مرچی کا پودا

مرچی کا پودا

Mar 12, 2018

دیدبان شمارہ ۔۷

مرچی کا پودا

آ بینا ز جیلانی

ماریشس

اتوار کا ایک خوشگوار دن تھا۔ نیلے آسمان میں خورشید اپنی پوری تمازت سے چمک رہا تھا۔ چار سال کی انیسا نے اپنے پڑوسی ندیم کے آنگن سے مرچی ی کے پودے سے چار چھوٹی ہری مرچ توڑی تھیں۔ ان مرچوں کو لے کر وہ گھر آئی اور امّی جان کے باورچی خانے کی وسطی میز پر ان کو رکھا۔انیسا کے ابو اس دن خوشگوار موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر اتوار کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ شکار پر اعلی الصباح چلے گئے تھے۔ جون کا مہینہ تھا۔ شکارکا موسم شروع ہوگیا تھا۔ انیسا کے والد انور صاحب کے دفتر میںچند گورے جو فرانسسی نسل کے تھے ان کے رفقاءکار تھے۔ ۱۲۷۱ئ کے آس پاس ان کے اباﺅاجداد موریشس کو اپنا جائے قیام بنانے اور یہاں حکمرانی کرنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ فرانسسیوں نے اس جزیرے کو اپنایا اور اس کا نام ایل دے فرانس رکھا یعنی فرانس کا جزیرہ۔ فرانسسی کئی سالوں تک اس جزیرے میں رہے اور افریقی ممالک سے یہاں ایل دے فرانس کو آباد کرنے کے لئے غلام لائے۔ وہ اسی جزیرے سے ہندوستان کی طرف تجارت کی غرض سے جاتے ہوئے انگریزی بحری کشتیوںپر حملہ کیا کرتے۔ ۰۱۸۱ئ میں بحرِ ہند میں انگریزوں اور فرانسسیوں کے درمیان موریشس کے جنوبی علاقے گراں پور میں جنگ ہوئی اور آخرکاریہ جزیرہ انگریزوں کا ہو گیا جنہوں نے پھر اس جزیرے کا نام موریشس رکھاجیسا کہ ڈچ حکمرانوں نے اپنے قائد موریش وان ناسو کے نام پر رکھا تھا۔ جب موریشس میں انگریزوں کی حکمرانی ہوئی جو فرانسسی یہاں پہلے آباد تھے انہوں نے یہیں رہنے کا تہیہ کیا۔ نیز انگریزوںسے یہ بھی معائدہ ہواکہ فرانسسی زبان اور فرانسسی ثقافت کو اس جزیرے پر آباد رکھا جائے گا۔ چنانچہ آج بھی موریشس میں فرانسسی زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ دکانوں میں، دفتروں میں اور میڈیا میں فرانسسی زبان کا استعمال عام ہے۔ جدید موریشس میں فرانسسی نسل، ہندوستانی، چینی اور افریقی نسل کے لوگ شانہ بہ شانہ کام کرتے ہیں۔تاہم فرانسسی انسداد کے پاس زیادہ زمینیں ہیں۔ انیسا کے والد انور صاحب کے گورے دوستوںنے جب ان کے ساتھ ان کی زمین پر شکار کرنے کی دعوت دی توانور صاحب نے خوشی خوشی دعوت قبول کی۔ لمبے قد اور سانولے رنگ کے انور صاحب نے چنانچہ اتوار کی صبح اپنی بندوق نکالی اور گاڑی نکالی اور فلاک سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور فیڑنے کا راستہ لیا۔ انیسا کی والدہ گھر پر تھی۔ اس صبح کو انہیں بہت کام تھا۔ پورے ہفتے انہیںنوکری پر جانا ہوتا۔ انہوں نے مشین میں گندے کپڑے دھونے کے لئے ڈالے۔ پھر گھر کی صفائی کی اور کھانا تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔انیسا باغ میں اکیلے کھیل رہی تھی۔ وہ اپنی گڑیوں کے بال نوچتی۔ ان کے چہروں پر اپنی پنسلوں سے لکیریںبناتی اور پھر ان کے

