محبت کا اِن ایکٹو جرثومہ، بساط بھر دنیا اور تاب محبت،

محبت کا اِن ایکٹو جرثومہ، بساط بھر دنیا اور تاب محبت،

Jun 25, 2024

‎(محبت کے موضوع پر افسانوی ثلاثیہ (ٹرائیولوجی

مصنف

نعیم بیگ

نعیم بیگ کا تعلق پاکستان کے ادبی مرکز لاہور سے ہے۔ آپ بنیادی طور بینکار ی اور انجینئرنگ مینجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ۔بعد ازاں انہوں نے ناول اور افسانے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھے "کوگن پلان"انگریزی ناول مقبول ہوا، اردو میں افسانوی مجموعہ "یو ڈیم سالا" اور" پیچھا کرتی آوازیں" ہے ۔ اس طرح انہوں نے دونوں زبانوں کے ادب میں اپنی پہچان مستحکم کی۔ اِن کا پہلا اردو ناول ’ ڈئیوس،علی اور دِیا‘ تاریخی حوالوں سے عصری سماجی المیوں و اقتدار کی راہداریوں میں پائی جانے والی سازشوں کوآشکار کرتے ہوئے قاری و نقاد کو فکر و خیال کی دعوت دیتا ہے۔


‎(محبت کے موضوع پر افسانوی ثلاثیہ (ٹرائیولوجی

پہلی کہانی

محبت کا اِن ایکٹو جرثومہ

نعیم بیگ لاہور ۔

میں قومی سطح پر ایک سرکاری میٹنگ کی صدارت کر رہا تھا ۔ انسانی جانوں کا مسئلہ تھا۔ ملک بھر میں کورونا وائرس سے پھیلی وباءسے اموات بڑھ رہی تھیں ۔ عالمی اداروں سمیت مختلف ملکوں سے نِت نئی آراءسامنے آ رہی تھیں۔ ہم مخمصہ کا شکار تھے کہ کس طرح اس پینڈیمک عفریت پر قابو پائیں۔ آج ہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک خاتون ڈائریکٹر کی بہت اہم رپورٹ کو زیر بحث لا رہے تھے، جو کورونا وائرس پر امریکا میں بہت اہم کام کر چکی تھیں اور اب اس کی ویکسین پر آخری مہر ثبت کرنے والی تھیں۔شرکاءاجلاس گفتگو کر رہے تھے کہ میں نے یونہی رپورٹ کے صفحات کو الٹتے پلٹتے آخر میں جب مصنفہ کا نام حورعین عدنان پڑھا‘ تو یکلخت کرسی میں اندر کو دھنس گیا۔ دو دھائی پہلے کے واقعات فلم کی مانند سامنے آگئے۔ میں نے شرکاءسے کچھ دیر کی معذرت کی اور ریٹائرنگ روم میں چلا آیا۔

یہ اِن دنوں کی بات ہے جب میری راتیں ویران ہونا شروع ہوئیں تھیں۔ چاند کی آہٹ سے لے کر اس کی رخصتی تک نیند سے کوسوں دور آنکھیں خلا ءمیں گھورتی رہتیں۔ کسی پل چین نہ آتا۔ دل تھا کہ جیسے اِس نے ٹھہرنا سیکھا ہی نہیں۔ جب کسی شئے کو پالینے کی خواہش میں عقلی بنیادوں پر ہزاروں رکاوٹیں حائل ہوں تو احساسِ حصول تند و تیز ہوکر روح تک کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔

بچپن اور لڑکپن کی تلخ ناآسودگیاں، غربت و افلاس اور سماجی احساسِ کمتری دور اندر تک جاگزیں ہو چکنے والے کسی انسان سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

اِس سب کے باوجود فطرت نے مجھے بے حد ذہنی صلاحیتوں سے بھی نوازاتھا۔ جنون سے آشنا لہروں کا ساحل سے مسلسل ٹکرانا اور طلاطم ذہانت سے جڑا میری روح کا جوہر بنا۔ جب خود طے کر لیا کہ اسکول میں فرسٹ کلاس آنا ہے‘ تو دن رات پڑھ کر نیندیں حرام کر لیں، لیکن ٹاپ کر کے ہی اسکول چھوڑا۔ جب یہ طے کر لیا کہ سول سروس میں جانا ہے‘ تو داخلے کی فیس تک مزدوری کرکے حاصل کی اور امتحان میں بیٹھ گیا۔ میرٹ میں اوپر آنے سے گروپ اچھا ملا۔ سو یوں میرے اندر ایک انوکھا سا بائیولوجیکل امتزاج پیدا ہو چکا تھا ، جو افتادگیِ طبع کا باعث بھی تھا۔

شام فرصت کے اوقات میں سرکاری گھر کے وسیع و عریض لان میں پورے جسم پر چادر لپیٹ کر دیہی انداز سے صوفہ نما کرسی پر گھنٹوں بیٹھا رہتا اور سگریٹ پھونکتا رہتا۔ نوکر جا چکے ہوتے۔ گارڈ زاپنے گارڈ رومز میں ہوتے ۔ عالیہ حسبِ معمول فون پر اپنی کزنز سے مصروف گفتگو رہتی اور گاہے گاہے ایک نظر ہمارے بیڈ روم سے ملحقہ چھوٹے سے سیلف میڈ لکڑی کے کمرے میں ڈال لیتی جو میں نے چار سالہ مانو کی سہولت کے لئے گزشتہ برس یہاں شفٹ ہوتے ہی بنوا لیا تھا۔ عالیہ کا خیال تھا کہ بچوں کو شروع دن سے ہی الگ کمروں میں رہنا چاہیے تاکہ ان کا ذاتی اعتماد بحال رہے۔ میں اس معاملے میں کوئی رائے نہیں رکھتا تھا سو بات مان لی۔

یوں تو سرکار کی نوکری میں اب وہ طنطنہ اور دبدبہ نہیں رہا ، جو اگلے وقتوں میں اس نوکری کا فخر تھا۔ تاہم اگر آپ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں ہیں تو زندگی اتنی مشکل نہیں رہتی۔ ابتدا میں اِس ضلع میں کچھ مسائل تھے، لیکن مارشل لاءکے زمانے میں ضلعی ترقیاتی کام کاج اور سرگرمیوں میں چونکہ سیاسی مداخلت نہیں ہوتی لہذا متعلقہ اداروں کے افسران اپنی مرضی سے کام نبٹاتے رہتے ہیں اور مقامی سیاست دان رخنے نہیں ڈالتے۔ سواب میرا کام بھی بڑی حد تک ہموار تھا۔ کارِ سرکار بے حد ہموار سطح پر ہونے سے سرکاری فائلوں پر جو اکثر رات بھر میں بیٹھ کر فیصلے دیا کرتا تھا، اب تقریباً ختم ہو چکی تھیں۔

بحیثیت ڈپٹی کمشنر یہ میری تیسری پوسٹنگ تھی ۔ پچھلے شاندار تجربے اور اچھے افسران کے ساتھ بہترین تعلق اور کارکردگی پر میں ہمیشہ سر فہرست ہی رہا۔ اس کارکردگی میں بڑا حصہ میرا وہ ماتحت سٹاف ڈال دیتا ،جنہیں میں بطور خاص تگ و دو کر کے اپنے ضلع میں تعینات کرواتا۔ انہیں معلوم تھا کہ غضنفر علی آفندی خود کھاتا ہے اور نہ کھانے دیتا ہے۔ اَپ رائٹ ہونے کی میری شہرت اوپر تک واضح تھی۔ دوسرے قانونی معاملات میں میری اپروچ بے حد فطری انصاف پر مبنی ہوتی، جس سے سائل و شکایت کنندہ مطمئن رہتے۔

یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ میرے ایک دیرینہ اسکول کلاس فیلو خالد میرے ضلع میں ڈاکٹر تعینات ہوا۔ خالدمجھے ملنے آیا، تو میں بے حد خوش تھا۔ ایک عرصہ بعد ملاقات ہو رہی تھی ہم نے خوب باتیں کیں۔ ان کے ساتھ ایک نہایت ہی خوبصورت لڑکی بھی تھی۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ کوئی ماڈل وغیرہ ہو۔اِس کا تعارف خالد نے یہ کہہ کر کرایا کہ وہ ان کے پاس کسی مشترک دوست کی سفارش لے کر آئی ہے۔

