منزلوں سے دور
منزلوں سے دور
Mar 13, 2018
دیدبان شمارہ ۔ ۷
منزلوں سےدور
بلال مختار
کینبرا، آسٹریلیا
رات کا دوسرا پہر
شروع ہو چکا تھا مگر نیند کوسوں دور تھی۔کبھی جسم کو سمیٹ کر سونیکی کوشش کرتا تو
کبھی سر پہ تکیہ رکھنے سے سونے کی امید لگاتا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا
کروں ، میں خود کو بڑی حد تک بے بس و لاچار محسوس کر رہاتھا۔اور یہ روٹین کئی دنوں
سے میرے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔پچھتاوا کیا بیماری ہے اور سکون قلب سے کتنی نیل دور
ہے، اسکا مجھے اندازہ نہ تھا مگر ہر روز میرے اندر کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا
رہا تھا۔ شاید مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ نہیں نہیں، یقینا" مجھے ایسا
نہیں کرنا تھا۔اپنے آپ سے پیج و تاب کرنے میں ہر بار ناکامی کھانے کو مل رہی تھی۔
کوئی تاویل کوئی اندھی تقلید، الغرض میں بری طرح ناکام، بے چین ہو چکا تھا۔اچانک
کھڑکی کے اس پار سے میرے کمرے میں روشنی پڑی، غور سے دیکھا تو بارش کی آمد کیساتھ
ساتھ آوارہ ہوا نے بھی لبنان کے مرکز بیروت کا رخ کر دیاتھا اور ہوا کے ہی سبب
کپڑے لہلانے لگے اور ان مین رنگین لبادوں پہ سے گلی کی روشنی کا عکس میرے کمرے میں
جھانکنے لگا۔لمحہ بھر کو میرا بے چینی کے وجہ سے ارتکاز ہٹ پایا تھا کہ پھر سے وہی
بے بسی کا سایہ میرے کمرے کی چاروں اور دِکھ رہا تھا۔ بلاآخر میں نے کمرے کی لائٹ
آف کی اور باہرصحن میں ٹہلنے لگا۔ یہ میری زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔رفتہ رفتہ
بارش نے زور پکڑا اور اسکی تحریک نے مجھے صحن سے ہٹنے پہ مجبور کردیا۔چند لمحوں
بعد میں مشرق وسطیٰ کی کے پیرس یعنی بیروت کی سڑکوں میں بے منزل گاڑی دوڑا رہا
تھا۔معلوم نہیں کب جا کر مجھے مکمل طور پہ شعوری احساس ہوا کہ جس مقام سے دور
جانیکی کوشش کررہا تھا اسی جگہ پہنچ گیا۔یہ لبنان کی مرکزی ریسرچ لیبارٹریز میں سے
اک تحقیقی ادراہ تھا جہاں پہ میں گزشتہ چار مہینوں سے بطور تحقیق دان کام کررہا
تھا۔
ٹرینڈ لیب میرے اک خواب کی تکمیل تھی، یہاں تک پہنچنے کیلئے میں نے بہت سی محنت کی
اور بلاخر اس مقام پہ پہنچا۔ مگر کہتے ہیں ناں کہ کبھی کبھارآپ منزل پہ پہنچ کر
جان پاتے ہو کہ ساری محنت کے ثمر کا ذائقہ پھیکا کیونکر ہے۔ 'پارکنگ بے ' میں گاڑی
لگانے کے بعد میں باہر نکل کی لیبارٹری میں چل دیا، سیکورٹی آفیسر مجھے دیکھ کر
چونک سا گیا ۔ مین روم سے ہوتا ہو ا جیل نما ریسرچ روم پہنچ چکا تھا۔یہانپر بہت سے
جانوروں پہ تجربات کیئے جا رہے تھے اور انکا گہرا مشاہدہ 24 گھنٹے جاری وساری
رہتا۔دائیں جانب اک چوہے کے جسم میں زبردستی شراب داخل کر کے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا،
اس سے آگے خرگوشوں پہ اک ویکسین کے استعمال سے چھاتی کے سرطان پہ قابو پانے کی راہ
میں حل تلاش کیا جارہاتھا۔کارٹزون،اسپرین اور مارفین کے استعمالات کو بلیوں پہ
تجربات کرنیکے بعد صنتعی پیداوار کو انسانی نقصان سے پاک کرنیکی کی کوششیں کی
جارہی تھیں۔بنیادی طور پہ ٹرینڈ کو کاسمیٹکس،الکوحل اور کینسر کے اداروں کی فندننگ
سے چلایا جا رہا تھا۔میڈیا کے پرچار کے سبب مزکورہ کمپنیوں کی چل نکلی تھی اور
انکی پراڈکٹسس ہاتھوں ہاتھ بک رہی تھیں۔
آخرکار لیبارٹری
کے سب سے بڑے پنجرے کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ یہاپنر اک مادہ چمپانزی کورکھا گیا
تھا،جو اس وقت زندگی اور موت کےے بیچوں بیچ ہچکولے کھا رہی تھی، اسکا نام امینڈا
تھا۔گزشتہ چار دنوں سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا،بھوک کے سبب نحیف ولاچار گی اسکے
وجود سے کھنک رہی تھی۔میں نے ایکبار پھر سے اسے چند سبزیاں اور پھلوں کو کھانے
کیطرف مائل کیا پر ندارد۔وہ مر رہی تھی اور شاید اسے بھوک بھی تھی مگر وہ کھانا
نہیں چاہ رہی تھی اور اسکی وجہ تھی اسکی داہنی آنکھ،جو اسوقت سوجن کے سبب اسکا
آدھا منہ گھیر چکی تھی،اسے باندھا گیا تھا کیونکہ ایک دو دفعہ زخم پہ پنجہ پھیرنے
کی کوشش میں اس نے زخم مزید بگاڑ دیاتھا۔ دراصل دو ہفتے پہلے مجھے اوون کلینر کی