کپڑے اتار کر ایک چھوٹی بالٹی میں باغ کے نل سے پانی بھرتی اور پھر پانی میں ماں کی سنگھار میزسے لی ہوئی خوشبو کا دھکن کھول کر پانی میں خوشبو لگاتی۔ اس کے بعد اپنی عریاں گڑیا کو اس پانی میں نہاتی۔گڑیا سے کھیلتے کھیلتے انیسا تھک گئی۔ اچانک اسے ندیم کے باغ کا جھولا یاد آیا۔ اس کا پڑوسی ندیم ایک بڑھئی تھا۔ ندیم نے فرنیچر بناتے وقت بچی ہوئی لکڑی کو چوکور شکل میں کانٹا۔ پھر پانچ میٹر لمبی رسی کو دوفینے آم کے تناور درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کے گردباندھ دیا تھا۔انیسا اس جھولے کو یاد کرنے لگی۔ اس نے چپکے سے پھاٹک کا دروازہ کھولا۔ دو گھر چھوڑ کر ندیم کا گھر تھا۔ انیسا کو معلوم تھا کہ والد صاحب اگرہوتے تو گھر سے باہر جانے کی اجازت ہرگز نہ ہوتی۔انیسا پہلے بھی ندیم کے یہاں اپنی دس سالہ چچازاد بہن نعیمہ کے ساتھ ایک بار جھولا جھولنے گئی تھی۔ جب اس کے پیڑ ہوا میں اچھلے تھے تو انیسا نے زور زور سے کلکاریاں ماری تھیں۔ نعیمہ اس کو پیچھے سے دھکا مار رہی تھی۔ ندیم اس کو اپنے ورک شاپ میں کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔جاتے وقت ندیم نے کہا تھا: ” دوبارہ جھولا جھولنے ضرور آنا انیسا۔“”ٹھیک ہے۔ میں آﺅں گی۔“ انیسا نے خوش ہو کر جواب دیا تھا۔ یہ دس دن پہلے کی بات تھی۔ پچھلے اتوار کو بھی ابّو شکار پر گئے تھے اور امّی کو کام میں مصروف دیکھ کر انیسا نے چپکے سے پھاٹک کھولا اور ندیم کے یہاں چلی گئی۔سترہ سال کا ندیم اپنے بنائے ہوئے فرنیچر پر گہرا بھورا رنگ لگا رہا تھا۔وہ اپنے والد کے ساتھ اکیلا رہتا تھا۔ اس کی بڑی بہن کی شادی ہو گئی تھی ۔ ندیم کے بچپن میں اس کے والدیں کی طلاق ہو چکی تھی۔ اس کی امّی نے دوسری شادی کی تھی۔ لیکن ننھی انیسا کو ان تمام باتوں سے کیا سروکار؟ وہ تو جھولا جھولنے کی لالچ میں یہاں آئی تھی۔ پچھلی بارکی طرح جیسے ہی انیساآنگن میں داخل ہوئی وہ اچھلتی کودتی ہوئی جھولے کی جانب گئی اور پھر جھولے پر چڑھ گئی۔ اس کو دیکھتے ہی ندیم نے کہا: ” ارے آگئی انیسا؟ تمہیں جھولا جھولنا نہیں آتا۔آﺅ میں جھلاتاہوں۔“ ندیم نے انیسا کو اپنی گود میں بٹھایا۔ ندیم بہت پتلا تھا اور اس کی ٹانگیں چھوٹی انیسا کو اور زیادہ پتلی لگیں اور ندیم نے چست جینس پہنی تھی۔ ندیم انیسا کو جھلانے لگا۔ اس کا ہاتھ انیسا کی کمر پر تھا۔ دھیرے دھیرے وہ ہاتھ انیساکی ٹانگوںکے درمیان آگیا۔ پھر جھولا جھلاتے ہوئے ندیم کی انگلیاں حرکت کرنے لگیں۔ انیسا کو بہت عجیب لگا۔ کسی نے آج تک اسے اس جگہ پراس طرح نہیں چھوا تھا۔ پھر اچانک والد صاحب کا ڈر ننھی انیسا پر حاوی ہو گیا۔ ابّا کو اگر معلوم پڑے گا کہ انیسا ان کی مرضی کے بغیر یہاں آئی ہے تو انیسا کو ضرور ڈانتیں گے۔ انیسا گھبرا کر مشکل سے خود کو ندیم کی گرفت سے آزاد کر کے بھاگتی ہوئی گھر آئی۔ اس نے اس واقع کو اپنے ذہن کے نہاں گوشے میں قید کر لیا۔ صانح حیات نے کس خوبی سے انسانی ذہن کی ایجاد کی ہے۔ دماغ ہمارا محافظ ہے۔ خوفناک احساسات کو یاداشت سے دور رکھنے کے لئے کیا کیا کرشمے کرتا ہے۔

انیسا پچھلے اتوار والا عجیب حادثہ بھول گئی۔ اب اسے جھولا یاد آرہا تھا اور وہ جھولا جھولنا چاہتی تھی۔ لہٰذا وہ ایک بار پھر آنگن میں آئی اور جھولا جھولنے لگی۔ ندیم انیسا کو دوبارہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ندیم کا باپ بازار گیا ہوا تھا۔ ہر اتوار کو فلاک میں تازہ سبزیاں ملتی ہیں۔ آس پاس کے کاشتکار اتوار کو بازار میں اپنی فصل کو کم داموں میں فروخت کرتے ہیں۔ندیم نے انیسا کو جھولا جھولنے دیا۔ وہ اپنے کام میں لگا رہا۔ لکڑی کو مشین سے پالیش کرتے وقت اسے اپنی امی کی یاد آئی جس نے چھ سال کی عمر میں اس کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ خوشی خوشی گھر بسا لیا تھا۔ اس کی امّی اسے اکثر یاد آتی ۔ جب اسکول میں ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے موٹے پیمانے سے سزا ملتی، جب ابّا کا بنایا ہواجلا ہواکھانا ملتایا جب رات کو خوفزدہ خواب اسے ستاتے اور جاگنے پر وہ خود کو بستر پر اکیلا پاتا، تو اس کا دل ماں کی صدا لگاتا۔ ندیم نے ان گڑوی یادوں کو ذہن سے ہٹایا اور انیسا کو خوشی خوشی جھولا جھولتے ہوئے دیکھا۔اچانک اس نے صدا لگائی ”ذرا ادھر آنا انیسا۔“انیسا جھولا جھولنے سے پرکیف تھی اور اس نے خوشی خوشی ندیم کی بات سنی۔اس کے بعد انیسا کو کچھ دھوندلا دھوندلا سا یاد ہے کہ ندیم اسے اپنے گھر کے اندر لے گیا۔ اس نے انیسا کو دیوار سے ٹیک لگایا اور انیسا کی فراک کو اٹھایا اور انیسا کو اپنی عریانیت دکھائی۔ ندیم نے ایک بار پھر انیسا کی ٹانگوں کے بیچ اپنا ہاتھ رکھا اور اپنی عریانیت کو انیسا کے ہونٹوں سے لگایا۔ انیسا ندیم کی پتلی ٹانگوں کو دیکھتی رہی۔ اس کا چار سال کا معصوم ذہن اس نئے تجربہ کوسمجھنے کی کوشش کر رہا ہوگا۔ خطرے کا احساس غالب تھا۔ اتنے میں ندیم کے گھر کے پھاٹک کے کھلنے کی آواز سنائی دی۔ ندیم نے فواً اپنے پتلوں کے ذپر کو بند کیا اور انیسا کے کپڑے درست کرکے اسے فوراً اپنے ورک شاپ میں لے گیا اور اپنے کام میں محو ہوگیا۔”السلام علیکم ابّا۔“ ندیم نے کہا۔”وعلیکم السلام۔ بازار میں کدو کا دام اسی روپے کلو ہے۔ یہ سبزی فروش بھی حد کرتے ہیں۔ ذرا سی بارش کیا ہوئی ، سبزیوں کے دام میں اضافہ ہوگیا۔ “ندیم کام میں لگا رہا۔ ننھی انیساتذبذب میں تھی۔ اس نے ندیم سے کہا: ”چلو ندیم پھر سے کھیلتے ہیں۔“”ابھی نہیں ۔ بعد میں۔“ ندیم نے کہا۔انیسا کو ذرا طیش آیا۔ اس کا چار سال کا ذہن اس غصّے کی وجہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا۔ اس غصّے میں بے عزتی کا احساس تھا اور استحصال کا بھی جذبہ تھا۔ انیسا نے چپکے سے ندیم کے ورک شاپ کے پیچھے والی چھوٹی مرچ کے پودے سے پانچ چھوٹی چھوتی ہری مرچ توڑیںاور بھاگتی ہوئی گھر گئی اور باورچی خانے کی وسطی میزپران مرچوں کو رکھا۔اس وقت انیسا کے والد شکار سے تھکے ہوئے لوٹے۔ وہ اپنے ساتھ ہرن کی ایک رانگ لائے تھے۔ انور صاحب کے دل میں ایک شعلہ