وہ لڑکی بنیادی طور پر ایک بائیولوجیکل ریسرچر تھی جو کسی این جی او کی طرف سے وائرالوجی کے کسی خاص جرثومہ پر ریسرچ کر رہی تھی جو دیہی علاقوں میں انسان اور جانوروں کے ایک ساتھ رہنے سے وجود میں آتا ہے۔ اسے کسی سرکاری ہوسٹل یا ریسٹ ہاؤس میں ایک آدھ مہینے کے لئے بورڈنگ لاجنگ درکار تھی۔ چونکہ ضلع پسماندہ تھا تو اس میں کوئی بہت زیادہ ہوٹلز یا موٹلزوغیرہ نہیں تھے ۔ دن بھر وٹنریری اور دیگر ہیلتھ سٹاف سے رابطہ کے بعد اس کو پر سکون اور محفوظ رہائش کی ضرورت تھی ۔ جس میں اگر ممکن ہو تو انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر ہو۔

میں نے اسی وقت اپنے سول لائنز ایریا کے افسر کو بلایا اور سرکاری ریسٹ ہاؤس کا بہترین کمرہ خاتون کو دینے کا کہہ دیا۔ خالد اور وہ لڑکی بے حد خوش ہوئے اور تھوڑی دیر بعد چائے وغیرہ پی کر ایک ساتھ نکل گئے۔ چلتے چلتے لڑکی نے مجھے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا جسے میں نے شکریہ کے ساتھ بے اعتنائی سے پڑھے بغیر دراز میں رکھ دیا۔

چند دن یونہی گزر گئے۔ ایک دن آفس میں ٹی بریک کے وقت مجھے یاد آیا کہ کئی روز ہوئے خالد سے ملاقات نہ ہوئی ہے ۔ میں نے اپنے پی اے کو ڈاکٹر خالد سے بات کرانے کو کہا۔ تو معلوم ہوا کہ خالد کئی روز ہوئے لاہور جا چکا ہے۔ جب خالد کے ایک کولیگ سے رابطہ ہوا تو اُس نے بتایا کہ خالد تو انگلینڈ پہنچ چکا ہے ۔ اِس کا ایف آر سی ایس کا امتحان تھا، جس کی اطلاع تاخیر سے ملی تو وہ بمشکل وقت پر وہاں پہنچ سکا۔ بات سمجھ میں آگئی کہ کیوں وہ اچانک بنا اطلاع نکل گیا۔خالدآج بھی انگلینڈ میں ہے ۔

ایک دن شام کو میں لان میں بیٹھا دفتر کی کچھ فائلیں نبٹا رہا تھا کہ قاصد نے اطلاع دی کہ کوئی خاتون ملنے ٓئی ہیں۔ میں نے پوچھا کون ہیں اور کیوں ملنے آئی ہیں ؟ اس نے ایک کارڈ مجھے تھما دیا۔ حورعین عدنان مائکرو بیالوجسٹ ۔۔۔ کارڈ دیکھتے ہی مجھے یاد آیا یہ تو وہی لڑکی ہے جو خالد کے ساتھ آئی تھی اور اسے میں نے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں جگہ دلوائی تھی۔دِل میں ایک کسک تو پہلے دن سے ہی موجود تھی۔ خالد کا ریفرنس بھی تھا‘سو انکار کرنا ممکن نہ تھا۔ میں نے اندر بلا لیا۔

کام سے فارغ ہوتے ہی جب میں لڑکی کی طرف متوجہ ہوا تو وہ آج مجھے پہلے سے کہیں زیادہ حسین لگی۔ میں فوراً متاثر ہونے والا شخص نہ ہوں، لیکن اس لڑکی میں ناجانے کیا جادو تھا کہ مجھ پر اس کا سحر طاری ہو گیا۔ میں نے سوچا اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ میں عالیہ کو بھی شام کی چائے پر یہیں لان میں بلا لیتا ہوں ۔ ارادہ تھا کہ اس پری پیکر کو کھنگالا جائے تاکہ اس کا پس منظر تو معلوم ہو۔ یہ سوچ کر میں نے بٹلر کو آواز دی اور عالیہ کو بلا بھیجا اور کافی کا کہہ کر لڑکی سے گفتگو شروع کردی۔

حورعین نے بتایا کہ وہ اپنے کام کا بیشتر حصہ مکمل کر چکی ہے ۔ جس زونوسس وائرس پر وہ کام کر رہی ہے جو عموماً جانوروں سے انسانوں میں داخل ہوتا ہے اس کے بعد انسان سے انسانوں تک پھیلتا ہے۔ وہ اب چند دنوں میں ہی یہاں سے چلی جائے گی۔ دراصل وہ شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔

وہ لڑکی مجھے بے حد بااخلاق لگی ۔ لباس اس کے متناسب جسم پر بے حد دل آویز تھا ۔ جسم سے اٹھتی ہوئی دلفریب مہک اور اس کی کھنکھناتی آواز سے مجھے انس سا ہونے لگا۔ جب اس نے بے تکلفانہ انداز میں بتایا کہ وہ مجھ سے بے حد متاثر ہے کہ میں نے اس قدر اوائل عمری میں ہی پروفیشنل کامیابیاں سمیٹ لی ہیں‘ تو اندر کے برسوں کے زنگ خوردہ احساسِ کمتری کو جیسے کسی نے اتار پھینکا ہو اور ملائم و نفیس سطح ابھری ہو جو روح کو مزید لطیف کردے۔ میں کھِل اٹھا۔ ہم جوں جوں باتیں کرتے جا رہے تھے توں توں میرے اندر یہ خواہش پیدا ہونے لگی کہ کاش عالیہ یہاں نہ آئے اور ہم گھنٹوں باتیں کرتے رہیں۔

بٹلر کافی رکھ کر جا چکا تھا۔ میں حورعین کے سراپے میں کھویا ہوا تھا کہ وہ اچانک تعظیماً کھڑی ہوگئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو عالیہ مانو سمیت آرہی تھی۔ میں نے حورعین سے عالیہ اور مانو کا مختصر تعارف کروایا۔ حورعین نے بڑے بے تکلفی سے مانو کو گود میں بٹھا لیا اور پیار کرنے لگی۔ تاہم عالیہ کی آمد پر گفتگو کا رخ نجی گفتگو کی جانب مڑ چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اکلوتی بیٹی ہے ۔ ابا مر چکے ہیں اور اماں ٹیچر ہیں، اماں ہی اسے تعلیم دلوائی ہے ۔ ابا کی پنشن پر گزر بسر ہوتاہے۔ دونوں لاہور کے متوسط علاقے میں رہتے ہیں۔

کچھ دیر فیملی گفتگو ہوتی رہی۔ پھر عالیہ مانو کو لیکر اندر چلی گئی۔ فائلیں لینے کے لئے میرا پی اے دفتر سے آیا بیٹھا تھا سو میں نے اسے بلایا اور تمام فائلیں حوالے کیں ۔ میرا خیال تھا کہ حورعین بھی اب اجازت لے گی، لیکن وہ میری طرف بے حد التفات بھری نظروں سے دیکھتی رہی مسکراتی رہی اور بیٹھی رہی۔میں اور حورعین دونوں اکیلے بنا گفتگو کئے کچھ دیر یونہی بیٹھے رہے۔ اس اثنا میں ہم دونوں اپنے اپنے

موبائلوں پر میسجز دیکھتے رہے۔

مجھے محسوس ہوا کہ اب جو گفتگو ہو گی‘ اس کے لئے بھرپور تعلقات کی اشد ضرورت ہے‘ ورنہ گفتگو سطحی اور پر تکلف ہی رہے گی۔

اچانک حورعین نے میری خاموشی کو ملاقات کا اختتام سمجھتے ہوئے مجھ سے اجازت مانگ لی اور کہا ۔ کبھی موقع ملے تو ہمارے گھر ضرور تشریف لائیں۔ اب اس لمحے اسے روکنا مجھے مناسب نہ لگا ورنہ میرا خیال تھا کہ آج ڈنر ایک ساتھ کریں گے۔

