محسن شکیل کی نظمیں

محسن شکیل کی نظمیں

Feb 24, 2023

مصنف

محسن شکیل

شمارہ

شمارہ - ١٧

دیدبان  شمارہ ۔ ۱۷ 2023

'بوریت '          

محسن شکیل

خواب کے دستخط کیے تکیے            

رات کے پاس ایک بستر پر          

رکھ دیئے اوڑھ کر تری چادر

میں پھر آج شب نہیں سویا!

صبح چڑیوں کی گفتگو سے ہوئی    

دوپہر کام کر کے تھک سی گئی    

شام کافی کی تلخ چسکی میں      

بوریت فلم سے مٹائ گئی        

نظم نے حوصلہ بدن کو دیا      

اور امید اک کہانی نے  

چین پھر بھی کہیں نہ مل پایا !

۔......................................... ۔

'سنہ71'

    محسن شکیل

تیز ہوا تھی

ساحل پرجھکڑ چلنے سے

دل دہلا تھا

رستے جیسے گم تھے سارے

یاد ہے تم کو

اس شب گہرے پانی میں طوفان بہت جو اٹھا تھا

خالی کمروں اور آنگن میں جل تھل جو پانی سے ہوا تھا

سناٹے میں پیڑوں کی آواز بہت جو بھاری تھی

اک دہشت سی طاری تھی

گھبرائ سی چھت لگتی تھی

پگڈنڈی پر خوف کا کالا دیو اترا تھا

ہوا نے دیواروں سے یکسر

اپنا سر ٹکرایا تھا

کھڑکی پر بھی ہیبت کا افسوں بکھرا تھا

راز بتاوں

بھید یہ کھولوں

ہرگز وہ طوفان نہیں تھا

تم کو شاید پتہ نہیں ہے

وہ رونا تھا

آہ و بکا تھی

ٹوٹ پھوٹ کا اک لمحہ تھا

مجھ میں اک تقسیم کا گہرا

دکھ اترا تھا

غم دہکا تھا

میں تجسیم کے

کھو جانے کے

گہرے گھاؤ کا

صدمہ خود میں جھیل رہا تھا

منظر نامے کے پس منظر

آنسو ڈوبا سا منظر تھا !

تیز ہوا تھی

ساحل پرجھکڑ چلنے سے

دل دہلا تھا !!

دیدبان  شمارہ ۔ ۱۷ 2023

'بوریت '          

محسن شکیل

خواب کے دستخط کیے تکیے            

رات کے پاس ایک بستر پر          

رکھ دیئے اوڑھ کر تری چادر

میں پھر آج شب نہیں سویا!

صبح چڑیوں کی گفتگو سے ہوئی    

دوپہر کام کر کے تھک سی گئی    

شام کافی کی تلخ چسکی میں      

بوریت فلم سے مٹائ گئی        

نظم نے حوصلہ بدن کو دیا      

اور امید اک کہانی نے  

چین پھر بھی کہیں نہ مل پایا !

۔......................................... ۔

'سنہ71'

    محسن شکیل

تیز ہوا تھی

ساحل پرجھکڑ چلنے سے

دل دہلا تھا

رستے جیسے گم تھے سارے

یاد ہے تم کو

اس شب گہرے پانی میں طوفان بہت جو اٹھا تھا

خالی کمروں اور آنگن میں جل تھل جو پانی سے ہوا تھا

سناٹے میں پیڑوں کی آواز بہت جو بھاری تھی

اک دہشت سی طاری تھی

گھبرائ سی چھت لگتی تھی

پگڈنڈی پر خوف کا کالا دیو اترا تھا

ہوا نے دیواروں سے یکسر

اپنا سر ٹکرایا تھا

کھڑکی پر بھی ہیبت کا افسوں بکھرا تھا

راز بتاوں

بھید یہ کھولوں

ہرگز وہ طوفان نہیں تھا

تم کو شاید پتہ نہیں ہے

وہ رونا تھا

آہ و بکا تھی

ٹوٹ پھوٹ کا اک لمحہ تھا

مجھ میں اک تقسیم کا گہرا

دکھ اترا تھا

غم دہکا تھا

میں تجسیم کے

کھو جانے کے

گہرے گھاؤ کا

صدمہ خود میں جھیل رہا تھا

منظر نامے کے پس منظر

آنسو ڈوبا سا منظر تھا !

تیز ہوا تھی

ساحل پرجھکڑ چلنے سے

دل دہلا تھا !!

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024