میں سے سامان نکالنے کیلئے وہیں رک گیا تھا اور اب سامان کو بھولے ہوئے وہ بھی ثانی کی طرح اپنے ہوش سے بیگانہ ہوا جارہا تھا۔اس نے محو پرواز گولڈن ایگل کی طرح اپنے بازو پھیلائے اور وہیں سے بلند آواز میں ثانی سے کہا۔

’’مسٹر شکاری! میں وہ سامنے بلیو ایلپائن کی چوٹی پر اپنا گھونسلابنانے جارہا ہوں۔ہوسکے تو پلیز مجھے شکار نہ کرنا‘‘۔

اس کے ساتھ ہی اس نے پرندے کی طرح اڑان بھری اور لہراتا لیکن پتھروں پر مضبوط قدم جماتا ہوا آیا اور آکر ثانی سے لپٹ گیا۔

’’او ثانی ڈیر!تم نے دیکھا یہ ہے پاکستان۔۔۔کوئی ہے اس جیسا؟‘‘

’’یہ ایک ناممکن التصور حسن ہے۔۔۔ کچھ بھی اتنا حسین نہیں ہوسکتا۔‘‘ثانی کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔

’’یہ ایک مطلق جمال ہے‘‘۔

’’یہاں جمال اور جلال ایک دوسرے سے ہم کلام ہیں۔‘‘ثانی نے دور بن خور سے اڑان بھرتے ایک نامعلوم پرندے پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔

’’ہم حسن اور موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔‘‘ڈپٹی کے لہجے میں گھمبیرتا تھی۔

’’ہو ووو۔۔۔اووو!!!۔۔۔‘‘ اب کی بار یہ ثانی تھا جس نے ہونٹوں پر ہاتھوں کا بھونپو جمایا اور حلقوم کی پوری طاقت سے ٹارزن کی طرح پکارا۔

’’ہو ووو۔۔۔اوووو!!!۔۔۔‘‘ جنگل نے اس کی پکار کا جواب دیا۔

’’اے موت! اگر تم اتنی حسین ہو تو میرا انتظا ر کرنا میں تم سے ملنے آرہا ہوں‘‘۔ثانی زور سے پکارا۔

خون بھرے طباق ایسے سورج نے جاتے جاتے دیودار کے دیو زاد درخت کی پھننگ پر ٹک کر ذرا سا آرام کیا اور پھر جنگل کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔وہ دونوں ہوا پر پا ئوں دھرتے نور محمد کے گھر میں داخل ہوگئے۔

بیار کی لکڑی کے کواڑوں کے پیچھے ایک چھوٹا سا صحن تھا جس کی دیوار کے ساتھ موزوں فاصلوں پر پودے لگے ہوئے تھے جن کے گرد حفاظت کے رواج کے تحت چند کانٹے دار جھاڑیوں کی شاخیںلگا دی گئی تھیں۔ان پودوں نے کچھ عرصے بعد پھلدار درختوں میں تبدیل ہوکر جنگل کے ہم رنگ ہوجانا تھا۔صحن کے خالی پن کو پار کریں تو ایک کونے میں کمرے کی دیوار سے ملا ایک چھوٹا سا باورچی خانہ تھا اور اس کے سامنے رخ دوسرے کونے پر مرغیوں کے ایک ڈربے نے قبضہ جما رکھا تھا۔اس میں ایک مرغے کے ساتھ بند چند مرغیاں اونگھ رہی تھیں۔وہیں زندگی کے تسلسل کی علامت دو تین انڈے بھی موجود تھے ۔

ثا نی اور ڈپٹی ماحول کی سرشاری میں غلطاں اندر داخل ہوئے توانہوں نے نورمحمد کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔اس گھر میںایک چارپائی اور ایک پرانی سی کرسی میز اور کچھ بہت ضروری سامان تھا اور یہی تھا نور محمد کے گھر کا کل اثاثہ۔اگر وہاں کچھ اور تھاتو بہت سی ہولناکی اور بہت سی ویرانی تھی جو اس نئے بنے ہوئے گھر کی دیواروں سے پھوٹ رہی تھی اور چھت سے ٹپک رہی تھی ۔وہاں باورچی خانے کے ساتھ لگا ہوا ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ نیم وا تھا۔ انہوں نے یونہی ایک ذرا جھانکا تو وہیں ٹھٹک گئے۔ نور محمد ٹانگیں اوربازو پھیلائے کمرے کے عین درمیان میں کھڑاتھا۔جانے وہ کسی تپسیا کے عالم میں تھا یا یوگا کے کسی آسن میں ڈوبا ہوا تھا۔اس کی پشت ان کی جانب تھی اورانداز کچھ یوں تھا جیسے مسیح اپنی صلیب پر ایک جذب ومستی کی کیفیت میں جھول رہا ہو۔انہیں محسوس ہوا جیسے اچانک وادیوں میں آوارہ پھرتی ہوا ساکن ہوگئی ہو اور درختوں نے سانس تھام لی ہو۔کمرے میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی موجود تھا ۔وہ دکھائی نہیں دے رہا تھاپر کوئی تھا جو عین اس کے مقابل تھا، چند سانسوں کی دوری پر۔کمرے میں تاریکی اتنی نہ تھی کہ وہ کچھ دیکھ نہ پاتے لیکن بصارت اس وجود کو چھونے سے قاصر تھی۔صرف حواس تھے جو اسے محسوس کرسکتے تھے۔کمرے کی گھمبیرتا میں ایک مدہم بھینی بھینی خوشبو تیر رہی تھی۔انہوں نے رکے سانسوں سنا کہ کمرے کی بوجھل فضا میں کانچ کی چوڑیاں کھنکی ہیں اور اس کھنک سے ایک اداس یا ارتعاش پیدا ہوا جس کے بعد پھر گھمبیر سکوت چھاگیا۔چند ثانئے بعد چوڑیاں پھر کھنکیں لیکن اس بار اس کھنک میں ایک مایوسی اور فضائوں کو چیر دینے والا غصیلا احتجاج تھا۔اور پھر۔۔۔ جیسے کسی نے بازو ایک دوسرے سے ٹکرا کر چوڑیاں توڑ دی ہوں۔انہوں نے خود اپنے کانوں سے چوڑیوں کے ٹکڑوں کو زمین سے ٹکرا تے بکھرتے سنا۔اور پھر۔۔۔ سسکتے ہوئے پیچھے ہٹا اور غیر مرئی قدموں پیچھے ہٹتے دیوار کے ساتھ لگ گیا۔اور پھر۔۔۔جیسے کوئی اپنی خوشبو سمیٹ کر کوئی دیوار کے پار چلا گیا ہو۔

’’آپ واپس آگئے صاحب؟‘‘نور محمد نے مڑے بغیر اسی آسن میں کھڑے کھڑے پوچھا۔اس کی آوازگھمبیر تھی اور آنسوئوں میں گندھی ہوئی تھی۔

وہ دونوں جواب دئیے بغیر پلٹ آئے اور صحن میں بچھی ایک چارپائی پر دراز ہوگئے۔

آسمان کی شوخیلے نیل میں سفید بادلوں کے مرغولے تیرتے پھر رہے تھے۔وہ دونوں ان بادلوں میں چھپی شکلیں تلاش کررہے تھے کہ نور محمد کی بوجھل آواز سنائی دی۔

’’صاب! رات کیلئے کیا پکائوں؟‘‘

انہوں نے چونک کر پہلو بدلے۔نور محمد ان کے سامنے کھڑا تھا۔پہلے جیسا نارمل اور مسکراتا ہوا۔

’’آں!کچھ بھی۔۔۔پیٹ ہی تو بھرنا ہے‘‘۔ثانی نے اس چہرے کی تہوں میں کچھ تلاش کرتے ہوئے بے خیالی میں جواب دیا۔

’’میرا خیال ہے مرغی ذبح کرلوں‘‘۔نور محمد نے ڈربے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

’’اگر کچن میں کوئی دال شال ہے تو وہی چڑھالو‘‘۔ثانی کو حسن کے مقدس پھیلائو کے عین درمیان خون بہانے کا عمل جچا نہیں۔ ’’تھوڑے سے گھی مصالحے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔یہ گھر کون سا آباد ہے۔کبھی کبھی تو آتا ہوں یہاں۔‘‘اس نے جیب سے ایک لمبے پھل کا چاقو نکال کر ہونٹوں میں دبایا اورڈربے میں ہاتھ ڈال ایک مرغی پر جھپٹا مارا۔مرغی اس کے عزائم بھانپ کر پھڑپھڑائی لیکن اس نے اس کی پھڑپھراہٹ اور دہائیاں دیتے ہوئے بچ نکلنے کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے اسے پائوں تلے دبالیا۔

’’آج کے بعد شاید کبھی یہاں نہ آئوں‘‘۔نور محمد نے پھڑپھڑاتی ہوئی مرغی کی گردن کو دو انگلیوں سے پھیلا تے ہوئے جیسے خود کو مخاطب کیا۔

’’لیکن یہ تمہارا اپناگھرہے۔‘‘ڈپٹی نے اسے یاددلایا۔

نور محمد نے مرغی کے گلے پر چھری پھیری اور پھر اسے تڑپنے کیلئے چھوڑ دیا۔ڈپٹی نے دیکھاکہ اس کے چہرے پر شام پھیل رہی تھی۔

’’نہیں، اس گھر کی رجسٹری اوپر والے کے نام ہے، میں کون ہوں اس کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والا۔‘‘ نور محمد نے مرغی کو اس کی کھال سے جدا کرتے ہوئے فلسفیانہ لہجے میں جواب دیا۔

’’وہ تو ہے لیکن۔۔۔‘‘

’’صاحب! یہ گھر میں نے اور گلابے نے مل کر بنایا تھا۔یہاں کی ایک ایک اینٹ اور ایک ایک پودے پتے پر اس کا نام لکھا ہوا۔شادی کے بعد اس کی ڈولی اسی صحن میں اترنی تھی۔وہ نہیں تو میں نے اس کا کیا کرنا ہے‘‘۔اس نے چرغے کو فضا میں بلند کرتے بات مکمل کی اور باورچی خانے کی طرف چل دیا۔

نور محمد نے اس وقت جب وہ کھوئے ہوئے تھے اندر سے ایک اور رانگلی چارپائی لاکر صحن میں بچھادی تھی۔ثانی اٹھ کر اس چارپائی پر دراز ہوگیا اور آسمان کے کسی موہوم نکتے پر خالی نگاہیں جمادیں۔

سب کچھ بے معنی تھا۔کچھ بھی کرنا، کچھ بھی کہنا اور شاید کچھ بھی سوچنا۔

رات کے کھانے کے بعد کرنے اور کہنے کو کچھ نہیں تھا سو وہ صحن میں بچھی چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ڈپٹی کچھ زیادہ ہی تھکا ہوا تھاکہ لیٹتے ہی نیند کے گھاٹ اترگیا لیکن تھکن سے ٹوٹا ہوا جسم ثانی کو ہمیش جگائے رکھتا تھا۔آج بھی نیند اس کی آنکھوں سے کہیں بہت دور تھی۔وہ چت لیٹا دیر تک تاروں بھرے آسمان کو تکتا رہا۔یہاں سے شفاف آسمان اتنا قریب دکھائی دیتا تھاکہ ہاتھ بڑھاکر چھو لو۔اس آسمان کا راجہ پوری رات کا چاند اپنے جوبن پر تھا۔اس چکا چوند چاند میں کچھ ایسی بات تھی کہ اس سے نظریں ہٹانا مشکل تھا۔اس نے کبھی اتنا بڑا چاند نہیں دیکھا تھا۔اس کا مشاہدہ تھا کہ جنگل او ر صحرا میں طلوع ہونے والا چودھویں کا چاند دھویں اور آلودگی سے پاک فضا کے باعث آبادجگہوں سے زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ چاندتو کچھ زیادہ ہی بڑا تھا۔ایک روشنی سے بھرا تھال جس میں سے نکلتی مقناطیسی لہروں کو وہ اپنے بدن کی گہرائیوں میں تھرکتے ہوئے محسوس کرسکتا تھا۔اور پھر وہاں ستارے بھی تو تھے اتنے واضح، اتنے روشن اور اتنے بڑے کہ چاند آسمان پر اپنے باجبروت غلبے کے باوجود ان کی ہستیوں کو غیر اہم بنادینے میں ناکام رہا تھا۔ثانی کی جاگتی آنکھیں آسمان کی ہولناک وسعتوں میں گم ہوچکی تھیں اور اس کے کان اپنی تمام تر حساسیت کو جگائے آواز کی کسی لہر کو چھو لینے کیلئے بے تاب ہورہے تھے۔اور پھر اس کی سماعت اور اس آواز کے درمیان مغائرت ختم ہوگئی۔وہ ستاروں سے چھنتی ایک مدہم اور مسلسل نغمگی کو سن سکتا تھا۔ سرمدی راگ میں کمپوز کی گئی یہ سمفنی رات کے اس پہر کے بوجھل سکوت پر سے پھسلتی سماعت کی راہ اس کی رگوں میں تحلیل ہورہی تھی۔

وہ چارپائی سے اٹھ بیٹھا ۔اس کے دونوں ساتھی کروٹ بدل کر سو رہے تھے۔اس نے کوئی آہٹ کیے بغیر جوتے پہنے اور دروازے کی طرف بڑھا۔دو قدم بڑھائے تھے کہ اسے کچھ یاد آیا۔وہ اندھیرے کمرے میں گیا اور پھر پتلون کی جیب سے ایک چھوٹی ٹارچ نکال کر جلائی اور اس کی روشنی میں اپنے سامان میں سے اپنی چہیتی ڈبل بیرل پرنسس نکال لی۔اس نے چند کارتوس بھی اپنی جیب میں ٹھونسے اور پھر دبے قدموں دروازہ کھول کر گھر سے باہر آگیا۔

باہر کھلے میں ایک جادو گر رات اس کی منتظر تھی۔ملگجے اندھیرے میں آگے بڑھنا مناسب نہ تھا لہٰذا وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔اس کے سامنے تین اطراف پھیلا جنگل جو الوہی حسن پہنے دن کے اجالے میں زمین و آسمان پر محیط جادوئی نظاروں پر مشتمل مونتاج ایسادکھتا تھا اب تاریک سایوں اور وحشت ناک شکلوں کا مجموعہ بن چکا تھا۔وہ اس لمحے کرہ ارض کے ۳۴ ڈگری شمالی عرض بلد اور ۷۳ ڈگری مشرقی  طول بلدپر واقع کوئی مقام نہ تھا۔ یہ کوئی اور جگہ تھی ، کسی اور سیارے کا کوئی اور مقام ۔چاروں اور پھیلی چاندنی کے ملگجے پن نے تاریکی کے ساتھ مل کر گھنے اسرار میں ملفوف کوئی اور دنیا تخلیق کرکے اس کے سامنے رکھ دی تھی۔

مئی کی اس رات ہوا میں بڑھتی ہوئی خنکی سے وہ جھرجھرا کر رہ گیا۔کھلے جنگل کے مقابل جہاں ایک آدم خور بھی موجود تھایوں کھلے عام بیٹھنا بے وقوفی کی انتہا تھی جبکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ علاقہ خاص طور پر اس کی غارت گری کی زد میں ہے۔گلدار انسان کے بعد اس دھرتی پر موجود تمام جانداروں سے کہیں زیادہ چالاک، سفاک اورخونخوار ہوتا ہے ۔اور اگر وہ آدم خور ہو تو اس کی خطرناکی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے باالخصوص اگر وہ مادہ ہو اور زخمی بھی ہو۔اگر جو مادہ آدم خور یہیں کہیں موجود ہو تو مسلح ہونے کے باوجود اس کا صبح تک زندہ بچ رہنا ناممکن کے قریب قریب بات تھی۔ہوا میں خنکی بڑھتی جارہی تھی اور ساتھ ساتھ اس میں گھلے نشے کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔اور پھر اس کی پلکیں بوجھل ہونا شروع ہوگئیں۔اس نے خود کو اٹھانا چاہا لیکن جسم بوجھل ہورہا تھا تبھی اچانک اس کے کندھے پر کوئی چیز کودی اور دہشت کے مارے اس کا بدن لرز اٹھا۔یہ ایک بڑی جسامت کی اڑنے والی گلہری تھی، یہاںکی خاص مقامی گلہری جو ایک قریبی درخت پر استراحت میں مصروف تھی کہ اسے دیکھ کر گھبرا گئی تھی اور اب وہاں سے بھاگنے کے چکر میں اس پر آپڑی تھی۔اس کے کندھے سے اچھل کر گلہری ایک چھوٹی سی جھاڑی کی طرف بھاگی اور اس کی اوٹ میں غائب ہوگئی۔اس نے سرجھٹک کر اپنے لرزیدہ بدن کو اٹھانا چاہا لیکن نیند کی بوجھلتا اور کئی دنوں کی تھکن نے اسے بٹھائے رکھا۔تبھی اس نے بند ہوتی آنکھوں سے دیکھاکہ اس سے خاصے فاصلے پر موجود جھاڑیوں میں ہل چل ہوئی اور اندھیرے میں دو سلگتے ہوئے چراغ روشن ہوگئے۔

’’آدم خور۔۔۔!!‘‘۔ایک دم سے جیسے اس کا بدن بے جان سا ہوگیا ہو۔

آدم خور اس کے قریب ہی موجود تھا اور اس کی موجودگی سے باخبر تھا۔اس کے کان جنہیں ہوا کے ایک مست جھونکے نے بیرونی آوازوں سے بیگانہ کردیا تھااب دھیمی دھیمی غراہٹ کو صاف سن سکتے تھے۔نفرت کی لو سے سلگتے چراغ جھاڑیوں میں کہیں غائب ہوچکے تھے لیکن دھیمی دھیمی غراہٹ مسلسل اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔اور پھر یکایک اس کے عقب میں بلند ہوتی ایک دھاڑ نے سارے جنگل کو لرزا دیا۔اپنی چالاکی اور سبک خرامی میں بے مثال درندہ دبے پائوں اس کے عقب میں پہنچ چکا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا وہ اس پر جھپٹا اوراسے زمین پر گرادیا۔اس کی گردن میں آدم خور کے خونی دانت گڑے تھے اور وہ اس کی گردن توڑنے کیلئے اسے زمین پر پٹخ رہا تھا۔وہ موت کے جبڑوں سے رہائی کیلئے بچی کھچی توانائیاں سمیٹے بے طرح سے ہاتھ پائوں چلا رہا تھا۔اور پھر درندے نے اپنی حکمت عملی بدلی اور فوری طور پر اس کی گردن توڑ کر اسے اٹھا لے جانے کی بجائے شپڑ شپڑ اس کا نمکین لہو پینے لگا۔اس نے ایک آخری کوشش کے طور پر ہاتھ بڑھا کر درندے کی گردن دبوچ لی اور اسے نیچے گرانے کیلئے زور لگانے لگا۔

’’ثانی صاب۔۔۔ثانی صاب‘‘۔کہیں دور سے کوئی اسے پکار رہا تھا۔

آواز سن کر درندے نے ایک جھٹکے سے اپنی گردن اس کی گرفت سے چھڑائی اور جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔اس کے جاتے ہی وہ بے جان سا ہوکر ڈھے گیا۔

’’ثانی صاب۔۔۔ثانی صاب۔‘‘اب کے کسی نے زوروں سے اسے جھنجھوڑا۔

اس کی آنکھیں ذرا سی کھلیں تو دیکھا کہ کسی کا دھندلا سا سایہ اس پر جھکا اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔یہ نور محمد تھا۔

بعد بسیار کوشش اس نے سر کو جھٹکا اور پھر اپنے بدن کو ٹٹولا۔وہ صحیح سلامت تھا ۔حواس قدرے بحال ہوئے تو اس نے دیکھا کہ نور محمد اس کی بغلوں میں ہاتھ دئیے اسے اٹھانے کی کوشش کررہا تھا۔

’’نور محمد تم؟۔۔۔اور وہ آدم خور؟؟‘‘

’’ثانی صاب! لگتا ہے کوئی خواب دیکھا ہے آپ نے ۔اگر آدم خور سچ میں آجاتا تو صرف آپ ہی نہیں ہم بھی مارے جاتے۔اٹھیں اندر جاکر سوجائیں۔‘‘

’’سوری یار! پتا نہیں کیا ہوا کہ میں اچانک غافل ہوگیا۔‘‘ اس نے شرمندگی سے صفائی پیش کی اور کندھے پر اپنی پرنسس کے پٹے کو درست کرتا ہوا نور محمد نے کے ساتھ بند دروازے کی عافیت میں داخل ہو گیا۔

(۷)

اگلے روز پو پھٹے انہوں نے پیٹ بھر کر ناشتہ کیا اور ضروری سامان باندھنے میں جت گئے۔تبھی اچانک دھڑ سے دروازہ کھلا اور چادر میں لپٹی ہوئی ایک عورت اندر داخل ہوئی۔اس نے چادر کے پلو سے نقاب کررکھا تھا۔صرف آنکھیں تھیں جو کھلی تھیںاور ان آنکھوں میں جو وحشت تھی وہ ثانی کو مدتوں یاد رہنے والی تھی۔نور محمد نے اسے پہچان لیا۔

’’سفیدہ! تم ۔۔۔تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟‘‘ نور محمد کی آواز میں حیرت تھی۔

سفیدہ نے نقاب اتار دیا۔اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور چہرے کے مسل پھڑپھڑا رہے تھے۔وہ مجسمہ سی خاموش کھڑی تھی لیکن اس کے اندر کی جوالا مکھی صاف دیکھی جاسکتی تھی اور ایک کوک پکار تھی کہ اس کے ہر مسام سے پھوٹی پڑرہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور جسم سے چادر نوچ پھینکی۔انہوں نے دیکھا کہ اس کے ایک ہاتھ میں ایک تیز پھل والی کلہاڑی دبی ہوئی تھی۔

نور محمد اس کے اس طرح بے دھڑک اندر آنے اور بے حجاب چہرے کے ساتھ اجنبی لوگوں کے سامنے آجانے پر کچھ پریشان اور کچھ کھسیانا سا تھا ۔اس نے تھوڑا سنبھل کر تعارف کرایا۔

’’صاحب! یہ سفیدہ بیگم ہے۔گلابے کی بڑی بہن۔اس روز یہی اس کے ساتھ تھی‘‘۔نور محمد نے جھجکتے ہوئے اس کا تعارف کرایا۔’’اور سفیدہ! یہ مشہور شکار ی ثانی صاب ہیں اور یہ زلفی صاب ہمارے علاقے کے ڈپٹی فارسٹ آفیسر ۔یہ دونوں اس خونی بلا سے ہمارا انتقام لینے آئے ہیں۔‘‘

سفیدہ بیگم چوبیس پچیس سال کے لگ بھگ رہی ہوگی۔اگر اس کے چہرے پر چھائی وحشت کو نوچ کر دیکھا جائے تو اسے خوبصورت عورتوں میں شمار کیا جاسکتا تھا۔کسی شہزادی ایسے ٹھہرائو اور متانت میں گندھی ہوئی دراز قامت سفیدہ بیگم کی گلابی مائل سفید رنگت، کشادہ پیشانی اور اونچی اٹھی ہوئی ناک یاد دلاتی تھی کہ وہ ان یونانی فوجیوں کی لڑی کا موتی ہے جو سکندر یونانی کی ہندوستان کو تسخیر کرنے کی حسرت لیے نامراد لوٹنے پر شمال مغربی ہندوستان کی انہی پہاڑی وسعتوں میں آباد ہوگئے تھے۔اس کے چہرے پر چھائی تمکنت کو دیکھ کر کہا جاسکتا تھا کہ وہ اگر قبل مسیح کے ہندوستان میں یونانی راج کے دوران موجود ہوتی تو کسی شہزادے یا جرنیل کی بیاہتا ہوتی۔لیکن وہ تب کی بات تھی ، اب کی بات یہ تھی کہ اس کی بادامی آنکھوں میں ایک مطمئن قیدی جیسی یبوست ٹھہری ہوئی تھی۔علاقے کی دوسری عورتوں کی طرح اس کی زندگی بھی دو کمروں کی قید تک محدود تھی۔گھر سے جنگل اور جنگل سے چولہے تک تمام ہوتی زندگی۔۔ان عورتوں کی واحد تفریح پانی اور لکڑی لینے کیلئے جنگل کا رخ کرنا تھا۔یہی ان کے کھلی فضائوں سے ملاپ کا واحد بہانہ تھا اور وہ اتنی سی آزادی پر قانع تھیں۔

سفیدہ بیگم خاموش تھی اور اس کا چہرے تاثرات سے عاری تھا۔صرف دو آنکھیں تھیںجو بدن کی گہرائیوں تک ان کے اندر اتری ہوئی تھیں۔

’’صدمے کی شدت نے اس کی قوت گویائی چھین لی ہے‘‘۔ڈپٹی نے تاسف سے کہا۔

’’سفیدہ! تم کیوں آئی ہو یہاں؟۔نور محمد نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’تمہیں کسی نے یہاں آنے سے روکا نہیں؟‘‘

جواب میں سفیدہ بیگم نے ان کے چہروں سے نگاہیں ہٹائے بغیر اچانک جنگل کی طرف بے تاب اشارے کرتے ہوئے کچھ وحشیانہ غوں غاں کی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی کلہاڑی سے شر شر ہوا کاٹنے لگی۔ثانی اور ڈپٹی گم سم یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔نور محمد کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار نمودار ہوئے۔اس نے پہاڑی بولی میں اس سے کچھ کہا جس کے جواب میں اس کے غیض میں اضافہ ہوگیا۔اس نے زور زور سے نفی میں گردن ہلائی اور کلہاڑی کے دستے پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی۔اس نے جن سفاک نظروں سے ثانی کو دیکھا اس سے لگا کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ ان لوگوں پر حملہ کردے گی ۔نور محمد ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔اس کے چہرے پر کرب کی گھٹا سی تیر گئی۔پھر اس نے خود پر قابو پایا اور ان دونوں سے گویا ہوا۔

’’یہ چوری چھپے یہاں آئی ہے تاکہ آپ کے ساتھ جنگل میں جاکر اپنے ہاتھوں اس آدم خور کی تکا بوٹی کرسکے۔ ‘‘

ثانی نے سفیدہ سے نظریں چراتے ہوئے گہرا سانس لیا ۔

’’اگر سفیدہ بیگم جنگل تک ہماری رہنمائی کرسکتی تو ہمارا کام آسان ہوسکتا تھا لیکن ان حالات میں اس کا ہمارے ساتھ جانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔‘‘ثانی نے نور محمد کو مخاطب کرکے کہا۔

’’اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہم اسے ساتھ نہ لے گئے تو اس کا کہنا ہے وہ اسی کلہاڑی سے ہمیں کاٹ دے گی۔‘‘نور محمد نے جھجکتے ہوئے بتایا۔

خاصی پریشان کن صورتحال تھی۔ثانی اور زلفی نے نظروں میں ایک دوسرے سے مشاورت کی اور پھر بزبان خاموشی نور محمد کو بھی اپنی مشاورت میں شامل کرلیا۔

نور محمد نے اثبات میں سرہلایا اور اس کے کلہاڑی اٹھائے بازو کو گرفت میں لے کر زبردستی وہاں سے لے جانے کی کوشش کرنے

لگا۔سفیدہ نے وہیں جمے رہنے کیلئے سخت مزاحمت کی لیکن زور زبردستی سے وہ اسے صحن میں لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ وہاں سے نور محمد کی تیز آواز اور سفیدہ بیگم کی غصیلی غوں غاں سنائی دیتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر بعد نور محمد کندھے جھکائے اندر داخل ہوا۔اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور چہرے پر ضبط کی سختی کھنڈی ہوئی تھی۔اس نے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں بتایا۔

’’وہ انتقام کے جوش میں پاگل ہورہی ہے صاب!جھوٹ سچ بول کر بہت مشکل سے میں نے اسے واپس جانے پر آمادہ کیا ہے۔‘‘

دن خاصا چڑھ آیا تھا۔اس وقت انہیں جنگل میں ہونا چاہیے تھا سو انہوں نے ضروری سامان کندھوں پر لادا اور گھر سے باہر قدم رکھ دیا۔

وہ گرتے سنبھلتے ڈھلوان پر اتر رہے تھے اور ان کا رخ ڈونگا گلی کی دوسری سمت مشک پوری سے میران جانی پہاڑ کی جانب تھا۔ڈھلوان کا مختصر سا سفر طے کرنے کے بعد انہیں چند سو میٹر بلندی کا سفر درپیش ہوا۔ڈیڑھ کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ ایک متروک ٹریک پر چڑھ گئے۔ٹریک کی سو ڈیڑھ قدم ہموار مسافت کے بعد آگے چلتا ہوا نور محمد رک گیا۔

’’صاب! یہی وہ جگہ ہے جہاں درندہ گلابے کو اٹھا کر لے گیا تھا‘‘۔اس نے آواز کی لرزش چھپانے کیلئے دانتوں سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔’’یہاں سے گلابے کا گھر تھوڑی ہی دور ہے۔وہ سفیدہ بیگم کے ساتھ اسی جگہ آیا کرتی تھی‘‘۔

اس حادثے کو گذرے آج تیسرا دن تھا۔بہت مشکل تھا کہ انہیں اتنے واضح سراغ مل سکتے جن کی مدد سے وہ آدم خور کے ٹھکانے پر

پہنچ سکتے۔واحد اچھی بات یہ ہوئی کہ پچھلے تین چار روز سے بارش نہیں ہوئی تھی ورنہ ان کا یہاں آنا یکسر بیکار ثابت ہوتا۔ایک اور مثبت بات یہ تھی کہ اس واقعے کے بعد کسی نے آدم خور کے خوف سے جنگل میں قدم نہیں رکھا تھا لہٰذا اس بات کا بھی امکان تھا کہ انہیں یہاں اس کے پائوں کے نشان مل جائیں۔

ثانی نے غور سے دیکھا کہ اس جگہ پر مزاحمت کے واضح آثار تھے۔ثانی کے پوچھنے پر نور محمد نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ واقعے کے روز دوپہر کے بعد دونوں بہنیں معمول کے مطابق یہاں خشک لکڑیاں چننے آئیں۔ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں۔اس وقت گائوں کے کچھ اور لوگ بھی ایک آواز کی مسافت موجود لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔نور محمد بھی ان میں شامل تھا ۔وہ اپنی دونوں چچا زاد بہنوں کو نگاہ میں رکھے ہوئے تھا لیکن ان کے قریب نہیں جاسکتا تھا کیونکہ گلابے دو دن بعد مائیوں بیٹھنے والی تھی اور رواجی طور پر ہونے والے دلہا دولہن کیلئے ایک دوسرے سے پردہ کرنا لازم تھا۔دوسرے لوگوں کی موجودگی اور چٹے دن کی وجہ سے انہیں درندے کا کوئی خاص خوف نہیں تھا۔پھر بھی وہ اس حد تک محتاط ضرور تھیں کہ لکڑیاں لے کرشام سے پہلے پہلے گھر پہنچ جائیں ۔نور محمد نے بتایا کہ انہوں نے لکڑیاں اکٹھی کرلیں تو ان کے گٹھے بنا کر سروں پر رکھ لیے۔انہوں نے اپنی کلہاڑیاں بھی ان گٹھوں میں باندھ دی تھیں۔جب وہ چلیں تو سفیدہ آگے تھی اور گلابے چند قدم کے فاصلے پر اس کے پیچھے تھی۔آگے چلتے ہوئے سفیدہ اس سے کوئی بات کیے جارہی تھی اور خود ہی اپنی بات پر ہنسے جارہی تھی ۔جواب میں گلابے بھی کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی۔اچانک یہ ہوا کہ سفیدہ نے اس سے کوئی سوال پوچھا لیکن جواب میں ایک لحظے کی خاموشی کے بعد گلابے کی خرخراہٹ سنائی دی۔اس عجیب آواز پر اس نے گھوم کر دیکھا تو ایک دہشتناک منظر اس کا منتظر تھا۔ایک گلدارنے گلابے کو دبوچ کر زمین پر گرا رکھا تھا اور اس کے شانوںمیں دانت گاڑ کر اسے بھنبھوڑ رہا تھا۔گلابے اس کی گرفت میں دبی ہاتھ پائوں چلا رہی تھی۔اس کے ایک ہاتھ میں ایک موٹی شاخ تھی جس سے وہ گلدار کو مارنے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کی یہ مزاحمت ایک مرتے ہوئے آدمی کی آخری مایوس کن مزاحمت تھی۔کوئی لمحہ جاتا کہ درندہ اسے جبڑوں میں دبائے گھسیٹتا ہوا ساتھ لے جاتا۔ خوف کے ابتدائی حملے کے بعد اچانک سفیدہ بیگم بے خوف ہوگئی۔اس نے بجلی کی سی تیزی سے گٹھے کو پھینک کر اس میں سے کلہاڑی نکال لی۔اس کی وحشیانہ للکار سن کر درندے نے اسے نگاہ غلط انداز سے دیکھا اور گلابے کو گردن سے پکڑ کر اٹھالیا۔سفیدہ بیگم کے پاس اپنی جنگ لڑنے کیلئے صرف ایک لمحہ تھا۔دوسرے لمحے وہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔اس لمحے سفیدہ گلیات کی ایک معصوم دیہاتی لڑکی سے عہدِ شکار کی وحشی عورت میں منقلب ہوگئی۔اس کے منہ سے غراہٹ نکلی اور وہ کلہاڑی کو تولتے ہوئے اس غارت گر پر حملہ آور ہوگئی۔گلدارکیلئے یہ جوابی وار غیر متوقع تھا۔اگر وار خالی نہ گیا ہوتا تو پوری وحشیانہ قوت سے لہرائی جانے والی کلہاڑی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہوگئی ہوتی۔اس کی جبلی پروگرامنگ میں کسی کمزور انسان کا اس کی بربریت کو یوں دھڑلے سے چیلنج کرنا شامل نہیں تھا۔درندے نے گلابے کا معاملہ بعد پر موقوف کرتے ہوئے پہلے اپنے جنگی حریف سے دو دو ہاتھ کرنا مناسب سمجھا۔اس نے دور وحشت سے آئی عورت کو فلک شگاف دھاڑ سے ڈرانا چاہا لیکن اس عورت نے کہ خوف سے بے نیاز ہوچکی تھی کلہاڑی تولتے ہوئے دوسرا وار کردیا جس سے درندے کے کندھے پر گہرا گھائو آگیا۔تس پر وہ پلٹا اور اس عورت پر جاپڑا۔وہ اس حملے کیلئے تیار تھی سو تیزی سے پیچھے ہٹی اور درندے کا پنجہ اس کے کندھے کو سہلاگیا۔درندہ اپنی جھونک میں آگے جاپڑا تھا ۔اس نے واپس پلٹنے میں تھوڑی دیر کی تو اس عورت کو وحشیانہ چیخ و پکار کرنے کا موقع مل گیا۔وہ ایک جنونی کیفیت میںمدد کیلئے پکار رہی تھی اور ساتھ ہی گلدار پر اگلے وارکیلئے تیار ہوچکی تھی۔اس سے پہلے ہی نور محمد اور اس کے گرائیوں کو وہ ساری آوازیں اپنی طرف متوجہ کرچکی تھیں۔وہ میدان جنگ سے صرف سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر تھے۔کچھ سمجھتے اور کچھ نا سمجھتے ہوئے انہوں نے اس جانب دوڑ لگادی۔تب تک سفیدہ اور گلدار دونوں ایک دوسرے پر جھپٹنے کیلئے تیار ہوچکے تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب وہ شور مچاتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔

نور محمد نے ہچکولے لیتے بدن کے ساتھ بتایا کہ اس کی نظروں کے سامنے گلدارنے انہیں آتا دیکھ کر اچانک پینترا بدلا اورسفیدہ کا خیال چھوڑ کر اپنے قدموں پر گھومتے ہوئے خون میں غلطاں گلابے پر جھپٹا۔تب تک وہ زندہ تھی اور نیم بے ہوشی کے عالم میں کراہ رہی تھی۔آدم خور نے یک بیک جبڑوں میں اس کی گردن دبائی اوراسے گھسیٹتا ہوا سرعت سے جنگل میں غائب ہوگیا۔

وہ ان دشوار گذار وسعتوں میں موجود تین آدمی تھے اور ایک کٹھن اور خطرات سے بھرپور معرکہ انہیں درپیش تھا۔ثانی کے پاس ایک شارٹ رینج گن اور بارہ بور کی ڈبل بیرل رائفل تھی۔ ڈپٹی کے پاس بھی ایک جدید شاٹ گن تھی جبکہ نور محمد کے پاس ایک دیسی ساخت کی شاٹ گن تھی۔ڈپٹی اور نور محمد باقاعدہ شکاری نہیں تھے لیکن نشانہ دونوں کا برا نہیں تھا۔نور محمد کے پاس ایک اضافی بات یہ تھی کہ وہ نفرت اور انتقام کی آگ میں سلگ رہا تھاجس کی وجہ سے اس کے اندر ایک غیر معمولی ارتکاز اور عزم موجود تھا جو بڑے شکار کیلئے از بس ضروری ہوتا ہے۔

نور محمد اپنی کیفیات پر قابو پاچکا تو ثانی نے ایک پیشہ ور شکاری کے طور پر اپنی کھوج کا آغاز کیا۔اس نے دیکھا کہ جہاں گلابے کو درندے نے دبوچا تھا وہاں جمے ہوئے خون کا ایک ننھا ساتالاب بنا ہوا تھا اور اس کے ساتھ خون کی ایک لکیر جنگل کی گہرائیوں میں جارہی تھی۔اس کے ساتھ ہی اس کے پگ بھی غیر واضح پر وہاں موجود تھے۔وہ اس لکیر کے تعاقب میں چل پڑے۔ثانی نے غور سے دیکھا کہ خون کی بڑی لکیر کے متوازی ایک چھوٹی سی لکیر بھی قطروں کی صورت میںساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ یقینا یہ کلہاڑی کے اس وار کا شاخسانہ تھا جو آدم خور کے اگلے کندھوں کے عین درمیان لگا تھا۔گلدار زخمی تو تھا لیکن زخم یقینی طور پر بہت گہرا نہیں تھا ورنہ اس کے جسم سے خون زیادہ مقدار میں بہتا۔لہو کی دونوں لکیریں مشکپوری کی بلندیوں کی طرف جارہی تھیں۔

ثانی نے غور سے مشکپوری کی سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے نو ہزار فٹ بلند کوہان کی طرف دیکھا ۔پہاڑ کی اٹھان بلند و بالا درختوں کے گھنے جنگل میں مستور تھی ۔اس نے پہاڑ کی بلندی پر نظر جماتے ہوئے کچھ سوچا اور کہا۔

’’خون کی لکیر مشکپوری کی بلندی کی طرف جارہی ہے لیکن یقینی طور پر یہ پہاڑ اس کا ٹھکانہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاںسیاحوں کی بہت آوا جاوی لگی رہتی ہے جبکہ گلدار لوگ سخت مردم بیزار واقع ہوئے ہیں۔انسانوں کی دنیا سے ہر ممکن حد تک دور اور خفیہ ٹھکانوں میں رہتے ہیں۔‘‘

’’مشکپوری پر بنے ٹریکس کی وجہ سے اس پہاڑ پر چڑھنا بہت آسان ہے۔باہر سے جو کوئی بھی آتا ہے اس پہاڑ کو دیکھ کر کوہ پیمائی کا شو ق پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے‘‘۔ڈپٹی نے اس کے خیال کی تائید کی۔

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہاڑ کی دوسری جانب جانا پڑے گا‘‘۔ثانی نے خیال آرائی کی۔’’نور محمد! یہاں کہیں قدرتی غار تو ہوں گے؟‘‘۔

’’غار ہیں تو سہی لیکن وہ یہاں سے کچھ فاصلے پر الگ تھلگ علاقے میں ہیں‘‘۔نور محمد نے بتایا۔

’’ہمیں شاید اسی علاقے میں جانا پڑے گا۔تم ہماری رہنمائی کرسکتے ہو؟‘‘ثانی نے پوچھا۔

’’نہیں صاب! میں کبھی اس طرف نہیں گیا‘‘۔نور محمد نے بتایا۔

’’کوئی بات نہیں آدم خور خود ہمیں اپنے ٹھکانے پر لے کر جائے گا‘‘۔ثانی نے گلدار کے پائوں کے نشانات کھوجنے کیلئے زمین پر نگاہ جمائی۔خون کی لکیر کے ساتھ ساتھ چلتے اسے درندے کے پگ بھی مل گئے۔یہ پگ کسی مادہ گلدار کے تھے۔اس نے غور سے دیکھا تو تین پگ کے نقش تو ایک جیسے گہرے تھے جبکہ اگلے بائیں پائوں کا پگ ان کی نسبت دھندلا اور مٹا مٹا سا تھا۔اس سے ثانی نے نتیجہ نکالا کہ آدم خور گلدار تھوڑا لنگڑا کر چلتی ہے۔غالباً اسے اس وقت اگلی ٹانگ میں گولی لگی ہوگی جب اس کے سامنے اس کے بچوں کو اٹھایا گیا تھا۔

ثانی نے گلداروںکے بارے میں اپنا علم دریائو بہاتے ہوئے انہیں بتایا کہ بلی کی نسل کا یہ درندہ بہت کم آدم خوری میں ملوث ہوتا ہے۔ایسا اگر ہوتا ہے تو صرف اس صورت میں جب وہ اس قدر ضعیف یا زخمی ہو کہ جنگلی جانور کا شکار کرنے کے قابل نہ رہے۔ایک اور صورت یہ ہے کہ وہ حادثاتی طور پر انسان پر حملہ آور ہوکر اس کے خون کا ذائقہ چکھ لے۔ایک بارایسا ہوجائے تو وہ کسی اور جانور کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کیونکہ انسان کا خون اور گوشت نمکین ہوتا ہے جو اسے اس قدر پسند آتا ہے کہ وہ پھیکے گوشت والے دوسروں جانوروں کو شکار کرنا چھوڑ دیتا ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ مادہ گلداروں میں آدم خور بننے کی مثالیں نر گلداروںکی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔یوں بھی وہ عام طور پر نر سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے بچوں کے ہمراہ ہو اور انہیں کوئی خطرہ درپیش ہو۔اس صورت میں وہ جان پر کھیل جاتی ہے لیکن اپنے بچوں پر آنچ نہیں آنے دیتی۔

’’ہمیں جس آدم خور سے واسطہ پڑا ہے اس کے بارے میں میں کل بتاچکا ہوں کہ یہ ایک زخم خورد ماں ہے جس کے بچوں کو اس کے سامنے اٹھالیا گیا تھا۔وہ اس وقت تو کسی وجہ سے انہیں نہ بچاسکی تھی لیکن اس کے بعد وہ انسانوں سے انتقام لینے پر اتر آئی ہے۔‘‘ڈپٹی نے اس کی بات میں اضافہ کیا۔

’’اور یہ زخم خوردہ ماں اب کسی بدروح سے بھی زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔اگر اسے فوری طور پر نہ مارا گیا تو اس کے شکاروں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا جائے گا‘‘۔ثانی نے پر خیال انداز میں کہا۔’’ گلدار نارمل حالت میں بھی سفاکی اور چالاکی میں بے مثال ہوتا ہے لیکن اگر یہ آدم خور ہو اور خاص طور پر اگر مادہ ہو تو اس کے بارے میں کوئی بھی اندازہ لگانا ، اسے گھیرنا اور مارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے‘‘۔

نور محمد جو ساری گفتگو توجہ کے ساتھ سن رہا تھا ۔اسے ایک خیال سوجھا ’’صاب!مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس خبیث کا خاص طور پر نشانہ ڈونگا گلی کا علاقہ ہی کیوں ہے؟‘‘ْ

’’بھئی ظاہر ہے ڈونگا گلی اس کے اپنے علاقے کے اندر شامل ہے اور شاید اس کے ٹھکانے سے قریب ترین ہے‘‘۔ڈپٹی نے جواب دیا۔

’’ڈپٹی صاب! آپ نے بتایا تھا کہ آپ نے حاجی کے پاس دو چھوٹی عمر کے چیتے میرا مطلب لیپرڈ دیکھے ہیں!؟‘‘۔نور محمد نے کسی خیال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا۔

’’ہاں، بتایا تو تھا‘‘۔ڈپٹی نے کہا۔

’’ثانی صاب! ایسا نہیں ہوسکتا کہ اسے کسی طرح سے پتا چل گیا ہو کہ اس کے بچے ڈونگا گلی میں ہی ہیںاور وہ کسی طرح ان تک پہنچنا چاہ رہی ہو؟ــ‘‘ْ

’’خیر ممکن تو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مجھے یہ افسانوی سی بات لگتی ہے۔در اصل۔۔۔‘‘ثانی نے کچھ کہنا شروع کیا۔

ثانی کے علم دریائو کو ابھی اور بہنا تھا کہ اچانک ڈپٹی کا پائوں رپٹا اور وہ اپنی شارٹ گن سمیت گہرائی کی طرف لڑھک گیا۔خیریت گذری کہ گرتے ہوئے ایک جھاڑی اس کے ہاتھ آگئی جس کی وجہ سے وہ گہرائی میں جانے سے بچ گیا۔اس اچانک حادثے پر وہ جھرجھرا کر رہ گئے۔ثانی اور نور محمد نے جھانک کر دیکھا تو دل دہک سے رہ گیا۔کھائی جس میں ڈپٹی لڑھک گیا تھا کسی بھی طرح تین چار سو فٹ سے کم گہری نہ تھی۔انہوں نے جھک کر ڈپٹی کا فارغ ہاتھ پکڑا اور لگے زور لگانے۔ڈپٹی نے بھی زور لگا کر خود کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی ۔اس دوران اس کا ایک پائوں باہر کو نکلے ہوئے ایک پتھر کی کگر پر ٹک گیا ۔یوں تھوڑی بہت زور آزمائی کے بعد وہ اسے اوپر کھینچ لینے میں کامیاب ہوگئے۔وہ کھائی سے نکلا تو بے جان سا ہوکر لیٹ گیا۔تھوڑی سرعت بحال ہوئی تو کھسیانا سا اٹھ بیٹھا۔ثانی نے پانی کی بوتل میں سے اسے چند گھونٹ پلائے ۔ڈپٹی کی کہنیاں چھل گئی تھیں۔ثانی نے فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اسے ٹنکچر لگائی اور فیصلہ کیا کہ یہاں تھوڑی دیر آرام کرکے پھر آگے بڑھا جائے۔

کچھ دیر آرام کے بعد وہ اٹھے اور لہو کی لکیر کو نگاہ میں رکھتے ہوئے چڑھائی کا سفر دوبارہ شروع کردیا۔وہ تھوڑا آگے بڑھے تو انہیں گلابے کا تار تار لباس دکھائی دیا۔یہ وہ مقام تھا جہاں مادہ لیپرڈ نے کچھ دیر رک کر اس کا خون پیا اور پھر اسے لے کر آگے بڑھ گئی تھی۔نور محمد نے جھپٹ کر لباس کی دھجیاں اٹھا لیں اوردیر تک سحر زدگی کے عالم میںانہیں آنکھوں کے سامنے پھیلائے دیکھتا رہا۔اس کی کیفیت دیکھ کر ان دونوں کے دل بھی غم سے بوجھل ہوگئے۔بہت دیر گذری تو اس نے اپنی کمر سے بندھا رک سیک اتارا اور ان دھجیوں کو بہت احتیاط کے ساتھ رکھ کر زپ بند کردی۔پھر وہ تھکے ہوئے انداز میں دو قدم پیچھے ہٹا اور پہاڑ کی نرم مٹی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔وہ کسی انجانے خلا کے حصار میں داخل ہوچکا تھا اور آسمان پر کسی موہوم نقطے یا شاید کسی انجان زبان میں لکھی کسی ان دیکھی تحریر پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔انہوں نے برف کی کچی تہہ ٹوٹنے جیسی آواز سنی اور دیکھا کہ نور محمد کے پورے بدن پر شاخ در شاخ دراڑوں کا جال پھیلا اور وہ کرچیوں میں بٹ گیا۔پھر وہ آپ ہی آپ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔انہوں نے پہلی بار کسی کا جذباتی قتل دیکھا تھا۔

ثانی نے گہری سانس لے کر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔اس نے بچپن سے اب تک بہت ہلاکتیں دیکھی تھیں۔حادثے، بیماریاں، سیاست اور مذہب کے نام پر مخالفین کا قتل اور بہت کچھ لیکن وہ کبھی ٹھیک سے اندازہ نہ لگاپایا تھا کہ جب کسی کا جذباتی تعلق موت کی گود میں جاسوتا ہے تو کیسے وہ شخص چپ چاپ اندر سے مرجاتا ہے۔وہ آگے بڑھا اور اس نے نور محمد کے گرد بازو حمائل کردئیے۔نور محمد نے ایک تھکے ہارے بچے کی طرح اس کی چھاتی پر سر رکھ دیا۔وہاں کچھ بھی نہیں تھاکوئی سسکی، کوئی آہ، کوئی فغاں کچھ بھی نہیں ۔بس ایک اداسی تھی اور ایک خاموشی تھی۔

مدتوں بعد نور محمد خود کو سنبھال لینے میں کامیاب ہوا تو انہوں نے آگے کا سفر شروع کیا۔ثانی ان سے تھوڑا الگ ہوکر چوکنا سا چل رہا تھا۔نور محمد اور ڈپٹی کی ذمہ داری تھی کہ وہ راستے کو پہچان میں رکھنے کیلئے جگہ جگہ پتھر اور شاخوں سے نشانیاں لگاتے جائیں سو وہ دونوں اپنے کام میں مصروف تھے۔مشکپوری کے ڈھلوانی سبزہ زار پر چلتے چلتے اچانک انہیں رک جانا پڑا۔سامنے ایک چٹان حائل تھی اور نیچے ایک کھائی تھی۔چٹان ایک نیم دائرہ بناتے ہوئے شمال مشرق کی سمت گھوم رہی تھی۔اس کے ساتھ راستہ تو موجود تھا لیکن چٹان کے ساتھ ساتھ چند گز تک نہ ہونے کے برابر تھا۔صرف گلدار جیسا سبک قدم جانور ہی اس چٹان پر چڑھ کر کھائی سے بچتے ہوئے دوسری طرف جاسکتا تھا۔خیریت یہ گذری کہ کھائی زیادہ گہری نہیں تھی۔ رسے کی مدد سے لٹک کر پار اترا جاسکتا تھا۔

وہاں پہنچ کر انہیں رکنا پڑا۔نور محمد نے نے کھائی کا جائزہ لیا اور پھر رک سیک سے ایک رسہ نکال لیا۔

’’صاب! ہمیں اس کھائی کو عبور کرکے دوسری طرف جانا پڑے گا۔میں یہ رسہ نیچے لٹکاتا ہوں آپ دونوں اس کی مدد سے نیچے اتر جائو۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن ثانی! یہ بتائو کہ آخر گلدار کوکیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ اپنے شکار کو گھسیٹتے ہوئے اتنی دور تک لے جائے؟‘‘۔ڈپٹی نے الجھن سے کہا۔

’’یہ اس کی فطرت ہے کہ وہ شکار کو وہیں کھانے کی بجائے اسے اپنے محفوظ ٹھکانے پر لے جاتا ہے چاہے وہ ٹھکانہ کئی کلو میٹر دور ہی کیوں نہ ہو۔وہاں جاکر وہ عام طورپر کسی درخت پر چڑھ جاتا ہے اور پھر اطمینان سے اپنا پیٹ بھرتا ہے یا پھر کھلے میں یہ کام کرتا ہے۔دیکھتے ہیں اس کیس میں کیا سامنے آتا ہے۔ہمیں بہر صورت اس کے ٹھکانے تک پہنچنا ہی ہوگا‘‘۔ثانی نے اس کے علم میں اضافہ کیا اور ڈپٹی کندھے اچکا کر رہ گیا۔

’’پہلے کون کھائی میں اترے گا؟‘‘۔ڈپٹی نے پوچھا۔

’’پہلے تم نیچے اتر و گے پھر میں جائوں گا اور آخر میں نور محمد اترے گا۔‘‘

وہ تینوں رسے کے ساتھ لٹکتے ہوئے کھائی میں اتر کر پار گئے اور پھر گھوم کر چٹان کی دوسری طرف پہنچ گئے۔یہاں پر خون کی لکیر معدوم ہوچکی تھی۔ثانی نے کچھ دور تک کچی مٹی کا بغور جائزہ لیا تو اسے گلدار کے پائوں کے نشانات مل گئے۔یہاں سے درندہ پہاڑ کی چوٹی کی جانب گیا تھا جو کچھ زیادہ دور نہیں تھی۔آگے چل کر خون کی واضح اور مسلسل لکیر غائب ہوچکی تھی صرف کہیں کہیں قطرے دکھائی دیتے تھے۔ثانی نے اندازہ لگایا تو اسے یہی خیال گذرا کہ درندے نے چٹا ن کو عبور کرنے سے پہلے اس جگہ بیٹھ کر لاش کا رہا سہا خون چوساہوگا ۔اب اسے خون کی لکیر کی بجائے قدموں کے نشانات پر انحصار کرنا تھا۔یہاں سے پہاڑ کی بلندی کو اپنی آغوش میں لیے گھنا جنگل شروع ہوتا تھا۔آدم خور نے گھنے جنگل کے اندر جانے کی بجائے کم گھنا راستہ چنا تھا۔وہ خون کی لکیر کو نظر میں رکھے ہوئے مسلسل چڑھائی چڑھتے رہے۔خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعد پہاڑ کی بلندی پر انہیں شفاف پانی کا چشمہ ملا۔اس چشمے کا شفاف پانی جنگلی جانوروں کی پیاس بجھانے کے علاوہ انہیں جنگل کے مخصوص ماحول سے کچھ دیر کیلئے نجات دلانے کا باعث بھی تھا۔ثانی نے اندازہ لگایا کہ وہ اب تک دو سے ڈھائی کلومیٹر کے درمیان فاصلہ طے کرچکے تھے۔جانے ابھی آدم خور نے اور کتنی دیر انہیں اپنے پیچھے لگائے رکھنا تھا۔فیصلہ ہوا کہ کچھ دیر اس پر فضا ماحول میں رک کر تازہ دم ہوا جائے۔وہاں دور تک پہاڑوں کی اونچی نیچی گھاٹیاں اور دور تک پھیلی سرسبز وادیاں دکھائی دے رہی تھیں۔مشکپوری کے اس مقام سے ایک جانب کشمیر کے بلند و پرشکوہ پہاڑ اور ان میں سے بل کھاکر نکلتا دریائے جہلم دکھائی دے رہا تھا تو دوسری طرف گلیات کی بلند ترین چوٹی میران جانی بھی کچھ ہی فاصلے پر ان کی نظروں کے سامنے تھی۔اگر جو کبھی وہ فرصت میں یہاں آئے ہوتے تو ان کی کیفیات کچھ اور ہوتیں لیکن وہ موت کے تعاقب میں لگے تھے اور انہیں صرف موت کو پچھاڑ دینے کے بارے میں سوچنا تھا۔

چشمے کے کنارے کی نم زمین پر بہت سے جانوروں کے پائوں کے نشانات ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہورہے تھے ۔اگر گلدار لاش کو لے

کر یہاں سے گذری تھی یا پانی پینے آئی تھی تو اس کے نشانات بعد میں یہاں آنے والے جانوروں کے نشانات تلے گم ہوچکے تھے۔

وہ کچھ دیر کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا سوچتا رہا اور پھر طے کیا کہ انہیں چشمے کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھنا چاہیے ۔یوںوہ چشمے کے کنارے کنارے ہوتے دوسری جانب مڑگئے ۔یہاں سے انہیں اترائی کا رخ کرنا تھا۔

ان کے سامنے کوہستان کا گنجلک سلسلہ ایک کھلی کتاب کی صورت میں پھیلا ہوا تھا جہاںجنگلات کا سبز پیرہن اوڑھے پہاڑ ورق در ورق خود کو جتنا دکھا رہے تھے اس سے زیادہ چھپا رہے تھے۔وہ ایک بے نہایت حسن مستور کے روبرو تھے۔انہیں لگا کہ وہ چلتے چلتے کسی اور دنیا میں نکل آئے ہیں۔ایسی دنیا جو کسی نقشے کا حصہ نہ تھی ۔ایک گداز اور سفاک دنیا جس کے قلب میں صدیوں قدیم غاریں تھیں۔ان میں ایک غار تھی جس کی گہرائیوں میں موت سو رہی تھی اور انہیں اس موت کو ہلاک کرکے اس کے بطن سے زندگی کو طلوع کرنا تھا۔

وہ چشمے سے زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے کہ ثانی کی کھوجی نگاہوں نے خون کے قطروں سے بنی موہوم سی لکیر کا پھر سے سراغ پالیا۔ آدم خور نے چشمے سے میران جانی پہاڑ کی جانب رخ کیا تھا۔یہاں زمین سنگلاخ اور غیر ہموار تھی۔نور محمد ان کی رہنمائی کیلئے ان کے آگے چل رہا تھا۔انہیں جنگل میں اپنا سفر شروع کیے خاصی دیر ہوچکی تھی۔سورج جو بادلوں کی اٹھکیلیوں کو ایک بزرگانہ بردباری کے ساتھ برداشت کیے جارہا تھااب سہہ پہر کے منطقے میں داخل ہونا شروع ہوگیا تھا۔وہ لہو کی موہوم لکیر کے تعاقب میں حد درجہ انہماک کے ساتھ چلے جارہے تھے اور بھول چکے تھے کہ وہ کہاں سے چلے تھے اور کتنا فاصلہ طے کرچکے تھے۔

’’وہ سامنے والے پہاڑ وں میں قدرتی غار موجود ہیں‘‘۔نور محمد نے شمال مغرب کی جانب پھیلے دھندلکے کی طرف اشارہ کیا۔’’ہم ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

نور محمد کی اطلاع پر ان کے اعصاب کی ڈوریاں تن گئیں اور تمام تر حواس بیدار ہوگئے۔وہ موت کی کمیں گاہ میں داخل ہوچکے تھے۔یہاںکہیں بھی ، کسی بھی جھاڑی یا پتھر کی اوٹ میںاس آدم خور کی موجودگی ممکن تھی جو اپنی سفاکی اور چالاکی کی وجہ سے بدروح قرار پاچکی تھی۔ان کی رائفلیں کندھوں سے اتر کر ہاتھوں میں آگئیں اور قدم تھم تھم کر اٹھنے لگے۔ثانی اور ڈپٹی میدانوں کے پالے ہوئے تھے سو طویل فاصلے تک پہاڑوں کی دشوار گذاری کا سامنا کرتے کرتے ان کی پنڈلیاں پتھرانے لگیں اوررفتہ رفتہ رفتار مدہم پڑنے لگی ۔دوسری طرف مرد کوہستانی نور محمد تھکن سے بے نیاز آگے ہی آگے بڑھے چلا جارہا تھا۔اب ان کے اور نور محمد کے درمیان فاصلہ بڑھنے لگا۔انہوں نے دیکھا کہ اچانک ایک جھاڑی کے پاس پہنچ کر نور محمد کے قدم رکے اور وہ ایک جا ساکت ہوگیا جیسے زمین نے اس کے پائوں جکڑ لیے ہوں۔

’’صاب! یہاں آنا‘‘۔اس نے گھٹی گھٹی آواز میں وہیںسے پکارا۔

اس کی آواز میں کچھ غیر معمولی سنجیدگی اور بوجھلتا تھی کہ ثانی اور ڈپٹی چوکنے سے ہوکر تیز قدموں اس کے قریب پہنچ گئے۔اس نے جھاڑی کے قریب زمین کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے دیکھا کہ وہاں کچھ ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ثانی نے جھک کر کچھ ہڈیاں اٹھائیں۔اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔یہ انسانی جسم کی ہڈیاں تھیں۔اس نے نور محمد کی طرف دیکھا جو پتھرائے ہوئے چہرے کے ساتھ دورکہیں نظریں جمائے کھڑا تھا۔ثانی نے گھوم پھر کر جائزہ لیا تو اسے جھاڑی کی اوٹ میں ایک ادھ کھائی نسوانی ٹانگ بھی دکھائی دی۔یہ کسی نوجوان لڑکی کی ٹانگ تھی۔جانے کس وجہ سے آدم خور نے اسے ادھ کھایا چھوڑ دیا تھا اور اب یہ بے شمار کیڑے مکوڑوں کا رزق بنی ہوئی تھی۔یہی وہ مقام تھا جس کی انہیں تلاش تھی۔آدم خور اپنی عادت کے مطابق لاش کو کئی کلومیٹر تک گھسیٹتا ہوا لایا تھا اوراس محفوظ جگہ پر پہنچ کر اس نے اطمینان کے ساتھ نمکین انسانی گوشت سے پیٹ بھرا تھا۔

ثانی نے ایڑھیوں کے بل گھومتے ہوئے سارے کا جائزہ لیا۔وہ سفاک آدم خور یہیں کہیں تھی اور شاید انہیں دیکھ رہی تھی۔

ثانی نے نور محمد سے نظریں ملائے بغیر ڈپٹی کو اشارہ کیا تو اس نے سامان میں سے ایک چادر نکال لی۔دونوں نے گہرے سکوت کے ساتھ گلابے کی باقیات کو چادر میں ڈال کر اسے احتیاط اور مضبوطی سے باندھ دیا۔

نور محمد نے سلوموشن میں ہاتھ بڑھایا اور گٹھڑی ڈپٹی سے لے کر بغل میں داب لی۔

ڈپٹی نے چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کرکے اس جگہ پر ایک گول دائرہ بنادیا۔پہچان سے محروم ہوجانے والی گلابے اب مادی پہچان کے ٹھوس اور قابل لمس دائرے میں داخل ہوچکی تھی۔

’’اب گلابے بے نشان نہیں رہے گی۔اس کی ایک قبر ہوگی اور ہم اس پر دئیے جلا کر اسے یاد کیا کریں گے‘‘۔نور محمد کی تاثرات سے عاری بوجھل آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔

انہوں نے اپنے ہتھیار ایک طرف رکھے اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھادئیے۔یہ دعا کے پہلے پھول تھے جو ایک سہاگن نہ بن سکنے والی دلہن کے ایتھریکل وجود پر نچھاور کیے گئے تھے۔

سورج مغرب کے رخ پھسلتا ایک قریبی پہاڑی کے فراز پر ایستادہ دیودار کی پھننگ پر اٹک گیا تھا اور وادی میںسائے دراز ہونا شروع ہوگئے تھے۔ کوئی دیر گذرتی کہ سورج پہاڑی کی اوٹ میں چھپ جاتا اور ہر سو فضا میں شام کے رنگ گھل جاتے۔یہ وقت تھا کہ جب دن بھر کی نیند اور آلکس کے بعد گلدار اپنی سلطنت کی سیر کیلئے کمیں گاہ سے نکل آیا کرتے ہیں۔وہ وادی کے ہولناک پھیلائوکے درمیان موجود تھے ۔ان کیلئے چہار اطراف خطرہ ہی خطرہ تھا۔کسی بھی سمت سے موت ان پر جھپٹا مار سکتی تھی ۔ثانی نے نور محمد اور ڈپٹی کو وہیں مخالف سمتوں کی نگرانی کیلئے چھوڑا اور خود ان کے Coverمیں آگے بڑھنے لگا۔اسے اپنے اندازے کی تصدیق کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ایک چوہے کی نسل کا مقامی جانور مری وول اچانک نمودار ہوا اور اس کے قریب سے رینگتا ہوا دور نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں جنگل کا پر اسرار سکوت ٹوٹنے لگا۔قریب کے درختوں میں آوازیں انگڑائی لے کر جاگ اٹھی تھیں۔کسی درخت کی اوٹ سے کوئی پرندہ زور سے چیخا۔اس کے ساتھ ہی بے شمار پروں کی تیز پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔یہ اشارہ تھا کہ پرندوں نے اس جنگل کی ملکہ کو دیکھ لیا ہے۔

یہاں سے بلند قامت درختوں کے ساتھ ساتھ جھاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔یہ جھاڑیاں اس کے قد سے اونچی اور ایک دوسرے کے ساتھ گتھی ہوئی تھیں۔ثانی کو ان جھاڑیوں سے بچتے بچاتے آگے بڑھنا تھا۔ اس کے سامنے چند ہی قدم کے فاصلے دو تین بندر زمین پر بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھے۔اچانک ان کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے گردن گھما کر دیکھنا شروع کردیا۔اس کے ساتھ ہی درختوں پر موجود بہت سے بندروں نے سہمی ہوئی آوازیں نکالنا شروع کردیں۔زمین پر بیٹھے بندر بھی پھرتی سے اٹھے اور ان میں جاملے۔بیس پچیس بندروں کا ایک گروہ تھا جو وہاں سے سر پر پائوں رکھ کر بھاگ نکلا۔یہ گلدارکے کہیں بہت قریب ہونے کی سب سے پکی نشانی تھی۔

ثانی کے اعصاب تن گئے۔ایک ہلکی سی کھٹ کے ساتھ اس نے رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹایا اور رائفل بلند کرکے اپنے عقب میں خاصے فاصلے پر موجود اپنے ساتھیوں کو گلدار کی موجودگی سے مطلع کردیا۔وہ بھی اپنی جگہ پر مضبوط اور مستعد ہوکر بیٹھ گئے۔ان کی شاٹ گنیں کسی بھی لمحے آگے اگلنے کیلئے تیار تھیں۔

شدید خطرے کی حالت میں موجود کسی بھی شکاری کی طرح ثانی کے پورے بدن پر آنکھیں اگ آئی تھیں۔وہ بیک وقت جھاڑیوں پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھا اور اپنے آگے پیچھے کی خبر بھی رکھے ہوئے تھا۔اس کی سماعت حساسیت کی انتہائی سطح پر بیدار تھی کہ جونہی کوئی آہٹ ملے دماغ کو خبر کردی جائے۔وہ ایڑھیوں پر دبائو ڈالتا کچھ اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک کم گہری کھائی اس کی منتظر تھی۔اس کے دو اطراف جھاڑیاں سر اٹھائے کھڑی تھیں اور سامنے کھائی تھی۔ اطمینان کی بات یہ تھی کہ کھائی کم گہری تھی جس میں اترنا کوئی خاص مشکل نہیں تھا ۔وہ ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ کس مقام سے وہ کھائی میں زیادہ آسانی سے اتر سکتا ہے کہ ایک مخصوص ہلکی اور مسلسل غراہٹ ان کے کان میں پڑی۔اس کے قدم جہاں تہاں تھم گئے۔ گلدار نے انہیں دیکھ لیا تھا۔ کھائی میں مشکل سے پچاس ساٹھ فٹ کے فاصلے پر ایک پستہ قد جھاڑی تھی جو اس غراہٹ کا مرکز تھی۔اس نے جھاڑی کو ہلتے ہوئے دیکھا۔اس کے ساتھ ہی اس نے گلدار کے کالے گلابوں سے مزین سنہرے پن کی طرف مائل گہرے زرد رنگ کے جسم کی ایک جھلک دیکھی جو آناً فانا غائب ہوگئی۔

ثانی کھلے میں کھڑا تھا اور گلدار کیلئے نسبتاً آسان ہدف تھا۔ گلدار نے اسے نگاہ میں لے رکھا تھا جبکہ خود گلدار اس کی نظر سے اوجھل تھا اور پھر جھاڑیوں کے عقب میں ہونے کی وجہ سے اسے نقل و حرکت میں آسانی تھی جبکہ وہ کھلے میں تھا اور کسی بھی جانب سے حملے کی زد میں آسکتا تھا۔اس نے پندرہ بیس قدم دور ایک تناور درخت کو دیکھا جو مٹی اور پتھروں کے ایک تودے کے بہت قریب تھا۔ثانی کیلئے وہ تودہ محفوظ اوٹ کا کام دے سکتا تھا کیونکہ اس کی آڑ لینے کی صورت میں اس کی پشت محفوظ ہوجاتی اور وہ آسانی سے سامنے کی جانب توجہ دے سکتا تھا لیکن مسئلہ تھا وہاں تک پہنچنا۔جبکہ یہاں تو معاملہ تھا کہ پلک جھپکی نہیں اور گلدار جھپٹا نہیں۔کہیں دور کوئی پرندہ خوفزدہ آواز میں ٹرایا اور اس کے عین سامنے ایک اور جھاڑی بہت زور سے ہلی۔گلدار نے مقام تبدیل کرلیا تھا اوراس پر جاپڑنے کیلئے بہتر پوزیشن کی تلاش میں تھا۔کوئی لمحہ جاتا کہ اس کی غراہٹ ایک فلک شگاف دھاڑ میں بدل جاتی اور اس کی گردن گلدار کے بے رحم جبڑے میں ہوتی۔ایک ایک پل برس برابر تھا۔اور پھر یکلخت خاموشی چھا گئی۔اس نے اندازہ لگایا کہ اس کا حریف اس تک پہنچنے کیلئے کسی پستہ قد جھاڑی یا جھاڑیوں کے درمیان کسی راستے کو تلاش کررہا ہے کیونکہ وہ اس وقت جن جھاڑیوں کے پیچھے تھا وہ اس قدر بلند تھیں کہ وہ صرف پھلانگ کر ہی انہیں عبور کرسکتا تھا۔اس نے فرصت کے اس موقع کو غنیمت جانا اور دوڑ کر درخت کے عقب میں پہنچ گیا۔اس نے اپنی سانس ہموار کی اور ایک جگہ جم کر بیٹھ گیا۔اب سٹریٹجک پوزیشن کے اعتبار سے اسے اپنے حریف پر سبقت حاصل ہوگئی تھی۔

اس نے شام کی خنکی میں اپنے ماتھے پر آئی ہوئی تریلی پونچھی اور رائفل کے ٹریگر پر انگلی کی گرفت مضبوط کردی۔درخت کی اوٹ میں جانے کے بعد اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا تھا اور اب وہ ایک تجربہ کار شکاری کے مخصوص انہماک اور مستعدی کے ساتھ کسی بھی آن ایکشن کیلئے تیار تھا۔خاموشی کا وقفہ طویل تر ہوگیاتھا جس سے وہ تھوڑا جھنجھلا سا گیا۔کہیں یہ نہ ہو کہ درندہ اپنا ارادہ ملتوی کرکے وہاں سے سٹک گیا ہو۔اس کی نگاہیں بدستور گھنی جھاڑیوں پر جمی تھیں ۔ان جھاڑیوں میں مناسب فاصلوں پر کچھ کمزور اور کچھ تناور درختوں کی ایک لائن سی کھڑی تھی۔اچانک ایک بوجھل خاموشی کے برسوں طویل وقفے کے بعد ایک جھاڑی زور سے ہلی ۔درندہ کہیں نہیں گیا تھا ۔ وہ جھاڑیوں کے پیچھے ہی موجود تھا ۔اس نے چاہا کہ جھاڑی کے درمیان میں فائر داغ دے کہ پلک جھپکنے سے بھی کم وقفے میں ا س نے دیکھا کہ وہ ایک درخت کی تنومند شاخ پر چڑھا کھڑا ہے۔وہ چند فٹ کی دوری پر اپنے تقریباً سامنے اسے نہایت واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔اس کی تجربہ کار نگاہوں نے فوری طور پر اس کا جائزہ مکمل کرلیا۔وہ مادہ لیپرڈ تھی اور یقینی طور پر وہی آدم خور تھی جس کی اسے تلاش تھی۔اس غیر متوقع نظارے نے لمحہ بھر کیلئے اس کے اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اس نے فائر کرنے سے پہلے گہرا سانس لے کر اپنے ہیجان پر قابو پانے کی کوشش کی۔

اس نے تعجب سے دیکھا کہ مادہ گلدارنے لحظہ بھر کیلئے اس درخت کی جانب دیکھا جس کی اوٹ میں وہ چھپا ہوا تھا۔صرف ایک لمحہ تھا جب دونوں کی نظریں ملیں۔ثانی نے بہت مرتبہ نہایت قریب سے درندوں کو شکار کیا تھا۔کئی مرتبہ فیصلہ کن لمحے سے پہلے اس کی نظریں درندے کی نظروں سے ملی تھیں لیکن اس نے کسی درندے کی آنکھ میں اتنی وحشت اور جلن نہ دیکھی تھی۔تب ثانی نے دیکھا کہ اس کی ناک کے قریب بال تن کر کھڑے ہوگئے اور اس کے حلقوم کی گہرائیوں سے دھیمی سی غراہٹ نکلی۔وہ اس پر جھپٹ پڑنے کیلئے تیار تھی۔ثانی کی انگلی بھی ٹرائیگر پر سختی سے جم گئی۔وہ اندازہ لگاچکا تھا جست بھرنے کے دوران اس کا جسم ہوا میں کتنے زاوئیے کی قوس بنائے گا۔درندہ جونہی چھلانگ لگاتا وہ اس پر فائر کھول دیتا اور اسے اپنے تک پہنچنے سے پہلے ہی زمین پر مارگراتا ۔ اور پھر اچانک جھاڑیوں پر کوئی چیز دھپ سے گری جیسے کسی نے پتھر اچھالا ہو ۔آدم خور نے چونک کر دوسری جانب دیکھا اور پھر کہیں اس کی نظریں جم کر رہ گئیں۔

آدم خور نے اس پر حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا تھا کہ اب کسی اور چیز نے اس کی توجہ حاصل کرلی تھی۔اس کا دل دھک سے رہ گیا۔یقینااس نے نور محمد یا ڈپٹی میں سے کسی ایک کو دیکھ لیا تھا اور اب ان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ باندھ رہی تھی۔اگر جو وہ اس کی طرف سے غافل ہوئے تو!؟۔اس نے اس خوفناک خیال کو جھٹکنے کیلئے زور سے سرہلایا۔یہ خیال ہی دہشت ناک تھا کیونکہ اس صورت میں ان دونوں میں سے کسی ایک کی موت یقینی تھی۔ادھر ثانی کی دائیں آنکھ ڈبل بیرل کی مکھی پر جمی تھی ادھر آدم خور ایک مسلسل دھیمی غراہٹ کے ساتھ کسی اور جانب جست بھرنے کیلئے اپنے جسم کو تول رہی تھی۔

ثانی کی واحد کھلی آنکھ نے دیکھاکہ اس کے کان کھڑے تھے اور اس کی بلند ہوتی مضبوط اور طویل دم اب تیز تیز ہلنے لگی تھی۔پھر ایک سلو موشن میں اس نے اپنے جسم کو نیچے کرکے آگے کی طرف جھکایا۔ثانی کے پاس صرف ایک لمحہ تھا جس کے بعد وہ بیس فٹ طویل چھلانگ لگاچکی ہوتی۔اس کی ٹریگر پر انگلی کی گرفت مضبوط تر ہوئی کہ اچانک شاٹ گن کے فائر سے جنگل کا سکوت ایک چھناکے کے ساتھ کرچی کر چی

بکھر گیا۔اسی آن ثانی کی ٹریگر پر جمی انگلی نے ایک جھٹکا کھایا اور اس کی ڈبل بیرل سے دو شعلے لپکے۔دو سمت سے ایک ہی وقت فائر ہوئے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔آدم خور غائب ہوچکی تھی۔دوسری جانب سے کچھ اور فائر داغے گئے لیکن بیکار۔ ثانی نے ایک گہری سانس لے کر اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔درخت کی وہ شاخ خالی تھی جس پر لمحہ بھر پہلے آدم خور حملے کیلئے پوزیشن سنبھال چکی تھی۔وہ حیران تھا کہ اس کا نشانہ کیسے چوک گیا۔اتنی سرعت ، اتنی پھرتی تو کسی چھلاوے سے بھی بعید ہے۔کیا ایک درندہ آدم خور بن کر اس قدر پھرتیلا اور عیار بن جاتا ہے۔۔۔؟

‘‘بدروح!؟‘‘ اس کے اندر کسی نے سرگوشی کی لیکن خیال کی اگلی لہر نے اس سرگوشی کو دم گھونٹ دیا۔

وہ  وہاںبے حس وحرکت کھڑا انتظا کرتا رہا لیکن جھاڑیوں کی اوٹ میں قیامت کی خاموشی تھی۔ اس نے تھوڑا اور انتظار کیا جس کے بعد وہ درخت کے پیچھے سے باہر نکل آیا۔دوسری طرف سے ڈپٹی اور نور محمد بھی بھاگتے ہوئے اس سے آملے۔جذبات کی شدت سے ان کے چہرے سرخ تھے اور سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔وہ آتے ہی اس کے ساتھ لپٹ گئے۔

’’دوست ہم اور تم زندہ ہیں۔۔۔!‘‘۔ڈپٹی نے اس کے ساتھ اپنی ایکسائٹمنٹ شیئر کرنا چاہی لیکن ثانی نے منہ پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کرادیا اور وہیں رکے رہنے کا اشارہ کیا۔وہ اس کا مطلب سمجھ کر الٹے قدموں درخت کی طر ف چلے گئے اور ثانی اپنی ڈبل بیرل کو سیدھا کیے دھیرے دھیرے جھاڑیوں کی طرف بڑھا۔وہ کچھ دیر جھاڑیوں کا جائزہ لیتا رہا اور پھر پلٹ آیا۔

’’کم بخت ہاتھ سے نکل گئی۔‘‘ثانی نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’کب تک بچے گی مال زادی؟‘‘نور محمد نے نفرت سے تھوک دیا۔

’’مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم اس کی طرف سے غافل نہ ہوجائو‘‘۔ثانی نے کہا۔

’’میں صرف ایک بار غافل ہوا تھا جب میری  پر اس مال زادی آنکھوں کے عین سامنے وہ میری گلابے کو گھسیٹتے ہوئے لے گئی تھی۔اب تو موت ہی مجھے اس سے غافل کرسکتی ہے۔‘‘نور محمد نے کہا اور اپنی ہیجان خیزی کو متوازن کرنے کیلئے ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

’’جب تم اکیلے جھاڑیوں کی طرف جارہے تھے تو ہمیں لگا کہ ہمارا وہاں کھڑے ہونا بیکار ہے جہاںتم نے ہمیں رکنے کو کہا تھا۔تب ہم بھی تمہارے پیچھے چلے آئے اور تم سے تھوڑے ہی فاصلے پر الرٹ ہوکر کھڑے ہوگئے‘‘ڈپٹی نے اپنے دوست کا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا۔

’’صاب! ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جھاڑیوں کے پیچھے ہے۔بندروں کی بھاگ دوڑ نے ہمیں سب بتادیا تھا۔تب ہم ڈر گئے کہ وہ کہیں بے خبری میں آپ پر حملہ نہ کردے۔۔۔‘‘نور محمد گویا ہوا۔

’’پروگرام تو اس کا یہی تھا لیکن پھر جانے کیوں اس نے ارادہ بدل دیا۔‘‘

’’ارادہ اس نے بدلا نہیں نور محمد نے بدلوایاتھا۔‘‘ ڈپٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ذرااس کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ جب وہ درخت پر نمودار ہوئی تو اس نے اس پر ایک پتھر اچھال دیا اور وہ تمہیں بھول کر ہماری جانب متوجہ ہوگئی۔‘‘

’’مائی گاڈ!‘‘۔ثانی کو جھرجھری سی آگئی۔’’نور محمد !شکار کے دوران ضرورت سے زیادہ اعتماد اور بہادری اکثر بہت مہنگی پڑتی ہے۔آئندہ احتیاط کرنا‘‘۔

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہو صاب! بعد میں مجھے بھی احساس ہوا تھا۔‘‘نور محمد نے سادگی سے اعتراف کیا۔

’’شام گہری ہورہی ہے۔واپس چلاجائے۔ایسا نہ ہو اندھیرا ہوجائے اور ہمیں واپسی کی نشانیاں نہ ملیں‘‘۔ثانی نے کہا اور انہوں نے اپنا اپنا سامان اٹھا کر واپسی کے راستے پر قدم رکھ دئیے۔

ڈونگا گلی واپس پہنچتے پہنچتے شام کے سایوں میں رات کی تاریکی گھل گئی تھی۔ثانی نے نور محمد کو پیسے دئیے کہ وہ کل تک ایک عدد بکری کا انتظام کررکھے جسے گلدار کے چارے کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔ان کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ نور محمد گلابے کی باقیات کو لے کر اکیلا ہی اپنے سسرال جائے گا اور باقی دونوں گھر پہنچ کر اس کا انتظار کریں گے۔بہت سے خوف اور خدشات تھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ گلابے کی ہڈیاں ملنے پر اس کے گھر والوں کا ردعمل کس نوعیت کا ہوگا جو پہلے ہی اس خیال کے اسیر ہوچکے تھے کہ محکمہ وائلڈ لائف نے گلیات کی بدروح کو مارنے کی کوشش کرکے اسے انتقامی بنادیا تھا اور گلابے کی جان اس کے انتقام کی بھینٹ چڑھی تھی۔نور محمد کیلئے بھی وہاں جذبات خوش کن نہیں تھے۔اسے بھی بدروح کو انتقام پر اکسانے والوں کا ساتھی قرار دیا جاچکا تھا۔

’’جانا تو پڑے گا۔‘‘نور محمد نے زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ کندھے اچکائے اور گلابے کے گھر کی سمت چل پڑا۔ثانی اور ڈپٹی نے بھی نور محمد کے گھر کی راہ لی۔وہ دن بھر کی تھکن اوڑھے گھر پہنچے تو ایک اور حیرت ان کی منتظر تھی۔وہ جونہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ صحن کے پار ایک بند کمرے کے دروازے پر ایک کاغذ چپکا ہواتھا۔ڈپٹی نے آگے بڑھ کر کاغذ اتارا اور دیکھا کہ اس پر بھتہ خوروں کے مخصوص انداز میں پستول کی ایک گولی چپکی ہوئی تھی اور موٹے بھدے حروف میں لکھا تھا۔

’’آخری وارننگ

واپسی یا موت

فیصلہ آج رات تک‘‘

ان کی غیر موجودگی میں کوئی باہر سے صحن میں کودا تھا اوراندرونی دروازے پر یہ کاغذ چپکا کر چلا گیا تھا۔اس میں ایک پیغام یہ بھی تھا کہ وہ بند دروازوں کے پیچھے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

’’اب تم مجھے نہیں روکو گے۔ہمیں کچھ کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ ہمارے ساتھ کچھ ہوجائے۔‘‘ ڈپٹی نے پرچہ لپیٹ کر جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے لیکن سرکاری سیکورٹی ملنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس اپنا کام کرنے کیلئے صرف کل کا دن ہے‘‘۔ثانی نے کندھے کو رائفل کے بوجھ سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔

’’تم فکر نہ کرو سب کچھ بہت جلدی میں ہوجائے گا۔‘‘

اگلے لمحے ڈپٹی نے موبائل فون پر سرکاری لوگوں سے رابطہ کرلیا۔وہ دیر تک انہیں صورتحال سمجھاتا رہا اور پھر مطمئن ہوکرموبائل ایک جانب ڈال دیا۔

’’وہ صورتحال سے پہلے سے ہی کافی حد تک آگاہ ہیں‘‘۔ڈپٹی نے اسے بتایا۔’’ہیڈ آفس میں کل سے گمنام کالیں موصول ہورہی ہیں جن میں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ہم دونوں کو فوری طور پر واپس بلانے کا کہا جارہا ہے‘‘۔

’’گڈ! اورہماری سیکورٹی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں تمہارے افسران؟‘‘

’’ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا جارہا ہے۔سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔اس نے مختصر سا جواب دیا اور جوتوں کے تسمے اتارنے میں مصروف ہوگیا۔

ثانی نے صحن میں چارپائیاں نکالیں او ر وہ دونوں اپنے پائوں کو جوتوں اور جرابوں کی قید سے آزاد کرکے ان پر دراز ہوگئے۔بھوک اور تھکن سے وہ نیم جان ہورہے تھے۔جنگل کی مہک لیے خنک ہوا کے تیز جھونکوں نے انہیں پتا بھی نہ چلنے دیا کہ کب ان کی آنکھیں مندھیںاور کب نور محمد اندر داخل ہوا۔

نور محمد نے جب انہیں گہری نیند سے جگایا تو رات کے دس بج رہے تھے۔وہ تین ساڑھے تین گھنٹے تک بے سدھ پڑے رہے تھے۔نور محمد نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے ساتھ کھانا لے کر آیا ہے ۔انہوں نے صحن کے ایک کونے میں لگے نل سے آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار کر اپنی سرت بحال کی ۔ان کے تازہ دم ہوتے ہوتے نور محمد کھانا گرم کرلایا۔ایک تو کھانا مزیدار اس پر قیامت کی بھوک ۔وہ دونوں ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے۔کھانے کے دوران نور محمد نے کوئی بات نہیں کی۔وہ غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھا۔انہوں نے اس سے پوچھا بھی تو وہ خاموش رہا۔نور محمد شدید جذباتی بحران میں تھا۔اس نے دستر خوان سمیٹا اورخاموشی سے کمرے میں چلاگیا۔