بھرک رہا تھا۔ اس شعلے میں ایک دردوکرب تھا جسے وہ ایک نام نہیں دے پا رہے تھے۔ اپنے رفقاءکارکی زمین کی سیر کرتے ہوئے وہ یقینا تازہ دم ہوئے۔موریشس کے گھنے جنگلوں کی ہریالی اور تازگی نرالی تھی۔ چاروں طرف کوہسار کا دلفریب نظارہ تھا۔ طرح طرح کی چڑیاں چہچہاتی تھیں۔ جنگل کی خاموشی میں انسان اپنے دل کی آواز صاف صاف سنتا ہے۔ صاف ہوا جب پھیپروں کے اندر جاتی ہے تو سیدھا روح کے اس گوشے سے جاتکراتی ہے جہاں وہ دردوترپ تھی۔ یہ کیسا درد تھا؟ یہ کیسی ترپ تھی؟ شاید ڈیڑھ سو سال پہلے جب ان کے اباﺅاجداد یہاں آئے تھے اور گوروں کی غلامی کرتے تھے تو یہی درد و ترپ تھی جو نسل در نسل منتقل ہوتاگیا۔ آزادی کے پچاس سال بعد موریشس آزاد تو تھا لیکن کیا یہاں کے لوگ واقعی آزاد تھے؟ موریشس میں زیادہ تر زمینیں ابھی بھی گوروں کی تھیں۔ ان کے بڑے بڑے کارخانے ہیں اور بنک کے خاتوں میں ابھی بھی ان کے پیسے زیادہ تھے۔ یہ کوئی تعجب کن بات بھی نہیں ہے۔ وہ یہاں فاتح اور حکمراں کی حیثیت سے آئے تھے جبکہ سانولے اور کالی نسل کے لوگ غلامی اور زمین میں محنت و مشقت کرنے آئے تھے۔ ممکن ہے انور صاحب کا درد و ترپ ایک احساسِ کمتری تھا۔ان تمام ذہنی پریشانی کے ساتھ جب وہ اپنے باورچی خانے میں پہنچے ان کی پہلی نظر میز پر رکھی پانچ مرچوں پر پڑیں۔”یہ کہاں سے آئیں زبیدہ؟“ انور صاحب نے اپنی اہلیہ سے دریافت کیا۔”معلوم نہیں۔ انیسا نے رکھا ہوگا۔“ انیسا کی امی نے جواب دیا۔ ابّو نے انیسا کو بلوا کر مرچوں کے بارے میں سوال کیا۔”میں ندیم کے باغ سے توڑ کر لائی ہوں۔“ انیسا نے اپنے ابّو کو بتایا۔اس پر انور صاحب آگ بگولہ ہوئے۔ انیسا کی بدتمیزی انہیں ناگوار گزری۔ ایک تو کسی کو بغیر کچھ بتائے انیسا گھر سے باہر چلی گئی۔ اوپر سے دوسروں کے پودے سے مرچ کو توڑنا اور گھر میں لانا یہ تو چوری ہے۔ ابھی سے ہی یہ حالات ہیں تو بڑی ہو کر یہ لڑکی کیا گل کھلائے گی۔ چنانچہ انور صاحب اپنی چار سال کی بیٹی کو سبق سکھانے ندیم کے گھر لے گئے۔ شام کے پانچ بجے تھے۔ ابھی بھی ندیم اپنے ورک شاپ میں لکریوں کو یکجا کرکے ایک میز بنا رہا تھا جو اسے پرسوں اپنے گاہک کو دینی تھی۔ ندیم کا باپ اپنے سعادت مند بیٹے کو کام کرتے ہوئے دیکھ کرفخر محسوس کر رہے تھے۔ فلاک میں ندیم کی کم عمری کے باوجود اس کا کام کافی مقبول ہو گیا تھا اور فلاک اور اس کے مضافات میں اس کے بنائے ہوئے فرنیچر کی بہت مانگ تھی۔ندیم کے ورک شاپ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انور صاحب نے سلام کیا۔ پھر معذرت پیش کرتے ہوئے بولے:”انیسا نے آپ کے آنگن میں یہ چند مرچ توڑی ہیں۔ میں اسے آپ سے معافی مانگنے کے لئے لایا ہوں۔“اس پرر ندیم کے والد بولے :” کوئی بات نہیں۔ جانے دیجیے۔“”کیسے جانے دوں۔ بچوں میں اچھی عاتیں ڈالنی ضروری ہے۔ معافی مانگو انیسا۔“