وہ چلی تو گئی لیکن یوں جیسے گردباد اپنے پیچھے تباہی کی پوری داستان چھوڑ جاتاہے۔ دوبارہ ملنے کی دعوت آنکھوں سے جھانکتی دل کے اندر کا حال منکشف کر رہی تھی ۔ انداز دلربائی بے حد ملتفت تھا۔ رات بھر جاگنے اور سوچنے کے بعد مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس قدر مجھ میں اترتی کیوں جا رہی ہے۔ ناجانے مجھے اس کی آنکھوں میں سچائی نظر آرہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی قسم کی کوئی جنسی اختلاط کی دعوت ہو یا انفیچوئیشن نظر آتی ہو۔ پسندیدگی کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں جو دوسرے انسان کو بے بس کر دیتی ہیں بالخصوص جب دعوت جنسِ مخالف کی طرف سے ہو اور پسندیدگی سے بھرپور دلی جذبات آنکھوں سے آشکار بھی ہورہے ہوں۔

میں سر جھٹکتا رہا کہ ابھی میری شادی کو بمشکل سات آٹھ برس ہوئے ہیں ۔ میں جنسی طور پر مکمل آسودہ حال شخص ہوں ایک بیٹی کا باپ ہوں اور وفا شعار بیوی کا شوہر ہوں ۔گو عالیہ میرے لیے ہمیشہ ایک بے جان جسم کا ٹکڑا ہی ثابت ہوئی کہ اس نے کبھی دلربائی نہیں دکھائی ۔ نہ ہی کبھی ناز و نخرے۔ میں ہمیشہ خود کو تسلی دیتا اور یہ احساس رکھتا کہ وہ کوئی طوائف تھوڑی ہے جو میرے چونچلے اٹھائے گی۔ وہ ایک سنجیدہ لڑکی ہے جو اپنے شوہر اور گھر سے مخلص ہے۔ اس سب احساس کے باوجود حورعین نے میرے اندر سب کچھ ہلا دیا تھا۔ میں اپنے آپ سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔

چند دنوں بعد مجھے ایک میٹنگ میں لاہور جانا پڑا۔ میں پہلا دن تو سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا۔ دوسرے دن مقامی ہوٹل میں شفٹ ہوگیا اور حورعین کو بتایا کہ میں ایک میٹنگ میں یہاں کل تک موجود ہوں۔ اگلے دن حورعین صبح آٹھ بجے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔ہم نے ایک ساتھ ناشتہ کمرے میں ہی کیا۔ بارہ بجے مجھے چیک آوٹ ہونا تھا ، تب تک ہم ساتھ تھے۔گفتگو تھی کہ ختم ہی نہ ہو رہی تھی۔ حورعین کی قربت کا احساس مجھے پاگل کر دے گا، مجھے قطعی علم نہ تھا۔ گو میں بے حد پرسکون، سنجیدہ سوچ و فکر رکھنے والا اور حد درجہ عقلیت پسند ہوں لیکن ناجانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ ہم دونوں کی روحیں شاید جنم جنم کی ساتھی رہی ہوں۔کتابوں کی پڑھی باتیں تھیں یا اس کے حسن ِ جمال کا کرشمہ تھا،میں فیصلہ نہ کرسکا۔

اچانک فون کی گھنٹی نے مجھے جیسے جگا دیا ہو۔ ڈرائیور نے آمد کی اطلاع دی تھی۔ شام تک میرا ضلع پہنچنا ضروری تھا۔ لہذا بادلِ ناخواستہ اس بار میں نے اجازت چاہی‘ توحورعین نے چلتے چلتے مجھے کہا ۔

”کیا دوستوں کو اس طرح رخصت کیا جاتا ہے؟ “

” میں دل میں گھر بنانے والوں کو کبھی رخصت نہیں کرتا “۔ یہ کہتے ہوئے میں اس کی جانب بڑھتا چلا گیا۔

لمحوں کی سیج پر پگلنا کوئی آسان کام نہیں ، لیکن ایسا ہوا ۔ وہ چند ہی ساعتوں میں مضبوط عمارت کو ملیامیٹ کر کے مسکراتی ہوئی نکل گئی۔

میں گھر پہنچا تو ایک بدلا ہو انسان تھا۔ دنیا کی ہر چیز حسین اور قابلِ ستائش تھی ماسوائے عالیہ جس کے ٹھنڈے پن نے میرے اندر اتر کر مجھے براعظم انٹارکٹیکا کی برفیلی وادی بنا رکھا تھا۔زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے۔ خواہشات کی نرم گرم وادیوں میں اترنا اچھا لگنے لگا۔لباس میں کانٹ چھانٹ اور فیشن ابھرنے لگا۔ سچ پوچھیں یہ انداز تو میرے کبھی کالج یونیورسٹی میں نہ تھے۔ میں دل میں ہنستا۔ اس بار کیوپڈ وار کر گیا ہے۔ بچ کر دکھاؤ؟

ساحلوں سے لگے سفینوں میں جھنڈے بدلنے لگے ۔ لیکن مجھے یہ احساس ہی نہ ہوا کہ طوفان کی آمد نے میرے چاروں طرف ایک خاموشی سے طاری کر دی تھی۔ روز رات دیر گئے تک بات ہوتی تو عالیہ کو الجھن ہونے لگی۔ میں کام کے بہانے کیمپ آفس جو گھر کی انیکسی میں ہی تھا ، مصروف رہنے لگا۔ اس حد تک کہ کھانا بھی وہیں کھا لیتا۔اور پھر ایک دن نا چاہتے ہوئے بھی حورعین کے گھر پہنچ گیا۔

میں سرکاری افسر ہونے کے باعث اپنی ساکھ کا بے حد خیال رکھنے والا شخص تھا۔ حورعین کے گھر ایک پرائیویٹ ٹیکسی پر پہنچا تھا ۔ ٹیکسی وہیں روک لی تھی۔

ملاقات کیا ہوئی بس یوں سمجھئے کہ لوہا پگل کر نئی ساخت اختیار کر رہا تھا۔حورعین کی ماں ایک جہاندیدہ عورت تھیں، انہوں نے میرے اور حورعین کے اندر بیک وقت برپا ہونے والے اُس طوفان کو بھانپ لیا ‘ جو خاندان کے خاندان اجاڑ دیتا ہے۔ کہنے لگیں بہتر ہے کہ تم دونوں اچھی طرح سوچ لو کہ مستقبل میں کیا کرنا ہے؟ ورنہ اس آگ کے دریا میں اترنے کی ضرورت نہیں۔

میں نے حورعین کے ساتھ شمالی علاقوں کی خاموش وادیوں میں جانے کا سوچا، تاکہ تسلسل سے میسر آنے والی ممکنہ تنہائی شاید اس طوفان سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھا دے۔

چند دنوں بعد ہم گلگت کے ایک ہوٹل میں پہنچ گئے۔ میں نے اپنی سرکاری حیثیت کو کیموفلاج کر لیا تھا‘ تا وقت کہ ہم کسی نتیجے پر نہ پہنچیں۔ گلگت کا موسم شاندار تھا۔ فائیو سٹار ہوٹل کی بالکونی سے دور فطری مناظرمیں ڈوبے ہوئے دو انسان پہلی بار تاریخ کے پنّے پر لکھے اُسی واقعہ کو دھرا رہے تھے جس کی بدولت آدم کو باغِ عدن سے نکالا گیا۔ ہم دونوں کسی سنگین جرم کے ارتکاب کی خلش میں مبتلا باغِ عدن کے شجرِ عقلیت سے راہنمائی کے متمنی تھے۔ باغِ رضوان سے باغِ شدّاد کا سفر کسی طور پر مستقبل کے طوفانوں کو روک سکنے کی صلاحیت کو سلب کر دینے پر کسی دلیل کو سننے کو تیار نہ تھا۔ صرف معروضیت ایسا مخمصہ تھا، جسے ہم دونوں نے میسر اپنی ذہانت سے ہی حل کرنا تھا۔