ثانی اور ڈپٹی چارپائیوں پر دراز ہوگئے اور چت لیٹے ہوئے ستاروں پر نظریں جمالیں۔چاند طلوع تو ہوا تھا لیکن جانے کیوں کچھ چپ چپ سا تھا۔ستارے بھی لگا کہ اپنے اپنے من میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ثانی نے کروٹ بدلی تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی سسک رہا ہے۔غور کیا توکمرے کے اندر سے نور محمد کی سسکیوں کی آواز آرہی تھی۔وہ بے آواز قدموں اٹھا اور بند دروازے کو ہلکا سا دھکیل کر اندر داخل ہوگیا۔نور محمد ایک چٹائی پر گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھا تھا اور اس کا بدن ہچکولے لے رہا تھا۔ثانی نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک کر سیدھا ہوگیا۔اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور چہرے پر وحشت سی ٹپک رہی تھی۔ثانی کو دیکھ کر وہ زبردستی کی مسکان مسکایا۔ اس نے نور محمدکے بالوں کو سہلایا تو وہ بے اختیار اس کے سینے سے لگ گیا۔غم کی شدت نے اسے ایک چھوٹاسا بچہ بنادیا تھا جسے کسی نے تھپڑ مار کر اس کا دل پسند کھلونا چھین لیا ہو۔ثانی نے اس کے سر کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچے رکھا پھر آہستہ سے خود کو جدا کرتے ہوئے کہا۔

’’نور محمد! اٹھو پانی کے چھینٹے مار کر تازہ دم ہوجائو۔ آئو باہر کھلی ہوا میں جاکر بیٹھتے ہیں‘‘۔

نور محمد نے سعادت مند بچے کی طرح سر ہلایا اور اٹھ کر صحن میں چلاگیا۔ثانی نے صحن میں آکر دیکھا ڈپٹی چارپائی پر دراز اونگھ رہا تھا۔وہ صحن پار کرکے باہرنکل گیا۔تھوڑی دیر بعد نور محمد بھی اس سے آملا اور وہ دونوں وادی کی جانب رخ کیے گھر کے قریب ایک کھائی کے کنارے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔پندرہویں کا زوال آمادہ چاند بھی ان کی محفل میں شریک ہوگیا۔نور محمد وہاں تھا پر وہاں نہیں تھا۔سارے میں مست خرام ہوا تھی لیکن وہ گھٹن کے حصار میں تھا اور حبس دم تھا۔ثانی نے اس کی طرف دیکھا اور اس کا ہاتھ دبایا۔

’’نور محمد! تم نے کچھ بتایا نہیں کیا ہوا جب تم اپنے چاچے کے گھر گئے؟‘‘۔

نور محمدایک کھوکھلی ہنسی ہنسا۔’’ہونا کیا تھا بس یونہی۔۔۔‘‘

’’بس یونہی؟۔۔۔مطلب؟؟‘‘

’’میرے چاچے نے مجھے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا باہر باہر سے ہی مجھ سے گلابے کی ہڈیاں وصول کیں اور چپ چاپ اندر چلاگیا۔میں نے ڈھیٹ بن کر اندر جانا چاہا تو وہ میرے راستے میں دیوار بن گیا جیسے میں کوئی باہر کا آدمی ہوں۔‘‘

’’اوہ ویری سیڈ!‘‘ثانی نے اس کے کندھے پر ملائمت سے ہاتھ رکھا۔’’لیکن تم گلابے کے شوہر ہو اور کزن بھی۔رخصتی ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔

نورمحمد نے جواب میں ایک بے معنی مسکان کے ساتھ کندھے اچکا دئیے اور پھر دونوں خاموشی کے بوجھ تلے دبتے چلتے گئے۔نور محمد بے معنویت میں گھرا چہرے کو پتھر کیے یونہی پائوں ہلانے لگا اور ثانی خالی نگاہوں سے جنگل کے تاریک پیش منظر کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا رہا۔ چاندنی کے بیک ڈراپ میں ان کے پیچھے ایک سایہ ان کی طرف بڑھا۔یہ ڈپٹی تھا جو اپنی شارٹ گن لیے ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔تب جنگل کی تاریک پنہائیوں میں سے نور محمد کی آواز آتی سنائی دی۔

’’جو ہمیں سب سے پیارا ہو ، جس کے بغیر کوئی جی نہ پائے بس ایک وہی ہمیں کیوں چھوڑ جاتا ہے؟‘‘۔نور محمد بے خیالی کے عالم میں جانے کس سے مخاطب تھا۔وہ اندھیرے کی کوکھ میں گھورتے ہوئے کٹے ہوئے لہجے میں کہے گیا۔’’گلابے یوں چلی جائے گی صاب! میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔بس ایک وہی تھی جو میری تھی اور ایک میں تھا جو اس کا تھا ۔ورنہ کیا تھا میری زندگی میں۔ساری عمر کی نفرتیں، دھتکار، پھٹکار اور کیا تھا میرے پاس؟۔باپ سگا تھا لیکن کٹھور ، سوتیلے سے بدتر۔گھر جہنم بنا رکھا تھا اس نے۔میں نہیں جانتا صاب! کہ اسے کیا نفرت تھی مجھ سے اور میری ماں سے؟۔ بغیر وجہ بتائے اس نے جیتے جی مار رکھا تھاہمیں۔شاید اس کے نزدیک مرد کی یہی شان تھی کہ گھر سے باہر ہو تو قہقہے لگائے اور گھر میں داخل ہو تو ہٹلربن جائے۔ میری ماں کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔وہ بچپن سے مرد کا یہی روپ دیکھتی آئی تھی۔اس کا باپ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔اس نے میرے باپ کے گھر میں آنے سے پہلے ہی خود کو جہنم کا ایندھن مان لیا تھا۔مسئلہ میرا تھا۔میں نفرت کی ان کانٹے دار جھاڑیوں میں کب تک الجھا رہتا جو میرے باپ نے میرے دل اور دماغ میں اگارکھی تھیں۔‘‘

نور محمد نے ایک ذرا توقف کیا او ر پھر دوبارہ کچھ کہہ ڈالنے کی ہمت جمع کرتے ہوئے بولا۔’’میں بزدل تھا کہ جب گھر سے بھاگ جانے کی عمر میں آیا تو اپنی ماں کو اس کے رحم وکرم پر چھوڑ کر بھاگ گیا۔کراچی ، لاہور، راولپنڈی جانے کہاں کہاں دھکے کھاتا پھرا۔دن بھر ڈرائیوری کرتا اور رات کو کتابیں لے کر بیٹھ جاتا۔بس دھن ہوگئی تھی کہ مجھے کچھ بن کر دکھانا ہے ۔اپنے باپ کو ، اپنی ماں کو، اپنے چاچے کو اور اس کی دونوں بیٹیوں کو یا شاید ساری دنیا کو‘‘۔

خاموشی کا ایک اور طویل وقفہ جس کے دوران نور محمد ٹٹول ٹٹول الفاظ تلاش کرتا رہا۔’’گلابے میری بچپن کی منگ تھی۔اس کا باپ بھی اپنے بھائی کی طرح دل سے مجھے ناپسند کرتا تھا۔مجھ پر سختی کرنے میں جو کسر میرے باپ سے رہ جاتی وہ پوری کردیا کرتا تھا۔وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں کیوں دیتا۔بس مجبور ہوگیا تھا اپنی بیوی کے ہاتھوں۔میری چاچی ایک جہاندیدہ اور دھڑلے کی عورت ہے ۔میری ماں کے عین برعکس۔اس نے اپنے شوہر کے انکار کے باوجود بچپن میں اپنی چھوٹی بیٹی میرے نام کردی تھی۔اس کے باوجود میرا چاچا رشتہ توڑنے میں ایک لحظہ دیر نہ کرتا لیکن مجبور تھا کیونکہ ہمارے ہاں بیٹیوں کے رشتے توڑا نہیں کرتے۔ اور پھر میں تھوڑا پڑھا لکھاتھا، اچھے قد کاٹھ کا تھا، اچھا خاصا کماتا تھا۔وہ دوسرا کہاں سے لاتا میرے جیسا؟‘‘

’’اور گلابے؟‘‘ ثانی نے پوچھا۔’’گلابے کی مرضی کیا تھی؟‘‘

’’پورے خاندان میں صرف یہ دونوں بہنیں تھیں گلابے اور سفیدہ جو میری ہمدرد تھیں۔‘‘ بچپن کی محبت کا ذکر آیا تو اس پر ایک والہانہ پن سا طاری ہوگیا۔’’گلابے میرے بچپن کی ساتھی اور ٹھیکرے کی منگ تھی ۔ہم نے ہوش سنبھالتے ہی ایک دوسرے کو دل سے قبول کرلیا تھا۔ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر رہ نہ سکتے تھے۔میں اوائل جوانی میں گھر ہی چھوڑ گیا تھا گلابے کے رونے دھونے کے باوجود۔ وہ مجھ سے سخت ناراض تھی۔اس کے باوجود ہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہوسکے تھے۔وہ ہمیش میرے قریب رہی اور میں اس کے قریب رہا۔وہ میرے بعد میری ماں کا بھی خیال رکھا کرتی تھی۔اس وجہ سے وہ مجھے اور زیادہ عزیز ہوگئی تھی۔مری کے ایک سرکاری سکول سے اس نے جیسے تیسے میٹرک کرلیا تھا۔اس نے مجھے خط میںلکھنے کیلئے بہت سے شعر بھی یاد کرلیے تھے ۔وہ مجھے خط لکھتی تو باتیں کم اور شعر زیادہ لکھا کرتی تھی۔

’’میں کچھ نہ کچھ بننے کیلئے گھر سے نکلا تھا پر کچی عمر تھی اور اکیلی جان تھا، کیا تیر مار لیتا ۔مشکلوں سے پرائیویٹ ایف اے کیا۔بی اے کا داخلہ بھیجا اور امتحانوں سے ٹھیک ایک دن پہلے کراچی میں پولیس نے ایک جھوٹے کیس میں دھر لیا۔اجنبی دیار اور دشمنوں کا گھیرا ایسے میں کس سے مددمانگتا۔وکیل تک کرنے کیلئے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔یوںمجھے تین سال کی جیل ہوگئی۔کسی نے مجھ سے دشمنی نکالی تھی اور اندھے قانون نے میری زندگی کے تین سال چرا لیے تھے۔یہی وہ سال تھے جب میں نے کچھ بننا تھا۔ گلابے کے تصور ہی کا آسرا تھا کہ میں وہ تین سال نکال گیا۔

’’میںجیل سے نکلا تو اپنی اوقات میں آچکا تھا سو میں نے چپ چاپ ہتھیار ڈال دئیے ۔اب میں جو تھا بس وہی تھا۔ایک ہارا ہوا جواری۔میں نے ہار مان لی۔اب میں نے کسی بلندی کو نہیں چھونا تھا۔ کسی کو کچھ بن کر نہیں دکھانا تھا۔میری ہار پر گلابے بہت بگڑی ، سفیدہ نے بھی بہت شرم دلائی لیکن جیل نے مجھے توڑ دیا تھا۔جیل سے نکلا تو میں بڑا ہوچکا تھا۔ میں نے بہت سال پردیس کے دھکے کھا ئے تھے ۔اب مجھے اپنے دیس کی اور اپنے لوگوں کی یاد ستانے لگی تھی۔میں کراچی چھوڑ کر راولپنڈی آگیا تاکہ کبھی کبھار گھر کا چکر لگا سکوں۔اپنی ماں اور گلابے کو اپنے ہونے کا احساس دلا سکوں۔ یوں ایک ڈیڑھ سال ہوا کہ میں نے دوسرے تیسرے ہفتے گائوں کا چکر لگانا شروع کردیا ۔ویسے بھی اب میں کمائو پوت ہونے کی وجہ سے باپ اور چاچے کیلئے قابل برداشت ہوچکا تھا۔

’’ہیوی ڈیوٹی ڈرائیوری سے مجھے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی تھی۔یوںمیں نے اپنا خرچہ کھلا رکھنے کے باوجود خاصے پیسے جوڑ لیے تھے۔ایک بار جب میں گراں آیا تو میںنے یہ پیسے چپکے سے ماں کی ہتھیلی پر رکھ دئیے جس نے ا ن پیسوں سے میرے نام وہ پلاٹ خرید لیا جس پر میں نے یہ مکان تعمیر کرایا تھا۔اس مکان کی بنیاد میں پہلا پتھر گلابے نے ہی رکھا تھا۔اور صحن میں لگے پودے بھی ہم دونوں نے مل کر لگائے تھے۔ہم نے ان کے نام بھی رکھے تھے۔۔۔ اپنے ہونے والے بچوں کے نام پر۔‘‘

خاموشی کا ایک طویل وقفہ جس کے بعد نور محمد نے سرجھکا کر دھیرے سے خود کلامی کی۔’’اور آج۔۔۔آج میں اسی گلابے کی ہڈیاں سمیٹ کر لایا اور انہیں چاچے کے سپرد کرکے اس گلی سے اجنبیوں کی طرح لوٹ آیا‘‘۔

اچانک یہ ہوا کہ نور محمد کا سارا ضبط اس کے وجود کی گہرائیوں میں کسی آتش فشاں کے پھٹ پڑنے سے ریزہ ریزہ بکھر گیا۔وہ ایک لمبا تڑنگا ، ہیوی ڈیوٹی ڈرائیور اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا مرد ثانی کے سینے سے لگ کر بچوں کی طرح بلکنا شروع ہوگیا۔وہ روتا رہا اور ثانی اس کے سر کو سہلاتا رہا۔

اگلے روز وہ ناشتے سے فارغ ہوئے تو ڈپٹی نے اسے رات کو ملنے والا گولی لگا پرچہ دکھایا۔نور محمد پہلے تو پریشان ہوا اور پھر خفا کہ انہوں نے رات کو ہی اسے پرچہ کیوں نہ دکھادیا تاکہ وہ رات کو ہی کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتے۔ڈپٹی نے اسے تسلی دی کہ اس کے محکمے نے لوکل پولیس اور ایڈ منسٹریشن سے رابطہ کرلیا ہے اور سفید کپڑوں میںسیکورٹی اہلکار کل رات سے ہی خود کو ظاہر کیے بغیر ان کی حفاظت پر مامور ہوچکے ہیں۔۔اس کے باوجود نور محمد کا یہ خدشہ برقرار رہا کہ کوئی چھپ کر وار نہ کردے۔اس نے برتن سمیٹتے ہوئے بتایا کہ اس کے ایک دوست نے بکری کا انتظام کرلیا ہے جو وہ کسی بھی وقت جاکر اس سے لے سکتے ہیں۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اسے اپنے دوست سے پتا چلا ہے کہ گلیات میں ’’آدم خور بدروح‘‘ کی بات کے شدت سے پھیل جانے کی وجہ سے یہاں ہوٹلنگ کے کاروبار میں جو بدترین مندی آئی ہے اس کے بعد حاجی کے آدمیوں نے کئی ہوٹل مالکان سے ان کے ہوٹل خریدنے کی بات کرنا شروع کردی ہے۔

’’یہی تو ساراگیم پلان تھا‘‘۔ڈپٹی نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔

’’یا ہوس تیرا ہی آسرا‘‘۔ثانی بھی جوتوں کے تسمے باندھتے ہوئے بڑبڑایا۔’’شاید انسانی تاریخ میں پہلی بار ایساہوا ہو کہ کسی آدم خور کی بربریت کو اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘

اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ ساتھ ہی کسی نے نور محمد کا نام لے کر اسے پکارا۔ڈپٹی اور ثانی سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ان کے ہاتھ رائفلوں کے بٹ پر جم گئے۔نور محمد کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔اس نے رائفل کندھے سے دبائی اور بیرونی دروازے پر جاکر اس کی درز سے جھانکا اور دروازہ کھول دیا۔نووارد اندر داخل ہوا تو نور محمد نے گرم جوشی سے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا جس کے بعد ان دونوں کے اعصاب بھی نارمل ہوگئے۔دونوں کچھ دیر کھسر پھسر کرنے کے بعد کمرے کے اندر آگئے۔

’’صاب! یہ شمریز عباسی ہے۔یار ہے اپنا۔اسے شمریز بی بی سی بھی کہتے ہیں۔علاقے کی ساری خبریں ہوتی ہیں اس کے پاس‘‘۔نور محمد نے کمرے کے اندر آکر اس کا تعارف کرایا۔

دبلے پتلے اور مختصر سے وجود کے شمریز عباسی نے گرم جوشی سے ان سے ہاتھ ملایا۔

’’سر جی!آپ لوگوں سے ملنے کا بہت شوق تھا۔نور محمد نے بہت کچھ بتایا ہے آپ دونوں کے بارے میں‘‘۔

یہ کہہ کر وہ خاموشی سے انگلیاں چٹکانے لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ شمریز کچھ نروس اور پریشان سا ہے۔

’’صاب! شمریز کے پاس آپ کیلئے ایک بڑی خبر ہے۔‘‘

’’بولو شمریز! کیا خبر ہے؟‘‘ثانی نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’سر جی! رات کو بڑا غضب ہوگیا۔بدروح میرا مطلب آدم خور چیتے نے رات پھر ڈونگا گلی کا پھیرا لگایا ہے۔‘‘

وہ دونوں سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔شمریز نے بتایا کہ رات کو آدم خور نے کسی غریب دیہاتی کے کواڑ توڑنے کی بجائے سیدھے حاجی کی پہاڑی کا رخ کیا۔وہ دو روز پہلے بھی یہاں آئی تھی لیکن محافظوں نے بروقت دیکھ لیا اور فائرنگ شروع کردی جس سے گھبرا کر وہ وہاں سے فرار ہوگئی۔‘‘

’’ایسا کبھی نہیں ہوا ثانی سر جی! کہ وہ چیتاکسی ایک جگہ پر دومرتبہ آیا ہو‘‘۔شمریز نے بتایا۔

’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ چیتا نہیں لیپرڈ یعنی گلدار ہے۔دوسرے یہ کہ وہ نر نہیں مادہ ہے۔‘‘ثانی نے اس کی تصحیح کرنا ضروری سمجھی۔

’’اچھا جی۔۔۔؟‘‘۔

’’ہمیں معلوم ہے کہ وہ دوسری بار وہاں کیوں آئی۔بہر حال آگے چلو‘‘۔ڈپٹی نے کہا۔

’’ گلدارپہلے روز وہاں ریکی کرنے جبکہ دوسری مرتبہ کارروائی ڈالنے آئی تھی۔دنیا بھر کے دہشت گردوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے‘‘۔ثانی نے پر خیال لہجے میں کہا۔’’لیکن شمریز! ہمیں تو نہیں معلوم کہ وہ دو روز پہلے بھی وہاں کا چکر لگا چکی ہے۔‘‘

’’پتا نہیں جناب! کس وجہ سے حاجی لوگوں نے اس بات کو راز میں رکھنا ضروری سمجھا‘‘۔شمریز نے کہا۔

’’گویا پرسوں حاجی نثار عباسی کے گھر میں ایک چھوڑ دو دو مہمان آئے۔ایک ہم اور ایک آدم خور۔‘‘ڈپٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’کل جب ہمارا آدم خور سے واسطہ پڑا تو مجھے حیرانی ہوئی تھی کہ اس نے ہم پر حملہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تھی‘‘۔ثانی گویا ہوا۔’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا دھیان کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔کل شام اس نے ہمارے سامنے پسپائی اختیار کرلی تھی کیونکہ اسے حاجی کی پہاڑی پر پہنچنا تھا‘‘۔

’’اس کا مطلب یہ بھی ہے دوست! کہ ہمیں حد سے زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔ہمارا واسطہ نہایت عیار دشمن سے ہے جو اپنی پلاننگ کے مطابق چلتا ہے‘‘۔

’’سوری یار شمریز! ہم نے تمہاری بات درمیان میں ہی اچک لی ، آگے بتائو کیا ہوا‘‘۔ثانی نے شمریز کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔

’’تو سرجی ! میں کہہ رہا تھا کہ کل رات آدم خور نے مکان کے پچھواڑے میں اس طرف جانے کی کوشش کی جہاںحاجی نے چڑیا گھر بنا رکھا ہے اور جہاں اس جیسے دو چیتے میرا مطلب ہے گلدار پنجرے میں بند تھے۔یہ عین وہ وقت تھا جب جانوروں کو رات کا کھانا دیا جاتا ہے۔آدم خورجانے کب سے وہیں کسی درخت پر چھپ کر بیٹھی ہوئی تھی۔جونہی جانوروں پر مامور دو ملازموں میں سے ایک نے گلداروںکی جوڑی کے پنجرے کا دروازہ ذرا سا کھول کر گوشت کے ٹکڑے اندر دھکیلنے کی کوشش کی ۔آدم خور نے اس پر چھلانگ لگادی۔اس نے ایک ہی وار سے اس بدنصیب کی گرد ن توڑ دی اور پھر اس کے ساتھ ہی پنجرے کے ادھ کھلے دروازے سے اندر گھس گئی۔‘‘

’’مائی گاڈ! پھر؟‘‘ ثانی سنبھل کر بیٹھ گیا۔

’’سر جی! چڑیا گھر کے داخلی دروازے کے باہر دو محافظ پہرے پر ہوتے ہیں۔ انہوں نے پنجروں کی جانب سے آنے والی آوازیں سنیں تو سائرن بجادئیے۔سائرن کی آواز سن کر حاجی نثار عباسی افراتفری میں اندر سے نکلا اور محافظوں کو لے کر چڑیا گھر کی طرف بھاگا۔ان لوگوں نے دیکھا کہ پنجرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آدم خور چھوٹے گلداروں کو دھکیل کر باہر نکالنے کی کوشش کررہی ہے۔انہیں دیکھتے ہی دونوں محافظوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔اس عرصے میں تینوں درندے پنجرے سے باہر آچکے تھے۔فائرنگ کے جواب میں تینوں نے دھاڑنا شروع کردیا‘‘۔شمریز نے خوف کے مارے جھرجھری سی لی۔’’ایسی زور دار دھاڑ ڈونگا گلی والوں نے پہلے کبھی نہیں سنی۔یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان پھٹ جائے گا۔‘‘

ان تینوں کے چہروں سے بے تابی عیاں تھی۔

’’آگے بتائو۔‘‘ڈپٹی نے بے چینی سے کہا۔

’’سرجی!درندوں نے فائرنگ سے گھبرا کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔آدم خور آگے تھی اور دونوں بچے اس کے پیچھے تھے۔دونوں محافظ ان کے راستے میں تھے۔اسی لمحے آدم خور نے ان میں سے ایک محافظ کو دبوچ لیا لیکن دوسرے محافظ کی فائرنگ کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کرتیزی سے پلٹی ۔حاجی کی بدنصیبی کے وہ عین اس وقت سامنے سے آرہا تھا۔بڑی گلدار کو راستہ نہ ملا تو اس نے حاجی پر حملہ کردیا۔‘‘

’’او ہ گاڈ!‘‘۔مارے ایکسائٹمنٹ کے ثانی اور ڈپٹی کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

’’حاجی کا کیا بنا؟‘‘۔ڈپٹی نے پوچھا۔

’’ صاحب جی! اس نے حاجی کی گردن میں دانت گاڑ دئیے اور اسے گھسیٹ کر ساتھ لے جانے لگی۔لیکن محافظوں کی مسلسل فائرنگ کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر فرار ہوگئی۔‘‘

کہانی کے اس غیر متوقع موڑ نے کچھ دیر کیلئے انہیں گنگ سا کردیا۔

’’حاجی زندہ ہے؟‘‘ ثانی نے سکوت توڑتے ہوئے پوچھا۔

’’سنا ہے وہ اور اس کا محافظ دونوں ہسپتال میں ہیں۔یہ معلوم نہیں کہ ان کی کیا حالت ہے‘‘۔شمریز نے جواب دیا۔

’’اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔‘‘ڈپٹی نے تبصرہ کیا۔

’’تم اسے ماں کا انتقام بھی کہہ سکتے ہو۔‘‘ثانی نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

’’چھوٹے گلدار اس کے بچے تھے جی؟‘‘ شمریز نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں! ان دونوں کا کیا ہوا؟‘‘ نور محمد نے پوچھا۔

’’ا ن میں سے ایک اس کے پیچھے نکل گیا جبکہ دوسرا جو پیچھے رہ گیا تھا محافظ کی گولیوں کا نشانہ بن گیا‘‘۔

تاسف کی شدت نے کچھ دیر کیلئے انہیں گنگ کردیا۔

’’میں نے کسی داستان کا اس سے زیادہ حسرت ناک انجام نہیں دیکھا۔‘‘ثانی بڑبڑایا۔

’’ابھی انجام کہاں بھیا! یہ تو کہانی کا ایک موڑ ہے۔انجام تو ابھی باقی ہے‘‘۔ڈپٹی نے سر ہلایا۔

’’اور یہ انجام میرے ہاتھ سے لکھا جائے گا۔‘‘ نور محمد جوش کے مارے کھڑا ہوگیا۔’’میرے دونوں ہاتھ آدم خور کے جبڑے چیرنے کیلئے پھڑک رہے ہیں‘‘۔

’’یہ زندگی موت کا کھیل ہے نور محمد!اپنی شیر افگنی پر کنٹرول رکھو۔آدم خور کے سامنے جوش نہیں ہوش کام آتا ہے‘‘۔ثانی نے اسے تنبیہہ کی۔

’’ظلم دیکھیں سرجی! کہ ایک طرف آدم خور نے ایک اور انسان کو ماردیا اور دوسری طرف پورے علاقے میں جگہ جگہ بینر لگے ہوئے ہیں جن میںبدروح کے ساتھ تعاون کرنے کا کہا گیا ہے‘‘۔شمریز نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے کہا۔

’’کیا کہہ رہے ہو ؟۔۔۔بدروح کے ساتھ تعاون ؟؟‘‘ ڈپٹی اور ثانی دونوں کے چہروں پر الجھن تیر گئی۔

’’ہاں سر جی! میں آپ کو بتاتا ہوں۔ایک بینر پر لکھا ہے کہ یہ بدروح ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اس سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ لوگ کم از کم گھر وں میں رہیں اور پیر بادشاہ کا تصور کرکے دورو اور وظائف پڑھیں۔‘‘

’’اور اگر وہ تصور شیخ کے دوران گھر میں گھس آئے توگھر والے چپ چاپ خود کو اس کے حوالے کردیں۔۔۔ایں!؟‘‘۔ثانی کے ہونٹ ایک زہریلی مسکان سے بھنچ گئے۔

’’کچھ اور بھی لکھا ہے ان بینرز پر؟‘‘۔ڈپٹی نے پوچھا۔

’’ایک اور بینر پر لکھا ہے کہ لوگ اس بدروح سے نجات کیلئے زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کریں اور نجات کیلئے حضرت پیر بادشاہ سے رجوع کریں۔‘‘

’’اور سارا صدقہ خیرات پیر بادشاہ کے توشہ خانے میں جمع کرادیں۔‘‘ڈپٹی نے مایوسی سے سر ہلایا۔’’ اس کم بخت آدم خور نے کس کس

کی دکانداری چمکادی ہے۔‘‘

’’اس میں اگر کسی کا قصور ہے تو آدم خور کا نہیں اس ذہنی پسماندگی کا ہے جو ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔‘‘ثانی نے جواباً کہا۔

تب شمریز نے رخصت چاہی اور گھر سے باہر نکل گیا۔اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ڈپٹی کو اپنے دفتر سے بھی کل رات کے واقعے کی تصدیق ہوگئی۔

خاموشی کے ایک طویل وقفے کے بعد ثانی گویا ہوا۔’’آدم خور نے اپنی آدھی بازی جیت لی اور آدھی ہار دی۔ایک بچہ اسے واپس مل گیا اور دوسرا بچہ ہمیشہ کیلئے کھو گیا‘‘۔

’’میرا خیال ہے کہ یہ بینر وں، بدروحوں اور پیر بادشاہوں والی کہانی پرانی ہوگئی ہے‘‘۔ڈپٹی نے پر خیال لہجے میں کہا۔’’حاجی کے زخمی ہوکر ہسپتال جاپہنچنے کے بعد اب یہ ڈھونگی اپنے ڈھونگ سے باز آجائیں گے۔‘‘

’’ہاں صاب!جب اپنی جان پر بنتی ہے تو نانی یاد آہی جاتی ہے‘‘۔نور محمد نے کہا۔

‘‘ویسے ایک بات ہے حاجی کے زخمی ہونے کے بعد ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔‘‘ڈپٹی نے خیال آرائی کی۔

’’وہ کیسے؟‘‘ ثانی نے بھنویں سکیڑتے ہوئے پوچھا۔

’’ظاہر ہے اگر ہم پر کوئی حملہ ہوتا تو اس کا ماسٹر مائنڈ وہی ہوتا۔‘‘

جواب میں ثانی پھیکی سی مسکان مسکرا کر رہ گیا۔

’’بہرطور ہمیں اپنی توجہ اپنے مشن پر رکھنا ہوگی۔اللہ کرے آج ہم کامیاب ہوجائیں‘‘۔ثانی نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔

’’تمہارا تجربہ کیا کہتا ہے۔اب ہمارا سامنا اگر اس آدم خور سے ہوتا ہے تو اس کی کیا کیفیت ہوگی؟‘‘۔ڈپٹی نے اپنی شاٹ گن چیک کرتے ہوئے پوچھا۔

’’شاید پہلے سے زیادہ خوفناک اور عیار‘‘۔ثانی نے جواب میں کہا۔’’اگر اسے دونوں بچے زندہ سلامت مل گئے ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری پہنچ سے دور نکل گئی ہوتی لیکن ابھی شاید وہ اپنے مرنے والے بچے کی واپسی کی امید میں وہیں ہوگی۔‘‘

’’کب تک نکلنے کا پروگرام ہے صاب؟‘‘ نور محمد نے پوچھا۔

’’ہمیں وہاں سہ پہر تک پہنچنا ہے تاکہ وہ نیند پوری کرکے اپنی پناہ گاہ سے باہر آجائے‘‘۔ثانی نے جواب دیا۔’’بکری ہمیں بروقت مل جائے گی نا!؟‘‘۔

’’فکر نہ کریں صاب! شمریز نے بکری خرید کر اپنے گھر باندھی ہوئی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے تو پھر ہمارے پاس آرام کرنے کیلئے دو تین گھنٹے پڑے ہوئے ہیں۔آرام سے دوپہر کا کھانا کھا کر نکلیں گے‘‘۔ثانی نے چارپائی پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔

’’جانا کہاں ہے کوئے یار یا سوئے دار؟‘‘۔ڈپٹی نے ہنس کر پوچھا۔

’’یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے‘‘۔ثانی نے مختصر جواب دیا اور کروٹ بدل لی۔

دوپہر کے کھانے کے بعد انہوں نے دوبارہ خود پر آلکس طاری کرکے آنکھیں موندھ لیں۔کچھ ہی دیر بعد نور محمد کی آواز انہیں غنودگی سے باہر لے آئی۔

’’چلیں صاب! میں تیار ہوں۔‘‘

ثانی نے خود پر چھائی غنودگی کا غبار جھٹکتے ہوئے ڈپٹی کو جھنجھوڑا۔گھڑی دو بجنے کا اعلا ن کررہی تھی ۔انہیں وہاں بہر صورت تین بجے تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ڈپٹی جانے کن نیندوں سویا تھا کہ جاگنا محال ہوگیا۔وہ بہت مشکلوں سے بستر چھوڑاپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔نور محم نے جلدی سے ڈرائیور مارکہ چائے بنا کر پلائی تب کہیں جاکر ان کی سرت بحال ہوئی۔اب فاسٹ فارورڈ میں تیاری شروع ہوئی۔ نور محمد کو دوڑایا گیا کہ ڈونگا گلی کے بازار سے ٹن فوڈ کے کچھ ڈبے لے آئے۔اس کے جاتے ہی کھٹاک کھٹاک کرکے رائفلیں چیک کی گئیں۔ثانی نے اپنی پسندیدہ ڈبل بیرل کے ساتھ ایک شارٹ رینج گن بھی رکھ لی۔ڈپٹی کے پاس ایک ہی شاٹ گن تھی ۔اس نے اسی کی جھاڑ پھونک پر اکتفا کیا۔ضرورت کے چھوٹے موٹے سامان کی فہرست بنائی گئی اور اس کے مطابق چیزیں پوری کی گئیں۔ویدر پروف خیمے کو پھیلا کر چیک کیا گیااور موبائل فونز کو چارجنگ پر لگادیاگیا۔سامان سمیٹا جاچکا تو اندازہ ہوا کہ ایک بڑے خیمے اور رائفلوںکے علاوہ انہیں بڑے سائز کا رک سیک بھی اٹھا کر چار کلومیٹر دشوار گذار مسافت طے کرنا پڑے گی۔اتنے میںنور محمد بازار سے کھانے کے ڈبے لے آیا تو انہیں رک سیک میں ٹھونس کر ثانی نے جوتوں کے تسمے باندھے اور اپنے تیار ہونے کا اعلان کردیا۔

وہ چلے تو یوں کہ نور محمد کے دونوں کندھوں پر رائفلیں تھیں، ثانی خیمہ برداری کا فریضہ سرانجام دے رہا تھا اور بھاری بھرکم رک سیک نے ڈپٹی کے کندھوں کو اپنی جکڑ میں لے رکھا تھا۔یوں لدے پھندے وہ تینوں ایک نئے دن کی کے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے گھر سے نکل گئے۔باہر ایک شانت سہ پہر ان کا منتظر تھی۔انہوں نے نوٹ کیا کہ ان کے گھر سے نکلتے ہی سادہ کپڑوں میں ملبوس تین لوگ غیر محسوس طور پر ان سے چند قدم کے فاصلے پر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ یہ مقامی پولیس کے اہلکار تھے جنہیں ان کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا۔وہ ان کی موجودگی سے آگاہ چھوٹے درختوں کے جھنڈ کے پار آگئے۔سادہ پوش اہلکار بدستور سائے کی طرح ایک مناسب فاصلے پر ان کے ساتھ ساتھ لگے رہے۔ثانی کو ان کی موجودگی سے وحشت ہورہی تھی۔اب ایک نئی کامیڈی شروع ہوئی۔ہوا یہ کہ جب ڈپٹی نے جب انہیں تھینک یو ویری مچ کہتے ہوئے واپس جانے کا کہاتو وہ صاف انکاری ہوگئے۔کہنے لگے کہ ہمیں حکم ہے کہ آپ لوگوں کو اکیلا نہ چھوڑا جائے۔

’’لیکن پیارے بھائی !ہم تو جنگل میں جارہے ہیں۔۔۔‘‘ ڈپٹی نے ان میں سے سینئر کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے۔‘‘اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

’’لیکن ہم تو شکار وکار کھیلیں گے۔تم وہاں کیا کرو گے؟‘‘

’’پتا نہیں لیکن ہم آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘اس بار پہلے سے زیادہ اٹل لہجے میں جواب ملا۔

‘‘دیکھو مان جائو اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔‘‘ڈپٹی نے انہیں پھسلانے کی کوشش کی۔

‘‘ضد آپ کررہے ہو صاحب! ہم تو ڈیوٹی پر ہیں۔‘‘

اس دندان شکن جواب پر ڈپٹی لاجواب سا ہوکر ثانی کے پاس آیا اور اسے اپنے منکر نکیروں کے عزائم سے آگاہ کیا۔

‘‘میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھااب بھگتو۔‘‘ثانی بھی اڑیل ہوگیا۔‘‘اور میں تم سے کہے دے رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ الٹے پائوں واپس نہ گئے تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ انہی قدموں اسلام آباد روانہ ہوجائوں گا۔‘‘

‘‘اب یار تم تو بچے نہ بنو۔‘‘ ڈپٹی نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔’’ٹھہرو میں ان کے بڑوں سے بات کرتا ہوں۔‘‘

وہ تھوڑے فاصلے پر ہوکر موبائل فون کے ساتھ جت گیا۔کچھ دیر تک بحثا بحثی ہوتی رہی۔آخر ڈپٹی نے سکون بھری سانس لی اور موبائل سینئر کے حوالے کردیا۔اس نے اٹینشن ہوکر کال ریسیو کی اور پھر ایک زور دار ’’اوکے سر!‘‘ کہتے ہوئے موبائل فون ڈپٹی کو لوٹادیا۔

’’ٹھیک ہے صاحب! ہم واپس جارہے ہیں لیکن جونہی کوئی ایمرجنسی ہوجائے آپ ہمیں کال کرسکتے ہیں۔‘‘

’’آپ کی بہت مہربانی بھائی جان۔‘‘ ڈپٹی نے مسخرے پن سے کہا جس پر سینئر کے سپاٹ چہرے پر شکن ابھر کر ڈوب گئی۔

اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو اشارہ کیا تو وہ بادل نخواستہ انداز میں واپس پلٹ گئے لیکن جاتے ہوئے بھی وہ حسرت ناک نظروں سے پلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔

’’بہت سادہ لوگ تھے۔‘‘نور محمد نے ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔’’دراصل وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ شکار کیسے کیا جاتا ہے۔‘‘

’’بیچاروں کا دل توڑ دیا ہم نے۔‘‘ڈپٹی نے نور محمد کی بات کو آگے بڑھایا۔’’اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ثانی میاں! اگلے جہان جاکر تمہیں جواب دینا پڑے گا۔‘‘

’’اپنی سٹوپڈ قسم کی کامیڈی اپنے پاس رکھو اور تیز چلو ہمیں دیر ہورہی ہے۔‘‘ثانی نے خشک لہجے میں بات ختم کردی۔

وہ چلے تو تھوڑی دیر کے بعد وہ آبادی سے باہر نکل آئے۔کھلے میں نکل کر نور محمد نے آسمان کو دیکھا اور پھر ہوا میں کچھ سونگھا۔

’’لگتا ہے آج بارش برسے گی اور خوب برسے گی‘‘۔نور محمد نے اعلان کیا۔

’’آسمان تو بالکل صاف ہے۔صرف چند بادلوں کی ٹکڑیاں ہیں جو چوٹیوں پر دھوپ سینک رہی ہیں۔‘‘ ثانی نے آسمان کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

’’مون سون سے پہلے کے بادل دھوکہ دیتے ہیں صاب!ابھی ہیں ابھی نہیں‘‘نور محمد نے چہرے پر قدیم دانش کو سجاتے ہوئے کہا۔’’ہم لوگ بادلوں کو نہیں دیکھتے۔ہم ہوا میں نمی کو سونگھتے ہیں اور بتادیتے ہیں کہ بارش ہوگی یا نہیں۔‘‘

’’نور محمد! ٹھیک کہہ رہا ہے۔میں پچھلے دس پندرہ برس سے گلیات میں ہوں۔یہاں کسی کو موسم کا حال جاننے کیلئے محکمہ موسمیات سے پوچھنا نہیں پڑتا‘‘۔

’’ٹھیک ہے آج آپ لوگوں کی موسمیاتی دانش کو بھی آزمالیں گے‘‘۔ثانی نے کندھے اچکائے۔

راستے میںنور محمد انہیں انتظار کرنے کا کہہ کر آبادی سے ہٹ کر بنے ایک تنہا مکان میں داخل ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد نمودار ہوا تو ایک بکری کو اپنے پیچھے لگائے ہوئے تھا۔یہ وہ بکری تھی جو انہوں نے آدم خور کے چارے کیلئے استعمال کرنا تھی۔ابھی بہت دن پڑا تھااور انہیں اپنا کام نمٹا کر جلد واپس پہنچنا تھا سو بغیر وقت ضائع کیے تین انسان اور ایک بکری چار ساڑھے چار کلومیٹر طویل سفر پر روانہ ہوگئے جس کا نقطہ اختتام وہ جگہ تھی جہاں ایک دن پہلے ان کی مشک پوری جنگل کی آدم خور ملکہ سے ملاقات ہوئی تھی۔

ان کی ہمراہی میں بکری اب تک سعادت مندی سے ان کے ہمراہ چلی جارہی تھی مگر جونہی انہوں نے سبزہ زار میں قدم رکھا اس کی بھوک چمک اٹھی۔اس نے پہلے تو پچھلی ٹانگیں پھیلا کر معدے کو گذشتہ کھانے کی باقیات سے فارغ کیا اور پھر گھاس کے ایک اشتہا انگیز قطعے میں منہ مارنے لگی۔نور محمد نے بہتیرا اس کی رسی کھینچنے کی کوشش کی لیکن اس نے کھلی بغاوت پر اترتے ہوئے اپنے چاروں کھر زمین میں گاڑ دئیے۔ناچار انہیں وہاں موصوفہ کو ضیافت اڑانے کا موقع فراہم کرنے کیلئے رکنا پڑا۔نور محمد نے اس دوران جلدی سے تھوڑی سی گھاس کاٹ لی اور پھر اسے بکری کو دکھاتے ہوئے دوبارہ چلنے پر آمادہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔

سفر کے آغاز میں ہی ثانی کو نور محمد کی موسمیاتی دانش پر ایمان لانا پڑا۔سامنے پہاڑوں کے جھرمٹ پر جانے کہاں سے دھواں دھواں بادلوں کے ٹکڑے ٹولیوں کی صورت میں نمودار ہوئے اور ایک آلکس میں آوارہ خرامی کرنا شروع ہوگئے۔

ابھی انہوں نے آدھا راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ بادلوں نے ایک دھندلکے کی صورت اختیار کرلی اور پھر آہستہ آہستہ بادلوں کے سفید وھوئیں میں سرمئی رنگ بھرنے لگا۔ان کے ارد گرد سب کچھ تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا۔پہلے اس لینڈ سکیپ کا ہر ہر نقش واضح اور باریک پنسل سے تخلیق کیا ہوا دکھائی دے رہا تھا مگر اب ہر لائن دھندلاگئی تھی جیسے مصور نے اپنے بنائے ہوئے پنسل سکیچ پر ہلکا سا اریزر پھیر دیا ہو ۔انہیں خبر بھی نہ ہوئی کہ کب وہ اپنی جانی پہچانی دنیا کی سرحد عبور کرکے ایک نامانوس فیری لینڈ میں داخل ہوگئے۔نور محمد اور ڈپٹی اس بدلتے ہوئے لینڈ سکیپ کا حصہ تھے لیکن ثانی کیلئے یہ سب کچھ کسی داستان کے انجان لیکن خوب صورت موڑ سے کم نہ تھا۔وہ مبہوت ہوکر دیکھ رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے جن پہاڑوں پر دھوپ کاہل سی پڑی اونگھ رہی تھی وہاں سرمئی اجالے نے سارے منظر میں رومان کے سحر انگیزی بھردی تھی۔یہ سرمئی اجالا جب سرکتے ہوئے وادی کی گہرائیوں میں پہنچا تو چمپئی اندھیرے میں بدل گیا۔

ثانی نے گہرا سانس لے کر جنگل کی نم باس کو پھیپھڑوں میں بھرااور ایک عالم بے خودی میں کہنے لگا۔’’مائی گاڈ! میں تو اس جادو نگری کے عشق میں مبتلا ہونے لگا ہوں۔بہت عشق کیے ہیںمیں نے زندگی میں لیکن اس نئے عشق میں مستی کا رنگ کچھ زیادہ ہی ہے‘‘۔

نور محمد نے اسے دو دن کے مہمان سیاحوں کی سی مخصوص مستانہ کیفیت میں دیکھا تو ایک پھیکی سی ہنسی ہنسا۔’’صاب!آپ چار دن یہاں رہ کر دیکھو ،اس حالت میں جس حالت میں ہم یہاں رہتے ہیں پھر میں دیکھوں آپ کے اس عشق کو۔جب آپ کوسو دو سو کی مزدوری کیلئے کبھی مری اور کبھی نتھیا گلی میں لوگوں کی منتیں کرنا پڑیںگی۔جب آپ کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانا پڑیں گی۔جب آپ کی بیوی کو میلوں دور جنگل میں جاکر پانی تلاش کرنا پڑے گا۔جب آپ کے بچوں کو مری ،ایبٹ آبادسے ادھر کوئی میسر سکول نہ ہوگا۔جب آپ کے گھر میں بچوں اور بوڑھوں کیلئے کوئی ڈاکٹر میسر ہوگا نہ دوا دارو۔ جب آپ کی بیوی بچے کی پیدائش کے عمل سے گذر رہی ہوگی اور اس مشکل وقت میں اسلام آباد سے پہلے کوئی ہسپتال دستیاب نہ ہوگا۔جب کوئی بجلی ہوگی نہ گیس، ٹیلیویژن ہوگا نہ انٹرنیٹ اورجب برفانی موسم شروع ہونے پر آپ کو مہینوں ایک کمرے کی قیدمیں رہنا پڑے گا تو میں دیکھوں آپ کے عشق کی حقیقت کو۔‘‘

ثانی نے ارضی حقیقتوں کے اس سفاک حملے کے جواب میں لایعنی انداز میں سرجھٹکا۔’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن اے میرے پیارے راج دلارے نور محمد!میرا یہ عشق ایک قیدی کے فرار جیسا ہے۔اگر کوئی جہنم سے فرار ہونا چاہے تو اسے واپس آگ میں نہیں دھکیل دیتے۔‘‘

نور محمد نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر ضد میں آجانے والی بکری کو چلتے رہنے پر آمادہ کرنے کیلئے اسے کھینچنے میں مصروف ہوگیا۔

وہ تیز قدم چلتے مقام مقصود تک تو پہنچ گئے لیکن تب تک وادی نے سیاہ بادلوں کے دبیز مرغولے اوڑھ لیے تھے۔اس کے ساتھ ہی فضا

میں خنکی بڑھنے لگی۔یہ پہاڑ کے دامن میں وہی جگہ تھی جس کے قریب ہی کہیں ایک غار کو آدم خور نے اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔یہیں ایک روز پہلے آدم خورسے ان کا سامنا ہوا تھا اور وہ انہیں جل دے کر نکل گئی تھی۔نور محمد نے اس کے کہنے کے مطابق ایک درخت کے ساتھ بکری باندھ کر اس کے سامنے چارہ ڈال دیا توثانی نے چاروں اور گھوم کر متوقع مقام جنگ کا جائزہ لیا۔وہ اپنی جنگی حکمت عملی کے حوالے سے بھی بہت محتاط تھا۔کل ایک درندہ تھا لیکن آج یک نہ شد دو شد والا معاملہ تھا۔اسے کسی آدم خور کے ساتھ نمٹنے کا پہلے سے کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔اگر کہیں بھی کوئی جھول رہ جاتا، کوئی اناڑی پن ہوجاتا تو نتائج ناقابل تصور بھی ہوسکتے تھے۔سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ اس کے دونوں ساتھیوں کو اتنے بڑے شکار کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا بلکہ شوق کے باوجود انہیں کبھی ڈھنگ کا شکار کرنے کا موقع میسر نہیں آیا تھا۔ڈپٹی کا نشانہ اچھا تھا لیکن شکار کے حوالے سے اس کا تجربہ پرندوں اور جنگلی سوروں کو مارنے تک محدود تھا جبکہ یہاں کچھ اور معاملہ درپیش تھا۔دوسری طرف نور محمد تھا ۔نشانہ اس کا بھی خوب تھا۔اڑتے پرندے کو گراسکتا تھا لیکن گھنے جنگل میں شکار کا تجربہ صفر۔دوسروں پر اسے صرف ایک برتری حاصل تھی کہ وہ نفرت اور انتقام سے بھرا ہوا تھا ۔اس قدر کہ خالی ہاتھوں بھی آدم خور پر جھپٹنے پر آمادہ تھا۔کسی ناخوشگوار ایڈونچر سے بچنے کیلئے ضروری تھا کہ انہیں ایسے مقامات کی چوکیداری سونپی جائے جہاں آدم خور یا اس کے بچے کے نمودار ہونے کا خطرہ کم سے کم ہو۔سارا بوجھ اسے خود اٹھانا تھا۔

یہ ایک دشوار گذار علاقہ تھا جہاں آدم زاد کی زیادہ آمد و رفت نہ تھی بلکہ کوئی ایسے آثار بھی نہ تھے کہ یہاں کبھی کسی نے قدم بھی رکھا ہو۔اس کی ایک وجہ تو دشوار گذاری تھی اور دوسری یہ کہ مشک پوری پہاڑ کا یہ دامن ہمیشہ سے ’’چیتوں‘‘ کی آماجگاہ رہا ہے ۔یوں مارے ڈر کے لوگ اس جگہ کو دور سے ہی سلام کرکے گذر جاتے تھے۔اس ہولناک ویرانے کا یہ عین وسط تھاجہاں وہ اس وقت موجود تھے۔ یہ تین چار فرلانگ پر محیط مثلث نما جگہ تھی جس کا زاویہ قائمہ ایک نیم دائرہ بناتے ہوئے دو اطراف کو آپس میں ملارہا تھا۔ثانی نے فرلانگ بھر دور جاکر ایک جرنیل کی نظر سے متوقع محاذ جنگ کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اس کے تین اطراف درخت اور جھاڑیاں تھیں جبکہ سامنے کے رخ کھلی زمین تھی جو ناہموار تھی ۔کہیں سپاٹ زمین تھی اور کہیں اونچے نیچے پتھر زمین میں گڑے ہوئے تھے۔دائیں طرف درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ کی پشت پر نصف فرلانگ دور پہاڑ کی اٹھان تھی۔بائیں جانب بھی بلند اور الجھی ہوئی جھاڑیوں کا سلسلہ تھا اور کے پیچھے چند بڑے پتھروں کی آڑ موجود تھی۔اس کے پیچھے اسی ڈگری میں اٹھتی ہوئی ایک سنگیں دیوار تھی جو بلندی پر نوکیلی ہوگئی تھی۔اس دیوار کے قدموں میں دور تک پھیلی ایک تنگ گھاڑی تھی جس کی چوڑائی اتنی تھی کہ ایک لمبے بانس کی مدد سے اس کی دوسری طرف کودا جاسکتا تھا۔ ثانی نے قریب سے اس گھاٹی کا معائنہ کیا۔کم گہرائی کی حامل یہ گھاٹی آدم خور کے چھپنے کیلئے مثالی جگہ تھی۔یہاں گذشتہ کسی طوفانی موسم میں جڑ سے اکھڑے ہوئے درخت بھی بکھرے ہوئے تھے۔جو اپنی بے ہنگم طور پر پھیلی ہوئی شاخوں کے ساتھ آدم خور کو مزید آسانیاں فراہم کرنے کا باعث بن رہے تھے۔کوئی معمولی جنگی اہلیت رکھنے والا جرنیل بھی اس محاذ جنگ کا انتخاب نہ کرتا کہ یہاں جنگ کرنا سراسر گھاٹے کا سودا تھا۔لیکن وائے مجبوری کہ انہیں اس کے سوا کوئی دوسرا محاذ میسر ہی نہ تھا۔

پہلا مرحلہ تھا خیمے کو گاڑنے کیلئے کسی موزوں جگہ کے انتخاب کا۔ضروری تھا خیمہ مثلث نما محاذ جنگ کے اندر موجود ہو تاکہ وہ آدم خور کی ممکنہ نقل و حرکت سے آگاہ بھی ہوسکیں اور ان کی اپنے مورچوں تک رسائی بھی آسان ہو۔اور یہ بھی کہ وہ اس درخت پر نگاہ رکھ سکیں جس کے نیچے بکری کو باندھا گیا تھا۔یوں درمیان میں کہیں ایک سپاٹ جگہ منتخب کرکے وہاں خیمے کی میخیں ٹھونک دی گئیں۔خیمے کو قیام کیلئے موزوں حالت میں کرنے اور یہاں سامان منتقل کرنے کے بعدثانی نے جنگ سے قبل کا پہلا سگریٹ سلگایا اوران دونوں کے ساتھ کھلے میں نکل آیا۔

ڈپٹی کی تجویز تھی کہ جس درخت کے نیچے بکری کو باندھا گیا ہے اس کے اوپر ایک بڑی مچان بنائی جائے جس پر تینوں رات بسر کرسکیں اور جونہی دونوں گلدار بکری کو کھانے آئیں انہیں شوٹ کردیا جائے۔ثانی نے اپنے روحانی گرو جم کاربٹ کے تجربے کی روشنی میں اس تجویز کو مسترد کردیا۔وجہ اس نے یہ بتائی کہ ایک تو یہ کہ درخت اتنا پھیلا ہوا نہیں تھا کہ اس پر بڑی مچان بنائی جاسکے۔دوسرے یہ کہ مچان بنائی بھی گئی تو وہ اتنی اونچی نہیں ہوگی کہ درندے کی جست سے دور ہو اور سب سے اہم یہ بات کہ ارد گرد موجود جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ان درندوں کو نگاہ میں رکھنا ممکن نہیں تھا۔اگر وہ کہیں قریب ہی دبک کر بیٹھ جاتے تو جھاڑیوں کے گھنے پن میں ان کا پتا چلانے کیلئے انہیں درخت سے اترنا پڑتا ۔یوں انہیں مہلت مل جاتی کہ وہ ا ن پر جھپٹ پڑیں۔اور پھر مچان پر بیٹھنا دل گردے کا کام تھا۔

ایوبیہ نیشنل پارک اور اس کے گردا گرد سارے جنگلات بے شمار جنگلی انواع سے اٹے پڑے ہیں۔یہاں موجود درخت صرف پرندوں ، بندروں اور گلہریوں کے مسکن ہی نہیںبہت سے حشرات الارض اور سانپوں کی پناہ گاہ بھی ہیں۔اگر رات کی تاریکی میں عین وقت پر جبکہ گلدار لوگ کہیں ارد گرد منڈلا رہے ہوںاچانک پرندے شور مچادیں، کوئی اڑنے والی گلہری ان پر چلانگ لگادے یا کسی شاخ سے لٹکتا ہوا سانپ ان پر آگرے تو وہ خود تو جنگل کا عادی ہونے کے باعث معاملہ ٹال جائے گا لیکن ممکن ہے کہ دہشت کے مارے باقی دونوں بے ہوش ہوجائیں اور ایک ذرا سی آہٹ پر گلدار جست لگاکر تھاں پر ان کا ٹینٹوا دبا سکتا تھا۔اس نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ دونوں گلداروں کو گرائونڈ لیو ل سے نشانہ بنایا جائے تاکہ وہ خود بھی نقل و حرکت کرنے میں آزاد ہوں۔ثانی کے دلائل پر دونوں نے اثبات میں سرہلایا تو اس نے چھپنے کیلئے بہترین مقام کی تلاش کیلئے اس ساری جگہ کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

اس نے دیکھا کہ اس مثلث نما کے کھلے حصے کی دونوں اطراف سے آدم خو رکے نمودار ہونے کے امکانات موجود تھے۔ان اطراف کو محفوظ بنانے کیلئے اس نے فیصلہ کیا کہ خاصے فاصلے پر ڈپٹی اور نور محمد کو تعینات کردیا جائے۔یہاں دونوں اطراف بڑے بڑے پتھر تھے جو ان دونوں کو چھپ کر بیٹھنے کیلئے قدرتی آڑ فراہم کرسکتے تھے۔یوں دونوں ناصرف ’’ریڈ زون‘‘ سے دور رہتے بلکہ اطراف پر نگاہ بھی رکھ سکتے تھے۔اس صورت میں وہ تینوں ایک دوسرے کی نگاہ میں بھی رہ سکتے تھے۔

جرنیل نے خود اپنی مورچہ بندی کیلئے نگاہ دوڑائی تو اسے وہی درخت موزوں نظر آیا جو اس مثلث نما کے اوپری نیم دائرہ بناتے حصے میں ایستادہ تھا۔کل بھی اسی درخت کے پیچھے اس نے مورچہ لگایا تھا۔آج بھی اس نے یہیں مورچہ بندی کا فیصلہ کیا۔ یہاں عقب میں آٹھ دس فٹ اونچا پتھر تھا جو اس کی پشت کو محفوظ بناتا تھا جبکہ سامنے کے رخ ایک تنومند درخت کا تنا اسے دشمن کی فوری نگاہ سے بچنے کا موقع فراہم کرتا تھا۔اس تنے کی بھاری بھرکم شاخیں کچھ اٹھی ہوئیں اور کچھ سامنے کے رخ پھیلی ہوئی تھیں ۔اگر یہاں کچھ خشک جھاڑیوں کو کاٹ کر نیم دائرے میں پھیلا دیا جاتا تو آدم خور کے پاس اس تک پہنچنے کیلئے جست لگانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔

نور محمد نے سامان سے ایک چھوٹی کلہاڑی نکالی اور کچھ ہی دیر میں بہت سی جھاڑیاں کاٹ لایا۔ان جھاڑیوں کو ثانی کے مورچے کے آگے اور خیمے کے اطراف پھیلانے کے بعد ممیاتی ہوئی بکری کیلئے مزید چارہ کاٹا اور اس کے آگے ڈال دیا۔سب تیاریاں مکمل تھیں۔اب انتظار تھا تو جنگ کے بگل بجنے کا۔

وہ تھوڑی سی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آرام کیلئے خیمے میں داخل ہوئے تو بوجھل سکوت کی آغوش میں اونگھتے موسم کی نیند کا خمار بھی ٹوٹ گیا۔ایک سہج سے چلتی ہوا کو عقب میں آتے مضبوط بدن جھونکوں نے اتاولے پن سے دھکا جو دیا توفضا خشک پتوں کی اڑان سے بھر گئی۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دھواں دھواں بادلوں کی نمی چاٹتے خشک پتے تالیاں پیٹتے ہوئے لچکیلی شاخوں کے تیز ہلکورے لینے لگے۔خیمے کے قریب ہی ایک گلہری زمین پر پائوں جمائے بیٹھی ایک سوکھے سڑے پھل کو کتر رہی تھی۔موسم کی انگڑائی پر اس کے کان کھڑے ہوئے اور وہ پھل کو وہیں پھینک شور مچاتی ایک زمین بوس تنے میں گھس گئی۔تیز ہوامیں ایک پاگل پن سا گھلا تو اس نے درختوں کی چھتریوں میں گھس کر سیٹیاں بجانا شروع کردیں۔جنگل کا سکون تہہ و بالا ہوا تولمحہ بھر میں سارے معمولات منسوخ ہوئے اور مخلوقات اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ گزیں ہوگئی۔ مضبوط دیودار کی تنومند شاخوں کے ساتھ ایک سہم سے چپکے ہوئے بندرٹولے کی جہاندیدہ سربراہ نے گردن بڑھا کر دیکھا کہ شوریدہ ہوائیں جنے کہاں سے کالے اور سرمئی بادلوں کے غصیلے لشکر دھکیل دھکول کر وہاں لے آئی تھیں۔

فضا میں ایک ہڑبونگ سی مچی اورچٹے دن رات ہوگئی ۔

جنگل کے سارے رنگ بدل گئے اب وہ کوئی اور جنگل تھا ۔دیوانگی پر مائل ہوائوں کی زد میں آیا ہوا اورتباہی کی خواہش میں پاگل فطرت کا قدیم مسکن۔

اچانک بجلیوں نے ایک لرزادینے والی کڑک کے ساتھ اپنی آمد کا اعلان کیا تو درخت سے بندھی بکری خوف کے عالم میں ممیائی۔

’’صاب! لگتا ہے زبردست طوفا ن آنے والا ہے‘‘۔ نور محمد نے خیمے سے گردن نکال کر باہر جھانکا۔

’’مجھے ڈر ہے کہ ہماری ساری پلاننگ کا ستیاناس نہ ہوجائے۔‘‘ثانی نے بھی ایک ذرا پردہ ہٹاکر باہر دیکھا۔’’ایسے میں آدم خو ر بھی اپنی غار میں دبکی رہے گی اور ہم بھی جانے کب تک اس طوفان میں پھنسے رہیں گے۔‘‘

’’ہم عین طوفان کی آنکھ میں پڑے ہیں۔اللہ خیرکرے‘‘۔ڈپٹی کے لہجے میں صاف خوف جھلک رہا تھا۔’’میں برسوں سے اس جنگل میں طوفانوں کی تباہ کاریاں دیکھتا آیا ہوں۔ہر طوفان کے بعد بڑے بڑے تناور جڑو ں سمیت زمین چاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

’’نور محمد! تم نے خیمے کو کھونٹوں سے مضبوطی سے باندھا تھانا؟‘‘

’’صاب! اللہ نے چاہا تو خیمے کو کچھ نہیں ہوگا۔البتہ مجھے ڈر ہے کہ ہمارے بالکل قریب کچھ کمزور درخت ہیں۔نور محمد نے جواب دیا۔

’’اللہ خیر کرے گا۔میں خود کھونٹوں کو چیک کرتا ہوں۔‘‘ڈپٹی نے سامان میں سے ہتھوڑا تلاش کرتے ہوئے کہا۔

ثانی نے باہر نکل کر فضا کا جائزہ لیا تو حالات سخت مایوس کن تھے۔وہ فطرت کی وحشی اور بے رحم قوتوں کے مقابل تھا۔آسمان پر مختلف سمتوں سے گھٹائیں اپنے جلو میں بجلیاں لیے ایک دوسرے سے الجھی پھر رہی تھیں۔تاریکی اتنی کہ حد بصارت نہ ہونے کے برابر تھی۔زمین پر تیز ہوائیں بے رحمی سے جھاڑو پھیر رہی تھیں اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو تنکوں کی طرح اڑا رہی تھیں جبکہ آسمان پر تاحد نگاہ بجلیوں کی چمک تھی جو گھپ اندھیرے کی چادر میں جگہ جگہ چھید کیے جارہی تھی۔لگتا تھا کہ بادلوں کا سینہ کسی بھی وقت شق ہوکر ہر سو جھل تھل کردے گا۔سارا جنگل ایک عجیب طرح کی دیوانگی میں مبتلا دکھائی دے رہا تھا۔تیز ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی درختوں سے نکلتی دور کی چوٹیوں پر حملہ آور ہورہی تھی۔ ہوا کی زور آوری اس بلا کی تھی کہ لچکیلے تنوں والے اور کمزور جسامت کے درخت بیچارگی کے عالم میں جھلارے لیتے اپنے قدموں پر جھکے جارہے تھے۔ان کی جھولتی چھتریوں میں دبکے پرندے چونچ منہ میں دبائے دبکے پڑے تھے۔موسم کی تندی کسی مہیب طوفان کی آمد کا اعلامیہ بن سکتی تھی جو رخصت ہوتے ہوتے جانے کتنے پرندوں اور حشرات کی پناہ گاہوں کو ملیا میٹ کرجاتا۔گذشتہ طوفانوں کی نشانی کے طور پر پہلے ہی وہاں کئی درختوں کے خشک لاشے بکھرے پڑے تھے۔ابھی جانے اورکس کس کا لاشہ گرنا باقی تھا۔

اچانک ثانی کو ہوا نے دھکا دیا تو اس کے قدم زمین سے اکھڑ گئے اور وہ دھم سے زمین پر آرہا۔اس کی آنکھوں میں مٹی بھرگئی تھی۔اس نے آنکھیں میچ کر قریب کے ایک درخت کو دیکھا اور بندر کی طرح چاروں ہاتھ پائوں پر دوڑتا اس کے تنے سے چمٹ گیا۔ہوا اسے درخت سے جدا کرنے کیلئے بدستور زور آزمائی کیے جارہی تھی۔اس نے تنے پر بازوئوں کی گرفت مضبوط کردی۔تب اس نے آنکھیں میچ کر دیکھا کہ خیمہ بری طرح سے پھڑپھڑا رہا تھا۔تھوڑا سا اطمینان یہ تھا کہ خیمے کی طنابیں مضبوطی سے بندھی تھیں لیکن جو کبھی طوفانی ہوا خیمے کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوجاتی تو وہ اپنے زوروں میں اس اطمینان کو میں بھی بدل سکتی تھی۔

اچانک آسمان پر ایک کوندہ لپکا اور شاخ در شاخ بٹتا دور تک پھیل گیا۔اس کے ساتھ ہی دل دہلادینے والی کڑک نے فضا کر لرزا دیا۔شاید کہیں قریب ہی بجلی گری تھی۔بکری اس کڑک سے بری طرح خوفزدہ ہوگئی اور رسی تڑا کر بھاگنے کیلئے زور لگانے لگی۔وہ اس حالت میں دکھیاری کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا ۔اس نے چاہا کہ نور محمد کو آواز دے کہ وہ بکری پر ڈالنے کیلئے سیلوفین کا ٹکڑا لے آئے لیکن اس کی آواز پارہ پارہ ہوا میں بکھر گئی۔اس نے ہوا کے ایک سے دوسرے جھونکے کے درمیان وقفہ ہونے کا انتظار کیا اور پھر سر جھکا کررکوع کی حالت میں خیمے کی طرف دوڑ لگادی۔

خیمے میں ڈپٹی کمبل اوڑھے دبکا پڑا تھا اور ایک کونے میں نور محمداندر گھسنے والے ہوا کے شریر جھونکوں کو اپنی پشت پر لیے گیس سٹوو پر چائے بنانے میں مصروف تھا۔اس نے ایمرجنسی لائٹ بھی روشن کررکھی تھی تاکہ کم از کم ہاتھ کو ہاتھ تو سجھائی دے۔اچانک بارش کے ایک موٹے قطرے نے خیمے پر ہلکی سی دستک دی۔یہ طوفان کا ابتدائیہ تھا۔ایک قطرہ، پھر دوسر، تیسراا اور پھر بارش کی موٹی بوندوں کا تانتا بندھ گیا۔باہر زور دار بارش شروع ہوچکی تھی۔سرد ہوا کے تیز جھونکوں نے خیمے میں داخل ہوکر انہیں کپکپا دیا۔نور محمد نے بھاپ کے لہرئیے میں لپٹی گرم چائے پیش کی تو جیسے کوئی دیرینہ حسرت پوری ہوگئی ہو۔

’’نور محمد! یار ذرا ہمت کرکے بکری پر سیلوفین ڈال آئو‘‘۔ثانی نے کپکپاتے ہاتھوں سے چائے کی چسکی بھری۔

’’ہاں!بھیگ رہی ہوگی بیچاری۔میں ابھی آیا‘‘۔نور محمد نے اثبات میں سر ہلایا اورسیلوفین کی شیٹ کو بغل میں دبا کر باہر نکل گیا۔تھوڑی دیر بعد واپس آیا توسردی اور بارش سے بچنے کیلئے خود کو اپنے بازوئوں میں دبوچ رکھا تھا۔اندر آتے ہی اس نے خیمے کے پردے برابر کرکے ہک لگادئیے اور واپس اپنی جگہ پر نیم دراز ہوگیا۔

ویدر پروف ہونے کے باوجود خیمے میں اتنی خنکی ضرور داخل ہوگئی تھی کہ انہیں کپکپاتے ہوئے بدنوں کو کمبلوں میں چھپانا پڑا۔

’’یہ پہاڑی علاقوں کی مخصوص بارش ہے۔طوفانی اور بے رحم‘‘۔ڈپٹی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے خاموشی کو توڑا۔

’’مجھے ڈر ہے طوفان اتنا شدید نہ ہوجائے کہ ہمارے لیے خیمے میں پناہ لینا بھی مشکل ہوجائے‘‘۔نور محمد نے کہا۔

ثانی  نے چائے کا کپ آدھا ہونے پر اپنی عادت کے مطابق سگریٹ سلگا کر خیمے کے پردے کے ساتھ سر ٹکاتے ہوئے ایک لمبا کش لیا اور فلسفیانہ لہجے میں بولا۔’’تاریکی کے بیک ڈراپ میں تند خو فطرت کے مقابل تین کمزور انسان۔دیکھتے ہیں فطرت اپنے گھر میں بلا کر اپنے

مہمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے‘‘۔

’’اور جو طوفان میں خیمے کی تنابیں اکھڑ جائیں تو!؟‘‘۔ڈپٹی نے انہیں ڈرانے کیلئے کہا۔

’’شبھ شبھ بولو ڈپٹی!شکل تو خیر جیسی ہے سو ہے کم از کم بات تو اچھی کرو‘‘۔ثانی نے برا سا منہ بنایا۔

’’اللہ خیر کرے گا صاب ! ایسی بہت بارشیں آتی ہیں یہاں۔جیسے آتی ہیں ویسے چلی بھی جاتی ہیں‘‘۔نور محمد نے انہیں تسلی دی۔

’’ویسے نادانستگی میں ہم ایک عقل مندی کا ارتکاب کربیٹھے ہیں۔ہم نے خیمہ گاڑنے کیلئے سخت اوراونچی جگہ کا انتخاب کیا ہے۔اگر جو ہم کچی اور نشیبی زمین پر ہوتے تو سوچو کیا ہوتا ہمارے ساتھ!‘‘۔ڈپٹی نے کہا۔

’’تم ساتھ ہوتے ہو ڈپٹی تو کبھی کبھی کوئی عقل مندی سرزد ہوای جاتی ہے‘‘۔ثانی نے ہنس کر کہا۔

وہ اندر کمبلوں میں سمٹے باہر طوفان کی زد میں آئے ہوئے جنگل سے اٹھتی خوفناک آوازیں سن رہے۔تند ہوائوں کا مقابلہ کرتے درختوں کے پتوں اور شاخوں کو جھنجھوڑتی اور بلند جھاڑیوں سے الجھ کر گذرتی ہوا ایک تیز شوکر کے ساتھ پتھروں اور پہاڑوں سے سر ٹکرا تی پھر رہی تھی۔اس بیچ کسی درخت کی کوئی شاخ کڑکڑاتی تو ماحول کی ہیبت ناکی میں اضافہ ہوجاتا۔اور پھر وہاں سیلابی پانی کے تند دھارے تھے جو چاروں اورپہاڑوں سے پھوٹ کر پتھروں سے سر ٹکراتے نشیب کی طرف رواں تھے۔

بارش کے اولے جیسے قطرے ویدر پروف خیمے پر دبا د ب گرتے رہے ۔وہ مطمئن تھے کہ انہوں نے زمین میں دبے ایک پتھر کی بالائی سطح پر خیمہ نصب کررکھا ہے جہاں پانی کے رس کر اندر آنے کا زیادہ امکان نہیں ہے لیکن یہ وقتی اطمینان تھا جو پانی کے پہلے رسائو کے ساتھ ہی بہہ گیا۔نشیب فراز کچھ بھی پانی کی زد سے محفوظ نہیں تھا۔بلند چٹانوں کو بھگوتے پانی کے دھارے اپنے راستے خود تخلیق کرتے ہیں۔سو یہاں بھی پانی نے فراز کے باوجود اپنا راستہ بنالیا تھا اور اس محفوظ خیمے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔پانی تیزی سے رس کر خیمے کے اندر کی ننھی سی دنیا کو بھگونے لگا تو ان کے چہروں پر تنائو پھیل گیا۔ سامان کو پانی کی مار سے بچانا ضروری تھا ورنہ سارا کیا کرایا پانی کی نذر ہوجاتا۔اور پھر رائفلیں اور کارتوس تھے جن تک نمی پہنچ جاتی تو وہ طوفان ختم ہوتے ہی آد م خور کے رحم و کرم پر آجاتے۔انہوں نے جلدی سے رائفلیں واپس کور میں پیک کرکے کندھوں پر لٹکالیں اور کارتوسوں کے ڈبوں کو سختی سے سیلوفین کی تہوں میں لپیٹ کر ہاتھوں میں تھام لیا۔نور محمد نے ایک کونے میں خالی کارٹن اوپر نیچے رکھے اورآتشیں اسلحہ کو ان پر ڈھیر کردیا۔ باقی چھوٹے موٹے سامان کو بھی ہر ممکن حد تک نمی سے بچاتے ہوئے وہ پانی کے ننھے دھاروں کی زد سے دور کمبل اوڑھ کر پڑ رہے۔

چائے کا دوسرا رائونڈ چل رہا تھا کہ بارش کا زور ٹوٹنے لگا۔باہر کے شور شرابے میں آہستہ آہستہ دھیرج آنے لگی تھی۔گرجتے برستے آسمان پریک لخت خاموشی چھائی تو جنگل بھی حالت سکون میں آگیا۔اب صرف پانی کے دھارے تھے جو شور مچاتے بہے جارہے تھے لیکن اب  ان کی تندی میں بھی تھکن بڑھنے لگی تھی۔وہ خیمے کے پردے اٹھا کر باہر نکلے تو منظر یکسر بدل چکا تھا۔بارش اب بھی جاری تھی لیکن ایک سہل سے ۔آسمان پر گھٹا ٹوپ گھٹائیں اپنے ساتھ لایا سارا پانی بہا کر ہلکے ہلکے کسی اور دیس جانا شروع ہورہی تھیں۔بھیگی ہوئی شام کا آسمان، ایک دم سے اجلا اور گہرانیلا آسمان چھٹتے ہوئے بادلوں کی دبیز تہوں میں سے جا بجا جھانک رہا تھا۔

ثانی نے گھڑی دیکھی۔شام کے چھ بجنے والے تھے۔موسم کی قہرناکی پندرہ بیس منٹ تک جاری رہی تھی۔ابھی کچھ دیر میں رات کی

سیاہی فضائوں میں گھلنے والی تھی۔انہوں نے دیکھا کہ بکری بری طرح سے بھیگی اور سہمی ہوئی اپنے گھٹنوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ انہیں دیکھ کرپھیپھڑوں کا پورا زور لگا تے ہوئے ممیائی جیسے ان سے سفاکانہ بے رخی پر احتجاج کررہی ہو۔یہی وہ وقت تھا جب آدم خور اپنے بچے کے ہمراہ طوفان کے بعد کی پر سکون فضا سے لطف اندوز ہونے اور ساتھ ہی پیٹ پوجا کی فکر کرنے کیلئے غار سے باہر آسکتی تھی۔ثانی کی ہدایت کے مطابق انہوں نے اپنے موبائل فون سائلنٹ پر کرکے خیمے سے اپنی رائفلیںنکا لیں اور اپنے اپنے طے کردہ ٹھکانوں میں پہنچ گئے۔ثانی نے دوشاخہ درخت کے دونوں تنوں بیچ موجود خلا میں اپنی ڈبل بیرل کی نال ٹکائی اور ایک گیلے پتھر پر بیٹھ کر دن کا آخری سگریٹ سلگا لیا۔ وہ درخت جس کے ساتھ بکری بندھی تھی اس سے چالیس سے پچاس گز کے فاصلے پر بالکل سامنے کے رخ تھا۔اس کے دونوں ساتھی اس سے ڈیڑھ سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھے اور ان سے رابطے کا واحد ذریعہ موبائل فون پر ٹیکسٹ میسجنگ تھی سو اس نے میسج کرکے ان سے اوکے رپورٹ لی۔

وحشی بارش اور تند ہوائوں کے بعد جنگل میں چہل پہل لوٹ آئی تھی۔جنگل کے تمام باسی طوفان کے دوران اپنی کمیں گاہ میں دبکے رہے تھے اور اب طوفان گذر جانے کے بعد وہ ایک ترنگ کے عالم میں اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل آئے تھے۔درختوں کی گھنی شاخوں میں

موجود پرندے کسی پر شور بحث میں مشغول تھے جبکہ چھوٹی بڑی گلہریاں ایک ہماہمی کے عالم میں کبھی درخت پر چڑھ رہی تھیں کبھی کسی خیال کی لہر میں زمین پر آجا رہی تھیں۔ایک درخت پر موجود سرد ہوا کی مستی میں گرمایا ہوا ایک بندر جذباتی لہر میں آیا اور کہیں اور موجود اپنی مادہ کو ورغلانے کیلئے آواز نکالی۔دوسری جانب سے بھی اسی ٹون میں حوصلہ افزا جواب ملا تو بندر نے درخت سے چھلانگ لگائی اور کوئے یار روانہ ہوا۔کچھ دیر بعد ایک لومڑ اپنی نصف بہتر کے ساتھ لگے لگے اپنی دھن میں مست سامنے سے گذرا اورجھاڑیوں میں گھس گیا۔

اب ایک انتظار تھا جو لامتناہی بھی ہوسکتا تھا۔

عجیب طور پر ثانی کو وہاں گھات لگائے بیٹھنا مشکل سا ہورہا تھا۔جسم میں ہلکی سی اینٹھن اور کسلمندی بھی تھی جو اسے اکسارہی تھی کہ جائے اور خیمے میں جاکر کمبل لپیٹ کر سوجائے۔اچانک ایک زور دار چھینک نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسے آرام کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی لیکن مورچہ چھوڑجانے کا مطلب تھا خود کو اور اپنے دونوں ساتھیوں کو ہلاکت میں ڈالنا۔ثانی کو یاد آیا کہ تیز بارش میں بھیگنا اور پھرخنک ہوا میں گیلے کپڑے پہنے رکھنا اسے بیمار کرنے کا باعث ثابت ہورہا ہے۔ایک اور چھینک ،پھر دوسری اور پھر تیسری۔ایک بار تو ثانی کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔وہ نزلہ زکام کا شکار ہورہا تھا۔اس نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر گہری سانس لی۔اگر بخار نے اسے مغلوب کرلیا تو وہ کہیں کا نہ رہے گا۔تب اس نے اپنی جزویات کو اہمیت دینے کی عادت پر خود کو داد دی جس کی وجہ سے اس کی کمرے سے بندھے پائوچ میں ضروری دوائوں کا چھوٹا سا ذخیرہ موجود تھا ۔اس نے موبائل فون کی روشنی میں زکام بخار کی دو گولیاں تلاش کیں اور پانی کے ساتھ نگل لیں۔چلتے سمے اس نے ایک چھوٹے فلاسک کو بھی چائے سے بھرلیا تھا جس کی نیم گرم چسکیاں اس کے اعصاب کو بحال کرنے کے سلسلے میں معجز نما ثابت ہوئیں۔

وہ چائے کی آخری چسکی لے کر فلاسک پر ڈھکن لگانے کو تھا کہ اس کی شکاری حس بیدار ہوگئی۔جنگل کی مخصوص خاموشی اچانک ٹوٹ گئی تھی۔اس کے ارد گرد موجود درختوں پر چڑھے بندروں میں سے ایک نے ایک مخصوص سی آواز نکالی۔کچھ دور سے اسی ٹون میں جواب آیا اور پھر بہت سے بندروں کے گروہ میں کچھ دیر کیلئے سراسیمگی سے پھیل گئی۔اس کے ساتھ ہی بہت سے پرندوں نے کورس میں شور مچانا شروع کردیا۔کہیں سے ایک الو نے کوک پکار کی تو کہیںکسی اور پرندے نے اپنے ساتھیوں کو کوئی مخصوص سگنل بھیجا۔اور پھر جھاڑیوں میں کئی پر

پھڑپھڑائے اور پرندوں کی ایک ٹولی جھاڑیوں سے پھرا مار کر اڑی اور جنگل کی گہرائیوں میں غائب ہوگئی۔جنگل میں ہونے والا یہ شور شرابا اشارہ تھا کہ گلدارکہیں قریب ہی نمودار ہوچکی ہے۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد جنگل پھر سے ایک گھمبیر خاموشی میں ملفوف ہوگیا۔

ثانی رائفل کے کندے کو بغل کے ساتھ دباتے ہوئے سنبھل کر بیٹھ گیا۔اسے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا تھا کہ اس نے دیکھا کہ تاریکی میں فروزاں دو آنکھیں تھوڑے ہی فاصلے پر نمودار ہوچکی تھیں۔اس نے نظریں جما کر دیکھا توستاروں کی موہوم سی لو میں ایک گلدار کا تاریک ہیولا اس کے سامنے موجود تھا۔یہ قدرے چھوٹے سائز کا درندہ تھاجوزمین پر پنجے گاڑے بکری کی جانب دیکھ رہا تھا۔یقینایہ بچہ گلدار تھا جو بکری کی ضیافت اڑانے آیا تھا۔اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس کے پیچھے دو اور آنکھیں فروزاں ہوئیں۔ یہ اس کی ماں تھی۔۔۔آدم خور چھلاوہ۔۔۔ جو دن بھر غار میں بند رہنے کے بعد اپنے بچے کے ہمراہ رات کے شکار کیلئے نکلی تھی۔

ثانی نے اپنے سارے اعصاب مٹھی میں بھینچ لیے اور سنبھل کر بیٹھ گیا۔وہ اس وقت آدم خور کے مقابل تھا اور دونوں کے درمیان فاصلہ خطرناک حد تک کم تھا۔اس کی انگلی ٹریگر پر اور آنکھ ڈبل بیرل کی مکھی پر جم گئی۔وہ چھوٹے لیپرڈ کی دھیمی غراہٹ کو صاف سن رہا تھا۔وہ سنبھلے ہوئے قدموں آگے بڑھا اور پھر اچانک بکری پر جاپڑا ۔بجلی کی سی سرعت سے اس کا پنجہ فضا میں بلند ہوا اور بکری کی گردن جھول گئی۔بیچاری کو اف کرنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ماںنے سر اٹھا کر اپنے ہونہار بروا کو دیکھا جو ایک بھرپور درندہ بن چکا تھا۔اس نے ضرور دل ہی دل میں اسے سراہا ہوگا۔تب وہ ہلکی سی لنگڑاہٹ کے ساتھ آگے بڑھی اور بکری کو کھینچ لے جانے کیلئے اس کے ساتھ مل کر زور لگانے لگی لیکن بکری نائیلون کی موٹی رسی کے ساتھ بندھی تھی جسے توڑنا اس کیلئے ممکن نہ تھا۔ثانی کا سارا پلان اسی نائیلون کی رسی کا مرہون منت تھا کہ اس کی وجہ سے دونوں درندے اس کے سامنے ہی بکری کو کھانے پر مجبور تھے۔

دونوں اس کے نشانے پر تھے لیکن الجھن یہ آن پڑی کہ وہ پہلے کس پر گولی چلائے۔چھوٹا گلدار بے جرم تھا وہ اسے نہیں مارنا چاہتا تھا لیکن اگر وہ ماں پر گولی چلاتا تو بچہ اس پر آن پڑتا اور اگر بچے پر گولی چلاتا توسفاک اور عیار ماںکے غیض سے بچنا شاید اس کیلئے ممکن نہ رہتا۔تیسری صورت میں اگر نشانہ خطا جاتا۔۔۔(اس نے جھرجھری سی لی)۔۔۔ تو وہ دونوں کے رحم و کرم پر ہوتا۔اسے پہلے کبھی ایسی صورتحال سے واسطہ نہ پڑا تھا۔ایک لمحے کو تو اسے لگا جیسے اس کی قوت فیصلہ سلب ہوگئی ہو۔

اس کی آنکھ ڈبل بیرل کی مکھی پر جمی تھی اور دماغ الجھا ہوا تھا۔ اس کی رائفل کا نشانہ چھوٹے گلدار پر جما ہوا تھا جو ایک اشتہا کے ساتھ بکری کے جسم کو پائوں سے دبائے اس کے گوشت کا ایک پارچہ کھینچ کر الگ کررہا تھا۔ایک تجربہ کار شکاری کے طور پر ثانی کیلئے نادر موقع تھا کہ وہ اس کے جسم میں بارود کا زہر اتار دیتا۔اس نے رائفل کی نال کا زاویہ بدلا تو نشانہ اس کی کھوپڑی پر جم گیا۔ٹریگر پر انگلی کا دبائو بڑھا اور پھر ایک نامحسوس سی لرزش سے دبائو ہلکا ہوگیا۔تب رائفل کی نال گلدار کے سر سے پھسلی اورگہرے زرد جسم پر کھلے سیاہ گلابوں کو سہلاتی اس مقام پر جارکی جہاں اس کا وحشی دل دھڑکا کرتا ہے۔ٹرائیگر کا ایک جھٹکا اور بارود اس کے دل کو پاش پاش کرکے ایک دھڑکتی زندگی کا قصہ پاک کردیتا۔ٹرائیگر پر انگلی نے پھر دبائو ڈالا۔دبائو بڑھتا گیا مگر آہ! پھر وہی لرزش۔اس کی ہتھیلیوں میں پسینہ پھوٹا اورانگلی نے موت کے پیغام بر ٹرائیگر پر دبائو کم کر دیا۔ثانی نے گہری سانس لے کر خنک را ت میں ماتھے پر آئی تریلی پونچھی۔چھوٹا گلدار معصوم تھا۔اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔وہ اسے کیسے زندگی سے محروم کردیتا۔

ثانی نے زندگی کے بہت سے برس جنگلات کی نذر کیے تھے۔اسے بیٹھے بڑھائے کسی جنگل سے بلاوا آتا اور وہ بے خودسا اس بلاوے کے تعاقب میں چل پڑتا۔آباد براعظموں میں سے کوئی ایسا براعظم نہیں تھا جس کے جنگلات کی مہکار کو اس نے اپنے رگوں میں نہ اتارا ہو۔جنگل جنگل گھومتے اور جنگل کے باسیوں بیچ سانس لیتے ہوئے اس کا درختوں ، جانوروں اور پرندوں کے ساتھ ایک عجیب سا ناطہ جڑ گیا تھا۔وہ اپنے مزاج اور دل سے شکاری نہیں تھا۔شکار تو ایک بہانہ تھا جنگل کے ساتھ جڑے رہنے کا۔اس کے پاس یہی ایک ہنر تھا۔لیکن اپنے اس ہنر کے ساتھ اس کی کبھی بنی نہیں۔اس نے جب بھی کسی جانور پر گولی چلائی تو ایک بار تو دل بوجھل ضرور ہوا۔سو اس بوجھ کو ہلکا کرنے کیلئے وہ کوشش کرتا کہ صرف ایسے جانوروں کو نشانہ بنائے جو کسی طرح سے انسانوں کیلئے خطرناک ہوچکے ہوں یا بوڑھے او ر بیمار ہوں۔اس چھوٹے گلدار جیسے پھڑکتے ہوئے چکنے وجود اس کے نشانے سے ہمیشہ بچ نکلتے تھے۔یوں تو بہت سی انواع تھیں جن کے ساتھ اس کا ایک داخلی ناطہ تھا لیکن بلی کی نسل کے جانوروں نے اسے سدا سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔اس کا شیر، چیتے، پینتھر اور لیپرڈ سے اکثر واسطہ پڑا تھا اور وہ ان کے اندر موجود ایک عجیب سی کشش کا اسیر تھا لیکن لیپرڈ یا گلدار ایسا جانور تھا جس نے اسے اپنی محبت میں باندھ رکھا تھا۔اپنی انواع کے دوسرے جانوروں سے کہیں زیادہ دلفریب اس جانور کے ساتھ اس کا سب سے کم واسطہ پڑا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ گلدار کا شرمیلا پن اور تنہائی پسندی تھی۔وہ انسانوں کی دنیا سے دور کسی نامعلوم دنیا میں زندگی بسر کرنے کا عادی ہے اور ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کوئی بھی جانور حتیٰ کہ کوئی دوسرا نر گلدار بھی اس کی تنہائی میں مخل ہو۔اسے چند ایک بار اس خود فراموشی کی دھند میں لپٹے رہنے والے اس درندے سے ملاقات کا شرف تو ضرور حاصل ہوا تھا لیکن اس کے اور گلدار کے درمیان اجنبیت کی ایک گہری کھائی حائل رہی تھی جسے پار کرنے کا پہلے کبھی اسے موقع نہ مل سکا۔اس نے حقیقی دنیا میں تو نہیں لیکن کتابوں میں اسے ضرور پایا تھا۔جم کاربٹ وہ پہلا لکھاری تھا جس نے بچپن میں ہی اس کے دل میں اس افسانوی مخلوق کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی جوت جگائی تھی۔لیکن اس طرح دار گوشت خور کی حقیقی جانکاری اسے یہاں گلیات میں آکر حاصل ہوئی تھی۔اگر وہ آدم خور کے تعاقب میں مشک پوری کی جھاڑیوں کے کانٹوں کی چبھن اپنے بدن میں نہ سجاتا تو گلدار جیسا مسحور کن جانور ایک ان دیکھے جزیرے کی طرح اس کیلئے ہمیشہ اجنبی ہی رہتا۔