اس وقت انیسا کو اتنا غصّہ آیا کہ اس نے اپنی بند مٹھیوں سے ندیم کی پتلی ٹانگوں پر پوری تقویت سے مارنا شروع کیا۔ ندیم شرمندگی کے باعث کچھ نہیں کہہ سکا۔انور صاحب اپنی بیٹی کے برتاﺅ سے متحیر ہوئے اور اس ظاہراً بدتمیزی پر شرمندہ بھی ہوئے۔ پھر وہ غصّہ سے لال انیسا کو وہاں سے واپس اپنے گھر لے آئے۔ انیسا اپنی بلّی کو گود میں اٹھا کر بستر پر چڑھ گئی اور اس کے نرم رخساروں پر دو بوند آنسو ٹپکنے لگے۔ ابّو کو تو سمجھنا چاہئے تھا۔ ننھی انیسا نے زندگی میں پہلی بار دھوکا کھانے کا تجربہ کیا تھا اور وہ بھی اپنے ہی باپ کا دھوکا۔ اس دن کے بعد انیسا کبھی ندیم کے آنگن میں جھولا جھولنے نہیں گئی۔ اس واقع کے قریب ایک مہینے بعد ایک رات انیسا کو بستر میں سلاتے وقت زبیدہ انیسا کے سرہانے بیٹھی تھی۔ اچانک انیسا نے کہا:” ندیم نے میری ٹانگوں کے بیچ اپنا ہاتھ لگایا تھا۔“زبیدہ چونک گئی۔ ” کیا؟ اگر تمہارے والد کو معلوم ہوگا تو وہ کتنے ناراض ہونگے۔“اس پر انیسا سہم گئی۔ ” بتی بند کر دو مجھے نیند آہی ہے۔ زبیدہ نے بتی بند کی اور سکتے کی حالت میں اپنی خوابگاہ میں پلنگ پر لیٹ گئی جہاں اس کا شوہر پہلے سے ہی گہری نیند میں تھا۔ زبیدہ حاملہ تھی۔ بہت جلد اس کا کام دگنا ہونے والا ہے۔ انیسا کی بات سن کر وہ سخت خفا تھی۔ پھر ذراٹھنڈے دماغ سے سوچا کہ جو ہوا اب نہیں ہوگا۔ وہ انیسا کو بالکل باہر جانے نہیں دے گی۔ ضرورت پڑی تو اسے گھر میں بند رکھے گی۔ اس نے اگر اس بات کا تذکرہ اپنے شوہر سے کیا تو کہیں وہ ندیم سے لڑائی کرنے اس کے گھر نہ چلے جائیں۔ پھر معاملہ بد سے بدتر ہو جائے گا۔ اگر پولیس میں کیس درج کرایا تو یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ قانونی کاروائی کرنی ہوگی۔ چھوٹی انیسا کو کن کن شاخسانوں سے گزرنے پڑیں گے۔ پھر بڑی ہوگی۔ اس حادثے کی وجہ سے اس کی شادی میں رکاوٹ آسکتی ہے۔ ” نہیں نہیں! اس حادثے کو یہیں دفن کرنے میں ہی بھلائی ہے۔“ یہ سوچ کر زبیدہ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیڑا جس میں اس کا آٹھ مہینے کا بیٹا پل رہا تھا۔ پھر ایک آہِ سرد لے کر سو گئی۔تین سال بعد انیسا سات سال کی ہو گئی۔ اس کا بھائی اسے اکثر رلاتا ہے۔ وہ انیسا کے کھلونوں سے کھیلتا ہے اور انیسا کی سائیکل وہی چلاتا ہے۔ کبھی کبھی انیسا کو مارتا ہے جس پرانیساپھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ ایک دن انیسا اور اس کا بھائی شعیب خوابگاہ میں مریض اور ڈاکٹر کا کھیل کھیل رہے تھے۔ شعیب مریض تھا اور انیساڈاکٹرنی بنی ہوئی تھی۔”چلو تم کو انجیکشن لگاتی ہوں۔“ انیسا نے کہا۔ ”اپنی پتلون نکالو۔“ شعیب نے اپنی پتلوں نکالی اور انیسا اس کی عریانیت دیکھتی رہی۔اینسا نے ایسا کیوں کیا؟ شاید وہ اپنے بھائی کو اس کی حرکتوں کی سزا دینا چاہتی تھی۔ شاید جس طرح ندیم نے اس کو ذلیل کیا تھا وہ شعیب کو اسی طرح انیسا کو رلانے پر بے عزت کرنا چاہتا تھا۔ یا پھر شاید اب بھی انیسا کا ذہن یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ندیم نے اس کے ساتھ کیا کرنا چاہا تھا۔انیسا اور شعیب اکثر ڈاکٹر اور مریض کا کھیل کھیلتے۔ ایک بار زبیدہ کمرے میں داخل ہوئی۔ انیسا نے واپس شعیب کے کپڑے درست

کئے تاکہ امّی کو ان کے کھیل کی بھنک نہ پڑے۔بڑھتی عمر کے ساتھ انیسا کو احساس ہوا کہ مریض اور ڈاکٹر کا کھیل مناسب کھیل نہیں ہے۔ اب بارہ سال کی انیساکالج جانے لگی ہے۔ اس کے اساتذہ نے غور کیا کہ وہ لڑکوں کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرتی ہے اور وقفے کے دوران بھی لڑکوں کے ساتھ ہی کھیلتی ہے۔ عمر انیسا کا ہم جماعت تھا اور بہت جلد اس کا بائی فرینڈ بن گیا۔ دونوں کو اسکول کے احاطے میں ہاتھ پکڑتے ہوئے اور جماعت میں ایک دوسرے کے آغوش میں اکثر دیکھا گیا۔ مس مونا پندرہ سالوں سے اس کالج میں ملازمت کر رہی ہے۔ اس کا اتنے سالوں کا تجربہ اس کی موٹی عینک کے پیچھے اس کی سرمئی آنکھوں میں عیاں ہے۔ پندرہ سالوں میں لاتعداد طلباءانہیں جہاندیدہ آنکھوں کے سامنے گزرے ہیں۔ انیسا کی شکایتوں کا بغور مطالعہ کرنے سے مس مونا اس نتیجے پر پہنچی کہ انیسا کو کوئی نفسیاتی پریشانی ضرورہے۔ اتنی کم عمر میںبائی فرینڈ بنانا احساسِ کمتری کی نشاندہی کرتی ہے۔ ضروراپنی کسی اندرونی تکلیف سے بھاگ کر باہر سہارا ڈھونڈھ رہی ہے۔ مس مونا نے پرنسپل صاحب سے اپنے خیالات پیش کئے اور یہ تجویز پیش کی کہ انیساکے والدین کو مطلع کیا جائے اور اسکول کی طرف سے انیسا کو کوئی ماہر نفسیات فراہم کیا جائے۔