بالآخر حورعین نے ایک حل نکال لیا۔دوسرے دن شام کی چائے پر ہم بالکونی میں بیٹھے شام کی خنک ہواؤں میں بیتے دنوں پر گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک حورعین نے کہا۔

غضنفر ! ہمارے ملاپ کی ایک ہی صورت ہے۔

وہ کیا؟ میرے چہرے پر مسرت پھیل گئی۔

کہ تم میرے سوشل سٹیٹس پر اتر آؤ۔

”کیا؟“ میں بھونچکا رہ گیا۔

”میں عالیہ اور مانو کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں نے اِن کی سماجی ذمہ داری اٹھائی ہے۔“

میں نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

” تب میں تین ہاتھوں کو کیسے پکڑ سکتی ہوں۔ میرے اپنے دو ہاتھ ہیں

وہ اپنے ہاتھ کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ اس کی دلیل سچائی پر مبنی تھی۔

"میری جان! تم قربانی دے سکتی ہو؟ جس سماج میں ہم رہتے ہیں یہاں اس کی مذہبی اجازت ہے۔  "میں نے کہا۔

” جس سماج میں میرا مستقبل ہے وہاں اس کی کوئی صورت نہیں۔ وائرالوجی میں میرا مستقبل یہاں نہیں ہے۔ مجھے ابھی مزید علم حاصل کرنا ہے۔ اب شجرِ علم سے میرا رابطہ ہو چکا ہے۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔

” جس رابطے پر تمہیں فخرہے‘ اس کا راستہ تو میرے دل سے گزرتا ہے۔“ میں اپنے تفاخر کی دہلیز سے مسکرایا۔

” ڈارلنگ! یہیں تم غلطی کر رہے ہو ‘جسے تم دل کہتے ہو وہ تمہارا ذہن ہے۔ وہی تمہیں معروضیت کا احساس دلا رہا ہے۔ “

اس کے چہرے پر ملال کی ایک لہر آئی اور تیزی سے گزر گئی۔” تم اکیلے ہی آبجیکٹ ازم کا شکار نہیں ہو۔ میں بھی ہوں۔

” تو بس۔۔۔ پھر اپنے اپنے رستوں پر ندی کے نہ ملنے والے دو کناروں کی طرح چلتے رہتے ہیں۔“

میں انجانے خوف میں پیچھے ہٹنے لگا۔

وہ خاموش ہو گئی۔

ہم نے گلگت کی اداس فضاؤں میں ایک دوسرے کو الوداع کیا اور اپنی اپنی زندگیوں میں خاموشی سے واپس داخل ہوگئے۔

تب سے ہم دونوں کے دل میں پیار کا ایک اِن ایکٹو جر ثومہ اندر کہیں چپک کر رہ گیا ہے ،جو کبھی کبھار خودبہ خود ایکٹو ہو کر دل و دماغ میں نئے سرے سے توڑ پھوڑ شروع کردیتا ہے۔

۔۔۔۔

نعیم بیگ لاہور ۔ 22/مئی۔ 2020ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت کے موضوع پر ثلاثیہ (ٹرائیولوجی)

دوسری کہانی

بساط بھر دنیا

۔۔۔

پہاڑوں سے اچھلتا جھاگ پھیلاتا نیچے کی طرف گول گول چکنے پتھروں پر بہتا شفاف پانی جب پرسکون ندی میں آن ملتا ہے‘ تو میرے خیال میں اسے خود بھی پر سکون ہو جانا چاہیے، لیکن میں نے ایسا کم ہی دیکھا ہے۔ اس شوریدہ سر بہتے پانی کو پرسکون میدانی فضا میں ندی کی دھیمی اور بے آواز روانی کبھی راس نہ آئی۔ اس نے ہمیشہ بغاوت کی کوشش کی ‘ اور اگر کچھ نہ ہو سکاتو کناروں سے اچھل ا چھل کر نزدیکی آبادیوں کو اپنے جنون کا پیغام بھیجنا‘ اس کی دیوانگی نہیں تو اور کیا کہی جا سکتی ہے۔

وہ تھی تو برسات رت میں شگفتہ کلی کی مانند ’ پر بات بے بات دل دہلا دینے میں اسے مہارت حاصل تھی ۔

الفت میں بھٹکی ہوئی ان سونی سونی راہوں کی مانند یادیں‘ برسوں کی پیاس لئے مجھے آج بھی بے چین کرجاتی ہے۔

اچھا ٹھہریے! یوں شاید اپنی بات سمجھا نہ پاؤں گا۔

آئیے اِس بوتہ خاک کو ابتدا سے دیکھتے ہیں۔

وہ دن میری زندگی کا انوپ دن تھا۔اُس دن نفیسہ بہت خوش تھی۔ لہرا لہرا کر میرے کلّوں پر انگلیوں سے نقش بناتی۔ جب میرے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیرتے ہوئے انھیں یکلخت بکھیر دیتی تو خوب ہنستی۔ میں نے وفورِ جذبات میں جب اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا ’ اور اس کی انگلیاں چٹخانے لگا ‘تو وہ بیک وقت درد اور ہنسی میں اپنے دوسرے ہاتھ سے مجھے نوچنے لگی۔

چھوڑو مجھے۔۔۔ چھوڑو‘ نا ! بدتمیز انسان۔۔۔

وہ ہنستی ہنستی اچانک خاموش ہو گئی۔ میں نے اس کے چہرے پر کرب کے سائے دیکھے۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔

'میں بول اٹھا۔ ' کہو! نفیسہ ۔۔۔ تم کچھ کہنا چاہ رہی ہو؟

تب اُس نے مجھ سے بنا کسی جھجھک اپنی خواہش کا اظہار کیا تو میرے جسم میں جان نہ رہی۔ میرے وہم و گمان میں بھی کبھی ایسا نہ تھا۔ میں اِس کی بات سن کر اندر سے دہل سا گیا۔ کیا ایسا ممکن ہے میرے لئے؟

یہ کیا کہہ رہی ہے؟

اچھا اب آپ پوچھیں گے کہ یہ نفیسہ کون ہے ؟

رکیے‘ میں تفصیل سے اس پورے معاملے کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

نفیسہ میری دوسری بیوی ہے۔ بے حد خوبصورت ہے۔ سچ پوچھئے کہ تخلیق کار نے اس کی تراش خراش اور رنگ و روپ میں ممکنہ حد تک مبالغے سے کام لیا ہے۔ ممکن ہے وہ اِس پری چہرہ کو صرف اپنے لئے مختص کرنا چاہتا ہو‘ لیکن وہی بنیادی غلطی کہ اسے خود اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ اب اپنے ہاں اس نے اپنی تخلیقی مہارت اور بجھارت کو استعمال میں کہاں لانا تھا۔ سارا آفاقی پروگرام ہی نا بدل جاتا۔ سو آدم کے سر مونڈھ دی گئی۔

میری پہلی بیوی عارفہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ میں بھی انھی کے ساتھ ہی رہتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھار الگ ہوجاتا ہوں۔ بس وہ الگ رہنا کیا ہے؟ یوں سمجھئے کہ ہم اپنے اپنے انتظامی یونٹس میں رہتے ہیں۔

نفیسہ ابھی تک ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ہم دونوں نے اپنی شادی کو اپنے اپنے خاندان سے خفیہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے شادی کے لئے چند دوستوں کو بتانا پڑا تھا۔ اِس نے تو سرے سے کسی کو شامل حال ہی نہ کیا۔ صرف اِس کی ماں جانتی ہے کہ وہ میری منکوحہ ہے۔

ملاپ کے لئے ہم اکثر طویل سفر پر نکل جاتے اور چند دن ایک ساتھ گزار کر واپس اپنی اپنی دنیا میں لوٹ جاتے۔ شادی کو خفیہ رکھنے کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ نفیسہ کا موقف ہے‘ کہ اسے اپنی شادی کو اس لئے اُس وقت تک خفیہ رکھنا ہے جب تک اس کی چھوٹی بہن کی شادی نہ ہوجائے اور وہ خود بھی اپنے پروفیشن میں کسی مقام پر نہ پہنچ جائے۔

دراصل وہ ایک مقامی کالج میں استاد ہے۔ ادب و آرٹ سے پیار کرتی ہے‘ بے حد باذوق ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ وہ جلد ہی پروفیسر کے عہدہ پر ترقی پا جائے گی۔

مجھے تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔ میں اِسی شہر کا جانا پہچانا سائکارٹسٹ ہوں۔وہی روٹین کی پیسے بنانے والی مشین کہہ لیں یا ڈاکٹر؟

میرے لئے اس شہر میں ہر شخص اپنی نوعیت میں ایک الگ ذہنی مریض ہے۔ جب وہ کسی خاص مسئلے کے تحت مجھ سے رابطہ کرتا ہے تو تین چار سیشن میں ان کی خوب خدمت کرتا ہوں۔ اگر وہ جواباً کچھ مزید دینے کے قابل نہ ہو ں تو میں برا نہیں مناتا، بس اسے طویل عرصے کے لئے نسخہ دے کر چھوڑ دیتا ہوں ‘ تاکہ وہ اپنی زندگی میں خوش رہے۔

آپ سمجھ رہے ہیں نا!