اور اب جبکہ چھوٹے گلدار کا دل اس کی رائفل کی زد میں تھا۔وہ مسحور سا اس کی مضبوط اور لمبی دم کی لرزش پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ستاروں کی لو میں اس سایہ سے وجود کو دیکھتے ہوئے کسی گم نام امریکی شاعر کی بھولی بسری لائنیں اس کے دماغ کے پرامپٹرپر چلنا شروع ہوگئی تھیں:

وہ جو جنگل کی مخلوقات میں سب سے ذہین ہے

اور سب سے عیار ہے

جو اپنی زرد کھال پر سیاہ دھبے سجائے چٹانوں اور سنگلاخ زمینوں

اور جنگل کی گہری کھائیوں میں چور چال چلتے ہوئے شکار کا تعاقب کرتا ہے

وہ جو سب سے سڈول اور سجل ہے اور اپنے سر میں منصوبہ ساز دماغ چھپائے ہوئے ہے

وہ جو شرمیلا ہے اور جس کے کٹیلے پنجوں میں غیض بھرا ہے

وہ قاتل جبلت کے ساتھ شکار کا تعاقب کرتا ہے اور ایک آن میں اسے جالیتا ہے

میں اس گلدار کے ساتھ روح کی گہرائیوں میں بندھا ہوں

چھوٹے گلدار کے چھریرے اور مضبوط جسم سے پھسلتے ہوئے اس کی رائفل کی نال نے اس کی آدم خور ماں کو اپنے نشانے کی زد پر لے لیا۔یہ یقینا کہیں زیادہ خطرناک اور مشکل ہدف تھا۔آدم خور گلدار سفاکی اور چالاکی میں عام گلدارسے کئی گنا بڑھ کر ہوتا ہے لیکن اگر وہ مادہ ہو اور زخمی ہو اور اس کا بچہ اس کے ساتھ ہو تو کس قیامت کی سفاکی اور پھرتی کا اسے سامنا کرنا پڑسکتا تھا وہ چاہتا بھی تو ادراک نہ کرپاتا۔سب سے زیادہ دہشت ناک خیال یہ تھا کہ اگر اس کے فائر سے ان میں سے کوئی مرنے کی بجائے صرف زخمی ہوتا تو وہ بیک وقت دو مختلف سمتوں سے ان کے جوابی حملے کی زد میں آسکتا تھا جس سے بچ نکلنا اس کیلئے شاید ممکن نہ ہوتا۔موت اور زندگی کے اس معمے نے کچھ دیر کیلئے اسے چکرا کر رکھ دیا۔ٹرائیگر پر ایک بار اس کی انگلی دب جاتی توحالات پر اس کی گرفت ختم ہوجاتی اور عین ممکن تھا کہ چند ہی لمحوں میں وہ بھی اس بکری کی طرح لوتھڑوں اور جمے ہوئے خون کی صورت یہاں پڑا ہوتا ۔

اس نے نظر بھر کر دیکھا۔دونوں شاید دن بھر سے بھوکے پیاسے پڑے رہے تھے کہ ایک تیز اشتہا کے ساتھ وہ بکری کو شکم کا ایندھن بنانے میں جتے ہوئے تھے۔ یہی ایک لمحہ تھا جب اسے کوئی فیصلہ کرنا تھا۔وہ بیک وقت دونوں سے نہیں لڑسکتا تھا۔ان میں سے ایک کو بہر صورت  موت کے گھاٹ اترنا تھا ۔اس نے پھر سے ان دونوں کو اپنی نظر کی میزان میں تولا، دونوں کے متوقع ردعمل کا اندازہ لگایا اور پھردھیرے سے چھوٹے گلدار کے کان میں سرگوشی کی۔

’’سوری لٹل چیپ!یو مسٹ ہیو ٹو گو‘‘۔

چھوٹا گلدار اپنی پوزیشن بدل کر اس کے روبرو ہوا تو اس نے اس کی دونوں آنکھوں بیچ ایک نکتے کو نال کی مکھی پر لیا اور ٹرائیگر پر جمی انگلی نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

فائر کی گرج پر درختوں کے جھنڈ سے لا تعداد پرندے پھرا مار کر اڑے اور ایک لمحے کے سوویں حصے میں درختوں کے نیم تاریک بیک ڈراپ میں چھوٹا گلدارزمین سے کئی فٹ اچھلا اور دھپ سے زمین پر آرہا ۔مادہ گلدار نے کچھ نہ سمجھنے کی کیفیت میں گردن گھمائی او ر پھر وہ مجسم غیض بن گئی۔اس نے مایوسی اور طیش کے عالم میں اپنی دم کو جھٹکا دیا اور ایک ہولناک دھاڑ نے جنگل کو لرزا دیا۔ وہ تیزی سے اپنے بچے کی طرف لپکی جو گر کر اٹھنے کی تگ و دو میں تھا۔کارتوس اس کی پیشانی کی مضبوط ہڈی کو توڑتے ہوئے دماغ میں گھس گیا تھا۔ اس نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مبتلا چھوٹے گلدار کا دوبارہ نشانہ لیا لیکن عین اس لمحے اس کی ماں ان دونوں کے درمیان حائل ہوگئی۔دوبارہ گولی چلانا بے سود اور شاید خطرناک بھی تھا۔تب طیش کی سلگن میں مادہ گلدار نامعلوم جگہ پر چھپے ہوئے دشمن پر دھاڑی اور پھر دھاڑتی چلی گئی۔ اپنے پوشیدہ دشمن کو للکارنے کے بعد اس نے اپنے بچے کو منہ میں دبوچا اور اسے لیے ہوئے قد آدم جھاڑیوں کے اوپر سے پھلانگتی غائب ہوگئی۔

ثانی نے گہرا سانس لیتے ہوئے لحظہ بھر کیلئے اپنے تنے ہوئے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔تبھی قمیض کی اوپر والی جیب میں لرزش ہوئی۔اس نے موبائل نکال کی اس کی نیلی روشن سکرین کو دیکھا۔ڈپٹی کی کال تھی۔اس نے کال اٹینڈ کی اور سرگوشی میں اسے الرٹ رہنے کا کہا۔فوراً ہی نور محمد کی کال آئی تو اس نے اسے بھی یہی پیغام دیا۔

جس سرعت سے آدم خور غائب ہوئی تھی وہ اس کی سمت کا اندازا نہ کرسکا تھا ۔سراسیمگی کے عالم میں وہ ان دونوںمیں سے کسی ایک کی

جانب جاسکتی تھی یا سمت بدل کر اپنی غار کا رخ بھی کرسکتی تھی۔وہ صرف انتظار ہی کرسکتا تھاسووہ کچھ دیر دم سادھے بیٹھا رہا۔اس کی نظریں اور کان جھاڑیوں پر جمے تھے لیکن وہاں کوئی حرکت نہ تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مادہ گلدار وہاں نہیں تھی کہیں اور جاچکی تھی لیکن کس جانب؟۔اگر وہ جھاڑیوں کے عقب میں موجود چٹانوں کا رخ کرتی تو زیادہ خطرے کی بات نہیں تھی لیکن اگر وہ دائیں جانب کا رخ کرتی تو وہاں نور محمد تھا اور اگر بائیں جانب جاتی تو اس کا سامنا ڈپٹی سے ہوتا۔دونوں صورتیں خطرناک تھیں کہ تاریکی میں وہ دونوں اس وقت تک اسے دیکھ نہ پاتے جب تک وہ ان کے سر پر نہ پہنچ جاتی۔ایسے میں بہت ممکن تھا کہ وہ گڑبڑا کر کوئی فاش غلطی کربیٹھتے اور اسے ان پر حملہ آور ہونے کا موقع مل جاتا۔اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔اسے تھوڑا سا اطمینان ضرور تھا کہ وہ اس وقت جبکہ اپنے بچے کو منہ میں دبائے جارہی ہے کسی پر حملہ آور ہونے کی بجائے کھسک جانے میں ہی عافیت سمجھے گی لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا ۔اور پھر ۔۔۔اچانک فائر کی ایک اور آواز نے لمحاتی خاموشی کو توڑ دیا۔فائر دائیں جانب سے آیا تھا جہاں نور محمد تھا۔ایک بار، دو بار اور تین بار۔دوسری جانب سے رائفل شعلے اگلتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی۔فائر کے جواب میں دھاڑ سنائی نہیں دی تھی جس کا مطلب تھا کہ نور محمد کے فائر خالی گئے ہیں اور وہ ان کی فائر رینج سے دور کسی محفوظ جگہ پر جاچکی ہے۔اس نے اس خیال سے کہ وہ امکانی طور پر واپس اس کی طرف بھی آسکتی ہے تھوڑا وقت مزید گذر جانے دیا اور پھر اپنا مورچہ چھوڑدیا۔رات کی تاریکی میں آدم خور کے تعاقب میں جانا نری حماقت تھی لہٰذا وہ اس جانب چل پڑا جہاں نور محمد تھا لیکن اس نے دیکھا کہ وہ اور ڈپٹی اپنی جگہیں چھوڑ کر دوڑتے ہوئے اس کی جانب آرہے ہیں۔

’’ایک بھیانک غلطی!‘‘۔وہ بڑبڑایا۔ان اناڑیوں کو گلدار کی فطرت کا ذرا بھی اندازہ ہوتا تو وہ یوں جذباتی ہوکر اس کی طرف دوڑ نہ لگاتے۔اس نے ایڑھیوں کے بل گھوم کر چاروں اور رائفل کی نال گھمائی اور تمام حواس کو یکجا کرتے ہوئے جھاڑیوں میں کسی غیر معمولی حرکت کا پتا لگانے کی کوشش کی ۔وہاں مکمل خاموشی اور ٹھہرائو تھا۔آدم خور وہاں سے کہیں دور جاچکی تھی۔اس نے رائفل کو کندھے پر لٹکایا اوراپنی اعصاب زدگی پر قابو پانے کیلئے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر نکال کر سگریٹ سلگالیا۔

وہ دونوں بھاگتے ہوئے اس کے قریب پہنچے اورآتے ہی اس کے ساتھ لپٹ گئے۔دونوں کے سانس پھولے ہوئے تھے اور ہیجان ان کے چہروں پر نمایاں تھا۔ان کی کیفیت دیکھ کر ثانی مسکرایا۔ان کا رد عمل عین فطری تھا کہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار ایک خطرناک صورتحال کے اندر کسی درندے کا سامنا کیا تھا۔ثانی نے ان کے کندھے تھپتھپائے اور انہیں لیے خیمے میں آگیا۔

نور محمد نے ایمر جنسی لائٹ کی روشنی میں ٹن پیک کھانا گرم کیا اور دسترخوان پر سجا دیا۔سردی ، بھوک اور شکستگی کے اس عالم میں گرما گرم ٹیونا مچھلی نے بہت مزا دیا۔انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر اپنے گرد کمبل لپیٹ کر قہوے کی چسکیاں لینے لگے۔بھاپ کی لپٹیں چھوڑتے گرما گرم قہوے نے ان کے اعصاب کو قدرے نارمل کردیا۔قہوہ ختم کرکے وہ اپنے کمبلوں میں دراز ہوئے تو گذرے ہوئے چند لمحے کہانیاں بن کر ان کے درمیان آموجود ہوئے۔نور محمد نے بتایا کہ ثانی کے فائر کی آواز سن کر وہ چوکنا ہوگیا تھا۔بات کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں اور لہجے میں ایک ناکام قاتل کی سی تھکن تھی۔

’’اچانک میںنے دیکھا صاب!کہ ایک سایہ سا تیزی سے میری طرف بڑھ رہا ہے۔وہ تھوڑا قریب ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے جبڑوں میں کچھ دبا رکھا ہے۔غور سے دیکھا تو وہ چھوٹا گلدار تھا اس کا بچہ جسے اس نے حاجی کی قید سے آزاد کرایا تھا‘‘۔اس نے مایوسی سے سرجھٹکا اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔’’ایک دم سے میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔میرا دشمن ، میری گلابے کا قاتل میرے سامنے تھا اور مجھ پر چڑھا آرہا تھا۔تب مجھے لگا جیسے میرے اندر کوئی آتش فشاں سا پھٹ پڑا ہے۔ تبھی میرے گلابے نے میرے کان میں سرگوشی سے کچھ کہا۔اور پھر

میں نے نشانہ لے کر گھوڑا دبا دیا۔لیکن وہ کم بخت میری گولی سے زیادہ تیز نکلی ‘‘۔

ادھر ثانی ایک احساس جرم کے جالے میں الجھا ہوا تھا۔آج اس سے ایک گناہ سرزد ہوگیا تھا۔اس نے ایک خوبصورت زندہ وجود سے زندہ رہنے کا الوہی حق چھین لیا تھا۔’’اللہ کرے وہ زندہ ہو‘‘۔ثانی نے جھرجھری لے کر سوچا۔عقل اور دل کے درمیان کشمش کے اگلے لمحے میں اس نے اپنے احساس جرم پر قابو پالیا۔اس کے پاس دلیل مضبوط تھی کہ مصلحت کا یہی تقاضا تھا سو عقل نے بے وقوف دل کو صاف پچھاڑ دیا۔

نور محمد نے رات کے کسی پہر آدم خور کی دوبارہ آمد کے خدشے کا اظہار کیا جو سراسر بے دلیل نہ تھا۔ان حالات میں خود کو محفوظ کرنے کا معروف نسخہ یہ تھا کہ خیمے کے ارد گرد الائو جلادیا جائے تاکہ کوئی بھی جانور آگ اور انگاروں کو پار کرکے ان تک پہنچنے کی ہمت نہ کرے لیکن مجبوری یہ آن پڑی تھی کہ اس نے جو خشک جھاڑیاں کاٹ کر خیمے کے گرد ڈالی تھیں بارش سے گیلی ہوچکی تھیں۔ سو ڈپٹی کی تجویز پر نور محمد نے سامان سے ایک طاقتور ایمر جنسی لائٹ نکالی اور اسے روشن کرکے خیمے کے باہر رکھ دی۔یہ ایک غیر یقینی اور کمزور سہارا اور دل کو خوش رکھنے کا ایک بہانہ تھا لیکن اس وقت تو بس یہی ممکن تھا۔

ایک ہیجان سے بھرپور تجربے نے ان کی آنکھوں سے نیند نوچ لی تھی۔اس کے باوجود اپنے اعصاب کو پرسکون کرنے کیلئے بھرپور نیند لینا ضروری تھا۔اس کا کوئی خاص امکان نہ تھا کہ آدم خور رات کے کسی پہر واپس اس جگہ لوٹ کر آئے گی جہاں اس کے مسلح دشمن اپنے ’’ٹھائیں ٹھائیں کرنے والے ڈنڈوں‘‘ کے ساتھ موجود تھے ۔ثانی کو اندازہ تھا کہ دنیا کی ہر ماں کی طرح وہ بھی آج کی رات اپنے جوان بچے کی لاش کے ساتھ گذارنا چاہے گی۔اپنے اندازسے اس پر بین کرے گی۔اس کی لاش کو پتھروں میں چھپانے کا اہتمام کرے گی۔ساتھ ہی یہ بھی طے تھا کہ اپنے دو جوان بچوں کا انتقام اسے شعلہ جوالا بنادے گا۔اب اس کی مار دھاڑ سے کوئی انسان تو کیا کوئی چرند پرند بھی نہیں بچ پائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے شدہ بات تھی کہ ایک مادہ آدم خور گلدار کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔معمول کے حالات میں تو شاید وہ رات کے کسی پہر اس جانب نہ آتی لیکن انتقام کی بھڑک اس سے کچھ بھی کراسکتی تھی۔گویا ایمرجنسی لائٹ کے کمزور سہارے کے باوجود انہیں رات بھر خطرے کا سامنا تھا۔اس خدشے کے پیش نظر طے پایا کہ وہ تینوں رات کو باری باری جاگ کر پہرہ دیں گے۔نور محمد کے حصے میں رات کے پہلے پہر کی چوکیداری آئی جبکہ ڈپٹی نے رات کے درمیانی حصے اور ثانی نے سحر سے پہلے کی ذمہ داری لے لی۔

نور محمد نے خیمے کے اندر روشن ایمرجنسی لائٹ بجھادی اور خیمے کے دھانے پر اپنی بیٹھک جمالی جبکہ وہ دونوں کمبلوں میں منہ سر چھپا کر لیٹ گئے۔مقامی جنگل کی جڑی بوٹی سے بنا قہوہ ثانی کی اعصاب زدگی کیلئے جادو اثر ثابت ہوا۔کچھ اثر کمبل کی گرمائش کا بھی تھا کہ وہ جلدی ہی نیند کی وادی میں اترگیا۔لیکن نیند ایک الگ عذاب ثابت ہوئی۔اس کے لاشعور کے مال خانے میں جانے کن کن جنگلوں اور جانے کن کن نسلوں کے درندوں کی متحرک تصویریں پڑی تھیں کہ وہ سب اس کی آنکھیں مندھتے ہی کچھ عجیب سی کمپوزیشن میں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہوکر دماغ کے پردہ سیمیں پر متحرک ہوگئیں۔ان متحرک تصویروں میں مشک پوری کی ملکہ اپنی تمام تر وحشتوں کے ساتھ مرکزی کردار کے طور پر موجود تھی۔وہ ان تمام جنگلوں میں موجود ان تمام درندوں کا واحد ہدف تھا۔اگر وہ کسی ایمزون کے کسی جنگل میں کسی درندے کے خونی جبڑوں سے بچ نکلتا تو کینیا کے کسی جنگل میں کوئی اور درندہ دانت نکوسے اس کا منتظر ہوتا۔وہاں سے بھاگ نکلتا تو ایوبیہ نیشنل پارک میں مشک پوری کی ملکہ اسے چیر پھاڑ دینے کو تیار ہوتی۔وہ یونہی درندوں کی فوج کے ساتھ جنگلوں جنگلوں لڑتا بھرتا مغربی افریقہ کی ایک ندی کنارے بیٹھا شکاری چاقو سے شیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک پانی میں سے ایک چھپاکے سے مشک پوری کی ملکہ نکلی اور اس پر جھپٹ پڑی۔یہ تو خیر گذری کہ اس کی آنکھ کھل گئی ورنہ دنیا سے اس کی حسرتناک رخصتی کا سب سامان مکمل تھا۔

ٍ آنکھ کھلنے پر اس نے ڈیجیٹل گھڑی پر وقت دیکھا تو ابھی رات کے دس بھی نہیں بجے تھے۔اس کے ساتھ ڈپٹی لیٹا تھا جو گہری نیند میں تھا جبکہ نور محمد خیمے سے کہیں باہر گیا ہوا تھا۔اس نے دوبارہ سے سونے کی کوشش کی تو گانے کی آواز پر وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔خیمے کے باہر کوئی مردانہ آواز میں پنجابی کے ٹپے گارہا تھا جو ظاہر ہے نور محمد ہی تھا۔نور محمد کا ایک اور کمال اس کے سامنے واشگاف ہورہا تھا۔اس نے کمال کا گلا پایا تھا۔ایک تو آواز پاٹ دار جو رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی جنگلی وسعتوں میں پھیل رہی تھی اور پھر اس کی آواز میں میں بلا کا درد بھی تھا۔وہ جو ٹپے گارہا تھا ان میں وچھوڑے کا کرب اور محبوب سے اکیلا چھوڑ جانے کا شکوہ غالب تھا۔ثانی کمبل لپیٹ کر اٹھ بیٹھا اور پردہ کھول کر باہر نکل آیا۔اس نے دیکھا کہ دور ایک پتھر پر نور محمد کا تاریک ہیولا موجود تھا۔وہ گارہا تھا اور ساتھ گود میں ایک پرات جمائے ہاتھوں سے تال دئیے جارہا تھا۔ثانی دبے پائوں نزدیک پہنچا تو نور محمد نے تان اٹھائی:

کچی ٹٹ گئی جنہاں دی یاری

او پتناں تے رون کھڑیاں

اور پھر وہ اس ٹپے کو دہراتا چلا گیا۔ثانی کو لگا کہ اگر وہ یونہی گاتا رہا تو اس پر دیوانگی طاری ہوجائے گی۔وہ آگے بڑھا اور نورمحمد کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔نور محمد کو گاتے ہوئے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور یک لخت گانا روک دیا۔وہ بری طرح سے جھینپ گیا تھا۔ثانی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا اور اسے سینے سے لگے رونے دیا۔پھر وہ دونوں اٹھے اور خٰیمے میں واپس آگئے۔

تھکن اور گذشتہ شام بارش میں بھیگنے والے جسموں میں جمی کسلمندی کے باوجود اگلے دن پرندوں کی پرشورچہکار نے انہیں تادیر سونے نہ دیا۔نور محمد تو رات بھر جاگتا رہا تھا جبکہ وہ دونوں سوئے تو تھے لیکن آدھی پونی نیند۔صبح وہ تینوں کچی نیندکا خمار لیے خیمے کا پردہ اٹھا کر نکلے تو چہار سو پھیلا صبح صادق کا مقدس اجالا انہیں دیکھ کر مسکرادیا۔جواب میں ان کا رواں رواں بھی مسکرا اٹھا۔انہوں نے محسوس کیا کہ صبح کی تازہ فضامیں موجود مقناطیسیت نے ان کے جسموں میں بشاشت بھردی ہے۔انہوں نے گھوم کر چار اطراف پھیلے جنگل اور سلسلہ در سلسلہ پہاڑوں پرچھائے دھندلکے کو دیکھا ۔اس جادوئی منظر کے بیچ موجود لائف سائیکل اور حیاتیاتی تنوع میں صرف وہی تین تھے جو بنی نوع انسان کی نمائندگی کررہے تھے۔ تبھی کسی دور دیس سے آئے مہاجر پرندوں کی ایک ڈار نے مشکپوری کی چوٹی سے اڑان بھری اور ان کے اوپر سے گذرتے ہوئے افق کی دھند میں تحلیل ہوگئے۔وہ خیمے میں لوٹ آئے۔

نور محمد نے سٹوو جلایا اور ٹن پیک خوراک کو ڈبوں سے نکال کرفرائی پین میں گرم کیا اور گرم گرم چائے کے ساتھ دسترخوان سجا دیا۔ناشتے سے فارغ ہوکر انہوں نے کارتوس گن کر اپنی کمروں سے بندھے پائوچ میں رکھے۔اور پھر ایک کندھے پر پانی کی بوتل اور دوسرے کندھے پر رائفل لٹکاکر وہ کھلی فضا میں نکل آئے۔تبھی ثانی کو کوئی خیال سوجھا تو وہ واپس خیمے میں گیا اور اپنی شارٹ رینج گن دوسرے کندھے پر لٹکائے باہر آگیا۔

انہوں نے سیدھے اس درخت کا رخ کیا جہاںماں بیٹے نے اپنی جان کا رسک لے کر بکری کے گوشت سے دعوت شیراز اڑائی تھی۔وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ اب وہاں بکری کے نام پر چند چچوڑی ہوئی ہڈیاں پڑی تھیں۔ان کے جانے کے بعد جنگل کے دوسرے گوشت خور مکینوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باقی ماندہ بکری کا صفایا کردیا تھا۔انہوں نے دیکھا کہ بکری کی باقیات کے قریب ہی جمے ہوئے خون کا ایک چھوٹا سا تالاب بھی موجود ہے۔یہ ثانی کی گولی کا نشانہ بننے والے چھوٹے گلدار کا خون تھا۔ خون خاصی مقدار میں تھاجس کا مطلب یہ تھا کہ چھوٹے گلدارکے زندہ بچ جانے کے امکانات کم تھے۔وہ کوئی گتھی ہوئی اور گنجلک جھاڑیوں کا جنگل نہیں تھا بلکہ وہاں موجود زیادہ تر جھاڑیاں چھدری تھیں جن کے آر پار آسانی سے جایا جاسکتا تھا۔وہ جھاڑیوں کے پتلے اور لچکیلے تنوں کو ہاتھوں سے دھکیلتے دوسری جانب گئے تو وہاں خون کی بہت واضح لکیر تھی۔اب انہیں اس لکیر کے ساتھ لگے لگے آدم خور کی کمیں گاہ تک پہنچنا تھا۔نوکیلے اور کٹے پھٹے پتھروں کی اک باڑ سی پھلانگتے ہوئے ان کا رخ دائیں جانب ہوگیا۔رات کو اسی سمت فرلانگ بھر دور بیٹھے نور محمد نے آدم خور پر بے سود فائر کھولے تھے۔انہوں نے دیکھا کہ نور محمد کے فائر سے گھبرا کر وہ تیزی سے واپس میران جانی پہاڑ کی سمت مڑی تھی۔غالباً اس نے اپنی غار یا اس کے قریب کسی محفوظ ٹھکانے پر جانے کا سوچا ہوگا۔وہ بھی خون کے تعاقب میں اسی سمت چل پڑے۔م

شکپوری کے سبزہ زار اور نرم نشیب و فراز کے برعکس یہ راستہ زیادہ دشوار گذار تھا۔راستے میں انہیں کئی جگہ بڑے پتھروں اور بلند چٹانوں نے روکاجس کی وجہ سے کبھی تو انہیں چٹانوں پر چڑھ کر پار اترنا پڑا اور کبھی لمبا چکر کاٹ کر دوسری جانب جانا پڑا۔اور پھر راستے میں دو تین گھاٹیاں بھی آئیں جنہیں عبور کرنے میںان پہاڑوں کا پالا نور محمد مددگار ثابت ہوا۔اس تگ و دو میں بہت بار خون کی لکیر اوجھل ہوئی جس کی تلاش میں انہیں الگ سے کھجل ہونا پڑا۔راستے کی کٹھنائی نے ان کی رفتار کو بہت زیادہ سست کردیا تھا۔وہ چلے تو سورج نے ابھی مشرقی افق سے جھانکا ہی تھا لیکن ا ب تک سورج ان کی ہمراہی میں خاصا بلند ہوچکا تھا اور ابھی سفر کی طوالت نامعلوم تھی۔

انہیں چلے ہوئے تین گھنٹوں سے زیادہ کا وقت ہوچکا تھا۔نور محمد اپنی بہتر صحت اور پہاڑی راستوں کی تربیت کے باعث ابھی تک تازہ دم تھا لیکن دونوں میدانی باشندے ڈپٹی اور ثانی تھکنے لگے تھے۔انہوں نے ایک ذرا سی ٹیک لگائی اور پھر چل پڑے۔کچھ فاصلہ پہلے وہ خون کی لکیر کھو بیٹھے تھے ۔اب انہیں اندازے سے ہی آگے بڑھنا تھا۔راستے میںوہ تینوں ایک دوسرے سے دور دور اترائی کے سفر میں تھے کہ اچانک ڈپٹی نے ثانی کی طرف دیکھتے ہوئے زور زور سے بازو ہلانا شروع کردئیے۔ثانی اس کی جانب لپکااور قریب پہنچ کر اس کے اشارے پر دیکھا کہ سامنے ایک کشادہ اور قدرے گہری کھائی تھی۔اس نے دیکھا لیکن کچھ دکھائی نہ دیا۔پھر اس کی نظر ایک بڑے پتھر پر پڑی۔جہاں غور سے دیکھنے پر گلدار کی دم کا ذرا سا سرا دکھائی دے رہا تھا۔اتنے میں نور محمد بھی ان سے آملا۔

وہ ان سے صرف سو گز کے فاصلے اور ایک پتھر کی مار پر تھی۔مسئلہ صرف اس تک پہنچنا یا اسے پتھر کی اوٹ سے باہر آنے پر مجبور کرنا تھاوہ تینوں دم کی سفید پھننگ پر نظر جمائے اپنی اپنی رائے دے رہے تھے تواپنے گم گشتہ ہدف کو پالینے کی سنسنی ان کے بدن میں دوڑ تی ان کے لہجوں سے چھلک رہی تھی۔اگر وہ اس کے سامنے آتے تو اس کیلئے انہیں کھائی عبور کرتے ہوئے بہت لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف جانا پڑتا۔یہ صورت دشوار بھی تھی اور ان کے اترنے چڑھنے کے دوران وہ ان کی آہٹ پاکر یا انہیں دیکھ کر وہاں سے غائب بھی ہوسکتی تھی۔ آخر نور محمد کی رائے مان لی گئی کہ شور مچا کر اور پتھر برسا کر اسے وہاں سے نکالا جائے۔اس کے بعد اس کا تعاقب کیا جائے۔اس پر عمل کرتے ہوئے وہ اس کی جانب پتھر برساتے ہوئے حلقوم کی انتہائی آزمائش کی حد تک شور مچانے لگے۔فاصلہ زیادہ تھا۔پتھر تو خیر اس تک کیا پہنچتے ، ہوا کے مخالف سمت چلنے کی وجہ سے ان کا شور شرابا بھی اس تک نہ پہنچ پایا۔تب ثانی نے رائفل کندھے سے اتاری اور ہوا میں دو چار فائر ٹکادئیے۔یہ حربہ اس حد تک ضرور کار آمد ثابت ہوا کہ دم کی پھننگ اچانک پتھر کی اوٹ میں غائب ہوگئی لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہ دیکھ پائے کہ وہاں بہت سے بڑے بڑے بے ترتیب پتھروں کا جمگھٹا سا ان کے سامنے دیوار بنا کھڑا تھا۔

انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کھسیانے سے ہنس پڑے۔دشمن کا سراغ پھر سے گم ہوچکا تھا اور وہ اس وسیع وادی سنگ و خار میں بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے۔تب طے ہوا کہ کھائی کو پار کرکے سامنے کے رخ آگے بڑھا جائے۔نور محمد کے خیال میں وہ ضرور اپنے غار کی طرف گئی ہوگی جو اس کی معلومات کے مطابق شمال کی سمت ایک آدھ گھنٹے کی دوری پر ہوسکتی تھی۔

وہ جانے کب تک چلتے رہے اور کن کٹھنائیوں سے گذرتے رہے۔سورج بھی ان کے ساتھ چلتے چلتے تھکنے لگا تھا۔مشک پوری کی سرسبز گھاٹیاں اور دیودار و صنوبر کے مہکتے جنگل پیچھے چھوڑتے ہوئے وہ کہیں دور نکل آئے تھے۔کہنے کو وہ ایوبیہ نیشنل پارک کی حددد میں تھے لیکن

انہیں لگا جیسے وہ وقت اور جغرافیے کی حدود سے ماورا کسی اور سنگ زار میں آنکلے ہیں۔یہاں سبزہ کم کم تھا اور جنگل کے نام پر ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی اور دور دور تک پھیلی چھدری جھاڑیاں کھڑی تھیں یا پھربلند اور درمیانے قد کے درختوں کے چھوٹے چھوٹے جھنڈ یہاں وہاں بکھرے ہوئے تھے۔نور محمد نے انہیں بتایا کہ اس نے سن رکھا ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں غار ہیں اورجہاں ممکنہ طور پر آدم خور نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔

ثانی نے کلائی کی گھڑی پر وقت دیکھا۔ دو بجنے والے تھے۔مئی کے اواخر کی سہ پہر میں اتنی حدت نہیں تھی جتنی مسلسل چلتے رہنے کے باعث ان کے جسموں میں بھرگئی تھی ۔اور پھر تھکن بھی تھی جو کچوکے دئیے جارہی تھی کہ کہیں بیٹھ رہو۔آخر وہ اخروٹ کے چند پستہ قد درختوں کے چھوٹے سے ذخیرے میں پہنچ کر ڈھ سے گئے۔ثانی نے منہ سے پانی کی بوتل لگائی تو چند قطرے ہی بچے تھے۔اس نے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے ان سے پانی کا پوچھا ۔صرف نور محمد کے پاس تھوڑا سا بچا تھا جو تینوں نے تبرک سمجھ کر گھونٹ گھونٹ پی لیا۔

ٹانگوں میں کچھ جان پڑی تو وہ اٹھے اور یونہی اندازے سے ایک طرف کو چل پڑے۔وہ اس وقت ایک پہاڑی کی کوہان پر تھے۔ان کے مدمقابل ایک بلند پہاڑ تھا جس کی بلندیوں کو دیوزاد درختوں نے چھپا رکھا تھا۔اس لینڈ سکپ کی مطابقت میں یہ پہاڑ ہریالا کم اور پتھریلا زیادہ۔ پہاڑ ی جس پر وہ موجود تھے ایک طرح سے اس بڑے پہاڑ کا ضمیمہ تھی کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے جڑے سے تھے۔جہاں اس پہاڑی کی اترائی ختم ہوتی وہیں سے اس پہاڑ کی چڑھائی شروع ہوجاتی۔ڈپٹی نے یونہی آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا سا بنا کر منظر کا جائزہ لیا تو اس پہاڑ کے وسط میں اس کی نگاہیں جم کر رہ گئیں۔اس نے اشارے سے ان لوگوں کو پہاڑ کی طرف متوجہ کیا۔ان کے عین سامنے صرف چند سو گز کے فاصلے پر ایک غار کا دہانہ سا دکھائی دے رہا ۔ اوراس کے قریب ایک لمبی اور مضبوط دم پرچم کی طرح ہولے ہولے لہرا رہی تھی۔وہ بے خیالی میں کتنی دیر سے اپنے دشمن کے  بالکل پاس پڑے تھے اور یکسر بے خبر تھے۔

بہت آسان تھا کہ آدم خور کو یہیں سے کھڑے کھڑے شوٹ کردیا جاتا لیکن یہاں بھی مسئلہ یہی تھا کہ ان کے اور آدم خور کے درمیان  ایک بڑا پتھر حائل تھا۔ڈپٹی کا خیال تھا کہ پہاڑ پر آدم خور کے قریب جانے کا رسک لیے بغیر کوئی مناسب مقام تلاش کرکے اسے دور سے ہی شوٹ کردیا جائے لیکن ثانی نے اس کی تجویز اس دلیل کے ساتھ مسترد کردی کہ اول تو انہیں اس کی پوری جھلک پانے کیلئے جانے کتنا فاصلہ طے کرنا پڑے اور پھر اتنی دور سے شوٹ کرنا سخت غیر دانشمندی تھی کہ اگر وہ غائب ہوجاتی تو اس کا دوبارہ سراغ پانا کار محال تھا۔نور محمد نے ثانی کے ساتھ اتفاق تو کرلیا لیکن اس کا معاملہ دوسرا تھا۔وہ اسے دور سے آسا ن موت کا تحفہ دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔اس کا خیال تھا کہ اس کے قریب پہنچ کر اس سے دو بدو نمٹا جائے۔ثانی کو نور محمد کے ان انتقامی جذبات سے ہرگز اتفاق نہ تھا کہ انتقامی حملہ شکار ی آداب کی روح کے سراسر منافی ہوتا ۔اس نے نور محمد کو بار دگر اپنے جذبات قابو میں رکھنے کا مشورہ دیا ۔

اب یہی تھا کہ سامنے والے پہاڑ پر جاکر ہی درندے کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں۔

’’تم لوگ یہیں ٹھہرو گے، پہاڑ پر میں اکیلا جائوں گا‘‘۔ثانی نے سرگوشی کی۔

’’میں بھی جائوں گا‘‘۔نور محمد نے سامنے والے پہاڑ سے نظریں ہٹائے بغیر ضد بھری سرگوشی کی۔

’’لیکن یہاں بھی تو کسی کو رہنا ہے۔وہ فائر کے بعد یہاں کا رخ کرسکتی ہے‘‘۔

’’میں کچھ نہیں جانتا۔میں نے اس کے گھر میں جاکر اسے مارنا ہے‘‘۔

ثانی نے دیکھا کہ نور محمد کی آنکھوں میں انتقام چمک رہا تھا اور وہ اس کے کہے میں نہیں رہا تھا۔ایسے میں کچھ کہنا سننا فضول تھا۔اس نے کندھے اچکا دئیے۔

’’ٹھیک ہے۔ ڈپٹی! تم یہیں اس درخت کی اوٹ میں ہوجائو اور آدم خورپر نظریں جمائے رکھو۔جونہی وہ تمہاری رینج میں آئے اس پر

فائر کردینا۔لیکن دیکھو ذرا ہوشیاری سے۔بچ کر نکلنے نہ پائے‘‘۔ثانی نے اپنے کندھے پررائفل کو درست کرتے ہوئے ڈپٹی کو ہدایات دیں۔ڈپٹی نے شارٹ رینج گن پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔

ثانی نے نظروں میں فاصلے کو تولتے ہوئے کچھ سوچا اور پھر ڈبل بیرل کو کیس میں بند کرکے اپنی شارٹ رینج گن نکال لی۔خوش قسمتی سے نور محمد کے پاس بھی کم فاصلے پر مار کرنے والی گن تھی۔پھر اس نے پہاڑ کی ساخت اور ہوا کی سمت کا جائزہ لیا اور پھر وہ مقام طے کیا جہاں انہیں پہنچنا تھا۔تب اس نے نور محمد کو اشارہ کیا اور انہوں نے پنجے جما جما کر ڈھلوان سے اترنا اور پھرسامنے والے پہاڑ پر چڑھنا شروع کردیا۔گلدار کی نظروں سے بچنے کیلئے انہوں نے پستہ قد جھاڑیوں کے طویل سلسلے کو اپنی اوٹ بنا لیا تھا۔

جھاڑیوں کی آڑ لیے وہ غار سے کچھ ہی دور پہاڑ پر پہنچ چکے تھے ۔ گلدارنے اپنی فطرت کے عین مطابق اپنی کمیں گاہ کو خفیہ رکھنے کی خاطر اسے جھاڑیوں اور کاٹھ کباڑ سے پاٹ رکھا تھا۔یہاں پہنچ کر وہ دونوں ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوگئے تاکہ ایک دوسرے کو کور بھی دے سکیں اور آدم خور کی توجہ بٹنے کا باعث بھی بن سکیں۔غار کے قریب صنوبر کے درختوں کا ایک بڑا جھنڈ تھا جو مشرقی سمت مڑتا ہوا گھنے جنگل میں ضم ہورہا تھا۔اس جھنڈ نے اس کمیں گاہ کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کا مزید سامان فراہم کردیا تھا۔یہی درخت ان تینوں کو بھی آڑکی سہولت فراہم کررہے تھے۔جہاں وہ جھنڈ میں داخل ہوئے تھے وہاں آدم خور ان کی نظروں سے اوجھل تھی۔اسے اپنی نظروں کے حصار میں لینے کیلئے اس کے خاصا قریب پہنچنا ضروری تھا۔ وہ فوج کے تربیت یافتہ کمانڈوز کی سی چستی اور دھیرج سے کمرجھکائے اور درختوں اور پتھروں کی آڑ لیے آدم خور کی جانب بڑھنے لگے۔وہ ایک دوسرے سے خاصا فاصلہ چھوڑ کر چل رہے تھے لیکن ایک دوسرے کی نگاہ میں تھے۔کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد ثانی نے ایک بڑے پتھر کی اوٹ سے سر نکال کر دیکھا کہ ان کا حریف عین ان کے سامنے تھا۔خوش قسمتی سے ہوا کا رخ مخالف سمت میں تھا جس کی وجہ سے آدم خور ان کی بو نہیں پاسکتی تھی۔

ثانی نے وہاں پہنچ کر جو دیکھا اور سنا وہ تاعمر اس کی یادداشت میں نقش ہونے والا تھا۔وہ آدم خور گلدارسے صرف بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا۔منظر یوں تھا کہ وہ ثانی کی طرف پشت کیے بیٹھی تھی۔اس نے اگلی دونوں ٹانگیں پھیلا رکھی تھیں اور ان ٹانگوں بیچ اس کا بچہ مردہ پڑا تھا۔ثانی نے حیران آنکھوں سے دیکھا کہ وہ رہ رہ کر آسمان کی جانب منہ اٹھا تے ہوئے ایک کربناک سی آواز نکالتی جیسے آسمان سے شکوہ کناں ہو ۔آواز کچھ ایسے تھی جیسے سرد تاریک راتوں میں بلی رویا کرتی ہے۔ایک پر سوز لحن میں کومل سے پنچم سر کی طرف بڑھتی ہوئی طویل ’’غررر۔۔۔غررر۔۔ غوووں۔۔۔اوووں‘‘ اور پھر اس کا نوحہ ایک کربناک نوٹ پر پہنچ کر تمام ہوجاتا۔اس نوحے کے اختتام پر وہ سر جھکاتی اور اپنے بچے کی لاش پر منہ پھیرنے لگتی ۔وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی اوررو رہی تھی۔

ثانی رک گیا اور اس نے پیچھے جھکتے ہوئے درخت کے ساتھ ٹیک لگالی۔اس کے سامنے ایک ماں تھی جو اپنے جوان بچے کی لاش پر بین کررہی تھی۔کسی بھی دوسری ماں کی طرح جس کا کلیجہ کٹ گیا ہووہ بھی اپنے دکھ کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی۔بہت آسان تھا کہ وہ رائفل سیدھی کرتا اور ٹھائیں ٹھائیں معاملہ خلاص کردیتا ۔اس نے رائفل سیدھی کی بھی، نشانہ بھی باندھا لیکن گولی چلانے والے ہاتھ میں سیسہ اتر آیاتھا۔آدم خور کو مارنے کاآسان ترین موقع ایک ماں نے مشکل بنادیا۔

اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر نور محمد بھی منظر میں داخل ہوچکا تھا۔وہ دونوں مختلف سمتوں میں گلدار کو گھیرے ہوئے تھے۔شکار کیلئے

ایک پرفیکٹ پوزیشن کہ وہ ایک کی گولی سے بچتی تو دوسرے کی زد میں آجاتی۔ نور محمد نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔وہ اس سے اذن کا طلبگار تھا لیکن اذن کہاں تھا ۔وہ اس کی سوال پوچھتی نگاہوں کے جواب میں گنگ تھا۔ثانی نے دور سے دیکھ لیا کہ نور محمد کے چہرے پر کھنچائو تھا اور آنکھوں میں ایک شدید کشمکش تھی۔ان کے سامنے موت کی بھیانکتا تھی اور انسون سے ترگداز میں گندھی ہوئی تھی۔ثانی نے ایک بوجھلتا سے اسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا اور وہ حکم کے غلام سپاہیوں کی طرح اپنے کمانڈر کے حکم پر پیچھے ہٹ گیا۔اس کے اندر کا انسان اسے رضاکارانہ طور پر ایک صریح حماقت کے ارتکاب پر مجبور کررہا تھا، میدان جنگ میں کی جانے والی ایک بھیانک غلطی جو فتح کو خونناک شکست میں بدل سکتی تھی۔لیکن یہ اختیاری پسپائی نہ تھی، مامتا کی طاقت نے انہیں پیچھے دھکیل دیا تھا۔

کئی گز پیچھے ہٹ کر وہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ایک عجیب سے خلفشار اور ہیجان نے اس کے اعصاب کو کھنچائو کی آخری حد تک کھینچ رکھا تھا۔اس کیفیت نے سگریٹ پینے کی سوئی ہوئی طلب کو بیدار کردیالیکن بہر حال یہ ایک حماقت نہ کرنا اس کے اختیار میں تھا سو اس نے اس وحشی طلب کو کچل دیا۔

اس نے سامنے پہاڑی پر نگاہ کی تو دیکھا کہ دور سے ڈپٹی ان کی جانب بے تابانہ انداز میں بازو لہرا کر کچھ کہنے کی کوشش کررہا ہے۔شاید وہ ان کے آگے بڑھ کر پیچھے ہٹنے پر حیران تھا اور چاہتا تھا کہ اس اعصاب شکن جنگ کو انجام پذیر کیا جائے۔ثانی نے دس پندرہ گز دور کھڑے نور محمد کو بھی دیکھا۔وہ بھی اسی کی جانب دیکھ رہا تھا اور ایک سخت بے قراری کے عالم میں تھا۔ادھر مادہ گلدارکی کربناک آواز اس پر چھائی بوجھلتا کو دبیز کیے جارہی تھی۔

ثانی نے سر جھٹکا اور اس جذباتی بحران سے خود کو نکالنے کی کوشش کی۔اس نے موت کے راگ کو نغمہ سرمدی کے ساتھ یوں ہم رنگ ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔یہاں کائنات کے دو طاقتور ترین مظاہر زندگی اور موت کچھ عجیب اور ناسمجھ میں آنے والے ڈھنگ سے ایک دوسرے میں گتھے ہوئے تھے۔وہ ایک کو دوسرے سے جد ا کرپاتا تو کچھ کرتا۔اس نے دیکھا کہ نور محمد سخت الجھن اور ناراضی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔خون کی پیاس نور محمد کے حلقوم میں کانٹے بھر رہی تھی۔تب نور محمدنے اس کی طرف سے نظریں پھیر کر گلدار پر نظر جمادیں۔ثانی نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔اس کی رائفل کی نال فضا میں بلند ہوئی اور اس نے فائر داغ دیا۔

’’ایک ناقابل یقین بے وقوفی‘‘۔ثانی نے لرز کر سوچا۔

تب آدم خور ماں نے تڑپ کر رخ موڑا اور اپنی شعلہ بار نظریں نور محمد پر گاڑ دیں۔نور محمد بھی اس کی آنکھوں میں اپنی نظروں کی انی چبھوئے ہوئے تھا۔دونوں کسی ازلی دشمنی کے رشتے میں بندھے ایک دوسرے کو تول رہے تھے۔گنتی کے چند لمحوں کی بات تھی۔صرف چند لمحے ، ناہونے جیسی مہلت ۔جو ہونا تھا اسی دوران ہونا تھا۔جو آندھیاں چلنا تھیں وقت کے اسی ننھے صحرا کے اندر چلنا تھیں ۔جیت اس کی تھی جو وقت کے اس نامحسوس پھیلائو کو اپنے حق میں استعمال کرجاتا۔ ثانی دیکھ رہا تھا کہ نور محمد پر پاگل پن حاوی ہوچکا تھا۔اس لمحے وہ زمانہ قدیم کا ایک شکاری تھااور اپنی طرف بڑھتی موت پر نیزہ تانے کھڑا تھا۔

ثانی نے تھمی سانسوں دیکھا کہ وہ صاف خود کشی پر اتر آیا تھا کہ اس نے اپنے دشمن پر نظر یںجمائے ہوئے بائیاں کندھا نیچے جھکایا اور اپنے قریب پڑا ہوا ہاتھ بھر کا پتھر اٹھا کر آدم خور کی طرف اچھال دیا۔وہ اپنے دشمن کو موت کے گھاٹ اتارنے کی بجائے اس کی درندگی کے غرور کا

ٹھٹھا اڑانے ا ور اس کی وحشیانہ قوت کی تحقیر کرنے پر تلا ہوا تھا۔فطرت کی مہیب قوت کے ساتھ ایک جان لیوا کھلواڑ!۔ مہلت کا ایک بڑا حصہ اس نے پتھر اٹھانے اور اسے اچھالنے کے عمل میں ضائع کردیا تھا۔اس کے حریف کو صرف دو لمحے درکار تھے کہ وہ بجلی کی طرح کوندتی اور نور محمد کو خون آلود لوتھڑے میں بدل دیتی لیکن یا وحشت !کہ وہ بھی کچھ اسی قسم کے پاگل پن سے دوچار تھی۔وہ ان دو لمحوں کی غفلت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی جگہ پر مجسمہ سی کھڑی اسے گھور رہی تھی۔

یک لخت ثانی کا جذباتی بحران دم توڑ گیا کہ اب وہاں زخم خوردہ ماں نہیں ایک آدم خور بلا تھی جسے بہر طور ان کے ہاتھوں ہلاک ہونا تھا۔اس کی طرف ان کا بہت لمبا چوڑا حساب نکلتا تھا۔چھ قیمتی انسانی جانیں۔سب کے سب وہ جو زندگی کی چمکتی دھوپ میں کھڑے تھے۔ ابھی عمر کا ایک لمبا سفر ان کے سامنے پڑا تھا۔ابھی بہت سے ثواب، بہت سے عذاب تھے جوان کی کتاب میں رقم تھے۔وہ چھ نوجوان نہ تھے۔چھ نسلوں کو جنم دینے کے ذمہ دار تھے۔وہ تمام نسلیں جو اپنے خواب ، اپنے سراب، اپنے دکھ اور اپنے سکھ لیے جنم لینے سے پہلے فنا کے گھاٹ اترگئی تھیں۔وہ ان چھ افراد اور ان کی ناموجود نسلوں کے نمائندے تھے اوریہ طے تھا کہ وہ ان کا حساب لینے کیلئے یہاں موجود تھے اور بس!۔

ثانی کی رائفل خود بخود اس کی جانب اٹھ گئی۔اس کی نال سے جمی بائیں آنکھ نے دیکھا کہ آدم خور بھی اپنا حساب صاف کرنے کو تیار تھی۔اس کے بدن کی گہرائیوں سے نکلتی دبی دبی غراہٹ کی گھمبیرتا پتا دے رہی تھی کہ وہ طیش اور انتقام کی سلگن میں سلگ رہی تھی۔تب اس لمحے کے بچ رہنے والے حصے میں اس نے اگلے پائوں پھیلا کر زمین میں گاڑے اوراپنے جسم کو پیچھے کھینچ کر نور محمد پر چھلانگ لگادی۔اچانک خاموشی کا طلسم ایک دھماکے سے پاش پاش ہوگیا۔ثانی کی رائفل سے نکلنے والا شعلہ آدم خور کے پیٹ میں اتر گیا۔اسے ایک جھٹکا لگا اور اس کی چھلانگ گڑبڑا گئی۔وہ ہوا میں قلابازی کھاتے ہوئے دھپ سے زمین پر آرہی۔اس کے پیٹ سے خون کی دھار نکلی اور زمین میں جذب ہونے لگی۔اسی پوزیشن میں لیٹے لیٹے گلدار نے پہلو بدلا اور ثانی کی آنکھوں میں اپنی زہر میں بجھی آنکھیں گاڑ دیں۔پھر اس کی آنکھیں گھومیں اور اس نے نور محمد کی پوزیشن کا جائزہ لیا۔ثانی نے دوبارہ اپنی نال سیدھی کی اور اس بار اس کے دل کا مقام تلاش کرکے اسے اپنی زد پر لے لیا۔وہ ٹرائیگر دبانے کو تھا کہ ناقابل یقین سرعت سے اس نے جست بھری اورنور محمد پر جاپڑی۔نور محمد پہلے سے تیار تھا وہ بھی اسی سرعت سے جھکائی دے گیا لیکن وہ وحشت ناک گلدار کی برق رفتاری کا مقابلہ نہ کرسکا جس نے اس کے پیچھے گرتے گرتے اس کے ایک گال اور کندھے کو ادھیڑ کر رکھ کر دیا تھا۔نور محمدکے حلق سے ایک وحشیانہ ڈکار نکلی اور وہ دھچکا لگنے سے زمین بوس ہوگیا ۔اسی آن آدم خور جھاڑیوں میں گھس کر غائب ہوچکی تھی۔

ثانی تیزی سے نور محمد کی طرف لپکا۔اس نے دیکھا کہ اس کا چہرے پر گہرا گھائو آیا تھا اوربائیاں کان چہرے کے ساتھ لٹک گیا تھا۔اس کی بائیں آنکھ بال بال بچی تھی لیکن زخموں سے بری طرح سے خون رس رہا تھا جسے فوری روکا جانا ضروری تھا۔اور پھر اس کے کندھے کا زخم تھا جس نے اس کے سارے کپڑوں کو سرخ رنگ میں رنگ دیا تھا۔نور محمد کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت تھی۔یہ ایک دور افتادہ میدان جنگ تھا جہاں فرسٹ ایڈ ملنے کی کوئی صورت نہ تھی لہٰذا اس نے جلدی سے اپنی قمیض اتارکر اس کی دھجیاں پھاڑیں اور کس کر نور محمد کے چہرے ا ور کندھے کے گرد باندھ دیں ۔خون کا بہائو تو بند ہوگیالیکن رسائو ابھی تک جاری تھا۔تھوڑی ہی دیر میں سفید قمیض کی دھجیاں بھی لہو رنگ ہوگئیں۔ اس سے

زیادہ کچھ کرنا اس وقت ممکن نہ تھا۔نور محمد زمین پر بیٹھا اپنی تکلیف پر قابو پانے اور اپنی سرت بحال کرنے کی کوشش میں تھا۔جب وہ خود کو بحال کرنے میں تھوڑا کامیاب ہوا تولڑکھڑاتے ہوئے قدموں اٹھ کھڑا ہوا۔

لہو رنگ پٹیوں میں چھپے اس کے چہرے نے اسے دہشت کی تصویر بنا دیا تھا۔

’’کہاں گئی مال زادی ؟‘‘۔نور محمد تمتمائے ہوئے لہجے میں بولا اور اپنی ایڑھیوں پر گھوم کر چاروں جانب متلاشی نظریں دوڑائیں۔

’’میدان چھوڑ گئی ہے۔۔۔ لیکن بدلہ لینے واپس ضرور آئے گی ‘‘۔ثانی نے جواب دیا۔

چھوٹی پہاڑی کی جانب سے اچانک فائر کی آواز گونجی جس کی بازگشت دور دور تک پھیل گئی۔اس کا مطلب یہ کہ یہاں سے نکل کر وہ چھوٹی پہاڑی کی طرف گئی تھی۔جہاں ڈپٹی نے اس پر فائر کردیا تھا۔ثانی تیزی سے لپک کر چھوٹی پہاڑی کے مقابل ہوا تو دیکھا کہ ڈپٹی زور زور سے بازو لہرا رہا تھا اور چلا کر کچھ کہنے کی کوشش کررہا تھا۔اتنے فاصلے پر اس کے الفاظ ہو ا میں تحلیل ہورہے تھے۔پھر اس نے اشارے سے بتانے کی کوشش کی کہ آدم خور اس جانب آئی تھی لیکن بچ کر شمال کی جانب نکل گئی ہے۔ثانی نے جوابی اشاروں میں اسے وہیں جمے رہنے اور اپنا خیال رکھنے کا کہا۔

ثانی کو یقین تھا کہ وہ زیادہ دور نہیں گئی ہوگی اور کچھ ہی دیر میں وہ گھوم کر واپس اپنی غار کی طرف ضرور آئے گی۔ثانی اس کی فطرت کو پہچاننے لگا تھا۔وہ کسی حال میں بھی اپنے بچے کی لاش ان دونوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ثانی نے کچھ سوچا اور پھر نور محمد کو لیے اس کے غار کی جانب آیا۔انہیں غار کے قریب جانے کیلئے چھوٹے گلدار کے مردہ جسم کو پھلانگنا پڑا۔آدم خور نے اپنی جبلت کے مطابق غار کو چھپانے کیلئے وہاں خشک جھاڑیاں اس طور پھیلا رکھی تھیں کہ انہیں ہٹا ئے بغیر آگے بڑھنا مشکل تھا۔انہوں نے تھوڑی مشقت کرکے جھاڑیوں میں راستہ بنایا اور غار کے دہانے میں جھانکا۔وہ ایک چھوٹے دہانے کی کم گہری اور ناہموار غار تھی جس میں وہ جسم کو دہرا کرکے ہی داخل ہوسکتے تھے۔غار کے اندر گہری تاریکی تھی۔ثانی نے اپنے سگریٹ لائٹر کی ٹارچ کو جلا کر دیکھا کہ غار آگے چل کر قدرے کشادہ اور آرام دہ ہوگئی تھی۔پھر اس نے روشنی کے ننھے سے دائرے کا رخ فرش کی طرف موڑا تو دیکھا کہ وہاں کچھ ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔غور سے دیکھا تو یہ انسانی ہڈیاں تھیں۔شاید تین سے چار انسانوں کی ہڈیاںتھیں۔یہ ان چھ انسانوں کے علاوہ تھے جنہیں آدم خور نے نہایت اطمینان سے غار کے اندر لاکر کھایا تھااور جن کی ہلاکت کہیں رپورٹ ہوئی نہ کسی بریکنگ نیوز کا رزق بنی۔ثانی نے اپنے بالائی دھڑ کو اندر داخل کرکے دیکھا کہ وہاں خشک خون کے دھبے بکھرے ہوئے تھے ۔ان ہڈیوں کے ڈھیر میں ایسی ہڈیاں بھی تھیں جن کے ساتھ کیڑے مکوڑے چمٹے ہوئے تھے۔یقینایہ اس کے تازہ شکار تھے۔ثانی کو ابکائی سی آئی اور اس نے اپنا دھڑ واپس کھینچ لیا۔نور محمد نے بھی اس کی متابعت میں غار میں جھانکا اور ایک جھرجھراہٹ کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔

’’آئیں صاب! ہم اس کے پیچھے چلتے ہیں‘‘۔نور محمد نے اپنے چہرے پر بندھے خون سے لتھڑے ہوئے کپڑے کو دباتے ہوئے کہا۔

’’کوئی فائدہ نہیں۔وہ آتی ہی ہوگی۔ہمیں یہیں گھات لگا کر بیٹھنا ہوگا‘‘۔ ثانی نے جواب دیا۔

ثانی کیلئے انتظار کا ایک ایک لمحہ عذابناک تھا۔اسے نور محمد کے زخموں کی فکر تھی جنہیں فوری سرجری کی ضرورت تھی۔وہ جلد از جلد اس قصے کو تمام کرنا چاہتا تھا کہ کہیں اس کے زخم ٹھنڈے پڑ کر اکڑ گئے تو اس سے تکلیف برداشت کرنا ناممکن ہوجائے گا۔وہ ابھی سے نور محمد کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات کو کھیلتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔

اور پھر وہ واپس آگئی۔

ثانی اورنور محمد اپنی اپنی جگہ پر جمے ہوئے تھے۔انہوں نے خود کو اس طرح چھپالیا تھا کہ پہلی نظر میںآدم خور انہیں دیکھ نہ پائے۔نور محمد

کے زخم ٹھنڈے پڑنے لگے تھے جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر کھنچائو اور تکلیف کا احساس بڑھتا جارہا تھا ۔ثانی کو جتنی دعائیں یاد تھیں وہ اس نے دل ہی دل میں پڑھ کر نور محمد پر پھونک دیں کہ فی الوقت تو یہی اس کے بس میں تھا۔اسے اضطراب لاحق ہورہا تھا کہ وہ جلدی واپس آئے اور یہ تماشا جلدی ختم ہو۔وہ پریشان تھا کہ زیادہ دیر ہوگئی تو کہیں نور محمد کے زخم بگڑ نہ جائیں۔اور پھر ثانی نے ایک پتھر کی اوٹ سے اس کی کھڑی دم نمودار ہوتے دیکھی۔وہ آہستہ آہستہ انہی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ثانی نے دور سے نور محمد کو اشارہ کیا ۔اس نے بھی دم کو لہراتے ہوئے اپنی جانب آتے دیکھا تو اس کے ہاتھ اپنی شارٹ گن پر جم گئے۔اور پھر وہ ہلکی سی جست لگا کر ان کی نظروں کے سامنے نمودار ہوگئی۔ثانی نے دیکھا کہ نور محمد نے لاشعوری طور پر اپنی آستینیں چڑھالیں جیسے وہ حریف سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے تیار ہو۔آدم خور کچھ دیر ٹھٹک کر کھڑی دائیں بائیں دیکھتی رہی اور پھر ہلکی سی لنگڑاہٹ کے ساتھ چھوٹے گلدار کے مردہ جسم کے قریب آگئی۔اس نے اپنے اگلے پنجوں کی مدد سے اسے اٹھانے کی کوشش کی۔شاید وہ چاہ رہی تھی کہ اسے اپنے ساتھ لے کر کسی اور دنیا کا، کسی بہتر دنیا کا رخ کرلے۔وہ بے حرکت رہا تو اس نے بے تابی کے ساتھ اسے جھنجھوڑنا شروع کردیا۔

وہ حالت انکار میں تھی اور اس کا ہٹیلا من بضد تھا کہ اس کا بچہ مرا نہیں زندہ ہے۔

ثانی اور آدم خور کے درمیان پندرہ سے بیس گز کا فاصلہ تھا جبکہ نور محمد اور آدم خور کے درمیان بھی کچھ اتنا ہی فاصلہ ہوگا۔وہ ان دونوں یکسر لاپرواہ تھی۔لگتا تھا کہ وہ ان کی موجودگی سے آگاہ نہیں ہے یا پھر انہیں باور کرانا چاہتی تھی کہ وہ اس کیلئے کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔یہ بات سراسر گلدار کی جبلت کے خلاف تھی۔ثانی کی معلومات کے مطابق گلدار سے زیادہ چالاک اور محتاط جانور روئے زمین پر کوئی اور نہیں ہوتا۔اگر اس کے مقابل انسان ہو تو وہ زیادہ محتاط اور زیادہ چالاک ہوجاتا ہے کیونکہ وہ دل سے انسان کی برتری کو تسلیم کرتا ہے اور اس سے خوفزدہ رہتا ہے۔لیکن اس آدم خور نے اسے کئی باتوں میں غلط ثابت کر دیا تھا۔ثانی نے اس سوال کو کسی اگلی فرصت پر ٹال دیا کہ کیا کوئی جانور اپنی فطری پروگرامنگ سے انحراف بھی کرسکتا ہے۔فی الوقت گلدار کے عجیب روئیے کی سادہ سی وجہ یہی سمجھ میں آرہی تھی کہ انسانوں کے ساتھ بہت زیادہ انٹر ایکشن نے اس کے دل سے انسان کا روایتی خوف کم کر دیا ہے ۔ایک اور وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ اس کی ساری توجہ اپنے بچے کی موت سے انکار پر صرف ہورہی تھی اور شاید وہ اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں کچھ سوچنا ہی نہ چاہتی تھی۔خود اپنی زندگی کو لاحق خطرے کے بارے میں بھی نہیں۔

ثا نی نے گلدار کے نفسیاتی بکھیڑوں کو ایک طرف رکھا اورایک سہل کے ساتھ رائفل کی نال سیدھی کی اور اس کا نشانہ باندھ لیا۔اس بار آدم خور کا زندہ بچ نکلنا معجزہ ہی ہوسکتا تھا۔اس سے پہلے کہ ٹرائیگر پر جمی اس کی انگلی آخری فیصلہ سناتی اچانک نور محمد کے تیز اور غصیلے اشاروں نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ثانی نے دیکھا کہ وہ اشاروں میں اسے نشانہ باندھنے سے منع کررہا تھا لیکن کیوں؟۔۔۔ابھی وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ نور محمد نے اپنی رائفل کو ایک درخت کے ساتھ ٹکا دیا ہے۔

’’ایک اور حماقت، صاف خود کشی کا ارتکاب!‘‘۔ثانی دانت پیستے ہوئے بڑبڑایا۔

تب اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں جب اس نے دیکھا کہ نور محمد آدم خور پر نگاہ جمائے ہوئے سلو موشن میں جھکا اور ایک ٹانگ

سے شلوار کا پائینچہ اوپر اٹھا دیا۔اس کی پنڈلی برہنہ ہوئی تو ثانی کواس کے ساتھ بندھا خنجر دکھائی دیا ۔ثانی کیلئے اس خنجر کی موجودگی ایک انکشاف تھا۔نور محمد نے انہیں اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی۔تب نور محمد نے بہت اطمینان سے خنجر کھینچ کر ہاتھ میں تولا اور پھر دوبارہ کہنیوں تک آستینیں کھینچ کر درخت کی اوٹ سے باہر آگیا۔

’’خدایا! کیا کرنا چاہتا ہے یہ شخص؟‘‘۔ثانی نے دھل کر سوچا۔

نور محمد خودکشی کی راہ پر چل نکلا تھا اور وہ اسے روک نہیں سکتا تھا۔

وہ اسے سختی سے ڈانٹنا چاہتا تھا لیکن بے بس تھا کہ سوائے اشاروں کی زبان استعمال کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔ادھر نور محمد اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔وہ جان بوجھ کر اسے نظر انداز کررہا تھا۔ثانی نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی اور وہ خنجرتانے دبے قدموں آدم خور کی طرف بڑھ رہا تھا۔

آدم خور کی طرف قدم بہ قدم بڑھتے ہوئے نور محمد کی چال میں زمانہ ماقبل تاریخ کے شکاری انسان جیسی سفاکی، احتیاط اور استحکام تھا۔وہ ایک ایک قدم ناپ تول کر بڑھا رہا تھا اور پھر وہ اس سے چند گز کے فاصلے پر رک گیا۔ثانی نے دیکھا کہ آدم خور بھی اس پر نظریں جمائے کھڑی تھی اور اس پر جست لگانے کیلئے پوری طرح تیار تھی ۔ثانی نے اندازہ لگایا کہ وہ اپنے متوقع شکار کے مزید قریب آنے کا انتظار کررہی تھی۔وہ بیس فٹ طویل جست لگاسکتی جبکہ ابھی ان کا درمیانی فاصلہ اس سے زیادہ تھا۔وہ ایک ناقابل یقین منظر تھا۔دونوںاپنی اپنی جبلتوں کے اسیر اپنی اپنی وحشتوں کو طاقت بنائے ایک دوسرے کے مقابل تھے جیسے وہ وقت کی الٹی جست پر سوار قدیم روم کے ایرینا میں پہنچ گئے ہوں۔ثانی سانس لینا بھول گیا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ ایسے میں کیا کرے۔کاش اسے یہاں آنے سے پہلے نور محمد کی حماقت اور اندھے انتقام کا اندازہ ہوجاتا۔

ثانی دیکھ رہا تھا کہ آدم خور نے جست بھرنے کا ارادہ موقوف کیا اور نامحسوس انداز میں آگے بڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ فاصلہ کم کرنا شروع کردیا تھا۔اور پھر وہ ایک مخصوص فاصلے پر آکر رک گئی۔اب ثانی کے پاس لمحہ بھر کی مہلت رہ گئی تھی۔اس کے بعد ایک ناقابل تصور منظر اس کے دیکھنے کو رہ جاتا۔اس نے نظر جما کر نشانہ باندھا اور پھر وہ لمحہ آگیا جو متوقع تھا اور فیصلہ کن تھا۔اچانک نور محمد کے منہ سے ایک چنگاڑ نکلی اور اس نے خنجر کو تولتے ہوئے آدم خور کی طرف دوڑ لگادی۔اسی آن آدم خور کی غضبناک دھاڑ گونجی اور سارے ویرانے کو لرزا گئی۔

نور محمد نے زمانہ ماقبل تاریخ کی دلاوری سے آدم خور کے اندازوں کو گڑبڑا دیا تھا۔اس نے اپنی حکمت عملی کو بدلتے ہوئے دفاعی انداز اپنایا اور نور محمد کو آگے بڑھنے دیا۔ اور پھر اچانک نور محمد ایک چنگھاڑ کے ساتھ اچھلا اور اپنے دشمن پر جاپڑا۔ثانی نے پھٹی آنکھوں دیکھا کہ ناقبل یقین پھرتی کے ساتھ آدم خور نے اپنے جسم کو چرایا اور اس کا خنجر ہوا کو کاٹتا ہوا زمین میں پیوست ہوگیا۔اب نور محمد آدم خور پر ڈھیر تھا اور دونوں کسی رومن ایرینا کے غلام اور شیر کی طرح زور آزمائی کررہے تھے۔آدم خو ر نے اسے پنجہ مارنا چاہا لیکن نور محمد نے جسم و جاں کا پورا زور صرف کرتے ہوئے اس کی دونوں اگلی ٹانگوں کو جھٹکے کے ساتھ زمین پر لگا دیا۔اس نے خنجر کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا لیکن خنجر دور پڑا تھا وہ اپنی جھونک میں اس تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔

غلام اپنی زندگی کی آخری بازی کھیل رہا تھا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس بازی میں اس کی مات لکھی جاچکی ہے وہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔لیکن کہاں غلام کہاں شیر۔آدم خور کی حیوانی وحشت نے اگلے ہی لمحے نور محمد کی انسانی وحشت کو صاف پچھاڑ دیا۔اس نے تھوڑی زور آزمائی کے بعد اپنے جسم کو ایک جھٹکا دیا اور نور محمد کو دور پھینک دیا۔ساتھ ہی وہ تیزی سے گھومی اور پیچھے ہٹتے ہوئے نور محمد سے ایک موزوں فاصلے پر پہنچ گئی۔جب تک وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا وہ ایک فیصلہ کن جست کیلئے تیار ہوچکی تھی۔دوسری جانب نور محمد بھی زمین سے خنجر اٹھا کر اگلے وار کیلئے تیار تھا۔یہ وہی لمحہ تھا جب آدم خور نے اپنی اگلی ٹانگیں پھیلاکر جسم کو سکیڑا اور ہوا کے دوش پر سوار ہوگئی۔

پھرجو ہوا بیک وقت ہوا۔ثانی کی رائفل نے گرجتے ہوئے شعلہ اگلا، نور محمد کا خنجر بردار ہاتھ ہوا میں بلند ہوا اور آدم خور کی نپی تلی جست نور محمد پر تمام ہوئی۔اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا جب اس نے دیکھا کہ نور محمد نے ناقابل یقین سرعت کے ساتھ جھکائی دی اور اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا۔خیریت گذری کہ آدم خور کا وار خالی گیا تھاورنہ اس بار نور محمد بچ نہ پاتا۔ثانی کی رائفل سے نکلنے والی گولی کے دھچکے نے اس کی جست کو گڑبڑا دیا تھا۔جست کے نکتہ اختتام پر آدم خور زمین سے اٹھنے کو تھی کہ ایک اور جست کیلئے تیزی سے اپنا فاصلہ بڑھالے لیکن عین اسی لمحے وحشیانہ آواز نکالتے ہوئے نور محمد اس پر جا پڑا۔وہ دونوں زمین پر لیٹے ہوئے دوبارہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔نور محمد اس کے سینے پر چڑھا بیٹھا تھا۔اس نے تیزی سے اپنا ایک ہاتھ اس کے ایک پنجے پر اور ایک پائوں دوسرے پنجے پر جما کر انہیں زمین سے لگادیا تھا۔اب غلام کی باری تھی کہ خنجر اس کے ہاتھ میں تھا اور شیر وقتی طور پر بے بس تھا۔اگلے لمحے سورج اس کے جنجر کی دھار پر چمکا ۔اچانک اس نے اٹھے ہوئے ہاتھ کو فضا میں تھام لیا۔فیصلہ کن وار کرنے سے پہلے وہ پھیپھڑوں کی پوری قوت سے چلایا۔’’بول مال زادی بول! تم نے میری گلابے کو کیوں مارا؟۔۔۔بول! کیوں مارا؟؟۔۔۔بول۔۔۔بول۔۔۔‘‘

ثانی کو اندازہ تھا کہ دیوانگی کی طاقت کے باوجود وہ زیادہ دیر آدم خور کو قابو نہیں کرپائے گا۔ان دونوں کے درمیان طاقت کا شدید عدم توازن تھا۔اس نے خود کو کبھی اتنا بے بس محسوس نہ کیا تھا ۔اس بار بھی اگر نور محمد کا وار خالی جاتا تو وہ اسے آدم خور کے جوابی وار سے نہیں بچا سکتا تھا۔اس صورت میں کہ جب دونوں گتھم گتھا تھے وہ فائر کھولنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔اور پھر اس نے دیکھا کہ نور محمد کا ہوا میں اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے آیا اور اس نے اس کے دل کے قریب خنجر اتار دیا۔تکلیف کی شدت سے آدم خور زور سے دھاڑی۔اس کی دھاڑ میں اس قدر قوت تھی کہ نور محمد ایک جھٹکے سے پیچھے جا پڑالیکن اس بار اس نے خنجر پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ وہ خنجر بلند کیے پھر سے جھپٹا اور اس نے اسی جگہ ایک اور وار کردیا۔ثانی نے دیکھا کہ اچانک خون ایک تیز فوارے کی طرح چھوٹا اور سیدھا نور محمد کے چہرے پر پڑا۔وہ کچھ دیر کیلئے اندھا ہوگیا۔آدم خور نے اسی آن اسے جھٹکے سے نیچے اتار پھینکا۔لمحے کا شاید سواں حصہ ہوگا جب ان دونوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہوا ۔ثانی کیلئے یہ مہلت کافی تھی۔اس کی رائفل نے شعلہ اگلا۔ایک بار ، دو بار، تین بار۔اس نے جسم کے کسی مخصوص حصے کو نشانہ بنائے بغیرکہ نشانہ باندھنے کی مہلت موجود نہیں تھی، آگ کے تین گولے آدم خور کے جسم میں پیوست کردئیے۔آدم خور کا جسم تین بار اچھلا اور پھر بے حرکت ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی ثانی زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔اسے لگا جیسے وہ بے جا ن ہوگیا ہو یا شاید اس کے اعصاب کے درمیان رابطہ منقطع ہوگیا ہو۔

وہ بے حس نظروں سے اس خونی منظر کو تکے جارہا تھا۔اس کے سامنے مشک پوری کی آدم خور ملکہ آسمان کی طرف ٹانگیں اٹھائے لیٹی تھی

اور اس کے پہلو میں ایک آدم زاد اوندھے منہ پڑا تھا۔ کہیں دور، بہت دور سے اس کے کانوں میں بھاگتے قدموں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔جانے کون ان کی طرف بھاگتا آرہا تھا۔ان دونوں کے سوا وہاں کوئی اور تھا بھی یا نہیں۔اسے مطلق خبر نہیں تھی۔خبر تھی تو یہ کہ وہ اور نور محمد زندہ تھے اور جانے کتنی معصوم جانوں کی قاتل مشک پوری کی آدم خور ملکہ ایک بے جان لاش کی صورت ان کے قریب پڑی تھی۔

جانے کتنے یگوں بعد اس ساکن تصویر میں جان پڑنا شروع اورثانی نے اپنی ہمتیں سمیٹ کر اپنے جسم کو قدموں پر اٹھایا۔وہ بے جان ٹانگیں کھینچتا نور محمد کی طرف بڑھا جو طوفان کی زد میں آئے درخت کی طرح زمین پر اوندھے منہ پڑا تھا۔اس نے نور محمد کو جھنجھوڑا تو اس کے بدن میں جنبش پیدا ہوئی۔ ثانی نے اسے دوبارہ جھنجھوڑا تو اس نے اپنی خون بھری آنکھیں کھولنے کی کوشش کی اور پھر ہوش میں آکر اس نے پوری قوت مجتمع کرتے ہوئے اپنے جسم کو رول کیا اور کسی طور خود چت کیا۔ثانی نے دیکھا کہ اس کا چہرہ آدم خور کے خون سے رنگین تھا۔اس نے اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن پھر ڈھیر ہوگیا۔وہ وجود جو کچھ دیر پہلے قوت اور جوش سے بھرا ہوا تھا اب بے جان سا پڑا تھا۔اس نے اپنے قریب ثانی کو محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھیں پونچھیں اور ایک احساس لاتعلقی کے ساتھ ثانی کی طرف دیکھا۔

نور محمدکے چہرے اور کندھے کے زخم دوبارہ کھل چکے تھے جن میں سے لہو رس کر گھاس میں جذب ہورہا تھا۔اس کے خون میں لتھڑے چہرے اور اس پر بندھی خون میں غلطاں پٹیوں نے اس کے چہرے کو بھیانک بنادیا تھا۔ثانی آگے بڑھا اور اس پر جھک کر ہتھیلیوں سے اس کے چہرے سے لہو پونچھنے لگا۔نور محمد لاتعلقی سے اسے تکتا رہا۔وہ دونوں خاموش اور ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش میںتھے۔اس اثنا میں تیسرا بھی ان تک پہنچ چکا تھا۔یہ ڈپٹی تھا۔اس نے ان دو بے حرکت مجسموں کو زندہ دیکھا تو ہانپتا ہوا ان سے لپٹ گیا۔وہ سامنے والی پہاڑی سے دلاوری کے اس ناقابل بیان منظر کو دیکھتا رہا تھا ۔منظر میں تیسرے کردار کی موجودگی ان دونوں کو حواس کی دنیا میں واپس لے آئی۔اب جو پہچان ان کے درمیان اتری تونور محمد ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔اس نے جھپٹ کر ثانی کو اپنی طرف کھینچا اور ایک دھاڑ کے ساتھ اس کے کپکپاتے ہوئے وجود کے ساتھ لپٹ گیا۔

ثانی نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا اور دونوں ایک دوسرے سے لپٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

٭٭٭٭

مشک پوری کی ملکہ

ناولا

محمد عاطف علیم

(۱ )

پوری رات کا چاند ایک طویل اور اکتادینے والے سفر کے بعد افق کی کگر پر ذرا سا ٹکا بیٹھاتھا اور گلیات کی خوابیدہ وسعتوں سے چاندنی کو سمیٹ پاتال میں گم ہونے کی فکر میں تھا۔رات کا دم واپسی تھا۔کوئی دیر گذرتی کہ جنگل کے سحر خیز مکین اپنی گہری نیند سے جاگ اٹھتے سو ایک کاہلی سے ٹمٹماتے ستاروں نے بھی ماند پڑنے سے پہلے بوجھل پلکوں یونہی ذرا کی ذراغار کی تاریک گہرائی میں جھانکا جہاں اندھیرے میں دو  بیقرارآنکھیں فروزا ں تھیں۔

’’یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا۔۔۔آہ!‘‘

مشک پوری پہاڑسے ذرا دور ا یوبیہ نیشنل پارک کے ایک سنگلاخ ویرانے کی غارمیں وہ بے تکان چکر کاٹے اور اپنے ہی زہر میں گھلے جارہی تھی۔’’میرے ساتھ یہ کیسے ہوگیا ؟۔۔۔میں اتنی کمزور کیسے پڑگئی؟۔۔۔کیوں ۔۔۔آخر کیوں؟؟‘‘۔

وہ بے چین تھی اور زخم خوردہ تھی۔

معاملہ محض ایک ملکہ کے کوہ ِ پندارکے ریزہ ریزہ ہوجانے کا ہی نہیں ایک مامتا کو لگنے والے گہرے گھائو کا بھی تھا۔سو چین پڑتا بھی تو کیسے؟

ملکہ ایک دن اور ایک رات سے لڑکھڑاتے وجود اور لنگڑاتی ٹانگ سے مسلسل اپنی غار میں بند چکر کاٹے جارہی تھی۔ رگ و پے کو رہ رہ کر کاٹتے غصے کی ایک لہر تھی کہ رات بھر غضبناک دھاڑ میں اپنے وجود کا اظہار کرتی رہی تھی۔ہزیمت کے اس لمحے کی انی ایک بار پھر ملکہ کے دل میں چبھی توایک خارا شگاف دھاڑ نے ہمالیاتی وسعتوں میں دور تک خوف کا ارتعاش پھیلاد یا۔

گلیات کے نشیب و فراز میں اس روز ایک طرح سے غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ تھی جس میں ہر ذی روح عدم تحفظ کے احساس سے دوچار بولایا پھر رہا تھا۔جبھی رات بھر سے گھنے جنگل میں ہر نوع نے جگہ جگہ اپنی وچار سبھا سجارکھی تھی جس میں سبھی ایک سنسناہٹ کے عالم میںاپنی اپنی کہنے کی بے تابی میں مبتلا تھے۔تبھی جاسوس فاختہ نے غار کی اور سے اڑان بھری اور منڈلی منڈلی جا اپنا روزنامچہ بیان کیا۔ایک بلند درخت کی مضبوط شاخ پر جھولتے بندروں کے ایک گروہ نے خطرے سے انہیں آگاہ کیا تو ایکا ایکی سب نے اپنی پر شور سیانپ موقوف کی اور ان کی گردنیں غار کی سمت مڑگئیں۔سب نے ایک سہم سے دیکھا کہ کہ رات کے آخری پہروہ سر اٹھائے غار کے باہر کھڑی تھی۔

گلیات کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے متنوع جنگل کی زخم خوردہ ملکہ گلدارنے کھلے میں آکر پورا منہ کھولتے ہوئے جمائی لی تو اس کے لمبے مضبوط دانتوں پر چاند چمک اٹھا۔تب اس نے اپنی اگلی ٹانگیں پھیلا کر اپنے جسم کو تاحد امکان کھینچ طویل انگڑائی لی اوراس رات کی کوکھ میں پلنے والے ایک اور سفاک دن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوگئی۔

اچانک اسے سامنے دیکھ سارے میں کھلبلی سی مچ گئی۔پکھوئوں نے ہڑبڑاہٹ میںاڑانیں بھریں اور اپنے اپنے گھونسلوں میں جا دبکے۔جنگل میںرینگنے والی مخلوق اور گلہری جیسے بے اوقات جانوروں کی تو خیر کیا بساط ، ریچھ، گیدڑ اور لومڑی جیسے طرم خان بھی یوں اڑن چھو ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔رہے صدا کے ستم رسیدہ بندر تو انہوں نے بھی ملکہ کے زردی مائل گہرے سنہری جسم کی جھلک دیکھتے ہی اپنی اپنی دانش مندی کو بغل میں دابا اور ڈال ڈال پھدکتے محفوظ ٹھکانوں پر منتقل ہوگئے۔

جنگل کے گھنے پن کے بیچوں بیچ موجود اپنے غیض میں غلطاں اور اپنے احساس شکست سے جھنجھلائی ہوئی ملکہ نے گردن گھما کر چاروں اورکسی مانوس باس کا سراغ لگانے کی کوشش کی اور پھرمایوسی سے سرجھٹکتے ہوئے تلاش کے نئے سفر پر روانہ ہوگئی۔تھمے تھمے قدموں

چلتے رات تمام ہوئی اور ملگجے اندھیرے نے ایک تازہ دن کی آمد کا اعلان کیا۔

اس نئے دن بھی وہ جنگل جنگل بھٹکتی پھری۔اس کی اگلی بائیں ٹانگ کا زخم ابھی ہرا تھا اور پھر اس کی وحشی جبلت اسے باور کرارہی تھی کہ جنگل میں تلاش کی کھکھیڑ بیکار ہے اس کے باوجود کلیجے میں گڑی پھانس اسے ایک جا ٹک کر نہیں بیٹھنے دے رہی تھی۔وہ اپنی زخمی ٹانگ پر کم سے کم دبائو ڈالتے ہوئے چند قدم چلتی اور پھر دیر تک کسی سائے میں پڑ رہتی۔وہ کل سے بھوکی تھی کہ زخم خوردگی کے اس عالم میں اس کی دہشت اور شکارپر آناً فاناً جھپٹ پڑنے کی مہارت کسی کام کی نہ رہی تھی۔اس نے لنگڑاتے ہوئے بہت سے چھوٹے جانوروںپر جھپٹا مارنے کی کوشش کی لیکن پنجے ہوا میں لہرا کر رہ گئے۔کیا چھوٹے کیا بڑے، خدائی خوار ایک ہی دن میں اس قدر پھرتیلے ہوگئے تھے کہ اس کے ارادوں کی خبر ہوتے ہی اڑن چھو ہوجاتے۔ادھر کمزوری تھی کہ دم بدم بڑھتی جارہی تھی سو اس نے اپنی تلاش کو موقوف کیا اورسنجیدگی سے شکار پر توجہ مرکوز کردی۔کوئی بڑا نہ سہی چھوٹا موٹا ہی سہی ۔کم بخت پیٹ کا دوزخ تو کسی طور بھرے۔ آخر گھنٹوں کی خواری کے بعد ایک کاہل اور بے وقوف بندر ہاتھ لگ ہی گیا۔شکم پوری کا سامان ہوا توکھوئی ہوئی توانائی کسی قدر بحال ہوگئی۔اب اس کے سامنے ایک طویل اور مایوس کن دن پڑا تھا جسے جیسے تیسے تمام  کرنا تھا۔