دیدبان شمارہ ۔۷

مرچی کا پودا

آ بینا ز جیلانی

ماریشس

اتوار کا ایک خوشگوار دن تھا۔ نیلے آسمان میں خورشید اپنی پوری تمازت سے چمک رہا تھا۔ چار سال کی انیسا نے اپنے پڑوسی ندیم کے آنگن سے مرچی ی کے پودے سے چار چھوٹی ہری مرچ توڑی تھیں۔ ان مرچوں کو لے کر وہ گھر آئی اور امّی جان کے باورچی خانے کی وسطی میز پر ان کو رکھا۔انیسا کے ابو اس دن خوشگوار موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر اتوار کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ شکار پر اعلی الصباح چلے گئے تھے۔ جون کا مہینہ تھا۔ شکارکا موسم شروع ہوگیا تھا۔ انیسا کے والد انور صاحب کے دفتر میںچند گورے جو فرانسسی نسل کے تھے ان کے رفقاءکار تھے۔ ۱۲۷۱ئ کے آس پاس ان کے اباﺅاجداد موریشس کو اپنا جائے قیام بنانے اور یہاں حکمرانی کرنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ فرانسسیوں نے اس جزیرے کو اپنایا اور اس کا نام ایل دے فرانس رکھا یعنی فرانس کا جزیرہ۔ فرانسسی کئی سالوں تک اس جزیرے میں رہے اور افریقی ممالک سے یہاں ایل دے فرانس کو آباد کرنے کے لئے غلام لائے۔ وہ اسی جزیرے سے ہندوستان کی طرف تجارت کی غرض سے جاتے ہوئے انگریزی بحری کشتیوںپر حملہ کیا کرتے۔ ۰۱۸۱ئ میں بحرِ ہند میں انگریزوں اور فرانسسیوں کے درمیان موریشس کے جنوبی علاقے گراں پور میں جنگ ہوئی اور آخرکاریہ جزیرہ انگریزوں کا ہو گیا جنہوں نے پھر اس جزیرے کا نام موریشس رکھاجیسا کہ ڈچ حکمرانوں نے اپنے قائد موریش وان ناسو کے نام پر رکھا تھا۔ جب موریشس میں انگریزوں کی حکمرانی ہوئی جو فرانسسی یہاں پہلے آباد تھے انہوں نے یہیں رہنے کا تہیہ کیا۔ نیز انگریزوںسے یہ بھی معائدہ ہواکہ فرانسسی زبان اور فرانسسی ثقافت کو اس جزیرے پر آباد رکھا جائے گا۔ چنانچہ آج بھی موریشس میں فرانسسی زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ دکانوں میں، دفتروں میں اور میڈیا میں فرانسسی زبان کا استعمال عام ہے۔ جدید موریشس میں فرانسسی نسل، ہندوستانی، چینی اور افریقی نسل کے لوگ شانہ بہ شانہ کام کرتے ہیں۔تاہم فرانسسی انسداد کے پاس زیادہ زمینیں ہیں۔ انیسا کے والد انور صاحب کے گورے دوستوںنے جب ان کے ساتھ ان کی زمین پر شکار کرنے کی دعوت دی توانور صاحب نے خوشی خوشی دعوت قبول کی۔ لمبے قد اور سانولے رنگ کے انور صاحب نے چنانچہ اتوار کی صبح اپنی بندوق نکالی اور گاڑی نکالی اور فلاک سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور فیڑنے کا راستہ لیا۔ انیسا کی والدہ گھر پر تھی۔ اس صبح کو انہیں بہت کام تھا۔ پورے ہفتے انہیںنوکری پر جانا ہوتا۔ انہوں نے مشین میں گندے کپڑے دھونے کے لئے ڈالے۔ پھر گھر کی صفائی کی اور کھانا تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔انیسا باغ میں اکیلے کھیل رہی تھی۔ وہ اپنی گڑیوں کے بال نوچتی۔ ان کے چہروں پر اپنی پنسلوں سے لکیریںبناتی اور پھر ان کے