اک اسامنٹ ملی، جسکا مقصد تھا کہ اسے استعمال کرتے وقت انسانی آنکھ پہ کوئی منفی
اثرات نہ ہوں ۔چنانچہ میں نے اس کلینر کا اک عدد نمونہ امینڈا پہ سپرے کر دیا اور
اسکی نقل و حرکت ریکارڈ کرتا رہا۔اسکی پھیلی ہوئی، پیلاہٹ کے میلاپ سے آنکھ خوفناک
نظر آرہی تھی۔وہ مر رہی تھی اور اس پہ بیہوشی اور بہتری کی سبھی دوائیں کوئی اثر
نہیں دکھا رہی تھیں۔میرا دماغ مائوف ہو چکا تھا، مجھے کوئی کوئی حل نظر نہیں آ رہا
تھا۔گارڈ کو خصوصی ہدایت کرنیکے بعد بحیرہ روم کے ساحل پہ چل نکلاا،ہلکی ہلکی
بارش،دور تک خاموشی،اداسی کی چادر اور اس میں لائٹ ہائوس کی چکر کاٹتی روشنی میرے
خوف میں اضافہ کررہی تھی۔جیسے آکر لوٹ جانیوالی لہر اسکی موت کی گنتی کر رہی
ہوں۔اچانک گارڈ کی کال نے چونکا دیا۔
"ہاں کمال!سب خیریت ہے نا؟"
سر وہ امینڈا کی حالت بگڑ رہی ہے،عجیب سے آوازیں اوراوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہی
ہے۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔"
اچھا میں پہنچا۔اتنا کہہ کر جلدی سی گاڑی کیجانب پلٹا اور سیدھا ٹرینڈ کی عمارت جا
پہنچا۔واقعی ، امینڈا کا شور بہت زیادہ خوفزدہ کردینے والا تھا، بےزبان پہ کیسی
بیت رہی تھی؛ میری سوچ سے بالاتر تھا۔بیہوش کر دینے والی دوا بھی بیکار رہی۔ میں
سیدھا آفس میں امینڈا کے نام سے اک فائل ڈھونڈنے لگا،جس میں اسکی سبھی اہم معلومات
لکھی ہوئی تھیں۔جس میں اسکی ناچ کرتی ہوئی اک تصویر اسکے سابق مالک بریڈن کیساتھ
تھی، وہ کتنی خوش اور تر تازہ تھی ان دنوں۔اچانک میرے ذہن میں اک خیال کوندا اور
میں نے بریڈن کا نمبر ملایا مگر تین دار دفعہ کی کوشش کے باجود جواب نہ ملا۔ پس
منظر مین امینڈا کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔
کافی دیر کوشش کر
چکنے کے بعد میں کریڈل رکھنے ہی لگا تھا کہ دوسری طرف سے غنودگی سے بھرپور ہیلو
کہا گیا۔
"کیا بریڈن صاحب سے بات ہو سکتی ہے، میں ٹرینڈ لیب سے مسٹر رشہیر بات کر رہا
ہوں؟"
"ہاں جی، میں ہی بریڈن ہوں، فرمائیں کیسے یاد فرمایا؟"
میں نے رات گئے کال کرنیکے سبب معذرت کرنیکے بعد مدعے کا تفصیلا" اظہار کرنے
لگا۔ اسی دوران میرے ذہن میں بریڈن کی طویل خاموشی اور صبر سے بات سننے پہ حیرانگی
بھی ہوئی۔ بلاآخر میری بات ختم کر چکنے کے بعد انکا پہلا جواب، دراصل اک سوال تھا۔
"امینڈا ٹرینڈ لیب میں کیا کر رہی ہے۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ آپ ، اپنا پتہ
لکھوائیں۔"
اسکی آواز میں حیرانگی اور غصہ کا ملا جلا تاثر معلوم ہو رہا تھا۔ بلاآخر ایڈریس
لکھوانے کے بعد فون بند کر دیا گیا۔رات گئے میرے دل میں کئی طرح کے وسوسے جگہ کرتے
رہے، میں اپنے سے ہٹ کر فیلڈ میں کام کر رہا تھا، اور اخلاقی اور انسانی قدروں کو
ملحوظ خاطر لائے بنا ہی لیبارٹری میں کچھ بڑا کرنیکی ٹھان میں بہت کچھ غلط کر
بیٹھا تھا۔نجانے کب آنکھ لگی اور میں گہری نیند سو گیا۔صبح پانچ بجے کا وقت ہو گا
اور ابھی رات کا اندھیرا مکمل طور پہ چھٹنے نہ یایا تھا کہ گارڈ نے دروازے پہ دستک
دیکر کسی بوڑھے کی آمد کی اطلاع دی۔
"ہاں۔۔۔اسے اندر لے آئو۔۔۔۔اور ہاں۔۔۔۔سنو،اسے گیلری والے رستے سے لیکر آنا اور
مین لیب کا دروازہ لاک کر کے جانا۔"
میں نے جلدی سے منہ دھویا اور ملاقاتیوں کے کمرے کیجانب رخ کر دیا۔بریڈن کی عمر 70
سال کے آس پاس ہو گی، چہرے پہ لکیروں کا اک جالا سے بنا ہوا تھا، سر کے اکثر بال
جھڑ چکے تھے اور جو باقی تھی وہ بالکل کسی برف کے گالوں کیطرح معلوم ہوتے۔
"جی جناب،کیا پینا پسند کرینگے یا کچھ کھانے بولوں؟"
میری سوال پہ انہوں نے ایکبار پھر سے سوال داغ دیا:
"کیا میں امینڈا سے مل سکتا ہوں؟"
مجھے بریڈن کی آواز میں کرختگی سے معاملہ کی سنجیدگی میں اضافہ ہوتا ہوا محسوس
ہوا،خیر اسے لیب میں چل دیا۔بوڑھے نے آواز سنتے ہی سیدھا درجنوں پنجروں کو چھوڑتا
عین امینڈا کے سامنے کھڑا ہو گیا۔امینڈا جو کئی دیر سے چنگھاڑ رہی تھی، اسے یکدم
چپ سی لگ گئی۔ اسی دوران مجھے سسکیوں کی ہلکی ہلکی آواز سننے کو ملی، جو قریب ہو
کر دیکھا تو بریڈن کی آنکھیں آنسوئوں سے تر تھیں۔امینڈا یکبار پھر سے چنگھاڑنے لگی