جنگل میں گھومتے پھرتے دن ڈھلا تو ایک اور رات ملگجے اندھیرے اور گھنے تاریک سایوں سمیت آموجود ہوئی۔رات کی تاریکی ایک نئی کھوج کا عنوان تھی مگراس رات بھی اس کی کھوج نا تمام رہی۔اس دوران وہ بولائی ہوئی مامتا کا بوجھ اٹھائے بے تکان چلتی رہی۔مشک پوری سے میران جانی کے فراز کوہ تک اور ایوبیہ سے نتھیا گلی اور پھر ڈونگا گلی سے کوزہ گلی تک اس نے چیڑ اور دیو دار کی جنگلی وسعتوں کو کئی بار پھر چھان مارا۔ بلندیاں تہی داماں نکلتیں تو وہ دم بدم گہرے ہوتے اندیشوں کو جھٹکتی دل گرفتہ سی کگر کگر پھسلتی وادیوں میں اتر جاتی۔ جنگل کی کون ایسا جھاڑی اور گلیات کی کون ایسی گھاٹی ہوگی جس کا ایک انچ بھی اس کی تیز نگاہوں سے بچ رہا ہو لیکن وائے ناکامی کہ اسے اپنے گل گوتھنوں کا سراغ ملنا تھا سو نہ ملا۔اگلے دن وہ مایوس ہوکر پلٹی اور تھکے قدموں جھاڑیوں سے الجھتی مشک پوری کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔یہاں سے وہ چہار سمت دور تک دیکھ سکتی تھی۔سو اب وہ مشک پوری کی سب سے اونچی چٹان پر کھڑی تھی اور دور دھندلائے ہوئے افق کو تکے جارہی تھی۔اس دوران کتنے ہی آوارہ بادل اسے بھگوتے ہوئے گذر گئے مگر وہ اپنی لمبی اور پرشکوہ دم کو ایستادہ کیے ایک جا ساکت کھڑی رہی۔

دو دن پہلے تک ملکہ جب ملگجے اندھیروں میں اپنے گل گوتھنوں کو لے کر شکار پر نکلتی تو یونہی اپنی دم کو ایستادہ رکھا کرتی۔یہ دم ان شرارت کے پتلوں کیلئے نشان راہ کا کام کیا کرتی تھی۔شکار وکار سے خیر دلچسپی کسے تھی ۔انہیں تو تاریک سایوں میں چھپی سنسناہٹوںور چاند نی کے مدھم سروں سے اٹھکیلیاں کرنے سے مطلب تھا سو راتوں کی آوارگی کے دوران جب وہ دونوں ملکہ ماں کے پیچھے پیچھے چلا کرتے توتاریک پر اسرار سایوں کو پکڑتے اورایک دوسرے کے ساتھ کتے لاڈیاں کرتے اکثر دور نکل جاتے ۔ لیکن ملکہ ماں کی اٹھی ہوئی دم کی سفید پھننگ تھی جو انہیں راہ سے بے راہ نہ ہونے دیتی تھی۔

رات بھر کی مٹر گشت کے دوران جب کوئی شامت کا مارا شکار اچانک سامنے آجاتا تو ملکہ ماں کی بدن بولی یکسر بدل جایا کرتی۔تب وہ اپنے حواس کو تیز اور اپنے بدن کو قابو میں کیے کمال ارتکاز توجہ کے ساتھ دم سادھے، چور قدموں اس کی طرف بڑھنے لگتی۔اس بیچ اچانک کسی فیصلہ کن لمحے اس کی دم شدت سے لہرااٹھتی۔یہ دونوں نوآموز شکاریوں کیلئے ایک سخت انتباہ تھا بندے کے پتر بننے کا اور فضول کی بک بک بند کرکے چپ چاپ پیچھے چلتے آنے کا ۔

وہ دونوں ایک محفوظ فاصلے پر سانس روکے دیکھتے کہ بدنصیب شکا ر بے خبری کے عالم میں کھڑا ہے اور موت ان کی ماں کے روپ میں اس سے تھوڑے فاصلے پر دبکی بیٹھی ہے۔اور پھر جونہی بے خبر شکار دھیان سے بے دھیان ہوتا اچانک سنہری بجلی کا کوندا سا لپکتا اور اگلے ہی ثانئے زندگی سے اس ناطہ کٹ چکا ہوتا۔انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ شکار کی گدی پر ملکہ ماں کا نپا تلا ہاتھ پڑا ہو اور اس نے دوسری سانس بھی لی ہو۔بارہا ایسا بھی ہوا کہ شکار ہونے والے جانور کی معصومیت دیکھ ان کے دل میں دوستانہ جذبات پیدا ہوجاتے۔وہ اسے مار کھانے کی بجائے اسے کھلونے کی طرح اپنے پاس رکھنا چاہتے۔ایسے میں وہ ماں کی غراہٹ کی پرواہ کیے بغیر ماں کے اس سفاک مشغلے میں شامل ہونے سے انکار کردیتے۔ لیکن ماں ان کے بال پنے کو درخور اعتنا نہ سمجھتی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا من موہنا کھلونا گوشت اور خون کا لوتھڑا سا بنا ان کے سامنے پڑا ہوتا۔کچی عمر کی معصومیت اس کھلی سفاکی پر احتجاج کراٹھتی لیکن اگلے ہی لمحے وحشت کی جبلت ان کی معصومیت کو صاف پچھاڑ دیتی ۔ یوںجب ملکہ ماں شکار کی گردن میں اپنے دانت پیوست کرتی تو یہ دونوں بھی سب کچھ بھول بھال نمبر ٹانکنے کو مرے ہوئے شکار پر جھپٹ پڑتے۔تب ماں شکارکی گردن کو منہ میں دبوچنے سے پہلے انہیں ڈانٹ پلانا ضروری سمجھتی تھی۔ وہ دونوں بھی ایک لذت بھری ضیافت کا سوچتے ہوئے کان نیچے کیے ماں کی پھٹکار سنتے اور پھر کمال سعادت مندی کے ساتھ ماں کے پیچھے پیچھے چل پڑتے۔

تب باری آتی ضیافت اڑانے کی۔میلوں کا سفر کرکے ملکہ مشک پوری کے دامن میں اپنے صدر مقام پر پہنچتی اور پھر شکار کو لیے اپنے پسندیدہ درخت پر چڑھ بیٹھتی اوروہ دونوں بے تابی کے عالم میں گوشت کے لذیذ ترین حصے ہتھیانے کیلئے ایک دوسرے پر دانت نکوستے اور جانور کے مردہ جسم کو اپنی اپنی جانب گھسیٹنے لگتے۔خدایا!کوئی ایسا بدتہذیب بھی نہ ہو۔کبھی کبھار ماں جھنجھلا کر انہیں مار بیٹھتی اور وہ دونوں منہ پھلائے کسی پتھر کی اوٹ میں چھپ جاتے۔تب ملکہ ماں کو کس کس جتن سے انہیں منانا پڑتا یہ وہی جانتی تھی۔

مشک پوری کی بلند ترین چٹان پر ساکت کھڑی ملکہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کرکے منظر تیرتے جارہے تھے۔اور پھر وہ ہولناک منظر جس نے اس کے گدیلے پائوں تلے انگارے بچھا رکھے تھے۔

چند ہی روز پہلے موسم سرما مشک پوری سے برف کی آخری دھجی بھی سمیٹ کر اگلے کئی مہینوں کیلئے رخصت ہوچکا تھا جس کے بعد گلیات کے بلند سبزہ زاروں پر مست خرام ہوائوں نے ڈیرہ جمالیا تھا۔موسم سرما کے دوران گلیات کی وسعتیں برفانی جہنم کا روپ دھارن کرلیتی ہیں۔بندر جاتی تو اپنی گرم کھال کے طفیل ہنسی خوشی موسم کی شدت برداشت کرلیتے ہیں بلکہ وہ جنگل میں بھی کہاں رہتے ہیں۔جونہی برف کا پہلا گالا پہاڑ کی چوٹی پر اترتاہے وہ انسان لوگوں کے ساتھ اپنی اچھی پی آر کو کام میں لاتے ہوئے آبادیوں میں گرمائی ہوئی جگہوںپر جاڈیرے جماتے ہیں ۔رہی باقی مخلوق تو بیچاری تیز سرد ہوائوں سے اپنے کومل بدنوں کو بچانے کیلئے اپنی پناہ گاہوں میں دبک کر رہ جاتی ہے۔گلیات کی آٹھ نو ہزار فٹ اونچی پہاڑی وسعتوں میں ٹھنڈے موسم کا محاصر ہ ایسا سخت ہوتا ہے کہ اگر کسی نے مشکل دنوں کیلئے کچھ بچالیا تو واہ بھلا ورنہ شگوفے کھلنے تک بھوک کا عذاب تو ہے ہی۔اب گلدارلوگ گلہریوں جیسی دور اندیشی کہاںسے لائیں او ر پھر باسی تباسی گوشت کو ذخیرہ کون کرے سو تازہ گوشت کے رسیا گلداروںکیلئے موسم کا عذاب کچھ زیادہ ہی سخت ثابت ہوتا ہے۔کئی کئی روز فاقوں سے کٹ جاتے ہیں۔ جنگل میں حضرت انسان کی مہربانیوں کے طفیل شکار تو خیر پہلے ہی کون ایسا وافر ہوتا ہے مگر اس عذابناک موسم میں تو پورا جنگل گویا چیل کا گھونسلا بن جاتا ہے جس میں ماس نام کی کوئی چیز ان کیلئے نہیں رہتی۔یوں گلدار لوگوں کو اترائیوں میں جانا پڑتا ہے،انسانی بستیوں کی طرف جہاں راتوں کو آوارہ گھومتا کوئی کتا بلا مل گیاتو ٹھیک ورنہ انہیں باڑوں میں بند مویشیوں پر دھاوا بولنا پڑتا ہے جو جانو کسی جان جوکھوں میں ڈالنے والے ایڈونچر سے کم نہیں کہ اس مہم جوئی کے دوران کبھی کبھار باڑوں کے چوکس اور مسلح رکھوالوں سے ان کا ید پڑجاتا ہے جس کا نتیجہ اکثر گلدار کی ہلاکت کی صورت میں  نکلتا ہے۔

سوایک عذابناک جاڑا گذرنے پرموسم بہار نے کومل رنگوں کی سمفنی بکھیر ٹھٹھرے ہوئے جنگل کو جگایا تو ایک روز دن بھر کی نیند پوری کرنے کے بعد یونہی اس کے جی میں آئی کہ چشمے پر جاکر ٹھنڈے میٹھے پانی سے پیاس بجھائی جائے۔ اور پھر اس بہانے جنگل میں ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ بھی ہوجائے گا۔تب اس نے ان ازلی بدتمیزوں کو پیچھے لگایا اور اپنی راجدھانی کی سیر پر نکل کھڑی ہوئی ۔کھلے میں پہنچ کر وہ یہ دیکھ بشاش ہوگئے کہ بہار رت کے اس شوخ دن سامنے پھیلی ساری کائنات ایک دلنواز مسکان مسکرا رہی تھی جبکہ جنگل کی ہنسی تھی کہ تھمنے میں نہیں آرہی تھی۔چیڑ، صنوبر، دیودار اور بن خور کے بلند درختوں پر کھلے تازہ بتازہ سبزے نے لینڈ سکیپ میں زندگی کے رنگوں میں کچھ زیادہ ہی شوخی بھردی تھی۔اور پھر وہاںتاحد نگاہ پھولدار جھاڑیاں تھیں جن پر کھلے سفید، سرخ، اودھے، نیلے، پیلے اور بنفشی پھولوں نے ایک آفت سی مچارکھی تھی۔ایک طرف رنگوں کی چہکار تھی تو دوسری طرف طرح طرح کی آوازوں کا غوغا تھا۔وہ حیران تھی کہ جنگل کے ان بے وقوف پرندوں کے پاس کرنے کو کون ایسی ضروری باتیں ہوتی ہیں کہ ان کی چونچیں بند ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ملکہ کے دونوں لاڈلے بھی اپنی زندگی کے پہلے برفانی عذاب کے خاتمے پر نہال ہورہے تھے۔انہوں نے بھی ایک ترنگ میں چک پھیری لیتے ہوئے سارے میں نگاہ دوڑائی۔وہ حیران تھے کہ وہ جس جاڑے کو اصل حیات سمجھے ہوئے تھے اسے بہار نے پسپا کرکے یہاں سے جانے پر مجبور کردیا تھا۔اب وہ تھے اور اس جنگل کا کھلا پن تھا جہاں طرف چہکار سی چہکار اور ہر طرف مہکارسی مہکار تھی۔

وہ چشمے پر پہنچے تو آبشار کی پھوار نے گل گوتھنوں کو بدمست کردیا ، لگے ایک دوسرے کے ساتھ کتے لاڈیاں کرنے۔وہ انہیں دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کوئی دن کی بات ہے کہ دونوں سردیوں اور گرمیوں کے دو دو موسم پورے کرچکے ہوں گے۔تب وہ بالغ ہوجائیں گے اور اسے ہمیشہ کیلئے یوں چھوڑ جائیں گے جیسے ان کا آپس میں کبھی کوئی سمبندھ نہ رہا ہو۔سبھی گلدار بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔بے وفائی کی رسم پر چلتے ہوئے دو سال کی عمر میں نسل کشی کے قابل ہوتے ہی ماں کو بھول بھال کر اپنی اپنی دنیا بسانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔یہ بھی کسی روز اچانک آنکھیں پھیر لیں گے سو جب تک ان کا بچپنا ہے آنکھوں میں ٹھنڈک بھی ہے۔لیکن اب بچپنا بھی کہاں۔تب جاڑوں کی آمد آمد تھی جب یہ دونوں ایک ہی زچگی کے دوران پیدا ہوئے تھے۔اس حساب سے سات آٹھ مہینے سے کم کے کیا ہوں گے لیکن ان کا بچپنا تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آرہاتھا۔اچھے خاصے لونٹھے ہوچکے تھے لیکن حیف ہے ان کے چلبلے پن پر کہ ابھی انہیں ٹھیک سے شکار کرنا بھی نہیں آیا تھا۔کس جانور پر کب اور کیسے جھپٹا مارنا ہے۔کس موقع پر جست لگانی ہے، کیسے لگانی ہے اور کب دم دبا کر اپنی راہ لگنا ہے۔ان کی بلا جانے۔انہیں تو بس کیا کرایا شکار چاہیے۔ہر ماں کی طرح وہ سچ میں ان کیلئے پریشان تھی۔مصیبت یہ تھی کہ وہ اکیلی جان ساری سوچیں سوچنے کیلئے رہ گئی تھی۔ان کا باپ سدا کا ہری چگ، ان کی پیدائش کے کچھ ہی دن بعد اسے چھوڑ کر نئی مادائوں کی تلا ش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔اس کا ساتھ ہوتا تو یہ دونوں تیر کی طرح سیدھے ہوگئے ہوتے۔یوں تو وہ شکار کے بہانے اکثر منہ کالا کرنے نکل جایا کرتا تھا لیکن اب کی بار جانے کون کالے منہ والی اس کے متھے لگی تھی کہ واپسی کا راستہ ہی بھول گیا۔

’’بدبخت نہ ہو تو!۔‘‘ ملکہ گلدار نے ایک غصیلی غراہٹ میں اس سنگدل کو ایک نفرت سے یاد کیا۔

چشمے سے واپسی پر اپنے خیالوں میں الجھی وہ غار کی جانب جارہی تھی کہ اچانک آدم زاد کی مخصوص باس نے اس کے قدم تھام لیے۔اس نے دیکھا کہ دور سے دو ٹانگوں چلتے آدم زاد ادھر ادھر جھاڑیوں میں جھانکتے پھر رہے تھے۔وہ تعداد میں چار تھے اور ان کے انداز سے لگتا تھا کہ انہیں کسی خاص چیز کی تلاش ہے ۔

آہ بیچارے یہ جنگل باہر کے جانور! جو کسی ازلی حیاتیاتی معذوری کے باعث چار ٹانگوں پر چلنے کے فطری انداز سے محروم تھے۔چار ٹانگوں پرتمکنت چال چلنے کا زعم رکھنے والی ملکہ نے ان ازلی معذوروں کو ترس اور تحقیر کے ملے جلے احساس کے ساتھ دیکھا اور چاہا کہ انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے۔

ملکہ کو انسان نام کا یہ جانور کبھی ایک آنکھ نہ بھایا کہ گلداروںسمیت ہر اس جاندار کا ازلی دشمن تھا جوفطری تقاضوں کے مطابق چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔یہ وہی تھا جس نے جانے کتنے معصوم جانوروں کو اپنے گھروں میں باندھ رکھا تھا۔وہ جو چاہتا ان دکھیاروں کے ساتھ کرتا۔جسے چاہتا نکیل ڈالے پھراتا، جسے چاہتا ڈگڈگی پر نچاتا پھرتا گویا اس کے بھانویں ان میں کوئی عزت نفس ہی نہ ہو۔ اور پھر سفاکی کی انتہا دیکھوموج میں ہو تو دن دھاڑے ان معصوموں کو لٹال مشق گردن زدنی سے بھی باز نہیں آتا۔اس عالم میں کوئی اس کے چہرے پر غازیانہ نور ملاحظہ فرمائے۔ایک ملکہ ہونے کے تئیں اپنی رعایا کے ساتھ اس برتائو پر تائو کھانا بہرحال بلاجواز نہیں تھا۔اور پھر وہ کیسے بھولتی خود اپنی جاتی کے مقتولین کو۔اس کے لاشعور میں ان سب واجب القدر گلداروں کے چہرے محفوظ تھے جو بھوک سے بے تاب ہوکر انسانی بستیوں میں گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے کسی دوپائے کو دعوت مبازرت دی ہو۔یہ بیچارے تو اپنا حق وصولنے گئے تھے ، رات کی تاریکی میں دبے پائوں۔لیکن آہ۔۔۔۔!

ملکہ نے یاد کیا کہ جنگل میں یہ بات بھی عام تھی کہ لالچ اور لوبھ کی ماری انسان جاتی کے لوگ جنگل جنگل گھوم کر معصوم جانوروں کو مارتے ہیں اور پھر ان کی کھالوں کو دساور میں رہنے والے ہم جنسوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں یا ان میں بھس بھر کر اپنے اوطاقوں میں سجادیتے

ہیں۔جنگل میں شکار کی کمیابی اور گلداروں پر مسلط نیم فاقہ کشی کا باعث بھی یہی نامعقول مخلوق ہے کہ جنگل میں اس کی مسلسل مداخلت اور درختوں کی بیدریغ کٹائی کے سبب روز کتنے ہی جنوروں کو اپنے گھر بار چھوڑ ہجرتوں کے دکھ بھوگنا پڑتے ہیں۔اور پھر اللہ معافی!کوئی تکبر سا تکبر ہے کہ حضرت کے دماغ میں بھس یہ بھرا ہوا ہے کہ اس سرزمین کا واحد وارث یہی ایک تو ہے۔دیگر ساری مخلوق تو گویا اس کے گھر میں زبردستی گھس آئی ہے کہ اس کو آخری پناہ گاہ تک سے محروم کردینا اس پر واجب ٹھہر ا ہے۔ بہت بھاری مجبوری تھی کہ جنگل کے اصل وارثوں کو ان قاتل صفت دو پائیوںکے ساتھ رہنا پڑتا تھا، کشادہ دلی سے یہ مانتے ہوئے کہ وہ جیسا بھی ہے بہرحال اسی لینڈ سکیپ کا حصہ ہے ۔

ملکہ نے چاہا کہ سامنے سے آتے دوپائیوںسے کترا کر نکل جائے ۔لیکن وہ دونوں کہاں دفعان گئے؟ ۔اس نے گردن گھما کر دیکھا لیکن ان کم بختوں کا کہیں سراغ نہیں تھا۔اس نے اپنی دم کا پرچم بلند کرتے ہوئے انہیں اپنی موجودگی کے مقام سے آگاہ کیاپر مجال ہے جو انہوں نے ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو۔’’جوان ہوئے نہیں اور خرمستیاں پہلے شروع ہوگئیں‘‘۔اس نے دانت پیسے اور دم کو زور زور سے لہرایا۔تب کہیں بندہ ڈبائو گھاس کے ایک خشک قطعے سے وہ دونوں کھی کھی کرتے برآمدہوئے پر ایک ہی کم بخت تھے دونوں کہ اچانک ایک نیلے پروں والے پرندے نے غوطہ لگایا تو وہ دونوں ماں کی گھرکی بھول اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ملکہ کا دل دھک سے رہ گیا کہ وہ بجائے ماں کے ساتھ وہاں سے بچ نکلنے کی فکر کرتے ، اس پرندے کی طرف لپک پڑے۔وہ منحوس بھی انہیں اپنے پیچھے لگائے اس جانب لے گیا جہاں وہ دوپائے مشکوک حرکات میں مصروف تھے۔ملکہ نے خود کو کبھی اتنا کمزور محسوس نہیں کیا تھا۔اگر دوپائے انہیں دیکھ لیتے تو!؟۔۔۔وہ تو خیر گذری کہ ابھی تک دوپائیوں کی نگاہیں آس پاس جھاڑیوں میں الجھی ہوئی تھیں۔انہوں نے ملکہ کو دیکھا تھا نا بچوں کو لیکن تابہ کے۔

ملکہ عدم تحفظ کے احساس میں گھری دور سے اپنے بچوں پر نظر جمائے کھڑی تھی۔اس وقت تو یہی تھا جو وہ کرسکتی تھی۔اس نے ایک نظر دم بدم اپنی اور بڑھتے موذیوں کو دیکھا تو اچانک خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی کو برفاب کرگئی۔وہ یونہی جنگل میں نہتے نہیں گھوم رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں عجیب شکل کی چیزیں تھی۔جیسے درخت کی شاخیں ہوتی ہیںلمبی لمبی ۔ٹھاہ ٹھاہ کرنے والی اور آگ اگلنے والی۔اس کے بچپن کی یادوں میں محفوظ ایک دہشت ناک یاد کا تعلق اسی منحوس چیز سے بھی تھا جب ایک بار وہ دو دن کا فاقہ کاٹنے کے بعد اپنی والدہ مرحومہ کے ہمراہ رات کی تاریکی میں ایک بستی میں جانکلی تھی۔ اس کی ماں چلتے چلتے ایک بند دروازے کے سامنے رک گئی تھی۔تبھی ایک شامت کی ماری بکری اونچی آواز میں منمنائی اور ہمارے قدم جہاں تہاں تھم گئے۔یقینااس دووازے کے پار ہمارا پیٹ بھرنے کو کچھ جانور موجودتھے ۔

اس کی والدہ نے کواڑ پر نظریں جمائیں اور اپنی دم لہرا کر مخصوص اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ انہیں اس دروازے کو توڑ کر اپنا رزق کمانا ہے۔اس نے ماں کا عندیہ پاتے ہیں اس کے ہمراہ دروازے پر ہلہ بول دیا۔دروازہ کمزورتھا کہ پہلے ہلے میں ہی جھول گیا۔وہ دونوں ترنت اندھیرے کمرے میں داخل ہوئیں۔وہاں بہت سی فربہ بھیڑ بکریاں بند تھیں۔ ان احمقوں نے ہمیں دیکھتے ہی شور مچادیا۔ ابھی ماں سوچ ہی رہی تھی کہ کس بھیڑ کو اچک لے جائے کہ اچانک باہر شور بلند ہوا ۔دونوں نے تیزی سے پلٹ کر دیکھا تو اسی قبیل کے چند دوپائے ٹوٹے ہوئے دروازے کے پار جمع تھے۔ان کے ہاتھوں میں بھی یہی کچھ تھا۔وہ دونوںجونہی گھیرے میں آئیں تو ان شاخ نما چیزوں سے آگ نکلنا شروع ہوگئی۔سب کچھ آناً فاناً ہوگیا تھا۔اس کی ماں کو بس ایک دھاڑنے کی مہلت ہی مل پائی۔اس نے عین اپنے سامنے اپنی ماں کا لال لہو میں بھیگا لاشہ گرتے دیکھا ۔بدحواسی کے اس عالم میںبھی اس نے چاہا کہ کسی طرح سے مہلت مل پائے کہ وہ اپنی ماں کو جبڑوں میں دبا کر وہاں سے نکل جائے لیکن آگ کی نیلی چنگاریاں تھیں کہ برسے جارہی تھیں۔اس کا دل دکھ اور طیش سے بھرگیا۔اس نے چاہا کہ اپنی محبتوں ماری ماں کو الوداعی پیار کرلے اور اس کے ساتھ گذرے دنوں پرتھوڑا بین کرلے لیکن ماں کی لاش پر بین کرنا خود اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔سو اس نے ماں کی ڈوبتی نظروںسے اپنی آنکھیں پھیریں اور ان کے موذیوں کے سروں پر سے چھلانگ لگایہ جا اور وہ جا۔

وہ خود تو ٹھائیں ٹھائیں کرتی اس آگ سے بچ نکلی تھی لیکن اس کی روح میں اس منحوس آگ کی تپش اب تک تازہ تھی۔تب سے وہ ان  دوٹانگوں والے وحشیوں سے نفرت کی آگ میں گیلی لکڑی سمان سلگتی رہی تھی۔

ملکہ گھومی کہ ان منحوسوں کی نگاہوں سے بچ کر نکل جائے لیکن بدنصیبی یہ ہوئی کہ دونوں گل گوتھنے نیلے پروں والے پرندے سے مایوس ہوکر اچھلتے کودتے، ایک دوسرے کا تعاقب کرتے اسی جانب بھاگے چلے جارہے تھے جہاں وہ آدم زاد ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیزیں لیے  جانے کس کی بو سونگھتے پھررہے تھے۔اس نے بہتیرا اپنی دم کا پرچم لہرایا، بہت غرائی لیکن جانے کس چھچھوندر نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا کہ وہ جیسے اندھے بہرے ہوچکے تھے۔آخر ملکہ کو احتیاط کے تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے قدرے اونچی آواز میں غراکر ان کم بختوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا پڑا۔اس نے دیکھا کہ وہ دونوں ماں کی غراہٹ پر تھوڑے کھسیانے ہوئے اور پھر اپنی دمیں ہلا کر اسے ’’بس ابھی آئے‘‘ کا اشارہ کیا۔اس کے ساتھ ہی ہولناک بات یہ ہوئی کہ دونوں آدم زاد بھی ٹھٹک گئے۔انہوں نے پہلی بار اس کا نوٹس کیا اور پھر ان کی گردنیں ان گل گوتھنوں کی طرف گھوم گئیں۔

ملکہ نے دور سے ہی ان کی آنکھوں میں اس خباثت کو جھلکتے دیکھ لیا تھا جو ان گل گوتھنوں کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں کوندی تھی۔وہ نپے تلے قدموں آگے بڑھے۔ان میں سے ایک نے ملکہ کی جانب اس آگ اگلنے والی چیز کو سیدھا کیاایک اور تھا جس کے ہاتھ میں اسی طرح کی ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز دبی ہوئی تھی لیکن اس نے ملکہ کی طرف رخ کرنے کی بجائے اسے گل گوتھنوں کی جانب سیدھا کررکھا تھا۔ان دونوں کے باقی دو ساتھیوں نے یہ کیا کہ اپنے جسم کے ساتھ لپٹے لمبے چوڑے کپڑوں کو اتارا اور انہیں ہاتھ میں تولتے ہوئے گل گوتھنوں کی جانب بڑھنے لگے۔ملکہ نے ان کے ارادوں کو بھانپ لیا اور انہیں خوف زدہ کرنے کیلئے دھاڑی۔اس کی دھاڑ نے جنگل کو ایک بار تو لرزا دیا لیکن مجال ہے جو ان دونوں پر کوئی اثر ہوا ہو۔الٹا یہ ہوا کہ ملکہ کی طرف بڑھنے والے نے اپنے بازو لمبے کیے اور اچانک اس کے ہاتھوں میں دبی لمبی سی چیز نے ٹھائیں ٹھائیں نیلی چنگاریاں اگلنا شروع کردیں۔اچانک وونوں گل گوتھنے بھی اپنا نٹ کھٹ پنا بھول کر سیدھے ہوگئے۔

ایک ناقابل قیاس منظر ان کے سامنے تھا۔ان کی ماں تڑپ کر فضا میں بلند ہوئی اور پھر قلابازی سی کھاکر زمین پر گرگئی تھی۔اس دوران اس کے آس پاس نیلی چنگاریاں اڑتی رقص کرتی پھر رہی تھیں۔وہ اٹھی اور ایک زبردست دھاڑ کے ساتھ ان کی طرف بڑھنے کو ہوئی لیکن اس کے بدن میں پیوست ہوتی نیلی چنگاریوں نے اسے پھر دھول چٹادی۔وہ دونوں گل گوتھنے، نیلے پروں والے پرندوں اور رنگ برنگ تتلیوں کے تعاقب میں دوڑتے دوڑتے اچانک بڑے ہوگئے۔ان کی وحشی جبلت بل کھاکر بیدار ہوئی اور انہوں نے چاہا کہ وہ ان دو ٹانگوں والے

وحشیوں کو ایک ہی جست میں چیر پھاڑ دیں۔وہ ان کی جانب بھاگے ۔یہی وہ لمحہ تھا جب آدم زادوں نے نپے تلے انداز میں ان کی جانب بڑے بڑے سوراخوں والے جال اچھال دئیے اور وہ ان میں الجھ کر رہ گئے۔انہوں نے اس جال کو دانتوں اور پنجوں سے پھاڑ کر آزاد ہونا چاہا تھا کہ اس دوران ان کی نظر ان سے ذرا فاصلے پر کھڑے تیسرے آدم زاد پر پڑی۔اس نے ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز ان کی طرف سیدھی کی اور اچانک ان کے سنہری جسموںمیں سلگتے ہوئے تیر سے اتر گئے۔انہوں نے تب بھی پرواہ نہ کی اور خود کو اس سوراخ دار کپڑے کی قید سے آزاد کرنے میں مصروف رہے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ آہستہ آہستہ ان کا زور مدہم پڑنے لگا اور وہ ایک عجیب سی کیفیت میں ڈوبتے چلے گئے۔اور پھر یہ ہوا کہ انہیں بہت زوروں کی نیند آنے لگی اور پھر آپ ہی آپ ان کی آنکھیں مندھ گئیں ۔

ملکہ کیلئے یہ ایک ناقابل یقین منظر تھا۔کوئی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں کو لے جائے، ناممکن!۔وہ جسم و جاں کی پوری توانائی سے دھاڑی۔لیکن اس بار بھی اس کی دھاڑ بے اثر رہی تھی۔جنگل کا جنگل لرز گیا تھالیکن ان کم بختوں پر ذرا اثر نہ ہوا۔وہ اپنی طرف بڑھتی نیلی چنگاریوں سے بے نیاز بجلی کی سی تیزی سے ان کی جانب بڑھی لیکن وہ جس کے ہاتھ میں ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی چیز تھی، پہلے سے تیار تھا۔اس نے نشانہ باندھا اوراچانک ملکہ کے پیٹ میں کوئی چیزکھٹ سے اترگئی جس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ میں آگ سی سلگ اٹھی۔اور پھر اگلے ہی لمحے بائیں ٹانگ میں بھی ویسی ہی آگ۔اس کے جسم میں پہلے سے کئی نیلی چنگاریاں اترچکی تھیں۔اب تو جیسے اس کے جسم سے رفتہ رفتہ جان نکلنے لگی ہو۔یہی وہ بدقسمت لمحہ تھا جب ملکہ پر خوف نے جھپٹا مارا اور وہ زخمی ٹانگ کو گھسیٹتی پسپا ہوگئی۔اس نے ایک محفوظ فاصلے پر پہنچ کر دیکھا کہ وہ بدبخت اس کے گل گوتھنوں کو ڈنڈا ڈولی کرتے لے جارہے تھے۔ملکہ نے پھر چاہا کہ ایک ہی جھپٹے میں وہ انہیں چیر پھاڑ کر رکھ دے لیکن آہ! جسم میں سلگتی ہوئی آگ۔

جنگل میںسب کچھ جوں کا توں تھا لیکن پھر بھی لگتا کہ بہت کچھ بدل چکا ہے۔مشک پوری سے میران جانی تک کئی کوس بنتے ہیں جہاں ملکہ کی حکمرانی اب بھی قائم تھی لیکن اس کی نوعیت اب بہت حد تک اخلاقی اور ’’آئینی‘‘ سی رہ گئی تھی۔جنگل کے تمام باسی جان چکے تھے کہ دونوں بیٹوں کی جدائی کے بعد ملکہ میں پہلے سا دم خم باقی نہیں رہا۔اس کی وہ لپک جھپک، وہ بجلی ایسی کوند اور وہ پر تمکنت انداز گئے دنوں کی بات لگتی تھی۔یوں بھی اب وہ کچھ گوشہ نشین سی ہوچلی تھی۔ پہلے دن کے اجالے میں یا چاندنی کی نرماہٹ میں وہ اکثر اپنے مخصوص راستوں میں گھومتی دکھائی دے جایا کرتی تھی لیکن اب صرف بھوک کی بے تابی ہی اسے غار سے باہر آنے پر مجبور کرتی تھی۔دیکھتی آنکھیں دیکھا کرتیں کہ گوہلکی سی لنگڑاہٹ کے باوجود اب بھی اس کی چال میں سجلتا اور وقار نمایاں تھا لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ اب چلتے ہوئے وہ اکثر عجیب سے انداز میں پیٹ کو جھٹکاتی اور پھر یک لخت رک جاتی جیسے خود کو کمپوز کرنے کے جتن میں ہو۔اس کے بعد جب وہ دوبارہ چلتی تو اس کے سنہرے جسم میں تکلیف کے احساس میں گندھی لرزش کو صاف دیکھا جاسکتا تھا۔جنگل باسیوں نے یہ بھی دیکھا کہ شکار سمے وہ اکثر بے دھیان ہوجایا کرتی تھی یوں شکار کو جان بچانے کی مہلت مل جاتی۔کہاں وہ وقت کہ وہ ایک سجلتا سے شکار کے تعاقب میں آتی تواس کا پورا جسم آنکھ بن جاتا اور پھر وہ پلک کی ایک جھپک میں جھپٹا مار اس کاکام تمام کردیتی اور کہاں یہ بے دلی اور اناڑی پن کہ اب سست الوجود جانور بھی اسے جل دے کر بھاگ کھڑے ہوتے اور اسے میلوں دور تک غیر متوازن چال کے ساتھ ا ن کے پیچھے خوار ہونا پڑتا تھا۔

ملکہ بھوکی تھی اور زخم خوردہ تھی۔

ملکہ تنہا تھی اور غم زدہ تھی۔

مگر ملکہ پرعزم اور پروقار تھی۔

وقت کی گذران کے ساتھ جب شمالی افق سے نمودار ہونے والے مسافر پرندے قافلہ در قافلہ نیشنل پارک میں اترنا شروع ہوئے تو ملکہ کا حصار غم کمزور پڑچکا تھا۔اس کے پلیٹ میں آگ کی سلگن بھی اب کبھی کبھار ہی دکھن دیتی۔ وہ بھی تب جب ملکہ کو بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔اور اب ملکہ کو بھاگ دوڑ کچھ زیادنہیں کرنا پڑتی تھی۔قویٰ کے مضبوط ہوتے ہی اس کی چال ہلکی سی لنگڑاہٹ کے باوجود پہلے سی سبک اور سجل ہوچلی تھی۔گو پہلے سی بات نہ سہی پر اس کی لپک اور جھپٹ اس قدر بہتر ضرور ہوچکی تھی کہ اسے شکار کے پیچھے کچھ زیادہ خوار نہ ہونا پڑتا تھا ۔اس خواری نے اسے اپنی نظروں میں کس قدرنامعتبر کردیا تھا یہ وہی جانتی تھی۔جو بات سب جان چکے تھے وہ خود ملکہ نہ جان پائی تھی کہ اس کی قویٰ کی بحالی میںکسی بھی اور عامل سے زیادہ اس نفرت کو دخل تھا جو اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔

ملکہ کی بے مقصد زندگی کو اس کی زخمی انا نے ایک عظیم تر مقصد میں ڈھال دیا تھا۔اب اس کے وجود کا ہر تار اس انتقام کی لے پر بج اٹھتا تھا جو اس نے دو ٹانگوں پر چلنے کی معذوری میں مبتلا نوع سے لینا تھا۔جنگل کے باسی جس ملکہ سے واقف تھے وہ کوئی اور تھی۔ایک باوقار اور بھری نیت والی ملکہ جو بھوک کی احتیاج پوری کرنے کے سوا اپنی رعایا سے کوئی تعرض نہ رکھتی تھی۔اس ملکہ کے راج میں وہ دو ٹانگوں والے نر اور مادہ بھی یکسر محفوظ تھے جو جنگل میں لکڑیاں چرانے یاجنگل کو کسی بھی اور طرح کی چھیڑ چھاڑ کرنے کی نیت سے آیا کرتے تھے۔لیکن وہ تب کی بات تھی۔اب کی بات یہ تھی کہ ملکہ اپنی روح کی گہرائیوں تک بدل چکی تھی۔اب جو ملکہ تھی وہ کوئی اور تھی۔طیش اور نفرت سے بھرا ہوا وجود، ایک دھکتی آگ کا گولہ جو جہاں سے گذر جائے آگ لگاتا جائے۔اب اگر وہ کچھ تھی تو صرف ایک غارت گر ۔اب وہ شکم کی تسکین کیلئے شکار نہیں کرتی تھی۔اپنی جاتی کی فطرت کے برعکس اب اسے ایذا پسندی اور لاشے گرانے سے کام تھا۔جن چھوٹے چھوٹے بے بضاعت جانوروں کی طرف اس نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھاوہ بھی اس کے دست ستم کی زد میں آچکے تھے۔اس کے نئے روپ نے بہت سے بندروں کو وداع جنگل پر مجبور کردیا تھا کہ اس کی غارت گری کا سب سے زیادہ ہدف یہی مخلوق تھی۔شاید اس لیے کہ وہ ان دو ٹانگوں پر چلنے والوں کے ساتھ دوستی کا دعویٰ رکھتے تھے اور ان کی صحبت میں خوش رہتے تھے۔اور تو اور ان کی شباہت اور فطرت تک اس موذی نوع کے اریب قریب تھی۔

اور پھر ایک روز جب ملکہ نے مدت بعد کسی تکلیف کے احساس کے بغیر جسم کو کھینچ کر انگڑائی لی تو وہ مسرت سے جھوم اٹھی۔اب وہ ایک طویل اور خونریز جنگ کیلئے تیار ہوچکی تھی۔

(۲)

پہلی خبر ڈونگا گلی سے آئی۔

دوسری چھانگلا گلی کے ایک پہاڑی گائوں سے اور تیسری ڈونگا گلی کے ہی ایک اور پہاڑی گائوں سے۔

صرف ایک ہفتے کے اندر تین ہلا کتوں نے پورے گلیات میں دہشت کی چادر تان دی۔یہ تینوں واقعات جنگل کے اندر شام کے جھٹپٹے میں ہوئے تھے۔ڈونگا گلی کے جنگل میں ہونے والی دو نوں ہلاکتوں کا شکارنوجوان لڑکیاں بنی تھیں ۔ان میں سے ایک اپنی بہن اور دوسری اپنی

ماں اور خالہ کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں اکٹھا کرنے گئی تھیں جبکہ چھانگلا گلی میں ایک نوجوان جنگل میں اپنے مویشی چراتے ہوئے جنگل میںدور تک نکل گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ان میں ایک مشترک بات یہ تھی کہ تینوں واقعات ایوبیہ نیشنل پارک کے نواح میں پانچ سے سات کلومیٹر کے دائرے میں پیش آئے تھے۔

آدم خوری کی ان وارداتوں کے ساتھ ساتھ درندے کی جانب سے گھروں میں گھس کر باڑوں سے جانور گھسیٹ لیے جانے کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ جاری رہے۔

ایوبیہ نیشنل پارک کے نواح میں ڈونگا گلی سے ٹھنڈیانی تک اور خانس پور سے گھوڑا ڈھاکہ تک بہت سے چھوٹے چھوٹے دیہات آباد ہیں۔دورسے دیکھنے پر گلیات کی ہریالی بلندیوں پر راستوں کا ایک جال سا بچھا نظر آتا ہے۔یہ وہ راستے ہیں جو ان دیہات کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرتے اور مقامی دیہی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔سرسبز پہاڑوں کی ڈھلوانوں اور فراز کوہ میںآباد ان دیہات سے شام سمے اٹھتا دھواں زندگی کی وہ واحد علامت ہے جو دور سے دکھائی دے جاتی ہے۔یہاں بڑے سے بڑے گائوں کی آبادی بھی ایک ہزار نفوس سے زیادہ نہیں جبکہ ایسے دیہات بھی ہیں جو محض چند گھروں پر مشتمل ہیں۔بنیادی انسانی سہولیات سے یکسر محروم اورغربت کی بدترین سطح پر زندگی بسر کرتے ان دیہات کے بچوں کو تعلیم کی عیاشی کم ہی میسر ہے ۔اگر کوئی پڑھائی پر تل ہی جائے تو اسے اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر میل ہا میل چلتے ہوئے مری یا ایبٹ آباد تک جانا پڑتا ہے اور اگر کوئی بیمار پڑجائے تو ہسپتال اور ڈاکٹر ندارد۔جب ان پہاڑوں پر برف اترتی ہے تو مہینوں یہ علاقے دنیا سے الگ تھلگ برفانی جزیروں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔گلیات کے سحر انگیز حسن کی تعریف میں رطب السان لوگ ان کٹھنائیوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو مقامی آبادی کی زندگی کا معمول ہیں۔

روز گار کی جو پوچھو تو جنگل ہی ان داتا اور جنگل ہی روزگار ہے، باقی رہے نام اللہ کا۔جنگل انہیں جلانے اور گھر بنانے کیلئے لکڑی فراہم کرتا ہے ۔اور پھر قیمتی جڑی بوٹیاں ہیں جو ان کے روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہیں اور میڈیکل سائنس کی جدتوں کا قدیم متبادل بھی۔اگر فارماسوٹیکل کمپنیوں کی ادویات میسر نہیں تو جڑی بوٹیاں تو ہیں جو فطرت کی گود میں پلنے والوں کو صدیوں سے چھوٹی موٹی بیماریوں کے خلاف مدافعت فراہم کرتی آرہی ہیں۔جنگل پر انحصار کا یہ عالم کہ جنگلی ساگ جیسی کئی خود رو سزیوں کیلئے بھی جنگل کا رخ کیا جاتا ہے ۔کئی طالع آزما ایسے ہیں جو جنگل میں گھس کر قیمتی پرندوں اور جانوروں سے ان کے بچے چھین کر لے جاتے ہیں اور شہر کے شوقین مزاجوں کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔وہ جنہیں طالع آزمائی کا حوصلہ کم کم میسر ہے وہ یہاں مردہ پرندوں اور چھوٹے موٹے جانوروں کو تلاش کرتے ہیں ۔ان کی کھالیں بھی اچھی قیمت دے جاتی ہیں۔اور پھر اس جنگل کے وسیع سبزہ زار ان کے مویشیوں کی آتش شکم بجھانے کیلئے اپنے بازو کشادہ رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگل ان کیلئے پانی کے حصول کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ہر روز صبح اور شام لڑکیاں اور بڑی عمر کی عورتیں سر پر ایلومینیم کے گھڑے سجائے قطار در قطار میلوں دور آبشاروں، نالوں اور چشموں کا رخ کرتی ہیں۔

گلیات کی تاریخ میں پہلی بار آدم خور کی آمد کی کوک پکار بلند ہوئی تودہشت نے ہر گھر اور ہر دل میں بسیرا کرلیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے فطرت زادوں نے نیلاہٹ میں گھلے اپنے پالن ہار جنگل سے منہ موڑ گھروں کے کواڑ بند کرلیے تھے۔

جنگل جو ہمیش سے ان کیلئے زندگی کا سندیس تھا اب موت کا پیغامبر بن چکا تھا۔اب اگر کوئی جنگل کا رخ کرنے کی ہمت کرتا بھی تو ہتھیاروں سے مسلح ہوکر اور مردوں اور عورتوں کی بڑی بڑی ٹولیوں کی صورت میں جو اپنی ضرورت پوری کرتے ہی تیز قدموں واپس پلٹ آتیں۔جو بوڑھے یا کم ہمت جنگل میں قدم رکھنے سے گریزاں تھے یا جن گھروں میں جوان لوگ نہیں تھے ان کی زندگیوں میں کھٹنائیوں کے سائے دراز تر ہونے لگے تھے۔

ایک دنیا یہ تھی اور ایک دنیا وہ تھی ، خوراک سے بوجھل شکموں اورعافیت کے ماروں کی دنیا۔گلیات میں آدم خور کی آمد کی خبر اڑی توبے فکروں نے اسے بھی دل لگی جانا۔یہ لوگ اپنے سنسنی بھرے دلوں میں آدم خور کی ایک دور کی جھلک دیکھنے کی تمنا جگائے وہاں پہنچنے لگے۔گو بال بچوں والوں نے اپنی گاڑیوں کے رخ دوسرے تفریحی مقامات کی جانب موڑ دئیے تھے اس کے باوجود ایبٹ آباد اور مری کی راہ اس جنت زار میں اترنے والوں کی تعداد میں کچھ زیادہ کمی نہ ہوئی تھی۔ ایوبیہ کی چیئر لفٹ میں رش تھا کہ اب بھی ٹوٹنے میں نہیں آرہا تھا۔مقامی دکانداروں اور ہوٹل والوںکی اب بھی پانچوں گھی میں تھیں۔ایک یہ عیش کوش دنیا تھی اور ایک پہاڑوں کے دامن میں آباد وہ دنیا تھی جہاں آدم خور کی ہمسائیگی  کا مطلب کچھ اور تھا۔دہشت اور افلاس میں لپٹی اس دنیا میں جہاںپینے کا تازہ پانی کم یاب تھا۔جہاں مویشی بھوکے تھے اور جہاں جلانے کی لکڑی بہت سے گھروںکیلئے اشیائے تعیش بن گئی تھی۔آدم خور نے اپنی آمد کی خبر کیا دی کہ اداسی اور محرومی سے بھری اس دنیا میںدلو ں کی دھڑکن کواڑ کی کنڈی کے ساتھ بندھ گئی۔

جنگل تو خیر جنگل ،دہشت نے انہیں گھروں کے اندر بھی غیر محفوظ کردیا تھاگا۔ہر دل میں ایک خوف بیٹھ گیا تھا کہ کسی بھی وقت راہ چلتے یا دالان میں کام کرتے وقت گلدار اچانک حملہ آور ہوجائے گا۔اس غارت گر سے بچنے کیلئے علاقے کے ہر گائوں اور ہرآبادی میں جنگی نوعیت کی حفاظتی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔جسے دیکھو ایک ہمہ ہمی میں مبتلا دکھائی دیتا تھا۔کوئی اپنے دروازے مضبوط کرارہا ہے تو کوئی زمین کا ٹکڑا بیچ کر گھر کی دیواریں اونچی کرارہا ہے۔کوئی دیکھے تو یہی سمجھے کہ یہاںکوئی لشکر دھاوا بولنے کو ہے۔تاریک راتوں میں خوابیدہ بستیوں پر دھاوا بولا جانا یوں تو معمول کی بات تھی لیکن اب اس کے تواتر میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوچلا تھا۔

ہر رات کسی نہ کسی گھر سے آوازہ بلند ہوتا اور صبح معلوم ہوتا کہ رات فلاں گائوں میں درندے نے شب خون مارا اور دروازے توڑ کر مویشی اڑا لے گیا۔کوئی بے بسی سی بے بسی تھی کہ دیواروں کو اونچا کرانا کام آرہا تھا نہ سرشام گھروں میں دبک کر بیٹھ رہنے سے مسائل حل ہورہے تھے۔تب آس پاس کے دیہات والے مل بیٹھے اور فیصلہ ہوا کہ ہر گائوں کے جوان مرد راتوں کو ٹھیکری پہرہ دیا کریں اور جونہی درندہ دکھائی دے اسے گھیر گھار کر ماردیں۔ایک اور فیصلہ یہ کیا گیا کہ یونہی چپ چاپ ڈرنے اور مرنے کی بجائے سرکار کو جھنجھوڑا جائے ۔طے ہوا کہ فلاں روز مری اور ایبٹ آباد جانے والے راستوںپر دھرنا دے کر ٹریفک روک دی جائے۔

دھرنا ہوا اور اس شان سے ہوا کہ اگلی صبح پو پھٹتے ہی گلیات سے ہزاروں کی تعداد میں عورتیں ،مرد، بوڑھے اور بچے ہاتھوں میں دھاتی برتن اٹھائے دو مخالف سمتوں میں قافلہ در قافلہ نکلے اور دونوں شاہراہوں پر جا بیٹھے۔اب جو انہوں نے برتنوں کو بجانا شروع کیا تو اس کا شور دور پشاور اور اسلام آباد کے سرکاری ایوانوں تک جاپہنچا۔جن شاہراہوں پر دھرنے دئیے گئے ان پر ٹریفک کی لین ڈوری ٹوٹنے میں نہیں آتی سو

یکا یک میلوں دور تک گاڑیوں کے تیز رفتار پہئے جہاں تہاں تھم گئے۔اب جو ہارن بجنا شروع ہوئے ہیں توخدا کی پناہ۔اس نامانوس شور کو سن کر جنگل کے پکھیرو بھی تماشا دیکھنے کو اپنے آشیانوں سے نکل پڑے۔

دھرنے اور ٹریفک کا ملا جلا شور بلند ہوا تو چسکے کے شیرے میں لتھڑے ہوئے ٹی وی چینلوں کی گاڑیاں بھی سروں پر سیٹلائٹ انٹینوں کی کلغیاں سجائے بھاگم بھاگ دھرنے کے مقامات پر پہنچ گئیں۔مائیک ٹیسٹ کیے گئے، کیمروں نے لینز کی سیاہ نقاب اتاری اور بریکنگ نیوز کا اعصاب شکن سلسلہ شروع ہوگیا۔وہ خبر جو پہلے چند دور افتادہ دیہات تک محدودتھی اب ہوا کے دوش پر سوار شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں رنگ جمانے لگی۔اس ہنگامی صورتحال پر سرکار کے تار جو کھڑکنا شروع ہوئے تو یوں کہ ٹیلیفون کی لائنیں تک سلگ اٹھیں۔صوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں میں ہنگامی اجلاس ہونا شروع ہوئے۔انتظامی افسروں،پولیس، جنگلات اور محکمہ وائلڈ لائف کے دفتروں میں کھلبلی مچی اور سرکاری گاڑیاں ہوٹر بجاتی دوڑ بھاگ میں لگ گئیں۔پہر بھر دن نہ گذرا تھا کہ دھرنے والوں کے پاس مذاکراتی ٹیمیں پہنچ گئیں۔ٹوٹی جوتیوں اور پھٹے حال والوں کی بن آئی۔اشراف کی صفوں میں یہ احساس جاگزیں ہوچکا تھاکہ معاملات کی سدھار کی کوئی صورت نہ بنی تو پھر صدیوں کی محرومی سوالوں کے ببول اگا سکتی تھی سو دور شہروں سے فون کالز آئیں تو فلک نشیں سیاسی نمائندوں اور کلف لگے سرکاری افسروں نے اپنی ساری اکٹر فوں ان خراب حالوں کے پائوں پر رکھ دی۔

دھرنے کے معتبرین حکومتی معتبرین پر خوب گرجے برسے ۔قرار دیا گیا کہ حکومت کے کہنے پر وائلڈ لائف والوں نے جان بوجھ کر ان کے جنگلات میں ’’شیر اور چیتے‘‘ چھوڑرکھے ہیں تاکہ علاقے کو گذشتہ الیکشنوں میں حکومتی پارٹی کے خلاف ووٹ دینے کی سزا دی جائے۔وائلڈ لائف کے انگریزی پڑھے افسر کامن لیپرڈ کیلئے ’’شیر اور چیتے‘‘ کے سخت ناموزوں القابات پر چیں بچیں تو ہوئے لیکن انہیں حیاتیات کا سبق پڑھانا کار لاحاصل اور سراسر وقت کا زیاں تھا۔وہ جانتے تھے کہ کوئی کچھ بھی کرلے گلیات کے لوگ لیپرڈیا گلدار سے نفرت کی بنا پر اس کی نوع تبدیل کرنے پر مصر رہیں گے۔خیر، مذاکرات کچھ دیر تک چلتے رہے آخربہت سی منت سماجت اور یقین دہانیوں کے بعد دھرنے والوں نے دھرنا ختم کرنے اور ایک زور دار ’’ورنہ‘‘ کے بعدفضا میں دو انگلیاں بلند کرتے ہوئے فاتحانہ واپسی کا اعلان کردیا۔

یہ سب ہوا لیکن مجال ہے کہ درندے کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔اس غارت گر نے اپنے معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ہر روز کسی نہ کسی گائوں میں خاموش راتوں میں ایک بجلی سی کوندتی اور کوئی نہ کوئی غریب اپنے قیمتی مویشی سے محروم ہوجاتا۔مشک پوری کے نواح میں آباد ڈونگا گلی سمیت کئی دیہات سے ایک عجیب گواہی ملی کہ کچھ دنوں سے ایک ایسا ’’چیتا‘‘ بھی دیکھا جارہا ہے جو کسی بستی میں گھستا ہے اور گھروں کے گرد منڈلاتا ہے اور پھر کوئی واردات کیے بغیرواپس چلاجاتا ہے۔

’’ہو نہ ہو یہ آدم خور ہے جو مویشیوں کی بجائے انسانوں کا شکار کرنے کیلئے بستیوں کا رخ کرتا ہے۔‘‘ علاقے کے جہاندیدہ بزرگوں کے دل میں ایک ہولناک خدشے کا سانپ لہرایا۔

خوش قسمتی یہ ہوئی کہ رات کے وقت لوگوں کے مضبوط دروازوں کی پناہ میں ہونے کے باعث ابھی تک اس چیتے کا سامنا کسی انسان سے نہیں ہوا تھا۔اس چیتے کی موجودگی کی اطلاع ٹھیکری پہرہ دینے والوں نے دی تھی جو رات کے وقت درندے پر نگاہ رکھنے کیلئے گائوں گائوں پہرہ دیتے تھے۔

ا پنی کارگذاری دکھانے کیلئے بہت سے سرکاری لوگوں کی جنگل میں آنیاں جانیاں شروع ہوچکی تھیں اور پھر بین الاقوامی میڈیانے بھی جنگلی حیات کے تحفظ کے نام پر اپنی دور بینوں کا رخ اس جانب کردیا تھا۔ان سرگرمیوں سے اور کیا ہوتا البتہ جنگل کو فائدہ ضرور ہوگیا تھا کہ کچھ روز کیلئے ہی سہی محکمہ جنگلات والوں نے حالات کی نزاکت کا واسطہ دیتے ہوئے ٹمبر مافیا کو درختوں کی بے دریغ کٹائی سے باز رہنے پر آمادہ کرلیاتھا۔جنگل میں گونجتی آہنی آروں کی گھر رر گھررر تھمی تو چند روز کیلئے رنگ برنگے پرندے اور گلہریاں بے گھری کے عذاب سے محفوظ ہوگئیں۔

سرکاری ایوانوںاورمحکمہ وائلڈ لائف کے پر آسائش دفتروں میں زیر بحث معاملہ یہ تھا کہ دھرنے والوں کی زور دار’’ورنہ‘‘ سے بچنے کیلئے جیسے بھی بن پڑے فوری طور پر آدم خور کو جہنم واصل کیا جائے۔طے پایا کہ اس موذی قاتل کو مارنے کیلئے ٹرافی ہنٹنگ کا اعلان کیا جائے ۔سو اس مقصد کیلئے  اگلے روز اخبارات میںدردمندانہ اپیل پر مشتمل اشتہارشائع کرادئیے گئے ۔ادھر سرکاری گرما گرمی جاری تھی اور ادھر ایک نامعلوم درندہ سرکار دربار کا چیلنج قبول کرتے ہوئے ایوبیہ نیشنل پارک سے متصل گائوں آدم کلاں کے ایک باڑے میں گھس گیا اور ایک پلی پلائی بکری کو اٹھا لے گیا۔یہ وہی گائوں تھا جس کی ایک لڑکی آدم خور کا پہلا شکار بنی تھی۔ اگلے روز تک مختلف دیہات میں اوپر تلے تین چار ایک سی وارداتیں ہوئیں تو ٹھیکری پہرے والے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

دوسری جانب وائلڈ لائف والوں کے رقت انگیز اشتہارتھے جنہوں نے کئی شوقیہ شکاریوں کے دلوں کو سنسنی سے بھر دیا۔دو ہی روز میں محکمے کے کمروں اور برآمدوں میں بھانت بھانت کی شکلیں براجمان ہوگئیں۔ان بیچاروں میں سے زیادہ تر ایسے تھے جنہوں نے گلدار کو صرف تصویروں میں ہی دیکھ رکھا تھا۔بڑے شکار کیلئے موزوں ہتھیاروں کا علم تو خیر کیا ہوتا بہت سوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کھیتوں میں سور مارنے اور دور افتادہ جنگلوں میںگلدار کو شکار کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے ۔بس کندھے پر کوئی سی بھی رائفل ٹکائی اور بن بیٹھے میاں شکاری۔ وائلڈ لائف کے صاحبوں کو ان بزعم خویش کیتھ اینڈرسوں کی بھیڑ چھانٹنے میں خاصی محنت کرنا پڑی تب کہیں جاکر تین چار قدرے گوارہ قسم کی شکار پارٹیاں تیار ہوسکیں۔ سرکاری اسلحے سے لیس یہ شکار پارٹیاں سرکاری جیپوں پر سوار ایبٹ آباد کی راہ گلیات میں پہنچیں تو ان کا مسیحا کی طرح استقبال کیا گیا۔ہر گلی اور ہر گائوں کے لوگوں نے ان دو دن کے مسیحائوں کی خاطر مدارات کیلئے اپنے خوان ہائے نعمت دراز کردئیے۔ہر ایک کو اطمینان تھا کہ اب کے موذی بچنے نہ پائے گا۔ ان  شکاریوں کی کامیابی کو یقینی بنانے مقامی لوگوں نے اپنے منتخب جوان چھانٹے اور انہیں مسلح کرکے ان کے ہمراہ سوئے جنگل روانہ کردیا۔ادھر سرکاری دبائو پر آدم خور کے قلع قمع کو مزید یقینی بنانے کیلئے وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے اضافی اقدام کے طور پر نیشنل پارک کے اندر اور انسانی گذرگاہوں کے ساتھ ساتھ کئی نائٹ ویژن کیمرے اور خاص طور پر تیار کرائے گئے ٹریپ بھی نصب کردئیے۔ان میں سے ہر ٹریپ میں ایک ایک بھیڑ بکری باندھ کر مسلح نشانہ بازوں کو تعینات کردیا گیا کہ جونہی درندہ ٹریپ میں داخل ہو اسے جیتا نہ چھوڑا جائے۔

(۳)

اس نے مشک پوری کی سرسبز بلندیوں سے جھانک کردیکھا کہ جنگل میں خوب چہل پہل ہورہی تھی۔دو ٹانگوں والے بہت سے جانور اپنے ہاتھوں میں ٹھائیں ٹھائیں آگ برسانے والی چیزیں تھامے جھاڑیوں کو سونگھتے پھررہے تھے۔ان میں سے کچھ تووہیں جنگل کے پلے بڑھے لوگ تھے جن کی وضع قطع مانوس تھی اور وہ انہیں دور سے پہچان سکتی تھی ۔ان کے ساتھ کچھ نئے لوگ بھی تھے، عجیب سے کسے کسائے لباس پہنے اور سروں کو پی کیپ یا سولا ہیٹ میں چھپائے سنبھلے قدموں چل رہے تھے۔ان کی اکھڑی اکھڑی چال سے صاف عیاں تھا کہ ان کے پائوں اس جنگل کی مٹی کے لمس سے مانوس نہیں ہیں۔یہ نامانوس لوگ نیم دائرہ بناتے مقامی لوگوں کے آگے  و دو تین تین کی ٹولیوں میں چل رہے تھے  ۔خوف کا یہ عالم کہ کسی جھاڑی سے کوئی تتلی بھی اڑان بھرتی تو یہ گھبرا کر ٹھائیں ٹھائیں کرنے لگتے۔

ملکہ مشک پوری کی بلندیوں پر ایک بڑے پتھر کی اوٹ لیے اس دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتی رہی۔

اس نے دیکھا کہ ان میں سے کچھ کا رخ مشک پوری کی بلندیوں کی طرف تھا۔وہ بنے بنائے ٹریکس پر چلتے مختلف سمتوں سے چٹانوں اور جھاڑیوں سے الجھتے گرتے پھسلتے مشک پوری کی عمودی ڈھلوانوں پر چڑھنے کے جتن کررہے تھے۔ایک بار تواس کے جی میں آئی کہ ایک ہی بار ان پر جاپڑے اور دو دو ہاتھ مار انہیں لمبا لٹادے لیکن پھر اس نے اس خیال کو جھٹک دیا۔ایک تو ان کے پاس آگ اگلنے والی چیزیں زیادہ تھیں دوسرے وہ چوکنے بھی بہت تھے۔ایسے میں بے قابو جذبات کا نتیجہ کچھ اور بھی ہوسکتا تھا۔ا سے صرف اپنی نفرت کی آگ کوٹھنڈا نہیں کرنا تھا بلکہ بستیوں میں گھس کر اپنے گل گوتھنوں کی صبر آزما تلاش بھی جاری رکھنا تھی۔تس پر اس کی جبلی مکاری نے صلاح دی کہ ابھی اپنی سفاک وحشت کو سنبھال رکھو اور وقت کو ٹال جائو۔ اسے اس جنگ میں مزا آرہا تھاکہ اس میں انعام کے طور پر انسان جاتی کا نمکین گوشت اور لہو ملتا تھا لہٰذا بہتر تھا

کہ اسے جس قدر ممکن ہو لمبا کھینچا جائے۔سو اس نے ہمیشہ کیلئے کھو جانے والے گل گوتھنوں کو یاد کرتے ہوئے دور تک پھیلی وادی کی وسعتوں پر ایک متلاشی نگاہ ڈالی اورایک طویل انگڑائی لیتے ہوئے جنگل کے گھنے الجھائو میں گم ہوگئی۔

(۴)

ان دنوںہر دماغ پربس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس دھرتی کو سنہری بدن گلداروںکے وجود سے ہمیشہ کیلئے پاک کردیا جائے سو چھانگلا گلی سے ٹھنڈیانی تک اور ڈونگا گلی سے نتھیا گلی اور خانس پور تک پائن اور دیودار کے گھنے جنگلات میں شکاریوں نے ڈال ڈال ، پات پات جنگل کا جنگل چھان مارالیکن گلدار تو کیا اس کا سایہ تک دیکھنا نصیب نہ ہوا۔کئی روز یونہی بیکار کی مارا ماری میں کٹ گئے۔شہروں سے آئی شکار پارٹیاں  بھی اب رفتہ رفتہ ایک بوجھل پن اور بے دلی کا شکار ہونے لگیںجو پہلے یہ سمجھے بیٹھی تھیں کہ سرزمین گلیات میں ان کے نزول کا سنتے ہی گلدار لوگ برضا و رغبت اپنی جان حزیں ان کے قدموں میں نچھاور کردیں گے ۔ایسا تو خیر کیا ہوتا الٹا ان کی موجودگی کے دنوں میں وہاں ایک نوجوان اپنے کھیت کو پانی لگاتے ہوئے گلدار کے حملے کا نشانہ بن کر ہسپتال جاپہنچا۔خوش قسمتی یہ رہی کہ وہاں اس کا باپ اور بھائی بھی موجود تھے جنہیں آمادہ پیکار دیکھ کر گلدار نے پسپائی اختیار کرنا مناسب سمجھا تھا ورنہ گلدار کے مقتولین کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوچکا ہوتا ۔اس کے ساتھ ساتھ کئی دیہات میں مویشیوں کے باڑوں میں شب خون مارے جانے کی خبریں بھی سنسنی پھیلاتی رہیں۔وارداتوں کے اس تسلسل میں مقامی آبادیوں کی نورستہ ا میدیں بھی وقت کے ساتھ دم توڑنے لگیں۔شکاری پارٹیاں تھیں کہ نامراد اور ان کی اپنی کوششیں تھیں کہ بے حصول۔اور تو اور گلدار کے مخصوص راستوں پر درختوں سے بندھے وائلڈ لائف والوں کے جدید کیمرے بھی کور چشم ثابت ہورہے تھے۔رہے ٹریپ تو چالاک گلداروں نے ان میں بندھی چارے کی بکریوں کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا تھا۔بیچاری بکریاںخود ہی ممیا ممیا کر خاموش ہوچلی تھیں۔

آخر کئی روز کی مارا ماری کے بعد کہیں جاکر شکار پارٹیوں کو سرخروئی ملی۔ایک روز دن ڈھلے آدم کلاں کی عورتوں اور بچوں نے دیکھا کہ نتھیا گلی کے جنگل کی اور سے دس بارہ لوگوں پر مشتمل ایک شکار پارٹی بازو لہراتی اور نعرے لگاتی ہوئی گائوں کی جانب آرہی ہے۔انہوں نے دو تین شکاریوں کو کندھوں پر اٹھارکھا تھا۔وہ قریب پہنچے تو یہ دیکھ کر سب خوشی سے ناچ اٹھے کہ وہ اپنے ساتھ ایک مردہ گلدار کو بھی ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے لے کرآئے تھے۔ خوشی سے تمتمائے لوگوں نے گائوں کی دہلیز پر آکر انہیں خوش آمدید کہا ۔اگر انہیں پھولوں کے ہار میسر ہوتے تو ان سب کو کانوں تک سرخ پھولوں سے لاد دیا جاتا۔وہ آئے تو گائوں کے عین درمیان گلدار کے مردہ جسم کو نمائش کیلئے رکھ دیا گیا۔ضرور یہ وہی آدم خور شیطان تھا جس نے کئی دنوں سے ان سب کے خون خشک کررکھے تھے۔

شکاریوں اوروائلڈ لائف کے اہلکاروں نے لیپرڈ کی پیمائش کی ۔ایک اہلکار نے اس کا منہ کھول کر دانتوں کا معائنہ کیا اور وہاں جمع متجسس چہروں کو اس کے بارے میں ضروری معلومات سے آگاہ کیا۔گلدار نر تھا اور عام گلداروں سے کہیںبڑی جسامت کا تھا۔ شکاری لوگ تھکے ماندے تھے سو ان کیلئے وہیں کھلے میں چارپائیاں بچھادی گئیں جن پر براجمان ہوکر شکاریوں نے حاضرین کو مرچ مصالحے کے ساتھ شکار کی تفصیلات بیان کیں۔گلدار کی لاش کو پرخیال نظروں سے تکتے ہوئے ہر کوئی اس خیال سے خوش تھا کہ اب بے فکری کا دور پھر سے لوٹ آنے والا ہے۔

اس عظیم کامیابی پر وہاں ایک ہما ہمی کا عالم تھا۔کوئی بھاگا کہ ڈونگا گلی بازار سے جاکر مٹھائی لے آئے اور کسی کی صلاح پر کوئی ترنت روانہ ہوا کہ پورے علاقے میں اس خبر کو پھیلانے کا اہتمام کیا جائے۔ گائوں کی مسجد میں بھی اعلان کردیا گیا کہ علاقے کے لوگ اور ان کے مال مویشی اب خدا کے فضل و کرم سے بالکل محفوظ ہیں۔موذی ’’چیتے‘‘ کے روپ میں موجود شیطان کو اللہ کے نیک بندوں نے جہنم واصل کردیا ہے اور اب لوگ اپنے معمول کے مطابق اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہونے کیلئے پھر سے جنگل کا رخ کرسکتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں تک بھی یہ خبر پہنچ گئی اور ایک پکے مکان کی بیٹھک میںجمع لوگوں نے اپنے سامنے رکھے ٹی وی پر چینل بدل بدل کر بریکنگ نیوز میںآج کے کارنامے کا احوال سنا۔

اگلے روز محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے ایوبیہ کے پی ٹی ڈی سی موٹل میں شکار پارٹی کے اعزاز میںپرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ ابھی وہاں مبارک سلامت کا شور تھما نہیں تھا کہ نتھیا گلی سے ایک ہرکارہ دھول اڑاتا آیا۔اس نے خوشخبری سنائی کہ میران جانی پہاڑ کے دامن میں واقع بڑے گائوں نملی میرا میں بھی لوگوں نے ایک گھر میں گھس آنے والے ’’چیتے‘‘ کو گھیرے میں لے کر ہلاک کردیا ہے۔اطلاع کے مطابق یہ مادہ تھی جو ایک گھر میں داخل ہونے کیلئے کواڑوں کے ساتھ زور آزمائی کر رہی تھی کہ پہلے سے خبردار لوگوں نے موقع پر جمع ہوکر اسے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ایک ہی دن اور رات میں ایک نر اور ایک مادہ۔لوگوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر شکر کے کلمات ادا کیے ۔خطرہ یقینی طور پر ٹل چکا تھا ۔

اگلے روز دونوں مرحوم گلداروں کو پوسٹ مارٹم کیلئے ایبٹ آباد روانہ کردیا گیا تو وائلڈ لائف کے اہلکاروں اور شکاریوں نے بھی اجازت چاہی۔ادھر گلیات کے دیہات پر کئی دنوں سے تنی دہشت اور بیچارگی کی چادر اتری تو مردوں نے کلہاڑیاں تیز کیں اور عورتوں نے ایلومینیم کے گھڑوں کو دھو دھا کر چمکا دیا۔ان کا اپنا جنگل جو ان سے روٹھ چکا تھا اب پھر سے بانہیں کھولے ان کا منتظر تھا۔

(۵)

ایوبیہ نیشنل پارک کے اطلاعاتی مرکز میں سیاحوں کے ایک گروپ کے ساتھ مغز کھپائی کے بعد مقامی افسر نے ہوا میں گھلتی خنکی محسوس کی تو جھرجھری سی لیتے ہوئے چائے کیلئے کال بیل بجادی۔بہت دنوں کی بعد اس عظیم الشان پارک کی رونقیں واپس آنا شروع ہوگئیں ورنہ توکئی روز سے یہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ادھر عین اسی وقت ایبٹ آباد میں وائلڈ لائف کے ریجنل ہیڈ کوارٹرز میں بھی چائے پر خوش گپیاں چل رہی تھیں۔دفتر کی خوش خصال خاتون ڈائریکٹر نے کبھی ایک کبھی دوسرے بہانے سے اور آخرکواس موذی آدم خور کے دخل در معقولات کی وجہ سے مسلسل ملتوی ہوتے رہنے والے ہنی مون کو مناہی چکنے کیلئے لیپ ٹاپ پر طو یل چھٹی کی درخواست ٹائپ کی اور ای میل کرنے سے پہلے یونہی ایک ذرا بلائنڈز ہٹا کر باہر جھانکا۔باہر موسم بہت سہانا ہورہا تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے جہاں چمکیلی دھوپ تھی اب وہاں سہ پہرکے دراز ہوتے ہوئے سائے منظر میں سرمئی رنگ کا اسرار گھول رہے تھے۔ تبھی بادلوں کی ایک آوارہ ٹولی لہر میں آئی تو اس نے کھڑکی کے پار منظر کو نرم سجیلی پھوار میں بھگونا شروع کردیا۔جب فطرت بند قباء سے آزاد ہونے لگے تو باد شمال کیوں پیچھے رہے سو ایک مست جھونکا آیا اور کھڑکی کے قریب دیودار کے پتوں کو گدگداتا چلاگیا۔

وہ چائے کا مگ ہاتھ میں تھامے وہ آنے والے رنگین دنوں میں دور تک ڈوبتی چلی گئی۔تبھی موبائل فون کی کرخت آواز نے اسے لمحہ موجود میں لا پٹخا۔اس نے ایک جھنجھلاہٹ سے نمبر چیک کیا۔ایوب میڈیکل کمپلیکس کا ایک سرجن اس سے بات کرنے کیلئے بے قرار ہورہا تھا۔اس نے کال اٹینڈ کی تو معلوم ہوا کہ وہ کوئی ضروری بات کرنے کیلئے کچھ ہی دیر میں اس کے دفتر وارد ہونے والا تھا۔مجبوری تھی ملنا تو پڑے گا سو خاتون ڈائریکٹر نے دستی آئینے میں جھانکتے ہوئے اپنی لپ سٹک درست کی اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔کچھ ہی دیر میںسرجن اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کے سامنے کرسیوں پر براجمان تھا۔اس نے خاموشی سے ایک فائل اس کی جانب سرکائی۔خاتون نے فائل کھول کر دیکھی تو اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔اس نے ایک گہری سانس لے کر سر کرسی کی پشت پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ہنی مون ایک بار ملتوی ہونے والا تھا۔

ہسپتال کی سرکاری طور پر جاری کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دونوں شکار کیے جانے والے گلدارآدم خور نہیں تھے۔

’’گویا آدم خور ابھی تک زندہ ہے۔‘‘ اس نے خالی کاغذ پر یونہی ایک پھول سا بناتے ہوئے سوچا۔’’اور جب تک یہ کم بخت زندہ ہے چھٹی منظور ہونے کا کوئی چانس نہیں ۔‘‘

ابھی کچھ ہی دیر میں یہ منحوس خبر عام ہونے والی تھی جس کے بعد جان ہلکان کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ مقامی لوگ اور میڈیا حکومت پر چڑھ دوڑیں گے اور جواب میں سرکار محکمے کی گردن پر سوار ہوجائے گی۔جانے کون کون معطل ہوگا، کس کس کی ملازمت جائے گی۔ابھی پوری طرح سب کچھ نارمل نہیں ہوا تھا کہ اضطراب اور خوف کی ایک نئی لہر سب کو اپنی لپیٹ میں لینے آرہی تھی۔ وہی جلتے بلتے اخباری بیان ، وہی کانوں کے پردے چیرتی بریکنگ نیوز،وہی مظاہرے اور دھرنے۔ گلیات میں اب کے سیاحت کا کاروبار ٹھپ ہوا تو جانے کب بحال ہوپائے گا۔

’’ہمیں کچھ کرنا ہوگا سر جی! ورنہ بہت بڑی گڑبڑ ہوجائے گی۔‘‘اس نے ریسور اٹھا کر جانے کس کس سے التجا کی۔

’’کچھ کرنا توہوگا لیکن کیا؟‘‘۔بہت سے بزرجمہر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔

’’آدم خور زندہ ہے۔۔۔!‘‘۔ایک آواز ہ بلند ہوا اور وادی وادی اس کی بازگشت پھیل گئی۔

یہ آواز جہاں جہاں پہنچی وہاں اچانک ایک چھناکے کے ساتھ بہت کچھ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ جنگل کی گہرائیوں میںپانی بھرنے کو آئی

گاگریں چھلک گئیں اور خشک درختوں میں گڑی کلہاڑیوں کے پھل وہیں گڑے کے گڑے رہ گئے۔گلیات کی ہر گلی کے بازاروں، ریستورانوں، دکانوں اور گھروں میں لوگ ہونق پن سے ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔اور پھر ڈونگا گلی سے آئی خبر نے بدترین اندیشوں کی تصدیق کردی۔وہاںرات کے وقت ایک ’’ چیتے‘‘ کو آبادی میں گھومتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔خبر کے مطابق اس نے کسی گھر، کسی باڑے میں گھسنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ آیا اورگھوم پھر کر واپس چلاگیا ۔جیسے اسے کسی خاص چیز کی تلاش ہو۔خبر نگار نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بھی بتایا کہ وہ ’’چیتا‘‘ چلتے ہوئے ہلکے ہلکے لنگڑا رہا تھا۔

اس بار دھڑکتے دلوں کو جس بد خبری کا انتظار تھا وہ خانس پور سے آئی۔جنگل کنارے کے ایک گھر میںایک نوجوان لڑکی رات کے پہلے پہر شب گذاری کیلئے صحن میں چارپائیاں بچھا رہی تھی کہ بیرونی دیوار کے ساتھ اگے درخت میں چھپے ایک ’’چیتے‘‘ نے اس پر چھلانگ لگادی۔اس سے پہلے کہ’’چیتے‘‘ کو اپنا کام دکھانے کی مہلت ملتی دہشت زدہ لڑکی نے چیخ پکار شروع کردی۔گھر کے دوسرے لوگ قریب ہی موجود تھے۔افراتفری میں جس کے ہاتھ جو لگا اٹھا کر چیتے پر جھپٹا ۔لمحہ بھر میں مچنے والی چیخم دھاڑ کے باعث چیتے کو لڑکی کی گردن دبوچنے کا موقع نہ مل سکا اور وہ اسے زخمی کرکے چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا۔لڑکی کو چہرے اور گردن پر گہرے گھائو آئے تھے ۔خبر کے مطابق اس حادثے کے بعد اسے ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلیکس منتقل کردیا گیاتھا ۔

اور پھر چھانگلا گلی جہاں سولہ سترہ برس کا لڑکا محمد پرویز جدون خانس پور کی لڑکی جتنا خوش قسمت نہ ثابت ہوسکا۔پرویز جدون چھانگلا گلی کے قریب ہی دس بارہ گھروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گائوں کا رہنے والا تھا۔وہ ایک چرواہا تھا، ہنس مکھ اور بڑھ چڑھ کر دوسروں کے کام آنے والا۔چھٹ پنے سے ہی اس کا معمول تھا کہ صبح منہ اندھیرے بکریوں کے ریوڑ لے کر مشکپوری اور گرد و نواع کے سرسبز جنگلی قطعات کی طرف نکل جاتا اور شام ڈھلے لوٹا کرتا ۔وہ اپنی روح کی گہرائیوں تک ایک فطرت زادہ تھا۔اسے سکون ملتا بھی تو صرف جنگل اور سبزہ زاروں میں جہاں وہ مویشیوں کو چرنے کیلئے چھوڑ دیا کرتا اور خود درختوں اور پودوں سے ہم کلامی میں مشغول ہوجاتا۔خانس پور میں لڑکی پر ہونے والے حملے سے اگلے ہی روز کی بات ہے کہ وہ مویشیوں کے باڑے میں بکریوں کی حفاظت کیلئے سویا ہوا تھا کہ ’’چیتا’’ بند دروازے کو توڑتا اندر گھس آیا۔اس نے بکریوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور سیدھے چارپائی پر سوئے لڑکے پر جھپٹا مارا اور ترنت اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا۔

دہشت کا چکر چلا تو چلتا چلا گیا۔ابھی پرویز جدون کے قل بھی نہ ہوئے تھے کہ مشک پوری سے تھوڑا دور نیشنل پارک کی حدود میں ایک ایک اور بدنصیب لکڑیاں کاٹتے ہوئے آدم خور کی درندگی کا نشانہ بن گیا۔نسیم عباسی نام کا یہ نوجوان ڈونگا گلی کے ایک پرائمری سکول میں استاد تھا اور اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے چھٹی کے دن مری میں مزدوری کیا کرتا تھا۔ڈونگا گلی میں یہ آدم خور کا دوسرا شکار تھا اور کچھ انہی حالات میں لقمہ اجل بنا تھا جن میں ڈونگا گلی کی اولین شکار آدم خور کے خونی جبڑوں میں اپنی جان گنواچکی تھی۔

ان خبروں کے عام ہوتے ہی ایک افراتفری سی مچ گئی۔جو جہاں جہاں بھاگ سکتا تھا بھاگ اٹھا۔پورے گلیات میں موجود ہر قسم کی گاڑیوں کے انجن کسی ایک لمحے میں جاگے اور مری اور ایبٹ آباد جانے والی شاہراہوں پر بے پناہ اژدھام کے باعث گاڑیاں ایک دوسرے میں پھنس کر رہ گئیں۔ان میں بہت سے مقامی اور بہت سے وہ لوگ تھے جو درندوں کے مارے جانے کی خبر سن کر وہاں خوش وقتی کیلئے آئے تھے اور اب آدم خور کے زندہ ہونے کی خبر سن کر افراتفری میں جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔

جنگل اور انسانوں کے درمیان پھر مغائرت پیدا ہوچکی تھی۔اس بار جنگل ہی ویران نہ ہوا تھا گلیات کے گلی کوچے بھی انسانوں کے وجود سے خالی ہوگئے تھے۔صرف تین دن کے وقفے سے دو لاشوں اور ایک نازک حالت میں موجود زخمی کی موجودگی میںکاروبار حیات تمام ہوا اور لوگ بند دروازوں پر نظریں جمائے گھروں میں بند ہوگئے۔ادھر مشک پوری اور دیگر پہاڑوں پر آباد دیہات نے بھی دور تک بچھے راستوں کے جال کو سمیٹ لیا۔اب صورت یہ تھی کہ یہ گائوں ایک دوسرے سے کٹے ہوئے بے آباد جزیرے تھے اور چاروں اور سے دہشت کے سیاہ پانیوں کی لہریں ان کے اداس ساحلوں سے سر ٹکرارہی تھیں۔

اس نئی افتاد پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھے۔شروع مئی کی ایک کپکپاتی شام وہ اپنی لوئیوں اور چادروں کی بکل مارے دیر تک خود میں گم بیٹھے رہے۔کوئی کہتا بھی تو کیادنوں دن بیت گئے تھے کہ کسی کا روزگار بچا تھا نہ مزدوری کا آسرا رہا تھا۔یہاں پہلے ہی کرنے کو کیا تھا ۔سال بھر میں ایک گرمیوں میں سیزن لگنے کا آسرا تھا سو اب وہ بھی گیا۔جب سیاح نہیں ہوں گے ، سیزن نہیں لگے گا تو بھوک کا بھوت ان کا گلا دبائے گا۔ایک جنگل تھا جو خدا کے بعد ان کا پالن ہار تھاسو وہ بھی ان سے روٹھ گیا۔اب جنگل میں جانے کا مطلب اپنی جان کا سودا کرنا تھا۔اگر جنگل نہیں اور مری گلیات میں سیاحوں سے ہونے والی کمائی نہیں توبیکاری اور بے روزگاری سے کون انہیں بچائے گا؟۔

انہوں نے اپنے بس کا سب کردیکھا۔اب اور کہنے اور کرنے کو کیا رہا تھا؟۔اب لہجوں میں جوش اور عزم کی جگہ مایوسی اور تھکن کی شکستگی نے لے لی تھی۔کسی نے کہا اور دوسروں نے مانا کہ آدم خور کوئی عام جنگلی درندہ نہیں ہوسکتا۔اگر ہوتا تو اب تک مارا گیا ہوتا۔ضرور یہ کوئی چھلاوہ ہوگا یا بدروح ہوگی جو ان سے اپنے قتل ناحق کا انتقام لے رہی ہے۔بہت سے دماغوں میں یہ بات جم کر بیٹھ گئی۔ان میں سے بہت سوں کا دعویٰ تھاانہوں نے بچشم خود جنگل میں غیر مرئی مخلوق کو گھومتے پھرتے دیکھ رکھا ہے۔کچھ ایسے بھی تھے جنہیں چاندنی راتوں میں گلیات کے کئی دیہات میں اس قسم کی مخلوق گھومتی پھرتی دکھائی دی تھی۔اب جو سہمے ہوئے دماغوں میں بد روح کا تصور قائم ہوا تو پریشان حالوںکے تن بدن میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی اور کواڑوں پر جمی حنائی انگلیاں خوف سے سفید پڑگئیں۔

جب کسی مسئلے کا کوئی حل سجھائی نہ دے تو جبینیں پر اسراریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجاتی ہیں سو یہاں بھی مسجدوں اور مزاروں میں رونق دکھائی دینے لگی۔نیکو کاری اور خوفزدگی میں قریبی تعلق کا ایک ثبوت ہاتھوں میں جھولتی تسبیح اور چوکھٹوں پر لٹکے دافع بلیات کے تعویذ بھی تھے جو اب کثرت سے دکھائی دینے لگے تھے۔

کارِ سرکار اور دھرنے ورنے کا نتیجہ معلوم سو اب کیا کیا جائے؟۔کوئی عامل، کوئی پیر، کوئی فقیر؟ یا پھر خدا ہی کوئی فرشتہ بھیج دے جو انہیں اس بدروح کے انتقام سے نجات دلا سکے۔آدم خور کوئی ذی روح ہوتا تو کوئی اسے مارنے کرنے کی بات بھی کرتا۔کوئی انسان کسی بدروح کا مقابلہ کیسے کرے؟۔اور پھر بدروح والی بات جہاں سے چلی تھی وہیں سے ایک نجات دہندہ بھی سامنے آگیا۔یہ تھاپیر بادشاہ ۔۔۔ہمارا تمہارا پیر بادشاہ!۔

(۶)

آدم خور کے زندہ ہونے کے حوالے سے پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے سیاسی مضمرات کا سوچتے ہی حکومت لرز اٹھی تھی۔ایک آپا دھاپی کی سی کیفیت پیدا ہوئی تو محکمہ وائلڈ لائف نے اپنے ترکش کا سب سے مہلک تیر پیش کردیا۔یہ جمشید کمال عرف جم کاربٹ ثانی تھا، ایک بین الاقوامی شہرت کا مالک شکاری جس نے کبھی ناکامی کا منہ نہ دیکھا تھا۔وہی ایک شکاری تھا جو کامن لیپرڈ کی نفسیات کا گہرا ادراک رکھتا تھا۔اسے تلاش کرنا اور پاکستان آنے پر آمادہ کرنا ازبس ضروری تھا لیکن اس تک پہنچنا بھی کار دارد تھا۔شکاریات کی دنیا میں آوارہ گرد شکاری کے نام سے پہچانے جانے والے اس نادر روزگار کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔وہ آج کینیا میں ہے تو کل آسٹریلیا کے ویرانوں کی خاک چھانتاپایا جائے گا۔وہاں سے جی اوبھے گا تو یورپ کے کسی گمنام قصبے کی کسی نیم تاریک بار یا وسط ایشیا کی کسی قدیم سرائے میں بیٹھا اپنے من کے جنگل میں خود کو تلاش کرتا دکھائی دے گا۔ایسے مفقود الخبر سیلانی کا پتا ملے تو کیسے؟۔۔۔یہ سوال اٹھا تو اس کا جواب خود چل کر آگیا۔یہ ایبٹ آباد میں تعینات محکمہ جنگلات کا ڈپٹی فارسٹ آفیسر زلفی تھا جو ثانی کا لنگوٹیا تھا اور اس کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔ ثانی کو پاکستان لانے کی ذمہ داری ڈپٹی نے بخوشی اپنے کندھوں پر لی ۔جب اس کے قدیمی دوست لانگ ڈسٹینس کال پر اسے پرانی دوستی اور حالات کی سنگینی کا واسطہ دیا تو وہ اس کی بات نہ ٹال سکا۔