کپڑے اتار کر ایک چھوٹی بالٹی میں باغ کے نل سے پانی بھرتی اور پھر پانی میں ماں کی سنگھار میزسے لی ہوئی خوشبو کا دھکن کھول کر پانی میں خوشبو لگاتی۔ اس کے بعد اپنی عریاں گڑیا کو اس پانی میں نہاتی۔گڑیا سے کھیلتے کھیلتے انیسا تھک گئی۔ اچانک اسے ندیم کے باغ کا جھولا یاد آیا۔ اس کا پڑوسی ندیم ایک بڑھئی تھا۔ ندیم نے فرنیچر بناتے وقت بچی ہوئی لکڑی کو چوکور شکل میں کانٹا۔ پھر پانچ میٹر لمبی رسی کو دوفینے آم کے تناور درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کے گردباندھ دیا تھا۔انیسا اس جھولے کو یاد کرنے لگی۔ اس نے چپکے سے پھاٹک کا دروازہ کھولا۔ دو گھر چھوڑ کر ندیم کا گھر تھا۔ انیسا کو معلوم تھا کہ والد صاحب اگرہوتے تو گھر سے باہر جانے کی اجازت ہرگز نہ ہوتی۔انیسا پہلے بھی ندیم کے یہاں اپنی دس سالہ چچازاد بہن نعیمہ کے ساتھ ایک بار جھولا جھولنے گئی تھی۔ جب اس کے پیڑ ہوا میں اچھلے تھے تو انیسا نے زور زور سے کلکاریاں ماری تھیں۔ نعیمہ اس کو پیچھے سے دھکا مار رہی تھی۔ ندیم اس کو اپنے ورک شاپ میں کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔جاتے وقت ندیم نے کہا تھا: ” دوبارہ جھولا جھولنے ضرور آنا انیسا۔“”ٹھیک ہے۔ میں آﺅں گی۔“ انیسا نے خوش ہو کر جواب دیا تھا۔ یہ دس دن پہلے کی بات تھی۔ پچھلے اتوار کو بھی ابّو شکار پر گئے تھے اور امّی کو کام میں مصروف دیکھ کر انیسا نے چپکے سے پھاٹک کھولا اور ندیم کے یہاں چلی گئی۔سترہ سال کا ندیم اپنے بنائے ہوئے فرنیچر پر گہرا بھورا رنگ لگا رہا تھا۔وہ اپنے والد کے ساتھ اکیلا رہتا تھا۔ اس کی بڑی بہن کی شادی ہو گئی تھی ۔ ندیم کے بچپن میں اس کے والدیں کی طلاق ہو چکی تھی۔ اس کی امّی نے دوسری شادی کی تھی۔ لیکن ننھی انیسا کو ان تمام باتوں سے کیا سروکار؟ وہ تو جھولا جھولنے کی لالچ میں یہاں آئی تھی۔ پچھلی بارکی طرح جیسے ہی انیساآنگن میں داخل ہوئی وہ اچھلتی کودتی ہوئی جھولے کی جانب گئی اور پھر جھولے پر چڑھ گئی۔ اس کو دیکھتے ہی ندیم نے کہا: ” ارے آگئی انیسا؟ تمہیں جھولا جھولنا نہیں آتا۔آﺅ میں جھلاتاہوں۔“ ندیم نے انیسا کو اپنی گود میں بٹھایا۔ ندیم بہت پتلا تھا اور اس کی ٹانگیں چھوٹی انیسا کو اور زیادہ پتلی لگیں اور ندیم نے چست جینس پہنی تھی۔ ندیم انیسا کو جھلانے لگا۔ اس کا ہاتھ انیسا کی کمر پر تھا۔ دھیرے دھیرے وہ ہاتھ انیساکی ٹانگوںکے درمیان آگیا۔ پھر جھولا جھلاتے ہوئے ندیم کی انگلیاں حرکت کرنے لگیں۔ انیسا کو بہت عجیب لگا۔ کسی نے آج تک اسے اس جگہ پراس طرح نہیں چھوا تھا۔ پھر اچانک والد صاحب کا ڈر ننھی انیسا پر حاوی ہو گیا۔ ابّا کو اگر معلوم پڑے گا کہ انیسا ان کی مرضی کے بغیر یہاں آئی ہے تو انیسا کو ضرور ڈانتیں گے۔ انیسا گھبرا کر مشکل سے خود کو ندیم کی گرفت سے آزاد کر کے بھاگتی ہوئی گھر آئی۔ اس نے اس واقع کو اپنے ذہن کے نہاں گوشے میں قید کر لیا۔ صانح حیات نے کس خوبی سے انسانی ذہن کی ایجاد کی ہے۔ دماغ ہمارا محافظ ہے۔ خوفناک احساسات کو یاداشت سے دور رکھنے کے لئے کیا کیا کرشمے کرتا ہے۔

انیسا پچھلے اتوار والا عجیب حادثہ بھول گئی۔ اب اسے جھولا یاد آرہا تھا اور وہ جھولا جھولنا چاہتی تھی۔ لہٰذا وہ ایک بار پھر آنگن میں آئی اور جھولا جھولنے لگی۔ ندیم انیسا کو دوبارہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ندیم کا باپ بازار گیا ہوا تھا۔ ہر اتوار کو فلاک میں تازہ سبزیاں ملتی ہیں۔ آس پاس کے کاشتکار اتوار کو بازار میں اپنی فصل کو کم داموں میں فروخت کرتے ہیں۔ندیم نے انیسا کو جھولا جھولنے دیا۔ وہ اپنے کام میں لگا رہا۔ لکڑی کو مشین سے پالیش کرتے وقت اسے اپنی امی کی یاد آئی جس نے چھ سال کی عمر میں اس کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ خوشی خوشی گھر بسا لیا تھا۔ اس کی امّی اسے اکثر یاد آتی ۔ جب اسکول میں ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے موٹے پیمانے سے سزا ملتی، جب ابّا کا بنایا ہواجلا ہواکھانا ملتایا جب رات کو خوفزدہ خواب اسے ستاتے اور جاگنے پر وہ خود کو بستر پر اکیلا پاتا، تو اس کا دل ماں کی صدا لگاتا۔ ندیم نے ان گڑوی یادوں کو ذہن سے ہٹایا اور انیسا کو خوشی خوشی جھولا جھولتے ہوئے دیکھا۔اچانک اس نے صدا لگائی ”ذرا ادھر آنا انیسا۔“انیسا جھولا جھولنے سے پرکیف تھی اور اس نے خوشی خوشی ندیم کی بات سنی۔اس کے بعد انیسا کو کچھ دھوندلا دھوندلا سا یاد ہے کہ ندیم اسے اپنے گھر کے اندر لے گیا۔ اس نے انیسا کو دیوار سے ٹیک لگایا اور انیسا کی فراک کو اٹھایا اور انیسا کو اپنی عریانیت دکھائی۔ ندیم نے ایک بار پھر انیسا کی ٹانگوں کے بیچ اپنا ہاتھ رکھا اور اپنی عریانیت کو انیسا کے ہونٹوں سے لگایا۔ انیسا ندیم کی پتلی ٹانگوں کو دیکھتی رہی۔ اس کا چار سال کا معصوم ذہن اس نئے تجربہ کوسمجھنے کی کوشش کر رہا ہوگا۔ خطرے کا احساس غالب تھا۔ اتنے میں ندیم کے گھر کے پھاٹک کے کھلنے کی آواز سنائی دی۔ ندیم نے فواً اپنے پتلوں کے ذپر کو بند کیا اور انیسا کے کپڑے درست کرکے اسے فوراً اپنے ورک شاپ میں لے گیا اور اپنے کام میں محو ہوگیا۔”السلام علیکم ابّا۔“ ندیم نے کہا۔”وعلیکم السلام۔ بازار میں کدو کا دام اسی روپے کلو ہے۔ یہ سبزی فروش بھی حد کرتے ہیں۔ ذرا سی بارش کیا ہوئی ، سبزیوں کے دام میں اضافہ ہوگیا۔ “ندیم کام میں لگا رہا۔ ننھی انیساتذبذب میں تھی۔ اس نے ندیم سے کہا: ”چلو ندیم پھر سے کھیلتے ہیں۔“”ابھی نہیں ۔ بعد میں۔“ ندیم نے کہا۔انیسا کو ذرا طیش آیا۔ اس کا چار سال کا ذہن اس غصّے کی وجہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا۔ اس غصّے میں بے عزتی کا احساس تھا اور استحصال کا بھی جذبہ تھا۔ انیسا نے چپکے سے ندیم کے ورک شاپ کے پیچھے والی چھوٹی مرچ کے پودے سے پانچ چھوٹی چھوتی ہری مرچ توڑیںاور بھاگتی ہوئی گھر گئی اور باورچی خانے کی وسطی میزپران مرچوں کو رکھا۔اس وقت انیسا کے والد شکار سے تھکے ہوئے لوٹے۔ وہ اپنے ساتھ ہرن کی ایک رانگ لائے تھے۔ انور صاحب کے دل میں ایک شعلہ