مگر اس بار اسکی آواز میں غم و غصہ کی بجائے بے بسی عود کر آئی تھی۔ بوڑھا اپنے
کمزور کانپتے ہاتھوں سے اسکے پنجے پہ ہاتھ پھیرنے لگا اور میری طرف دیکھے بنا اتنا
کہا کہ پنجرے کا دروازہ کھولوں، قریب کھڑا گارڈ فیصلہ نہ کر پایا مگر میرے سر
ہلانے پہ تالا کھول کر دروازہ کھینچ دیا۔ بریڈن بلا خوف کے سیدھا اندر کو چل دیا
اور اسکی کھال پہ پیارسے ہاتھ پھیرنے لگا جیسے اسے صبر کرنے اور سہلانے کی کوشش
کررہا ہو۔پھر میری آنکھوں نے ایسا منظر دیکھا کہ جسکا میرے من میں وہم وگماں بھی
نہ تھا۔امینڈا نے عجیب سے بیٹھی ہوئی آواز بلکنے لگی، دونوں کے نقل حرکت سے یہی
اخذ کیا جاسکتا تھا کہ امینڈا رو رہی ہے اور وہ شدید تکلیف کے دور سے گزر رہی
ہے۔اسی دوران میں نے کھانے کے برتن کو ذرا زمین سے جوڑ کر آگے کیا تو اسکی آواز سے
بریڈن نے میرا مطلب بھانپ لیا۔جذباتیات سے بھرپور ہونیکے باجود اسکے دماغ کام کر
رہا تھا اور اس نے بلآخر امینڈا کو کھانا کھلانا شروع کر دیا۔
کچھ واقعات آپکی
نقطہ نظر اور فلسفہ زندگی کو 180 کے درجے سے بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ میری نظر میں
جانوروں پہ تجربات دراصل انسانوں کی خدمت تھی اور میرا خیال تھا کہ یہ جانور ہماری
خاطر پیدا کئے گئے ہیں اور ہمیں ان سے مکمل مستفید ہونا چاہیے۔میں آفس میں جا کر
بے سدھ سا بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد بریڈن کمرے میں داخل ہوا اور آتے ہی کہنے لگا:
"تم انسان ہو، جانوروں کیساتھ اسطرح سلو ک کیا جاتا ہے؟ تمھیں کچھ اندازہ بھی
ہیکہ وہ سے ازیت وکرب سے گزر رہی ہو گی اور تم یہانپر پرسکون بیٹھے ہو۔"
سر آپ بیٹھیں تو سہی، میں تفصیل سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، میری بات تو۔۔۔۔"
میری بات کاٹتے ہوئے وہ کہنے لگا:
"تم بیٹھنے کا کہہ رہے ہو، تمھارے بچے پہ کوئی تیزاب پھینک دے اور وہ درد میں
لپٹا ہو اور کوئی تمھیں آرام سے بیٹھنے کا کہے۔۔۔۔مجھے جانوروں کی نسل کو قائم
رکھنے والے ادارے نے دراخواست کی تھی اور میں نے اپنی ڈھلتی ہوئی عمر کے سبب انہیں
امینڈا دیدی، مجھے کیا خبر تھی کہ اسے چڑیا گھر میں رکھنے کی بجائے قصاب کی دوکان
پہ لایا گیا ہے۔۔۔"Conservation Zoo
"تمھارا مذہب
کیا ہے، مسلمان معلوم ہوتے ہو (اس نے ہاں چاہی اور میری ہاں دیکھکر کہنے لگا)۔ میں
اک عیسائی راہب ہوں اور میں نے سبھی مذاہب کو سٹڈی کر رکھا ہے۔ کبھی اپنے مذہب میں
جھانکنا کہ اک بدکار و گناہگار عورت کو صرف کتے کی پیاس بجھانے کے واسطے بخشش کی
گئی۔کبھی یہ جاننے کی کوشش کرو کہ قربانی کرتے وقت چھری تیز چلانے کی تاکید کیوں
کی گئی؟ یہانپر تو امینڈا کئی گھنٹوں سے بلک رہی ہے اور تم اپنے آفس میں پرسکون
بیٹھے ہو، وہ نہ جی سکتی ہے اور نہ ہی مر سکتی ہے۔۔۔۔"
میں انکے غم و
غصہ کی کیفیات کی شدت کو بھانپ گیا اور انکو خاموشی سے سننے کی سعی کرتا رہا
تاوققیکہ ایک لمحے میں اسکا سارا غصہ دکھ اور بیچارگی میں ڈھل گیا اور وہ ایکبار
پھر سے آبدیدہ ہو کر امینڈا کیساتھ گزرے ماضی کو شبدوں سے تازگی دیتا رہا۔ بلاآخر
اسکا کیتھراسس کا غبار جب خالی ہونے لگا تو میں نے ان سے مہمانوں کے کمرے میں کچھ
دن ٹھہرنے کی گزارش کی اور انہیں یقین دلایا کہ امینڈا کو اب دوسرے وارڈ میں رکھ
کر صرف اسکی بہتری کیلئے کوششیں کی جائینگی۔مزید برآں وہ امینڈا کو جذباتی پش دیتا
رہے تانکہ وہ اپنے آپکو بھی بہتر دیکھنا چاہے۔دن بھر اسکی نگہداشت کی صورتیں
اختیار کرتا رہا،اس دوران بقیہ فائلز کی تازہ نقل و حرکت اور مزید اقدام اور
تبدیلیوں کو بھی تحریر کرنا تھا جو میں بے دلی سے کرتا رہا۔شام آٹھ بجے کے پاس میں
گاڑی کو اپنے گھر کی پارکنگ میں ڈرائیو کر رہا تھا۔
کھانا ایسے کھا
رہا تھا کہ جیسے گھاس پھوس ہوتی ہے، پانی گردن سے مشکلوں اترا۔بیوی سے واجبی گفتگو
کے بعد آرام دہ کمرے میں جا کر سونے لگا۔ رات کا کوئی دوسرا پہر شروع ہو گا کہ
اچانک میری آنکھ بلا کسی وجہ کے کھل گی۔مجھے ایسے معلوم ہوا کہ نیند کے کسی گہرے
تالاب سے خود بخود اوپر اٹھتا گیا اوررفتہ رفتہ جاگ کی فضا میں آنکھیں چپکنے لگا