نفیسہ میری سٹوڈنٹ تھی ‘جب وہ مجھ پر مر مٹی تھی۔ آج ملاپ ہوئے چار برس گزر چکے ہیں۔اُس نے قصداً اولاد سے اجتناب برتا‘ اور خود مجھے بھی اولاد کی کوئی خاص تمنا نہ تھی‘ کہ پہلی بیوی سے میری اولاد ہے اور وہ سب اپنی اپنی دنیا میں مست اور خوشحال ہیں۔

اب چند دنوں سے نفیسہ کچھ بے چین سی لگ رہی تھی۔ شادی سے پہلے دو برس اور بعد ازاں اگلے دو برسوں میں ہم نے جسماجی تعلق کو بہت اہم سمجھا تھا۔ لیکن سچ پوچھئے تو میں نفیسہ کی محبت اور جسم دونوں میں گرفتار ہوں۔ وہ عادت کی بہت اچھی ہے۔ ہمیشہ کمپرومائز کرنا ، ہمبل رہنا اور محبت میں اظہار کو عشق کی بنیادی کلید سمجھنا‘ اس کے لئے بہت اہم ہے۔ وہ سگمنڈ فرائیڈ کی قائل نہ ہے‘ جس نے عورت کو ہمیشہ تبدیلی سے عاری سمجھا اور ایک حد تک غیر فعال (پیسوو)کہا ہے

لیکن حقیقت یہ کہ وہ اپنے باطن میں فرائیڈ کی ” پینس انوائے“ کی لغوی مثال ہے۔

یہ سب کچھ میں نے اس کے ساتھ جسمانی تعلق یا یوں کہہ لیں شادی کے بعد جانا۔ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اس قدر پرجوش اور بے چین ہوتی کہ میرے پورے جسم کو اپنے اندر اتار لینا چاہتی تھی۔ وہ اپنے جسم میں عضوِ تناسل کی کمی کو علامتی سطح پر مجھے منفیت کا نشانہ بناتی اور جوابی طور پر میرے وجود کو کسی مرد کی بجائے عورت کا جسم سمجھتی تھی۔

اِس بات کا اظہار لاشعوری طور پر اُن ہیجان خیز لمحات میں خوب کرتی‘ جس میں مجھے کبھی کبھار فزیکل تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔

خیر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے ایک دوسرے کے وجودی امکانات کی عمیق گہرایوں سے اورشعوری طور پر محبت کے اظہار کو زبان دے کر زندگی کا خوب لطف اٹھایا۔

ابتدائی تین برس تو چٹکیوں میں گزر گئے۔ تب رفتہ رفتہ ہم دونوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ ہم تنہا ہوتے جا رہے ہیں اور کہیں کہیں اپنی اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوش بھی۔

پھر یہ ہوا کہ ہماری گفتگو کا محور یہی موضوع رہنے لگا۔

بظاہر اس دوسری شادی کے بعد میرا کچھ بھی سٹیک پر نہ تھا۔ بل کہ میں قدرے بہتر پوزیشن میں تھا۔ تاہم نفیسہ کے اندر مجھے ایک عجیب سی بے چینی ابھرتی نظر آ نے لگی۔ کبھی کبھار تو وہ اِس خفیہ شادی کے تعلق پر پڑھی لکھی ہونے کے باوجود مباح کی بحث میں بھی الجھ جاتی۔ جو میرے لئے سوہان روح ہوتا۔ آپ کی منکوحہ جب گناہ کی دہلیز سے آواز دے تو مرد کے لئے مشکل تو ہو جاتی ہے نا۔

چونکہ میں اِس کے نفسیاتی خلاءکو سمجھتا تھا‘ سو نظر انداز کر دیتا ۔

بحیثیت نفسیات دان مجھے نفیسہ کے اندر جلتے ہوئے الاؤکے پیش نظر یہ احساس ہونے لگا کہ شاید وہ مجھے ایک مُبرِّد کے طور پر اپنی زندگی میں لائی ہے۔ایک ایسا آئس برگ جو جلتے الاؤ کو رفتہ رفتہ ٹھنڈا کرتا جائے۔

 اس الاؤکو مسلسل آگ بجھانے والے ایک آلے کی ضرورت تھی‘ ورنہ وہ سماجی زندگی سے یوں نہ الگ تھلگ رہتی۔ میں اکثر اس کا سائکو انلائسس کرتا ‘اور بالآخر خود کو سمجھا بجھا کر خاموش ہوجاتا۔ میں نے کئی بار اسے  مشورہ دیا کہ آؤ

  اب نئی زندگی کی ابتدا سماج کی ایک سنجیدہ اکائی کی صورت کرتے ہیں۔ تم کچھ نہیں کھوؤگي  معاشرے میں شادی شدہ ہونے کے اس ناتے تمھیں جو عزت ملے گی اس کا تم سوچ بھی نہیں سکتی ‘ لیکن اس کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی۔ مجھے ابھی اپنی شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔ چونکہ میں خود بھی ان سوالات سے بچنا ہی چاہتا تھا ‘ سو اس کی ہاں میں ہاں ملا کر خاموش ہوجاتا ۔

جس دن ہمارا آخری جسمانی ملاپ تھا‘ وہ کوئی طے شدہ آخری ملاقات نہ تھی۔ وہ حسب معمول ایک تفریحی ملاقات تھی۔ ہم شہر سے دور تفریح پر دو روز کے لئے ایک وسیع و عریض فارم ہاوس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ زندگی کی ہر سہولت وہاں موجود تھی۔ فارم ہاؤس کے مالک میرے دوست تھے۔ انھی کی دعوت پر میں پہلی بار نفیسہ کو لے کر وہاں گیا تھا۔ وہاں ایک فیملی اور بھی ٹھہری ہوئی تھی۔ جن کے دو ننھے منے بچے اکثر ہمیں باہر وسیع و عریض لان میں بھاگتے دوڑتے نظر آتے۔

نفیسہ اچانک ان بچوں کو دیکھ کر بدک گئی اور اپنے آپ کو چھپانے لگی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ ان بچوں کو پہچانتی ہے ۔

” میں تمھیں بتا رہی ہوں ظفر!