جب اس نے گلیات کے آدم خور کو مارنے کی حامی بھری تب اسے خوب اندازہ تھا کہ اس کا سامنا زندگی کی سب سے بڑی آزمائش

سے پالا پڑنے والا۔وہ نارمل قسم کے گلدار وں کے بارے میں تو بہت کچھ جانتا تھا لیکن کسی آدم خور گلدار کے بارے میں اس کا کل علم اپنے روحانی مرشد جم کاربٹ کی شکار کہانیوں تک محدود تھا۔لیکن ساتھ ہی اسے یہ احسا س بھی تھا کہ شاید یہ کہانیاں اس کیلئے بیکار ثابت ہوں کہ یہ انیسویں صدی کا ہندوستان تھا نہ وہ جم کاربٹ تھا۔اس نے ملکوں ملکوں جنگل پیمائی کی تھی لیکن اس بار شاید کوئی نیا چیلنج یا شاید کوئی ہولناک تجربہ اس کا منتظر تھا۔

کسی سچ مچ کے آدم خور گلدار کے ساتھ پنجہ لڑانا اس کیلئے نئی بات ضرور تھی تاہم برسہا برس سے وہ درندوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کر ان کے دانت گنتا آیا تھا لہٰذا خدشات کے باوجود اندر کہیںیہ اعتماد بھی موجود تھا کہ آخر کو بازی اسی کے ہاتھ لگے گی۔ایک فطری مہم جو ہونے کے ناطے وہ بے دھڑک خطرات میں کود جانے کا عادی تھا۔اس کے گواہ وہ گھائو تھے جو اس کے جسم پر جنگی تمغوں کی طرح سجے ہوئے تھے۔

وہ نتھیا گلی پہنچا تو محکمے نے مقامی لوگوں کے ایک وفد کی ساتھ اس کی رسمی ملاقات کا اہتمام کیا تھا تاکہ وہ صورتحال کو اچھی طرح سے سمجھ سکے۔یوںوہ اس وقت نتھیا گلی کے سرکاری ریسٹ ہائوس میں اپنی جدید شکاری رائفلوں سمیت موجود تھا۔ ریسٹ ہائوس کے سرسبز لان میں جمع جذبات سے گرمائے ہوئے ہجوم نے قدرے ناگواری سے دیکھا کہ وہ ان کی باتوں پر کوئی خاص تاثر ظاہر کیے بغیر ایک شان بے نیازی سے اپنی بارہ بور کی ڈبل بیرل پرنسس میں ’’پھلترو‘‘ پھیرے جارہا تھا۔

نتھیا گلی کے اس سرکاری ریسٹ ہائوس میں براجمان ہونے سے پہلے وہ اپنے طور پر گلیات کے مختلف علاقوں میں آدم خور کا شکار بننے والوں کے گھروں میں گیا تھا جن کے عزیز اس آدم خور کا شکا ر ہوئے تھے۔وہ ان سے مل کر واقعات کی تفصیل معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن عجیب بات تھی کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے سامنے زبان کھولنے پر آمادہ نہ ہوا تھا۔وہ اپنے ساتھ ہونے والے واردات کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر بھول جانے کے جتن میں تھے۔ ان کی چہرے سرد تھے اور آنکھوں میں خوف تھا۔وہ ان کا دکھ بانٹنا چاہتا تھا لیکن کوئی اس کے سامنے دل کھولنے پر آمادہ نہ تھا۔وہ ان کی مدد کرنے آیا تھالیکن کوئی اس سے مدد کا خواہاں نہیں تھا۔وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر ان جگہوں پر جانا چاہتا تھا جہاں گلدار نے ان کے نمکین خون سے اپنی پیاس بجھائی تھی لیکن کسی کے پاس اس کیلئے فرصت نہیں تھی۔ثانی کیلئے ان کے پاس صرف بے اعتنائی تھی اور وہ اس بے عتنائی کو سمجھنے سے قاصر تھا۔اس کے باوجود یہ بھی سچ تھا کہ جو کہانیاں وہ کہنا نہیں چاہ رہے تھے ان میں بھرے دکھ کی آنچ وہ صاف محسوس کرسکتا تھا۔ڈونگا گلی میں لکڑیاں چننے والی لڑکی ،چھانگلا گلی کا چرواہا اور پھر ڈونگا گلی کے پرائمری سکول کا استاد۔یہ سب جوانی کی دہلیز پر کھڑے تھے۔ابھی ان کے سامنے عمر بھر کا سفر پڑا تھا کہ بے رحم درندے نے انہیں صفحہ ہستی سے یوں غائب کردیا کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ ان بدنصیبوں کا جنازہ اٹھ پایا تھا نہ ان کا مزار بناتھا۔وہ زندہ تھے تو صرف اپنے روتے بلکتے عزیزوں کے دلوں میں۔درد بھرے دلوں میں بھی ان کے مزار کب تک باقی رہتے۔ ایک روزیہ ہونا تھا کہ وقت کے گلدار نے چپکے سے آناتھا اور یادوں میں بسے ان کے خواب وجودوں پر جھپٹا مار انہیں فراموشی کے پاتال میں لے جانا تھا۔

ثانی نے ڈونگا گلی کی پائپ لائن پر کھڑے ہوکر وادی کی گود میں پھیلتے دھندلکے کو دیکھا اور زلفی کو ساتھ لیے بے نیل و مرام ریسٹ ہائوس لوٹ آیا۔

اس روز جیسے سارا گلیات ریسٹ ہائوس میں امنڈ پڑا تھا۔لان میں بچھی کرسیاں کم پڑگئیں تو بہت سوں نے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے یا کھڑے ہونے پر ہی اکتفا کرلیا۔یہ وہ لوگ تھے جو بدروح کی افتراع سے متاثر تو تھے لیکن دل میں امید بھی لگائے بیٹھے تھے کہ ممکن ہے

حکومت یا نئے شکاری صاحب کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہو کہ وہ انہیں آدم خور کے دست ستم سے نجات دلاسکیں۔ان میں سے زیادہ تر لوگ متاثرہ دیہات سے آئے تھے اور اکثر آدم خور کا شکار بننے والوں کے رشتے دار تھے۔وہاںبیک وقت بہت سے لوگ بولے چلے جارہے تھے۔ہر کوئی خوفزدہ تھا اور ہر کوئی اپنی بات کہنے پر مصر تھا ۔وہ سب غیر متعلقہ باتیں کررہے تھے جن سے ثانی کو کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔ سو اس نے اپنے چہرے پر بے اعتنائی اوڑھ لی اور چپ چاپ رائفل کی نال سے پل تھرو گذارنے کی مشق کرنے میں مگن رہا۔

’’اگر فوری طور پر اس چیتے کو نہ مارا گیا تو ہم زمین آسمان ایک کردیں گے‘‘۔معتبرین میں سے ایک نے مکا لہراتے ہوئے کہا۔

’’اوں ہوں! چیتا نہیں لیپرڈ، کامن لیپرڈ‘‘۔ زلفی نے ترنت تصحیح کی۔

’’نہیں چیتا بلکہ چیتا بھی نہیں بدروح۔‘‘ جواب میں قطعی لہجے میں کہا گیا۔

’’ہاں ہاں، وہ بدروح ہے۔وہ صاف ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیاروں کو اٹھا لے جاتا ہے اور ہم کچھ نہیں کرپاتے۔‘‘

’’وہ بدروح ہے جبھی تو اس پر گولی اثر نہیں کرتی۔‘‘

’’اگر وہ بدروح نہیں تو چھلاوہ ضرور ہے۔وہ بجلی کی طرح کوندتا ہے اور اپنا کام کرکے غائب ہوجاتا ہے۔‘‘

’’نہیں چھلاوہ شلاوہ کچھ نہیں۔وہ بدروح ہے‘‘۔ایک آواز بلند ہوئی۔

’’یہ ہمارے گناہ اور ہماری بداعمالیاں ہیں جو اس بد روح کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہیں۔‘‘ ایک مولانا صاحب نے اپنے سر پر صافہ درست کرتے ہوئے کہا۔

’’بے شک۔۔۔بے شک۔‘‘ جواب میں بہت سی تائیدی آوازیں بلند ہوئی۔

ثانی نے کھٹاک سے رائفل بند کی اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔معاملہ اس سے زیادہ گھمبیر تھا جتنا بتانے والوں نے اسے بتایا تھا۔دہشت نے ان لوگوں میں مایوسی کو جنم دے دیا تھا اور مایوسی نے انہیں توہم پرستی کا راستہ دکھلا دیا تھا۔ثانی نے جی داری کے ساتھ حالات سے لڑنا سیکھا تھا لیکن ماہر نفسیات وہ بہرحال نہیں تھا کہ ان کے نفسیاتی مسائل کا مداوا کرسکتا۔  اس نے بے بسی سے نوجوان ڈپٹی فارسٹ آفیسر کی جانب دیکھا جو غائب دماغی اور الجھاوے کی کیفیات میں کھویا مونچھوں کو مروڑے جارہا تھا۔

ثانی کو دیکھتے ہوئے ڈپٹی نے کھنگار کا گلا صاف کیا اور لوگوں کی توہم پرستی کا رد کرنے کیلئے سائنس، فلسفے اور نفسیات کے ملغوبے پر مشتمل دلائل کا ایک انبار ان کے سامنے رکھ دیا لیکن واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ اس کی نہایت دانش ورانہ گفتگو کا حاصل اگر کچھ تھا تو لاحاصلی تھی۔کچھ لوگ تو اپنے دل کی بات صاف لفظوں میں کہہ رہے تھے لیکن کچھ مصلحت اندیش بھی تھے جو نظریں چراتے ہوئے گھما پھرا کر بات کررہے تھے۔ ہر دو قسم کے لوگوں کی آنکھوں میں واضح بے اعتمادی جھلک رہی تھی۔ثانی یہ محسوس کیے بغیر بھی نہ رہ سکا کہ ان میں کئی لوگ اس کی آمد سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔اگر واقعی ایسا تھا تو یہ سرکاری متعلقین اور خود ثانی کیلئے تشویش کی بات تھی۔ثانی کو جنگل میں داخل ہونے سے پہلے بہرصورت ان کے تعاون کی ضرورت تھی۔اور پھر اسے ان خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہنا تھا جن کے عزیز اس آدم خور کی بھوک کا شکار ہوئے تھے۔اسے ان عینی شاہدین سے معلومات بھی درکار تھیںجن کے سامنے یہ واقعات رونما ہوئے تھے۔اور تو اور اسے ایسے گائیڈ درکار تھے جو جنگل کے چپے چپے سے واقف ہوں۔اگر یہ لوگ بدروح کے چکر میں پڑے رہے تو اس کیلئے ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ چپ چاپ سامان باندھے اور واپسی کی راہ دیکھے۔لیکن یہ بھی طے تھا کہ ایک شرمناک پسپائی اس کی سرشت میں نہیں تھی۔

’’تو کیا کیا جائے۔۔۔!؟‘‘۔اس کا دماغ اندیشوں اور امکانات کے درمیان پھنس کر رہ گیا تھا۔

ثانی کے ساتھ بیٹھے سرکاری حکام بھی واقعات کے اس خطرناک موڑ کو افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔انہوں نے اپنے اگلوں کو رپورٹ دینا تھی۔وہ کسی طور پر اپنے کندھے جھٹک کر فارغ البال نہیں ہوسکتے تھے۔ اس طور انہوں نے بھی ہر ممکن زور لگا دیکھا ۔جب دیکھا کہ محض دل جیتنے کے حربے مقامی عمائدین پر کارگر نہیں ہورہے تو ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیاں تک دے ڈالیں۔اس پر کچھ مصلحت شناس لوگوں کی زبانوں نے پلٹا کھایا، لہجے نرم ہوئے لیکن آنکھیں الفاظ کا ساتھ دینے سے انکاری رہیں ۔ آخر انہوں نے کچھ نیم دلانہ اور مبہم سے وعدے کیے اور اجازت چاہ کرجانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔جب وہ ملاقات کے کمرے سے نکل رہے تھے تو ان میں سے دو تین لوگ پلٹ آئے اور راز داری کے انداز میں ثانی کو ایک جانب لے گئے۔ان میں سے ایک نے ثانی کی نظرمیں نظر جمائی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’ثانی صاحب!ماشاء اللہ سے آپ کے بچے تو ہوں گے۔انہیں آپ کی ضرورت بھی ہو گی۔‘‘

’’مطلب؟۔‘‘ثانی نے الجھن سے کہا۔

’’بہتر ہے کہ آپ اس کام میں نہ پڑو۔‘‘

’’ورنہ۔۔۔؟؟؟‘‘۔ثانی کے ماتھے پر ایک شکن گہری ہوگئی۔

’’صاحب! برا نہ منائیں،آپ یقینا بہت جی دار شکار ی ہوںگے لیکن وہ کوئی جنگلی جانور نہیں بدروح ہے۔آپ اس کا مقابلہ نہیں کرسکو گے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کو بدروح کے غضب کا سامنا کرنا پڑجائے۔‘‘ اس نے ثانی کی خفگی کو برطرف کرتے میٹر آف فیکٹ لہجے میں کہا۔

’’اور اگر آپ نے بدروح کو مشتعل کردیا تو اس کی قیمت ہمیں بھی چکانا پڑے گی۔اپنی جانوں کی صورت میں۔‘‘ایک اور شخص نے بات آگے بڑھائی۔

’’صاحب! ہم مہمان نواز لوگ ہیں ۔آپ کی خاطر مدارت ہمارا فرض ہے لیکن بہتر ہے کہ شکار وکار کو بھول جائیں۔‘‘تیسرے شخص نے دھیرے سے کہا۔

’’ویسے بھی آپ جس کام کیلئے آئے ہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ہم نے ایک اللہ والے سے رابطہ کرلیا ہے۔وہی ہمیں اس موذی سے نجاتے دلائے گا‘‘دوسرے والے کے لہجے میں اس کیلئے واضح انتباہ تھا۔

’’صاحب! ہم چلتے ہیں۔ویسے ہم نے جو بھی کہا نیک نیتی سے کہا۔آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔‘‘پہلے شخص نے جانے وقت مڑتے ہوئے کہا اور اپنے قدم بڑھادئیے۔

ثانی انہیں روکتا رہ گیا لیکن وہ سنی ان سنی کرکے باہر جاچکے تھے۔

وہ رات کے کھانے سے فارغ ہوکروہ زلفی کے ہمراہ ریسٹ ہائوس کے برآمدے میں بیٹھا گرم قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا۔وہ دونوں دیر تک صورتحال کی گھمبیرتا پر غور کرتے رہے۔آخر یہی طے پایا کہ ان لوگوں کی باتوں کو وقعت دینے کی بجائے وہی کیا جائے جو انہیں کرنا چاہیے۔زلفی نے قہوے کی آخری چسکی لے کر اس کا کندھا تھپتھپایا اور صبح واپس آنے کا کہہ کر رخصت ہوگیا۔ زلفی چلا گیا اور وہ اپنے خیالوں میں کھویا وہیں بیٹھادور تک پھیلی ستاروں کی نرم سجیلی لوسے لطف اندوز ہوتا رہا۔نتھیا گلی کے بلند پہاڑوں کو چھو کر آنے والی خنک ہوا جنگل کی مخصوص خوشبو سے بوجھل تھی۔رات کے وقت جنگل کی یہ مہکار اس مہکار سے مختلف تھی جو دن بھر جنگل کے مساموں سے پھوٹا کرتی ہے۔وہ دنیا بھر میں جنگل جنگل گھوما تھا لیکن اس کے سامنے چرخ نیلی فام سے محوکلام پہاڑوں اور سرمئی وادیوں میں دور فاصلوں تک پھیلے نیلگوں جنگل کی خوشبو میں کچھ الگ سی مدھرتا تھی ۔اگلے روز اسے اس مدھر جنگل کی پر اسرار گہرائیوں میں اترنا تھا جہاں اسے نا صرف ایک آدم خور درندے سے دو دو ہاتھ کرنا تھے بلکہ لوگوں کی توہم پرستی کا مقابلہ بھی کرنا تھا۔آج یہ طے ہوگیا تھا کہ اس کٹھن چیلنج کے دوران اسے مقامی لوگوں کا تعاون ملنے کی توقع سے ہاتھ کھینچنا ہوں گے۔اچانک اس کے خیالات کا تانا بانا ٹوٹ گیا۔دروازے پر ریسٹ ہائوس کا چوکیدار ایک اجنبی نوجوان کے ساتھ اندر داخل ہورہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس مضبوط ہڈ کاٹھ والے جوان آدمی کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھیں ۔

’’صاب! یہ نور محمد ہے ، نور محمد عباسی ۔میرا گرائیں ہے اورڈونگا گلی سے سیدھا آپ سے ملنے آیا ہے ۔اس کے پاس ایک خبر ہے۔‘‘چوکیدار نے قریب آکر اس شخص کا تعارف کرایا۔

’’بولو نوجوان!کیا بات ہے؟‘‘ ثانی نے قہوہ کی پیالی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔اسے نووارد کے الجھے ہوئے بالوں اور آنکھوں سے ٹپکتی وحشت سے خبر کی نوعیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔

ثانی نے قریب آنے پر گہری نظروں سے اسے دیکھا۔اس کی عمر پچیس سے تیس برس برس کے درمیان رہی ہوگی لیکن اس کے چہرے

پر چھائی سنجیدگی نے اس کی عمر میں اضافہ کردیا تھا ۔ قد اس کا چھ فٹ سے نکلتا ہوا تھا جبکہ کاٹھی مضبوط اور چہرے پر برسوں کی مشقت سے پیدا ہونے والی سختی تھی۔دیکھنے میں وہ کچھ پڑھا لکھا بھی دکھائی دے رہا تھا۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر اس کے قریب زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ایک پختہ عمری کو چھوتے ہوئے مضبوط شخص کو اس طرح بکھرے ہوئے دیکھنا خاصا تکلیف دہ تھا۔ثانی نے اسے اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کو کہا لیکن اس نے ہاتھ بلند کرکے انکار کردیا۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن ہونٹ چبا کر رہ گیا۔اس کی آنکھوں میں پانی جھلملارہا تھا جسے بہنے سے روکنے کیلئے وہ پلکیں جھپکا رہا تھا۔ثانی کے اشارے پر چوکیدار فوراً ہی پانی کا گلاس لے کر آگیا جو اس نے ایک ہی سانس میں خالی کردیا۔

’’اب بتائو کیا ماجراہے؟‘‘۔ ثانی نے اس کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

نور محمد کسی حد تک خود پر قابو پاچکا تھا۔ اس نے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں بتایا کہ وہ خاص ڈونگا گلی سے آیا ہے۔چند گھنٹے پہلے شام کے وقت اس کی منکوحہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں چننے گئی تو اچانک آدم خور نے اس پر حملہ کردیا اور آناً فاناً اسے لے کر غائب ہوگیا۔ثانی کے ہمدردانہ روئیے پر اس کا اعتماد بحال ہوا تو اس نے لڑکھڑائے لہجے میں بتایا کہ اس کی منکوحہ گلابے جس کی رخصتی چند روز بعد طے پائی تھی اپنی بہن سفیدہ بیگم کے ساتھ جنگل میں گئی تھی۔دونوں کسی ممکنہ حادثے کے خوف سے جنگل میں جانے سے ڈر رہی تھیں لیکن مجبوری تھی کہ گھر میں جلانے کی لکڑی ختم ہوچکی تھی۔لکڑیاں کاٹتے ہوئے انہیں شام ہوگئی تو وہ جلدی سے واپس ہوئیں لیکن تب تک بلا ان کے سر پر پہنچ چکی تھی۔یہ بتاتے ہوئے اچانک نوجوان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آواز اس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئی۔چوکیدار نے اسے پانی پلایا تواس نے سنبھالا لیا اور ایک عزم کے ساتھ  اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا۔اس کے اندر آتش فشاں کھول رہا تھا اور لاوے کو بہہ نکلنے سے روکنے کی کوشش میں اس کی آنکھوںمیں لہو کے ڈورے نمایاں ہورہے تھے۔

’’صاحب! ابھی میرے ساتھ چلو ہم اس بلا کو ماریں گے۔اب یا وہ بلا زندہ رہے گی یا میں۔۔۔اس نے میری محبت کا خون کیا ہے میں اسے اپنے ہاتھوں سے ماروںگا۔‘‘

’’لیکن نور محمد ! علاقے کے لوگ تو چاہتے ہی نہیں کہ میں لیپرڈ میرا مطلب چیتے کے پیچھے جائوں۔ان کا خیال ہے کہ وہ کوئی بدروح ہے جس کا مقابلہ کوئی عامل ہی کرسکتا تھا۔‘‘

’’سب بکواس ہے اور اس بدبخت پیر بادشاہ کی کا رستانی ہے۔سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف بنانا اس کا پیشہ ہے صاب!لیکن میں کسی جھانسے میں نہیں آسکتا۔ میں نے پندرہ سال لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ڈرائیوری کی ہے۔بہت عامل بابے اور بہت بدروحیں دیکھی ہیں میں نے۔سب فراڈئیے، کوئی سیر تو کوئی سوا سیر۔بس آپ میرے ساتھ چلو ۔ہم دونوں مل کر اس شیطان کو ماریں گے۔‘‘اس نے جذبات کی شدت میں ثانی کا بازو پکڑ لیا اور اسے کھینچنے لگا۔

ثانی کو کچھ نہ سوجھا کہ اسے کیا جواب دے۔رات کے وقت بغیر تیاری کے اٹھ کر چل پڑنا وہ بھی ایک اجنبی کے ساتھ نامناسب بھی تھا خطرناک بھی۔اس نے دھیرے سے اپنا بازو چھڑایا اور بہت مشکلوں سے اسے سمجھانے میں کامیاب ہوا کہ رات کی تاریکی میں جنگل میں جانا مناسب نہیں۔صبح ہوتے ہی وہ ضرور وہاں پہنچ جائے گا۔اس نے ڈرائیور کو بلا کر کہا کہ نوجوان کو بحفاظت اس کے گھر تک پہنچا آئے۔یہ سن کر ڈرائیور کی آنکھوں میں بھی خوف کا سایہ لہراگیا۔

’’لیکن صاحب!اس وقت ہم کیسے جائے گا ڈونگا گلی جانے والی روڈ ویران ہوگی۔‘‘

‘‘تو۔۔۔!؟‘‘۔

’’رات کے وقت وہاں بدروح کا راج ہوتا ہے صاحب!اورگھر میں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘

’’بکواس ہے یہ۔کوئی بدروح شدروح نہیں۔۔۔اور پھرکیا تم اپنے گرائیں کیلئے خطرہ مول نہیں لے سکتے؟‘‘

ثانی نے ڈرائیور کو آنکھیں دکھائیں تو وہ منہ بسورتے ہوئے اس کے ساتھ چل دیا۔

’’اور ہاں ! نور محمد سے اس کے گھر کا اتا پتا بھی اچھی طرح سمجھ لینا اور رابطے کیلئے میرا نام اسے دے کر اس کا نمبر یاد سے لے لینا۔ہم کل صبح ہی اس کے پاس پہنچ جائیں گے۔‘‘ ثانی نے جاتے ہوئے ڈرائیور کو تاکید کی۔

الجھائو سے بوجھل رات گذارنے کے بعد وہ اگلے ہی روز وہ صبح سویرے ڈونگا گلی پہنچ چکا تھا۔سرکاری طور پر اسے مطلع کردیا گیا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کیلئے جس قسم کی سیکورٹی چاہتا ہے فراہم کردی جائے گی لیکن ثانی نے ایسی کسی بھی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔یوں بھی اس کام میں ہاتھ ڈالتے وقت اس نے شرط عائد کردی تھی کہ وہ اپنے انداز میں اور بغیر کسی مداخلت کے کام کرے گا۔صرف شکار کا شوقین ڈپٹی فارسٹ آفیسر اس کے ہمراہ تھا وہ بھی اس لیے کہ وہ گلیات کے جنگل کو سب سے بہتر سمجھتا تھا۔ڈی ایف او زلفی اچھی بھی خاصی ایڈونچرس روح تھا اور ایڈونچر کے اس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے دینے کے موڈ میں نہیں تھا ۔ وہ رات ہی اپنی شاٹ گن سمیت ریسٹ ہائوس پہنچ گیا تھا اور اب اس کے ساتھ ڈونگا گلی میں موجود تھا۔رات سونے سے پہلے ثانی نے ڈپٹی کو نور محمد عباسی کے کیس سے آگاہ کیا تھا اور بتایا کہ وہ اس کی منکوحہ گلابے کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے ڈونگا گلی کے جنگل سے اپنے کام کا آغاز کریں گے۔ڈپٹی نے اس کے منصوبے سے اتفاق کرتے ہوئے اسی وقت موبائل پر ڈونگا گلی میں کسی سے رابطہ کیا اور اس سے اگلی صبح ملاقات طے کی کرلی تھی۔ڈپٹی نے اسے بتایا کہ لائن کی دوسری جانب علاقے کا سب سے بااثر آدمی حاجی نثار عباسی تھا جس کا تعاون حاصل ہوجائے تو ان کیلئے بہت سی آسانیاں پیدا ہوسکتی تھیں۔

نتھیا گلی روڈ سے ڈونگا گلی میں داخل ہونے تک ڈپٹی اسے حاجی کے بارے میں بریف کرتا رہا تھا۔ڈپٹی نے اس کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بھی بتائیں جو حاجی کی شخصیت کے عجائب اور تضادات کو اجاگر کرتی تھیں۔

’’حاجی سے بات کرتے ہوئے تمہیں کئی بار جھنجھلانا اور کئی بار مسکرانا پڑے گا لیکن کوشش کرنا اپنے اندر کی کیفیات کو الفاظ یا چہرے کے تاثرات سے ظاہر نہ ہونے دو۔بس تم یہی ظاہر کرتے رہنا کہ تم اس کی شخصیت اور اس کی مفروضہ ذہانت سے از حد متاثر ہورہے ہو۔‘‘ڈپٹی نے مشکپوری پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد دلفریب نظاروں کی دنیاڈونگا گلی بازار میں داخل ہونے کے بعد شمال مشرق کی جانب گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے اسے انتباہ کیا۔

’’لیکن ہمارا اس سے ملنا کیوں ضروری ہے۔کیا اس طرح ہمارے اصل کام کا حرج نہیں ہوگا؟‘‘ثانی نے احتجاج کیا۔’’اور پھر میں تمہیں صاف بتادوں کہ میں بہت ہی برا اداکار ہوں۔ میرے اندر کسی فضول شخصیت کو برداشت کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت نہیں ہے۔‘‘

’’ جانتا ہوں لیکن یہ کڑوا گھونٹ تو بھرناہی ہوگا۔‘‘

اچانک ثانی کے موبائل کی سکرین روشن ہوگئی۔اس نے چیک کیا تو نور محمد عباسی کا نمبر تھا۔ثانی نے کال اٹینڈ کی اور نور محمد کو بتایا کہ وہ ڈونگا گلی میں ہی ہیں اور کسی سے ملنے جارہے ہیں تھوڑی دیر کیلئے۔ وہاں سے واپسی پر اس سے رابطہ کریں گے۔

’’لیکن سوال تو وہی ہے کہ جس گائوں نہیں جانا اس کا راستہ کیوں پوچھا جائے؟‘‘۔ثانی نے گریز کی کوئی صورت تلاش کرنے کی کوشش کی۔

’’مجبوری ہے، اس وقت یہاں کے لوگ ایک عجیب قسم کی کنفیوژن کا شکار ہیں جو ہمارے مشن کو مشن امپوسبل بناسکتی ہے۔ایسے میں صرف حاجی ہی ہمارے کام آسکتا ہے۔بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ ایک چھوٹا موٹا سا ان داتا ہے۔بہت سے لوگ اس کے احسانات تلے دبے ہوئے ہیں۔ایسے میںکوئی اس کی بات کو رد نہیں کرسکتا۔‘‘ڈپٹی نے مین روڈ کو چھوڑتے ہوئے جیپ کو ایک ذیلی سڑک پر ڈال دیا۔یہ سڑک ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بل کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔پہاڑی زیادہ تر اخروٹ،خوبانی، سیب اور آڑو جیسے پھلدار پودوں سے ڈھکی ہوئی تھی جن کے درمیان چیڑ ،بلیو پائن اور دیودار جیسے جناتی درخت بھی کثرت سے موجود تھے۔سب درخت ایک خاص ترتیب میں لگے ہوئے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں ایک پلاننگ کے تحت وہاں اگایا گیا ہے۔

’’وہ رہا حاجی کا غریب خانہ‘‘۔اس نے پہاڑی کی کوہان پر بنے ایک محل نما گھر کی طرف اشارہ کیا۔

’’غریب خانہ؟‘‘ ثانی اس پرشکوہ مکان کو دیکھتے ہوئے تعجب سے مسکرایا۔

’’کم از کم نیم پلیٹ کی حد تک تو ہے۔‘‘

انہوں نے گھر سے کچھ دور بنی سیکورٹی چیک پوسٹ پر اپنی شناخت کرائی ۔مودب سیکورٹی گارڈ نے تصدیق کے بعد بیرئر ہٹادیا ۔ڈپٹی نے جیپ گیئر میںڈالنے سے پہلے ثانی کو بتانا ضروری سمجھا کہ جس پستہ قد پہاڑی پر حاجی کا گھر بنا ہوا ہے وہ کلہم حاجی کی ذاتی ملکیت ہے۔ثانی کیلئے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔اس نے یورپ اور آسٹریلیا میں کئی ایسے رئیس دیکھے تھے جو پورے کے پورے جزیرے یا پہاڑیاں خرید کر اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرنے کے عادی تھے۔مقصد ان سب کا لوٹ مار کرکے جمع کیے گئے کالے دھن کو سفید کرنا اور پھر اس دھن کی دھنا دھن نمائش کرنا ہوتا ہے ۔ڈپٹی کی فراہم کردہ معلومات پر اس نے کسی خاص تاثر کا اظہار نہ کیا۔

اب وہ اس گھر کے ڈرائیو وے میں داخل ہورہے تھے۔ یہ وسیع و عریض اور عالیشان مکان پرانی حویلیوں کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا ۔ثانی نے دیکھا کہ ایک غیر معمولی طور پر لحیم شحیم آدمی داخلی دروازے کے باہر کھڑا ان کا منتظر تھا۔یہ گلیات کی ہوٹل مالکان اور پلازوں کے کرایوں پر زندہ مختصر سی اشرافیہ کا نمائندہ حاجی نثار عباسی تھا۔ثانی پہلی نظر میں اس سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔یقینا وہ ایک بارعب شخصیت کا مالک تھا۔پندرہ بیس بندوں کے ہجوم میں گھرا ہو تب بھی سب سے الگ دکھائی دے۔

حاجی انہیں دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھا۔

’’آئیے، آئیے ، تشریف لائیے ڈپٹی فارسٹ آفیسر صاحب۔‘‘

ثانی کو پہلا جھٹکا اس کی آواز سن کر لگا۔ایک پختہ عمر کا لحیم شحیم آدمی چھ آٹھ سال کے بچے کی آواز میں بول رہا تھا۔صرف آواز ہی نہیں اس کا دکھاوے بھرا لہجہ بھی سننے والے میں بیزاری کے تاثرات جگاتا تھا۔ایک ہی لمحے میںاس کی شخصیت کا سارا طلسم ایک چھناکے سے ٹوٹ کر بکھر گیا۔ڈپٹی نے ثانی کی طرف دیکھا اور معنی خیز انداز میں مسکرایا۔حاجی کے اشارے پر اس کا ایک باوردی خادم گاڑی پر جھپٹا اور دونوں جانب کے دروازے کھول دئیے۔وہ دونوں گاڑی سے باہر آئے تو حاجی نے تالی بجاتے ہوئے بچگانہ انداز میں اظہار مسرت کیا اور پھر آگے بڑھ کر انہیں باری باری سینے سے لگایا۔ڈپٹی نے ثانی کا تعارف کرایا تو حاجی کی باچھیں کچھ اور پھیل گئیں۔اب ثانی زبردستی کے معانقے کی زد میں تھا۔معانقوں کا سلسلہ ختم ہوا تو حاجی نے انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔

وہ اس کے پیچھے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو نشست سنبھالنے تک حاجی کے اظہار مسرت کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران اس نے گن کوئی پانچ سات مرتبہ ’’زہے نصیب‘‘کے الفاظ کا ٹانکا لگایا تھا۔ثا نی کیلئے یہ بات تعجب انگیز تھی کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے مل کر اس قدر خوش ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کا آپس میں کوئی خاص تعلق واسطہ بھی نہ ہو۔وہ سمجھ گیا کہ حاجی خطرناک حد تک خوش اخلاق ہے جس سے ایک محتاط فاصلے پر رہنے میں ہی بہتری ہے۔

حاجی کا ڈرائنگ روم جنوبی ایشیا کے مخصوص نودولتیا چھچھورے پن کا شہکار تھا۔اس نے دنیا بھر سے جانے کیا الم غلم لاکریہاں ڈمپ کردیا تھا۔یہ ڈرائنگ روم کم اور جعلی نوادرات کا شو روم زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔اس قسم کے شو روم اس نے پرانے دمشق کے بازاروں کی تنگ  اور پیچیدہ گلیوں میں دیکھ رکھے تھے۔ڈپٹی معنی خیز نظروں سے ثانی کی طرف دیکھتے ہوئے حاجی کے اوصاف بیان کررہا تھا۔وہ بتا رہا تھا کہ حاجی نثار عباسی اس پورے علاقے کا بادشاہ گر ہے۔علاقے کے جتنے نمایاں دکھائی دینے والے لوگ تھے حاجی کی شان سرپرستی کے مرہون منت تھے۔گذ شتہ دھرنوں کا ماسٹر مائنڈ بھی حاجی نثار عباسی ہی تھا۔اثر و رسوخ کا یہ عالم کہ جنگل میں کوئی دیودار سانس لیتا ہے یا کوئی پرندہ چہچہاتا ہے تواحتیاطاً حاجی صاحب کی مرضی معلوم کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ وہ یہ بھی بتارہا تھا کہ مری سے خیرہ گلی تک ہر ہل اسٹیشن پر حاجی کے عالیشان ہوٹل اور رہائشی پلازے ہیں اور یہ کہ جنگل میں کٹنے والے ہر درخت میں حاجی کا حصہ مقرر ہوتا ہے لیکن مجال ہے کہ حاجی صاحب میں غرور نام کی کوئی چیز موجود ہو۔

’’کیوں حاجی صاحب! میں نے غلط تو نہیں کہا۔‘‘ ڈپٹی نے پلٹ کر اس سے پوچھا تو اس کے لہجے میں طنز کی ہلکی سی آمیزش تھی جسے حاجی کے اندر کا بچہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

جواب میں حاجی نے بچے کی طرح کلکارتے ہوئے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا۔

ثانی کیلئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت سا تھا لیکن وہ مارے بندھے بیٹھا ہوا تھا اور حقیقت میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ڈپٹی جیسا معقول آدمی کیوں اس کی اتنی چاپلوسی کررہا ہے۔اسے یہ بھی الجھن تھی کہ نور محمد عباسی ان کا انتظار کررہا ہوگا۔دن بھی خاصا چڑھ آیا تھا۔مزید وقت برباد کرنا لاحاصل تھا۔ادھر ڈپٹی تھا کہ حاجی کو کلکاریاں مارنے کا ہر موقع فراہم کرنے پر تلا ہوا تھا۔

ثانی کے موبائل کی سکرین دوبارہ روشن ہوئی۔دوسری طرف نور محمد تھا۔اس وقت بات کرنا مناسب نہ جانتے ہوئے ثانی نے کال ریجیکٹ کرکے موبائل بند کردیا۔

باتیں باتیں اور باتیں۔

اکتادینے والی بیکار باتوں کا ڈھیر بڑھتا جارہا تھا۔تبھی ثانی نے موقع پاکر گلیات کے آدم خور کا تذکرہ چھیڑ دیا اور یہ بھی بتایا کہ سرکاری طور پر اسے اس آدم خور کو مارنے کا کام سونپا گیا ہے۔حاجی نے چونک کر اسے دیکھا۔اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور بردباری سی چھاگئی جو اس کی شخصیت سے قطعی میل نہیں کھارہی تھی۔ڈپٹی نے بھی کیو لیتے ہوئے بات آگے بڑھائی اور اس آدم خور کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خوف اور مزید انسانی جانوں کے اتلاف کا خدشہ ظاہر کیا اور اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر کوششیں کرنے کی بات کی۔خلاف توقع حاجی کی فراخ پیشانی پر ایک شکن ابھری اور اس نے سرسری سی ہوں ہاں کے بعد بات کا رخ موڑ دیا۔اس نے اچانک کسی یورپی ملک میں پیش آنے والی کوئی واردات بمع فضول جزویات کے ان کے گوش گذار کرنا شروع کردی۔ڈپٹی اور ثانی نے الجھی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور حاجی کی بے معنی باتوں میں زبردستی کی دلچسپی لینے لگے۔اسی حیض بیض میں باوردی ملازم نے اطلاع دی کہ ناشتہ لگ گیا۔ثانی نے کہنا چاہا کہ وہ ریسٹ ہائوس سے ناشتہ کرکے چلے تھے لیکن ڈپٹی نے آنکھ ٹکاتے ہوئے اسے چپ رہنے کا کہہ دیا۔ثانی نے گہری سانس لی۔یہاں جو کچھ ہورہا تھا اس کی توقع کے خلاف ہورہا تھا۔

ڈائننگ روم میں بھی دولت کی نمائش کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ایک وسیع و عریض ڈائننگ ٹیبل پرہلکے پھلکے ناشتے کے نام پر جانے کس کس نسل کے کھانے چن دئیے گئے تھے۔یہاں بھی ڈپٹی کی چاپلوسیوںاور حاجی کی جوابی بچگانہ کلکاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ناشتے پر دونوں نے پھر کوشش کی کہ باتوں کا رخ آدم خور کی جانب مڑ جائے لیکن اس بار بھی حاجی نے جھکائی دے کر وار خالی جانے دیا۔ثانی کیلئے یہ ازحد مایوس کن تھا۔اس نے میز کے نیچے سے ڈپٹی کا پائوں دبایا اور اسے اٹھ چلنے کا اشارہ کیا لیکن لگتا تھا کہ ڈپٹی پر بھی حاجی کی صحبت اثر انداز ہونا شروع ہوگئی ہے۔اس نے جواباً زیادہ زور سے ثانی کا پائوں دباتے ہوئے اسے کچھ کہنے کی کوشش کی جسے وہ نہ سمجھ پایا۔بددل سا ہوکرثانی نے خود کو اس صورتحال سے الگ رکھنے کا فیصلہ کرلیا ۔اس نے ایک سلائس پر ذرا سا مارجرین لگایا اور چائے کے ساتھ کترنے لگا۔حاجی کی جانب سے اسے اپنی بچگانہ گفتگو میں زبردستی انوالو وکیے جانے پر وہ یونہی ہوں ہاں کردیتا اور پھر اپنے سلائس کے ساتھ مصروف ہوجاتا ہے۔ایک موقع آیا جب حاجی مسرت سے بے قابو سا ہوگیا۔تب ڈپٹی نے دھیرے سے بات کا رخ اس کے نجی چڑیا گھر کی طرف موڑ دیا۔وہ ثانی سے مخاطب ہوکر اسے بتانے لگا کہ حاجی صاحب نے اپنے ذاتی چڑیا گھر میں کس کس ذات کے جانور جمع کررکھے ہیں۔

’’ذرا ہمیں بھی تو اپنے چڑیا گھر کے درشن کرادیجئے۔شکاری بچہ جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوجائے گا۔‘‘ ڈپٹی نے ثانی کی طرف دیکھ کر خوشامد میں لتھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔

اچانک حاجی کے چہرے پرپریشانی کے آثار ابھرے۔لگا وہ کسی کشمکش کا شکار ہوگیا ہے لیکن اگلے ہی لمحے اس نے کچھ سوچ کر آمادگی ظاہر کردی۔ثانی کو پنجروں میں بند جانور دیکھنے سے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی اور پھر دن بھی کھوٹا ہوا جارہا تھا۔ادھر ڈپٹی تھا کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی جانے کس چکر میں بچے کے ساتھ مل کر بچہ بنا ہوا تھا۔ثانی نے دیکھا کہ ڈپٹی کے لہجے میں پہلا سا جوش باقی نہیں رہا تھا لیکن پھر بھی وہ چڑیا گھر دیکھنے کی ایکسائٹمنٹ میں مبتلا تھا۔حاجی کے پیچھے پیچھے اس کے محل نما گھر کے پچھواڑے کی طرف جاتے ہوئے ڈپٹی نے گرم جوشی سے ثانی کا ہاتھ دباتے ہوئے اسے بھی اپنی ایکسائٹمنٹ میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن ثانی نے بے رخی سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔

حاجی کا چڑیا گھرپہاڑی کے عقبی دامن میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔جانوروں کے پنجرے ایک خاص ترتیب سے نصب کیے گئے تھے۔شروع کے حصے میں رنگ برنگ پرندوں کے پنجرے تھے۔ان کے قریب ہی ایک تالاب تھا جہاں سارس، کونجیں اور دیگر پانیوں کے متوالے پرندے تیراکی یا چہل قدمی میںمشغول تھے۔ان کے سامنے کے رخ چھوٹے جانوروں کے پرندے تھے۔تھوڑا آگے چل کر خالی قطعات تھے جنہیں بلند آہنی جالیوں کی مددسے ایک دوسرے سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ان قطعات کی کھلی فضا میں ہرن کی نسل کے کئی جانور، ریچھ، مار خور، زیبرے اور کئی دیگر جانور موجود تھے۔

حاجی نثار عباسی اصیل مرغے کی طرح گردن تانے آگے چلتے ہوئے انہیں ایک ایک جانور سے متعارف کرارہا تھا۔چلتے ہوئے شیر کی دھاڑ نے ان کا استقبال کیا۔

’’آگئے بھئی آگئے، پریشان کیوں ہوتے ہو؟‘‘۔حاجی نے خوش مزاجی سے دھاڑنے والے شیر کو اپنی آمد کی خوشخبری سنائی۔

وہ ایک چٹان کے پہلو کے ساتھ مڑے تو ان کے سامنے آہنی جالیوں کی دیواروں میں تقسیم کچھ اور قطعات تھے۔انہوں نے ایک ایک پارٹیشن میں جاکر دیکھا ۔وہاں شیر،شیرنیاں، چیتے اور لگڑ بگڑ اپنے کشادہ قید خانوں میں گھوم رہے تھے۔ایک تربیت یافتہ ملازم ایک ایک پنجرے میں جاکر ان کے لنچ کیلئے گوشت کے بڑے بڑے پارچے رکھ رہا تھا

’’ویسے ایک بات ماننے کی ہے۔‘‘ ڈپٹی کا روئے سخن ثانی کی طرف تھا۔’’حاجی صاحب کمال کے آدمی ہیں۔ان کے ذاتی چڑیا گھر میں جتنی بائیو ڈائیورسٹی ہے اتنی تو ایوبیہ نیشنل پارک میں بھی نہیں۔کیوں حاجی صاحب! ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں!‘‘۔

حاجی اس فراخدلانہ چاپلوسی پر اس بری طرح شرمایا کہ ثانی کو گھن آگئی۔ڈپٹی نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے رازدارانہ لہجے میں حاجی سے کہا۔

’’حاجی صاحب! وہ خاص چیز تو دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘

’’خاص چیز؟‘‘ حاجی نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’وہی دو قیمتی نگ جو مشکپوری کے قریب ایوبیہ نیشنل پارک کے جنگل میں آپ کے ہاتھ لگے تھے۔‘‘

’’اوہ! اچھا وہ؟‘‘ حاجی باریک آواز میں ہنسا اور دیر تک تالیاں بجاتے ہوئے ہنستا رہا۔’’ہاں ہاں! کیوں نہیں۔اس آخری والی پارٹیشن میں جھانک کر دیکھ لیجئے۔‘‘

ڈپٹی نے ثانی کا ہاتھ تھاما اور اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے آخری پارٹیشن کی طرف لے چلا۔

پارٹیشن میں ثانی نے دیکھا کہ دو گل گوتھنے سے گلداربچے مئی کی نرم تازہ دھوپ میں اونگھ رہے تھے۔حاجی نے ملازم کو اشارہ کیا تو وہ گوشت لے کر آگیا اور انہیں ششکار کر گوشت کے چند بڑے بڑے ٹکڑے ان کے آگے ڈال دئیے۔دونوں شاید دیر سے بھوکے تھے کہ بے تابی سے گوشت پر جھپٹے اور ایک دوسرے کے ساتھ چھینا جھپٹی میں مصروف ہوگئے۔ثانی جو جم کاربٹ کی طرح سنہری بدن اور سیاہ گلابوں جیسے دھبوںوالی اس نوع کا عاشق زار تھا مبہوت ہوکر انہیں دیکھتا رہا۔ڈپٹی نے حاجی سے اجازت چاہی کہ وہ ان گلداربچوں کی کچھ تصویریں بنالے۔حاجی نے کچھ سوچا اور پھر جانے کس موڈ میں اس نے اجازت دے دی جس پر ڈپٹی نے اپنے موبائل کیمرے سے ان نٹ کھٹ گلداروں کی مختلف زاویوں سے تصویریں بنالیں۔

’’میرا تو خیال تھا کہ ایوبیہ نیشنل پارک ایک پروٹیکٹیڈ ایریا ہے اور وہاں شکار کرنا اور جانوروں کو زندہ پکڑنا قابل سزا جرم ہے!؟۔‘‘ثانی نے حاجی کو غور سے دیکھتے ہوئے ڈپٹی سے پوچھا۔

ثانی کی اس کھلی جارحیت پر حاجی کا  چہرہ غصے سے سرخ ہوگیالیکن ڈپٹی نے قہقہہ لگاتے ہوئے صورتحال کو سنبھال لیا۔

’’ارے بھائی! آپ بھی بھولے بادشاہ ہو ۔قانون حاجی صاحب کے آگے کیا بیچتا ہے۔حاجی صاحب تو شیر ہیں شیر۔اب ان کی مرضی انڈہ دیں یا بچہ دیں۔کیوں حاجی صاحب؟‘‘

اس خوشامد نے حاجی پر فوری اثر کیا اور وہ اسی طرح دانت نکال کر کھکھیانے لگا۔

’’لیکن برادر! انڈہ یا بچے دینے کیلئے شیر نہیں شیرنی ہونا ضروری ہے۔‘‘اس نے اپنی ٹھنڈی جگت پر ہنستے ہوئے تالی بجا کر خود کو داد دی۔

’’میرا خیال ہے اب چلا جائے۔‘‘ثانی نے یہ کہتے ہوئے گہری نظر ڈال کر ڈپٹی کو کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔

’’اوہ! ہاں ضرور۔‘‘ڈپٹی نے ایڑھیوں کے بل گھومتے ہوئے کہا۔

دھلی دھلائی بجری سے مزین ڈرائیو وے پر واپس آتے ہوئے ڈپٹی نے حاجی کے ساتھ آدم خور کے شکار اور مقامی لوگوں کی توہم پرستی  کی بات چھیڑ دی۔حاجی کچھ سوچ میں پڑگیا اور پھر اپنے بھاری بھرکم ہاتھوں سے ثانی کے کندھے کو دباتے ہوئے اپنی منحنی آواز میں معنی خیزی بھرتے ہوئے گویا ہوا۔

’’میری مانیں تو اس آدم خور وغیرہ کو بھول جائیں۔بہتر ہے کہ دوچار دن میری مہمان نوازی سے لطف اٹھائیں۔خوب گھومیں پھریں دھوم مچائیں۔‘‘

ڈپٹی اور ثانی دونوں کیلئے یہ بات سخت غیر متوقع تھی۔حاجی نے پہلے بھی اس موضوع پر آنے سے گریز کیا تھا اور اب تو اس انتہائی حساس موضوع کوقابل بحث سمجھنے سے بھی انکاری ہوگیا تھا۔ڈپٹی کھسیانا سا ہو سرکھجانے لگا۔ثانی نے مایوسی سے سرجھٹکا۔

’’لیکن حاجی صاحب! آپ جانتے ہیں کہ۔۔۔‘‘ثانی نے اس کا ہاتھ کندھوں سے ہٹاتے ہوئے کہنا چاہا لیکن حاجی نے اس کی بات درمیان میں اچک لی۔

’’ جانتا ہوں تبھی تو کہہ رہا ہوں۔‘‘

دونوں نے اس کی طرف الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

’’دیکھیں آپ نہیں جانتے یہاں کے لوگوں کو۔سخت مذہبی اور توہم پرست ہیں۔انہوں نے اس بدروح میرا مطلب اس آدم خور کو بھگانے کا کام ایک بہت پہنچے ہوئے بزرگ پیر بادشاہ کے سپرد کردیا ہے۔‘‘

دونوں نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔

’’لیکن ایک جانور پر کوئی الٹا سیدھا عمل کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے؟‘‘ڈپٹی نے حجت پیش کی۔

’’حاجی صاحب! ہزاروں انسانی زندگیوں کو کسی جاہل مطلق پیر بادشاہ پر چھوڑدینا جہالت کی انتہا ہے۔‘‘ ثانی نے اپنی مایوسی اور غصے کو دباتے ہوئے کہا۔

پیر بادشاہ کی شان میں اس صریح گستاخی پر حاجی کے چہرے پر بل پڑے لیکن فوراً ہی اس نے اپنے تاثرات چھپالیے۔

’’بس جی کیا کریںیہاں ہر کوئی مرضی والا ہے۔‘‘حاجی نے لاتعلق سے لہجے میں کہا۔

’’لیکن حاجی صاحب ! آپ تو جہاں دیدہ آدمی ہیں۔کچھ آپ نے ہی لوگوں کو سمجھایا ہوتا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ آپ کی مرضی کے خلاف چلیں؟‘‘ڈپٹی نے کہا۔

’’ڈپٹی صاحب! توہم پرستی کی دیوار کے ساتھ کوئی پاگل ہی سر پھوڑ سکتا ہے اور میں بہرحال پاگل نہیں ہوں۔‘‘ وہ ہی ہی کرکے ہنسا۔اس کی بے محل ہنسی دونوں کو ناگوار گذری۔

’’لیکن یہ توہم پرستی نہیں سراسر دیوانگی ہے اور اس دیوانگی کا ساتھ دینے کا مطلب لوگوں کے قتل میں معاونت کرنا ہے۔‘‘ثانی کیلئے اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہورہا تھا۔

حاجی آسمان پر تیرتے پرندوں کا نظارہ کرتے ہوئے ایک جھٹکے سے ثانی کی طرف مڑا ۔کچھ دیر سفاک نظروں سے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور پھر اچانک تالیاں پیٹتے ہوئے اپنا مخصوص بچگانہ قہقہہ لگایا۔دونوں مہمانوں نے اپنے عجیب و غریب مہمان کو الجھن سے دیکھا۔ہنسی کا دورہ تھمنے پر حاجی نے کٹیلے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’دیکھو جی شکاری صاحب! تم نہیں جانتے کہ میں عوامی آدمی ہوں۔اپنے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانا میری مجبوری ہے۔۔۔‘‘

’’لیکن حاجی صاحب۔۔۔‘‘ ثانی نے کچھ کہنا چاہتا تو ہاتھ کے ایک غصیلے لہرئیے میں اس نے ثانی کو روک دیا۔

’’اور پھر غلط کیا ہے؟۔وہ بدروح ہی تو ہے۔میں خود مانتا ہوں۔‘‘

اچانک حاجی ایڑھیوںپر گھوما اور کچھ کہے سنے بغیر چلتا بنا۔دونوں مہمانوں نے بھی گہری سانس چھوڑتے ہوئے تنائو کو کم کرنے کی کوشش کی اور جیپ میں سوار ہوگئے۔

جیب تھکی تھکائی رفتار سے پھسلتی ہوئی ڈھلوان سے نیچے اتر رہی تھی۔ڈپٹی نے ایک موڑ پر سٹیرنگ گھماتے ہوئے ثانی کے ستے ہوئے چہرے کو دیکھا اور اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔

’’لگتا ہے میرا دوست مجھ سے ناراض ہے۔‘‘

ثانی ہونٹ بھینچے باہر جھانکتا رہا۔

’’تمہیں ناراض ہونا بھی چاہیے۔میں خود اپنے آپ سے سخت ناراض ہوں۔کاتب تقدیر نے میرے کوٹے میں جتنی خوشامد لکھی تھی ساری کی ساری میںنے ایک ہی دن میں خرچ کردی۔‘‘

’’لیکن کیوں؟۔۔۔آخر کیا ضرورت تھی ایک بیہودہ آدمی کے سامنے بچھ بچھ جانے کی ؟‘‘

’’مجھے توقع تھی کہ اگر ہم نے حاجی کو شیشے میں اتار لیا تو ہمیں مقامی آبادی کا تعاون حاصل ہوسکے گا۔لیکن افسوس!۔۔۔اور پھر ایک وجہ اور بھی تھی۔‘‘ڈپٹی نے ڈیش بورڈ پر پڑا موبائل اس کی طرف بڑھادیا۔’’اس کی پکچر گیلری میں دیکھ لو۔‘‘

ثانی نے کچھ نہ سمجھتے ہو موبائل کی پکچر گیلری کو کلک کیا تو وہاں حاجی کے چڑیا گھر میں قید دونوں گلدار بچوں کی تصاویر تھیں۔ثانی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ڈپٹی گویا ہوا۔

’’یہ شخص ایک چھوٹا موٹا مافیا ڈان ہے۔ٹمبر مافیا سے شکار مافیا تک اس کی غارت گری کا سلسلہ دراز ہے۔اس کا آزاد پھرنا گلیات کے حسن اور اس کی جنگلی حیات کیلئے تباہی کا پیغام ہے۔‘‘

’’کیا بگاڑ لو گے تم اس کا۔اور یہ تصویریں کس کام آئیں گی؟‘‘

’’میرا سارا ڈوم پن انہی تصاویر کیلئے تھا۔حاجی نے چڑیا گھر مخصوص ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی دل لگی کیلئے بنا رکھا ہے۔ مجھ جیسوں کو تو وہ قریب نہ پھٹکنے دے۔دوسری طرف میں ہر ممکن طرح سے ان تصاویر کو حاصل کرنا چاہتا تھاتاکہ اس کے خلاف میری فائل مضبوط ہوجائے۔‘‘

’’تمہاری عظمت کو سلام لیکن ساڑھے چھ فٹ کا یہ بچہ ان لوگوں میں سے ہے کہ کوئی فائل ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔تم نے یونہی بیکار کی کھکھیڑ کی۔کچھ نہیں بگاڑ سکو گے اس کا‘‘۔

ڈپٹی نے جیب کو ایک سائیڈ پر لگادیا اور ایک جوش کے ساتھ اپنے کیس کو بیان کرنے لگا۔

’’دیکھو، جنگلات میری جیورسڈکشن میں ہیں۔یہاں پتا بھی ہلے تو میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ان جنگلات میں انسان اور جنگلی حیات صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کررہتے آئے ہیں۔ان کے درمیان تلخ و شیریں تعلقات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ جنگلات کی کٹائی اور یہاں پر انسانی تعمیرات کے پھیلائو کے نتیجے میں یہاں گلدارکیلئے شکار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور یہ بھوک سے بے تاب ہوکر دیہات میں دھاوا بولتے رہتے ہیں۔یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی گلدار نے بلاوجہ انسانوں پر حملہ کرنے کی جرات کی ہو۔پوچھو کیوں؟‘‘

ثانی اس کے جوشیلے انداز پر ہنس پڑا۔’’پوچھنے کی ضرورت نہیں۔میں لیپرڈ آئی مین گلدار کی نفسیات تم سے زیادہ جانتا ہوں۔یہ کہ اس  جیسا خونخوار اور سفاک درندہ انسان کے سامنے آکر بکری بن جاتا ہے۔ا س کے دماغ کے کسی گوشے میں ازل سے انسان کا خوف چھپ کر بیٹھا ہواہے۔ جونہی دو پائوں پر چلتے اس جانور سے اس کا سامنا ہوتا ہے یہ راستہ بدل لیتا ہے۔اتنا کافی ہے یا اور بتائوں؟‘‘۔

’’گڈ!تو پھر ایسا کیا ہوا کہ اس کا خوف نفرت میں بدل گیااور یوں بدلا کہ اس نے آدم خوری کو اپنا کسب بنالیا؟‘‘۔

ثانی ایک گہری ’’ہوں‘‘ کے ساتھ سو چ میں پڑگیا۔

’’میں نے جب کھوج لگانا شروع کیا تو ایک عجیب اتفاق سے میرا سامنا ہوا۔گلیات کے جنگل میں آدم خوری کا پہلا واقعہ پیش آنے سے صرف چند روز پہلے مشکپوری کے نواح میں کچھ لوگوں نے ایک مادہ چیتے کو گولی مار کر زخمی کردیاتھا اور پھر اس کے دو کمسن بچوں کو اغوا کرکے لے گئے تھے۔میری اطلاع کے مطابق وہ حاجی نثار عباسی کے آدمی تھے۔اگر یہ سچ تھا تو ضرور ان گلداربچوں کو حاجی کے ذاتی چڑیا گھر میں ہونا چاہیے تھا۔‘‘

’’تمہارا مطلب ہے کہ۔۔۔اوہ مائی گاڈ!یعنی یہ کہ حاجی نثار عباسی ان ہلاکتوں کا واحد ذمہ دار ہے جو ہوچکی ہیں اور جو ہونا باقی ہیں۔‘‘

’’اگر میں حاجی پر ہاتھ نہ ڈال سکا تو میں بھی نوکری کا دھندہ چھوڑ شکار کھیلا کروں گا‘‘۔

’’یعنی؟‘‘

’’ان درندوں کا شکار جو قانون سے پہنچ سے ہمیش اونچے رہتے ہیں‘‘۔

’’بکو مت‘‘۔اچانک ثانی کو کچھ خیال آیا۔اس نے جیب سے موبائل فون نکال کر اسے آن کیا تو دیکھا کہ نورمحمد کی بہت سی بے تاب مس کالیں موجود تھیں۔’’سوری فار نور محمد ۔بیچارہ دیر سے کال پر کال کیے جارہا ہے۔‘‘

ڈپٹی نے اگنیشن میں چابی گھمائی اور جیپ اپنے پیچھے دھول کا مرغولہ چھوڑتی تیزی سے ڈھلوان سے پھسلنے لگی۔

نور محمد بڑی سڑک کے سنگم پر ان کا منتظر تھا۔وہ  اس کے پاس سے ہوکر نکل گئے پھر بیک ویو مرر میں اسے بازو لہراتے ہوئے دیکھا تو ڈپٹی نے گاڑی ریورس کی اور اس کے پاس جاکر بریک لگادی۔

’’ارے نور محمد!تم کب سے یہاں کھڑے ہو؟‘‘ثانی نے تعجب سے پوچھا۔

’’بہت دیر سے صاب! میں نے بہت سی کالیں کی لیکن آپ کا فون بند جارہا تھا‘‘۔نور محمد نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔

’’سوری یار! بس ایویں ای دیر ہوگئی۔لیکن تمہیں کیسے معلوم تھا کہ ہم اوپر پہاڑی پرہیں؟‘‘

’’یونہی میرا اندازہ تھا‘‘۔

چلو آئو بیٹھو ۔اب ہم صرف تمہاری ڈسپوزل پر ہیں۔‘‘

راستے میں حاجی کا تذکرہ چھڑا توجیسے اس کے منہ میں کڑواہٹ گھل گئی ہو۔

’’آپ نہیں جانتے صاحب! یہ حاجی ایک فتنہ ہے۔اسی نے بدروح کا شوشہ چھوڑرکھا ہے اور پیر بادشاہ تو خاص اس کا مرشد ہے۔اس کے ذریعے تو وہ اس علاقے پر حکومت کرتا ہے‘‘۔

’’لیکن بدروح کا شوشہ چھوڑنے کا مقصد؟‘‘۔

’’پتا نہیں صاب! لیکن اس کے دماغ میں یہ خناس گھسا ہواہے کہ لوگ صرف اس کے دماغ سے سوچیں اور اس کی آنکھوں سے دیکھیں۔‘‘

’’اور تم؟‘‘

’’میں صرف انتقام ہوں صاب!وہ بدروح ہے یا کچھ اور مجھے اس سے اپنی گلابے کا انتقام لینا ہے اور بس!‘‘

’’نور محمد! ہمارے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں ہے لیکن اس سے پہلے تمہاری سالی آئی مین تمہاری کزن سے ملنا پڑے گا۔میں چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ موقع پر چل کر حادثے کی تفصیل بتائے‘‘۔

نور محمد کچھ دیر کیلئے خاموش ہوگیا اور پھر گویا ہوا۔

’’بہت مشکل ہے صاب! اپنی بہن کی موت پر اسے چپ سی لگ گئی ہے اور پھر وہ اپنے حواسوں میں بھی نہیں ہے‘‘۔

ثانی نے اس کا کندھا دبا کر ہمدردی کا اظہار کیا۔

’’اور پھر ایک اوربات بھی ہے صاب! کہ میرا چاچا اسے آپ کے سامنے نہیں آنے دے گا‘‘۔

ثانی کوپسماندہ پہاڑی علاقوں میں پردے کے جبر کا اندازہ تھا لیکن ایسا بھی کیا جبرکہ اس آڑ میں اپنے مدد گار کی مدد نہ کی جائے۔

’’تمہیں کچھ کرنا پڑے گا نور محمد!‘‘ثانی نے قطعی لہجے میں کہا۔

’’ٹھیک ہے صاب! کوشش کرتا ہوں۔چلیں پہلے چاچے کے گھر چلتے ہیں‘‘۔

راستے میں بازار پڑا تو دیکھا کہ عجب سماں تھا۔ڈونگا گلی کے چھوٹے سے لاری اڈے کے آس پاس دور تک ہر قسم کی گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی تھیں۔یہ گاڑیاں کہیں نہیں جارہی تھیں ۔اپنے غراتے ہوئے اور دھواں چھوڑتے ہوئے انجنوں کے ساتھ ایک دوسرے میں پھنسی جہاں تہاں ساکت کھڑی تھیں۔ان میں انٹر سٹی چلنے والی بڑی ائرکنڈیشنڈ کوچز اور بسیں بھی تھیں اور راولپنڈی یا ایبٹ آباد کی طرف جانے والی ویگنیں بھی تھیں۔ساتھ ہی سوزوکی پک اپ اور ٹیکسیاں بھی تھیں اور پرائیویٹ کاریں بھی تھیں۔پرائیویٹ کاروں میں تو خیر فیملیاں تھیں لیکن دوسری تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح بندے ٹھنسے ہوئے تھے۔گاڑیوں کی چھتوں پر ڈھیروں ڈھیر سامان بندھا ہوا تھا اور اس سامان کے درمیان میں مسافر پھنس پھنسا کر بیٹھے ہوئے تھے۔یہ وہ تھے جنہیں گاڑیوں کے اندر بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی عیاشی میسر نہ آسکی تھی۔جو جہاںسما سکاسما گیا اور یوں سمایا کہ کوئی چاہے بھی تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔جہاں کسی کا بازو ختم ہوتا تھا وہاں کسی اور کی ٹانگ کی آئینی حدود شروع ہوجاتی تھیں۔لوگ صرف گاڑیوں میں نہیںگاڑیوں کے باہر بھی ایک دوسرے کے ساتھ پھنسے پھنسائے ایک ایمرجنسی کی سی حالت میں آجارہے تھے۔ان سب کی بدن بولی سے سراسیمگی اور خوف عیاں تھا۔

انہوں نے چند گھنٹے پہلے صبح سویرے جن فضائو ں میں سکون اور خاموشی کو براجے ہوئے دیکھا تھا اب وہاں گاڑیوں کے بے تاب اور غصیلے ہارنوں کے باعث کا ن پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔اس کے ساتھ ہی مختلف طرح کی آوازوں کا ایک عذابناک امتزاج وہاں ٹھونس ٹھونس کر بھرا ہوا تھا۔ان آوازوں میں ٹریفک پولیس اور تھانے کی پولیس کے اہلکاروں کی سیٹیاں بھی شامل تھیں۔پولیس اور انتظامیہ والے ایک بیچارگی کے عالم میں اس بے ہنگم ہجوم کو ان آرڈر رکھنے کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔اس ہجوم کو فراز کوہ سے دیکھا جائے تو یوں لگے جیسے ابھی ابھی ان لوگوں کو قیامت کے آنے کی خبر ملی ہے اور یہ لوگ بھاگ کر کسی ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں جو قیامت کی رسائی سے دور ہو۔

ان کے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ لوگ ایک دوسرے پر چیختے چلاتے ہوئے آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔بسوں اور گاڑیوں میں ٹھنسے لوگ کھڑکیوں سے سر نکال کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم ان کی طرف لپکا۔کچھ لوگ انہیں چھڑوانا چاہتے تھے جبکہ باقی کا مقصدمحض ذوق تماشا کی تسکین تھا۔کچھ پولیس والے بھی تھے جو سیٹیاں بجاتے اور ڈنڈے لہراتے ہجوم میں سے راستہ بناتے ہوئے اس واٹر لو تک پہنچنے کیلئے کوشاں تھے۔

’’مائی گاڈ!‘‘۔ ثانی اس Medening Crowd کو دیکھ دیکھ پریشان ہوا جارہا تھا۔

کچھ دیر پہلے تک تو ایسا کچھ نہیں تھا۔اب یکایک ایسی کیا افتاد پڑگئی تھی؟۔یہ سوال اپنی آنکھوں میں لیے ایک دوسرے کی طرف ایک ہونق پن سے دیکھ رہے تھے۔وہ ابھی تک ہجوم کا حصہ نہیں بنے تھے۔

’’کچھ دیرپہلے جب میں یہاں سے گذرا تھا تو ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوچکا تھا۔گاڑیاں ایک دوسری سے آگے نکلنے کیلئے کوشش کررہی تھیں لیکن اس وقت تک ٹریفک جیم نہیں ہوئی تھی۔کل سے یونہی ہورہاہے ‘‘۔ نور محمد نے انہیں اطلاع دی۔

’’آخر اچانک ایسی کیا مصیبت آن پڑی ہے ان لوگوں پر؟‘‘۔ثانی نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں پوچھا۔

’’بدروح‘‘۔ نور محمد نے مختصر سا جواب دیا۔

’’بدروح؟‘‘ڈپٹی نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھا۔

’’ہاں! وہی کم بخت بدروح۔یہاں صبح سے مسجدوں کے لائوڈ سپیکروں اور میگا فونز پر اعلان کیے جارہے ہیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کسی وقت بدروح یہاں حملہ آور ہونے والی ہے۔جس جس کو اپنی جان عزیز ہے وہ شام سے پہلے یہاں سے نکل جائے۔‘‘

’’واقعی؟۔۔۔اور لوگ اس بات کو سچ مان کر یہاں سے نکلنا شروع ہورہے ہیں!؟‘‘۔ ڈپٹی نے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا۔

’’ہاں صاب! پہلے اسی طرح کے اعلان کرکے سیاحوں کو یہاں سے نکالا گیا۔اب مقامی آبادی سے بھی علاقے کو خالی کرایا جارہا ہے۔‘‘

’’یہ تو سیدھا سیدھا لا ء اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔اس پر ایکشن ہونا چاہیے۔‘‘

ثانی نے ایک گہری سانس لی۔’’اسی سے سمجھ لو کہ حاجی اور اس کے گرگوں کی پراپیگنڈہ پاور کس قدر زیادہ ہے‘‘۔

’’نہیں، نیم خواندہ حاجی کیا اور اس کی اوقات کیا۔یہ وہ توہم پرستی ہے جس نے صدیوں سے تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے شکار اس علاقے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے‘‘۔ڈپٹی نے تاسف سے اپنا سر سیٹ پر ٹکاتے ہوئے کہا۔’’یہ ہے وہ پسماندگی جو اس ملک کے ہر حصے میں راج کررہی ہے اور یہ وہ چیز ہے جو ہمارے حکمران طبقے نے بڑی محنتوں سے ہم پر مسلط کی ہے۔‘‘

’’دوست! تم تو اچھے خاصے سوشل سائنٹسٹ ہو‘‘۔ثانی نے ایک بے جان قہقہہ لگاتے ہوئے خود پر چھاتی جھنجھلاہٹ کو جھٹکنے کی کوشش کی۔

’’ملاحظہ کرو کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور بد روح کے خوف سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔مائی فٹ!!‘‘ڈپٹی بڑبڑایا۔

’’تم نے بتایا تھا کہ سب کے سب سیاح یہاں سے پہلے ہی جاچکے ہیں!‘‘۔ ثانی نے نور محمد سے استفسار کیا۔

’’ہاں صاب! لیکن ابھی تک بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔اور صرف سیاح ہی نہیں ہوٹلوں والے، دکاندار، مزدور پیشہ لوگ اور بہت سے مقامی لوگ بھی جن کے راولپنڈی یا ایبٹ آباد وغیرہ میں اپنے گھر ہیں یا وہاں ان کے رشتہ دار رہتے ہیں۔یہ سب لوگ یہاں سے نکلنے کی جلدی میں ہیں۔‘‘

’’باقی رہ جائیں گے وہ لوگ جن کیلئے کوئی جائے فرار نہیں۔اب وہ جانیں اور عزیزہ بدروح سلمہ جانے‘‘۔ڈپٹی نے ونڈ سکرین کے پار گھورتے ہوئے کہا۔

’’بہر طور اب ہم کیا کریں؟‘‘ثانی نے بے ہنگم ہجوم پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔

’’کوئی متبادل راستہ تو ہوگا تمہارے چاچے کے گھر کا؟‘‘ ڈپٹی نے پوچھا۔

’’ہے تو سہی لیکن ہمیں تین چار کلومیٹر واپس جانا پڑے گا ۔حاجی کی پہاڑی سے تھوڑا آگے نکل کر مغرب کی طرف سے ہوکر ایک مشکل ساراستہ جاتا تو ہے۔‘‘نور محمد نے جواب دیا۔’’بہتر ہے جیپ میں چلائوں۔آپ کیلئے وہ راستہ ذرا مشکل ہوگا۔‘‘

’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘۔ڈپٹی نے ڈرائیونگ سیٹ نور محمد کیلئے خالی کردی۔نور محمد نے گاڑی گیئر میں ڈالی اور جیپ ایک تیز موڑ کاٹ کر دھول پتھر اڑاتی واپس روانہ ہوگئی۔

انہیں سکون کا ایک آدھ فرلانگ ہی میسر ہوا ہوگاکہ ان کی جیپ فراٹے بھرنا بھول گئی۔دوسری سمت سے پچاس سو آدمیوں کا ایک جلوس نمودار ہوا اور ان کے راستے میں حائل ہوگیا۔ان کے آگے آگے کچھ لوگ ایک سبز چادر کو چاروں کونوں سے پکڑے چل رہے تھے۔ چادر کے چاروں کناروں پر گوٹے کی چوڑی پٹی تھی جبکہ درمیان میں سرخ اور سنہرے دھاگوں سے کچھ مذہبی علامات کڑھی ہوئی تھیں۔چادر والوں کے پیچھے دو ڈھولچی بڑے بڑے ڈھول گلے میں ڈالے ایک مخصوص خون گرمانے والی تھاپ پر انہیں بجائے جارہے تھے۔ان کے پیچھے ایک قطار میں کچھ لوگوں نے سبز اور سیاہ رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔باقی جو لوگ تھے۔۔۔ جن میں زیادہ تر چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے مرد اور چھوٹے بچے تھے۔۔۔وہ ڈھول کی تھاپ پر دھمال اور بھنگڑے کے بین بین کوئی بے ڈھنگا سا ناچ ناچتے ہوئے بے حال ہوئے جارہے تھے۔

’’اب یہ کیا سلسلہ ہے بھائی!؟‘‘ ثانی نے تقریباً روتے ہوئے دہائی دی۔

’’یہ پیر بادشاہ کی ڈالی ہے‘‘۔نور محمد نے رسان سے کہا۔

’’ایں۔۔۔!؟‘‘

’’تم مغربی ملکوں میں رہتے رہتے شاید یہاں کے ثقافتی رنگوں کو بھول چکے ہو ‘‘۔ڈپٹی نے موقع غنیمت جانا کر ثانی کے علم میں اضافہ کرنا شروع کیا۔’’پورے ملک میں جہاں پیر پرستی عام ہے وہاں پیر کے نام کی ڈالیاں نکالی جاتی ہیں۔یہ جو چادر تم دیکھ رہے ہو یہ ایک طرح سے کیش رجسٹر ہے۔جہاں جہاں سے ڈالی گذرتی ہے لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی توفیق کے مطابق اس میں کرنسی نوٹ ڈالتے ہیں۔تم یہ سمجھ لو کہ یہ ایک طرح کارضاکارانہ ٹیکس ہے جو پیر یا گدی نشین عقیدت مندوں سے وصول کرتے ہیں۔جب کسی درگاہ پر ہونے والے عرس کی تاریخ قریب آتی ہے تو یہ ڈالیاں عام گھومتی دکھائی دیتی ہیں‘‘۔

’’لیکن صاب! ہمارے پیر بادشاہ کا ٹیکس رضاکارانہ نہیں ہوتا۔اس کی ڈالی ہر گھر اور ہر دکان یا ہوٹل وغیرہ کا رخ کرتی ہے اور لوگوں کو ہر صورت ایک بڑی رقم اس چادر میں ڈالنا ہوتی ہے‘‘۔نور محمد نے کہا۔

’’اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو؟‘‘ثانی نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

’’تو اس شخص یا گھرانے پر کوئی نہ کوئی عذاب ضرور نازل ہوتا ہے‘‘۔

’’عذاب؟‘‘

’’ہاں صاب! عذاب۔اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہوجاتا ہے۔کبھی چوری کی واردات ہوجاتی ہے اور کبھی اچانک آگ لگ جاتی ہے اس کے گھر میں‘‘۔

ثانی کے منہ سے بے اختیار سیٹی نکل گئی۔

’’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ شخص اندھیرے اجالے کسی سنسان جگہ سے گذر رہا ہو تو اچانک جنات اس پر چادر ڈال کر اسے مارمار کرادھ موا  کردیں۔

بے یقینی کے مارے ثانی کا منہ کھل گیا۔"Is it so?"