تھا۔کچھ دیر چھت پہ آنکھیں گاڑھے بے خیالی سا دیکھتا رہا کہ اسی بے مقصدیت کی تہہ
سے ٹرننگ ٹرننگ کی آواز گونجنے لگی۔میں نے جلدی سے کریڈل اٹھایا اور اپنے اندر
برپا خوف کو قابو کرنیکی کوشش بھی کی۔لمبی سانس بھرنے کے بعد میں نے ہیلو کیا تو
دوسری طرف سے میرے متوقع خوف کی حقیقت بیان کی جا رہی تھی۔میں نے کچھ کہے بنا فون
آرام سے رکھا اور دھیرے سے ٹیرس پہ جا کر کمال کو موبائل سے کال کی اوراسے بتایا
کہ بریڈن کو جگا کر اسے سچ بتائو۔کمال کچھ ہچکچایا اور مزید پریشانیوں کی اڑان
کیطرف دیکھنے کو کہا۔آخر اس نیند سے جاگ کے سفر میں اک مماثلت اک زندگی کی مردگی
کی داستان بھی تھی اور اب وہ مکمل طور پہ مردہ ہوچکنے کے بعد سطح پہ تیر رہی تھی۔
"سر ایسا ہر
روز کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے، روز جانوروں پہ تجربات کئے جاتے ہیں اور وہ مر رہے
ہوتے ہیں۔ آپ اسے یہاں لا کر پہلے سےخطرہ مول چکے ہیں اور اب اپنے آپکو مزید
گرفتار مصیبت کرنے والے ہیں۔میرا اتنا قد نہیں کہ آپکو نصیحت کروں مگر میری مانیں
تو اس سے بہانہ کر کے معاملہ کو رفع دفع کریں وگرنہ اسکے بہت دوررس اور نقصاندہ
نتائج برآمد ہونیکا اندیشہ ہے۔"
"میں نے
تمھیں جو کہا ہے اسکے مطابق چلو۔بریڈن کو جگا کر اسے امینڈا کے پاس جا کر چھوڑ آئو
اور اس کمرے کو پیچھے سے لاک کر دینا اور بس۔بقیہ پنجروں پہ دھیان دور اور سیکورٹی
کے پوائنٹس پہ نظر رکھو، میں تھوڑی دیر میں تمھاری طرف آتا ہوں۔"
ابھی آدھے رستے میں ہونگا کہ گیئر بدلتے وقت کپڑوں میں نظر پڑی تو احساس ہوا کہ
میں سلیپننگ سوٹ میں ملبوس تھا،سگریٹ کی ڈبیہ بھی عادت سے ہٹ کر ساتھ رکھنا بھول
چکا تھا۔اپنے اندر نمایاں ہوتی تبدیلیوں کو احساس ہورہا تھا۔کچھ دیر بعد ٹرینڈ
پہنچ چکا تھا۔مطلوبہ کمرے میں اچانک داخل ہوا تو بریڈن امینڈا کے بگڑے ہوئی لاشے
کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ مجھے دیکھکر ششدر سا ہو گیا مگر میں نے ایسا رسپانس دیا کہ
جیسے میں نے کچھ نہ دیکھا ہو۔بریڈن سے معذرت کی اور امینڈا کے مردہ جسم کو دیکھ کر
میرے اندر کی سختی کی آخری تہہ بھی نرم پڑ کے جذبات کے ٹھنڈے پانی میں بہہ
گئی۔مجھے اپنے آپ سے نفرت سے ہونے لگی۔
"بریڈن
تمھارے پاس پانچ منٹ ہیں، اسکے بعد تم جہاں جانا چائو جا سکتے ہو، تمھیں مکمل
اختیار ہے۔مجھے آفس میں پانچ منٹ بعد ملو۔"
مجھے پکہ یقین
تھا کہ اس دوران اس نے زیادہ سے زیادہ ثبوت اکٹھے کیئے ہونگے اور میری آواز کی
کمزوری سے اسے معاملہ فہمی ہو چکی ہو گی۔کچھ دیر بعد بریڈن جیسے ہی کمرہ میں آیا
تو میں نے اک درجن فائلز اٹھا کر اسکے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیں۔اس میں امینڈا کے کیس
کے متعلق سبھی انفارمیشن ہے۔تم اب یہاں سے جا سکتے ہو۔
بریڈن نے حیرانگی کو
بالکل بھی اظہار نہ کیا بلکہ اس نے اپنی کیفیات کے پیش نظر فائلز اچکیں اور چلتا
بنا۔بیروت کو کنووں کا شہر بھی کہا جاتا ہے،یہاں جا بجا قدیم اور گہرے کنوویں
کھودے گئے ہیں۔ایسے ہی کچھ پرانے خواب بھی اب تکمیل سے ہو کر پھر سے تدفین کے عمل
سے گزارنے کا وقت تھا۔تانکہ آئندہ کوئی ایسے کواب دیکھنے کو چلے تو اس عبرت ملے
اور تصویر کا مکمل رخ نظر آئے۔شام گئے میڈیا ہائوسسز،جانوروں کے حقوق کی عالمی
تنظمیں حرکت میں آ چکی تھیں۔ ٹرینڈ کی مرکزی لیبارٹری، اسکے شیئر ہولڈرز، امینڈا
اور بریڈن کی تصاویر کیساتھ اک عدد میری تصویر بھی ہیڈ لائنز میں چل رہی تھیں۔
اینیمل رائٹ اور امینڈا کے نام سے ٹوئٹر پہ ہیش ٹیگ مقبول ہوگیا تھا۔رات دس بجے کے
قریب دروازہ میں اچانک دستک ہوئی اور میں سیدھا دروازہ کیجانب چل دیا۔ کسی جھجک
اور پریشانی کے بغیر،بیروت کی سرکاری پولیس مجھے گرفتاری کے وارنت لیکر آئی تھی۔
اسکے بعد کیا کچھ ہوا مجھے اسکا نہیں پتہ مگر اک عرصہ بعد جیل کی کوٹھری میں مکمل
سکون کیساتھ سونے کے قابل ہوا تھا۔دماغ کی سبھی قفل زدہ نسیں اب آزاد اور پرسکون
ہو چکی تھیں۔ٹھنڈے فرش پہ لیٹ کر جسم کیو ٹھنڈک کی لہریں میسر ہونے لگیں۔پلکوں کی
جھالر بھاری معلوم ہو رہی تھی، ایکبار پھر سے میرا جسم پانی کی تہہ میں اتر رہا