وہ نمیرہ کے بچے ہیں۔ میں نے اِن سے باتوں باتوں میں ان کی ماما کا نام بھی کنفرم کر لیا ہے۔ “

نفیسہ نے بے چینی سے کہا ۔” نمیرہ میری بچپن کی سہلی ہے۔ میں اس کی فیملی اور بچوں کی تصویریں دیکھ چکی ہوں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ بچوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ نمیرہ کو اچانک یہ سب دیکھ کر صدمہ پہنچے گا۔“

” تو کیا ہوا؟ اچھا ہے آج یونہی یہ راز کھلنے دو۔ اسے قطعاً صدمہ نہیں پہنچے گا۔ یہ تمھارا خوف ہے جو تمہیں روکتا ہے۔ یقین کرو کہ وہ خوش ہوجائے گی‘ کیونکہ تمھاری سہلیوں کو اکثر تمھاری شادی کی فکر رہتی ہے اور تم سے پوچھتی بھی رہتی ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ معاملے کو خوش اسلوبی سے سنبھال لوں گا۔“

دراصل میرے اندر کے نفسیاتی دباو  

نے مجھے اکسایا کہ یہی وقت ہے معاملے کو کھلنے دو تاکہ ہمہ وقت اِن خفیہ ملاقاتوں سے اس کی جان چھٹ جائےگی۔ مجھے نفیسہ کا بے حد خیال تھا۔ میرے تئیں نفیسہ اپنی سماجی زندگی میں جس مصنوعی طریقے سے رہ رہی ہے وہ اس کے لئے اور میرے لئے قطعی سود مند نہیں۔

دوسری طرف مجھے ایک اطمینان اور بھی تھا کہ میں نے عارفہ سے جب ایک روز اتفاقاً خوشگوار موڈ میں بات کرتے ہوئے پوچھا ‘

کہ اگر میں دوسری شادی کر لوں تو تمارا ردِ عمل کیا ہوگا؟

تو اس پر وہ بولی” مجھے کیا ؟ آپ بھلے چار شادیاں کر لیں‘ بس میرے بچوں کے مالی معاملات اور مستقبل کو محفوظ کردیں۔ آپ جو چاہیں کریں۔

گو یہ بات اچھی خاصی کھٹکنے والی تھی، لیکن میں نظر انداز کر گیا۔

لیکن سچ جانیں‘ عارفہ کی اس بات نے مجھے ذاتی طور پر بہت سہارا دیا تھا۔ وہ الگ بات کہ یہ احساس شدید کرب پہنچا گیا کہ اب عارفہ بھی اس ٹھہرے ہوئے بدبودار سماج میں میری طرح کی ایک ” ذمہ دار اکائی‘ بن چکی ہے جہاں انسانی قدروں کی نمو رک چکی ہو ۔

میرے لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ ابھر آئی۔

’اب معاشرے کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔‘

مجھے جب بھی اپنے آپ کو سماجی کٹہرے میں لانا پڑا، میں اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر فوراً آنکھ بچا کر نکل جاتا ہوں۔ سوال یہ تھا کہ کیا میں اپنے آپ کا سامنا کر سکتا ہوں؟ یہ سوال بہت مشکل ہے اور آپ جانتے ہیں کہ میں کبھی ایسے مشکل کاموں میں ہاتھ ہی نہیں ڈالتا ۔ ازلی سہل پسند جو ٹھہرا۔

یہاں پہنچ کر یہ احساس بار گراں کی طرح میرے کندھوں پر آن پڑاکہ وقت خود تو رک چکا ہے ۔ لیکن جان بوجھ کر معاملہ طویل کر رہا ہے۔ اِسے اور کچھ نہیں مل رہا۔ اور یہ بھی طے کرنا باقی ہے کہ صداقت ہے کہاں ؟ یا یہ ایک انجان سی کسک یا خوف ہے جو نفیسہ کو جینے نہیں دیتا؟

مجھے معلوم ہے کہ میں نے زندگی کو کبھی شر اور خیر کے حوالوں سے نہیں دیکھا بلکہ انسان کو اس کی فطری جبلت کے حوالے سے دیکھا ہے جو مظاہر میں اعمال کا نتیجہ ہے ۔ جس نے پہلے نفیسہ کو دباو

میں رکھا پھرمجھے ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وقت نے اپنے کردار نفسیات دان ڈاکٹر کو بھی نچوڑ کر رکھ دیا۔ میرے لئے یہاں یہ بھی طے کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ نفیسہ اپنے موقف پر درست ہے یا عارفہ؟

ووسری طرف مجھے اپنے نفسیات دان کردار سے بھی اختلاف ہے ۔ تاہم میرا خیال ہے کہ وقت کو معلوم ہے کہ کن سچائیوں کو سامنے لانا ہے اور کہاں ڈنڈی مارنی ہے۔ وہ خود بھی تو اسی سماج کا عکس ہے‘ اوپر سے تو ٹپکا نہیں کہ ہر بات آفاقی اور مربوط ہو۔ زمین کی پیداوار ہیں۔ ہم سب کو سماجی ارتقاءیہاں تک لایا ہے۔ آگے کہاں تک انسان کو جانا ہے اسے خود معلوم نہیں ۔ ایسی صورت میں میں ہوں کون جو سچ کو عیاں نہیں ہونے دیتا؟

میرے اندر اچانک ایک سرگوشی ابھری۔ اگر میں نہیں کہوں گا تو پھر کون کہے گا؟

کہنے کے لئے کیا کوئی فرشتہ اترے گا؟

”ہوں۔ یہ ٹھیک ہے۔ چلئے! میں مان لیتا ہوں۔“ میں نے فوراً سرگوشی کے سامنے ہتھیار پھینک دئے۔

جی تو میں کہہ رہا تھا کہ میں سماج میں دوسرے انسانوں کی طرح ہی سہل پسند ٹھہرا ہوں۔ مشکل کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتا‘ لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ کہ چلو یوں بھی کر لیتے ہیں۔ بیشتر انسان انتہا پسند ہی تو ہوتے ہیں’ لیکن مجھے ان سے کیا لینا دینا۔

آخر نفیسہ میرے دل میں بستی ہے جس کی میں نے اپنے ہاتھوں سے آبیاری کی ہے۔ اگر وہ چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔

آخر ہو ہی رہا ہے نا جو وہ چاہ رہی ہے؟

وہ جس شد ت سے مجھے پیار کرتی ہے مجھے کچھ تو اسے واپس لوٹانا ہے۔

پیار کے بدلے پیار۔ ۔۔پیار کے بدلے زندگی۔

پیار کے بدلے ہر وہ شے جسے وہ اس دنیا میں برتنا چاہتی ہے۔

میں نے نفیسہ کی طرف دیکھا وہ دانتوں سے مسلسل اپنے ناخن کتر رہی تھی۔ اِس کی ازلی معصومیت اس کے چہرے پر شفق کی طرح نمودار ہونے لگی۔

میں نے دھیرے سے اِس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہم دونوں کی آنکھیں ایک ساتھ ڈبڈبا گئیں۔

ہاں نفیسہ! تم شادی کر سکتی ہو۔ج‍اؤ۔ اپنی بساط بھر نئی دنیا بساؤ۔

میں یہیں کہیں آس پاس تمہیں زندگی کے سفر میں ملتا رہوں گا۔“

۔۔۔۔

نعیم بیگ ۔ لاہور18 فروری 2023ء

محبت کے موضوع پر افسانوی ثلاثیہ ( ٹرائیولوجی)

تیسری کہانی

تابِ محبت

نعیم بیگ لاہور

۔۔۔

ڈئیر شیراز

کیسے ہو؟ ایک خبر ہے تمہارے لئے۔

تمھیں یہ سن کر خوشی ہوگی‘ اوہ ہو ۔۔۔ خوشی تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ مہک جاؤگے ‘ جھوم جا‎‏ؤگے۔

پوچھو بھلا کیوں؟

بتاؤں ؟

اچھا بتاتی ہوں‘ کیوں پاگل ہو رہے ہو؟

میں آ رہی ہوں تمھارے پاس ہمیشہ کے لئے۔ ہے نا ایک دھماکہ خیز نیوز؟

یہ ہے وہ بات جس پر تم میرے ہونٹ چوم لیا کرتے تھے۔ میری انگلیوں کی پوروں پر ‘ میرے کانوں کی لوؤں پر اپنے گرم ہونٹ رکھ دیا کرتے تھے ۔ میں شرم کے مارے تمھیں روکتی تھی اور تم سے دور ہٹ جایا کرتی تھی۔

اِس بار میں تمھیں روکوں گی بھی نہیں۔ تمہیں پورا اختیا ہوگا۔ مجھ پر ‘ میرے جسم پر ‘ میرے ایک ایک انگ ‘ اور ذہن کے اُن گوشوں پر ‘ جہاں کبھی انجانے میں تمھارے بارے عجیب و غریب خوف ابھرا کرتے تھے۔ دور سمندروں کے پارسرابوں کی امید و بیم میں ایک انجانی  پر مسرت کسک مجھے تم سے دور کر دیا کرتی تھی۔