بھرک رہا تھا۔ اس شعلے میں ایک دردوکرب تھا جسے وہ ایک نام نہیں دے پا رہے تھے۔ اپنے رفقاءکارکی زمین کی سیر کرتے ہوئے وہ یقینا تازہ دم ہوئے۔موریشس کے گھنے جنگلوں کی ہریالی اور تازگی نرالی تھی۔ چاروں طرف کوہسار کا دلفریب نظارہ تھا۔ طرح طرح کی چڑیاں چہچہاتی تھیں۔ جنگل کی خاموشی میں انسان اپنے دل کی آواز صاف صاف سنتا ہے۔ صاف ہوا جب پھیپروں کے اندر جاتی ہے تو سیدھا روح کے اس گوشے سے جاتکراتی ہے جہاں وہ دردوترپ تھی۔ یہ کیسا درد تھا؟ یہ کیسی ترپ تھی؟ شاید ڈیڑھ سو سال پہلے جب ان کے اباﺅاجداد یہاں آئے تھے اور گوروں کی غلامی کرتے تھے تو یہی درد و ترپ تھی جو نسل در نسل منتقل ہوتاگیا۔ آزادی کے پچاس سال بعد موریشس آزاد تو تھا لیکن کیا یہاں کے لوگ واقعی آزاد تھے؟ موریشس میں زیادہ تر زمینیں ابھی بھی گوروں کی تھیں۔ ان کے بڑے بڑے کارخانے ہیں اور بنک کے خاتوں میں ابھی بھی ان کے پیسے زیادہ تھے۔ یہ کوئی تعجب کن بات بھی نہیں ہے۔ وہ یہاں فاتح اور حکمراں کی حیثیت سے آئے تھے جبکہ سانولے اور کالی نسل کے لوگ غلامی اور زمین میں محنت و مشقت کرنے آئے تھے۔ ممکن ہے انور صاحب کا درد و ترپ ایک احساسِ کمتری تھا۔ان تمام ذہنی پریشانی کے ساتھ جب وہ اپنے باورچی خانے میں پہنچے ان کی پہلی نظر میز پر رکھی پانچ مرچوں پر پڑیں۔”یہ کہاں سے آئیں زبیدہ؟“ انور صاحب نے اپنی اہلیہ سے دریافت کیا۔”معلوم نہیں۔ انیسا نے رکھا ہوگا۔“ انیسا کی امی نے جواب دیا۔ ابّو نے انیسا کو بلوا کر مرچوں کے بارے میں سوال کیا۔”میں ندیم کے باغ سے توڑ کر لائی ہوں۔“ انیسا نے اپنے ابّو کو بتایا۔اس پر انور صاحب آگ بگولہ ہوئے۔ انیسا کی بدتمیزی انہیں ناگوار گزری۔ ایک تو کسی کو بغیر کچھ بتائے انیسا گھر سے باہر چلی گئی۔ اوپر سے دوسروں کے پودے سے مرچ کو توڑنا اور گھر میں لانا یہ تو چوری ہے۔ ابھی سے ہی یہ حالات ہیں تو بڑی ہو کر یہ لڑکی کیا گل کھلائے گی۔ چنانچہ انور صاحب اپنی چار سال کی بیٹی کو سبق سکھانے ندیم کے گھر لے گئے۔ شام کے پانچ بجے تھے۔ ابھی بھی ندیم اپنے ورک شاپ میں لکریوں کو یکجا کرکے ایک میز بنا رہا تھا جو اسے پرسوں اپنے گاہک کو دینی تھی۔ ندیم کا باپ اپنے سعادت مند بیٹے کو کام کرتے ہوئے دیکھ کرفخر محسوس کر رہے تھے۔ فلاک میں ندیم کی کم عمری کے باوجود اس کا کام کافی مقبول ہو گیا تھا اور فلاک اور اس کے مضافات میں اس کے بنائے ہوئے فرنیچر کی بہت مانگ تھی۔ندیم کے ورک شاپ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انور صاحب نے سلام کیا۔ پھر معذرت پیش کرتے ہوئے بولے:”انیسا نے آپ کے آنگن میں یہ چند مرچ توڑی ہیں۔ میں اسے آپ سے معافی مانگنے کے لئے لایا ہوں۔“اس پرر ندیم کے والد بولے :” کوئی بات نہیں۔ جانے دیجیے۔“”کیسے جانے دوں۔ بچوں میں اچھی عاتیں ڈالنی ضروری ہے۔ معافی مانگو انیسا۔“