تھا۔
ختم شد۔
دیدبان شمارہ ۔ ۷
منزلوں سےدور
بلال مختار
کینبرا، آسٹریلیا
رات کا دوسرا پہر
شروع ہو چکا تھا مگر نیند کوسوں دور تھی۔کبھی جسم کو سمیٹ کر سونیکی کوشش کرتا تو
کبھی سر پہ تکیہ رکھنے سے سونے کی امید لگاتا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا
کروں ، میں خود کو بڑی حد تک بے بس و لاچار محسوس کر رہاتھا۔اور یہ روٹین کئی دنوں
سے میرے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔پچھتاوا کیا بیماری ہے اور سکون قلب سے کتنی نیل دور
ہے، اسکا مجھے اندازہ نہ تھا مگر ہر روز میرے اندر کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا
رہا تھا۔ شاید مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ نہیں نہیں، یقینا" مجھے ایسا
نہیں کرنا تھا۔اپنے آپ سے پیج و تاب کرنے میں ہر بار ناکامی کھانے کو مل رہی تھی۔
کوئی تاویل کوئی اندھی تقلید، الغرض میں بری طرح ناکام، بے چین ہو چکا تھا۔اچانک
کھڑکی کے اس پار سے میرے کمرے میں روشنی پڑی، غور سے دیکھا تو بارش کی آمد کیساتھ
ساتھ آوارہ ہوا نے بھی لبنان کے مرکز بیروت کا رخ کر دیاتھا اور ہوا کے ہی سبب
کپڑے لہلانے لگے اور ان مین رنگین لبادوں پہ سے گلی کی روشنی کا عکس میرے کمرے میں
جھانکنے لگا۔لمحہ بھر کو میرا بے چینی کے وجہ سے ارتکاز ہٹ پایا تھا کہ پھر سے وہی
بے بسی کا سایہ میرے کمرے کی چاروں اور دِکھ رہا تھا۔ بلاآخر میں نے کمرے کی لائٹ
آف کی اور باہرصحن میں ٹہلنے لگا۔ یہ میری زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔رفتہ رفتہ
بارش نے زور پکڑا اور اسکی تحریک نے مجھے صحن سے ہٹنے پہ مجبور کردیا۔چند لمحوں
بعد میں مشرق وسطیٰ کی کے پیرس یعنی بیروت کی سڑکوں میں بے منزل گاڑی دوڑا رہا
تھا۔معلوم نہیں کب جا کر مجھے مکمل طور پہ شعوری احساس ہوا کہ جس مقام سے دور
جانیکی کوشش کررہا تھا اسی جگہ پہنچ گیا۔یہ لبنان کی مرکزی ریسرچ لیبارٹریز میں سے
اک تحقیقی ادراہ تھا جہاں پہ میں گزشتہ چار مہینوں سے بطور تحقیق دان کام کررہا
تھا۔
ٹرینڈ لیب میرے اک خواب کی تکمیل تھی، یہاں تک پہنچنے کیلئے میں نے بہت سی محنت کی
اور بلاخر اس مقام پہ پہنچا۔ مگر کہتے ہیں ناں کہ کبھی کبھارآپ منزل پہ پہنچ کر
جان پاتے ہو کہ ساری محنت کے ثمر کا ذائقہ پھیکا کیونکر ہے۔ 'پارکنگ بے ' میں گاڑی
لگانے کے بعد میں باہر نکل کی لیبارٹری میں چل دیا، سیکورٹی آفیسر مجھے دیکھ کر
چونک سا گیا ۔ مین روم سے ہوتا ہو ا جیل نما ریسرچ روم پہنچ چکا تھا۔یہانپر بہت سے
جانوروں پہ تجربات کیئے جا رہے تھے اور انکا گہرا مشاہدہ 24 گھنٹے جاری وساری
رہتا۔دائیں جانب اک چوہے کے جسم میں زبردستی شراب داخل کر کے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا،
اس سے آگے خرگوشوں پہ اک ویکسین کے استعمال سے چھاتی کے سرطان پہ قابو پانے کی راہ
میں حل تلاش کیا جارہاتھا۔کارٹزون،اسپرین اور مارفین کے استعمالات کو بلیوں پہ
تجربات کرنیکے بعد صنتعی پیداوار کو انسانی نقصان سے پاک کرنیکی کی کوششیں کی
جارہی تھیں۔بنیادی طور پہ ٹرینڈ کو کاسمیٹکس،الکوحل اور کینسر کے اداروں کی فندننگ
سے چلایا جا رہا تھا۔میڈیا کے پرچار کے سبب مزکورہ کمپنیوں کی چل نکلی تھی اور
انکی پراڈکٹسس ہاتھوں ہاتھ بک رہی تھیں۔
آخرکار لیبارٹری
کے سب سے بڑے پنجرے کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ یہاپنر اک مادہ چمپانزی کورکھا گیا
تھا،جو اس وقت زندگی اور موت کےے بیچوں بیچ ہچکولے کھا رہی تھی، اسکا نام امینڈا
تھا۔گزشتہ چار دنوں سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا،بھوک کے سبب نحیف ولاچار گی اسکے
وجود سے کھنک رہی تھی۔میں نے ایکبار پھر سے اسے چند سبزیاں اور پھلوں کو کھانے
کیطرف مائل کیا پر ندارد۔وہ مر رہی تھی اور شاید اسے بھوک بھی تھی مگر وہ کھانا
نہیں چاہ رہی تھی اور اسکی وجہ تھی اسکی داہنی آنکھ،جو اسوقت سوجن کے سبب اسکا
آدھا منہ گھیر چکی تھی،اسے باندھا گیا تھا کیونکہ ایک دو دفعہ زخم پہ پنجہ پھیرنے
کی کوشش میں اس نے زخم مزید بگاڑ دیاتھا۔ دراصل دو ہفتے پہلے مجھے اوون کلینر کی