’’ہاں!‘‘ نور محمد کی بجائے ڈپٹی نے جواب دیا۔’’اسی سے تم پیر بادشاہوں کی طاقت اور ان کے لمبے ہاتھوں کا اندازہ کرلو‘‘۔

’’صاب! آج یا کل میں پیر بادشاہ میرے چاچے کے گھر بھی آئے گا دعا کیلئے۔‘‘نور محمد گویا ہوا۔

’’مطلب تمہاری منکوحہ کیلئے دعائے خیر کرنے؟‘‘ ڈپٹی نے پوچھا۔

’’نہیں صاب!وہ بدروح کو ہمارے گھرانے سے دو ر رکھنے کیلئے دعا کرے گا۔پتا نہیں میرے چاچے کو کیا کچھ بیچنا پڑے گااس دعا کی قیمت ادا کرنے کیلئے‘‘۔

دونوں نے نا سمجھنے والے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

’’صاب! اس کی دعا بہت مہنگی پڑتی ہے۔جس گھر میں یہ پیر آتا ہے انہیں منہ مانگا نذرانہ دینا پڑتا ہے۔اور پھر صاب! اس کے ساتھ بہت سے مرید بھی ہوتے ہیں جو بہت کھاتے ہیں۔نرا اجاڑا ہیں وہ لوگ۔‘‘

ثانی کو ایک جھرجھری سی آگئی۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن پھر منہ بند کرلیا۔پیر کی ڈالی اب ان کے سر پر چڑھ آئی تھی۔چادر اٹھائے لوگوں نے استفہامیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا اور انہوں نے بلا حیل و حجت چادر میں سو سو کے چند نوٹ ڈال دئیے۔ڈالی آگے بڑھ گئی تو ان کی جیپ کا انجن بھی جاگ اٹھا۔

کچے پکے پہاڑی راستوں سے گذرتے ہوئے وہ ایک غریبانہ سی آبادی میں جانکلے۔پختہ سڑک سے گذرتے ہوئے نورمحمد نے بہت نیچے موجود ایک کچے اور تنگ راستے کی طرف اشارہ کیا توڈپٹی نے ایک موڑ کاٹتے ہوئے پختہ سڑک چھوڑ کر اس کچے راستے پر جیب ڈال دی۔ ثانی نے دیکھا کہ دیگر پہاڑی علاقوں کی طرح یہاں بھی ناہموار زمین کے باعث مکانات کی قطاریں اس بین ترتیب میں نہیں تھیں جیسی میدانی

علاقوں میں دکھائی دیتی ہے۔ڈونگا گلی یوں بھی پہاڑ کے ڈھلوان پر آباد ہے۔یوں اکثر رہائشی مکانات افقی کی بجائے عمودی ترتیب میں بنے ہوئے تھے۔جیپ چار چھ گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بند گلی کے قریب آکر رکی۔اس گلی کے تمام گھر بھی علاقے کے زیادہ تر غریب گھروں کی طرح بے ڈھب پتھروں کو جوڑ کر بنائے گئے تھے۔یہاں پرانے بنے ہوئے گھر زیادہ تر ایک ہی نقشے اور طرز تعمیر کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔سامنے کے رخ کچا صحن اور اس کے پیچھے دو یا تین اونچی چھت کے کمرے۔پتھروں کو اوپر نیچے رکھ کر بنائی گئی مضبوط دیواروں میں لکڑی کی گیلیاں چن کر انہیں زلزلہ پروف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان گھروں کی ایک منفرد خصوصیت کچے صحن کی موجودگی ہے ۔یہاں بھی کشادہ کچے صحنوں میں پھلدار درخت کچے پکے موسمی پھلوں سے لدے دکھائی گلی میں جھانک رہے تھے۔انہوں نے جیپ وہیں چھوڑی اور پیدل بند گلی میں داخل ہوگئے۔نور محمد انہیں بیٹھنے کا کہہ کر خود گھر کے اندر چلا گیا۔

سوگ والے گھر کے باہر اور گھر کے اندر پُرسے کیلئے آئے لوگوں کا ایک ہجوم جمع تھا۔ماحول میں رچی سوگ کی مخصوص بوجھلتا اور باتوں کی دبی دبی سی بھنبھناہٹ نے سارے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ماحول پر چھائے سکوت میں اندر سے آنے والی بین کی دبی دبی آوازیں کرب کے رنگ گھول رہی تھیں۔ پہاڑی باشندوں کے ہجوم میں وہ خود کو الجھن کی حد تک اجنبی محسوس کررہے تھے۔ان کے لباس اور وضع قطع انہیں دوسروں سے نمایاں کررہے تھے۔زیادہ الجھن کی بات یہ تھی کہ اتنے بہت سے لوگوں میں وہی تھے جو سوگوار ماحول کا حصہ نہیں تھے۔ صرف وہی تھے جو کسی کو جانتے تھے نہ کوئی انہیں جانتا تھا۔انہوں نے وہاں پہنچ کر سلام کیا تو چند لوگوں نے گردن گھما کر انہیں لاتعلق نظروں سے دیکھا اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔انہوں نے ایک خالی چارپائی دیکھی تو اسے گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ لگایا اور اس پر ٹک گئے۔

خاصے انتظار کے بعد نور محمد نے اپنی جھلک دکھلائی۔اس کے ساتھ تین چار بڑی عمر کے لوگ بھی اندر سے نکل کر سیدھے انہی کی طرف بڑھے۔قریب پہنچ کر نور محمد نے بزرگوں سے ان دونوں کا تعارف کرایا اور بزرگوں کے بارے میں بھی بتایا کہ ایک اس کا باپ اور دوسرا چچا سسر تھا۔ثانی اور ڈپٹی نے انہیں سلام کی تو انہوں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سلام کوسنا ان سنا کردیا۔ان کا انداز دوستانہ ہرگز نہیں تھا۔ابھی وہ دونوں تعزیت کیلئے مناسب الفاظ تلاش کر ہی رہے تھے کہ اس بزرگ نے جسے نور محمد نے اپنا باپ بتایا تھا گلیاتی لہجے کی پوٹھواری میں خاصے روکھے انداز میں پوچھا۔

’’کیا لینے آئے ہو یہاں؟‘‘۔

انہوں نے چونک کر نور محمد کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں چرالیں۔

کسی جواب سے پہلے نور محمد کے چاچے نے کیو لیا اور اسی انداز میں ان پر برس پڑا۔

’’تم میری بیٹی کے قاتل ہو۔ یہاں آنے کی جرات کیسے کی تم نے؟‘‘۔

’’واٹ۔۔۔؟‘‘مارے حیرت کے ان کے منہ کھلے رہ گئے۔

’’ابھی چلے جائو یہاں سے اور جاکر اپنی حکومت سے کہہ دو اگر آئندہ کسی نے جنگل میں چیتے چھوڑے تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔

’’لیکن چاچا۔۔۔‘‘ نور محمد نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو چاچے نے اسے جھاڑ کر چپ رہنے کا حکم صادر کردیا۔

وہاں بیٹھے تمام لوگ اس غیر متوقع تماشے کو دیکھ کر حیرت زدہ دکھائی دے رہے تھے ۔اپنے مہمانوں سے یہ بدسلوکی نور محمد کی برداشت سے باہر ہونے لگی تو اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے ان دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’چاچا ! یہ سرکاری لوگ ہیں اور میرے مہمان بھی ہیں۔ان سے ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو۔‘‘

’’ورنہ کیا کرلو گے تم؟‘‘ نور محمد کے چاچے نے مبارزت طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میں کچھ نہیں کروں گا لیکن آپ بھی اپنی حد میں رہیں آپ کو کوئی حق نہیںکہ۔۔۔‘‘نور محمد نے نرم لیکن مضبوط لہجے میں کہا۔

چاچا کے طیش کا گراف مسلسل بلند ہوتا جارہا تھا۔اس نے ایک للکار کے انداز میں نور محمد کی بات کاٹ دی۔

’’اوئے!میرے ساتھ زیادہ حق شق نہ کرو ورنہ۔۔۔‘‘

اس نے مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا تو نور محمد کے باپ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’بس کرو سردار محمد! جاتک جوان ہے کچھ خیال کرو‘‘۔

’’لیکن یہ میری بیٹی کے قاتلوں کو یہاں لے کر کیوں آیا؟۔۔۔ابھی تو اسے مرے دوسرے سے تیسرا دن نہیں ہوا‘‘۔

’’کیا وہ صرف تمہاری بیٹی تھی میری کچھ نہیں لگتی تھی؟‘‘۔نور محمد کے لہجے میں کرب کا ناگ سرسرایا۔

’’یہ جو کوئی بھی ہیں ان سے کہو کہ ابھی گائوں سے نکل جائیں۔ایسا نہ ہو کہ ان کی وجہ سے گائوں پر کوئی اور آفت ٹوٹ پڑے۔‘‘

’’چاچا ! عقل کو ہاتھ مارو۔یہ بیچارے تو ہمیں اس بلا سے نجات دلانے آئے ہیں۔‘‘

’’کیوں ، تمہیں نہیں پتا پیر بادشاہ نے کیا کہا ہے؟‘‘

’’بکواس کرتا ہے آپ کا پیر بادشاہ!وہ آپ لوگوں کو بے وقوف بنا کراپنی دکان چمکانا چاہتا ہے۔‘‘اب کے نور محمد کی آواز بھی بلند ہوگئی۔

’’تم۔۔۔تم۔۔۔تمہاری یہ مجال۔۔۔؟‘‘مارے طیش کے الفاظ بوڑھے کا ساتھ چھوڑ گئے۔

’’نکے! اپنے چاچے سے تمیز سے بات کرورنہ۔۔۔‘‘دوسرا بوڑھا جو اب تک چپ کھڑا تھا ایک تحکم سے بولا۔

وہاں موجود تمام لوگ بھی ان کی بلند آوازیں سن کر وہاں مجمع لگا چکے تھے جس کی وجہ سے ڈپٹی اور ثانی شرمساری کے احساس میں ڈوبے جارہے تھے۔اس سے پہلے کہ نور محمد اپنے باپ کو کوئی سخت جواب دیتا،ثانی اور ڈپٹی نے اسے روک دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے سر راہ جمع ہونے والے مجمع سے باہر لے چلے۔نور محمد بھی کسی مزاحمت کے بغیر ان کے ہمراہ چل پڑا۔

وہ لوگ جیپ میں بیٹھے تو نور محمد سخت شرمندہ دکھائی دے رہا تھا اور ان سے بار بار معافی مانگے جارہا تھا۔ان دونوں نے تنائو کو کم کرنے کیلئے مزاح کا سہارا لیا تو نور محمد کے چہرے کا کھنچائو بھی کچھ کم ہوا۔

’’آپ فکر نہ کریں صاب!سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

یہی وہ وقت تھا جب ڈپٹی کے موبائل کی سکرین روشن ہوگئی۔اس نے نمبر چیک کیا تو نامعلوم نمبر تھا۔ڈپٹی نے الجھن سے ثانی کی طرف دیکھا۔

’’سن لو کوئی ضروری کال بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ثانی نے اسے مشورہ دیا۔

ڈپٹی نے کال اٹینڈ کرنے سے پہلے سپیکر کھول دئیے۔ دوسری جانب ایک بوجھل آواز تھی۔

’’ڈپٹی صاحب!نور محمد کے سسرال میں آپ کے ساتھ جو ہوا وہ صرف ایک ٹریلر تھا۔۔۔‘‘

’’کون ہو تم؟‘‘ ۔

’’فضول سوال ہے۔میری بات مکمل ہونے دو۔۔۔تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر آپ کو ہارر مووی دیکھنے کا شوق نہیں ہے تو براہ مہربانی اپنے شکاری دوست سے کہہ دیں کہ وہ شکار کا خیال دماغ سے نکال دے اورکل صبح گلیات سے نکل جائے۔‘‘

’’تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟۔۔۔ہیلو !۔۔۔ہیلو!!۔۔۔‘‘

’’شٹ! فون بند کردیا کم بخت نے‘‘۔

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف پر خیال نظروں سے دیکھا۔

’’کون ہوسکتا ہے یہ شخص؟‘‘۔ڈپٹی نے ایک الجھن میں خود کلامی کی۔

’’ظاہر ہے صاب! یہ کوئی حاجی کا بندہ ہی ہوگا‘‘۔نور محمد نے کہا۔

یہ ایک کھلی دھمکی تھی جو انہیں کچھ سوچنے پر مجبور کررہی تھی۔ان کے اصرار پر نور محمد نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور وہ تنگ گلیوں سے نکل کر کھلے میں آگئے۔

’’میرا خیال ہے کہ مجھے اپنے ڈیپارٹمنٹ کو سچویشن سے آگاہ کردینا چاہیے۔‘‘راستے میں ڈپٹی نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’نہیں ڈپٹی ! اب یہ تمہارے محکمے کا نہیں میرا ذاتی مسئلہ بن چکا ہے اور میں اپنے مسائل کو خود Teckle کرنا جانتا ہوں۔‘‘ثانی نے اٹل لہجے میں کہا۔

’’لیکن مجھے سیکورٹی کا بندوبست تو کرنا ہی ہوگا۔میں یہاں صاف خطرے کی بو سونگھ رہا ہوں۔‘‘

’’صاحب! یہ بزدل اور بے ضرر لوگ ہیں ۔صرف دور دور سے ڈرا سکتے ہیں۔نزدیک آنے کی ہمت کوئی نہیں کرے گا۔‘‘

’’کام ہمیشہ دور سے ہی دکھایا جاتا ہے نور محمد!‘‘ڈپٹی نے کہا۔’’کوئی بیوقوف بدمعاش ہی نزدیک آکر اپنا تعارف کراتا ہے‘‘۔

’’تم کیوں پریشان ہوتے ہو یار! اللہ مالک ہے‘‘۔ثانی نے ڈپٹی کا کندھا تھپتھپایا ۔’’ہم کوئی باز آنے والے لوگ ہیں‘‘۔

’’ہاں، ہم باز آنے والے لوگ نہیں ہیں‘‘۔ڈپٹی نے کندھے جھٹکے اور مسکرادیا۔

دوپہر سہ پہر میں ڈھلنے کوتھی۔آج کا دن کسی کام نہ آسکا تھا۔طے پایا کہ رات نور محمد کے گھر گذاری جائے اور کل صبح سویرے جنگل کا رخ کیا جائے۔راستے میں ایک سنسان پڑے ہوٹل میں انہوں نے کھانا کھایا اور نور محمد کے گھر کی راہ پکڑی۔

نور محمد کا گھر ڈونگا گلی بازار اور مرکزی آبادی سے ڈیڑھ دو کلومیٹر جنگل کے رخ واقع تھا اور جنگل سے اس قدر قریب کہ دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہی جنگل شروع ہوجاتا تھا۔یہ گھر بھی بستی کے دیگر غریب گھروں کی طرح دو کمروں پر مشتمل اور پتھروں سے بنا ہوا تھا۔اس نے کچھ ہی دیر پہلے یہ چھوٹا سا گھر تعمیر کرایا تھا تاکہ وہ گلابے کے ساتھ مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھ سکے۔

نور محمد نے گھر سے کچھ فاصلے پر پھولدار جھاڑیوں کی اوٹ میں جیپ روکی اور پھر وہ لوگ پتھروں پر جما جماکر قدم رکھتے پندرہ بیس فٹ اترائی میں واقع اس کے گھر پہنچ گئے۔جیپ کو روکتے ہی نور محمد کو ایک خیال سوجھا۔

’’صاب! ہمیں جیپ کی کوئی ضرورت تو ہے نہیں۔جنگل میں ہمیں پیدل ہی پھرنا ہوگا‘‘۔

انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میرا خیال ہے کہ جیپ کو کسی محفوظ مقام پر چھپا دینا چاہیے۔مجھے وہم سا ہورہا ہے کہ کوئی جیپ میں گڑبڑ کرکے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتا ہے‘‘۔

’’یار نور محمد! تم تو جینیئس ہو۔کیا دور کی کوڑی لائے ہو‘‘۔ڈپٹی نے اس کاکندھا تھپتھپایا۔

’’یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ہم یہاں دشمنوںمیں گھرے ہوئے ہیں۔کوئی اگر چپکے سے اس کے بریک ہی ڈھیلے کردے تو ہم کیا کرسکتے ہیں‘‘۔ثانی نے خیال آرائی کی۔

’’تو ٹھیک ہے ،آپ یہیں رکیںمیں جیپ اپنے دوست کے گھر چھوڑ آئوں۔زیادہ دور نہیں ہے ۔ دس منٹ میں واپس آجائوں گا‘‘۔نور محمد نے جیپ سٹارٹ کرکے ایک ڈھلوانی راستے پر ڈال دی۔وعدے کے مطابق وہ جلدی ہی واپس آگیا تو انہوں نے درختوں کی سبز چھایا میں گھرے ہوئے اس کے چھوٹے سے گھر کی جانب قدم بڑھادئیے۔

مشک پوری کی ڈھلوان پرہونے کی وجہ سے اس گھر کے سامنے دور تک بادلوں کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی نیلگوں وادی پھیلی دکھائی دیتی تھی۔یہاں تین چار گھر اور بھی تھے لیکن وہ ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر تنہا تنہا دکھائی دیتے تھے۔نور محمد دروازے پر لگے تالے میں چابی گھما رہا تھا اور ثانی سحر زدہ سا وادی کی پنہائیوں میں کھویا ہوا تھا۔سارے میں ایک گہری بھید بھری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔جنگل کی گہرائیوں سے بھیگی ہوئی خوشبو کا ایک جھونکا آیا تو ثانی نے گہری سانس لیتے ہوئے زندگی کے اس انمول پیغام کو اپنی رگوں میں بھر لیا۔سامنے تاحد نگاہ ایک پرشکوہ جنگل پھیلا تھا اور اس کے سامنے جنگل کا یہ عاشق زار مبہوت کھڑا تھا جس نے عمر کا بڑا حصہ جنگل جنگل پھرتے گذاردیا تھا۔یہ عین وہی جگہ تھی جہاں اس نے بچپن سے رہنے بسنے کا سوچ رکھا تھا۔

ٍ ’’ہوووو۔۔۔اووو!!!‘‘کوئی دور سے ٹارزن کی طرح پکارا۔ثانی نے پلٹ کر دیکھا تو یہ ڈپٹی تھا جو منہ پر ہاتھوں کا بھونپو جمائے جنگل کے رخ کھڑا تھا۔وہ جیپ میں سے سامان نکالنے کیلئے وہیں رک گیا تھا اور اب سامان کو بھولے ہوئے وہ بھی ثانی کی طرح اپنے ہوش سے بیگانہ ہوا جارہا تھا۔اس نے محو پرواز گولڈن ایگل کی طرح اپنے بازو پھیلائے اور وہیں سے بلند آواز میں ثانی سے کہا۔

’’مسٹر شکاری! میں وہ سامنے بلیو ایلپائن کی چوٹی پر اپنا گھونسلابنانے جارہا ہوں۔ہوسکے تو پلیز مجھے شکار نہ کرنا‘‘۔

اس کے ساتھ ہی اس نے پرندے کی طرح اڑان بھری اور لہراتا لیکن پتھروں پر مضبوط قدم جماتا ہوا آیا اور آکر ثانی سے لپٹ گیا۔

’’او ثانی ڈیر!تم نے دیکھا یہ ہے پاکستان۔۔۔کوئی ہے اس جیسا؟‘‘

’’یہ ایک ناممکن التصور حسن ہے۔۔۔ کچھ بھی اتنا حسین نہیں ہوسکتا۔‘‘ثانی کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔

’’یہ ایک مطلق جمال ہے‘‘۔

’’یہاں جمال اور جلال ایک دوسرے سے ہم کلام ہیں۔‘‘ثانی نے دور بن خور سے اڑان بھرتے ایک نامعلوم پرندے پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔

’’ہم حسن اور موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔‘‘ڈپٹی کے لہجے میں گھمبیرتا تھی۔

’’ہو ووو۔۔۔اووو!!!۔۔۔‘‘ اب کی بار یہ ثانی تھا جس نے ہونٹوں پر ہاتھوں کا بھونپو جمایا اور حلقوم کی پوری طاقت سے ٹارزن کی طرح پکارا۔

’’ہو ووو۔۔۔اوووو!!!۔۔۔‘‘ جنگل نے اس کی پکار کا جواب دیا۔

’’اے موت! اگر تم اتنی حسین ہو تو میرا انتظا ر کرنا میں تم سے ملنے آرہا ہوں‘‘۔ثانی زور سے پکارا۔

خون بھرے طباق ایسے سورج نے جاتے جاتے دیودار کے دیو زاد درخت کی پھننگ پر ٹک کر ذرا سا آرام کیا اور پھر جنگل کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔وہ دونوں ہوا پر پا ئوں دھرتے نور محمد کے گھر میں داخل ہوگئے۔

بیار کی لکڑی کے کواڑوں کے پیچھے ایک چھوٹا سا صحن تھا جس کی دیوار کے ساتھ موزوں فاصلوں پر پودے لگے ہوئے تھے جن کے گرد حفاظت کے رواج کے تحت چند کانٹے دار جھاڑیوں کی شاخیںلگا دی گئی تھیں۔ان پودوں نے کچھ عرصے بعد پھلدار درختوں میں تبدیل ہوکر جنگل کے ہم رنگ ہوجانا تھا۔صحن کے خالی پن کو پار کریں تو ایک کونے میں کمرے کی دیوار سے ملا ایک چھوٹا سا باورچی خانہ تھا اور اس کے سامنے رخ دوسرے کونے پر مرغیوں کے ایک ڈربے نے قبضہ جما رکھا تھا۔اس میں ایک مرغے کے ساتھ بند چند مرغیاں اونگھ رہی تھیں۔وہیں زندگی کے تسلسل کی علامت دو تین انڈے بھی موجود تھے ۔

ثا نی اور ڈپٹی ماحول کی سرشاری میں غلطاں اندر داخل ہوئے توانہوں نے نورمحمد کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔اس گھر میںایک چارپائی اور ایک پرانی سی کرسی میز اور کچھ بہت ضروری سامان تھا اور یہی تھا نور محمد کے گھر کا کل اثاثہ۔اگر وہاں کچھ اور تھاتو بہت سی ہولناکی اور بہت سی ویرانی تھی جو اس نئے بنے ہوئے گھر کی دیواروں سے پھوٹ رہی تھی اور چھت سے ٹپک رہی تھی ۔وہاں باورچی خانے کے ساتھ لگا ہوا ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ نیم وا تھا۔ انہوں نے یونہی ایک ذرا جھانکا تو وہیں ٹھٹک گئے۔ نور محمد ٹانگیں اوربازو پھیلائے کمرے کے عین درمیان میں کھڑاتھا۔جانے وہ کسی تپسیا کے عالم میں تھا یا یوگا کے کسی آسن میں ڈوبا ہوا تھا۔اس کی پشت ان کی جانب تھی اورانداز کچھ یوں تھا جیسے مسیح اپنی صلیب پر ایک جذب ومستی کی کیفیت میں جھول رہا ہو۔انہیں محسوس ہوا جیسے اچانک وادیوں میں آوارہ پھرتی ہوا ساکن ہوگئی ہو اور درختوں نے سانس تھام لی ہو۔کمرے میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی موجود تھا ۔وہ دکھائی نہیں دے رہا تھاپر کوئی تھا جو عین اس کے مقابل تھا، چند سانسوں کی دوری پر۔کمرے میں تاریکی اتنی نہ تھی کہ وہ کچھ دیکھ نہ پاتے لیکن بصارت اس وجود کو چھونے سے قاصر تھی۔صرف حواس تھے جو اسے محسوس کرسکتے تھے۔کمرے کی گھمبیرتا میں ایک مدہم بھینی بھینی خوشبو تیر رہی تھی۔انہوں نے رکے سانسوں سنا کہ کمرے کی بوجھل فضا میں کانچ کی چوڑیاں کھنکی ہیں اور اس کھنک سے ایک اداس یا ارتعاش پیدا ہوا جس کے بعد پھر گھمبیر سکوت چھاگیا۔چند ثانئے بعد چوڑیاں پھر کھنکیں لیکن اس بار اس کھنک میں ایک مایوسی اور فضائوں کو چیر دینے والا غصیلا احتجاج تھا۔اور پھر۔۔۔ جیسے کسی نے بازو ایک دوسرے سے ٹکرا کر چوڑیاں توڑ دی ہوں۔انہوں نے خود اپنے کانوں سے چوڑیوں کے ٹکڑوں کو زمین سے ٹکرا تے بکھرتے سنا۔اور پھر۔۔۔ سسکتے ہوئے پیچھے ہٹا اور غیر مرئی قدموں پیچھے ہٹتے دیوار کے ساتھ لگ گیا۔اور پھر۔۔۔جیسے کوئی اپنی خوشبو سمیٹ کر کوئی دیوار کے پار چلا گیا ہو۔

’’آپ واپس آگئے صاحب؟‘‘نور محمد نے مڑے بغیر اسی آسن میں کھڑے کھڑے پوچھا۔اس کی آوازگھمبیر تھی اور آنسوئوں میں گندھی ہوئی تھی۔

وہ دونوں جواب دئیے بغیر پلٹ آئے اور صحن میں بچھی ایک چارپائی پر دراز ہوگئے۔

آسمان کی شوخیلے نیل میں سفید بادلوں کے مرغولے تیرتے پھر رہے تھے۔وہ دونوں ان بادلوں میں چھپی شکلیں تلاش کررہے تھے کہ نور محمد کی بوجھل آواز سنائی دی۔

’’صاب! رات کیلئے کیا پکائوں؟‘‘

انہوں نے چونک کر پہلو بدلے۔نور محمد ان کے سامنے کھڑا تھا۔پہلے جیسا نارمل اور مسکراتا ہوا۔

’’آں!کچھ بھی۔۔۔پیٹ ہی تو بھرنا ہے‘‘۔ثانی نے اس چہرے کی تہوں میں کچھ تلاش کرتے ہوئے بے خیالی میں جواب دیا۔

’’میرا خیال ہے مرغی ذبح کرلوں‘‘۔نور محمد نے ڈربے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

’’اگر کچن میں کوئی دال شال ہے تو وہی چڑھالو‘‘۔ثانی کو حسن کے مقدس پھیلائو کے عین درمیان خون بہانے کا عمل جچا نہیں۔ ’’تھوڑے سے گھی مصالحے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔یہ گھر کون سا آباد ہے۔کبھی کبھی تو آتا ہوں یہاں۔‘‘اس نے جیب سے ایک لمبے پھل کا چاقو نکال کر ہونٹوں میں دبایا اورڈربے میں ہاتھ ڈال ایک مرغی پر جھپٹا مارا۔مرغی اس کے عزائم بھانپ کر پھڑپھڑائی لیکن اس نے اس کی پھڑپھراہٹ اور دہائیاں دیتے ہوئے بچ نکلنے کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے اسے پائوں تلے دبالیا۔

’’آج کے بعد شاید کبھی یہاں نہ آئوں‘‘۔نور محمد نے پھڑپھڑاتی ہوئی مرغی کی گردن کو دو انگلیوں سے پھیلا تے ہوئے جیسے خود کو مخاطب کیا۔

’’لیکن یہ تمہارا اپناگھرہے۔‘‘ڈپٹی نے اسے یاددلایا۔

نور محمد نے مرغی کے گلے پر چھری پھیری اور پھر اسے تڑپنے کیلئے چھوڑ دیا۔ڈپٹی نے دیکھاکہ اس کے چہرے پر شام پھیل رہی تھی۔

’’نہیں، اس گھر کی رجسٹری اوپر والے کے نام ہے، میں کون ہوں اس کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والا۔‘‘ نور محمد نے مرغی کو اس کی کھال سے جدا کرتے ہوئے فلسفیانہ لہجے میں جواب دیا۔

’’وہ تو ہے لیکن۔۔۔‘‘

’’صاحب! یہ گھر میں نے اور گلابے نے مل کر بنایا تھا۔یہاں کی ایک ایک اینٹ اور ایک ایک پودے پتے پر اس کا نام لکھا ہوا۔شادی کے بعد اس کی ڈولی اسی صحن میں اترنی تھی۔وہ نہیں تو میں نے اس کا کیا کرنا ہے‘‘۔اس نے چرغے کو فضا میں بلند کرتے بات مکمل کی اور باورچی خانے کی طرف چل دیا۔

نور محمد نے اس وقت جب وہ کھوئے ہوئے تھے اندر سے ایک اور رانگلی چارپائی لاکر صحن میں بچھادی تھی۔ثانی اٹھ کر اس چارپائی پر دراز ہوگیا اور آسمان کے کسی موہوم نکتے پر خالی نگاہیں جمادیں۔

سب کچھ بے معنی تھا۔کچھ بھی کرنا، کچھ بھی کہنا اور شاید کچھ بھی سوچنا۔

رات کے کھانے کے بعد کرنے اور کہنے کو کچھ نہیں تھا سو وہ صحن میں بچھی چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ڈپٹی کچھ زیادہ ہی تھکا ہوا تھاکہ لیٹتے ہی نیند کے گھاٹ اترگیا لیکن تھکن سے ٹوٹا ہوا جسم ثانی کو ہمیش جگائے رکھتا تھا۔آج بھی نیند اس کی آنکھوں سے کہیں بہت دور تھی۔وہ چت لیٹا دیر تک تاروں بھرے آسمان کو تکتا رہا۔یہاں سے شفاف آسمان اتنا قریب دکھائی دیتا تھاکہ ہاتھ بڑھاکر چھو لو۔اس آسمان کا راجہ پوری رات کا چاند اپنے جوبن پر تھا۔اس چکا چوند چاند میں کچھ ایسی بات تھی کہ اس سے نظریں ہٹانا مشکل تھا۔اس نے کبھی اتنا بڑا چاند نہیں دیکھا تھا۔اس کا مشاہدہ تھا کہ جنگل او ر صحرا میں طلوع ہونے والا چودھویں کا چاند دھویں اور آلودگی سے پاک فضا کے باعث آبادجگہوں سے زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ چاندتو کچھ زیادہ ہی بڑا تھا۔ایک روشنی سے بھرا تھال جس میں سے نکلتی مقناطیسی لہروں کو وہ اپنے بدن کی گہرائیوں میں تھرکتے ہوئے محسوس کرسکتا تھا۔اور پھر وہاں ستارے بھی تو تھے اتنے واضح، اتنے روشن اور اتنے بڑے کہ چاند آسمان پر اپنے باجبروت غلبے کے باوجود ان کی ہستیوں کو غیر اہم بنادینے میں ناکام رہا تھا۔ثانی کی جاگتی آنکھیں آسمان کی ہولناک وسعتوں میں گم ہوچکی تھیں اور اس کے کان اپنی تمام تر حساسیت کو جگائے آواز کی کسی لہر کو چھو لینے کیلئے بے تاب ہورہے تھے۔اور پھر اس کی سماعت اور اس آواز کے درمیان مغائرت ختم ہوگئی۔وہ ستاروں سے چھنتی ایک مدہم اور مسلسل نغمگی کو سن سکتا تھا۔ سرمدی راگ میں کمپوز کی گئی یہ سمفنی رات کے اس پہر کے بوجھل سکوت پر سے پھسلتی سماعت کی راہ اس کی رگوں میں تحلیل ہورہی تھی۔

وہ چارپائی سے اٹھ بیٹھا ۔اس کے دونوں ساتھی کروٹ بدل کر سو رہے تھے۔اس نے کوئی آہٹ کیے بغیر جوتے پہنے اور دروازے کی طرف بڑھا۔دو قدم بڑھائے تھے کہ اسے کچھ یاد آیا۔وہ اندھیرے کمرے میں گیا اور پھر پتلون کی جیب سے ایک چھوٹی ٹارچ نکال کر جلائی اور اس کی روشنی میں اپنے سامان میں سے اپنی چہیتی ڈبل بیرل پرنسس نکال لی۔اس نے چند کارتوس بھی اپنی جیب میں ٹھونسے اور پھر دبے قدموں دروازہ کھول کر گھر سے باہر آگیا۔

باہر کھلے میں ایک جادو گر رات اس کی منتظر تھی۔ملگجے اندھیرے میں آگے بڑھنا مناسب نہ تھا لہٰذا وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔اس کے سامنے تین اطراف پھیلا جنگل جو الوہی حسن پہنے دن کے اجالے میں زمین و آسمان پر محیط جادوئی نظاروں پر مشتمل مونتاج ایسادکھتا تھا اب تاریک سایوں اور وحشت ناک شکلوں کا مجموعہ بن چکا تھا۔وہ اس لمحے کرہ ارض کے ۳۴ ڈگری شمالی عرض بلد اور ۷۳ ڈگری مشرقی  طول بلدپر واقع کوئی مقام نہ تھا۔ یہ کوئی اور جگہ تھی ، کسی اور سیارے کا کوئی اور مقام ۔چاروں اور پھیلی چاندنی کے ملگجے پن نے تاریکی کے ساتھ مل کر گھنے اسرار میں ملفوف کوئی اور دنیا تخلیق کرکے اس کے سامنے رکھ دی تھی۔

مئی کی اس رات ہوا میں بڑھتی ہوئی خنکی سے وہ جھرجھرا کر رہ گیا۔کھلے جنگل کے مقابل جہاں ایک آدم خور بھی موجود تھایوں کھلے عام بیٹھنا بے وقوفی کی انتہا تھی جبکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ علاقہ خاص طور پر اس کی غارت گری کی زد میں ہے۔گلدار انسان کے بعد اس دھرتی پر موجود تمام جانداروں سے کہیں زیادہ چالاک، سفاک اورخونخوار ہوتا ہے ۔اور اگر وہ آدم خور ہو تو اس کی خطرناکی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے باالخصوص اگر وہ مادہ ہو اور زخمی بھی ہو۔اگر جو مادہ آدم خور یہیں کہیں موجود ہو تو مسلح ہونے کے باوجود اس کا صبح تک زندہ بچ رہنا ناممکن کے قریب قریب بات تھی۔ہوا میں خنکی بڑھتی جارہی تھی اور ساتھ ساتھ اس میں گھلے نشے کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔اور پھر اس کی پلکیں بوجھل ہونا شروع ہوگئیں۔اس نے خود کو اٹھانا چاہا لیکن جسم بوجھل ہورہا تھا تبھی اچانک اس کے کندھے پر کوئی چیز کودی اور دہشت کے مارے اس کا بدن لرز اٹھا۔یہ ایک بڑی جسامت کی اڑنے والی گلہری تھی، یہاںکی خاص مقامی گلہری جو ایک قریبی درخت پر استراحت میں مصروف تھی کہ اسے دیکھ کر گھبرا گئی تھی اور اب وہاں سے بھاگنے کے چکر میں اس پر آپڑی تھی۔اس کے کندھے سے اچھل کر گلہری ایک چھوٹی سی جھاڑی کی طرف بھاگی اور اس کی اوٹ میں غائب ہوگئی۔اس نے سرجھٹک کر اپنے لرزیدہ بدن کو اٹھانا چاہا لیکن نیند کی بوجھلتا اور کئی دنوں کی تھکن نے اسے بٹھائے رکھا۔تبھی اس نے بند ہوتی آنکھوں سے دیکھاکہ اس سے خاصے فاصلے پر موجود جھاڑیوں میں ہل چل ہوئی اور اندھیرے میں دو سلگتے ہوئے چراغ روشن ہوگئے۔

’’آدم خور۔۔۔!!‘‘۔ایک دم سے جیسے اس کا بدن بے جان سا ہوگیا ہو۔

آدم خور اس کے قریب ہی موجود تھا اور اس کی موجودگی سے باخبر تھا۔اس کے کان جنہیں ہوا کے ایک مست جھونکے نے بیرونی آوازوں سے بیگانہ کردیا تھااب دھیمی دھیمی غراہٹ کو صاف سن سکتے تھے۔نفرت کی لو سے سلگتے چراغ جھاڑیوں میں کہیں غائب ہوچکے تھے لیکن دھیمی دھیمی غراہٹ مسلسل اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔اور پھر یکایک اس کے عقب میں بلند ہوتی ایک دھاڑ نے سارے جنگل کو لرزا دیا۔اپنی چالاکی اور سبک خرامی میں بے مثال درندہ دبے پائوں اس کے عقب میں پہنچ چکا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا وہ اس پر جھپٹا اوراسے زمین پر گرادیا۔اس کی گردن میں آدم خور کے خونی دانت گڑے تھے اور وہ اس کی گردن توڑنے کیلئے اسے زمین پر پٹخ رہا تھا۔وہ موت کے جبڑوں سے رہائی کیلئے بچی کھچی توانائیاں سمیٹے بے طرح سے ہاتھ پائوں چلا رہا تھا۔اور پھر درندے نے اپنی حکمت عملی بدلی اور فوری طور پر اس کی گردن توڑ کر اسے اٹھا لے جانے کی بجائے شپڑ شپڑ اس کا نمکین لہو پینے لگا۔اس نے ایک آخری کوشش کے طور پر ہاتھ بڑھا کر درندے کی گردن دبوچ لی اور اسے نیچے گرانے کیلئے زور لگانے لگا۔

’’ثانی صاب۔۔۔ثانی صاب‘‘۔کہیں دور سے کوئی اسے پکار رہا تھا۔

آواز سن کر درندے نے ایک جھٹکے سے اپنی گردن اس کی گرفت سے چھڑائی اور جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔اس کے جاتے ہی وہ بے جان سا ہوکر ڈھے گیا۔

’’ثانی صاب۔۔۔ثانی صاب۔‘‘اب کے کسی نے زوروں سے اسے جھنجھوڑا۔

اس کی آنکھیں ذرا سی کھلیں تو دیکھا کہ کسی کا دھندلا سا سایہ اس پر جھکا اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔یہ نور محمد تھا۔

بعد بسیار کوشش اس نے سر کو جھٹکا اور پھر اپنے بدن کو ٹٹولا۔وہ صحیح سلامت تھا ۔حواس قدرے بحال ہوئے تو اس نے دیکھا کہ نور محمد اس کی بغلوں میں ہاتھ دئیے اسے اٹھانے کی کوشش کررہا تھا۔

’’نور محمد تم؟۔۔۔اور وہ آدم خور؟؟‘‘

’’ثانی صاب! لگتا ہے کوئی خواب دیکھا ہے آپ نے ۔اگر آدم خور سچ میں آجاتا تو صرف آپ ہی نہیں ہم بھی مارے جاتے۔اٹھیں اندر جاکر سوجائیں۔‘‘

’’سوری یار! پتا نہیں کیا ہوا کہ میں اچانک غافل ہوگیا۔‘‘ اس نے شرمندگی سے صفائی پیش کی اور کندھے پر اپنی پرنسس کے پٹے کو درست کرتا ہوا نور محمد نے کے ساتھ بند دروازے کی عافیت میں داخل ہو گیا۔

(۷)

اگلے روز پو پھٹے انہوں نے پیٹ بھر کر ناشتہ کیا اور ضروری سامان باندھنے میں جت گئے۔تبھی اچانک دھڑ سے دروازہ کھلا اور چادر میں لپٹی ہوئی ایک عورت اندر داخل ہوئی۔اس نے چادر کے پلو سے نقاب کررکھا تھا۔صرف آنکھیں تھیں جو کھلی تھیںاور ان آنکھوں میں جو وحشت تھی وہ ثانی کو مدتوں یاد رہنے والی تھی۔نور محمد نے اسے پہچان لیا۔

’’سفیدہ! تم ۔۔۔تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟‘‘ نور محمد کی آواز میں حیرت تھی۔

سفیدہ نے نقاب اتار دیا۔اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور چہرے کے مسل پھڑپھڑا رہے تھے۔وہ مجسمہ سی خاموش کھڑی تھی لیکن اس کے اندر کی جوالا مکھی صاف دیکھی جاسکتی تھی اور ایک کوک پکار تھی کہ اس کے ہر مسام سے پھوٹی پڑرہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور جسم سے چادر نوچ پھینکی۔انہوں نے دیکھا کہ اس کے ایک ہاتھ میں ایک تیز پھل والی کلہاڑی دبی ہوئی تھی۔

نور محمد اس کے اس طرح بے دھڑک اندر آنے اور بے حجاب چہرے کے ساتھ اجنبی لوگوں کے سامنے آجانے پر کچھ پریشان اور کچھ کھسیانا سا تھا ۔اس نے تھوڑا سنبھل کر تعارف کرایا۔

’’صاحب! یہ سفیدہ بیگم ہے۔گلابے کی بڑی بہن۔اس روز یہی اس کے ساتھ تھی‘‘۔نور محمد نے جھجکتے ہوئے اس کا تعارف کرایا۔’’اور سفیدہ! یہ مشہور شکار ی ثانی صاب ہیں اور یہ زلفی صاب ہمارے علاقے کے ڈپٹی فارسٹ آفیسر ۔یہ دونوں اس خونی بلا سے ہمارا انتقام لینے آئے ہیں۔‘‘

سفیدہ بیگم چوبیس پچیس سال کے لگ بھگ رہی ہوگی۔اگر اس کے چہرے پر چھائی وحشت کو نوچ کر دیکھا جائے تو اسے خوبصورت عورتوں میں شمار کیا جاسکتا تھا۔کسی شہزادی ایسے ٹھہرائو اور متانت میں گندھی ہوئی دراز قامت سفیدہ بیگم کی گلابی مائل سفید رنگت، کشادہ پیشانی اور اونچی اٹھی ہوئی ناک یاد دلاتی تھی کہ وہ ان یونانی فوجیوں کی لڑی کا موتی ہے جو سکندر یونانی کی ہندوستان کو تسخیر کرنے کی حسرت لیے نامراد لوٹنے پر شمال مغربی ہندوستان کی انہی پہاڑی وسعتوں میں آباد ہوگئے تھے۔اس کے چہرے پر چھائی تمکنت کو دیکھ کر کہا جاسکتا تھا کہ وہ اگر قبل مسیح کے ہندوستان میں یونانی راج کے دوران موجود ہوتی تو کسی شہزادے یا جرنیل کی بیاہتا ہوتی۔لیکن وہ تب کی بات تھی ، اب کی بات یہ تھی کہ اس کی بادامی آنکھوں میں ایک مطمئن قیدی جیسی یبوست ٹھہری ہوئی تھی۔علاقے کی دوسری عورتوں کی طرح اس کی زندگی بھی دو کمروں کی قید تک محدود تھی۔گھر سے جنگل اور جنگل سے چولہے تک تمام ہوتی زندگی۔۔ان عورتوں کی واحد تفریح پانی اور لکڑی لینے کیلئے جنگل کا رخ کرنا تھا۔یہی ان کے کھلی فضائوں سے ملاپ کا واحد بہانہ تھا اور وہ اتنی سی آزادی پر قانع تھیں۔

سفیدہ بیگم خاموش تھی اور اس کا چہرے تاثرات سے عاری تھا۔صرف دو آنکھیں تھیںجو بدن کی گہرائیوں تک ان کے اندر اتری ہوئی تھیں۔

’’صدمے کی شدت نے اس کی قوت گویائی چھین لی ہے‘‘۔ڈپٹی نے تاسف سے کہا۔

’’سفیدہ! تم کیوں آئی ہو یہاں؟۔نور محمد نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’تمہیں کسی نے یہاں آنے سے روکا نہیں؟‘‘

جواب میں سفیدہ بیگم نے ان کے چہروں سے نگاہیں ہٹائے بغیر اچانک جنگل کی طرف بے تاب اشارے کرتے ہوئے کچھ وحشیانہ غوں غاں کی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی کلہاڑی سے شر شر ہوا کاٹنے لگی۔ثانی اور ڈپٹی گم سم یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔نور محمد کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار نمودار ہوئے۔اس نے پہاڑی بولی میں اس سے کچھ کہا جس کے جواب میں اس کے غیض میں اضافہ ہوگیا۔اس نے زور زور سے نفی میں گردن ہلائی اور کلہاڑی کے دستے پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی۔اس نے جن سفاک نظروں سے ثانی کو دیکھا اس سے لگا کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ ان لوگوں پر حملہ کردے گی ۔نور محمد ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔اس کے چہرے پر کرب کی گھٹا سی تیر گئی۔پھر اس نے خود پر قابو پایا اور ان دونوں سے گویا ہوا۔

’’یہ چوری چھپے یہاں آئی ہے تاکہ آپ کے ساتھ جنگل میں جاکر اپنے ہاتھوں اس آدم خور کی تکا بوٹی کرسکے۔ ‘‘

ثانی نے سفیدہ سے نظریں چراتے ہوئے گہرا سانس لیا ۔

’’اگر سفیدہ بیگم جنگل تک ہماری رہنمائی کرسکتی تو ہمارا کام آسان ہوسکتا تھا لیکن ان حالات میں اس کا ہمارے ساتھ جانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔‘‘ثانی نے نور محمد کو مخاطب کرکے کہا۔

’’اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہم اسے ساتھ نہ لے گئے تو اس کا کہنا ہے وہ اسی کلہاڑی سے ہمیں کاٹ دے گی۔‘‘نور محمد نے جھجکتے ہوئے بتایا۔

خاصی پریشان کن صورتحال تھی۔ثانی اور زلفی نے نظروں میں ایک دوسرے سے مشاورت کی اور پھر بزبان خاموشی نور محمد کو بھی اپنی مشاورت میں شامل کرلیا۔

نور محمد نے اثبات میں سرہلایا اور اس کے کلہاڑی اٹھائے بازو کو گرفت میں لے کر زبردستی وہاں سے لے جانے کی کوشش کرنے

لگا۔سفیدہ نے وہیں جمے رہنے کیلئے سخت مزاحمت کی لیکن زور زبردستی سے وہ اسے صحن میں لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ وہاں سے نور محمد کی تیز آواز اور سفیدہ بیگم کی غصیلی غوں غاں سنائی دیتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر بعد نور محمد کندھے جھکائے اندر داخل ہوا۔اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور چہرے پر ضبط کی سختی کھنڈی ہوئی تھی۔اس نے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں بتایا۔

’’وہ انتقام کے جوش میں پاگل ہورہی ہے صاب!جھوٹ سچ بول کر بہت مشکل سے میں نے اسے واپس جانے پر آمادہ کیا ہے۔‘‘

دن خاصا چڑھ آیا تھا۔اس وقت انہیں جنگل میں ہونا چاہیے تھا سو انہوں نے ضروری سامان کندھوں پر لادا اور گھر سے باہر قدم رکھ دیا۔

وہ گرتے سنبھلتے ڈھلوان پر اتر رہے تھے اور ان کا رخ ڈونگا گلی کی دوسری سمت مشک پوری سے میران جانی پہاڑ کی جانب تھا۔ڈھلوان کا مختصر سا سفر طے کرنے کے بعد انہیں چند سو میٹر بلندی کا سفر درپیش ہوا۔ڈیڑھ کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ ایک متروک ٹریک پر چڑھ گئے۔ٹریک کی سو ڈیڑھ قدم ہموار مسافت کے بعد آگے چلتا ہوا نور محمد رک گیا۔

’’صاب! یہی وہ جگہ ہے جہاں درندہ گلابے کو اٹھا کر لے گیا تھا‘‘۔اس نے آواز کی لرزش چھپانے کیلئے دانتوں سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔’’یہاں سے گلابے کا گھر تھوڑی ہی دور ہے۔وہ سفیدہ بیگم کے ساتھ اسی جگہ آیا کرتی تھی‘‘۔

اس حادثے کو گذرے آج تیسرا دن تھا۔بہت مشکل تھا کہ انہیں اتنے واضح سراغ مل سکتے جن کی مدد سے وہ آدم خور کے ٹھکانے پر

پہنچ سکتے۔واحد اچھی بات یہ ہوئی کہ پچھلے تین چار روز سے بارش نہیں ہوئی تھی ورنہ ان کا یہاں آنا یکسر بیکار ثابت ہوتا۔ایک اور مثبت بات یہ تھی کہ اس واقعے کے بعد کسی نے آدم خور کے خوف سے جنگل میں قدم نہیں رکھا تھا لہٰذا اس بات کا بھی امکان تھا کہ انہیں یہاں اس کے پائوں کے نشان مل جائیں۔

ثانی نے غور سے دیکھا کہ اس جگہ پر مزاحمت کے واضح آثار تھے۔ثانی کے پوچھنے پر نور محمد نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ واقعے کے روز دوپہر کے بعد دونوں بہنیں معمول کے مطابق یہاں خشک لکڑیاں چننے آئیں۔ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں۔اس وقت گائوں کے کچھ اور لوگ بھی ایک آواز کی مسافت موجود لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔نور محمد بھی ان میں شامل تھا ۔وہ اپنی دونوں چچا زاد بہنوں کو نگاہ میں رکھے ہوئے تھا لیکن ان کے قریب نہیں جاسکتا تھا کیونکہ گلابے دو دن بعد مائیوں بیٹھنے والی تھی اور رواجی طور پر ہونے والے دلہا دولہن کیلئے ایک دوسرے سے پردہ کرنا لازم تھا۔دوسرے لوگوں کی موجودگی اور چٹے دن کی وجہ سے انہیں درندے کا کوئی خاص خوف نہیں تھا۔پھر بھی وہ اس حد تک محتاط ضرور تھیں کہ لکڑیاں لے کرشام سے پہلے پہلے گھر پہنچ جائیں ۔نور محمد نے بتایا کہ انہوں نے لکڑیاں اکٹھی کرلیں تو ان کے گٹھے بنا کر سروں پر رکھ لیے۔انہوں نے اپنی کلہاڑیاں بھی ان گٹھوں میں باندھ دی تھیں۔جب وہ چلیں تو سفیدہ آگے تھی اور گلابے چند قدم کے فاصلے پر اس کے پیچھے تھی۔آگے چلتے ہوئے سفیدہ اس سے کوئی بات کیے جارہی تھی اور خود ہی اپنی بات پر ہنسے جارہی تھی ۔جواب میں گلابے بھی کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی۔اچانک یہ ہوا کہ سفیدہ نے اس سے کوئی سوال پوچھا لیکن جواب میں ایک لحظے کی خاموشی کے بعد گلابے کی خرخراہٹ سنائی دی۔اس عجیب آواز پر اس نے گھوم کر دیکھا تو ایک دہشتناک منظر اس کا منتظر تھا۔ایک گلدارنے گلابے کو دبوچ کر زمین پر گرا رکھا تھا اور اس کے شانوںمیں دانت گاڑ کر اسے بھنبھوڑ رہا تھا۔گلابے اس کی گرفت میں دبی ہاتھ پائوں چلا رہی تھی۔اس کے ایک ہاتھ میں ایک موٹی شاخ تھی جس سے وہ گلدار کو مارنے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کی یہ مزاحمت ایک مرتے ہوئے آدمی کی آخری مایوس کن مزاحمت تھی۔کوئی لمحہ جاتا کہ درندہ اسے جبڑوں میں دبائے گھسیٹتا ہوا ساتھ لے جاتا۔ خوف کے ابتدائی حملے کے بعد اچانک سفیدہ بیگم بے خوف ہوگئی۔اس نے بجلی کی سی تیزی سے گٹھے کو پھینک کر اس میں سے کلہاڑی نکال لی۔اس کی وحشیانہ للکار سن کر درندے نے اسے نگاہ غلط انداز سے دیکھا اور گلابے کو گردن سے پکڑ کر اٹھالیا۔سفیدہ بیگم کے پاس اپنی جنگ لڑنے کیلئے صرف ایک لمحہ تھا۔دوسرے لمحے وہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔اس لمحے سفیدہ گلیات کی ایک معصوم دیہاتی لڑکی سے عہدِ شکار کی وحشی عورت میں منقلب ہوگئی۔اس کے منہ سے غراہٹ نکلی اور وہ کلہاڑی کو تولتے ہوئے اس غارت گر پر حملہ آور ہوگئی۔گلدارکیلئے یہ جوابی وار غیر متوقع تھا۔اگر وار خالی نہ گیا ہوتا تو پوری وحشیانہ قوت سے لہرائی جانے والی کلہاڑی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہوگئی ہوتی۔اس کی جبلی پروگرامنگ میں کسی کمزور انسان کا اس کی بربریت کو یوں دھڑلے سے چیلنج کرنا شامل نہیں تھا۔درندے نے گلابے کا معاملہ بعد پر موقوف کرتے ہوئے پہلے اپنے جنگی حریف سے دو دو ہاتھ کرنا مناسب سمجھا۔اس نے دور وحشت سے آئی عورت کو فلک شگاف دھاڑ سے ڈرانا چاہا لیکن اس عورت نے کہ خوف سے بے نیاز ہوچکی تھی کلہاڑی تولتے ہوئے دوسرا وار کردیا جس سے درندے کے کندھے پر گہرا گھائو آگیا۔تس پر وہ پلٹا اور اس عورت پر جاپڑا۔وہ اس حملے کیلئے تیار تھی سو تیزی سے پیچھے ہٹی اور درندے کا پنجہ اس کے کندھے کو سہلاگیا۔درندہ اپنی جھونک میں آگے جاپڑا تھا ۔اس نے واپس پلٹنے میں تھوڑی دیر کی تو اس عورت کو وحشیانہ چیخ و پکار کرنے کا موقع مل گیا۔وہ ایک جنونی کیفیت میںمدد کیلئے پکار رہی تھی اور ساتھ ہی گلدار پر اگلے وارکیلئے تیار ہوچکی تھی۔اس سے پہلے ہی نور محمد اور اس کے گرائیوں کو وہ ساری آوازیں اپنی طرف متوجہ کرچکی تھیں۔وہ میدان جنگ سے صرف سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر تھے۔کچھ سمجھتے اور کچھ نا سمجھتے ہوئے انہوں نے اس جانب دوڑ لگادی۔تب تک سفیدہ اور گلدار دونوں ایک دوسرے پر جھپٹنے کیلئے تیار ہوچکے تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب وہ شور مچاتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔

نور محمد نے ہچکولے لیتے بدن کے ساتھ بتایا کہ اس کی نظروں کے سامنے گلدارنے انہیں آتا دیکھ کر اچانک پینترا بدلا اورسفیدہ کا خیال چھوڑ کر اپنے قدموں پر گھومتے ہوئے خون میں غلطاں گلابے پر جھپٹا۔تب تک وہ زندہ تھی اور نیم بے ہوشی کے عالم میں کراہ رہی تھی۔آدم خور نے یک بیک جبڑوں میں اس کی گردن دبائی اوراسے گھسیٹتا ہوا سرعت سے جنگل میں غائب ہوگیا۔

وہ ان دشوار گذار وسعتوں میں موجود تین آدمی تھے اور ایک کٹھن اور خطرات سے بھرپور معرکہ انہیں درپیش تھا۔ثانی کے پاس ایک شارٹ رینج گن اور بارہ بور کی ڈبل بیرل رائفل تھی۔ ڈپٹی کے پاس بھی ایک جدید شاٹ گن تھی جبکہ نور محمد کے پاس ایک دیسی ساخت کی شاٹ گن تھی۔ڈپٹی اور نور محمد باقاعدہ شکاری نہیں تھے لیکن نشانہ دونوں کا برا نہیں تھا۔نور محمد کے پاس ایک اضافی بات یہ تھی کہ وہ نفرت اور انتقام کی آگ میں سلگ رہا تھاجس کی وجہ سے اس کے اندر ایک غیر معمولی ارتکاز اور عزم موجود تھا جو بڑے شکار کیلئے از بس ضروری ہوتا ہے۔

نور محمد اپنی کیفیات پر قابو پاچکا تو ثانی نے ایک پیشہ ور شکاری کے طور پر اپنی کھوج کا آغاز کیا۔اس نے دیکھا کہ جہاں گلابے کو درندے نے دبوچا تھا وہاں جمے ہوئے خون کا ایک ننھا ساتالاب بنا ہوا تھا اور اس کے ساتھ خون کی ایک لکیر جنگل کی گہرائیوں میں جارہی تھی۔اس کے ساتھ ہی اس کے پگ بھی غیر واضح پر وہاں موجود تھے۔وہ اس لکیر کے تعاقب میں چل پڑے۔ثانی نے غور سے دیکھا کہ خون کی بڑی لکیر کے متوازی ایک چھوٹی سی لکیر بھی قطروں کی صورت میںساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ یقینا یہ کلہاڑی کے اس وار کا شاخسانہ تھا جو آدم خور کے اگلے کندھوں کے عین درمیان لگا تھا۔گلدار زخمی تو تھا لیکن زخم یقینی طور پر بہت گہرا نہیں تھا ورنہ اس کے جسم سے خون زیادہ مقدار میں بہتا۔لہو کی دونوں لکیریں مشکپوری کی بلندیوں کی طرف جارہی تھیں۔

ثانی نے غور سے مشکپوری کی سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے نو ہزار فٹ بلند کوہان کی طرف دیکھا ۔پہاڑ کی اٹھان بلند و بالا درختوں کے گھنے جنگل میں مستور تھی ۔اس نے پہاڑ کی بلندی پر نظر جماتے ہوئے کچھ سوچا اور کہا۔

’’خون کی لکیر مشکپوری کی بلندی کی طرف جارہی ہے لیکن یقینی طور پر یہ پہاڑ اس کا ٹھکانہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاںسیاحوں کی بہت آوا جاوی لگی رہتی ہے جبکہ گلدار لوگ سخت مردم بیزار واقع ہوئے ہیں۔انسانوں کی دنیا سے ہر ممکن حد تک دور اور خفیہ ٹھکانوں میں رہتے ہیں۔‘‘

’’مشکپوری پر بنے ٹریکس کی وجہ سے اس پہاڑ پر چڑھنا بہت آسان ہے۔باہر سے جو کوئی بھی آتا ہے اس پہاڑ کو دیکھ کر کوہ پیمائی کا شو ق پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے‘‘۔ڈپٹی نے اس کے خیال کی تائید کی۔

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہاڑ کی دوسری جانب جانا پڑے گا‘‘۔ثانی نے خیال آرائی کی۔’’نور محمد! یہاں کہیں قدرتی غار تو ہوں گے؟‘‘۔

’’غار ہیں تو سہی لیکن وہ یہاں سے کچھ فاصلے پر الگ تھلگ علاقے میں ہیں‘‘۔نور محمد نے بتایا۔

’’ہمیں شاید اسی علاقے میں جانا پڑے گا۔تم ہماری رہنمائی کرسکتے ہو؟‘‘ثانی نے پوچھا۔

’’نہیں صاب! میں کبھی اس طرف نہیں گیا‘‘۔نور محمد نے بتایا۔

’’کوئی بات نہیں آدم خور خود ہمیں اپنے ٹھکانے پر لے کر جائے گا‘‘۔ثانی نے گلدار کے پائوں کے نشانات کھوجنے کیلئے زمین پر نگاہ جمائی۔خون کی لکیر کے ساتھ ساتھ چلتے اسے درندے کے پگ بھی مل گئے۔یہ پگ کسی مادہ گلدار کے تھے۔اس نے غور سے دیکھا تو تین پگ کے نقش تو ایک جیسے گہرے تھے جبکہ اگلے بائیں پائوں کا پگ ان کی نسبت دھندلا اور مٹا مٹا سا تھا۔اس سے ثانی نے نتیجہ نکالا کہ آدم خور گلدار تھوڑا لنگڑا کر چلتی ہے۔غالباً اسے اس وقت اگلی ٹانگ میں گولی لگی ہوگی جب اس کے سامنے اس کے بچوں کو اٹھایا گیا تھا۔

ثانی نے گلداروںکے بارے میں اپنا علم دریائو بہاتے ہوئے انہیں بتایا کہ بلی کی نسل کا یہ درندہ بہت کم آدم خوری میں ملوث ہوتا ہے۔ایسا اگر ہوتا ہے تو صرف اس صورت میں جب وہ اس قدر ضعیف یا زخمی ہو کہ جنگلی جانور کا شکار کرنے کے قابل نہ رہے۔ایک اور صورت یہ ہے کہ وہ حادثاتی طور پر انسان پر حملہ آور ہوکر اس کے خون کا ذائقہ چکھ لے۔ایک بارایسا ہوجائے تو وہ کسی اور جانور کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کیونکہ انسان کا خون اور گوشت نمکین ہوتا ہے جو اسے اس قدر پسند آتا ہے کہ وہ پھیکے گوشت والے دوسروں جانوروں کو شکار کرنا چھوڑ دیتا ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ مادہ گلداروں میں آدم خور بننے کی مثالیں نر گلداروںکی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔یوں بھی وہ عام طور پر نر سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے بچوں کے ہمراہ ہو اور انہیں کوئی خطرہ درپیش ہو۔اس صورت میں وہ جان پر کھیل جاتی ہے لیکن اپنے بچوں پر آنچ نہیں آنے دیتی۔

’’ہمیں جس آدم خور سے واسطہ پڑا ہے اس کے بارے میں میں کل بتاچکا ہوں کہ یہ ایک زخم خورد ماں ہے جس کے بچوں کو اس کے سامنے اٹھالیا گیا تھا۔وہ اس وقت تو کسی وجہ سے انہیں نہ بچاسکی تھی لیکن اس کے بعد وہ انسانوں سے انتقام لینے پر اتر آئی ہے۔‘‘ڈپٹی نے اس کی بات میں اضافہ کیا۔

’’اور یہ زخم خوردہ ماں اب کسی بدروح سے بھی زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔اگر اسے فوری طور پر نہ مارا گیا تو اس کے شکاروں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا جائے گا‘‘۔ثانی نے پر خیال انداز میں کہا۔’’ گلدار نارمل حالت میں بھی سفاکی اور چالاکی میں بے مثال ہوتا ہے لیکن اگر یہ آدم خور ہو اور خاص طور پر اگر مادہ ہو تو اس کے بارے میں کوئی بھی اندازہ لگانا ، اسے گھیرنا اور مارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے‘‘۔

نور محمد جو ساری گفتگو توجہ کے ساتھ سن رہا تھا ۔اسے ایک خیال سوجھا ’’صاب!مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس خبیث کا خاص طور پر نشانہ ڈونگا گلی کا علاقہ ہی کیوں ہے؟‘‘ْ

’’بھئی ظاہر ہے ڈونگا گلی اس کے اپنے علاقے کے اندر شامل ہے اور شاید اس کے ٹھکانے سے قریب ترین ہے‘‘۔ڈپٹی نے جواب دیا۔

’’ڈپٹی صاب! آپ نے بتایا تھا کہ آپ نے حاجی کے پاس دو چھوٹی عمر کے چیتے میرا مطلب لیپرڈ دیکھے ہیں!؟‘‘۔نور محمد نے کسی خیال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا۔

’’ہاں، بتایا تو تھا‘‘۔ڈپٹی نے کہا۔

’’ثانی صاب! ایسا نہیں ہوسکتا کہ اسے کسی طرح سے پتا چل گیا ہو کہ اس کے بچے ڈونگا گلی میں ہی ہیںاور وہ کسی طرح ان تک پہنچنا چاہ رہی ہو؟ــ‘‘ْ

’’خیر ممکن تو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مجھے یہ افسانوی سی بات لگتی ہے۔در اصل۔۔۔‘‘ثانی نے کچھ کہنا شروع کیا۔

ثانی کے علم دریائو کو ابھی اور بہنا تھا کہ اچانک ڈپٹی کا پائوں رپٹا اور وہ اپنی شارٹ گن سمیت گہرائی کی طرف لڑھک گیا۔خیریت گذری کہ گرتے ہوئے ایک جھاڑی اس کے ہاتھ آگئی جس کی وجہ سے وہ گہرائی میں جانے سے بچ گیا۔اس اچانک حادثے پر وہ جھرجھرا کر رہ گئے۔ثانی اور نور محمد نے جھانک کر دیکھا تو دل دہک سے رہ گیا۔کھائی جس میں ڈپٹی لڑھک گیا تھا کسی بھی طرح تین چار سو فٹ سے کم گہری نہ تھی۔انہوں نے جھک کر ڈپٹی کا فارغ ہاتھ پکڑا اور لگے زور لگانے۔ڈپٹی نے بھی زور لگا کر خود کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی ۔اس دوران اس کا ایک پائوں باہر کو نکلے ہوئے ایک پتھر کی کگر پر ٹک گیا ۔یوں تھوڑی بہت زور آزمائی کے بعد وہ اسے اوپر کھینچ لینے میں کامیاب ہوگئے۔وہ کھائی سے نکلا تو بے جان سا ہوکر لیٹ گیا۔تھوڑی سرعت بحال ہوئی تو کھسیانا سا اٹھ بیٹھا۔ثانی نے پانی کی بوتل میں سے اسے چند گھونٹ پلائے ۔ڈپٹی کی کہنیاں چھل گئی تھیں۔ثانی نے فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اسے ٹنکچر لگائی اور فیصلہ کیا کہ یہاں تھوڑی دیر آرام کرکے پھر آگے بڑھا جائے۔

کچھ دیر آرام کے بعد وہ اٹھے اور لہو کی لکیر کو نگاہ میں رکھتے ہوئے چڑھائی کا سفر دوبارہ شروع کردیا۔وہ تھوڑا آگے بڑھے تو انہیں گلابے کا تار تار لباس دکھائی دیا۔یہ وہ مقام تھا جہاں مادہ لیپرڈ نے کچھ دیر رک کر اس کا خون پیا اور پھر اسے لے کر آگے بڑھ گئی تھی۔نور محمد نے جھپٹ کر لباس کی دھجیاں اٹھا لیں اوردیر تک سحر زدگی کے عالم میںانہیں آنکھوں کے سامنے پھیلائے دیکھتا رہا۔اس کی کیفیت دیکھ کر ان دونوں کے دل بھی غم سے بوجھل ہوگئے۔بہت دیر گذری تو اس نے اپنی کمر سے بندھا رک سیک اتارا اور ان دھجیوں کو بہت احتیاط کے ساتھ رکھ کر زپ بند کردی۔پھر وہ تھکے ہوئے انداز میں دو قدم پیچھے ہٹا اور پہاڑ کی نرم مٹی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔وہ کسی انجانے خلا کے حصار میں داخل ہوچکا تھا اور آسمان پر کسی موہوم نقطے یا شاید کسی انجان زبان میں لکھی کسی ان دیکھی تحریر پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔انہوں نے برف کی کچی تہہ ٹوٹنے جیسی آواز سنی اور دیکھا کہ نور محمد کے پورے بدن پر شاخ در شاخ دراڑوں کا جال پھیلا اور وہ کرچیوں میں بٹ گیا۔پھر وہ آپ ہی آپ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔انہوں نے پہلی بار کسی کا جذباتی قتل دیکھا تھا۔

ثانی نے گہری سانس لے کر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔اس نے بچپن سے اب تک بہت ہلاکتیں دیکھی تھیں۔حادثے، بیماریاں، سیاست اور مذہب کے نام پر مخالفین کا قتل اور بہت کچھ لیکن وہ کبھی ٹھیک سے اندازہ نہ لگاپایا تھا کہ جب کسی کا جذباتی تعلق موت کی گود میں جاسوتا ہے تو کیسے وہ شخص چپ چاپ اندر سے مرجاتا ہے۔وہ آگے بڑھا اور اس نے نور محمد کے گرد بازو حمائل کردئیے۔نور محمد نے ایک تھکے ہارے بچے کی طرح اس کی چھاتی پر سر رکھ دیا۔وہاں کچھ بھی نہیں تھاکوئی سسکی، کوئی آہ، کوئی فغاں کچھ بھی نہیں ۔بس ایک اداسی تھی اور ایک خاموشی تھی۔

مدتوں بعد نور محمد خود کو سنبھال لینے میں کامیاب ہوا تو انہوں نے آگے کا سفر شروع کیا۔ثانی ان سے تھوڑا الگ ہوکر چوکنا سا چل رہا تھا۔نور محمد اور ڈپٹی کی ذمہ داری تھی کہ وہ راستے کو پہچان میں رکھنے کیلئے جگہ جگہ پتھر اور شاخوں سے نشانیاں لگاتے جائیں سو وہ دونوں اپنے کام میں مصروف تھے۔مشکپوری کے ڈھلوانی سبزہ زار پر چلتے چلتے اچانک انہیں رک جانا پڑا۔سامنے ایک چٹان حائل تھی اور نیچے ایک کھائی تھی۔چٹان ایک نیم دائرہ بناتے ہوئے شمال مشرق کی سمت گھوم رہی تھی۔اس کے ساتھ راستہ تو موجود تھا لیکن چٹان کے ساتھ ساتھ چند گز تک نہ ہونے کے برابر تھا۔صرف گلدار جیسا سبک قدم جانور ہی اس چٹان پر چڑھ کر کھائی سے بچتے ہوئے دوسری طرف جاسکتا تھا۔خیریت یہ گذری کہ کھائی زیادہ گہری نہیں تھی۔ رسے کی مدد سے لٹک کر پار اترا جاسکتا تھا۔

وہاں پہنچ کر انہیں رکنا پڑا۔نور محمد نے نے کھائی کا جائزہ لیا اور پھر رک سیک سے ایک رسہ نکال لیا۔

’’صاب! ہمیں اس کھائی کو عبور کرکے دوسری طرف جانا پڑے گا۔میں یہ رسہ نیچے لٹکاتا ہوں آپ دونوں اس کی مدد سے نیچے اتر جائو۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن ثانی! یہ بتائو کہ آخر گلدار کوکیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ اپنے شکار کو گھسیٹتے ہوئے اتنی دور تک لے جائے؟‘‘۔ڈپٹی نے الجھن سے کہا۔

’’یہ اس کی فطرت ہے کہ وہ شکار کو وہیں کھانے کی بجائے اسے اپنے محفوظ ٹھکانے پر لے جاتا ہے چاہے وہ ٹھکانہ کئی کلو میٹر دور ہی کیوں نہ ہو۔وہاں جاکر وہ عام طورپر کسی درخت پر چڑھ جاتا ہے اور پھر اطمینان سے اپنا پیٹ بھرتا ہے یا پھر کھلے میں یہ کام کرتا ہے۔دیکھتے ہیں اس کیس میں کیا سامنے آتا ہے۔ہمیں بہر صورت اس کے ٹھکانے تک پہنچنا ہی ہوگا‘‘۔ثانی نے اس کے علم میں اضافہ کیا اور ڈپٹی کندھے اچکا کر رہ گیا۔

’’پہلے کون کھائی میں اترے گا؟‘‘۔ڈپٹی نے پوچھا۔

’’پہلے تم نیچے اتر و گے پھر میں جائوں گا اور آخر میں نور محمد اترے گا۔‘‘

وہ تینوں رسے کے ساتھ لٹکتے ہوئے کھائی میں اتر کر پار گئے اور پھر گھوم کر چٹان کی دوسری طرف پہنچ گئے۔یہاں پر خون کی لکیر معدوم ہوچکی تھی۔ثانی نے کچھ دور تک کچی مٹی کا بغور جائزہ لیا تو اسے گلدار کے پائوں کے نشانات مل گئے۔یہاں سے درندہ پہاڑ کی چوٹی کی جانب گیا تھا جو کچھ زیادہ دور نہیں تھی۔آگے چل کر خون کی واضح اور مسلسل لکیر غائب ہوچکی تھی صرف کہیں کہیں قطرے دکھائی دیتے تھے۔ثانی نے اندازہ لگایا تو اسے یہی خیال گذرا کہ درندے نے چٹا ن کو عبور کرنے سے پہلے اس جگہ بیٹھ کر لاش کا رہا سہا خون چوساہوگا ۔اب اسے خون کی لکیر کی بجائے قدموں کے نشانات پر انحصار کرنا تھا۔یہاں سے پہاڑ کی بلندی کو اپنی آغوش میں لیے گھنا جنگل شروع ہوتا تھا۔آدم خور نے گھنے جنگل کے اندر جانے کی بجائے کم گھنا راستہ چنا تھا۔وہ خون کی لکیر کو نظر میں رکھے ہوئے مسلسل چڑھائی چڑھتے رہے۔خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعد پہاڑ کی بلندی پر انہیں شفاف پانی کا چشمہ ملا۔اس چشمے کا شفاف پانی جنگلی جانوروں کی پیاس بجھانے کے علاوہ انہیں جنگل کے مخصوص ماحول سے کچھ دیر کیلئے نجات دلانے کا باعث بھی تھا۔ثانی نے اندازہ لگایا کہ وہ اب تک دو سے ڈھائی کلومیٹر کے درمیان فاصلہ طے کرچکے تھے۔جانے ابھی آدم خور نے اور کتنی دیر انہیں اپنے پیچھے لگائے رکھنا تھا۔فیصلہ ہوا کہ کچھ دیر اس پر فضا ماحول میں رک کر تازہ دم ہوا جائے۔وہاں دور تک پہاڑوں کی اونچی نیچی گھاٹیاں اور دور تک پھیلی سرسبز وادیاں دکھائی دے رہی تھیں۔مشکپوری کے اس مقام سے ایک جانب کشمیر کے بلند و پرشکوہ پہاڑ اور ان میں سے بل کھاکر نکلتا دریائے جہلم دکھائی دے رہا تھا تو دوسری طرف گلیات کی بلند ترین چوٹی میران جانی بھی کچھ ہی فاصلے پر ان کی نظروں کے سامنے تھی۔اگر جو کبھی وہ فرصت میں یہاں آئے ہوتے تو ان کی کیفیات کچھ اور ہوتیں لیکن وہ موت کے تعاقب میں لگے تھے اور انہیں صرف موت کو پچھاڑ دینے کے بارے میں سوچنا تھا۔

چشمے کے کنارے کی نم زمین پر بہت سے جانوروں کے پائوں کے نشانات ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہورہے تھے ۔اگر گلدار لاش کو لے

کر یہاں سے گذری تھی یا پانی پینے آئی تھی تو اس کے نشانات بعد میں یہاں آنے والے جانوروں کے نشانات تلے گم ہوچکے تھے۔

وہ کچھ دیر کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا سوچتا رہا اور پھر طے کیا کہ انہیں چشمے کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھنا چاہیے ۔یوںوہ چشمے کے کنارے کنارے ہوتے دوسری جانب مڑگئے ۔یہاں سے انہیں اترائی کا رخ کرنا تھا۔

ان کے سامنے کوہستان کا گنجلک سلسلہ ایک کھلی کتاب کی صورت میں پھیلا ہوا تھا جہاںجنگلات کا سبز پیرہن اوڑھے پہاڑ ورق در ورق خود کو جتنا دکھا رہے تھے اس سے زیادہ چھپا رہے تھے۔وہ ایک بے نہایت حسن مستور کے روبرو تھے۔انہیں لگا کہ وہ چلتے چلتے کسی اور دنیا میں نکل آئے ہیں۔ایسی دنیا جو کسی نقشے کا حصہ نہ تھی ۔ایک گداز اور سفاک دنیا جس کے قلب میں صدیوں قدیم غاریں تھیں۔ان میں ایک غار تھی جس کی گہرائیوں میں موت سو رہی تھی اور انہیں اس موت کو ہلاک کرکے اس کے بطن سے زندگی کو طلوع کرنا تھا۔

وہ چشمے سے زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے کہ ثانی کی کھوجی نگاہوں نے خون کے قطروں سے بنی موہوم سی لکیر کا پھر سے سراغ پالیا۔ آدم خور نے چشمے سے میران جانی پہاڑ کی جانب رخ کیا تھا۔یہاں زمین سنگلاخ اور غیر ہموار تھی۔نور محمد ان کی رہنمائی کیلئے ان کے آگے چل رہا تھا۔انہیں جنگل میں اپنا سفر شروع کیے خاصی دیر ہوچکی تھی۔سورج جو بادلوں کی اٹھکیلیوں کو ایک بزرگانہ بردباری کے ساتھ برداشت کیے جارہا تھااب سہہ پہر کے منطقے میں داخل ہونا شروع ہوگیا تھا۔وہ لہو کی موہوم لکیر کے تعاقب میں حد درجہ انہماک کے ساتھ چلے جارہے تھے اور بھول چکے تھے کہ وہ کہاں سے چلے تھے اور کتنا فاصلہ طے کرچکے تھے۔

’’وہ سامنے والے پہاڑ وں میں قدرتی غار موجود ہیں‘‘۔نور محمد نے شمال مغرب کی جانب پھیلے دھندلکے کی طرف اشارہ کیا۔’’ہم ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

نور محمد کی اطلاع پر ان کے اعصاب کی ڈوریاں تن گئیں اور تمام تر حواس بیدار ہوگئے۔وہ موت کی کمیں گاہ میں داخل ہوچکے تھے۔یہاںکہیں بھی ، کسی بھی جھاڑی یا پتھر کی اوٹ میںاس آدم خور کی موجودگی ممکن تھی جو اپنی سفاکی اور چالاکی کی وجہ سے بدروح قرار پاچکی تھی۔ان کی رائفلیں کندھوں سے اتر کر ہاتھوں میں آگئیں اور قدم تھم تھم کر اٹھنے لگے۔ثانی اور ڈپٹی میدانوں کے پالے ہوئے تھے سو طویل فاصلے تک پہاڑوں کی دشوار گذاری کا سامنا کرتے کرتے ان کی پنڈلیاں پتھرانے لگیں اوررفتہ رفتہ رفتار مدہم پڑنے لگی ۔دوسری طرف مرد کوہستانی نور محمد تھکن سے بے نیاز آگے ہی آگے بڑھے چلا جارہا تھا۔اب ان کے اور نور محمد کے درمیان فاصلہ بڑھنے لگا۔انہوں نے دیکھا کہ اچانک ایک جھاڑی کے پاس پہنچ کر نور محمد کے قدم رکے اور وہ ایک جا ساکت ہوگیا جیسے زمین نے اس کے پائوں جکڑ لیے ہوں۔

’’صاب! یہاں آنا‘‘۔اس نے گھٹی گھٹی آواز میں وہیںسے پکارا۔

اس کی آواز میں کچھ غیر معمولی سنجیدگی اور بوجھلتا تھی کہ ثانی اور ڈپٹی چوکنے سے ہوکر تیز قدموں اس کے قریب پہنچ گئے۔اس نے جھاڑی کے قریب زمین کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے دیکھا کہ وہاں کچھ ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ثانی نے جھک کر کچھ ہڈیاں اٹھائیں۔اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔یہ انسانی جسم کی ہڈیاں تھیں۔اس نے نور محمد کی طرف دیکھا جو پتھرائے ہوئے چہرے کے ساتھ دورکہیں نظریں جمائے کھڑا تھا۔ثانی نے گھوم پھر کر جائزہ لیا تو اسے جھاڑی کی اوٹ میں ایک ادھ کھائی نسوانی ٹانگ بھی دکھائی دی۔یہ کسی نوجوان لڑکی کی ٹانگ تھی۔جانے کس وجہ سے آدم خور نے اسے ادھ کھایا چھوڑ دیا تھا اور اب یہ بے شمار کیڑے مکوڑوں کا رزق بنی ہوئی تھی۔یہی وہ مقام تھا جس کی انہیں تلاش تھی۔آدم خور اپنی عادت کے مطابق لاش کو کئی کلومیٹر تک گھسیٹتا ہوا لایا تھا اوراس محفوظ جگہ پر پہنچ کر اس نے اطمینان کے ساتھ نمکین انسانی گوشت سے پیٹ بھرا تھا۔

ثانی نے ایڑھیوں کے بل گھومتے ہوئے سارے کا جائزہ لیا۔وہ سفاک آدم خور یہیں کہیں تھی اور شاید انہیں دیکھ رہی تھی۔

ثانی نے نور محمد سے نظریں ملائے بغیر ڈپٹی کو اشارہ کیا تو اس نے سامان میں سے ایک چادر نکال لی۔دونوں نے گہرے سکوت کے ساتھ گلابے کی باقیات کو چادر میں ڈال کر اسے احتیاط اور مضبوطی سے باندھ دیا۔

نور محمد نے سلوموشن میں ہاتھ بڑھایا اور گٹھڑی ڈپٹی سے لے کر بغل میں داب لی۔

ڈپٹی نے چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کرکے اس جگہ پر ایک گول دائرہ بنادیا۔پہچان سے محروم ہوجانے والی گلابے اب مادی پہچان کے ٹھوس اور قابل لمس دائرے میں داخل ہوچکی تھی۔

’’اب گلابے بے نشان نہیں رہے گی۔اس کی ایک قبر ہوگی اور ہم اس پر دئیے جلا کر اسے یاد کیا کریں گے‘‘۔نور محمد کی تاثرات سے عاری بوجھل آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔

انہوں نے اپنے ہتھیار ایک طرف رکھے اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھادئیے۔یہ دعا کے پہلے پھول تھے جو ایک سہاگن نہ بن سکنے والی دلہن کے ایتھریکل وجود پر نچھاور کیے گئے تھے۔

سورج مغرب کے رخ پھسلتا ایک قریبی پہاڑی کے فراز پر ایستادہ دیودار کی پھننگ پر اٹک گیا تھا اور وادی میںسائے دراز ہونا شروع ہوگئے تھے۔ کوئی دیر گذرتی کہ سورج پہاڑی کی اوٹ میں چھپ جاتا اور ہر سو فضا میں شام کے رنگ گھل جاتے۔یہ وقت تھا کہ جب دن بھر کی نیند اور آلکس کے بعد گلدار اپنی سلطنت کی سیر کیلئے کمیں گاہ سے نکل آیا کرتے ہیں۔وہ وادی کے ہولناک پھیلائوکے درمیان موجود تھے ۔ان کیلئے چہار اطراف خطرہ ہی خطرہ تھا۔کسی بھی سمت سے موت ان پر جھپٹا مار سکتی تھی ۔ثانی نے نور محمد اور ڈپٹی کو وہیں مخالف سمتوں کی نگرانی کیلئے چھوڑا اور خود ان کے Coverمیں آگے بڑھنے لگا۔اسے اپنے اندازے کی تصدیق کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ایک چوہے کی نسل کا مقامی جانور مری وول اچانک نمودار ہوا اور اس کے قریب سے رینگتا ہوا دور نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں جنگل کا پر اسرار سکوت ٹوٹنے لگا۔قریب کے درختوں میں آوازیں انگڑائی لے کر جاگ اٹھی تھیں۔کسی درخت کی اوٹ سے کوئی پرندہ زور سے چیخا۔اس کے ساتھ ہی بے شمار پروں کی تیز پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔یہ اشارہ تھا کہ پرندوں نے اس جنگل کی ملکہ کو دیکھ لیا ہے۔

یہاں سے بلند قامت درختوں کے ساتھ ساتھ جھاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔یہ جھاڑیاں اس کے قد سے اونچی اور ایک دوسرے کے ساتھ گتھی ہوئی تھیں۔ثانی کو ان جھاڑیوں سے بچتے بچاتے آگے بڑھنا تھا۔ اس کے سامنے چند ہی قدم کے فاصلے دو تین بندر زمین پر بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھے۔اچانک ان کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے گردن گھما کر دیکھنا شروع کردیا۔اس کے ساتھ ہی درختوں پر موجود بہت سے بندروں نے سہمی ہوئی آوازیں نکالنا شروع کردیں۔زمین پر بیٹھے بندر بھی پھرتی سے اٹھے اور ان میں جاملے۔بیس پچیس بندروں کا ایک گروہ تھا جو وہاں سے سر پر پائوں رکھ کر بھاگ نکلا۔یہ گلدارکے کہیں بہت قریب ہونے کی سب سے پکی نشانی تھی۔

ثانی کے اعصاب تن گئے۔ایک ہلکی سی کھٹ کے ساتھ اس نے رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹایا اور رائفل بلند کرکے اپنے عقب میں خاصے فاصلے پر موجود اپنے ساتھیوں کو گلدار کی موجودگی سے مطلع کردیا۔وہ بھی اپنی جگہ پر مضبوط اور مستعد ہوکر بیٹھ گئے۔ان کی شاٹ گنیں کسی بھی لمحے آگے اگلنے کیلئے تیار تھیں۔

شدید خطرے کی حالت میں موجود کسی بھی شکاری کی طرح ثانی کے پورے بدن پر آنکھیں اگ آئی تھیں۔وہ بیک وقت جھاڑیوں پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھا اور اپنے آگے پیچھے کی خبر بھی رکھے ہوئے تھا۔اس کی سماعت حساسیت کی انتہائی سطح پر بیدار تھی کہ جونہی کوئی آہٹ ملے دماغ کو خبر کردی جائے۔وہ ایڑھیوں پر دبائو ڈالتا کچھ اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک کم گہری کھائی اس کی منتظر تھی۔اس کے دو اطراف جھاڑیاں سر اٹھائے کھڑی تھیں اور سامنے کھائی تھی۔ اطمینان کی بات یہ تھی کہ کھائی کم گہری تھی جس میں اترنا کوئی خاص مشکل نہیں تھا ۔وہ ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ کس مقام سے وہ کھائی میں زیادہ آسانی سے اتر سکتا ہے کہ ایک مخصوص ہلکی اور مسلسل غراہٹ ان کے کان میں پڑی۔اس کے قدم جہاں تہاں تھم گئے۔ گلدار نے انہیں دیکھ لیا تھا۔ کھائی میں مشکل سے پچاس ساٹھ فٹ کے فاصلے پر ایک پستہ قد جھاڑی تھی جو اس غراہٹ کا مرکز تھی۔اس نے جھاڑی کو ہلتے ہوئے دیکھا۔اس کے ساتھ ہی اس نے گلدار کے کالے گلابوں سے مزین سنہرے پن کی طرف مائل گہرے زرد رنگ کے جسم کی ایک جھلک دیکھی جو آناً فانا غائب ہوگئی۔

ثانی کھلے میں کھڑا تھا اور گلدار کیلئے نسبتاً آسان ہدف تھا۔ گلدار نے اسے نگاہ میں لے رکھا تھا جبکہ خود گلدار اس کی نظر سے اوجھل تھا اور پھر جھاڑیوں کے عقب میں ہونے کی وجہ سے اسے نقل و حرکت میں آسانی تھی جبکہ وہ کھلے میں تھا اور کسی بھی جانب سے حملے کی زد میں آسکتا تھا۔اس نے پندرہ بیس قدم دور ایک تناور درخت کو دیکھا جو مٹی اور پتھروں کے ایک تودے کے بہت قریب تھا۔ثانی کیلئے وہ تودہ محفوظ اوٹ کا کام دے سکتا تھا کیونکہ اس کی آڑ لینے کی صورت میں اس کی پشت محفوظ ہوجاتی اور وہ آسانی سے سامنے کی جانب توجہ دے سکتا تھا لیکن مسئلہ تھا وہاں تک پہنچنا۔جبکہ یہاں تو معاملہ تھا کہ پلک جھپکی نہیں اور گلدار جھپٹا نہیں۔کہیں دور کوئی پرندہ خوفزدہ آواز میں ٹرایا اور اس کے عین سامنے ایک اور جھاڑی بہت زور سے ہلی۔گلدار نے مقام تبدیل کرلیا تھا اوراس پر جاپڑنے کیلئے بہتر پوزیشن کی تلاش میں تھا۔کوئی لمحہ جاتا کہ اس کی غراہٹ ایک فلک شگاف دھاڑ میں بدل جاتی اور اس کی گردن گلدار کے بے رحم جبڑے میں ہوتی۔ایک ایک پل برس برابر تھا۔اور پھر یکلخت خاموشی چھا گئی۔اس نے اندازہ لگایا کہ اس کا حریف اس تک پہنچنے کیلئے کسی پستہ قد جھاڑی یا جھاڑیوں کے درمیان کسی راستے کو تلاش کررہا ہے کیونکہ وہ اس وقت جن جھاڑیوں کے پیچھے تھا وہ اس قدر بلند تھیں کہ وہ صرف پھلانگ کر ہی انہیں عبور کرسکتا تھا۔اس نے فرصت کے اس موقع کو غنیمت جانا اور دوڑ کر درخت کے عقب میں پہنچ گیا۔اس نے اپنی سانس ہموار کی اور ایک جگہ جم کر بیٹھ گیا۔اب سٹریٹجک پوزیشن کے اعتبار سے اسے اپنے حریف پر سبقت حاصل ہوگئی تھی۔

اس نے شام کی خنکی میں اپنے ماتھے پر آئی ہوئی تریلی پونچھی اور رائفل کے ٹریگر پر انگلی کی گرفت مضبوط کردی۔درخت کی اوٹ میں جانے کے بعد اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا تھا اور اب وہ ایک تجربہ کار شکاری کے مخصوص انہماک اور مستعدی کے ساتھ کسی بھی آن ایکشن کیلئے تیار تھا۔خاموشی کا وقفہ طویل تر ہوگیاتھا جس سے وہ تھوڑا جھنجھلا سا گیا۔کہیں یہ نہ ہو کہ درندہ اپنا ارادہ ملتوی کرکے وہاں سے سٹک گیا ہو۔اس کی نگاہیں بدستور گھنی جھاڑیوں پر جمی تھیں ۔ان جھاڑیوں میں مناسب فاصلوں پر کچھ کمزور اور کچھ تناور درختوں کی ایک لائن سی کھڑی تھی۔اچانک ایک بوجھل خاموشی کے برسوں طویل وقفے کے بعد ایک جھاڑی زور سے ہلی ۔درندہ کہیں نہیں گیا تھا ۔ وہ جھاڑیوں کے پیچھے ہی موجود تھا ۔اس نے چاہا کہ جھاڑی کے درمیان میں فائر داغ دے کہ پلک جھپکنے سے بھی کم وقفے میں ا س نے دیکھا کہ وہ ایک درخت کی تنومند شاخ پر چڑھا کھڑا ہے۔وہ چند فٹ کی دوری پر اپنے تقریباً سامنے اسے نہایت واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔اس کی تجربہ کار نگاہوں نے فوری طور پر اس کا جائزہ مکمل کرلیا۔وہ مادہ لیپرڈ تھی اور یقینی طور پر وہی آدم خور تھی جس کی اسے تلاش تھی۔اس غیر متوقع نظارے نے لمحہ بھر کیلئے اس کے اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اس نے فائر کرنے سے پہلے گہرا سانس لے کر اپنے ہیجان پر قابو پانے کی کوشش کی۔

اس نے تعجب سے دیکھا کہ مادہ گلدارنے لحظہ بھر کیلئے اس درخت کی جانب دیکھا جس کی اوٹ میں وہ چھپا ہوا تھا۔صرف ایک لمحہ تھا جب دونوں کی نظریں ملیں۔ثانی نے بہت مرتبہ نہایت قریب سے درندوں کو شکار کیا تھا۔کئی مرتبہ فیصلہ کن لمحے سے پہلے اس کی نظریں درندے کی نظروں سے ملی تھیں لیکن اس نے کسی درندے کی آنکھ میں اتنی وحشت اور جلن نہ دیکھی تھی۔تب ثانی نے دیکھا کہ اس کی ناک کے قریب بال تن کر کھڑے ہوگئے اور اس کے حلقوم کی گہرائیوں سے دھیمی سی غراہٹ نکلی۔وہ اس پر جھپٹ پڑنے کیلئے تیار تھی۔ثانی کی انگلی بھی ٹرائیگر پر سختی سے جم گئی۔وہ اندازہ لگاچکا تھا جست بھرنے کے دوران اس کا جسم ہوا میں کتنے زاوئیے کی قوس بنائے گا۔درندہ جونہی چھلانگ لگاتا وہ اس پر فائر کھول دیتا اور اسے اپنے تک پہنچنے سے پہلے ہی زمین پر مارگراتا ۔ اور پھر اچانک جھاڑیوں پر کوئی چیز دھپ سے گری جیسے کسی نے پتھر اچھالا ہو ۔آدم خور نے چونک کر دوسری جانب دیکھا اور پھر کہیں اس کی نظریں جم کر رہ گئیں۔

آدم خور نے اس پر حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا تھا کہ اب کسی اور چیز نے اس کی توجہ حاصل کرلی تھی۔اس کا دل دھک سے رہ گیا۔یقینااس نے نور محمد یا ڈپٹی میں سے کسی ایک کو دیکھ لیا تھا اور اب ان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ باندھ رہی تھی۔اگر جو وہ اس کی طرف سے غافل ہوئے تو!؟۔اس نے اس خوفناک خیال کو جھٹکنے کیلئے زور سے سرہلایا۔یہ خیال ہی دہشت ناک تھا کیونکہ اس صورت میں ان دونوں میں سے کسی ایک کی موت یقینی تھی۔ادھر ثانی کی دائیں آنکھ ڈبل بیرل کی مکھی پر جمی تھی ادھر آدم خور ایک مسلسل دھیمی غراہٹ کے ساتھ کسی اور جانب جست بھرنے کیلئے اپنے جسم کو تول رہی تھی۔

ثانی کی واحد کھلی آنکھ نے دیکھاکہ اس کے کان کھڑے تھے اور اس کی بلند ہوتی مضبوط اور طویل دم اب تیز تیز ہلنے لگی تھی۔پھر ایک سلو موشن میں اس نے اپنے جسم کو نیچے کرکے آگے کی طرف جھکایا۔ثانی کے پاس صرف ایک لمحہ تھا جس کے بعد وہ بیس فٹ طویل چھلانگ لگاچکی ہوتی۔اس کی ٹریگر پر انگلی کی گرفت مضبوط تر ہوئی کہ اچانک شاٹ گن کے فائر سے جنگل کا سکوت ایک چھناکے کے ساتھ کرچی کر چی

بکھر گیا۔اسی آن ثانی کی ٹریگر پر جمی انگلی نے ایک جھٹکا کھایا اور اس کی ڈبل بیرل سے دو شعلے لپکے۔دو سمت سے ایک ہی وقت فائر ہوئے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔آدم خور غائب ہوچکی تھی۔دوسری جانب سے کچھ اور فائر داغے گئے لیکن بیکار۔ ثانی نے ایک گہری سانس لے کر اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔درخت کی وہ شاخ خالی تھی جس پر لمحہ بھر پہلے آدم خور حملے کیلئے پوزیشن سنبھال چکی تھی۔وہ حیران تھا کہ اس کا نشانہ کیسے چوک گیا۔اتنی سرعت ، اتنی پھرتی تو کسی چھلاوے سے بھی بعید ہے۔کیا ایک درندہ آدم خور بن کر اس قدر پھرتیلا اور عیار بن جاتا ہے۔۔۔؟

‘‘بدروح!؟‘‘ اس کے اندر کسی نے سرگوشی کی لیکن خیال کی اگلی لہر نے اس سرگوشی کو دم گھونٹ دیا۔

وہ  وہاںبے حس وحرکت کھڑا انتظا کرتا رہا لیکن جھاڑیوں کی اوٹ میں قیامت کی خاموشی تھی۔ اس نے تھوڑا اور انتظار کیا جس کے بعد وہ درخت کے پیچھے سے باہر نکل آیا۔دوسری طرف سے ڈپٹی اور نور محمد بھی بھاگتے ہوئے اس سے آملے۔جذبات کی شدت سے ان کے چہرے سرخ تھے اور سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔وہ آتے ہی اس کے ساتھ لپٹ گئے۔

’’دوست ہم اور تم زندہ ہیں۔۔۔!‘‘۔ڈپٹی نے اس کے ساتھ اپنی ایکسائٹمنٹ شیئر کرنا چاہی لیکن ثانی نے منہ پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کرادیا اور وہیں رکے رہنے کا اشارہ کیا۔وہ اس کا مطلب سمجھ کر الٹے قدموں درخت کی طر ف چلے گئے اور ثانی اپنی ڈبل بیرل کو سیدھا کیے دھیرے دھیرے جھاڑیوں کی طرف بڑھا۔وہ کچھ دیر جھاڑیوں کا جائزہ لیتا رہا اور پھر پلٹ آیا۔

’’کم بخت ہاتھ سے نکل گئی۔‘‘ثانی نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’کب تک بچے گی مال زادی؟‘‘نور محمد نے نفرت سے تھوک دیا۔

’’مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم اس کی طرف سے غافل نہ ہوجائو‘‘۔ثانی نے کہا۔

’’میں صرف ایک بار غافل ہوا تھا جب میری  پر اس مال زادی آنکھوں کے عین سامنے وہ میری گلابے کو گھسیٹتے ہوئے لے گئی تھی۔اب تو موت ہی مجھے اس سے غافل کرسکتی ہے۔‘‘نور محمد نے کہا اور اپنی ہیجان خیزی کو متوازن کرنے کیلئے ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