چلو اچھا ہوا۔اِس بار محبت میں مفلسی اور دولت کی فراوانی نے میرے سارے کس بل نکال دئیے۔

۔۔۔

شیراز لمحہ بھر کو رک کر اِس عبارت کو غور سے دیکھنے لگا ‘ جو وٹس اپ کے میسج باکس میں ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ وہ موبائل فون کی سکرین سکرول کر کے عبارت کی طوالت کا اندازہ کرنے لگا۔خوشی اِس کے انگ انگ سے پھوٹنے لگی۔ خط کی ابتدائی عبارت نے سب کچھ عیاں کر دیا تھا۔

آج صبح سویرے جب وہ بستر سے اٹھا تو حسب معمول سرہانے کی قریب تپائی پر پڑے موبائل فون کو دیکھنے لگا۔ اصل مقصد تو یہ دیکھنا ہوتاہے کہ بیٹری مکمل چارج ہو ئی کہ نہیں۔ کیونکہ پھر دن بھر کی مصروفیت اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی ۔ لیکن سب سے پہلے ایک انجان نمبر سے’ ڈئیر شیراز‘ کے ابھرتے ہوئے الفاظ کے نوٹیفیکیشن نے اسے متوجہ کر لیا جو رات کو کسی وقت آیا ہوگا۔

یہ نمبر امریکا کا تھا۔ اِس کے ذہن میں یکایک کڑیاں ملنے لگیں۔ سحر بھی تو امریکا میں ہی رہتی ہے۔

یہ سحر ہی تھی۔

۔۔۔

دیکھو اب تم حیران نہ ہونا۔مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے۔ آج مجھے روکنا نہیں۔ ایک بار سب کچھ کہہ لینے دو کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ جب میں تمھارے پاس ہوں گی‘ تو مجھ سے کچھ بھی نہ کہا جائے گا۔

ملزم نے اپنی صفائی میں کچھ تو کہنا ہوتا ہے ۔ میں تمھاری محبت کی سب سے بڑی مجرم تھی۔

نو برس پہلے برسات کی ایک سرمئی شام کو جب شہر میں آوارہ بادلوں کی رم جھم پھوار نے دلوں کے موسم کو بے قابو کر رکھا تھا ‘ میں نے تم سے اچانک ملنے کے لئے فون کیا تو شاید تم مصروف تھے لیکن میرے اصرار ر پر تم چلے آئے۔ ملاقات کے لئے وہی سحر انگیز دھنوں والا ریسٹورانٹ تھا۔ میں تمہارے انتظار میں کار میں ہی بیٹھی رہی کہ جب تم آؤ گے تو اکھٹے اندر جائیں گے۔ تم نے میری گاڑی کے قریب ہی اپنی کار پارک کرلی اور اتر کر میری کار میں بیٹھ گئے۔ تم بے تاب تھے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن میں نے تمہیں موقع ہی نہیں دیا۔ اپنے اندر کے طوفان کو تمہارے اند ر فوراً انڈیلنا چاہتی تھی۔

تب ہی میں نے باتوں باتوں میں تم پر غم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ ویسے تو ان دنوں میری مصروفیت کی وجہ سے تم مجھ سے تقریباً مایوس ہی تھے۔ پھر جب میں نے اگلے ہفتے شادی اور دو دن بعدامریکا رخصتی کی بات تمھیں بتائی تو میں تمھارا چہرہ بغور دیکھ رہی تھی۔تم بے حد متین لگے

تم نے مجھ سے فوراً پوچھا ۔ کیا تم آئس کریم کھاؤگي۔  اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر گاڑی سے اتر کر ریسٹورانٹ کے باہر کھڑے ٹھیلے سے میری پسندیدہ آئس کریم لے آئے۔ تم نے مجھ سے صرف اتنا کہا۔

مانو ! مبارک ہو۔کیا تم مجھے اپنا شادی کارڈ دینے آئی ہو یا مجھے رخصت کرنے ؟  وہ سحرکو پیار سے مانو پکارتا تھا۔

اس وقت میں تمھارے چہرے پر رنج و الم کی پوری داستان پڑھ رہی تھیں۔ میں جانتی ہوں کہ تم ایک ناقابل یقین حد تک عقلیت پسند ہو۔تم نے مجھے نئی زندگی اور نئی محبتوں کی دعا دی‘ میرے بائیں کان کی لوَ کو خاموشی سے چوما اورگاڑی سے اتر گئے۔

تم نے مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ تم شادی کے تیسرے دن کیسے اچانک امریکا جا سکتی ہو؟ تم جان چکے تھے کہ کاغذات کی تیاری میں برس دو برس تو لگ جاتے ہیں یقیناً نکاح ہو چکا ہوگا۔ جو میں نے تم سے چھپائے رکھا۔ خاندان کے بے پناہ  دباؤ پر اماں کے دور دراز کے امیر ترین بھتیجے عامر کے ساتھ میں پیپر میریج کر چکی تھی ۔

اور شاید یہی وجہ تھی کہ تمھارے قریب ہوتے ہوئے بھی دور رہی۔  

اُس وقت میں تمھارا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی کہ ان چند لمحات نے تمھیں ایک دم بوڑھا کر دیا تھا ۔ اپنی کار میں بیٹھ کر تم نے اپنی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا اور تیزی سے نکل گئے۔ میں کم عقل یہی سمجھی کہ تم نے یہ نشان میرے لئے بنایا تھا ۔ لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ یہ نشان تو بنانے والا ہمیشہ اپنے لئے بناتا ہے۔ میری زندگی میں تو ہمیشہ ہار ہی لکھی ہے۔

۔۔۔

شیراز سوچوں میں گم ماضی کے طلسم میں آنے لگا۔ اسے وہ دن خوب یاد تھے جب دونوں پہلی بار یونیورسٹی کے لان میں اچانک ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تھے۔ سحر کے ایک ہاتھ میں دستی بیگ اور کتابیں تھیں دوسرے میں کافی کا چھلکتا ہوا کپ جس کے چند چھینٹے شیراز کی قمیص پر بھی اچھل کر گر گئے۔ قصور شیراز کانہ تھا ، گو وہ تیزی میں تھا کہ پہلے دن ہی استاد کو کلاس روم میں تاخیر سے نہیں جانا چاہیے۔ اُس نے از راہ اخلاق معذرت کی تو سحر اِٹھلا کر کہنے لگی۔چلیں معاف کر دیا حالانکہ غلطی اُسی کی تھی۔

شیراز نے پارکنگ میں کھڑی اپنی کار میں ہینگر سے لٹکی دوسری قمیص تیزی سے پہنی اور خلافِ توقع و پروگرام اپنی کلاس میں لیٹ پہنچا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سحر اسی یونیورسٹی میں لیکچرر لگ گئی ہے۔دونوںگاہے بگاہے سٹاف روم میں ملتے رہے ۔ جلد ہی سحر کو معلوم ہو گیا کہ شیراز شادی شدہ دو بچوں کا باپ ہے لیکن بیوی کی مسلسل بیماری کے ہاتھوں زندگی کے لطف سے محروم ہے۔ ممکن ہے کہ یہی وجہ رہی ہو کہ وہ سحر کے فسوں میں گرفتار ہوا۔ سحر اس سے گھنٹوں بات کرتی رہتی اور دونوں یوں رفتہ رفتہ قریب آنے لگے۔ شیراز کے بچے اپنی اسکول لائف میں مصروف تھے۔ گھر کا انتظام ایک آیا نے سنبھال رکھا تھا۔ یوں شیراز کی زندگی میں یونیورسٹی اور بیوی کی تیمارداری کے سوا کچھ نہ تھا۔ سو یہ قربت دوستی سے آگے محبت کی سیڑھی چڑھنے لگی۔ دونوں بظاہر شکل و شباہت میں دیکھنے والوں کے لئے پرفیکٹ جوڑا ہوتا۔ یہ احساس دن بہ دن دونوں کے دل میں راسخ ہونے لگا کہ دراصل وہ ایک دوسرے کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔ جسم و جاں میں بدلتی ہوئی حساسیت اب شیراز کی گفتگو اور طرز عمل میں آنے لگی۔ بیوی پہلے ہی نیم جان تھی سو شیراز کی بے رخی اس پر مزید اثر انداز ہونے لگی۔وہ گھر آ کر اکثر سوچوں میں گم رہنے لگا ۔ایک طوفان تھا جو اس کے اندر سر اٹھانے لگا۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے۔