اک اسامنٹ ملی، جسکا مقصد تھا کہ اسے استعمال کرتے وقت انسانی آنکھ پہ کوئی منفی
اثرات نہ ہوں ۔چنانچہ میں نے اس کلینر کا اک عدد نمونہ امینڈا پہ سپرے کر دیا اور
اسکی نقل و حرکت ریکارڈ کرتا رہا۔اسکی پھیلی ہوئی، پیلاہٹ کے میلاپ سے آنکھ خوفناک
نظر آرہی تھی۔وہ مر رہی تھی اور اس پہ بیہوشی اور بہتری کی سبھی دوائیں کوئی اثر
نہیں دکھا رہی تھیں۔میرا دماغ مائوف ہو چکا تھا، مجھے کوئی کوئی حل نظر نہیں آ رہا
تھا۔گارڈ کو خصوصی ہدایت کرنیکے بعد بحیرہ روم کے ساحل پہ چل نکلاا،ہلکی ہلکی
بارش،دور تک خاموشی،اداسی کی چادر اور اس میں لائٹ ہائوس کی چکر کاٹتی روشنی میرے
خوف میں اضافہ کررہی تھی۔جیسے آکر لوٹ جانیوالی لہر اسکی موت کی گنتی کر رہی
ہوں۔اچانک گارڈ کی کال نے چونکا دیا۔
"ہاں کمال!سب خیریت ہے نا؟"
سر وہ امینڈا کی حالت بگڑ رہی ہے،عجیب سے آوازیں اوراوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہی
ہے۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔"
اچھا میں پہنچا۔اتنا کہہ کر جلدی سی گاڑی کیجانب پلٹا اور سیدھا ٹرینڈ کی عمارت جا
پہنچا۔واقعی ، امینڈا کا شور بہت زیادہ خوفزدہ کردینے والا تھا، بےزبان پہ کیسی
بیت رہی تھی؛ میری سوچ سے بالاتر تھا۔بیہوش کر دینے والی دوا بھی بیکار رہی۔ میں
سیدھا آفس میں امینڈا کے نام سے اک فائل ڈھونڈنے لگا،جس میں اسکی سبھی اہم معلومات
لکھی ہوئی تھیں۔جس میں اسکی ناچ کرتی ہوئی اک تصویر اسکے سابق مالک بریڈن کیساتھ
تھی، وہ کتنی خوش اور تر تازہ تھی ان دنوں۔اچانک میرے ذہن میں اک خیال کوندا اور
میں نے بریڈن کا نمبر ملایا مگر تین دار دفعہ کی کوشش کے باجود جواب نہ ملا۔ پس
منظر مین امینڈا کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔
کافی دیر کوشش کر
چکنے کے بعد میں کریڈل رکھنے ہی لگا تھا کہ دوسری طرف سے غنودگی سے بھرپور ہیلو
کہا گیا۔
"کیا بریڈن صاحب سے بات ہو سکتی ہے، میں ٹرینڈ لیب سے مسٹر رشہیر بات کر رہا
ہوں؟"
"ہاں جی، میں ہی بریڈن ہوں، فرمائیں کیسے یاد فرمایا؟"
میں نے رات گئے کال کرنیکے سبب معذرت کرنیکے بعد مدعے کا تفصیلا" اظہار کرنے
لگا۔ اسی دوران میرے ذہن میں بریڈن کی طویل خاموشی اور صبر سے بات سننے پہ حیرانگی
بھی ہوئی۔ بلاآخر میری بات ختم کر چکنے کے بعد انکا پہلا جواب، دراصل اک سوال تھا۔
"امینڈا ٹرینڈ لیب میں کیا کر رہی ہے۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ آپ ، اپنا پتہ
لکھوائیں۔"
اسکی آواز میں حیرانگی اور غصہ کا ملا جلا تاثر معلوم ہو رہا تھا۔ بلاآخر ایڈریس
لکھوانے کے بعد فون بند کر دیا گیا۔رات گئے میرے دل میں کئی طرح کے وسوسے جگہ کرتے
رہے، میں اپنے سے ہٹ کر فیلڈ میں کام کر رہا تھا، اور اخلاقی اور انسانی قدروں کو
ملحوظ خاطر لائے بنا ہی لیبارٹری میں کچھ بڑا کرنیکی ٹھان میں بہت کچھ غلط کر
بیٹھا تھا۔نجانے کب آنکھ لگی اور میں گہری نیند سو گیا۔صبح پانچ بجے کا وقت ہو گا
اور ابھی رات کا اندھیرا مکمل طور پہ چھٹنے نہ یایا تھا کہ گارڈ نے دروازے پہ دستک
دیکر کسی بوڑھے کی آمد کی اطلاع دی۔
"ہاں۔۔۔اسے اندر لے آئو۔۔۔۔اور ہاں۔۔۔۔سنو،اسے گیلری والے رستے سے لیکر آنا اور
مین لیب کا دروازہ لاک کر کے جانا۔"
میں نے جلدی سے منہ دھویا اور ملاقاتیوں کے کمرے کیجانب رخ کر دیا۔بریڈن کی عمر 70
سال کے آس پاس ہو گی، چہرے پہ لکیروں کا اک جالا سے بنا ہوا تھا، سر کے اکثر بال
جھڑ چکے تھے اور جو باقی تھی وہ بالکل کسی برف کے گالوں کیطرح معلوم ہوتے۔
"جی جناب،کیا پینا پسند کرینگے یا کچھ کھانے بولوں؟"
میری سوال پہ انہوں نے ایکبار پھر سے سوال داغ دیا:
"کیا میں امینڈا سے مل سکتا ہوں؟"
مجھے بریڈن کی آواز میں کرختگی سے معاملہ کی سنجیدگی میں اضافہ ہوتا ہوا محسوس
ہوا،خیر اسے لیب میں چل دیا۔بوڑھے نے آواز سنتے ہی سیدھا درجنوں پنجروں کو چھوڑتا
عین امینڈا کے سامنے کھڑا ہو گیا۔امینڈا جو کئی دیر سے چنگھاڑ رہی تھی، اسے یکدم
چپ سی لگ گئی۔ اسی دوران مجھے سسکیوں کی ہلکی ہلکی آواز سننے کو ملی، جو قریب ہو
کر دیکھا تو بریڈن کی آنکھیں آنسوئوں سے تر تھیں۔امینڈا یکبار پھر سے چنگھاڑنے لگی