’’جب تم اکیلے جھاڑیوں کی طرف جارہے تھے تو ہمیں لگا کہ ہمارا وہاں کھڑے ہونا بیکار ہے جہاںتم نے ہمیں رکنے کو کہا تھا۔تب ہم بھی تمہارے پیچھے چلے آئے اور تم سے تھوڑے ہی فاصلے پر الرٹ ہوکر کھڑے ہوگئے‘‘ڈپٹی نے اپنے دوست کا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا۔

’’صاب! ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جھاڑیوں کے پیچھے ہے۔بندروں کی بھاگ دوڑ نے ہمیں سب بتادیا تھا۔تب ہم ڈر گئے کہ وہ کہیں بے خبری میں آپ پر حملہ نہ کردے۔۔۔‘‘نور محمد گویا ہوا۔

’’پروگرام تو اس کا یہی تھا لیکن پھر جانے کیوں اس نے ارادہ بدل دیا۔‘‘

’’ارادہ اس نے بدلا نہیں نور محمد نے بدلوایاتھا۔‘‘ ڈپٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ذرااس کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ جب وہ درخت پر نمودار ہوئی تو اس نے اس پر ایک پتھر اچھال دیا اور وہ تمہیں بھول کر ہماری جانب متوجہ ہوگئی۔‘‘

’’مائی گاڈ!‘‘۔ثانی کو جھرجھری سی آگئی۔’’نور محمد !شکار کے دوران ضرورت سے زیادہ اعتماد اور بہادری اکثر بہت مہنگی پڑتی ہے۔آئندہ احتیاط کرنا‘‘۔

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہو صاب! بعد میں مجھے بھی احساس ہوا تھا۔‘‘نور محمد نے سادگی سے اعتراف کیا۔

’’شام گہری ہورہی ہے۔واپس چلاجائے۔ایسا نہ ہو اندھیرا ہوجائے اور ہمیں واپسی کی نشانیاں نہ ملیں‘‘۔ثانی نے کہا اور انہوں نے اپنا اپنا سامان اٹھا کر واپسی کے راستے پر قدم رکھ دئیے۔

ڈونگا گلی واپس پہنچتے پہنچتے شام کے سایوں میں رات کی تاریکی گھل گئی تھی۔ثانی نے نور محمد کو پیسے دئیے کہ وہ کل تک ایک عدد بکری کا انتظام کررکھے جسے گلدار کے چارے کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔ان کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ نور محمد گلابے کی باقیات کو لے کر اکیلا ہی اپنے سسرال جائے گا اور باقی دونوں گھر پہنچ کر اس کا انتظار کریں گے۔بہت سے خوف اور خدشات تھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ گلابے کی ہڈیاں ملنے پر اس کے گھر والوں کا ردعمل کس نوعیت کا ہوگا جو پہلے ہی اس خیال کے اسیر ہوچکے تھے کہ محکمہ وائلڈ لائف نے گلیات کی بدروح کو مارنے کی کوشش کرکے اسے انتقامی بنادیا تھا اور گلابے کی جان اس کے انتقام کی بھینٹ چڑھی تھی۔نور محمد کیلئے بھی وہاں جذبات خوش کن نہیں تھے۔اسے بھی بدروح کو انتقام پر اکسانے والوں کا ساتھی قرار دیا جاچکا تھا۔

’’جانا تو پڑے گا۔‘‘نور محمد نے زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ کندھے اچکائے اور گلابے کے گھر کی سمت چل پڑا۔ثانی اور ڈپٹی نے بھی نور محمد کے گھر کی راہ لی۔وہ دن بھر کی تھکن اوڑھے گھر پہنچے تو ایک اور حیرت ان کی منتظر تھی۔وہ جونہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ صحن کے پار ایک بند کمرے کے دروازے پر ایک کاغذ چپکا ہواتھا۔ڈپٹی نے آگے بڑھ کر کاغذ اتارا اور دیکھا کہ اس پر بھتہ خوروں کے مخصوص انداز میں پستول کی ایک گولی چپکی ہوئی تھی اور موٹے بھدے حروف میں لکھا تھا۔

’’آخری وارننگ

واپسی یا موت

فیصلہ آج رات تک‘‘

ان کی غیر موجودگی میں کوئی باہر سے صحن میں کودا تھا اوراندرونی دروازے پر یہ کاغذ چپکا کر چلا گیا تھا۔اس میں ایک پیغام یہ بھی تھا کہ وہ بند دروازوں کے پیچھے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

’’اب تم مجھے نہیں روکو گے۔ہمیں کچھ کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ ہمارے ساتھ کچھ ہوجائے۔‘‘ ڈپٹی نے پرچہ لپیٹ کر جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے لیکن سرکاری سیکورٹی ملنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس اپنا کام کرنے کیلئے صرف کل کا دن ہے‘‘۔ثانی نے کندھے کو رائفل کے بوجھ سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔

’’تم فکر نہ کرو سب کچھ بہت جلدی میں ہوجائے گا۔‘‘

اگلے لمحے ڈپٹی نے موبائل فون پر سرکاری لوگوں سے رابطہ کرلیا۔وہ دیر تک انہیں صورتحال سمجھاتا رہا اور پھر مطمئن ہوکرموبائل ایک جانب ڈال دیا۔

’’وہ صورتحال سے پہلے سے ہی کافی حد تک آگاہ ہیں‘‘۔ڈپٹی نے اسے بتایا۔’’ہیڈ آفس میں کل سے گمنام کالیں موصول ہورہی ہیں جن میں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ہم دونوں کو فوری طور پر واپس بلانے کا کہا جارہا ہے‘‘۔

’’گڈ! اورہماری سیکورٹی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں تمہارے افسران؟‘‘

’’ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا جارہا ہے۔سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔اس نے مختصر سا جواب دیا اور جوتوں کے تسمے اتارنے میں مصروف ہوگیا۔

ثانی نے صحن میں چارپائیاں نکالیں او ر وہ دونوں اپنے پائوں کو جوتوں اور جرابوں کی قید سے آزاد کرکے ان پر دراز ہوگئے۔بھوک اور تھکن سے وہ نیم جان ہورہے تھے۔جنگل کی مہک لیے خنک ہوا کے تیز جھونکوں نے انہیں پتا بھی نہ چلنے دیا کہ کب ان کی آنکھیں مندھیںاور کب نور محمد اندر داخل ہوا۔

نور محمد نے جب انہیں گہری نیند سے جگایا تو رات کے دس بج رہے تھے۔وہ تین ساڑھے تین گھنٹے تک بے سدھ پڑے رہے تھے۔نور محمد نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے ساتھ کھانا لے کر آیا ہے ۔انہوں نے صحن کے ایک کونے میں لگے نل سے آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار کر اپنی سرت بحال کی ۔ان کے تازہ دم ہوتے ہوتے نور محمد کھانا گرم کرلایا۔ایک تو کھانا مزیدار اس پر قیامت کی بھوک ۔وہ دونوں ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے۔کھانے کے دوران نور محمد نے کوئی بات نہیں کی۔وہ غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھا۔انہوں نے اس سے پوچھا بھی تو وہ خاموش رہا۔نور محمد شدید جذباتی بحران میں تھا۔اس نے دستر خوان سمیٹا اورخاموشی سے کمرے میں چلاگیا۔

ثانی اور ڈپٹی چارپائیوں پر دراز ہوگئے اور چت لیٹے ہوئے ستاروں پر نظریں جمالیں۔چاند طلوع تو ہوا تھا لیکن جانے کیوں کچھ چپ چپ سا تھا۔ستارے بھی لگا کہ اپنے اپنے من میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ثانی نے کروٹ بدلی تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی سسک رہا ہے۔غور کیا توکمرے کے اندر سے نور محمد کی سسکیوں کی آواز آرہی تھی۔وہ بے آواز قدموں اٹھا اور بند دروازے کو ہلکا سا دھکیل کر اندر داخل ہوگیا۔نور محمد ایک چٹائی پر گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھا تھا اور اس کا بدن ہچکولے لے رہا تھا۔ثانی نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک کر سیدھا ہوگیا۔اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور چہرے پر وحشت سی ٹپک رہی تھی۔ثانی کو دیکھ کر وہ زبردستی کی مسکان مسکایا۔ اس نے نور محمدکے بالوں کو سہلایا تو وہ بے اختیار اس کے سینے سے لگ گیا۔غم کی شدت نے اسے ایک چھوٹاسا بچہ بنادیا تھا جسے کسی نے تھپڑ مار کر اس کا دل پسند کھلونا چھین لیا ہو۔ثانی نے اس کے سر کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچے رکھا پھر آہستہ سے خود کو جدا کرتے ہوئے کہا۔

’’نور محمد! اٹھو پانی کے چھینٹے مار کر تازہ دم ہوجائو۔ آئو باہر کھلی ہوا میں جاکر بیٹھتے ہیں‘‘۔

نور محمد نے سعادت مند بچے کی طرح سر ہلایا اور اٹھ کر صحن میں چلاگیا۔ثانی نے صحن میں آکر دیکھا ڈپٹی چارپائی پر دراز اونگھ رہا تھا۔وہ صحن پار کرکے باہرنکل گیا۔تھوڑی دیر بعد نور محمد بھی اس سے آملا اور وہ دونوں وادی کی جانب رخ کیے گھر کے قریب ایک کھائی کے کنارے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔پندرہویں کا زوال آمادہ چاند بھی ان کی محفل میں شریک ہوگیا۔نور محمد وہاں تھا پر وہاں نہیں تھا۔سارے میں مست خرام ہوا تھی لیکن وہ گھٹن کے حصار میں تھا اور حبس دم تھا۔ثانی نے اس کی طرف دیکھا اور اس کا ہاتھ دبایا۔

’’نور محمد! تم نے کچھ بتایا نہیں کیا ہوا جب تم اپنے چاچے کے گھر گئے؟‘‘۔

نور محمدایک کھوکھلی ہنسی ہنسا۔’’ہونا کیا تھا بس یونہی۔۔۔‘‘

’’بس یونہی؟۔۔۔مطلب؟؟‘‘

’’میرے چاچے نے مجھے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا باہر باہر سے ہی مجھ سے گلابے کی ہڈیاں وصول کیں اور چپ چاپ اندر چلاگیا۔میں نے ڈھیٹ بن کر اندر جانا چاہا تو وہ میرے راستے میں دیوار بن گیا جیسے میں کوئی باہر کا آدمی ہوں۔‘‘

’’اوہ ویری سیڈ!‘‘ثانی نے اس کے کندھے پر ملائمت سے ہاتھ رکھا۔’’لیکن تم گلابے کے شوہر ہو اور کزن بھی۔رخصتی ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔

نورمحمد نے جواب میں ایک بے معنی مسکان کے ساتھ کندھے اچکا دئیے اور پھر دونوں خاموشی کے بوجھ تلے دبتے چلتے گئے۔نور محمد بے معنویت میں گھرا چہرے کو پتھر کیے یونہی پائوں ہلانے لگا اور ثانی خالی نگاہوں سے جنگل کے تاریک پیش منظر کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا رہا۔ چاندنی کے بیک ڈراپ میں ان کے پیچھے ایک سایہ ان کی طرف بڑھا۔یہ ڈپٹی تھا جو اپنی شارٹ گن لیے ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔تب جنگل کی تاریک پنہائیوں میں سے نور محمد کی آواز آتی سنائی دی۔

’’جو ہمیں سب سے پیارا ہو ، جس کے بغیر کوئی جی نہ پائے بس ایک وہی ہمیں کیوں چھوڑ جاتا ہے؟‘‘۔نور محمد بے خیالی کے عالم میں جانے کس سے مخاطب تھا۔وہ اندھیرے کی کوکھ میں گھورتے ہوئے کٹے ہوئے لہجے میں کہے گیا۔’’گلابے یوں چلی جائے گی صاب! میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔بس ایک وہی تھی جو میری تھی اور ایک میں تھا جو اس کا تھا ۔ورنہ کیا تھا میری زندگی میں۔ساری عمر کی نفرتیں، دھتکار، پھٹکار اور کیا تھا میرے پاس؟۔باپ سگا تھا لیکن کٹھور ، سوتیلے سے بدتر۔گھر جہنم بنا رکھا تھا اس نے۔میں نہیں جانتا صاب! کہ اسے کیا نفرت تھی مجھ سے اور میری ماں سے؟۔ بغیر وجہ بتائے اس نے جیتے جی مار رکھا تھاہمیں۔شاید اس کے نزدیک مرد کی یہی شان تھی کہ گھر سے باہر ہو تو قہقہے لگائے اور گھر میں داخل ہو تو ہٹلربن جائے۔ میری ماں کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔وہ بچپن سے مرد کا یہی روپ دیکھتی آئی تھی۔اس کا باپ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔اس نے میرے باپ کے گھر میں آنے سے پہلے ہی خود کو جہنم کا ایندھن مان لیا تھا۔مسئلہ میرا تھا۔میں نفرت کی ان کانٹے دار جھاڑیوں میں کب تک الجھا رہتا جو میرے باپ نے میرے دل اور دماغ میں اگارکھی تھیں۔‘‘

نور محمد نے ایک ذرا توقف کیا او ر پھر دوبارہ کچھ کہہ ڈالنے کی ہمت جمع کرتے ہوئے بولا۔’’میں بزدل تھا کہ جب گھر سے بھاگ جانے کی عمر میں آیا تو اپنی ماں کو اس کے رحم وکرم پر چھوڑ کر بھاگ گیا۔کراچی ، لاہور، راولپنڈی جانے کہاں کہاں دھکے کھاتا پھرا۔دن بھر ڈرائیوری کرتا اور رات کو کتابیں لے کر بیٹھ جاتا۔بس دھن ہوگئی تھی کہ مجھے کچھ بن کر دکھانا ہے ۔اپنے باپ کو ، اپنی ماں کو، اپنے چاچے کو اور اس کی دونوں بیٹیوں کو یا شاید ساری دنیا کو‘‘۔

خاموشی کا ایک اور طویل وقفہ جس کے دوران نور محمد ٹٹول ٹٹول الفاظ تلاش کرتا رہا۔’’گلابے میری بچپن کی منگ تھی۔اس کا باپ بھی اپنے بھائی کی طرح دل سے مجھے ناپسند کرتا تھا۔مجھ پر سختی کرنے میں جو کسر میرے باپ سے رہ جاتی وہ پوری کردیا کرتا تھا۔وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں کیوں دیتا۔بس مجبور ہوگیا تھا اپنی بیوی کے ہاتھوں۔میری چاچی ایک جہاندیدہ اور دھڑلے کی عورت ہے ۔میری ماں کے عین برعکس۔اس نے اپنے شوہر کے انکار کے باوجود بچپن میں اپنی چھوٹی بیٹی میرے نام کردی تھی۔اس کے باوجود میرا چاچا رشتہ توڑنے میں ایک لحظہ دیر نہ کرتا لیکن مجبور تھا کیونکہ ہمارے ہاں بیٹیوں کے رشتے توڑا نہیں کرتے۔ اور پھر میں تھوڑا پڑھا لکھاتھا، اچھے قد کاٹھ کا تھا، اچھا خاصا کماتا تھا۔وہ دوسرا کہاں سے لاتا میرے جیسا؟‘‘

’’اور گلابے؟‘‘ ثانی نے پوچھا۔’’گلابے کی مرضی کیا تھی؟‘‘

’’پورے خاندان میں صرف یہ دونوں بہنیں تھیں گلابے اور سفیدہ جو میری ہمدرد تھیں۔‘‘ بچپن کی محبت کا ذکر آیا تو اس پر ایک والہانہ پن سا طاری ہوگیا۔’’گلابے میرے بچپن کی ساتھی اور ٹھیکرے کی منگ تھی ۔ہم نے ہوش سنبھالتے ہی ایک دوسرے کو دل سے قبول کرلیا تھا۔ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر رہ نہ سکتے تھے۔میں اوائل جوانی میں گھر ہی چھوڑ گیا تھا گلابے کے رونے دھونے کے باوجود۔ وہ مجھ سے سخت ناراض تھی۔اس کے باوجود ہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہوسکے تھے۔وہ ہمیش میرے قریب رہی اور میں اس کے قریب رہا۔وہ میرے بعد میری ماں کا بھی خیال رکھا کرتی تھی۔اس وجہ سے وہ مجھے اور زیادہ عزیز ہوگئی تھی۔مری کے ایک سرکاری سکول سے اس نے جیسے تیسے میٹرک کرلیا تھا۔اس نے مجھے خط میںلکھنے کیلئے بہت سے شعر بھی یاد کرلیے تھے ۔وہ مجھے خط لکھتی تو باتیں کم اور شعر زیادہ لکھا کرتی تھی۔

’’میں کچھ نہ کچھ بننے کیلئے گھر سے نکلا تھا پر کچی عمر تھی اور اکیلی جان تھا، کیا تیر مار لیتا ۔مشکلوں سے پرائیویٹ ایف اے کیا۔بی اے کا داخلہ بھیجا اور امتحانوں سے ٹھیک ایک دن پہلے کراچی میں پولیس نے ایک جھوٹے کیس میں دھر لیا۔اجنبی دیار اور دشمنوں کا گھیرا ایسے میں کس سے مددمانگتا۔وکیل تک کرنے کیلئے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔یوںمجھے تین سال کی جیل ہوگئی۔کسی نے مجھ سے دشمنی نکالی تھی اور اندھے قانون نے میری زندگی کے تین سال چرا لیے تھے۔یہی وہ سال تھے جب میں نے کچھ بننا تھا۔ گلابے کے تصور ہی کا آسرا تھا کہ میں وہ تین سال نکال گیا۔

’’میںجیل سے نکلا تو اپنی اوقات میں آچکا تھا سو میں نے چپ چاپ ہتھیار ڈال دئیے ۔اب میں جو تھا بس وہی تھا۔ایک ہارا ہوا جواری۔میں نے ہار مان لی۔اب میں نے کسی بلندی کو نہیں چھونا تھا۔ کسی کو کچھ بن کر نہیں دکھانا تھا۔میری ہار پر گلابے بہت بگڑی ، سفیدہ نے بھی بہت شرم دلائی لیکن جیل نے مجھے توڑ دیا تھا۔جیل سے نکلا تو میں بڑا ہوچکا تھا۔ میں نے بہت سال پردیس کے دھکے کھا ئے تھے ۔اب مجھے اپنے دیس کی اور اپنے لوگوں کی یاد ستانے لگی تھی۔میں کراچی چھوڑ کر راولپنڈی آگیا تاکہ کبھی کبھار گھر کا چکر لگا سکوں۔اپنی ماں اور گلابے کو اپنے ہونے کا احساس دلا سکوں۔ یوں ایک ڈیڑھ سال ہوا کہ میں نے دوسرے تیسرے ہفتے گائوں کا چکر لگانا شروع کردیا ۔ویسے بھی اب میں کمائو پوت ہونے کی وجہ سے باپ اور چاچے کیلئے قابل برداشت ہوچکا تھا۔

’’ہیوی ڈیوٹی ڈرائیوری سے مجھے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی تھی۔یوںمیں نے اپنا خرچہ کھلا رکھنے کے باوجود خاصے پیسے جوڑ لیے تھے۔ایک بار جب میں گراں آیا تو میںنے یہ پیسے چپکے سے ماں کی ہتھیلی پر رکھ دئیے جس نے ا ن پیسوں سے میرے نام وہ پلاٹ خرید لیا جس پر میں نے یہ مکان تعمیر کرایا تھا۔اس مکان کی بنیاد میں پہلا پتھر گلابے نے ہی رکھا تھا۔اور صحن میں لگے پودے بھی ہم دونوں نے مل کر لگائے تھے۔ہم نے ان کے نام بھی رکھے تھے۔۔۔ اپنے ہونے والے بچوں کے نام پر۔‘‘

خاموشی کا ایک طویل وقفہ جس کے بعد نور محمد نے سرجھکا کر دھیرے سے خود کلامی کی۔’’اور آج۔۔۔آج میں اسی گلابے کی ہڈیاں سمیٹ کر لایا اور انہیں چاچے کے سپرد کرکے اس گلی سے اجنبیوں کی طرح لوٹ آیا‘‘۔

اچانک یہ ہوا کہ نور محمد کا سارا ضبط اس کے وجود کی گہرائیوں میں کسی آتش فشاں کے پھٹ پڑنے سے ریزہ ریزہ بکھر گیا۔وہ ایک لمبا تڑنگا ، ہیوی ڈیوٹی ڈرائیور اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا مرد ثانی کے سینے سے لگ کر بچوں کی طرح بلکنا شروع ہوگیا۔وہ روتا رہا اور ثانی اس کے سر کو سہلاتا رہا۔

اگلے روز وہ ناشتے سے فارغ ہوئے تو ڈپٹی نے اسے رات کو ملنے والا گولی لگا پرچہ دکھایا۔نور محمد پہلے تو پریشان ہوا اور پھر خفا کہ انہوں نے رات کو ہی اسے پرچہ کیوں نہ دکھادیا تاکہ وہ رات کو ہی کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتے۔ڈپٹی نے اسے تسلی دی کہ اس کے محکمے نے لوکل پولیس اور ایڈ منسٹریشن سے رابطہ کرلیا ہے اور سفید کپڑوں میںسیکورٹی اہلکار کل رات سے ہی خود کو ظاہر کیے بغیر ان کی حفاظت پر مامور ہوچکے ہیں۔۔اس کے باوجود نور محمد کا یہ خدشہ برقرار رہا کہ کوئی چھپ کر وار نہ کردے۔اس نے برتن سمیٹتے ہوئے بتایا کہ اس کے ایک دوست نے بکری کا انتظام کرلیا ہے جو وہ کسی بھی وقت جاکر اس سے لے سکتے ہیں۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اسے اپنے دوست سے پتا چلا ہے کہ گلیات میں ’’آدم خور بدروح‘‘ کی بات کے شدت سے پھیل جانے کی وجہ سے یہاں ہوٹلنگ کے کاروبار میں جو بدترین مندی آئی ہے اس کے بعد حاجی کے آدمیوں نے کئی ہوٹل مالکان سے ان کے ہوٹل خریدنے کی بات کرنا شروع کردی ہے۔

’’یہی تو ساراگیم پلان تھا‘‘۔ڈپٹی نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔

’’یا ہوس تیرا ہی آسرا‘‘۔ثانی بھی جوتوں کے تسمے باندھتے ہوئے بڑبڑایا۔’’شاید انسانی تاریخ میں پہلی بار ایساہوا ہو کہ کسی آدم خور کی بربریت کو اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘

اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ ساتھ ہی کسی نے نور محمد کا نام لے کر اسے پکارا۔ڈپٹی اور ثانی سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ان کے ہاتھ رائفلوں کے بٹ پر جم گئے۔نور محمد کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔اس نے رائفل کندھے سے دبائی اور بیرونی دروازے پر جاکر اس کی درز سے جھانکا اور دروازہ کھول دیا۔نووارد اندر داخل ہوا تو نور محمد نے گرم جوشی سے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا جس کے بعد ان دونوں کے اعصاب بھی نارمل ہوگئے۔دونوں کچھ دیر کھسر پھسر کرنے کے بعد کمرے کے اندر آگئے۔

’’صاب! یہ شمریز عباسی ہے۔یار ہے اپنا۔اسے شمریز بی بی سی بھی کہتے ہیں۔علاقے کی ساری خبریں ہوتی ہیں اس کے پاس‘‘۔نور محمد نے کمرے کے اندر آکر اس کا تعارف کرایا۔

دبلے پتلے اور مختصر سے وجود کے شمریز عباسی نے گرم جوشی سے ان سے ہاتھ ملایا۔

’’سر جی!آپ لوگوں سے ملنے کا بہت شوق تھا۔نور محمد نے بہت کچھ بتایا ہے آپ دونوں کے بارے میں‘‘۔

یہ کہہ کر وہ خاموشی سے انگلیاں چٹکانے لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ شمریز کچھ نروس اور پریشان سا ہے۔

’’صاب! شمریز کے پاس آپ کیلئے ایک بڑی خبر ہے۔‘‘

’’بولو شمریز! کیا خبر ہے؟‘‘ثانی نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’سر جی! رات کو بڑا غضب ہوگیا۔بدروح میرا مطلب آدم خور چیتے نے رات پھر ڈونگا گلی کا پھیرا لگایا ہے۔‘‘

وہ دونوں سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔شمریز نے بتایا کہ رات کو آدم خور نے کسی غریب دیہاتی کے کواڑ توڑنے کی بجائے سیدھے حاجی کی پہاڑی کا رخ کیا۔وہ دو روز پہلے بھی یہاں آئی تھی لیکن محافظوں نے بروقت دیکھ لیا اور فائرنگ شروع کردی جس سے گھبرا کر وہ وہاں سے فرار ہوگئی۔‘‘

’’ایسا کبھی نہیں ہوا ثانی سر جی! کہ وہ چیتاکسی ایک جگہ پر دومرتبہ آیا ہو‘‘۔شمریز نے بتایا۔

’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ چیتا نہیں لیپرڈ یعنی گلدار ہے۔دوسرے یہ کہ وہ نر نہیں مادہ ہے۔‘‘ثانی نے اس کی تصحیح کرنا ضروری سمجھی۔

’’اچھا جی۔۔۔؟‘‘۔

’’ہمیں معلوم ہے کہ وہ دوسری بار وہاں کیوں آئی۔بہر حال آگے چلو‘‘۔ڈپٹی نے کہا۔

’’ گلدارپہلے روز وہاں ریکی کرنے جبکہ دوسری مرتبہ کارروائی ڈالنے آئی تھی۔دنیا بھر کے دہشت گردوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے‘‘۔ثانی نے پر خیال لہجے میں کہا۔’’لیکن شمریز! ہمیں تو نہیں معلوم کہ وہ دو روز پہلے بھی وہاں کا چکر لگا چکی ہے۔‘‘

’’پتا نہیں جناب! کس وجہ سے حاجی لوگوں نے اس بات کو راز میں رکھنا ضروری سمجھا‘‘۔شمریز نے کہا۔

’’گویا پرسوں حاجی نثار عباسی کے گھر میں ایک چھوڑ دو دو مہمان آئے۔ایک ہم اور ایک آدم خور۔‘‘ڈپٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’کل جب ہمارا آدم خور سے واسطہ پڑا تو مجھے حیرانی ہوئی تھی کہ اس نے ہم پر حملہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تھی‘‘۔ثانی گویا ہوا۔’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا دھیان کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔کل شام اس نے ہمارے سامنے پسپائی اختیار کرلی تھی کیونکہ اسے حاجی کی پہاڑی پر پہنچنا تھا‘‘۔

’’اس کا مطلب یہ بھی ہے دوست! کہ ہمیں حد سے زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔ہمارا واسطہ نہایت عیار دشمن سے ہے جو اپنی پلاننگ کے مطابق چلتا ہے‘‘۔

’’سوری یار شمریز! ہم نے تمہاری بات درمیان میں ہی اچک لی ، آگے بتائو کیا ہوا‘‘۔ثانی نے شمریز کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔

’’تو سرجی ! میں کہہ رہا تھا کہ کل رات آدم خور نے مکان کے پچھواڑے میں اس طرف جانے کی کوشش کی جہاںحاجی نے چڑیا گھر بنا رکھا ہے اور جہاں اس جیسے دو چیتے میرا مطلب ہے گلدار پنجرے میں بند تھے۔یہ عین وہ وقت تھا جب جانوروں کو رات کا کھانا دیا جاتا ہے۔آدم خورجانے کب سے وہیں کسی درخت پر چھپ کر بیٹھی ہوئی تھی۔جونہی جانوروں پر مامور دو ملازموں میں سے ایک نے گلداروںکی جوڑی کے پنجرے کا دروازہ ذرا سا کھول کر گوشت کے ٹکڑے اندر دھکیلنے کی کوشش کی ۔آدم خور نے اس پر چھلانگ لگادی۔اس نے ایک ہی وار سے اس بدنصیب کی گرد ن توڑ دی اور پھر اس کے ساتھ ہی پنجرے کے ادھ کھلے دروازے سے اندر گھس گئی۔‘‘

’’مائی گاڈ! پھر؟‘‘ ثانی سنبھل کر بیٹھ گیا۔

’’سر جی! چڑیا گھر کے داخلی دروازے کے باہر دو محافظ پہرے پر ہوتے ہیں۔ انہوں نے پنجروں کی جانب سے آنے والی آوازیں سنیں تو سائرن بجادئیے۔سائرن کی آواز سن کر حاجی نثار عباسی افراتفری میں اندر سے نکلا اور محافظوں کو لے کر چڑیا گھر کی طرف بھاگا۔ان لوگوں نے دیکھا کہ پنجرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آدم خور چھوٹے گلداروں کو دھکیل کر باہر نکالنے کی کوشش کررہی ہے۔انہیں دیکھتے ہی دونوں محافظوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔اس عرصے میں تینوں درندے پنجرے سے باہر آچکے تھے۔فائرنگ کے جواب میں تینوں نے دھاڑنا شروع کردیا‘‘۔شمریز نے خوف کے مارے جھرجھری سی لی۔’’ایسی زور دار دھاڑ ڈونگا گلی والوں نے پہلے کبھی نہیں سنی۔یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان پھٹ جائے گا۔‘‘

ان تینوں کے چہروں سے بے تابی عیاں تھی۔

’’آگے بتائو۔‘‘ڈپٹی نے بے چینی سے کہا۔

’’سرجی!درندوں نے فائرنگ سے گھبرا کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔آدم خور آگے تھی اور دونوں بچے اس کے پیچھے تھے۔دونوں محافظ ان کے راستے میں تھے۔اسی لمحے آدم خور نے ان میں سے ایک محافظ کو دبوچ لیا لیکن دوسرے محافظ کی فائرنگ کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کرتیزی سے پلٹی ۔حاجی کی بدنصیبی کے وہ عین اس وقت سامنے سے آرہا تھا۔بڑی گلدار کو راستہ نہ ملا تو اس نے حاجی پر حملہ کردیا۔‘‘

’’او ہ گاڈ!‘‘۔مارے ایکسائٹمنٹ کے ثانی اور ڈپٹی کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

’’حاجی کا کیا بنا؟‘‘۔ڈپٹی نے پوچھا۔

’’ صاحب جی! اس نے حاجی کی گردن میں دانت گاڑ دئیے اور اسے گھسیٹ کر ساتھ لے جانے لگی۔لیکن محافظوں کی مسلسل فائرنگ کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر فرار ہوگئی۔‘‘

کہانی کے اس غیر متوقع موڑ نے کچھ دیر کیلئے انہیں گنگ سا کردیا۔

’’حاجی زندہ ہے؟‘‘ ثانی نے سکوت توڑتے ہوئے پوچھا۔

’’سنا ہے وہ اور اس کا محافظ دونوں ہسپتال میں ہیں۔یہ معلوم نہیں کہ ان کی کیا حالت ہے‘‘۔شمریز نے جواب دیا۔

’’اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔‘‘ڈپٹی نے تبصرہ کیا۔

’’تم اسے ماں کا انتقام بھی کہہ سکتے ہو۔‘‘ثانی نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

’’چھوٹے گلدار اس کے بچے تھے جی؟‘‘ شمریز نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں! ان دونوں کا کیا ہوا؟‘‘ نور محمد نے پوچھا۔

’’ا ن میں سے ایک اس کے پیچھے نکل گیا جبکہ دوسرا جو پیچھے رہ گیا تھا محافظ کی گولیوں کا نشانہ بن گیا‘‘۔

تاسف کی شدت نے کچھ دیر کیلئے انہیں گنگ کردیا۔

’’میں نے کسی داستان کا اس سے زیادہ حسرت ناک انجام نہیں دیکھا۔‘‘ثانی بڑبڑایا۔

’’ابھی انجام کہاں بھیا! یہ تو کہانی کا ایک موڑ ہے۔انجام تو ابھی باقی ہے‘‘۔ڈپٹی نے سر ہلایا۔

’’اور یہ انجام میرے ہاتھ سے لکھا جائے گا۔‘‘ نور محمد جوش کے مارے کھڑا ہوگیا۔’’میرے دونوں ہاتھ آدم خور کے جبڑے چیرنے کیلئے پھڑک رہے ہیں‘‘۔

’’یہ زندگی موت کا کھیل ہے نور محمد!اپنی شیر افگنی پر کنٹرول رکھو۔آدم خور کے سامنے جوش نہیں ہوش کام آتا ہے‘‘۔ثانی نے اسے تنبیہہ کی۔

’’ظلم دیکھیں سرجی! کہ ایک طرف آدم خور نے ایک اور انسان کو ماردیا اور دوسری طرف پورے علاقے میں جگہ جگہ بینر لگے ہوئے ہیں جن میںبدروح کے ساتھ تعاون کرنے کا کہا گیا ہے‘‘۔شمریز نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے کہا۔

’’کیا کہہ رہے ہو ؟۔۔۔بدروح کے ساتھ تعاون ؟؟‘‘ ڈپٹی اور ثانی دونوں کے چہروں پر الجھن تیر گئی۔

’’ہاں سر جی! میں آپ کو بتاتا ہوں۔ایک بینر پر لکھا ہے کہ یہ بدروح ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اس سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ لوگ کم از کم گھر وں میں رہیں اور پیر بادشاہ کا تصور کرکے دورو اور وظائف پڑھیں۔‘‘

’’اور اگر وہ تصور شیخ کے دوران گھر میں گھس آئے توگھر والے چپ چاپ خود کو اس کے حوالے کردیں۔۔۔ایں!؟‘‘۔ثانی کے ہونٹ ایک زہریلی مسکان سے بھنچ گئے۔

’’کچھ اور بھی لکھا ہے ان بینرز پر؟‘‘۔ڈپٹی نے پوچھا۔

’’ایک اور بینر پر لکھا ہے کہ لوگ اس بدروح سے نجات کیلئے زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کریں اور نجات کیلئے حضرت پیر بادشاہ سے رجوع کریں۔‘‘

’’اور سارا صدقہ خیرات پیر بادشاہ کے توشہ خانے میں جمع کرادیں۔‘‘ڈپٹی نے مایوسی سے سر ہلایا۔’’ اس کم بخت آدم خور نے کس کس

کی دکانداری چمکادی ہے۔‘‘

’’اس میں اگر کسی کا قصور ہے تو آدم خور کا نہیں اس ذہنی پسماندگی کا ہے جو ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔‘‘ثانی نے جواباً کہا۔

تب شمریز نے رخصت چاہی اور گھر سے باہر نکل گیا۔اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ڈپٹی کو اپنے دفتر سے بھی کل رات کے واقعے کی تصدیق ہوگئی۔

خاموشی کے ایک طویل وقفے کے بعد ثانی گویا ہوا۔’’آدم خور نے اپنی آدھی بازی جیت لی اور آدھی ہار دی۔ایک بچہ اسے واپس مل گیا اور دوسرا بچہ ہمیشہ کیلئے کھو گیا‘‘۔

’’میرا خیال ہے کہ یہ بینر وں، بدروحوں اور پیر بادشاہوں والی کہانی پرانی ہوگئی ہے‘‘۔ڈپٹی نے پر خیال لہجے میں کہا۔’’حاجی کے زخمی ہوکر ہسپتال جاپہنچنے کے بعد اب یہ ڈھونگی اپنے ڈھونگ سے باز آجائیں گے۔‘‘

’’ہاں صاب!جب اپنی جان پر بنتی ہے تو نانی یاد آہی جاتی ہے‘‘۔نور محمد نے کہا۔

‘‘ویسے ایک بات ہے حاجی کے زخمی ہونے کے بعد ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں رہا۔‘‘ڈپٹی نے خیال آرائی کی۔

’’وہ کیسے؟‘‘ ثانی نے بھنویں سکیڑتے ہوئے پوچھا۔

’’ظاہر ہے اگر ہم پر کوئی حملہ ہوتا تو اس کا ماسٹر مائنڈ وہی ہوتا۔‘‘

جواب میں ثانی پھیکی سی مسکان مسکرا کر رہ گیا۔

’’بہرطور ہمیں اپنی توجہ اپنے مشن پر رکھنا ہوگی۔اللہ کرے آج ہم کامیاب ہوجائیں‘‘۔ثانی نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔

’’تمہارا تجربہ کیا کہتا ہے۔اب ہمارا سامنا اگر اس آدم خور سے ہوتا ہے تو اس کی کیا کیفیت ہوگی؟‘‘۔ڈپٹی نے اپنی شاٹ گن چیک کرتے ہوئے پوچھا۔

’’شاید پہلے سے زیادہ خوفناک اور عیار‘‘۔ثانی نے جواب میں کہا۔’’اگر اسے دونوں بچے زندہ سلامت مل گئے ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری پہنچ سے دور نکل گئی ہوتی لیکن ابھی شاید وہ اپنے مرنے والے بچے کی واپسی کی امید میں وہیں ہوگی۔‘‘

’’کب تک نکلنے کا پروگرام ہے صاب؟‘‘ نور محمد نے پوچھا۔

’’ہمیں وہاں سہ پہر تک پہنچنا ہے تاکہ وہ نیند پوری کرکے اپنی پناہ گاہ سے باہر آجائے‘‘۔ثانی نے جواب دیا۔’’بکری ہمیں بروقت مل جائے گی نا!؟‘‘۔

’’فکر نہ کریں صاب! شمریز نے بکری خرید کر اپنے گھر باندھی ہوئی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے تو پھر ہمارے پاس آرام کرنے کیلئے دو تین گھنٹے پڑے ہوئے ہیں۔آرام سے دوپہر کا کھانا کھا کر نکلیں گے‘‘۔ثانی نے چارپائی پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔

’’جانا کہاں ہے کوئے یار یا سوئے دار؟‘‘۔ڈپٹی نے ہنس کر پوچھا۔

’’یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے‘‘۔ثانی نے مختصر جواب دیا اور کروٹ بدل لی۔

دوپہر کے کھانے کے بعد انہوں نے دوبارہ خود پر آلکس طاری کرکے آنکھیں موندھ لیں۔کچھ ہی دیر بعد نور محمد کی آواز انہیں غنودگی سے باہر لے آئی۔

’’چلیں صاب! میں تیار ہوں۔‘‘

ثانی نے خود پر چھائی غنودگی کا غبار جھٹکتے ہوئے ڈپٹی کو جھنجھوڑا۔گھڑی دو بجنے کا اعلا ن کررہی تھی ۔انہیں وہاں بہر صورت تین بجے تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ڈپٹی جانے کن نیندوں سویا تھا کہ جاگنا محال ہوگیا۔وہ بہت مشکلوں سے بستر چھوڑاپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔نور محم نے جلدی سے ڈرائیور مارکہ چائے بنا کر پلائی تب کہیں جاکر ان کی سرت بحال ہوئی۔اب فاسٹ فارورڈ میں تیاری شروع ہوئی۔ نور محمد کو دوڑایا گیا کہ ڈونگا گلی کے بازار سے ٹن فوڈ کے کچھ ڈبے لے آئے۔اس کے جاتے ہی کھٹاک کھٹاک کرکے رائفلیں چیک کی گئیں۔ثانی نے اپنی پسندیدہ ڈبل بیرل کے ساتھ ایک شارٹ رینج گن بھی رکھ لی۔ڈپٹی کے پاس ایک ہی شاٹ گن تھی ۔اس نے اسی کی جھاڑ پھونک پر اکتفا کیا۔ضرورت کے چھوٹے موٹے سامان کی فہرست بنائی گئی اور اس کے مطابق چیزیں پوری کی گئیں۔ویدر پروف خیمے کو پھیلا کر چیک کیا گیااور موبائل فونز کو چارجنگ پر لگادیاگیا۔سامان سمیٹا جاچکا تو اندازہ ہوا کہ ایک بڑے خیمے اور رائفلوںکے علاوہ انہیں بڑے سائز کا رک سیک بھی اٹھا کر چار کلومیٹر دشوار گذار مسافت طے کرنا پڑے گی۔اتنے میںنور محمد بازار سے کھانے کے ڈبے لے آیا تو انہیں رک سیک میں ٹھونس کر ثانی نے جوتوں کے تسمے باندھے اور اپنے تیار ہونے کا اعلان کردیا۔

وہ چلے تو یوں کہ نور محمد کے دونوں کندھوں پر رائفلیں تھیں، ثانی خیمہ برداری کا فریضہ سرانجام دے رہا تھا اور بھاری بھرکم رک سیک نے ڈپٹی کے کندھوں کو اپنی جکڑ میں لے رکھا تھا۔یوں لدے پھندے وہ تینوں ایک نئے دن کی کے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے گھر سے نکل گئے۔باہر ایک شانت سہ پہر ان کا منتظر تھی۔انہوں نے نوٹ کیا کہ ان کے گھر سے نکلتے ہی سادہ کپڑوں میں ملبوس تین لوگ غیر محسوس طور پر ان سے چند قدم کے فاصلے پر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ یہ مقامی پولیس کے اہلکار تھے جنہیں ان کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا۔وہ ان کی موجودگی سے آگاہ چھوٹے درختوں کے جھنڈ کے پار آگئے۔سادہ پوش اہلکار بدستور سائے کی طرح ایک مناسب فاصلے پر ان کے ساتھ ساتھ لگے رہے۔ثانی کو ان کی موجودگی سے وحشت ہورہی تھی۔اب ایک نئی کامیڈی شروع ہوئی۔ہوا یہ کہ جب ڈپٹی نے جب انہیں تھینک یو ویری مچ کہتے ہوئے واپس جانے کا کہاتو وہ صاف انکاری ہوگئے۔کہنے لگے کہ ہمیں حکم ہے کہ آپ لوگوں کو اکیلا نہ چھوڑا جائے۔

’’لیکن پیارے بھائی !ہم تو جنگل میں جارہے ہیں۔۔۔‘‘ ڈپٹی نے ان میں سے سینئر کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے۔‘‘اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

’’لیکن ہم تو شکار وکار کھیلیں گے۔تم وہاں کیا کرو گے؟‘‘

’’پتا نہیں لیکن ہم آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘اس بار پہلے سے زیادہ اٹل لہجے میں جواب ملا۔

‘‘دیکھو مان جائو اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔‘‘ڈپٹی نے انہیں پھسلانے کی کوشش کی۔

‘‘ضد آپ کررہے ہو صاحب! ہم تو ڈیوٹی پر ہیں۔‘‘

اس دندان شکن جواب پر ڈپٹی لاجواب سا ہوکر ثانی کے پاس آیا اور اسے اپنے منکر نکیروں کے عزائم سے آگاہ کیا۔

‘‘میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھااب بھگتو۔‘‘ثانی بھی اڑیل ہوگیا۔‘‘اور میں تم سے کہے دے رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ الٹے پائوں واپس نہ گئے تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ انہی قدموں اسلام آباد روانہ ہوجائوں گا۔‘‘

‘‘اب یار تم تو بچے نہ بنو۔‘‘ ڈپٹی نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔’’ٹھہرو میں ان کے بڑوں سے بات کرتا ہوں۔‘‘

وہ تھوڑے فاصلے پر ہوکر موبائل فون کے ساتھ جت گیا۔کچھ دیر تک بحثا بحثی ہوتی رہی۔آخر ڈپٹی نے سکون بھری سانس لی اور موبائل سینئر کے حوالے کردیا۔اس نے اٹینشن ہوکر کال ریسیو کی اور پھر ایک زور دار ’’اوکے سر!‘‘ کہتے ہوئے موبائل فون ڈپٹی کو لوٹادیا۔

’’ٹھیک ہے صاحب! ہم واپس جارہے ہیں لیکن جونہی کوئی ایمرجنسی ہوجائے آپ ہمیں کال کرسکتے ہیں۔‘‘

’’آپ کی بہت مہربانی بھائی جان۔‘‘ ڈپٹی نے مسخرے پن سے کہا جس پر سینئر کے سپاٹ چہرے پر شکن ابھر کر ڈوب گئی۔

اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو اشارہ کیا تو وہ بادل نخواستہ انداز میں واپس پلٹ گئے لیکن جاتے ہوئے بھی وہ حسرت ناک نظروں سے پلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔

’’بہت سادہ لوگ تھے۔‘‘نور محمد نے ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔’’دراصل وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ شکار کیسے کیا جاتا ہے۔‘‘

’’بیچاروں کا دل توڑ دیا ہم نے۔‘‘ڈپٹی نے نور محمد کی بات کو آگے بڑھایا۔’’اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ثانی میاں! اگلے جہان جاکر تمہیں جواب دینا پڑے گا۔‘‘

’’اپنی سٹوپڈ قسم کی کامیڈی اپنے پاس رکھو اور تیز چلو ہمیں دیر ہورہی ہے۔‘‘ثانی نے خشک لہجے میں بات ختم کردی۔

وہ چلے تو تھوڑی دیر کے بعد وہ آبادی سے باہر نکل آئے۔کھلے میں نکل کر نور محمد نے آسمان کو دیکھا اور پھر ہوا میں کچھ سونگھا۔

’’لگتا ہے آج بارش برسے گی اور خوب برسے گی‘‘۔نور محمد نے اعلان کیا۔

’’آسمان تو بالکل صاف ہے۔صرف چند بادلوں کی ٹکڑیاں ہیں جو چوٹیوں پر دھوپ سینک رہی ہیں۔‘‘ ثانی نے آسمان کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

’’مون سون سے پہلے کے بادل دھوکہ دیتے ہیں صاب!ابھی ہیں ابھی نہیں‘‘نور محمد نے چہرے پر قدیم دانش کو سجاتے ہوئے کہا۔’’ہم لوگ بادلوں کو نہیں دیکھتے۔ہم ہوا میں نمی کو سونگھتے ہیں اور بتادیتے ہیں کہ بارش ہوگی یا نہیں۔‘‘

’’نور محمد! ٹھیک کہہ رہا ہے۔میں پچھلے دس پندرہ برس سے گلیات میں ہوں۔یہاں کسی کو موسم کا حال جاننے کیلئے محکمہ موسمیات سے پوچھنا نہیں پڑتا‘‘۔

’’ٹھیک ہے آج آپ لوگوں کی موسمیاتی دانش کو بھی آزمالیں گے‘‘۔ثانی نے کندھے اچکائے۔

راستے میںنور محمد انہیں انتظار کرنے کا کہہ کر آبادی سے ہٹ کر بنے ایک تنہا مکان میں داخل ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد نمودار ہوا تو ایک بکری کو اپنے پیچھے لگائے ہوئے تھا۔یہ وہ بکری تھی جو انہوں نے آدم خور کے چارے کیلئے استعمال کرنا تھی۔ابھی بہت دن پڑا تھااور انہیں اپنا کام نمٹا کر جلد واپس پہنچنا تھا سو بغیر وقت ضائع کیے تین انسان اور ایک بکری چار ساڑھے چار کلومیٹر طویل سفر پر روانہ ہوگئے جس کا نقطہ اختتام وہ جگہ تھی جہاں ایک دن پہلے ان کی مشک پوری جنگل کی آدم خور ملکہ سے ملاقات ہوئی تھی۔

ان کی ہمراہی میں بکری اب تک سعادت مندی سے ان کے ہمراہ چلی جارہی تھی مگر جونہی انہوں نے سبزہ زار میں قدم رکھا اس کی بھوک چمک اٹھی۔اس نے پہلے تو پچھلی ٹانگیں پھیلا کر معدے کو گذشتہ کھانے کی باقیات سے فارغ کیا اور پھر گھاس کے ایک اشتہا انگیز قطعے میں منہ مارنے لگی۔نور محمد نے بہتیرا اس کی رسی کھینچنے کی کوشش کی لیکن اس نے کھلی بغاوت پر اترتے ہوئے اپنے چاروں کھر زمین میں گاڑ دئیے۔ناچار انہیں وہاں موصوفہ کو ضیافت اڑانے کا موقع فراہم کرنے کیلئے رکنا پڑا۔نور محمد نے اس دوران جلدی سے تھوڑی سی گھاس کاٹ لی اور پھر اسے بکری کو دکھاتے ہوئے دوبارہ چلنے پر آمادہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔

سفر کے آغاز میں ہی ثانی کو نور محمد کی موسمیاتی دانش پر ایمان لانا پڑا۔سامنے پہاڑوں کے جھرمٹ پر جانے کہاں سے دھواں دھواں بادلوں کے ٹکڑے ٹولیوں کی صورت میں نمودار ہوئے اور ایک آلکس میں آوارہ خرامی کرنا شروع ہوگئے۔

ابھی انہوں نے آدھا راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ بادلوں نے ایک دھندلکے کی صورت اختیار کرلی اور پھر آہستہ آہستہ بادلوں کے سفید وھوئیں میں سرمئی رنگ بھرنے لگا۔ان کے ارد گرد سب کچھ تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا۔پہلے اس لینڈ سکیپ کا ہر ہر نقش واضح اور باریک پنسل سے تخلیق کیا ہوا دکھائی دے رہا تھا مگر اب ہر لائن دھندلاگئی تھی جیسے مصور نے اپنے بنائے ہوئے پنسل سکیچ پر ہلکا سا اریزر پھیر دیا ہو ۔انہیں خبر بھی نہ ہوئی کہ کب وہ اپنی جانی پہچانی دنیا کی سرحد عبور کرکے ایک نامانوس فیری لینڈ میں داخل ہوگئے۔نور محمد اور ڈپٹی اس بدلتے ہوئے لینڈ سکیپ کا حصہ تھے لیکن ثانی کیلئے یہ سب کچھ کسی داستان کے انجان لیکن خوب صورت موڑ سے کم نہ تھا۔وہ مبہوت ہوکر دیکھ رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے جن پہاڑوں پر دھوپ کاہل سی پڑی اونگھ رہی تھی وہاں سرمئی اجالے نے سارے منظر میں رومان کے سحر انگیزی بھردی تھی۔یہ سرمئی اجالا جب سرکتے ہوئے وادی کی گہرائیوں میں پہنچا تو چمپئی اندھیرے میں بدل گیا۔

ثانی نے گہرا سانس لے کر جنگل کی نم باس کو پھیپھڑوں میں بھرااور ایک عالم بے خودی میں کہنے لگا۔’’مائی گاڈ! میں تو اس جادو نگری کے عشق میں مبتلا ہونے لگا ہوں۔بہت عشق کیے ہیںمیں نے زندگی میں لیکن اس نئے عشق میں مستی کا رنگ کچھ زیادہ ہی ہے‘‘۔

نور محمد نے اسے دو دن کے مہمان سیاحوں کی سی مخصوص مستانہ کیفیت میں دیکھا تو ایک پھیکی سی ہنسی ہنسا۔’’صاب!آپ چار دن یہاں رہ کر دیکھو ،اس حالت میں جس حالت میں ہم یہاں رہتے ہیں پھر میں دیکھوں آپ کے اس عشق کو۔جب آپ کوسو دو سو کی مزدوری کیلئے کبھی مری اور کبھی نتھیا گلی میں لوگوں کی منتیں کرنا پڑیںگی۔جب آپ کو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانا پڑیں گی۔جب آپ کی بیوی کو میلوں دور جنگل میں جاکر پانی تلاش کرنا پڑے گا۔جب آپ کے بچوں کو مری ،ایبٹ آبادسے ادھر کوئی میسر سکول نہ ہوگا۔جب آپ کے گھر میں بچوں اور بوڑھوں کیلئے کوئی ڈاکٹر میسر ہوگا نہ دوا دارو۔ جب آپ کی بیوی بچے کی پیدائش کے عمل سے گذر رہی ہوگی اور اس مشکل وقت میں اسلام آباد سے پہلے کوئی ہسپتال دستیاب نہ ہوگا۔جب کوئی بجلی ہوگی نہ گیس، ٹیلیویژن ہوگا نہ انٹرنیٹ اورجب برفانی موسم شروع ہونے پر آپ کو مہینوں ایک کمرے کی قیدمیں رہنا پڑے گا تو میں دیکھوں آپ کے عشق کی حقیقت کو۔‘‘

ثانی نے ارضی حقیقتوں کے اس سفاک حملے کے جواب میں لایعنی انداز میں سرجھٹکا۔’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن اے میرے پیارے راج دلارے نور محمد!میرا یہ عشق ایک قیدی کے فرار جیسا ہے۔اگر کوئی جہنم سے فرار ہونا چاہے تو اسے واپس آگ میں نہیں دھکیل دیتے۔‘‘

نور محمد نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر ضد میں آجانے والی بکری کو چلتے رہنے پر آمادہ کرنے کیلئے اسے کھینچنے میں مصروف ہوگیا۔

وہ تیز قدم چلتے مقام مقصود تک تو پہنچ گئے لیکن تب تک وادی نے سیاہ بادلوں کے دبیز مرغولے اوڑھ لیے تھے۔اس کے ساتھ ہی فضا

میں خنکی بڑھنے لگی۔یہ پہاڑ کے دامن میں وہی جگہ تھی جس کے قریب ہی کہیں ایک غار کو آدم خور نے اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔یہیں ایک روز پہلے آدم خورسے ان کا سامنا ہوا تھا اور وہ انہیں جل دے کر نکل گئی تھی۔نور محمد نے اس کے کہنے کے مطابق ایک درخت کے ساتھ بکری باندھ کر اس کے سامنے چارہ ڈال دیا توثانی نے چاروں اور گھوم کر متوقع مقام جنگ کا جائزہ لیا۔وہ اپنی جنگی حکمت عملی کے حوالے سے بھی بہت محتاط تھا۔کل ایک درندہ تھا لیکن آج یک نہ شد دو شد والا معاملہ تھا۔اسے کسی آدم خور کے ساتھ نمٹنے کا پہلے سے کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔اگر کہیں بھی کوئی جھول رہ جاتا، کوئی اناڑی پن ہوجاتا تو نتائج ناقابل تصور بھی ہوسکتے تھے۔سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ اس کے دونوں ساتھیوں کو اتنے بڑے شکار کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا بلکہ شوق کے باوجود انہیں کبھی ڈھنگ کا شکار کرنے کا موقع میسر نہیں آیا تھا۔ڈپٹی کا نشانہ اچھا تھا لیکن شکار کے حوالے سے اس کا تجربہ پرندوں اور جنگلی سوروں کو مارنے تک محدود تھا جبکہ یہاں کچھ اور معاملہ درپیش تھا۔دوسری طرف نور محمد تھا ۔نشانہ اس کا بھی خوب تھا۔اڑتے پرندے کو گراسکتا تھا لیکن گھنے جنگل میں شکار کا تجربہ صفر۔دوسروں پر اسے صرف ایک برتری حاصل تھی کہ وہ نفرت اور انتقام سے بھرا ہوا تھا ۔اس قدر کہ خالی ہاتھوں بھی آدم خور پر جھپٹنے پر آمادہ تھا۔کسی ناخوشگوار ایڈونچر سے بچنے کیلئے ضروری تھا کہ انہیں ایسے مقامات کی چوکیداری سونپی جائے جہاں آدم خور یا اس کے بچے کے نمودار ہونے کا خطرہ کم سے کم ہو۔سارا بوجھ اسے خود اٹھانا تھا۔

یہ ایک دشوار گذار علاقہ تھا جہاں آدم زاد کی زیادہ آمد و رفت نہ تھی بلکہ کوئی ایسے آثار بھی نہ تھے کہ یہاں کبھی کسی نے قدم بھی رکھا ہو۔اس کی ایک وجہ تو دشوار گذاری تھی اور دوسری یہ کہ مشک پوری پہاڑ کا یہ دامن ہمیشہ سے ’’چیتوں‘‘ کی آماجگاہ رہا ہے ۔یوں مارے ڈر کے لوگ اس جگہ کو دور سے ہی سلام کرکے گذر جاتے تھے۔اس ہولناک ویرانے کا یہ عین وسط تھاجہاں وہ اس وقت موجود تھے۔ یہ تین چار فرلانگ پر محیط مثلث نما جگہ تھی جس کا زاویہ قائمہ ایک نیم دائرہ بناتے ہوئے دو اطراف کو آپس میں ملارہا تھا۔ثانی نے فرلانگ بھر دور جاکر ایک جرنیل کی نظر سے متوقع محاذ جنگ کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اس کے تین اطراف درخت اور جھاڑیاں تھیں جبکہ سامنے کے رخ کھلی زمین تھی جو ناہموار تھی ۔کہیں سپاٹ زمین تھی اور کہیں اونچے نیچے پتھر زمین میں گڑے ہوئے تھے۔دائیں طرف درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ کی پشت پر نصف فرلانگ دور پہاڑ کی اٹھان تھی۔بائیں جانب بھی بلند اور الجھی ہوئی جھاڑیوں کا سلسلہ تھا اور کے پیچھے چند بڑے پتھروں کی آڑ موجود تھی۔اس کے پیچھے اسی ڈگری میں اٹھتی ہوئی ایک سنگیں دیوار تھی جو بلندی پر نوکیلی ہوگئی تھی۔اس دیوار کے قدموں میں دور تک پھیلی ایک تنگ گھاڑی تھی جس کی چوڑائی اتنی تھی کہ ایک لمبے بانس کی مدد سے اس کی دوسری طرف کودا جاسکتا تھا۔ ثانی نے قریب سے اس گھاٹی کا معائنہ کیا۔کم گہرائی کی حامل یہ گھاٹی آدم خور کے چھپنے کیلئے مثالی جگہ تھی۔یہاں گذشتہ کسی طوفانی موسم میں جڑ سے اکھڑے ہوئے درخت بھی بکھرے ہوئے تھے۔جو اپنی بے ہنگم طور پر پھیلی ہوئی شاخوں کے ساتھ آدم خور کو مزید آسانیاں فراہم کرنے کا باعث بن رہے تھے۔کوئی معمولی جنگی اہلیت رکھنے والا جرنیل بھی اس محاذ جنگ کا انتخاب نہ کرتا کہ یہاں جنگ کرنا سراسر گھاٹے کا سودا تھا۔لیکن وائے مجبوری کہ انہیں اس کے سوا کوئی دوسرا محاذ میسر ہی نہ تھا۔

پہلا مرحلہ تھا خیمے کو گاڑنے کیلئے کسی موزوں جگہ کے انتخاب کا۔ضروری تھا خیمہ مثلث نما محاذ جنگ کے اندر موجود ہو تاکہ وہ آدم خور کی ممکنہ نقل و حرکت سے آگاہ بھی ہوسکیں اور ان کی اپنے مورچوں تک رسائی بھی آسان ہو۔اور یہ بھی کہ وہ اس درخت پر نگاہ رکھ سکیں جس کے نیچے بکری کو باندھا گیا تھا۔یوں درمیان میں کہیں ایک سپاٹ جگہ منتخب کرکے وہاں خیمے کی میخیں ٹھونک دی گئیں۔خیمے کو قیام کیلئے موزوں حالت میں کرنے اور یہاں سامان منتقل کرنے کے بعدثانی نے جنگ سے قبل کا پہلا سگریٹ سلگایا اوران دونوں کے ساتھ کھلے میں نکل آیا۔

ڈپٹی کی تجویز تھی کہ جس درخت کے نیچے بکری کو باندھا گیا ہے اس کے اوپر ایک بڑی مچان بنائی جائے جس پر تینوں رات بسر کرسکیں اور جونہی دونوں گلدار بکری کو کھانے آئیں انہیں شوٹ کردیا جائے۔ثانی نے اپنے روحانی گرو جم کاربٹ کے تجربے کی روشنی میں اس تجویز کو مسترد کردیا۔وجہ اس نے یہ بتائی کہ ایک تو یہ کہ درخت اتنا پھیلا ہوا نہیں تھا کہ اس پر بڑی مچان بنائی جاسکے۔دوسرے یہ کہ مچان بنائی بھی گئی تو وہ اتنی اونچی نہیں ہوگی کہ درندے کی جست سے دور ہو اور سب سے اہم یہ بات کہ ارد گرد موجود جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ان درندوں کو نگاہ میں رکھنا ممکن نہیں تھا۔اگر وہ کہیں قریب ہی دبک کر بیٹھ جاتے تو جھاڑیوں کے گھنے پن میں ان کا پتا چلانے کیلئے انہیں درخت سے اترنا پڑتا ۔یوں انہیں مہلت مل جاتی کہ وہ ا ن پر جھپٹ پڑیں۔اور پھر مچان پر بیٹھنا دل گردے کا کام تھا۔

ایوبیہ نیشنل پارک اور اس کے گردا گرد سارے جنگلات بے شمار جنگلی انواع سے اٹے پڑے ہیں۔یہاں موجود درخت صرف پرندوں ، بندروں اور گلہریوں کے مسکن ہی نہیںبہت سے حشرات الارض اور سانپوں کی پناہ گاہ بھی ہیں۔اگر رات کی تاریکی میں عین وقت پر جبکہ گلدار لوگ کہیں ارد گرد منڈلا رہے ہوںاچانک پرندے شور مچادیں، کوئی اڑنے والی گلہری ان پر چلانگ لگادے یا کسی شاخ سے لٹکتا ہوا سانپ ان پر آگرے تو وہ خود تو جنگل کا عادی ہونے کے باعث معاملہ ٹال جائے گا لیکن ممکن ہے کہ دہشت کے مارے باقی دونوں بے ہوش ہوجائیں اور ایک ذرا سی آہٹ پر گلدار جست لگاکر تھاں پر ان کا ٹینٹوا دبا سکتا تھا۔اس نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ دونوں گلداروں کو گرائونڈ لیو ل سے نشانہ بنایا جائے تاکہ وہ خود بھی نقل و حرکت کرنے میں آزاد ہوں۔ثانی کے دلائل پر دونوں نے اثبات میں سرہلایا تو اس نے چھپنے کیلئے بہترین مقام کی تلاش کیلئے اس ساری جگہ کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

اس نے دیکھا کہ اس مثلث نما کے کھلے حصے کی دونوں اطراف سے آدم خو رکے نمودار ہونے کے امکانات موجود تھے۔ان اطراف کو محفوظ بنانے کیلئے اس نے فیصلہ کیا کہ خاصے فاصلے پر ڈپٹی اور نور محمد کو تعینات کردیا جائے۔یہاں دونوں اطراف بڑے بڑے پتھر تھے جو ان دونوں کو چھپ کر بیٹھنے کیلئے قدرتی آڑ فراہم کرسکتے تھے۔یوں دونوں ناصرف ’’ریڈ زون‘‘ سے دور رہتے بلکہ اطراف پر نگاہ بھی رکھ سکتے تھے۔اس صورت میں وہ تینوں ایک دوسرے کی نگاہ میں بھی رہ سکتے تھے۔

جرنیل نے خود اپنی مورچہ بندی کیلئے نگاہ دوڑائی تو اسے وہی درخت موزوں نظر آیا جو اس مثلث نما کے اوپری نیم دائرہ بناتے حصے میں ایستادہ تھا۔کل بھی اسی درخت کے پیچھے اس نے مورچہ لگایا تھا۔آج بھی اس نے یہیں مورچہ بندی کا فیصلہ کیا۔ یہاں عقب میں آٹھ دس فٹ اونچا پتھر تھا جو اس کی پشت کو محفوظ بناتا تھا جبکہ سامنے کے رخ ایک تنومند درخت کا تنا اسے دشمن کی فوری نگاہ سے بچنے کا موقع فراہم کرتا تھا۔اس تنے کی بھاری بھرکم شاخیں کچھ اٹھی ہوئیں اور کچھ سامنے کے رخ پھیلی ہوئی تھیں ۔اگر یہاں کچھ خشک جھاڑیوں کو کاٹ کر نیم دائرے میں پھیلا دیا جاتا تو آدم خور کے پاس اس تک پہنچنے کیلئے جست لگانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔

نور محمد نے سامان سے ایک چھوٹی کلہاڑی نکالی اور کچھ ہی دیر میں بہت سی جھاڑیاں کاٹ لایا۔ان جھاڑیوں کو ثانی کے مورچے کے آگے اور خیمے کے اطراف پھیلانے کے بعد ممیاتی ہوئی بکری کیلئے مزید چارہ کاٹا اور اس کے آگے ڈال دیا۔سب تیاریاں مکمل تھیں۔اب انتظار تھا تو جنگ کے بگل بجنے کا۔

وہ تھوڑی سی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آرام کیلئے خیمے میں داخل ہوئے تو بوجھل سکوت کی آغوش میں اونگھتے موسم کی نیند کا خمار بھی ٹوٹ گیا۔ایک سہج سے چلتی ہوا کو عقب میں آتے مضبوط بدن جھونکوں نے اتاولے پن سے دھکا جو دیا توفضا خشک پتوں کی اڑان سے بھر گئی۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دھواں دھواں بادلوں کی نمی چاٹتے خشک پتے تالیاں پیٹتے ہوئے لچکیلی شاخوں کے تیز ہلکورے لینے لگے۔خیمے کے قریب ہی ایک گلہری زمین پر پائوں جمائے بیٹھی ایک سوکھے سڑے پھل کو کتر رہی تھی۔موسم کی انگڑائی پر اس کے کان کھڑے ہوئے اور وہ پھل کو وہیں پھینک شور مچاتی ایک زمین بوس تنے میں گھس گئی۔تیز ہوامیں ایک پاگل پن سا گھلا تو اس نے درختوں کی چھتریوں میں گھس کر سیٹیاں بجانا شروع کردیں۔جنگل کا سکون تہہ و بالا ہوا تولمحہ بھر میں سارے معمولات منسوخ ہوئے اور مخلوقات اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ گزیں ہوگئی۔ مضبوط دیودار کی تنومند شاخوں کے ساتھ ایک سہم سے چپکے ہوئے بندرٹولے کی جہاندیدہ سربراہ نے گردن بڑھا کر دیکھا کہ شوریدہ ہوائیں جنے کہاں سے کالے اور سرمئی بادلوں کے غصیلے لشکر دھکیل دھکول کر وہاں لے آئی تھیں۔

فضا میں ایک ہڑبونگ سی مچی اورچٹے دن رات ہوگئی ۔

جنگل کے سارے رنگ بدل گئے اب وہ کوئی اور جنگل تھا ۔دیوانگی پر مائل ہوائوں کی زد میں آیا ہوا اورتباہی کی خواہش میں پاگل فطرت کا قدیم مسکن۔

اچانک بجلیوں نے ایک لرزادینے والی کڑک کے ساتھ اپنی آمد کا اعلان کیا تو درخت سے بندھی بکری خوف کے عالم میں ممیائی۔

’’صاب! لگتا ہے زبردست طوفا ن آنے والا ہے‘‘۔ نور محمد نے خیمے سے گردن نکال کر باہر جھانکا۔

’’مجھے ڈر ہے کہ ہماری ساری پلاننگ کا ستیاناس نہ ہوجائے۔‘‘ثانی نے بھی ایک ذرا پردہ ہٹاکر باہر دیکھا۔’’ایسے میں آدم خو ر بھی اپنی غار میں دبکی رہے گی اور ہم بھی جانے کب تک اس طوفان میں پھنسے رہیں گے۔‘‘

’’ہم عین طوفان کی آنکھ میں پڑے ہیں۔اللہ خیرکرے‘‘۔ڈپٹی کے لہجے میں صاف خوف جھلک رہا تھا۔’’میں برسوں سے اس جنگل میں طوفانوں کی تباہ کاریاں دیکھتا آیا ہوں۔ہر طوفان کے بعد بڑے بڑے تناور جڑو ں سمیت زمین چاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

’’نور محمد! تم نے خیمے کو کھونٹوں سے مضبوطی سے باندھا تھانا؟‘‘

’’صاب! اللہ نے چاہا تو خیمے کو کچھ نہیں ہوگا۔البتہ مجھے ڈر ہے کہ ہمارے بالکل قریب کچھ کمزور درخت ہیں۔نور محمد نے جواب دیا۔

’’اللہ خیر کرے گا۔میں خود کھونٹوں کو چیک کرتا ہوں۔‘‘ڈپٹی نے سامان میں سے ہتھوڑا تلاش کرتے ہوئے کہا۔

ثانی نے باہر نکل کر فضا کا جائزہ لیا تو حالات سخت مایوس کن تھے۔وہ فطرت کی وحشی اور بے رحم قوتوں کے مقابل تھا۔آسمان پر مختلف سمتوں سے گھٹائیں اپنے جلو میں بجلیاں لیے ایک دوسرے سے الجھی پھر رہی تھیں۔تاریکی اتنی کہ حد بصارت نہ ہونے کے برابر تھی۔زمین پر تیز ہوائیں بے رحمی سے جھاڑو پھیر رہی تھیں اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو تنکوں کی طرح اڑا رہی تھیں جبکہ آسمان پر تاحد نگاہ بجلیوں کی چمک تھی جو گھپ اندھیرے کی چادر میں جگہ جگہ چھید کیے جارہی تھی۔لگتا تھا کہ بادلوں کا سینہ کسی بھی وقت شق ہوکر ہر سو جھل تھل کردے گا۔سارا جنگل ایک عجیب طرح کی دیوانگی میں مبتلا دکھائی دے رہا تھا۔تیز ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی درختوں سے نکلتی دور کی چوٹیوں پر حملہ آور ہورہی تھی۔ ہوا کی زور آوری اس بلا کی تھی کہ لچکیلے تنوں والے اور کمزور جسامت کے درخت بیچارگی کے عالم میں جھلارے لیتے اپنے قدموں پر جھکے جارہے تھے۔ان کی جھولتی چھتریوں میں دبکے پرندے چونچ منہ میں دبائے دبکے پڑے تھے۔موسم کی تندی کسی مہیب طوفان کی آمد کا اعلامیہ بن سکتی تھی جو رخصت ہوتے ہوتے جانے کتنے پرندوں اور حشرات کی پناہ گاہوں کو ملیا میٹ کرجاتا۔گذشتہ طوفانوں کی نشانی کے طور پر پہلے ہی وہاں کئی درختوں کے خشک لاشے بکھرے پڑے تھے۔ابھی جانے اورکس کس کا لاشہ گرنا باقی تھا۔

اچانک ثانی کو ہوا نے دھکا دیا تو اس کے قدم زمین سے اکھڑ گئے اور وہ دھم سے زمین پر آرہا۔اس کی آنکھوں میں مٹی بھرگئی تھی۔اس نے آنکھیں میچ کر قریب کے ایک درخت کو دیکھا اور بندر کی طرح چاروں ہاتھ پائوں پر دوڑتا اس کے تنے سے چمٹ گیا۔ہوا اسے درخت سے جدا کرنے کیلئے بدستور زور آزمائی کیے جارہی تھی۔اس نے تنے پر بازوئوں کی گرفت مضبوط کردی۔تب اس نے آنکھیں میچ کر دیکھا کہ خیمہ بری طرح سے پھڑپھڑا رہا تھا۔تھوڑا سا اطمینان یہ تھا کہ خیمے کی طنابیں مضبوطی سے بندھی تھیں لیکن جو کبھی طوفانی ہوا خیمے کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوجاتی تو وہ اپنے زوروں میں اس اطمینان کو میں بھی بدل سکتی تھی۔

اچانک آسمان پر ایک کوندہ لپکا اور شاخ در شاخ بٹتا دور تک پھیل گیا۔اس کے ساتھ ہی دل دہلادینے والی کڑک نے فضا کر لرزا دیا۔شاید کہیں قریب ہی بجلی گری تھی۔بکری اس کڑک سے بری طرح خوفزدہ ہوگئی اور رسی تڑا کر بھاگنے کیلئے زور لگانے لگی۔وہ اس حالت میں دکھیاری کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا ۔اس نے چاہا کہ نور محمد کو آواز دے کہ وہ بکری پر ڈالنے کیلئے سیلوفین کا ٹکڑا لے آئے لیکن اس کی آواز پارہ پارہ ہوا میں بکھر گئی۔اس نے ہوا کے ایک سے دوسرے جھونکے کے درمیان وقفہ ہونے کا انتظار کیا اور پھر سر جھکا کررکوع کی حالت میں خیمے کی طرف دوڑ لگادی۔

خیمے میں ڈپٹی کمبل اوڑھے دبکا پڑا تھا اور ایک کونے میں نور محمداندر گھسنے والے ہوا کے شریر جھونکوں کو اپنی پشت پر لیے گیس سٹوو پر چائے بنانے میں مصروف تھا۔اس نے ایمرجنسی لائٹ بھی روشن کررکھی تھی تاکہ کم از کم ہاتھ کو ہاتھ تو سجھائی دے۔اچانک بارش کے ایک موٹے قطرے نے خیمے پر ہلکی سی دستک دی۔یہ طوفان کا ابتدائیہ تھا۔ایک قطرہ، پھر دوسر، تیسراا اور پھر بارش کی موٹی بوندوں کا تانتا بندھ گیا۔باہر زور دار بارش شروع ہوچکی تھی۔سرد ہوا کے تیز جھونکوں نے خیمے میں داخل ہوکر انہیں کپکپا دیا۔نور محمد نے بھاپ کے لہرئیے میں لپٹی گرم چائے پیش کی تو جیسے کوئی دیرینہ حسرت پوری ہوگئی ہو۔

’’نور محمد! یار ذرا ہمت کرکے بکری پر سیلوفین ڈال آئو‘‘۔ثانی نے کپکپاتے ہاتھوں سے چائے کی چسکی بھری۔

’’ہاں!بھیگ رہی ہوگی بیچاری۔میں ابھی آیا‘‘۔نور محمد نے اثبات میں سر ہلایا اورسیلوفین کی شیٹ کو بغل میں دبا کر باہر نکل گیا۔تھوڑی دیر بعد واپس آیا توسردی اور بارش سے بچنے کیلئے خود کو اپنے بازوئوں میں دبوچ رکھا تھا۔اندر آتے ہی اس نے خیمے کے پردے برابر کرکے ہک لگادئیے اور واپس اپنی جگہ پر نیم دراز ہوگیا۔

ویدر پروف ہونے کے باوجود خیمے میں اتنی خنکی ضرور داخل ہوگئی تھی کہ انہیں کپکپاتے ہوئے بدنوں کو کمبلوں میں چھپانا پڑا۔

’’یہ پہاڑی علاقوں کی مخصوص بارش ہے۔طوفانی اور بے رحم‘‘۔ڈپٹی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے خاموشی کو توڑا۔

’’مجھے ڈر ہے طوفان اتنا شدید نہ ہوجائے کہ ہمارے لیے خیمے میں پناہ لینا بھی مشکل ہوجائے‘‘۔نور محمد نے کہا۔

ثانی  نے چائے کا کپ آدھا ہونے پر اپنی عادت کے مطابق سگریٹ سلگا کر خیمے کے پردے کے ساتھ سر ٹکاتے ہوئے ایک لمبا کش لیا اور فلسفیانہ لہجے میں بولا۔’’تاریکی کے بیک ڈراپ میں تند خو فطرت کے مقابل تین کمزور انسان۔دیکھتے ہیں فطرت اپنے گھر میں بلا کر اپنے

مہمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے‘‘۔

’’اور جو طوفان میں خیمے کی تنابیں اکھڑ جائیں تو!؟‘‘۔ڈپٹی نے انہیں ڈرانے کیلئے کہا۔

’’شبھ شبھ بولو ڈپٹی!شکل تو خیر جیسی ہے سو ہے کم از کم بات تو اچھی کرو‘‘۔ثانی نے برا سا منہ بنایا۔

’’اللہ خیر کرے گا صاب ! ایسی بہت بارشیں آتی ہیں یہاں۔جیسے آتی ہیں ویسے چلی بھی جاتی ہیں‘‘۔نور محمد نے انہیں تسلی دی۔

’’ویسے نادانستگی میں ہم ایک عقل مندی کا ارتکاب کربیٹھے ہیں۔ہم نے خیمہ گاڑنے کیلئے سخت اوراونچی جگہ کا انتخاب کیا ہے۔اگر جو ہم کچی اور نشیبی زمین پر ہوتے تو سوچو کیا ہوتا ہمارے ساتھ!‘‘۔ڈپٹی نے کہا۔

’’تم ساتھ ہوتے ہو ڈپٹی تو کبھی کبھی کوئی عقل مندی سرزد ہوای جاتی ہے‘‘۔ثانی نے ہنس کر کہا۔

وہ اندر کمبلوں میں سمٹے باہر طوفان کی زد میں آئے ہوئے جنگل سے اٹھتی خوفناک آوازیں سن رہے۔تند ہوائوں کا مقابلہ کرتے درختوں کے پتوں اور شاخوں کو جھنجھوڑتی اور بلند جھاڑیوں سے الجھ کر گذرتی ہوا ایک تیز شوکر کے ساتھ پتھروں اور پہاڑوں سے سر ٹکرا تی پھر رہی تھی۔اس بیچ کسی درخت کی کوئی شاخ کڑکڑاتی تو ماحول کی ہیبت ناکی میں اضافہ ہوجاتا۔اور پھر وہاں سیلابی پانی کے تند دھارے تھے جو چاروں اورپہاڑوں سے پھوٹ کر پتھروں سے سر ٹکراتے نشیب کی طرف رواں تھے۔

بارش کے اولے جیسے قطرے ویدر پروف خیمے پر دبا د ب گرتے رہے ۔وہ مطمئن تھے کہ انہوں نے زمین میں دبے ایک پتھر کی بالائی سطح پر خیمہ نصب کررکھا ہے جہاں پانی کے رس کر اندر آنے کا زیادہ امکان نہیں ہے لیکن یہ وقتی اطمینان تھا جو پانی کے پہلے رسائو کے ساتھ ہی بہہ گیا۔نشیب فراز کچھ بھی پانی کی زد سے محفوظ نہیں تھا۔بلند چٹانوں کو بھگوتے پانی کے دھارے اپنے راستے خود تخلیق کرتے ہیں۔سو یہاں بھی پانی نے فراز کے باوجود اپنا راستہ بنالیا تھا اور اس محفوظ خیمے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔پانی تیزی سے رس کر خیمے کے اندر کی ننھی سی دنیا کو بھگونے لگا تو ان کے چہروں پر تنائو پھیل گیا۔ سامان کو پانی کی مار سے بچانا ضروری تھا ورنہ سارا کیا کرایا پانی کی نذر ہوجاتا۔اور پھر رائفلیں اور کارتوس تھے جن تک نمی پہنچ جاتی تو وہ طوفان ختم ہوتے ہی آد م خور کے رحم و کرم پر آجاتے۔انہوں نے جلدی سے رائفلیں واپس کور میں پیک کرکے کندھوں پر لٹکالیں اور کارتوسوں کے ڈبوں کو سختی سے سیلوفین کی تہوں میں لپیٹ کر ہاتھوں میں تھام لیا۔نور محمد نے ایک کونے میں خالی کارٹن اوپر نیچے رکھے اورآتشیں اسلحہ کو ان پر ڈھیر کردیا۔ باقی چھوٹے موٹے سامان کو بھی ہر ممکن حد تک نمی سے بچاتے ہوئے وہ پانی کے ننھے دھاروں کی زد سے دور کمبل اوڑھ کر پڑ رہے۔

چائے کا دوسرا رائونڈ چل رہا تھا کہ بارش کا زور ٹوٹنے لگا۔باہر کے شور شرابے میں آہستہ آہستہ دھیرج آنے لگی تھی۔گرجتے برستے آسمان پریک لخت خاموشی چھائی تو جنگل بھی حالت سکون میں آگیا۔اب صرف پانی کے دھارے تھے جو شور مچاتے بہے جارہے تھے لیکن اب  ان کی تندی میں بھی تھکن بڑھنے لگی تھی۔وہ خیمے کے پردے اٹھا کر باہر نکلے تو منظر یکسر بدل چکا تھا۔بارش اب بھی جاری تھی لیکن ایک سہل سے ۔آسمان پر گھٹا ٹوپ گھٹائیں اپنے ساتھ لایا سارا پانی بہا کر ہلکے ہلکے کسی اور دیس جانا شروع ہورہی تھیں۔بھیگی ہوئی شام کا آسمان، ایک دم سے اجلا اور گہرانیلا آسمان چھٹتے ہوئے بادلوں کی دبیز تہوں میں سے جا بجا جھانک رہا تھا۔

ثانی نے گھڑی دیکھی۔شام کے چھ بجنے والے تھے۔موسم کی قہرناکی پندرہ بیس منٹ تک جاری رہی تھی۔ابھی کچھ دیر میں رات کی

سیاہی فضائوں میں گھلنے والی تھی۔انہوں نے دیکھا کہ بکری بری طرح سے بھیگی اور سہمی ہوئی اپنے گھٹنوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ انہیں دیکھ کرپھیپھڑوں کا پورا زور لگا تے ہوئے ممیائی جیسے ان سے سفاکانہ بے رخی پر احتجاج کررہی ہو۔یہی وہ وقت تھا جب آدم خور اپنے بچے کے ہمراہ طوفان کے بعد کی پر سکون فضا سے لطف اندوز ہونے اور ساتھ ہی پیٹ پوجا کی فکر کرنے کیلئے غار سے باہر آسکتی تھی۔ثانی کی ہدایت کے مطابق انہوں نے اپنے موبائل فون سائلنٹ پر کرکے خیمے سے اپنی رائفلیںنکا لیں اور اپنے اپنے طے کردہ ٹھکانوں میں پہنچ گئے۔ثانی نے دوشاخہ درخت کے دونوں تنوں بیچ موجود خلا میں اپنی ڈبل بیرل کی نال ٹکائی اور ایک گیلے پتھر پر بیٹھ کر دن کا آخری سگریٹ سلگا لیا۔ وہ درخت جس کے ساتھ بکری بندھی تھی اس سے چالیس سے پچاس گز کے فاصلے پر بالکل سامنے کے رخ تھا۔اس کے دونوں ساتھی اس سے ڈیڑھ سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھے اور ان سے رابطے کا واحد ذریعہ موبائل فون پر ٹیکسٹ میسجنگ تھی سو اس نے میسج کرکے ان سے اوکے رپورٹ لی۔

وحشی بارش اور تند ہوائوں کے بعد جنگل میں چہل پہل لوٹ آئی تھی۔جنگل کے تمام باسی طوفان کے دوران اپنی کمیں گاہ میں دبکے رہے تھے اور اب طوفان گذر جانے کے بعد وہ ایک ترنگ کے عالم میں اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل آئے تھے۔درختوں کی گھنی شاخوں میں

موجود پرندے کسی پر شور بحث میں مشغول تھے جبکہ چھوٹی بڑی گلہریاں ایک ہماہمی کے عالم میں کبھی درخت پر چڑھ رہی تھیں کبھی کسی خیال کی لہر میں زمین پر آجا رہی تھیں۔ایک درخت پر موجود سرد ہوا کی مستی میں گرمایا ہوا ایک بندر جذباتی لہر میں آیا اور کہیں اور موجود اپنی مادہ کو ورغلانے کیلئے آواز نکالی۔دوسری جانب سے بھی اسی ٹون میں حوصلہ افزا جواب ملا تو بندر نے درخت سے چھلانگ لگائی اور کوئے یار روانہ ہوا۔کچھ دیر بعد ایک لومڑ اپنی نصف بہتر کے ساتھ لگے لگے اپنی دھن میں مست سامنے سے گذرا اورجھاڑیوں میں گھس گیا۔

اب ایک انتظار تھا جو لامتناہی بھی ہوسکتا تھا۔

عجیب طور پر ثانی کو وہاں گھات لگائے بیٹھنا مشکل سا ہورہا تھا۔جسم میں ہلکی سی اینٹھن اور کسلمندی بھی تھی جو اسے اکسارہی تھی کہ جائے اور خیمے میں جاکر کمبل لپیٹ کر سوجائے۔اچانک ایک زور دار چھینک نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسے آرام کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی لیکن مورچہ چھوڑجانے کا مطلب تھا خود کو اور اپنے دونوں ساتھیوں کو ہلاکت میں ڈالنا۔ثانی کو یاد آیا کہ تیز بارش میں بھیگنا اور پھرخنک ہوا میں گیلے کپڑے پہنے رکھنا اسے بیمار کرنے کا باعث ثابت ہورہا ہے۔ایک اور چھینک ،پھر دوسری اور پھر تیسری۔ایک بار تو ثانی کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔وہ نزلہ زکام کا شکار ہورہا تھا۔اس نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر گہری سانس لی۔اگر بخار نے اسے مغلوب کرلیا تو وہ کہیں کا نہ رہے گا۔تب اس نے اپنی جزویات کو اہمیت دینے کی عادت پر خود کو داد دی جس کی وجہ سے اس کی کمرے سے بندھے پائوچ میں ضروری دوائوں کا چھوٹا سا ذخیرہ موجود تھا ۔اس نے موبائل فون کی روشنی میں زکام بخار کی دو گولیاں تلاش کیں اور پانی کے ساتھ نگل لیں۔چلتے سمے اس نے ایک چھوٹے فلاسک کو بھی چائے سے بھرلیا تھا جس کی نیم گرم چسکیاں اس کے اعصاب کو بحال کرنے کے سلسلے میں معجز نما ثابت ہوئیں۔

وہ چائے کی آخری چسکی لے کر فلاسک پر ڈھکن لگانے کو تھا کہ اس کی شکاری حس بیدار ہوگئی۔جنگل کی مخصوص خاموشی اچانک ٹوٹ گئی تھی۔اس کے ارد گرد موجود درختوں پر چڑھے بندروں میں سے ایک نے ایک مخصوص سی آواز نکالی۔کچھ دور سے اسی ٹون میں جواب آیا اور پھر بہت سے بندروں کے گروہ میں کچھ دیر کیلئے سراسیمگی سے پھیل گئی۔اس کے ساتھ ہی بہت سے پرندوں نے کورس میں شور مچانا شروع کردیا۔کہیں سے ایک الو نے کوک پکار کی تو کہیںکسی اور پرندے نے اپنے ساتھیوں کو کوئی مخصوص سگنل بھیجا۔اور پھر جھاڑیوں میں کئی پر