اس وقت انیسا کو اتنا غصّہ آیا کہ اس نے اپنی بند مٹھیوں سے ندیم کی پتلی ٹانگوں پر پوری تقویت سے مارنا شروع کیا۔ ندیم شرمندگی کے باعث کچھ نہیں کہہ سکا۔انور صاحب اپنی بیٹی کے برتاﺅ سے متحیر ہوئے اور اس ظاہراً بدتمیزی پر شرمندہ بھی ہوئے۔ پھر وہ غصّہ سے لال انیسا کو وہاں سے واپس اپنے گھر لے آئے۔ انیسا اپنی بلّی کو گود میں اٹھا کر بستر پر چڑھ گئی اور اس کے نرم رخساروں پر دو بوند آنسو ٹپکنے لگے۔ ابّو کو تو سمجھنا چاہئے تھا۔ ننھی انیسا نے زندگی میں پہلی بار دھوکا کھانے کا تجربہ کیا تھا اور وہ بھی اپنے ہی باپ کا دھوکا۔ اس دن کے بعد انیسا کبھی ندیم کے آنگن میں جھولا جھولنے نہیں گئی۔ اس واقع کے قریب ایک مہینے بعد ایک رات انیسا کو بستر میں سلاتے وقت زبیدہ انیسا کے سرہانے بیٹھی تھی۔ اچانک انیسا نے کہا:” ندیم نے میری ٹانگوں کے بیچ اپنا ہاتھ لگایا تھا۔“زبیدہ چونک گئی۔ ” کیا؟ اگر تمہارے والد کو معلوم ہوگا تو وہ کتنے ناراض ہونگے۔“اس پر انیسا سہم گئی۔ ” بتی بند کر دو مجھے نیند آہی ہے۔ زبیدہ نے بتی بند کی اور سکتے کی حالت میں اپنی خوابگاہ میں پلنگ پر لیٹ گئی جہاں اس کا شوہر پہلے سے ہی گہری نیند میں تھا۔ زبیدہ حاملہ تھی۔ بہت جلد اس کا کام دگنا ہونے والا ہے۔ انیسا کی بات سن کر وہ سخت خفا تھی۔ پھر ذراٹھنڈے دماغ سے سوچا کہ جو ہوا اب نہیں ہوگا۔ وہ انیسا کو بالکل باہر جانے نہیں دے گی۔ ضرورت پڑی تو اسے گھر میں بند رکھے گی۔ اس نے اگر اس بات کا تذکرہ اپنے شوہر سے کیا تو کہیں وہ ندیم سے لڑائی کرنے اس کے گھر نہ چلے جائیں۔ پھر معاملہ بد سے بدتر ہو جائے گا۔ اگر پولیس میں کیس درج کرایا تو یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ قانونی کاروائی کرنی ہوگی۔ چھوٹی انیسا کو کن کن شاخسانوں سے گزرنے پڑیں گے۔ پھر بڑی ہوگی۔ اس حادثے کی وجہ سے اس کی شادی میں رکاوٹ آسکتی ہے۔ ” نہیں نہیں! اس حادثے کو یہیں دفن کرنے میں ہی بھلائی ہے۔“ یہ سوچ کر زبیدہ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیڑا جس میں اس کا آٹھ مہینے کا بیٹا پل رہا تھا۔ پھر ایک آہِ سرد لے کر سو گئی۔تین سال بعد انیسا سات سال کی ہو گئی۔ اس کا بھائی اسے اکثر رلاتا ہے۔ وہ انیسا کے کھلونوں سے کھیلتا ہے اور انیسا کی سائیکل وہی چلاتا ہے۔ کبھی کبھی انیسا کو مارتا ہے جس پرانیساپھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ ایک دن انیسا اور اس کا بھائی شعیب خوابگاہ میں مریض اور ڈاکٹر کا کھیل کھیل رہے تھے۔ شعیب مریض تھا اور انیساڈاکٹرنی بنی ہوئی تھی۔”چلو تم کو انجیکشن لگاتی ہوں۔“ انیسا نے کہا۔ ”اپنی پتلون نکالو۔“ شعیب نے اپنی پتلوں نکالی اور انیسا اس کی عریانیت دیکھتی رہی۔اینسا نے ایسا کیوں کیا؟ شاید وہ اپنے بھائی کو اس کی حرکتوں کی سزا دینا چاہتی تھی۔ شاید جس طرح ندیم نے اس کو ذلیل کیا تھا وہ شعیب کو اسی طرح انیسا کو رلانے پر بے عزت کرنا چاہتا تھا۔ یا پھر شاید اب بھی انیسا کا ذہن یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ندیم نے اس کے ساتھ کیا کرنا چاہا تھا۔انیسا اور شعیب اکثر ڈاکٹر اور مریض کا کھیل کھیلتے۔ ایک بار زبیدہ کمرے میں داخل ہوئی۔ انیسا نے واپس شعیب کے کپڑے درست

کئے تاکہ امّی کو ان کے کھیل کی بھنک نہ پڑے۔بڑھتی عمر کے ساتھ انیسا کو احساس ہوا کہ مریض اور ڈاکٹر کا کھیل مناسب کھیل نہیں ہے۔ اب بارہ سال کی انیساکالج جانے لگی ہے۔ اس کے اساتذہ نے غور کیا کہ وہ لڑکوں کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرتی ہے اور وقفے کے دوران بھی لڑکوں کے ساتھ ہی کھیلتی ہے۔ عمر انیسا کا ہم جماعت تھا اور بہت جلد اس کا بائی فرینڈ بن گیا۔ دونوں کو اسکول کے احاطے میں ہاتھ پکڑتے ہوئے اور جماعت میں ایک دوسرے کے آغوش میں اکثر دیکھا گیا۔ مس مونا پندرہ سالوں سے اس کالج میں ملازمت کر رہی ہے۔ اس کا اتنے سالوں کا تجربہ اس کی موٹی عینک کے پیچھے اس کی سرمئی آنکھوں میں عیاں ہے۔ پندرہ سالوں میں لاتعداد طلباءانہیں جہاندیدہ آنکھوں کے سامنے گزرے ہیں۔ انیسا کی شکایتوں کا بغور مطالعہ کرنے سے مس مونا اس نتیجے پر پہنچی کہ انیسا کو کوئی نفسیاتی پریشانی ضرورہے۔ اتنی کم عمر میںبائی فرینڈ بنانا احساسِ کمتری کی نشاندہی کرتی ہے۔ ضروراپنی کسی اندرونی تکلیف سے بھاگ کر باہر سہارا ڈھونڈھ رہی ہے۔ مس مونا نے پرنسپل صاحب سے اپنے خیالات پیش کئے اور یہ تجویز پیش کی کہ انیساکے والدین کو مطلع کیا جائے اور اسکول کی طرف سے انیسا کو کوئی ماہر نفسیات فراہم کیا جائے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024