مگر اس بار اسکی آواز میں غم و غصہ کی بجائے بے بسی عود کر آئی تھی۔ بوڑھا اپنے
کمزور کانپتے ہاتھوں سے اسکے پنجے پہ ہاتھ پھیرنے لگا اور میری طرف دیکھے بنا اتنا
کہا کہ پنجرے کا دروازہ کھولوں، قریب کھڑا گارڈ فیصلہ نہ کر پایا مگر میرے سر
ہلانے پہ تالا کھول کر دروازہ کھینچ دیا۔ بریڈن بلا خوف کے سیدھا اندر کو چل دیا
اور اسکی کھال پہ پیارسے ہاتھ پھیرنے لگا جیسے اسے صبر کرنے اور سہلانے کی کوشش
کررہا ہو۔پھر میری آنکھوں نے ایسا منظر دیکھا کہ جسکا میرے من میں وہم وگماں بھی
نہ تھا۔امینڈا نے عجیب سے بیٹھی ہوئی آواز بلکنے لگی، دونوں کے نقل حرکت سے یہی
اخذ کیا جاسکتا تھا کہ امینڈا رو رہی ہے اور وہ شدید تکلیف کے دور سے گزر رہی
ہے۔اسی دوران میں نے کھانے کے برتن کو ذرا زمین سے جوڑ کر آگے کیا تو اسکی آواز سے
بریڈن نے میرا مطلب بھانپ لیا۔جذباتیات سے بھرپور ہونیکے باجود اسکے دماغ کام کر
رہا تھا اور اس نے بلآخر امینڈا کو کھانا کھلانا شروع کر دیا۔
کچھ واقعات آپکی
نقطہ نظر اور فلسفہ زندگی کو 180 کے درجے سے بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ میری نظر میں
جانوروں پہ تجربات دراصل انسانوں کی خدمت تھی اور میرا خیال تھا کہ یہ جانور ہماری
خاطر پیدا کئے گئے ہیں اور ہمیں ان سے مکمل مستفید ہونا چاہیے۔میں آفس میں جا کر
بے سدھ سا بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد بریڈن کمرے میں داخل ہوا اور آتے ہی کہنے لگا:
"تم انسان ہو، جانوروں کیساتھ اسطرح سلو ک کیا جاتا ہے؟ تمھیں کچھ اندازہ بھی
ہیکہ وہ سے ازیت وکرب سے گزر رہی ہو گی اور تم یہانپر پرسکون بیٹھے ہو۔"
سر آپ بیٹھیں تو سہی، میں تفصیل سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، میری بات تو۔۔۔۔"
میری بات کاٹتے ہوئے وہ کہنے لگا:
"تم بیٹھنے کا کہہ رہے ہو، تمھارے بچے پہ کوئی تیزاب پھینک دے اور وہ درد میں
لپٹا ہو اور کوئی تمھیں آرام سے بیٹھنے کا کہے۔۔۔۔مجھے جانوروں کی نسل کو قائم
رکھنے والے ادارے نے دراخواست کی تھی اور میں نے اپنی ڈھلتی ہوئی عمر کے سبب انہیں
امینڈا دیدی، مجھے کیا خبر تھی کہ اسے چڑیا گھر میں رکھنے کی بجائے قصاب کی دوکان
پہ لایا گیا ہے۔۔۔"Conservation Zoo
"تمھارا مذہب
کیا ہے، مسلمان معلوم ہوتے ہو (اس نے ہاں چاہی اور میری ہاں دیکھکر کہنے لگا)۔ میں
اک عیسائی راہب ہوں اور میں نے سبھی مذاہب کو سٹڈی کر رکھا ہے۔ کبھی اپنے مذہب میں
جھانکنا کہ اک بدکار و گناہگار عورت کو صرف کتے کی پیاس بجھانے کے واسطے بخشش کی
گئی۔کبھی یہ جاننے کی کوشش کرو کہ قربانی کرتے وقت چھری تیز چلانے کی تاکید کیوں
کی گئی؟ یہانپر تو امینڈا کئی گھنٹوں سے بلک رہی ہے اور تم اپنے آفس میں پرسکون
بیٹھے ہو، وہ نہ جی سکتی ہے اور نہ ہی مر سکتی ہے۔۔۔۔"
میں انکے غم و
غصہ کی کیفیات کی شدت کو بھانپ گیا اور انکو خاموشی سے سننے کی سعی کرتا رہا
تاوققیکہ ایک لمحے میں اسکا سارا غصہ دکھ اور بیچارگی میں ڈھل گیا اور وہ ایکبار
پھر سے آبدیدہ ہو کر امینڈا کیساتھ گزرے ماضی کو شبدوں سے تازگی دیتا رہا۔ بلاآخر
اسکا کیتھراسس کا غبار جب خالی ہونے لگا تو میں نے ان سے مہمانوں کے کمرے میں کچھ
دن ٹھہرنے کی گزارش کی اور انہیں یقین دلایا کہ امینڈا کو اب دوسرے وارڈ میں رکھ
کر صرف اسکی بہتری کیلئے کوششیں کی جائینگی۔مزید برآں وہ امینڈا کو جذباتی پش دیتا
رہے تانکہ وہ اپنے آپکو بھی بہتر دیکھنا چاہے۔دن بھر اسکی نگہداشت کی صورتیں
اختیار کرتا رہا،اس دوران بقیہ فائلز کی تازہ نقل و حرکت اور مزید اقدام اور
تبدیلیوں کو بھی تحریر کرنا تھا جو میں بے دلی سے کرتا رہا۔شام آٹھ بجے کے پاس میں
گاڑی کو اپنے گھر کی پارکنگ میں ڈرائیو کر رہا تھا۔
کھانا ایسے کھا
رہا تھا کہ جیسے گھاس پھوس ہوتی ہے، پانی گردن سے مشکلوں اترا۔بیوی سے واجبی گفتگو
کے بعد آرام دہ کمرے میں جا کر سونے لگا۔ رات کا کوئی دوسرا پہر شروع ہو گا کہ
اچانک میری آنکھ بلا کسی وجہ کے کھل گی۔مجھے ایسے معلوم ہوا کہ نیند کے کسی گہرے
تالاب سے خود بخود اوپر اٹھتا گیا اوررفتہ رفتہ جاگ کی فضا میں آنکھیں چپکنے لگا