پھڑپھڑائے اور پرندوں کی ایک ٹولی جھاڑیوں سے پھرا مار کر اڑی اور جنگل کی گہرائیوں میں غائب ہوگئی۔جنگل میں ہونے والا یہ شور شرابا اشارہ تھا کہ گلدارکہیں قریب ہی نمودار ہوچکی ہے۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد جنگل پھر سے ایک گھمبیر خاموشی میں ملفوف ہوگیا۔

ثانی رائفل کے کندے کو بغل کے ساتھ دباتے ہوئے سنبھل کر بیٹھ گیا۔اسے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا تھا کہ اس نے دیکھا کہ تاریکی میں فروزاں دو آنکھیں تھوڑے ہی فاصلے پر نمودار ہوچکی تھیں۔اس نے نظریں جما کر دیکھا توستاروں کی موہوم سی لو میں ایک گلدار کا تاریک ہیولا اس کے سامنے موجود تھا۔یہ قدرے چھوٹے سائز کا درندہ تھاجوزمین پر پنجے گاڑے بکری کی جانب دیکھ رہا تھا۔یقینایہ بچہ گلدار تھا جو بکری کی ضیافت اڑانے آیا تھا۔اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس کے پیچھے دو اور آنکھیں فروزاں ہوئیں۔ یہ اس کی ماں تھی۔۔۔آدم خور چھلاوہ۔۔۔ جو دن بھر غار میں بند رہنے کے بعد اپنے بچے کے ہمراہ رات کے شکار کیلئے نکلی تھی۔

ثانی نے اپنے سارے اعصاب مٹھی میں بھینچ لیے اور سنبھل کر بیٹھ گیا۔وہ اس وقت آدم خور کے مقابل تھا اور دونوں کے درمیان فاصلہ خطرناک حد تک کم تھا۔اس کی انگلی ٹریگر پر اور آنکھ ڈبل بیرل کی مکھی پر جم گئی۔وہ چھوٹے لیپرڈ کی دھیمی غراہٹ کو صاف سن رہا تھا۔وہ سنبھلے ہوئے قدموں آگے بڑھا اور پھر اچانک بکری پر جاپڑا ۔بجلی کی سی سرعت سے اس کا پنجہ فضا میں بلند ہوا اور بکری کی گردن جھول گئی۔بیچاری کو اف کرنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ماںنے سر اٹھا کر اپنے ہونہار بروا کو دیکھا جو ایک بھرپور درندہ بن چکا تھا۔اس نے ضرور دل ہی دل میں اسے سراہا ہوگا۔تب وہ ہلکی سی لنگڑاہٹ کے ساتھ آگے بڑھی اور بکری کو کھینچ لے جانے کیلئے اس کے ساتھ مل کر زور لگانے لگی لیکن بکری نائیلون کی موٹی رسی کے ساتھ بندھی تھی جسے توڑنا اس کیلئے ممکن نہ تھا۔ثانی کا سارا پلان اسی نائیلون کی رسی کا مرہون منت تھا کہ اس کی وجہ سے دونوں درندے اس کے سامنے ہی بکری کو کھانے پر مجبور تھے۔

دونوں اس کے نشانے پر تھے لیکن الجھن یہ آن پڑی کہ وہ پہلے کس پر گولی چلائے۔چھوٹا گلدار بے جرم تھا وہ اسے نہیں مارنا چاہتا تھا لیکن اگر وہ ماں پر گولی چلاتا تو بچہ اس پر آن پڑتا اور اگر بچے پر گولی چلاتا توسفاک اور عیار ماںکے غیض سے بچنا شاید اس کیلئے ممکن نہ رہتا۔تیسری صورت میں اگر نشانہ خطا جاتا۔۔۔(اس نے جھرجھری سی لی)۔۔۔ تو وہ دونوں کے رحم و کرم پر ہوتا۔اسے پہلے کبھی ایسی صورتحال سے واسطہ نہ پڑا تھا۔ایک لمحے کو تو اسے لگا جیسے اس کی قوت فیصلہ سلب ہوگئی ہو۔

اس کی آنکھ ڈبل بیرل کی مکھی پر جمی تھی اور دماغ الجھا ہوا تھا۔ اس کی رائفل کا نشانہ چھوٹے گلدار پر جما ہوا تھا جو ایک اشتہا کے ساتھ بکری کے جسم کو پائوں سے دبائے اس کے گوشت کا ایک پارچہ کھینچ کر الگ کررہا تھا۔ایک تجربہ کار شکاری کے طور پر ثانی کیلئے نادر موقع تھا کہ وہ اس کے جسم میں بارود کا زہر اتار دیتا۔اس نے رائفل کی نال کا زاویہ بدلا تو نشانہ اس کی کھوپڑی پر جم گیا۔ٹریگر پر انگلی کا دبائو بڑھا اور پھر ایک نامحسوس سی لرزش سے دبائو ہلکا ہوگیا۔تب رائفل کی نال گلدار کے سر سے پھسلی اورگہرے زرد جسم پر کھلے سیاہ گلابوں کو سہلاتی اس مقام پر جارکی جہاں اس کا وحشی دل دھڑکا کرتا ہے۔ٹرائیگر کا ایک جھٹکا اور بارود اس کے دل کو پاش پاش کرکے ایک دھڑکتی زندگی کا قصہ پاک کردیتا۔ٹرائیگر پر انگلی نے پھر دبائو ڈالا۔دبائو بڑھتا گیا مگر آہ! پھر وہی لرزش۔اس کی ہتھیلیوں میں پسینہ پھوٹا اورانگلی نے موت کے پیغام بر ٹرائیگر پر دبائو کم کر دیا۔ثانی نے گہری سانس لے کر خنک را ت میں ماتھے پر آئی تریلی پونچھی۔چھوٹا گلدار معصوم تھا۔اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔وہ اسے کیسے زندگی سے محروم کردیتا۔

ثانی نے زندگی کے بہت سے برس جنگلات کی نذر کیے تھے۔اسے بیٹھے بڑھائے کسی جنگل سے بلاوا آتا اور وہ بے خودسا اس بلاوے کے تعاقب میں چل پڑتا۔آباد براعظموں میں سے کوئی ایسا براعظم نہیں تھا جس کے جنگلات کی مہکار کو اس نے اپنے رگوں میں نہ اتارا ہو۔جنگل جنگل گھومتے اور جنگل کے باسیوں بیچ سانس لیتے ہوئے اس کا درختوں ، جانوروں اور پرندوں کے ساتھ ایک عجیب سا ناطہ جڑ گیا تھا۔وہ اپنے مزاج اور دل سے شکاری نہیں تھا۔شکار تو ایک بہانہ تھا جنگل کے ساتھ جڑے رہنے کا۔اس کے پاس یہی ایک ہنر تھا۔لیکن اپنے اس ہنر کے ساتھ اس کی کبھی بنی نہیں۔اس نے جب بھی کسی جانور پر گولی چلائی تو ایک بار تو دل بوجھل ضرور ہوا۔سو اس بوجھ کو ہلکا کرنے کیلئے وہ کوشش کرتا کہ صرف ایسے جانوروں کو نشانہ بنائے جو کسی طرح سے انسانوں کیلئے خطرناک ہوچکے ہوں یا بوڑھے او ر بیمار ہوں۔اس چھوٹے گلدار جیسے پھڑکتے ہوئے چکنے وجود اس کے نشانے سے ہمیشہ بچ نکلتے تھے۔یوں تو بہت سی انواع تھیں جن کے ساتھ اس کا ایک داخلی ناطہ تھا لیکن بلی کی نسل کے جانوروں نے اسے سدا سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔اس کا شیر، چیتے، پینتھر اور لیپرڈ سے اکثر واسطہ پڑا تھا اور وہ ان کے اندر موجود ایک عجیب سی کشش کا اسیر تھا لیکن لیپرڈ یا گلدار ایسا جانور تھا جس نے اسے اپنی محبت میں باندھ رکھا تھا۔اپنی انواع کے دوسرے جانوروں سے کہیں زیادہ دلفریب اس جانور کے ساتھ اس کا سب سے کم واسطہ پڑا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ گلدار کا شرمیلا پن اور تنہائی پسندی تھی۔وہ انسانوں کی دنیا سے دور کسی نامعلوم دنیا میں زندگی بسر کرنے کا عادی ہے اور ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کوئی بھی جانور حتیٰ کہ کوئی دوسرا نر گلدار بھی اس کی تنہائی میں مخل ہو۔اسے چند ایک بار اس خود فراموشی کی دھند میں لپٹے رہنے والے اس درندے سے ملاقات کا شرف تو ضرور حاصل ہوا تھا لیکن اس کے اور گلدار کے درمیان اجنبیت کی ایک گہری کھائی حائل رہی تھی جسے پار کرنے کا پہلے کبھی اسے موقع نہ مل سکا۔اس نے حقیقی دنیا میں تو نہیں لیکن کتابوں میں اسے ضرور پایا تھا۔جم کاربٹ وہ پہلا لکھاری تھا جس نے بچپن میں ہی اس کے دل میں اس افسانوی مخلوق کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی جوت جگائی تھی۔لیکن اس طرح دار گوشت خور کی حقیقی جانکاری اسے یہاں گلیات میں آکر حاصل ہوئی تھی۔اگر وہ آدم خور کے تعاقب میں مشک پوری کی جھاڑیوں کے کانٹوں کی چبھن اپنے بدن میں نہ سجاتا تو گلدار جیسا مسحور کن جانور ایک ان دیکھے جزیرے کی طرح اس کیلئے ہمیشہ اجنبی ہی رہتا۔

اور اب جبکہ چھوٹے گلدار کا دل اس کی رائفل کی زد میں تھا۔وہ مسحور سا اس کی مضبوط اور لمبی دم کی لرزش پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ستاروں کی لو میں اس سایہ سے وجود کو دیکھتے ہوئے کسی گم نام امریکی شاعر کی بھولی بسری لائنیں اس کے دماغ کے پرامپٹرپر چلنا شروع ہوگئی تھیں:

وہ جو جنگل کی مخلوقات میں سب سے ذہین ہے

اور سب سے عیار ہے

جو اپنی زرد کھال پر سیاہ دھبے سجائے چٹانوں اور سنگلاخ زمینوں

اور جنگل کی گہری کھائیوں میں چور چال چلتے ہوئے شکار کا تعاقب کرتا ہے

وہ جو سب سے سڈول اور سجل ہے اور اپنے سر میں منصوبہ ساز دماغ چھپائے ہوئے ہے

وہ جو شرمیلا ہے اور جس کے کٹیلے پنجوں میں غیض بھرا ہے

وہ قاتل جبلت کے ساتھ شکار کا تعاقب کرتا ہے اور ایک آن میں اسے جالیتا ہے

میں اس گلدار کے ساتھ روح کی گہرائیوں میں بندھا ہوں

چھوٹے گلدار کے چھریرے اور مضبوط جسم سے پھسلتے ہوئے اس کی رائفل کی نال نے اس کی آدم خور ماں کو اپنے نشانے کی زد پر لے لیا۔یہ یقینا کہیں زیادہ خطرناک اور مشکل ہدف تھا۔آدم خور گلدار سفاکی اور چالاکی میں عام گلدارسے کئی گنا بڑھ کر ہوتا ہے لیکن اگر وہ مادہ ہو اور زخمی ہو اور اس کا بچہ اس کے ساتھ ہو تو کس قیامت کی سفاکی اور پھرتی کا اسے سامنا کرنا پڑسکتا تھا وہ چاہتا بھی تو ادراک نہ کرپاتا۔سب سے زیادہ دہشت ناک خیال یہ تھا کہ اگر اس کے فائر سے ان میں سے کوئی مرنے کی بجائے صرف زخمی ہوتا تو وہ بیک وقت دو مختلف سمتوں سے ان کے جوابی حملے کی زد میں آسکتا تھا جس سے بچ نکلنا اس کیلئے شاید ممکن نہ ہوتا۔موت اور زندگی کے اس معمے نے کچھ دیر کیلئے اسے چکرا کر رکھ دیا۔ٹرائیگر پر ایک بار اس کی انگلی دب جاتی توحالات پر اس کی گرفت ختم ہوجاتی اور عین ممکن تھا کہ چند ہی لمحوں میں وہ بھی اس بکری کی طرح لوتھڑوں اور جمے ہوئے خون کی صورت یہاں پڑا ہوتا ۔

اس نے نظر بھر کر دیکھا۔دونوں شاید دن بھر سے بھوکے پیاسے پڑے رہے تھے کہ ایک تیز اشتہا کے ساتھ وہ بکری کو شکم کا ایندھن بنانے میں جتے ہوئے تھے۔ یہی ایک لمحہ تھا جب اسے کوئی فیصلہ کرنا تھا۔وہ بیک وقت دونوں سے نہیں لڑسکتا تھا۔ان میں سے ایک کو بہر صورت  موت کے گھاٹ اترنا تھا ۔اس نے پھر سے ان دونوں کو اپنی نظر کی میزان میں تولا، دونوں کے متوقع ردعمل کا اندازہ لگایا اور پھردھیرے سے چھوٹے گلدار کے کان میں سرگوشی کی۔

’’سوری لٹل چیپ!یو مسٹ ہیو ٹو گو‘‘۔

چھوٹا گلدار اپنی پوزیشن بدل کر اس کے روبرو ہوا تو اس نے اس کی دونوں آنکھوں بیچ ایک نکتے کو نال کی مکھی پر لیا اور ٹرائیگر پر جمی انگلی نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

فائر کی گرج پر درختوں کے جھنڈ سے لا تعداد پرندے پھرا مار کر اڑے اور ایک لمحے کے سوویں حصے میں درختوں کے نیم تاریک بیک ڈراپ میں چھوٹا گلدارزمین سے کئی فٹ اچھلا اور دھپ سے زمین پر آرہا ۔مادہ گلدار نے کچھ نہ سمجھنے کی کیفیت میں گردن گھمائی او ر پھر وہ مجسم غیض بن گئی۔اس نے مایوسی اور طیش کے عالم میں اپنی دم کو جھٹکا دیا اور ایک ہولناک دھاڑ نے جنگل کو لرزا دیا۔ وہ تیزی سے اپنے بچے کی طرف لپکی جو گر کر اٹھنے کی تگ و دو میں تھا۔کارتوس اس کی پیشانی کی مضبوط ہڈی کو توڑتے ہوئے دماغ میں گھس گیا تھا۔ اس نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مبتلا چھوٹے گلدار کا دوبارہ نشانہ لیا لیکن عین اس لمحے اس کی ماں ان دونوں کے درمیان حائل ہوگئی۔دوبارہ گولی چلانا بے سود اور شاید خطرناک بھی تھا۔تب طیش کی سلگن میں مادہ گلدار نامعلوم جگہ پر چھپے ہوئے دشمن پر دھاڑی اور پھر دھاڑتی چلی گئی۔ اپنے پوشیدہ دشمن کو للکارنے کے بعد اس نے اپنے بچے کو منہ میں دبوچا اور اسے لیے ہوئے قد آدم جھاڑیوں کے اوپر سے پھلانگتی غائب ہوگئی۔

ثانی نے گہرا سانس لیتے ہوئے لحظہ بھر کیلئے اپنے تنے ہوئے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔تبھی قمیض کی اوپر والی جیب میں لرزش ہوئی۔اس نے موبائل نکال کی اس کی نیلی روشن سکرین کو دیکھا۔ڈپٹی کی کال تھی۔اس نے کال اٹینڈ کی اور سرگوشی میں اسے الرٹ رہنے کا کہا۔فوراً ہی نور محمد کی کال آئی تو اس نے اسے بھی یہی پیغام دیا۔

جس سرعت سے آدم خور غائب ہوئی تھی وہ اس کی سمت کا اندازا نہ کرسکا تھا ۔سراسیمگی کے عالم میں وہ ان دونوںمیں سے کسی ایک کی

جانب جاسکتی تھی یا سمت بدل کر اپنی غار کا رخ بھی کرسکتی تھی۔وہ صرف انتظار ہی کرسکتا تھاسووہ کچھ دیر دم سادھے بیٹھا رہا۔اس کی نظریں اور کان جھاڑیوں پر جمے تھے لیکن وہاں کوئی حرکت نہ تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مادہ گلدار وہاں نہیں تھی کہیں اور جاچکی تھی لیکن کس جانب؟۔اگر وہ جھاڑیوں کے عقب میں موجود چٹانوں کا رخ کرتی تو زیادہ خطرے کی بات نہیں تھی لیکن اگر وہ دائیں جانب کا رخ کرتی تو وہاں نور محمد تھا اور اگر بائیں جانب جاتی تو اس کا سامنا ڈپٹی سے ہوتا۔دونوں صورتیں خطرناک تھیں کہ تاریکی میں وہ دونوں اس وقت تک اسے دیکھ نہ پاتے جب تک وہ ان کے سر پر نہ پہنچ جاتی۔ایسے میں بہت ممکن تھا کہ وہ گڑبڑا کر کوئی فاش غلطی کربیٹھتے اور اسے ان پر حملہ آور ہونے کا موقع مل جاتا۔اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔اسے تھوڑا سا اطمینان ضرور تھا کہ وہ اس وقت جبکہ اپنے بچے کو منہ میں دبائے جارہی ہے کسی پر حملہ آور ہونے کی بجائے کھسک جانے میں ہی عافیت سمجھے گی لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا ۔اور پھر ۔۔۔اچانک فائر کی ایک اور آواز نے لمحاتی خاموشی کو توڑ دیا۔فائر دائیں جانب سے آیا تھا جہاں نور محمد تھا۔ایک بار، دو بار اور تین بار۔دوسری جانب سے رائفل شعلے اگلتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی۔فائر کے جواب میں دھاڑ سنائی نہیں دی تھی جس کا مطلب تھا کہ نور محمد کے فائر خالی گئے ہیں اور وہ ان کی فائر رینج سے دور کسی محفوظ جگہ پر جاچکی ہے۔اس نے اس خیال سے کہ وہ امکانی طور پر واپس اس کی طرف بھی آسکتی ہے تھوڑا وقت مزید گذر جانے دیا اور پھر اپنا مورچہ چھوڑدیا۔رات کی تاریکی میں آدم خور کے تعاقب میں جانا نری حماقت تھی لہٰذا وہ اس جانب چل پڑا جہاں نور محمد تھا لیکن اس نے دیکھا کہ وہ اور ڈپٹی اپنی جگہیں چھوڑ کر دوڑتے ہوئے اس کی جانب آرہے ہیں۔

’’ایک بھیانک غلطی!‘‘۔وہ بڑبڑایا۔ان اناڑیوں کو گلدار کی فطرت کا ذرا بھی اندازہ ہوتا تو وہ یوں جذباتی ہوکر اس کی طرف دوڑ نہ لگاتے۔اس نے ایڑھیوں کے بل گھوم کر چاروں اور رائفل کی نال گھمائی اور تمام حواس کو یکجا کرتے ہوئے جھاڑیوں میں کسی غیر معمولی حرکت کا پتا لگانے کی کوشش کی ۔وہاں مکمل خاموشی اور ٹھہرائو تھا۔آدم خور وہاں سے کہیں دور جاچکی تھی۔اس نے رائفل کو کندھے پر لٹکایا اوراپنی اعصاب زدگی پر قابو پانے کیلئے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر نکال کر سگریٹ سلگالیا۔

وہ دونوں بھاگتے ہوئے اس کے قریب پہنچے اورآتے ہی اس کے ساتھ لپٹ گئے۔دونوں کے سانس پھولے ہوئے تھے اور ہیجان ان کے چہروں پر نمایاں تھا۔ان کی کیفیت دیکھ کر ثانی مسکرایا۔ان کا رد عمل عین فطری تھا کہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار ایک خطرناک صورتحال کے اندر کسی درندے کا سامنا کیا تھا۔ثانی نے ان کے کندھے تھپتھپائے اور انہیں لیے خیمے میں آگیا۔

نور محمد نے ایمر جنسی لائٹ کی روشنی میں ٹن پیک کھانا گرم کیا اور دسترخوان پر سجا دیا۔سردی ، بھوک اور شکستگی کے اس عالم میں گرما گرم ٹیونا مچھلی نے بہت مزا دیا۔انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر اپنے گرد کمبل لپیٹ کر قہوے کی چسکیاں لینے لگے۔بھاپ کی لپٹیں چھوڑتے گرما گرم قہوے نے ان کے اعصاب کو قدرے نارمل کردیا۔قہوہ ختم کرکے وہ اپنے کمبلوں میں دراز ہوئے تو گذرے ہوئے چند لمحے کہانیاں بن کر ان کے درمیان آموجود ہوئے۔نور محمد نے بتایا کہ ثانی کے فائر کی آواز سن کر وہ چوکنا ہوگیا تھا۔بات کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں اور لہجے میں ایک ناکام قاتل کی سی تھکن تھی۔

’’اچانک میںنے دیکھا صاب!کہ ایک سایہ سا تیزی سے میری طرف بڑھ رہا ہے۔وہ تھوڑا قریب ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے جبڑوں میں کچھ دبا رکھا ہے۔غور سے دیکھا تو وہ چھوٹا گلدار تھا اس کا بچہ جسے اس نے حاجی کی قید سے آزاد کرایا تھا‘‘۔اس نے مایوسی سے سرجھٹکا اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔’’ایک دم سے میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔میرا دشمن ، میری گلابے کا قاتل میرے سامنے تھا اور مجھ پر چڑھا آرہا تھا۔تب مجھے لگا جیسے میرے اندر کوئی آتش فشاں سا پھٹ پڑا ہے۔ تبھی میرے گلابے نے میرے کان میں سرگوشی سے کچھ کہا۔اور پھر

میں نے نشانہ لے کر گھوڑا دبا دیا۔لیکن وہ کم بخت میری گولی سے زیادہ تیز نکلی ‘‘۔

ادھر ثانی ایک احساس جرم کے جالے میں الجھا ہوا تھا۔آج اس سے ایک گناہ سرزد ہوگیا تھا۔اس نے ایک خوبصورت زندہ وجود سے زندہ رہنے کا الوہی حق چھین لیا تھا۔’’اللہ کرے وہ زندہ ہو‘‘۔ثانی نے جھرجھری لے کر سوچا۔عقل اور دل کے درمیان کشمش کے اگلے لمحے میں اس نے اپنے احساس جرم پر قابو پالیا۔اس کے پاس دلیل مضبوط تھی کہ مصلحت کا یہی تقاضا تھا سو عقل نے بے وقوف دل کو صاف پچھاڑ دیا۔

نور محمد نے رات کے کسی پہر آدم خور کی دوبارہ آمد کے خدشے کا اظہار کیا جو سراسر بے دلیل نہ تھا۔ان حالات میں خود کو محفوظ کرنے کا معروف نسخہ یہ تھا کہ خیمے کے ارد گرد الائو جلادیا جائے تاکہ کوئی بھی جانور آگ اور انگاروں کو پار کرکے ان تک پہنچنے کی ہمت نہ کرے لیکن مجبوری یہ آن پڑی تھی کہ اس نے جو خشک جھاڑیاں کاٹ کر خیمے کے گرد ڈالی تھیں بارش سے گیلی ہوچکی تھیں۔ سو ڈپٹی کی تجویز پر نور محمد نے سامان سے ایک طاقتور ایمر جنسی لائٹ نکالی اور اسے روشن کرکے خیمے کے باہر رکھ دی۔یہ ایک غیر یقینی اور کمزور سہارا اور دل کو خوش رکھنے کا ایک بہانہ تھا لیکن اس وقت تو بس یہی ممکن تھا۔

ایک ہیجان سے بھرپور تجربے نے ان کی آنکھوں سے نیند نوچ لی تھی۔اس کے باوجود اپنے اعصاب کو پرسکون کرنے کیلئے بھرپور نیند لینا ضروری تھا۔اس کا کوئی خاص امکان نہ تھا کہ آدم خور رات کے کسی پہر واپس اس جگہ لوٹ کر آئے گی جہاں اس کے مسلح دشمن اپنے ’’ٹھائیں ٹھائیں کرنے والے ڈنڈوں‘‘ کے ساتھ موجود تھے ۔ثانی کو اندازہ تھا کہ دنیا کی ہر ماں کی طرح وہ بھی آج کی رات اپنے جوان بچے کی لاش کے ساتھ گذارنا چاہے گی۔اپنے اندازسے اس پر بین کرے گی۔اس کی لاش کو پتھروں میں چھپانے کا اہتمام کرے گی۔ساتھ ہی یہ بھی طے تھا کہ اپنے دو جوان بچوں کا انتقام اسے شعلہ جوالا بنادے گا۔اب اس کی مار دھاڑ سے کوئی انسان تو کیا کوئی چرند پرند بھی نہیں بچ پائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے شدہ بات تھی کہ ایک مادہ آدم خور گلدار کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔معمول کے حالات میں تو شاید وہ رات کے کسی پہر اس جانب نہ آتی لیکن انتقام کی بھڑک اس سے کچھ بھی کراسکتی تھی۔گویا ایمرجنسی لائٹ کے کمزور سہارے کے باوجود انہیں رات بھر خطرے کا سامنا تھا۔اس خدشے کے پیش نظر طے پایا کہ وہ تینوں رات کو باری باری جاگ کر پہرہ دیں گے۔نور محمد کے حصے میں رات کے پہلے پہر کی چوکیداری آئی جبکہ ڈپٹی نے رات کے درمیانی حصے اور ثانی نے سحر سے پہلے کی ذمہ داری لے لی۔

نور محمد نے خیمے کے اندر روشن ایمرجنسی لائٹ بجھادی اور خیمے کے دھانے پر اپنی بیٹھک جمالی جبکہ وہ دونوں کمبلوں میں منہ سر چھپا کر لیٹ گئے۔مقامی جنگل کی جڑی بوٹی سے بنا قہوہ ثانی کی اعصاب زدگی کیلئے جادو اثر ثابت ہوا۔کچھ اثر کمبل کی گرمائش کا بھی تھا کہ وہ جلدی ہی نیند کی وادی میں اترگیا۔لیکن نیند ایک الگ عذاب ثابت ہوئی۔اس کے لاشعور کے مال خانے میں جانے کن کن جنگلوں اور جانے کن کن نسلوں کے درندوں کی متحرک تصویریں پڑی تھیں کہ وہ سب اس کی آنکھیں مندھتے ہی کچھ عجیب سی کمپوزیشن میں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہوکر دماغ کے پردہ سیمیں پر متحرک ہوگئیں۔ان متحرک تصویروں میں مشک پوری کی ملکہ اپنی تمام تر وحشتوں کے ساتھ مرکزی کردار کے طور پر موجود تھی۔وہ ان تمام جنگلوں میں موجود ان تمام درندوں کا واحد ہدف تھا۔اگر وہ کسی ایمزون کے کسی جنگل میں کسی درندے کے خونی جبڑوں سے بچ نکلتا تو کینیا کے کسی جنگل میں کوئی اور درندہ دانت نکوسے اس کا منتظر ہوتا۔وہاں سے بھاگ نکلتا تو ایوبیہ نیشنل پارک میں مشک پوری کی ملکہ اسے چیر پھاڑ دینے کو تیار ہوتی۔وہ یونہی درندوں کی فوج کے ساتھ جنگلوں جنگلوں لڑتا بھرتا مغربی افریقہ کی ایک ندی کنارے بیٹھا شکاری چاقو سے شیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک پانی میں سے ایک چھپاکے سے مشک پوری کی ملکہ نکلی اور اس پر جھپٹ پڑی۔یہ تو خیر گذری کہ اس کی آنکھ کھل گئی ورنہ دنیا سے اس کی حسرتناک رخصتی کا سب سامان مکمل تھا۔

ٍ آنکھ کھلنے پر اس نے ڈیجیٹل گھڑی پر وقت دیکھا تو ابھی رات کے دس بھی نہیں بجے تھے۔اس کے ساتھ ڈپٹی لیٹا تھا جو گہری نیند میں تھا جبکہ نور محمد خیمے سے کہیں باہر گیا ہوا تھا۔اس نے دوبارہ سے سونے کی کوشش کی تو گانے کی آواز پر وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔خیمے کے باہر کوئی مردانہ آواز میں پنجابی کے ٹپے گارہا تھا جو ظاہر ہے نور محمد ہی تھا۔نور محمد کا ایک اور کمال اس کے سامنے واشگاف ہورہا تھا۔اس نے کمال کا گلا پایا تھا۔ایک تو آواز پاٹ دار جو رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی جنگلی وسعتوں میں پھیل رہی تھی اور پھر اس کی آواز میں میں بلا کا درد بھی تھا۔وہ جو ٹپے گارہا تھا ان میں وچھوڑے کا کرب اور محبوب سے اکیلا چھوڑ جانے کا شکوہ غالب تھا۔ثانی کمبل لپیٹ کر اٹھ بیٹھا اور پردہ کھول کر باہر نکل آیا۔اس نے دیکھا کہ دور ایک پتھر پر نور محمد کا تاریک ہیولا موجود تھا۔وہ گارہا تھا اور ساتھ گود میں ایک پرات جمائے ہاتھوں سے تال دئیے جارہا تھا۔ثانی دبے پائوں نزدیک پہنچا تو نور محمد نے تان اٹھائی:

کچی ٹٹ گئی جنہاں دی یاری

او پتناں تے رون کھڑیاں

اور پھر وہ اس ٹپے کو دہراتا چلا گیا۔ثانی کو لگا کہ اگر وہ یونہی گاتا رہا تو اس پر دیوانگی طاری ہوجائے گی۔وہ آگے بڑھا اور نورمحمد کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔نور محمد کو گاتے ہوئے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور یک لخت گانا روک دیا۔وہ بری طرح سے جھینپ گیا تھا۔ثانی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا اور اسے سینے سے لگے رونے دیا۔پھر وہ دونوں اٹھے اور خٰیمے میں واپس آگئے۔

تھکن اور گذشتہ شام بارش میں بھیگنے والے جسموں میں جمی کسلمندی کے باوجود اگلے دن پرندوں کی پرشورچہکار نے انہیں تادیر سونے نہ دیا۔نور محمد تو رات بھر جاگتا رہا تھا جبکہ وہ دونوں سوئے تو تھے لیکن آدھی پونی نیند۔صبح وہ تینوں کچی نیندکا خمار لیے خیمے کا پردہ اٹھا کر نکلے تو چہار سو پھیلا صبح صادق کا مقدس اجالا انہیں دیکھ کر مسکرادیا۔جواب میں ان کا رواں رواں بھی مسکرا اٹھا۔انہوں نے محسوس کیا کہ صبح کی تازہ فضامیں موجود مقناطیسیت نے ان کے جسموں میں بشاشت بھردی ہے۔انہوں نے گھوم کر چار اطراف پھیلے جنگل اور سلسلہ در سلسلہ پہاڑوں پرچھائے دھندلکے کو دیکھا ۔اس جادوئی منظر کے بیچ موجود لائف سائیکل اور حیاتیاتی تنوع میں صرف وہی تین تھے جو بنی نوع انسان کی نمائندگی کررہے تھے۔ تبھی کسی دور دیس سے آئے مہاجر پرندوں کی ایک ڈار نے مشکپوری کی چوٹی سے اڑان بھری اور ان کے اوپر سے گذرتے ہوئے افق کی دھند میں تحلیل ہوگئے۔وہ خیمے میں لوٹ آئے۔

نور محمد نے سٹوو جلایا اور ٹن پیک خوراک کو ڈبوں سے نکال کرفرائی پین میں گرم کیا اور گرم گرم چائے کے ساتھ دسترخوان سجا دیا۔ناشتے سے فارغ ہوکر انہوں نے کارتوس گن کر اپنی کمروں سے بندھے پائوچ میں رکھے۔اور پھر ایک کندھے پر پانی کی بوتل اور دوسرے کندھے پر رائفل لٹکاکر وہ کھلی فضا میں نکل آئے۔تبھی ثانی کو کوئی خیال سوجھا تو وہ واپس خیمے میں گیا اور اپنی شارٹ رینج گن دوسرے کندھے پر لٹکائے باہر آگیا۔

انہوں نے سیدھے اس درخت کا رخ کیا جہاںماں بیٹے نے اپنی جان کا رسک لے کر بکری کے گوشت سے دعوت شیراز اڑائی تھی۔وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ اب وہاں بکری کے نام پر چند چچوڑی ہوئی ہڈیاں پڑی تھیں۔ان کے جانے کے بعد جنگل کے دوسرے گوشت خور مکینوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باقی ماندہ بکری کا صفایا کردیا تھا۔انہوں نے دیکھا کہ بکری کی باقیات کے قریب ہی جمے ہوئے خون کا ایک چھوٹا سا تالاب بھی موجود ہے۔یہ ثانی کی گولی کا نشانہ بننے والے چھوٹے گلدار کا خون تھا۔ خون خاصی مقدار میں تھاجس کا مطلب یہ تھا کہ چھوٹے گلدارکے زندہ بچ جانے کے امکانات کم تھے۔وہ کوئی گتھی ہوئی اور گنجلک جھاڑیوں کا جنگل نہیں تھا بلکہ وہاں موجود زیادہ تر جھاڑیاں چھدری تھیں جن کے آر پار آسانی سے جایا جاسکتا تھا۔وہ جھاڑیوں کے پتلے اور لچکیلے تنوں کو ہاتھوں سے دھکیلتے دوسری جانب گئے تو وہاں خون کی بہت واضح لکیر تھی۔اب انہیں اس لکیر کے ساتھ لگے لگے آدم خور کی کمیں گاہ تک پہنچنا تھا۔نوکیلے اور کٹے پھٹے پتھروں کی اک باڑ سی پھلانگتے ہوئے ان کا رخ دائیں جانب ہوگیا۔رات کو اسی سمت فرلانگ بھر دور بیٹھے نور محمد نے آدم خور پر بے سود فائر کھولے تھے۔انہوں نے دیکھا کہ نور محمد کے فائر سے گھبرا کر وہ تیزی سے واپس میران جانی پہاڑ کی سمت مڑی تھی۔غالباً اس نے اپنی غار یا اس کے قریب کسی محفوظ ٹھکانے پر جانے کا سوچا ہوگا۔وہ بھی خون کے تعاقب میں اسی سمت چل پڑے۔م

شکپوری کے سبزہ زار اور نرم نشیب و فراز کے برعکس یہ راستہ زیادہ دشوار گذار تھا۔راستے میں انہیں کئی جگہ بڑے پتھروں اور بلند چٹانوں نے روکاجس کی وجہ سے کبھی تو انہیں چٹانوں پر چڑھ کر پار اترنا پڑا اور کبھی لمبا چکر کاٹ کر دوسری جانب جانا پڑا۔اور پھر راستے میں دو تین گھاٹیاں بھی آئیں جنہیں عبور کرنے میںان پہاڑوں کا پالا نور محمد مددگار ثابت ہوا۔اس تگ و دو میں بہت بار خون کی لکیر اوجھل ہوئی جس کی تلاش میں انہیں الگ سے کھجل ہونا پڑا۔راستے کی کٹھنائی نے ان کی رفتار کو بہت زیادہ سست کردیا تھا۔وہ چلے تو سورج نے ابھی مشرقی افق سے جھانکا ہی تھا لیکن ا ب تک سورج ان کی ہمراہی میں خاصا بلند ہوچکا تھا اور ابھی سفر کی طوالت نامعلوم تھی۔

انہیں چلے ہوئے تین گھنٹوں سے زیادہ کا وقت ہوچکا تھا۔نور محمد اپنی بہتر صحت اور پہاڑی راستوں کی تربیت کے باعث ابھی تک تازہ دم تھا لیکن دونوں میدانی باشندے ڈپٹی اور ثانی تھکنے لگے تھے۔انہوں نے ایک ذرا سی ٹیک لگائی اور پھر چل پڑے۔کچھ فاصلہ پہلے وہ خون کی لکیر کھو بیٹھے تھے ۔اب انہیں اندازے سے ہی آگے بڑھنا تھا۔راستے میںوہ تینوں ایک دوسرے سے دور دور اترائی کے سفر میں تھے کہ اچانک ڈپٹی نے ثانی کی طرف دیکھتے ہوئے زور زور سے بازو ہلانا شروع کردئیے۔ثانی اس کی جانب لپکااور قریب پہنچ کر اس کے اشارے پر دیکھا کہ سامنے ایک کشادہ اور قدرے گہری کھائی تھی۔اس نے دیکھا لیکن کچھ دکھائی نہ دیا۔پھر اس کی نظر ایک بڑے پتھر پر پڑی۔جہاں غور سے دیکھنے پر گلدار کی دم کا ذرا سا سرا دکھائی دے رہا تھا۔اتنے میں نور محمد بھی ان سے آملا۔

وہ ان سے صرف سو گز کے فاصلے اور ایک پتھر کی مار پر تھی۔مسئلہ صرف اس تک پہنچنا یا اسے پتھر کی اوٹ سے باہر آنے پر مجبور کرنا تھاوہ تینوں دم کی سفید پھننگ پر نظر جمائے اپنی اپنی رائے دے رہے تھے تواپنے گم گشتہ ہدف کو پالینے کی سنسنی ان کے بدن میں دوڑ تی ان کے لہجوں سے چھلک رہی تھی۔اگر وہ اس کے سامنے آتے تو اس کیلئے انہیں کھائی عبور کرتے ہوئے بہت لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف جانا پڑتا۔یہ صورت دشوار بھی تھی اور ان کے اترنے چڑھنے کے دوران وہ ان کی آہٹ پاکر یا انہیں دیکھ کر وہاں سے غائب بھی ہوسکتی تھی۔ آخر نور محمد کی رائے مان لی گئی کہ شور مچا کر اور پتھر برسا کر اسے وہاں سے نکالا جائے۔اس کے بعد اس کا تعاقب کیا جائے۔اس پر عمل کرتے ہوئے وہ اس کی جانب پتھر برساتے ہوئے حلقوم کی انتہائی آزمائش کی حد تک شور مچانے لگے۔فاصلہ زیادہ تھا۔پتھر تو خیر اس تک کیا پہنچتے ، ہوا کے مخالف سمت چلنے کی وجہ سے ان کا شور شرابا بھی اس تک نہ پہنچ پایا۔تب ثانی نے رائفل کندھے سے اتاری اور ہوا میں دو چار فائر ٹکادئیے۔یہ حربہ اس حد تک ضرور کار آمد ثابت ہوا کہ دم کی پھننگ اچانک پتھر کی اوٹ میں غائب ہوگئی لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہ دیکھ پائے کہ وہاں بہت سے بڑے بڑے بے ترتیب پتھروں کا جمگھٹا سا ان کے سامنے دیوار بنا کھڑا تھا۔

انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کھسیانے سے ہنس پڑے۔دشمن کا سراغ پھر سے گم ہوچکا تھا اور وہ اس وسیع وادی سنگ و خار میں بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے۔تب طے ہوا کہ کھائی کو پار کرکے سامنے کے رخ آگے بڑھا جائے۔نور محمد کے خیال میں وہ ضرور اپنے غار کی طرف گئی ہوگی جو اس کی معلومات کے مطابق شمال کی سمت ایک آدھ گھنٹے کی دوری پر ہوسکتی تھی۔

وہ جانے کب تک چلتے رہے اور کن کٹھنائیوں سے گذرتے رہے۔سورج بھی ان کے ساتھ چلتے چلتے تھکنے لگا تھا۔مشک پوری کی سرسبز گھاٹیاں اور دیودار و صنوبر کے مہکتے جنگل پیچھے چھوڑتے ہوئے وہ کہیں دور نکل آئے تھے۔کہنے کو وہ ایوبیہ نیشنل پارک کی حددد میں تھے لیکن

انہیں لگا جیسے وہ وقت اور جغرافیے کی حدود سے ماورا کسی اور سنگ زار میں آنکلے ہیں۔یہاں سبزہ کم کم تھا اور جنگل کے نام پر ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی اور دور دور تک پھیلی چھدری جھاڑیاں کھڑی تھیں یا پھربلند اور درمیانے قد کے درختوں کے چھوٹے چھوٹے جھنڈ یہاں وہاں بکھرے ہوئے تھے۔نور محمد نے انہیں بتایا کہ اس نے سن رکھا ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں غار ہیں اورجہاں ممکنہ طور پر آدم خور نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔

ثانی نے کلائی کی گھڑی پر وقت دیکھا۔ دو بجنے والے تھے۔مئی کے اواخر کی سہ پہر میں اتنی حدت نہیں تھی جتنی مسلسل چلتے رہنے کے باعث ان کے جسموں میں بھرگئی تھی ۔اور پھر تھکن بھی تھی جو کچوکے دئیے جارہی تھی کہ کہیں بیٹھ رہو۔آخر وہ اخروٹ کے چند پستہ قد درختوں کے چھوٹے سے ذخیرے میں پہنچ کر ڈھ سے گئے۔ثانی نے منہ سے پانی کی بوتل لگائی تو چند قطرے ہی بچے تھے۔اس نے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے ان سے پانی کا پوچھا ۔صرف نور محمد کے پاس تھوڑا سا بچا تھا جو تینوں نے تبرک سمجھ کر گھونٹ گھونٹ پی لیا۔

ٹانگوں میں کچھ جان پڑی تو وہ اٹھے اور یونہی اندازے سے ایک طرف کو چل پڑے۔وہ اس وقت ایک پہاڑی کی کوہان پر تھے۔ان کے مدمقابل ایک بلند پہاڑ تھا جس کی بلندیوں کو دیوزاد درختوں نے چھپا رکھا تھا۔اس لینڈ سکپ کی مطابقت میں یہ پہاڑ ہریالا کم اور پتھریلا زیادہ۔ پہاڑ ی جس پر وہ موجود تھے ایک طرح سے اس بڑے پہاڑ کا ضمیمہ تھی کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے جڑے سے تھے۔جہاں اس پہاڑی کی اترائی ختم ہوتی وہیں سے اس پہاڑ کی چڑھائی شروع ہوجاتی۔ڈپٹی نے یونہی آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا سا بنا کر منظر کا جائزہ لیا تو اس پہاڑ کے وسط میں اس کی نگاہیں جم کر رہ گئیں۔اس نے اشارے سے ان لوگوں کو پہاڑ کی طرف متوجہ کیا۔ان کے عین سامنے صرف چند سو گز کے فاصلے پر ایک غار کا دہانہ سا دکھائی دے رہا ۔ اوراس کے قریب ایک لمبی اور مضبوط دم پرچم کی طرح ہولے ہولے لہرا رہی تھی۔وہ بے خیالی میں کتنی دیر سے اپنے دشمن کے  بالکل پاس پڑے تھے اور یکسر بے خبر تھے۔

بہت آسان تھا کہ آدم خور کو یہیں سے کھڑے کھڑے شوٹ کردیا جاتا لیکن یہاں بھی مسئلہ یہی تھا کہ ان کے اور آدم خور کے درمیان  ایک بڑا پتھر حائل تھا۔ڈپٹی کا خیال تھا کہ پہاڑ پر آدم خور کے قریب جانے کا رسک لیے بغیر کوئی مناسب مقام تلاش کرکے اسے دور سے ہی شوٹ کردیا جائے لیکن ثانی نے اس کی تجویز اس دلیل کے ساتھ مسترد کردی کہ اول تو انہیں اس کی پوری جھلک پانے کیلئے جانے کتنا فاصلہ طے کرنا پڑے اور پھر اتنی دور سے شوٹ کرنا سخت غیر دانشمندی تھی کہ اگر وہ غائب ہوجاتی تو اس کا دوبارہ سراغ پانا کار محال تھا۔نور محمد نے ثانی کے ساتھ اتفاق تو کرلیا لیکن اس کا معاملہ دوسرا تھا۔وہ اسے دور سے آسا ن موت کا تحفہ دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔اس کا خیال تھا کہ اس کے قریب پہنچ کر اس سے دو بدو نمٹا جائے۔ثانی کو نور محمد کے ان انتقامی جذبات سے ہرگز اتفاق نہ تھا کہ انتقامی حملہ شکار ی آداب کی روح کے سراسر منافی ہوتا ۔اس نے نور محمد کو بار دگر اپنے جذبات قابو میں رکھنے کا مشورہ دیا ۔

اب یہی تھا کہ سامنے والے پہاڑ پر جاکر ہی درندے کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں۔

’’تم لوگ یہیں ٹھہرو گے، پہاڑ پر میں اکیلا جائوں گا‘‘۔ثانی نے سرگوشی کی۔

’’میں بھی جائوں گا‘‘۔نور محمد نے سامنے والے پہاڑ سے نظریں ہٹائے بغیر ضد بھری سرگوشی کی۔

’’لیکن یہاں بھی تو کسی کو رہنا ہے۔وہ فائر کے بعد یہاں کا رخ کرسکتی ہے‘‘۔

’’میں کچھ نہیں جانتا۔میں نے اس کے گھر میں جاکر اسے مارنا ہے‘‘۔

ثانی نے دیکھا کہ نور محمد کی آنکھوں میں انتقام چمک رہا تھا اور وہ اس کے کہے میں نہیں رہا تھا۔ایسے میں کچھ کہنا سننا فضول تھا۔اس نے کندھے اچکا دئیے۔

’’ٹھیک ہے۔ ڈپٹی! تم یہیں اس درخت کی اوٹ میں ہوجائو اور آدم خورپر نظریں جمائے رکھو۔جونہی وہ تمہاری رینج میں آئے اس پر

فائر کردینا۔لیکن دیکھو ذرا ہوشیاری سے۔بچ کر نکلنے نہ پائے‘‘۔ثانی نے اپنے کندھے پررائفل کو درست کرتے ہوئے ڈپٹی کو ہدایات دیں۔ڈپٹی نے شارٹ رینج گن پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔

ثانی نے نظروں میں فاصلے کو تولتے ہوئے کچھ سوچا اور پھر ڈبل بیرل کو کیس میں بند کرکے اپنی شارٹ رینج گن نکال لی۔خوش قسمتی سے نور محمد کے پاس بھی کم فاصلے پر مار کرنے والی گن تھی۔پھر اس نے پہاڑ کی ساخت اور ہوا کی سمت کا جائزہ لیا اور پھر وہ مقام طے کیا جہاں انہیں پہنچنا تھا۔تب اس نے نور محمد کو اشارہ کیا اور انہوں نے پنجے جما جما کر ڈھلوان سے اترنا اور پھرسامنے والے پہاڑ پر چڑھنا شروع کردیا۔گلدار کی نظروں سے بچنے کیلئے انہوں نے پستہ قد جھاڑیوں کے طویل سلسلے کو اپنی اوٹ بنا لیا تھا۔

جھاڑیوں کی آڑ لیے وہ غار سے کچھ ہی دور پہاڑ پر پہنچ چکے تھے ۔ گلدارنے اپنی فطرت کے عین مطابق اپنی کمیں گاہ کو خفیہ رکھنے کی خاطر اسے جھاڑیوں اور کاٹھ کباڑ سے پاٹ رکھا تھا۔یہاں پہنچ کر وہ دونوں ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوگئے تاکہ ایک دوسرے کو کور بھی دے سکیں اور آدم خور کی توجہ بٹنے کا باعث بھی بن سکیں۔غار کے قریب صنوبر کے درختوں کا ایک بڑا جھنڈ تھا جو مشرقی سمت مڑتا ہوا گھنے جنگل میں ضم ہورہا تھا۔اس جھنڈ نے اس کمیں گاہ کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کا مزید سامان فراہم کردیا تھا۔یہی درخت ان تینوں کو بھی آڑکی سہولت فراہم کررہے تھے۔جہاں وہ جھنڈ میں داخل ہوئے تھے وہاں آدم خور ان کی نظروں سے اوجھل تھی۔اسے اپنی نظروں کے حصار میں لینے کیلئے اس کے خاصا قریب پہنچنا ضروری تھا۔ وہ فوج کے تربیت یافتہ کمانڈوز کی سی چستی اور دھیرج سے کمرجھکائے اور درختوں اور پتھروں کی آڑ لیے آدم خور کی جانب بڑھنے لگے۔وہ ایک دوسرے سے خاصا فاصلہ چھوڑ کر چل رہے تھے لیکن ایک دوسرے کی نگاہ میں تھے۔کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد ثانی نے ایک بڑے پتھر کی اوٹ سے سر نکال کر دیکھا کہ ان کا حریف عین ان کے سامنے تھا۔خوش قسمتی سے ہوا کا رخ مخالف سمت میں تھا جس کی وجہ سے آدم خور ان کی بو نہیں پاسکتی تھی۔

ثانی نے وہاں پہنچ کر جو دیکھا اور سنا وہ تاعمر اس کی یادداشت میں نقش ہونے والا تھا۔وہ آدم خور گلدارسے صرف بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا۔منظر یوں تھا کہ وہ ثانی کی طرف پشت کیے بیٹھی تھی۔اس نے اگلی دونوں ٹانگیں پھیلا رکھی تھیں اور ان ٹانگوں بیچ اس کا بچہ مردہ پڑا تھا۔ثانی نے حیران آنکھوں سے دیکھا کہ وہ رہ رہ کر آسمان کی جانب منہ اٹھا تے ہوئے ایک کربناک سی آواز نکالتی جیسے آسمان سے شکوہ کناں ہو ۔آواز کچھ ایسے تھی جیسے سرد تاریک راتوں میں بلی رویا کرتی ہے۔ایک پر سوز لحن میں کومل سے پنچم سر کی طرف بڑھتی ہوئی طویل ’’غررر۔۔۔غررر۔۔ غوووں۔۔۔اوووں‘‘ اور پھر اس کا نوحہ ایک کربناک نوٹ پر پہنچ کر تمام ہوجاتا۔اس نوحے کے اختتام پر وہ سر جھکاتی اور اپنے بچے کی لاش پر منہ پھیرنے لگتی ۔وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی اوررو رہی تھی۔

ثانی رک گیا اور اس نے پیچھے جھکتے ہوئے درخت کے ساتھ ٹیک لگالی۔اس کے سامنے ایک ماں تھی جو اپنے جوان بچے کی لاش پر بین کررہی تھی۔کسی بھی دوسری ماں کی طرح جس کا کلیجہ کٹ گیا ہووہ بھی اپنے دکھ کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی۔بہت آسان تھا کہ وہ رائفل سیدھی کرتا اور ٹھائیں ٹھائیں معاملہ خلاص کردیتا ۔اس نے رائفل سیدھی کی بھی، نشانہ بھی باندھا لیکن گولی چلانے والے ہاتھ میں سیسہ اتر آیاتھا۔آدم خور کو مارنے کاآسان ترین موقع ایک ماں نے مشکل بنادیا۔

اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر نور محمد بھی منظر میں داخل ہوچکا تھا۔وہ دونوں مختلف سمتوں میں گلدار کو گھیرے ہوئے تھے۔شکار کیلئے

ایک پرفیکٹ پوزیشن کہ وہ ایک کی گولی سے بچتی تو دوسرے کی زد میں آجاتی۔ نور محمد نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔وہ اس سے اذن کا طلبگار تھا لیکن اذن کہاں تھا ۔وہ اس کی سوال پوچھتی نگاہوں کے جواب میں گنگ تھا۔ثانی نے دور سے دیکھ لیا کہ نور محمد کے چہرے پر کھنچائو تھا اور آنکھوں میں ایک شدید کشمکش تھی۔ان کے سامنے موت کی بھیانکتا تھی اور انسون سے ترگداز میں گندھی ہوئی تھی۔ثانی نے ایک بوجھلتا سے اسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا اور وہ حکم کے غلام سپاہیوں کی طرح اپنے کمانڈر کے حکم پر پیچھے ہٹ گیا۔اس کے اندر کا انسان اسے رضاکارانہ طور پر ایک صریح حماقت کے ارتکاب پر مجبور کررہا تھا، میدان جنگ میں کی جانے والی ایک بھیانک غلطی جو فتح کو خونناک شکست میں بدل سکتی تھی۔لیکن یہ اختیاری پسپائی نہ تھی، مامتا کی طاقت نے انہیں پیچھے دھکیل دیا تھا۔

کئی گز پیچھے ہٹ کر وہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ایک عجیب سے خلفشار اور ہیجان نے اس کے اعصاب کو کھنچائو کی آخری حد تک کھینچ رکھا تھا۔اس کیفیت نے سگریٹ پینے کی سوئی ہوئی طلب کو بیدار کردیالیکن بہر حال یہ ایک حماقت نہ کرنا اس کے اختیار میں تھا سو اس نے اس وحشی طلب کو کچل دیا۔

اس نے سامنے پہاڑی پر نگاہ کی تو دیکھا کہ دور سے ڈپٹی ان کی جانب بے تابانہ انداز میں بازو لہرا کر کچھ کہنے کی کوشش کررہا ہے۔شاید وہ ان کے آگے بڑھ کر پیچھے ہٹنے پر حیران تھا اور چاہتا تھا کہ اس اعصاب شکن جنگ کو انجام پذیر کیا جائے۔ثانی نے دس پندرہ گز دور کھڑے نور محمد کو بھی دیکھا۔وہ بھی اسی کی جانب دیکھ رہا تھا اور ایک سخت بے قراری کے عالم میں تھا۔ادھر مادہ گلدارکی کربناک آواز اس پر چھائی بوجھلتا کو دبیز کیے جارہی تھی۔

ثانی نے سر جھٹکا اور اس جذباتی بحران سے خود کو نکالنے کی کوشش کی۔اس نے موت کے راگ کو نغمہ سرمدی کے ساتھ یوں ہم رنگ ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔یہاں کائنات کے دو طاقتور ترین مظاہر زندگی اور موت کچھ عجیب اور ناسمجھ میں آنے والے ڈھنگ سے ایک دوسرے میں گتھے ہوئے تھے۔وہ ایک کو دوسرے سے جد ا کرپاتا تو کچھ کرتا۔اس نے دیکھا کہ نور محمد سخت الجھن اور ناراضی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔خون کی پیاس نور محمد کے حلقوم میں کانٹے بھر رہی تھی۔تب نور محمدنے اس کی طرف سے نظریں پھیر کر گلدار پر نظر جمادیں۔ثانی نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔اس کی رائفل کی نال فضا میں بلند ہوئی اور اس نے فائر داغ دیا۔

’’ایک ناقابل یقین بے وقوفی‘‘۔ثانی نے لرز کر سوچا۔

تب آدم خور ماں نے تڑپ کر رخ موڑا اور اپنی شعلہ بار نظریں نور محمد پر گاڑ دیں۔نور محمد بھی اس کی آنکھوں میں اپنی نظروں کی انی چبھوئے ہوئے تھا۔دونوں کسی ازلی دشمنی کے رشتے میں بندھے ایک دوسرے کو تول رہے تھے۔گنتی کے چند لمحوں کی بات تھی۔صرف چند لمحے ، ناہونے جیسی مہلت ۔جو ہونا تھا اسی دوران ہونا تھا۔جو آندھیاں چلنا تھیں وقت کے اسی ننھے صحرا کے اندر چلنا تھیں ۔جیت اس کی تھی جو وقت کے اس نامحسوس پھیلائو کو اپنے حق میں استعمال کرجاتا۔ ثانی دیکھ رہا تھا کہ نور محمد پر پاگل پن حاوی ہوچکا تھا۔اس لمحے وہ زمانہ قدیم کا ایک شکاری تھااور اپنی طرف بڑھتی موت پر نیزہ تانے کھڑا تھا۔

ثانی نے تھمی سانسوں دیکھا کہ وہ صاف خود کشی پر اتر آیا تھا کہ اس نے اپنے دشمن پر نظر یںجمائے ہوئے بائیاں کندھا نیچے جھکایا اور اپنے قریب پڑا ہوا ہاتھ بھر کا پتھر اٹھا کر آدم خور کی طرف اچھال دیا۔وہ اپنے دشمن کو موت کے گھاٹ اتارنے کی بجائے اس کی درندگی کے غرور کا

ٹھٹھا اڑانے ا ور اس کی وحشیانہ قوت کی تحقیر کرنے پر تلا ہوا تھا۔فطرت کی مہیب قوت کے ساتھ ایک جان لیوا کھلواڑ!۔ مہلت کا ایک بڑا حصہ اس نے پتھر اٹھانے اور اسے اچھالنے کے عمل میں ضائع کردیا تھا۔اس کے حریف کو صرف دو لمحے درکار تھے کہ وہ بجلی کی طرح کوندتی اور نور محمد کو خون آلود لوتھڑے میں بدل دیتی لیکن یا وحشت !کہ وہ بھی کچھ اسی قسم کے پاگل پن سے دوچار تھی۔وہ ان دو لمحوں کی غفلت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی جگہ پر مجسمہ سی کھڑی اسے گھور رہی تھی۔

یک لخت ثانی کا جذباتی بحران دم توڑ گیا کہ اب وہاں زخم خوردہ ماں نہیں ایک آدم خور بلا تھی جسے بہر طور ان کے ہاتھوں ہلاک ہونا تھا۔اس کی طرف ان کا بہت لمبا چوڑا حساب نکلتا تھا۔چھ قیمتی انسانی جانیں۔سب کے سب وہ جو زندگی کی چمکتی دھوپ میں کھڑے تھے۔ ابھی عمر کا ایک لمبا سفر ان کے سامنے پڑا تھا۔ابھی بہت سے ثواب، بہت سے عذاب تھے جوان کی کتاب میں رقم تھے۔وہ چھ نوجوان نہ تھے۔چھ نسلوں کو جنم دینے کے ذمہ دار تھے۔وہ تمام نسلیں جو اپنے خواب ، اپنے سراب، اپنے دکھ اور اپنے سکھ لیے جنم لینے سے پہلے فنا کے گھاٹ اترگئی تھیں۔وہ ان چھ افراد اور ان کی ناموجود نسلوں کے نمائندے تھے اوریہ طے تھا کہ وہ ان کا حساب لینے کیلئے یہاں موجود تھے اور بس!۔

ثانی کی رائفل خود بخود اس کی جانب اٹھ گئی۔اس کی نال سے جمی بائیں آنکھ نے دیکھا کہ آدم خور بھی اپنا حساب صاف کرنے کو تیار تھی۔اس کے بدن کی گہرائیوں سے نکلتی دبی دبی غراہٹ کی گھمبیرتا پتا دے رہی تھی کہ وہ طیش اور انتقام کی سلگن میں سلگ رہی تھی۔تب اس لمحے کے بچ رہنے والے حصے میں اس نے اگلے پائوں پھیلا کر زمین میں گاڑے اوراپنے جسم کو پیچھے کھینچ کر نور محمد پر چھلانگ لگادی۔اچانک خاموشی کا طلسم ایک دھماکے سے پاش پاش ہوگیا۔ثانی کی رائفل سے نکلنے والا شعلہ آدم خور کے پیٹ میں اتر گیا۔اسے ایک جھٹکا لگا اور اس کی چھلانگ گڑبڑا گئی۔وہ ہوا میں قلابازی کھاتے ہوئے دھپ سے زمین پر آرہی۔اس کے پیٹ سے خون کی دھار نکلی اور زمین میں جذب ہونے لگی۔اسی پوزیشن میں لیٹے لیٹے گلدار نے پہلو بدلا اور ثانی کی آنکھوں میں اپنی زہر میں بجھی آنکھیں گاڑ دیں۔پھر اس کی آنکھیں گھومیں اور اس نے نور محمد کی پوزیشن کا جائزہ لیا۔ثانی نے دوبارہ اپنی نال سیدھی کی اور اس بار اس کے دل کا مقام تلاش کرکے اسے اپنی زد پر لے لیا۔وہ ٹرائیگر دبانے کو تھا کہ ناقابل یقین سرعت سے اس نے جست بھری اورنور محمد پر جاپڑی۔نور محمد پہلے سے تیار تھا وہ بھی اسی سرعت سے جھکائی دے گیا لیکن وہ وحشت ناک گلدار کی برق رفتاری کا مقابلہ نہ کرسکا جس نے اس کے پیچھے گرتے گرتے اس کے ایک گال اور کندھے کو ادھیڑ کر رکھ کر دیا تھا۔نور محمدکے حلق سے ایک وحشیانہ ڈکار نکلی اور وہ دھچکا لگنے سے زمین بوس ہوگیا ۔اسی آن آدم خور جھاڑیوں میں گھس کر غائب ہوچکی تھی۔

ثانی تیزی سے نور محمد کی طرف لپکا۔اس نے دیکھا کہ اس کا چہرے پر گہرا گھائو آیا تھا اوربائیاں کان چہرے کے ساتھ لٹک گیا تھا۔اس کی بائیں آنکھ بال بال بچی تھی لیکن زخموں سے بری طرح سے خون رس رہا تھا جسے فوری روکا جانا ضروری تھا۔اور پھر اس کے کندھے کا زخم تھا جس نے اس کے سارے کپڑوں کو سرخ رنگ میں رنگ دیا تھا۔نور محمد کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت تھی۔یہ ایک دور افتادہ میدان جنگ تھا جہاں فرسٹ ایڈ ملنے کی کوئی صورت نہ تھی لہٰذا اس نے جلدی سے اپنی قمیض اتارکر اس کی دھجیاں پھاڑیں اور کس کر نور محمد کے چہرے ا ور کندھے کے گرد باندھ دیں ۔خون کا بہائو تو بند ہوگیالیکن رسائو ابھی تک جاری تھا۔تھوڑی ہی دیر میں سفید قمیض کی دھجیاں بھی لہو رنگ ہوگئیں۔ اس سے

زیادہ کچھ کرنا اس وقت ممکن نہ تھا۔نور محمد زمین پر بیٹھا اپنی تکلیف پر قابو پانے اور اپنی سرت بحال کرنے کی کوشش میں تھا۔جب وہ خود کو بحال کرنے میں تھوڑا کامیاب ہوا تولڑکھڑاتے ہوئے قدموں اٹھ کھڑا ہوا۔

لہو رنگ پٹیوں میں چھپے اس کے چہرے نے اسے دہشت کی تصویر بنا دیا تھا۔

’’کہاں گئی مال زادی ؟‘‘۔نور محمد تمتمائے ہوئے لہجے میں بولا اور اپنی ایڑھیوں پر گھوم کر چاروں جانب متلاشی نظریں دوڑائیں۔

’’میدان چھوڑ گئی ہے۔۔۔ لیکن بدلہ لینے واپس ضرور آئے گی ‘‘۔ثانی نے جواب دیا۔

چھوٹی پہاڑی کی جانب سے اچانک فائر کی آواز گونجی جس کی بازگشت دور دور تک پھیل گئی۔اس کا مطلب یہ کہ یہاں سے نکل کر وہ چھوٹی پہاڑی کی طرف گئی تھی۔جہاں ڈپٹی نے اس پر فائر کردیا تھا۔ثانی تیزی سے لپک کر چھوٹی پہاڑی کے مقابل ہوا تو دیکھا کہ ڈپٹی زور زور سے بازو لہرا رہا تھا اور چلا کر کچھ کہنے کی کوشش کررہا تھا۔اتنے فاصلے پر اس کے الفاظ ہو ا میں تحلیل ہورہے تھے۔پھر اس نے اشارے سے بتانے کی کوشش کی کہ آدم خور اس جانب آئی تھی لیکن بچ کر شمال کی جانب نکل گئی ہے۔ثانی نے جوابی اشاروں میں اسے وہیں جمے رہنے اور اپنا خیال رکھنے کا کہا۔

ثانی کو یقین تھا کہ وہ زیادہ دور نہیں گئی ہوگی اور کچھ ہی دیر میں وہ گھوم کر واپس اپنی غار کی طرف ضرور آئے گی۔ثانی اس کی فطرت کو پہچاننے لگا تھا۔وہ کسی حال میں بھی اپنے بچے کی لاش ان دونوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ثانی نے کچھ سوچا اور پھر نور محمد کو لیے اس کے غار کی جانب آیا۔انہیں غار کے قریب جانے کیلئے چھوٹے گلدار کے مردہ جسم کو پھلانگنا پڑا۔آدم خور نے اپنی جبلت کے مطابق غار کو چھپانے کیلئے وہاں خشک جھاڑیاں اس طور پھیلا رکھی تھیں کہ انہیں ہٹا ئے بغیر آگے بڑھنا مشکل تھا۔انہوں نے تھوڑی مشقت کرکے جھاڑیوں میں راستہ بنایا اور غار کے دہانے میں جھانکا۔وہ ایک چھوٹے دہانے کی کم گہری اور ناہموار غار تھی جس میں وہ جسم کو دہرا کرکے ہی داخل ہوسکتے تھے۔غار کے اندر گہری تاریکی تھی۔ثانی نے اپنے سگریٹ لائٹر کی ٹارچ کو جلا کر دیکھا کہ غار آگے چل کر قدرے کشادہ اور آرام دہ ہوگئی تھی۔پھر اس نے روشنی کے ننھے سے دائرے کا رخ فرش کی طرف موڑا تو دیکھا کہ وہاں کچھ ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔غور سے دیکھا تو یہ انسانی ہڈیاں تھیں۔شاید تین سے چار انسانوں کی ہڈیاںتھیں۔یہ ان چھ انسانوں کے علاوہ تھے جنہیں آدم خور نے نہایت اطمینان سے غار کے اندر لاکر کھایا تھااور جن کی ہلاکت کہیں رپورٹ ہوئی نہ کسی بریکنگ نیوز کا رزق بنی۔ثانی نے اپنے بالائی دھڑ کو اندر داخل کرکے دیکھا کہ وہاں خشک خون کے دھبے بکھرے ہوئے تھے ۔ان ہڈیوں کے ڈھیر میں ایسی ہڈیاں بھی تھیں جن کے ساتھ کیڑے مکوڑے چمٹے ہوئے تھے۔یقینایہ اس کے تازہ شکار تھے۔ثانی کو ابکائی سی آئی اور اس نے اپنا دھڑ واپس کھینچ لیا۔نور محمد نے بھی اس کی متابعت میں غار میں جھانکا اور ایک جھرجھراہٹ کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔

’’آئیں صاب! ہم اس کے پیچھے چلتے ہیں‘‘۔نور محمد نے اپنے چہرے پر بندھے خون سے لتھڑے ہوئے کپڑے کو دباتے ہوئے کہا۔

’’کوئی فائدہ نہیں۔وہ آتی ہی ہوگی۔ہمیں یہیں گھات لگا کر بیٹھنا ہوگا‘‘۔ ثانی نے جواب دیا۔

ثانی کیلئے انتظار کا ایک ایک لمحہ عذابناک تھا۔اسے نور محمد کے زخموں کی فکر تھی جنہیں فوری سرجری کی ضرورت تھی۔وہ جلد از جلد اس قصے کو تمام کرنا چاہتا تھا کہ کہیں اس کے زخم ٹھنڈے پڑ کر اکڑ گئے تو اس سے تکلیف برداشت کرنا ناممکن ہوجائے گا۔وہ ابھی سے نور محمد کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات کو کھیلتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔

اور پھر وہ واپس آگئی۔

ثانی اورنور محمد اپنی اپنی جگہ پر جمے ہوئے تھے۔انہوں نے خود کو اس طرح چھپالیا تھا کہ پہلی نظر میںآدم خور انہیں دیکھ نہ پائے۔نور محمد

کے زخم ٹھنڈے پڑنے لگے تھے جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر کھنچائو اور تکلیف کا احساس بڑھتا جارہا تھا ۔ثانی کو جتنی دعائیں یاد تھیں وہ اس نے دل ہی دل میں پڑھ کر نور محمد پر پھونک دیں کہ فی الوقت تو یہی اس کے بس میں تھا۔اسے اضطراب لاحق ہورہا تھا کہ وہ جلدی واپس آئے اور یہ تماشا جلدی ختم ہو۔وہ پریشان تھا کہ زیادہ دیر ہوگئی تو کہیں نور محمد کے زخم بگڑ نہ جائیں۔اور پھر ثانی نے ایک پتھر کی اوٹ سے اس کی کھڑی دم نمودار ہوتے دیکھی۔وہ آہستہ آہستہ انہی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ثانی نے دور سے نور محمد کو اشارہ کیا ۔اس نے بھی دم کو لہراتے ہوئے اپنی جانب آتے دیکھا تو اس کے ہاتھ اپنی شارٹ گن پر جم گئے۔اور پھر وہ ہلکی سی جست لگا کر ان کی نظروں کے سامنے نمودار ہوگئی۔ثانی نے دیکھا کہ نور محمد نے لاشعوری طور پر اپنی آستینیں چڑھالیں جیسے وہ حریف سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے تیار ہو۔آدم خور کچھ دیر ٹھٹک کر کھڑی دائیں بائیں دیکھتی رہی اور پھر ہلکی سی لنگڑاہٹ کے ساتھ چھوٹے گلدار کے مردہ جسم کے قریب آگئی۔اس نے اپنے اگلے پنجوں کی مدد سے اسے اٹھانے کی کوشش کی۔شاید وہ چاہ رہی تھی کہ اسے اپنے ساتھ لے کر کسی اور دنیا کا، کسی بہتر دنیا کا رخ کرلے۔وہ بے حرکت رہا تو اس نے بے تابی کے ساتھ اسے جھنجھوڑنا شروع کردیا۔

وہ حالت انکار میں تھی اور اس کا ہٹیلا من بضد تھا کہ اس کا بچہ مرا نہیں زندہ ہے۔

ثانی اور آدم خور کے درمیان پندرہ سے بیس گز کا فاصلہ تھا جبکہ نور محمد اور آدم خور کے درمیان بھی کچھ اتنا ہی فاصلہ ہوگا۔وہ ان دونوں یکسر لاپرواہ تھی۔لگتا تھا کہ وہ ان کی موجودگی سے آگاہ نہیں ہے یا پھر انہیں باور کرانا چاہتی تھی کہ وہ اس کیلئے کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔یہ بات سراسر گلدار کی جبلت کے خلاف تھی۔ثانی کی معلومات کے مطابق گلدار سے زیادہ چالاک اور محتاط جانور روئے زمین پر کوئی اور نہیں ہوتا۔اگر اس کے مقابل انسان ہو تو وہ زیادہ محتاط اور زیادہ چالاک ہوجاتا ہے کیونکہ وہ دل سے انسان کی برتری کو تسلیم کرتا ہے اور اس سے خوفزدہ رہتا ہے۔لیکن اس آدم خور نے اسے کئی باتوں میں غلط ثابت کر دیا تھا۔ثانی نے اس سوال کو کسی اگلی فرصت پر ٹال دیا کہ کیا کوئی جانور اپنی فطری پروگرامنگ سے انحراف بھی کرسکتا ہے۔فی الوقت گلدار کے عجیب روئیے کی سادہ سی وجہ یہی سمجھ میں آرہی تھی کہ انسانوں کے ساتھ بہت زیادہ انٹر ایکشن نے اس کے دل سے انسان کا روایتی خوف کم کر دیا ہے ۔ایک اور وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ اس کی ساری توجہ اپنے بچے کی موت سے انکار پر صرف ہورہی تھی اور شاید وہ اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں کچھ سوچنا ہی نہ چاہتی تھی۔خود اپنی زندگی کو لاحق خطرے کے بارے میں بھی نہیں۔

ثا نی نے گلدار کے نفسیاتی بکھیڑوں کو ایک طرف رکھا اورایک سہل کے ساتھ رائفل کی نال سیدھی کی اور اس کا نشانہ باندھ لیا۔اس بار آدم خور کا زندہ بچ نکلنا معجزہ ہی ہوسکتا تھا۔اس سے پہلے کہ ٹرائیگر پر جمی اس کی انگلی آخری فیصلہ سناتی اچانک نور محمد کے تیز اور غصیلے اشاروں نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ثانی نے دیکھا کہ وہ اشاروں میں اسے نشانہ باندھنے سے منع کررہا تھا لیکن کیوں؟۔۔۔ابھی وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ نور محمد نے اپنی رائفل کو ایک درخت کے ساتھ ٹکا دیا ہے۔

’’ایک اور حماقت، صاف خود کشی کا ارتکاب!‘‘۔ثانی دانت پیستے ہوئے بڑبڑایا۔

تب اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں جب اس نے دیکھا کہ نور محمد آدم خور پر نگاہ جمائے ہوئے سلو موشن میں جھکا اور ایک ٹانگ

سے شلوار کا پائینچہ اوپر اٹھا دیا۔اس کی پنڈلی برہنہ ہوئی تو ثانی کواس کے ساتھ بندھا خنجر دکھائی دیا ۔ثانی کیلئے اس خنجر کی موجودگی ایک انکشاف تھا۔نور محمد نے انہیں اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی۔تب نور محمد نے بہت اطمینان سے خنجر کھینچ کر ہاتھ میں تولا اور پھر دوبارہ کہنیوں تک آستینیں کھینچ کر درخت کی اوٹ سے باہر آگیا۔

’’خدایا! کیا کرنا چاہتا ہے یہ شخص؟‘‘۔ثانی نے دھل کر سوچا۔

نور محمد خودکشی کی راہ پر چل نکلا تھا اور وہ اسے روک نہیں سکتا تھا۔

وہ اسے سختی سے ڈانٹنا چاہتا تھا لیکن بے بس تھا کہ سوائے اشاروں کی زبان استعمال کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔ادھر نور محمد اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔وہ جان بوجھ کر اسے نظر انداز کررہا تھا۔ثانی نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی اور وہ خنجرتانے دبے قدموں آدم خور کی طرف بڑھ رہا تھا۔

آدم خور کی طرف قدم بہ قدم بڑھتے ہوئے نور محمد کی چال میں زمانہ ماقبل تاریخ کے شکاری انسان جیسی سفاکی، احتیاط اور استحکام تھا۔وہ ایک ایک قدم ناپ تول کر بڑھا رہا تھا اور پھر وہ اس سے چند گز کے فاصلے پر رک گیا۔ثانی نے دیکھا کہ آدم خور بھی اس پر نظریں جمائے کھڑی تھی اور اس پر جست لگانے کیلئے پوری طرح تیار تھی ۔ثانی نے اندازہ لگایا کہ وہ اپنے متوقع شکار کے مزید قریب آنے کا انتظار کررہی تھی۔وہ بیس فٹ طویل جست لگاسکتی جبکہ ابھی ان کا درمیانی فاصلہ اس سے زیادہ تھا۔وہ ایک ناقابل یقین منظر تھا۔دونوںاپنی اپنی جبلتوں کے اسیر اپنی اپنی وحشتوں کو طاقت بنائے ایک دوسرے کے مقابل تھے جیسے وہ وقت کی الٹی جست پر سوار قدیم روم کے ایرینا میں پہنچ گئے ہوں۔ثانی سانس لینا بھول گیا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ ایسے میں کیا کرے۔کاش اسے یہاں آنے سے پہلے نور محمد کی حماقت اور اندھے انتقام کا اندازہ ہوجاتا۔

ثانی دیکھ رہا تھا کہ آدم خور نے جست بھرنے کا ارادہ موقوف کیا اور نامحسوس انداز میں آگے بڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ فاصلہ کم کرنا شروع کردیا تھا۔اور پھر وہ ایک مخصوص فاصلے پر آکر رک گئی۔اب ثانی کے پاس لمحہ بھر کی مہلت رہ گئی تھی۔اس کے بعد ایک ناقابل تصور منظر اس کے دیکھنے کو رہ جاتا۔اس نے نظر جما کر نشانہ باندھا اور پھر وہ لمحہ آگیا جو متوقع تھا اور فیصلہ کن تھا۔اچانک نور محمد کے منہ سے ایک چنگاڑ نکلی اور اس نے خنجر کو تولتے ہوئے آدم خور کی طرف دوڑ لگادی۔اسی آن آدم خور کی غضبناک دھاڑ گونجی اور سارے ویرانے کو لرزا گئی۔

نور محمد نے زمانہ ماقبل تاریخ کی دلاوری سے آدم خور کے اندازوں کو گڑبڑا دیا تھا۔اس نے اپنی حکمت عملی کو بدلتے ہوئے دفاعی انداز اپنایا اور نور محمد کو آگے بڑھنے دیا۔ اور پھر اچانک نور محمد ایک چنگھاڑ کے ساتھ اچھلا اور اپنے دشمن پر جاپڑا۔ثانی نے پھٹی آنکھوں دیکھا کہ ناقبل یقین پھرتی کے ساتھ آدم خور نے اپنے جسم کو چرایا اور اس کا خنجر ہوا کو کاٹتا ہوا زمین میں پیوست ہوگیا۔اب نور محمد آدم خور پر ڈھیر تھا اور دونوں کسی رومن ایرینا کے غلام اور شیر کی طرح زور آزمائی کررہے تھے۔آدم خو ر نے اسے پنجہ مارنا چاہا لیکن نور محمد نے جسم و جاں کا پورا زور صرف کرتے ہوئے اس کی دونوں اگلی ٹانگوں کو جھٹکے کے ساتھ زمین پر لگا دیا۔اس نے خنجر کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا لیکن خنجر دور پڑا تھا وہ اپنی جھونک میں اس تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔

غلام اپنی زندگی کی آخری بازی کھیل رہا تھا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس بازی میں اس کی مات لکھی جاچکی ہے وہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔لیکن کہاں غلام کہاں شیر۔آدم خور کی حیوانی وحشت نے اگلے ہی لمحے نور محمد کی انسانی وحشت کو صاف پچھاڑ دیا۔اس نے تھوڑی زور آزمائی کے بعد اپنے جسم کو ایک جھٹکا دیا اور نور محمد کو دور پھینک دیا۔ساتھ ہی وہ تیزی سے گھومی اور پیچھے ہٹتے ہوئے نور محمد سے ایک موزوں فاصلے پر پہنچ گئی۔جب تک وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا وہ ایک فیصلہ کن جست کیلئے تیار ہوچکی تھی۔دوسری جانب نور محمد بھی زمین سے خنجر اٹھا کر اگلے وار کیلئے تیار تھا۔یہ وہی لمحہ تھا جب آدم خور نے اپنی اگلی ٹانگیں پھیلاکر جسم کو سکیڑا اور ہوا کے دوش پر سوار ہوگئی۔

پھرجو ہوا بیک وقت ہوا۔ثانی کی رائفل نے گرجتے ہوئے شعلہ اگلا، نور محمد کا خنجر بردار ہاتھ ہوا میں بلند ہوا اور آدم خور کی نپی تلی جست نور محمد پر تمام ہوئی۔اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا جب اس نے دیکھا کہ نور محمد نے ناقابل یقین سرعت کے ساتھ جھکائی دی اور اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا۔خیریت گذری کہ آدم خور کا وار خالی گیا تھاورنہ اس بار نور محمد بچ نہ پاتا۔ثانی کی رائفل سے نکلنے والی گولی کے دھچکے نے اس کی جست کو گڑبڑا دیا تھا۔جست کے نکتہ اختتام پر آدم خور زمین سے اٹھنے کو تھی کہ ایک اور جست کیلئے تیزی سے اپنا فاصلہ بڑھالے لیکن عین اسی لمحے وحشیانہ آواز نکالتے ہوئے نور محمد اس پر جا پڑا۔وہ دونوں زمین پر لیٹے ہوئے دوبارہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔نور محمد اس کے سینے پر چڑھا بیٹھا تھا۔اس نے تیزی سے اپنا ایک ہاتھ اس کے ایک پنجے پر اور ایک پائوں دوسرے پنجے پر جما کر انہیں زمین سے لگادیا تھا۔اب غلام کی باری تھی کہ خنجر اس کے ہاتھ میں تھا اور شیر وقتی طور پر بے بس تھا۔اگلے لمحے سورج اس کے جنجر کی دھار پر چمکا ۔اچانک اس نے اٹھے ہوئے ہاتھ کو فضا میں تھام لیا۔فیصلہ کن وار کرنے سے پہلے وہ پھیپھڑوں کی پوری قوت سے چلایا۔’’بول مال زادی بول! تم نے میری گلابے کو کیوں مارا؟۔۔۔بول! کیوں مارا؟؟۔۔۔بول۔۔۔بول۔۔۔‘‘

ثانی کو اندازہ تھا کہ دیوانگی کی طاقت کے باوجود وہ زیادہ دیر آدم خور کو قابو نہیں کرپائے گا۔ان دونوں کے درمیان طاقت کا شدید عدم توازن تھا۔اس نے خود کو کبھی اتنا بے بس محسوس نہ کیا تھا ۔اس بار بھی اگر نور محمد کا وار خالی جاتا تو وہ اسے آدم خور کے جوابی وار سے نہیں بچا سکتا تھا۔اس صورت میں کہ جب دونوں گتھم گتھا تھے وہ فائر کھولنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔اور پھر اس نے دیکھا کہ نور محمد کا ہوا میں اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے آیا اور اس نے اس کے دل کے قریب خنجر اتار دیا۔تکلیف کی شدت سے آدم خور زور سے دھاڑی۔اس کی دھاڑ میں اس قدر قوت تھی کہ نور محمد ایک جھٹکے سے پیچھے جا پڑالیکن اس بار اس نے خنجر پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ وہ خنجر بلند کیے پھر سے جھپٹا اور اس نے اسی جگہ ایک اور وار کردیا۔ثانی نے دیکھا کہ اچانک خون ایک تیز فوارے کی طرح چھوٹا اور سیدھا نور محمد کے چہرے پر پڑا۔وہ کچھ دیر کیلئے اندھا ہوگیا۔آدم خور نے اسی آن اسے جھٹکے سے نیچے اتار پھینکا۔لمحے کا شاید سواں حصہ ہوگا جب ان دونوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہوا ۔ثانی کیلئے یہ مہلت کافی تھی۔اس کی رائفل نے شعلہ اگلا۔ایک بار ، دو بار، تین بار۔اس نے جسم کے کسی مخصوص حصے کو نشانہ بنائے بغیرکہ نشانہ باندھنے کی مہلت موجود نہیں تھی، آگ کے تین گولے آدم خور کے جسم میں پیوست کردئیے۔آدم خور کا جسم تین بار اچھلا اور پھر بے حرکت ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی ثانی زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔اسے لگا جیسے وہ بے جا ن ہوگیا ہو یا شاید اس کے اعصاب کے درمیان رابطہ منقطع ہوگیا ہو۔

وہ بے حس نظروں سے اس خونی منظر کو تکے جارہا تھا۔اس کے سامنے مشک پوری کی آدم خور ملکہ آسمان کی طرف ٹانگیں اٹھائے لیٹی تھی

اور اس کے پہلو میں ایک آدم زاد اوندھے منہ پڑا تھا۔ کہیں دور، بہت دور سے اس کے کانوں میں بھاگتے قدموں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔جانے کون ان کی طرف بھاگتا آرہا تھا۔ان دونوں کے سوا وہاں کوئی اور تھا بھی یا نہیں۔اسے مطلق خبر نہیں تھی۔خبر تھی تو یہ کہ وہ اور نور محمد زندہ تھے اور جانے کتنی معصوم جانوں کی قاتل مشک پوری کی آدم خور ملکہ ایک بے جان لاش کی صورت ان کے قریب پڑی تھی۔

جانے کتنے یگوں بعد اس ساکن تصویر میں جان پڑنا شروع اورثانی نے اپنی ہمتیں سمیٹ کر اپنے جسم کو قدموں پر اٹھایا۔وہ بے جان ٹانگیں کھینچتا نور محمد کی طرف بڑھا جو طوفان کی زد میں آئے درخت کی طرح زمین پر اوندھے منہ پڑا تھا۔اس نے نور محمد کو جھنجھوڑا تو اس کے بدن میں جنبش پیدا ہوئی۔ ثانی نے اسے دوبارہ جھنجھوڑا تو اس نے اپنی خون بھری آنکھیں کھولنے کی کوشش کی اور پھر ہوش میں آکر اس نے پوری قوت مجتمع کرتے ہوئے اپنے جسم کو رول کیا اور کسی طور خود چت کیا۔ثانی نے دیکھا کہ اس کا چہرہ آدم خور کے خون سے رنگین تھا۔اس نے اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن پھر ڈھیر ہوگیا۔وہ وجود جو کچھ دیر پہلے قوت اور جوش سے بھرا ہوا تھا اب بے جان سا پڑا تھا۔اس نے اپنے قریب ثانی کو محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھیں پونچھیں اور ایک احساس لاتعلقی کے ساتھ ثانی کی طرف دیکھا۔

نور محمدکے چہرے اور کندھے کے زخم دوبارہ کھل چکے تھے جن میں سے لہو رس کر گھاس میں جذب ہورہا تھا۔اس کے خون میں لتھڑے چہرے اور اس پر بندھی خون میں غلطاں پٹیوں نے اس کے چہرے کو بھیانک بنادیا تھا۔ثانی آگے بڑھا اور اس پر جھک کر ہتھیلیوں سے اس کے چہرے سے لہو پونچھنے لگا۔نور محمد لاتعلقی سے اسے تکتا رہا۔وہ دونوں خاموش اور ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش میںتھے۔اس اثنا میں تیسرا بھی ان تک پہنچ چکا تھا۔یہ ڈپٹی تھا۔اس نے ان دو بے حرکت مجسموں کو زندہ دیکھا تو ہانپتا ہوا ان سے لپٹ گیا۔وہ سامنے والی پہاڑی سے دلاوری کے اس ناقابل بیان منظر کو دیکھتا رہا تھا ۔منظر میں تیسرے کردار کی موجودگی ان دونوں کو حواس کی دنیا میں واپس لے آئی۔اب جو پہچان ان کے درمیان اتری تونور محمد ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔اس نے جھپٹ کر ثانی کو اپنی طرف کھینچا اور ایک دھاڑ کے ساتھ اس کے کپکپاتے ہوئے وجود کے ساتھ لپٹ گیا۔

ثانی نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا اور دونوں ایک دوسرے سے لپٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

٭٭٭٭

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024