تھا۔کچھ دیر چھت پہ آنکھیں گاڑھے بے خیالی سا دیکھتا رہا کہ اسی بے مقصدیت کی تہہ
سے ٹرننگ ٹرننگ کی آواز گونجنے لگی۔میں نے جلدی سے کریڈل اٹھایا اور اپنے اندر
برپا خوف کو قابو کرنیکی کوشش بھی کی۔لمبی سانس بھرنے کے بعد میں نے ہیلو کیا تو
دوسری طرف سے میرے متوقع خوف کی حقیقت بیان کی جا رہی تھی۔میں نے کچھ کہے بنا فون
آرام سے رکھا اور دھیرے سے ٹیرس پہ جا کر کمال کو موبائل سے کال کی اوراسے بتایا
کہ بریڈن کو جگا کر اسے سچ بتائو۔کمال کچھ ہچکچایا اور مزید پریشانیوں کی اڑان
کیطرف دیکھنے کو کہا۔آخر اس نیند سے جاگ کے سفر میں اک مماثلت اک زندگی کی مردگی
کی داستان بھی تھی اور اب وہ مکمل طور پہ مردہ ہوچکنے کے بعد سطح پہ تیر رہی تھی۔
"سر ایسا ہر
روز کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے، روز جانوروں پہ تجربات کئے جاتے ہیں اور وہ مر رہے
ہوتے ہیں۔ آپ اسے یہاں لا کر پہلے سےخطرہ مول چکے ہیں اور اب اپنے آپکو مزید
گرفتار مصیبت کرنے والے ہیں۔میرا اتنا قد نہیں کہ آپکو نصیحت کروں مگر میری مانیں
تو اس سے بہانہ کر کے معاملہ کو رفع دفع کریں وگرنہ اسکے بہت دوررس اور نقصاندہ
نتائج برآمد ہونیکا اندیشہ ہے۔"
"میں نے
تمھیں جو کہا ہے اسکے مطابق چلو۔بریڈن کو جگا کر اسے امینڈا کے پاس جا کر چھوڑ آئو
اور اس کمرے کو پیچھے سے لاک کر دینا اور بس۔بقیہ پنجروں پہ دھیان دور اور سیکورٹی
کے پوائنٹس پہ نظر رکھو، میں تھوڑی دیر میں تمھاری طرف آتا ہوں۔"
ابھی آدھے رستے میں ہونگا کہ گیئر بدلتے وقت کپڑوں میں نظر پڑی تو احساس ہوا کہ
میں سلیپننگ سوٹ میں ملبوس تھا،سگریٹ کی ڈبیہ بھی عادت سے ہٹ کر ساتھ رکھنا بھول
چکا تھا۔اپنے اندر نمایاں ہوتی تبدیلیوں کو احساس ہورہا تھا۔کچھ دیر بعد ٹرینڈ
پہنچ چکا تھا۔مطلوبہ کمرے میں اچانک داخل ہوا تو بریڈن امینڈا کے بگڑے ہوئی لاشے
کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ مجھے دیکھکر ششدر سا ہو گیا مگر میں نے ایسا رسپانس دیا کہ
جیسے میں نے کچھ نہ دیکھا ہو۔بریڈن سے معذرت کی اور امینڈا کے مردہ جسم کو دیکھ کر
میرے اندر کی سختی کی آخری تہہ بھی نرم پڑ کے جذبات کے ٹھنڈے پانی میں بہہ
گئی۔مجھے اپنے آپ سے نفرت سے ہونے لگی۔
"بریڈن
تمھارے پاس پانچ منٹ ہیں، اسکے بعد تم جہاں جانا چائو جا سکتے ہو، تمھیں مکمل
اختیار ہے۔مجھے آفس میں پانچ منٹ بعد ملو۔"
مجھے پکہ یقین
تھا کہ اس دوران اس نے زیادہ سے زیادہ ثبوت اکٹھے کیئے ہونگے اور میری آواز کی
کمزوری سے اسے معاملہ فہمی ہو چکی ہو گی۔کچھ دیر بعد بریڈن جیسے ہی کمرہ میں آیا
تو میں نے اک درجن فائلز اٹھا کر اسکے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیں۔اس میں امینڈا کے کیس
کے متعلق سبھی انفارمیشن ہے۔تم اب یہاں سے جا سکتے ہو۔
بریڈن نے حیرانگی کو
بالکل بھی اظہار نہ کیا بلکہ اس نے اپنی کیفیات کے پیش نظر فائلز اچکیں اور چلتا
بنا۔بیروت کو کنووں کا شہر بھی کہا جاتا ہے،یہاں جا بجا قدیم اور گہرے کنوویں
کھودے گئے ہیں۔ایسے ہی کچھ پرانے خواب بھی اب تکمیل سے ہو کر پھر سے تدفین کے عمل
سے گزارنے کا وقت تھا۔تانکہ آئندہ کوئی ایسے کواب دیکھنے کو چلے تو اس عبرت ملے
اور تصویر کا مکمل رخ نظر آئے۔شام گئے میڈیا ہائوسسز،جانوروں کے حقوق کی عالمی
تنظمیں حرکت میں آ چکی تھیں۔ ٹرینڈ کی مرکزی لیبارٹری، اسکے شیئر ہولڈرز، امینڈا
اور بریڈن کی تصاویر کیساتھ اک عدد میری تصویر بھی ہیڈ لائنز میں چل رہی تھیں۔
اینیمل رائٹ اور امینڈا کے نام سے ٹوئٹر پہ ہیش ٹیگ مقبول ہوگیا تھا۔رات دس بجے کے
قریب دروازہ میں اچانک دستک ہوئی اور میں سیدھا دروازہ کیجانب چل دیا۔ کسی جھجک
اور پریشانی کے بغیر،بیروت کی سرکاری پولیس مجھے گرفتاری کے وارنت لیکر آئی تھی۔
اسکے بعد کیا کچھ ہوا مجھے اسکا نہیں پتہ مگر اک عرصہ بعد جیل کی کوٹھری میں مکمل
سکون کیساتھ سونے کے قابل ہوا تھا۔دماغ کی سبھی قفل زدہ نسیں اب آزاد اور پرسکون
ہو چکی تھیں۔ٹھنڈے فرش پہ لیٹ کر جسم کیو ٹھنڈک کی لہریں میسر ہونے لگیں۔پلکوں کی
جھالر بھاری معلوم ہو رہی تھی، ایکبار پھر سے میرا جسم پانی کی تہہ میں اتر رہا
تھا۔
ختم شد۔