وہ اکثر اپنی سٹڈی میں آرام کرسی پر جھولتا رہتا۔

بڑبڑاتا رہتا۔۔۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے؟

جو پوری زندگی ایک نیم اپاہج اور بیمار عورت کے ساتھ گزار دی جائے۔

شادی کے دس برسوں میں وہ صرف پیسہ کمانے والی مشین کی طرح کام کرتا رہا ہے۔

کیا یہ زندگی دوبارہ آئے گی۔ کیا دنیا کی راحتیں اور خوشیوں کے مواقع اِسے دوبارہ ملیں گے؟

نہیں کبھی نہیں۔ وہ خود ہی جواب دیتا۔

شیراز کو سحر کے ساتھ گزرے مسحور کن لمحے یاد آنے لگے۔ ایک دن وہ مال روڈ پر واقع ایک بار بی کیو شاپ کے باہر کار میں بار بی کیو کا لطف لے رہے تھے کہ ایک خوبصورت لڑکی نے اپنی کار میں بیٹھے ہوئے اس کی طرف مسکرا کردیکھا۔ از راہ اخلاق جواب میں شیراز بھی مسکرا دیا۔ سحر نے اِس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کے منہ کا رخ اپنی طرف کر لیا۔ اس قدر شدید ملکیت کا تصور کہ لمحہ بھر کو مسکراتی لڑکی برداشت نہ ہوئی۔ ان لمحات نے شیراز پر سحر کی محبت کے نقش ثبت کر دئیے۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اب سحر اسے چھوڑ نہیں سکتی کہ شیراز اِس کی روح میں اتر چکا ہے۔

۔۔۔

شیراز ایک انجانے کرب و دکھ کا شکار ہونے لگا۔ اِس سے وٹس اپ پر لکھا وہ طویل خط نہیں پڑھا جا رہا تھا۔ وہ ساعت بھر کے لئے رک کر بیتے دنوں کی یادوں کو تار یخ کے اوراق سے نکال کر دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا ۔

جوں جوں وہ ایسا کرتا وہ ایک انجانے کرب کا شکار ہوتا چلا رہاتھا۔ محبت کا زہریلاناگ اس ڈسنے لگا ‘ تاہم وہ لمحہ بھر رُک کر دوبارہ پڑھنے لگا۔لفظ اس کے سامنے بنسری کی المیہ دھن پر ناچنے لگے۔

۔۔۔

لیکن شیراز سنو !

میری کچھ مجبوریاں تھیں جنھیں نبھانے کے لئے مجھے یہ سب کچھ کرنا پڑا۔ تم سوچ نہیں سکتے کہ میں امریکا چلی جانے کے بعد پہلے دو برس سو تک نہ سکی۔ عنصر نے مجھ خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میں نے اسے صاف کہہ دیا تھا کہ تم میرے قریب نہیں آؤگے۔وہ کئی ماہ تک مجھے جسمانی تعلق پر قائل کرتا رہا۔تم جانتے ہو کہ مجھے اس تعلق سے ہمیشہ خوف رہا ہے۔

مرد کی قربت جب جسم کے راستے روح میں اترے توزندگی پُر آشوب ہو جاتی ہیں اور جب یہی قربت روح کے راستے جسم میں داخل ہو تو پر مسرت لطافتوں کا شمار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ناجانے کیوں عنصر کو میں کاغذوں پر قبول کرنے کے باوجود دل سے قبول نہ کر سکی۔ انہی دنوں میرے اندر کہاں سے ممتا کا بھوت اتر آیا۔ سو ایک دن میں نے عنصر کو جسم کی سہولت مہیا کر دی۔ یہاں سے میری سزا کا دور شروع ہو گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں بیک وقت کئی دریا پار کر کے اپنی خواہشوں کی کشتیوں کو جلا کر دولت تک پہنچی تھی۔ سو انسانی جبلت نے مجھے فتح کر لیا۔ اب میرے پاس سب کچھ ہے ماسوائے تمہاری محبت۔

۔۔۔

شیراز کو مانو کی وضاحتیں اب اُن سانپوں کی طرح محسوس ہونے لگیں‘ جو اس کے آس پاس بستر پر پھن پھیلائے کبھی سامنے کبھی فرش پر اڑتے پھر رہے تھے۔

اس نے زور سے سر جھٹکا اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔اعتماد کی ڈوب جانے والی کشتی کبھی دوبارہ ساحل پر اگر اتر بھی جائے تو صرف سیکریپ ہوتی ہے۔

یہ خیال بجلی کی طرح اِس کے ذہن میں کوندا اور اس کی انگلیاں فون پر مسلسل حرکت کرنے لگیں۔

وہ اس نمبر کو بلاک کر چکا تھا۔

۔۔۔

نعیم بیگ لاہور 18/ نومبر 2023ء


‎(محبت کے موضوع پر افسانوی ثلاثیہ (ٹرائیولوجی

پہلی کہانی

محبت کا اِن ایکٹو جرثومہ

نعیم بیگ لاہور ۔

میں قومی سطح پر ایک سرکاری میٹنگ کی صدارت کر رہا تھا ۔ انسانی جانوں کا مسئلہ تھا۔ ملک بھر میں کورونا وائرس سے پھیلی وباءسے اموات بڑھ رہی تھیں ۔ عالمی اداروں سمیت مختلف ملکوں سے نِت نئی آراءسامنے آ رہی تھیں۔ ہم مخمصہ کا شکار تھے کہ کس طرح اس پینڈیمک عفریت پر قابو پائیں۔ آج ہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک خاتون ڈائریکٹر کی بہت اہم رپورٹ کو زیر بحث لا رہے تھے، جو کورونا وائرس پر امریکا میں بہت اہم کام کر چکی تھیں اور اب اس کی ویکسین پر آخری مہر ثبت کرنے والی تھیں۔شرکاءاجلاس گفتگو کر رہے تھے کہ میں نے یونہی رپورٹ کے صفحات کو الٹتے پلٹتے آخر میں جب مصنفہ کا نام حورعین عدنان پڑھا‘ تو یکلخت کرسی میں اندر کو دھنس گیا۔ دو دھائی پہلے کے واقعات فلم کی مانند سامنے آگئے۔ میں نے شرکاءسے کچھ دیر کی معذرت کی اور ریٹائرنگ روم میں چلا آیا۔

یہ اِن دنوں کی بات ہے جب میری راتیں ویران ہونا شروع ہوئیں تھیں۔ چاند کی آہٹ سے لے کر اس کی رخصتی تک نیند سے کوسوں دور آنکھیں خلا ءمیں گھورتی رہتیں۔ کسی پل چین نہ آتا۔ دل تھا کہ جیسے اِس نے ٹھہرنا سیکھا ہی نہیں۔ جب کسی شئے کو پالینے کی خواہش میں عقلی بنیادوں پر ہزاروں رکاوٹیں حائل ہوں تو احساسِ حصول تند و تیز ہوکر روح تک کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔

بچپن اور لڑکپن کی تلخ ناآسودگیاں، غربت و افلاس اور سماجی احساسِ کمتری دور اندر تک جاگزیں ہو چکنے والے کسی انسان سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

اِس سب کے باوجود فطرت نے مجھے بے حد ذہنی صلاحیتوں سے بھی نوازاتھا۔ جنون سے آشنا لہروں کا ساحل سے مسلسل ٹکرانا اور طلاطم ذہانت سے جڑا میری روح کا جوہر بنا۔ جب خود طے کر لیا کہ اسکول میں فرسٹ کلاس آنا ہے‘ تو دن رات پڑھ کر نیندیں حرام کر لیں، لیکن ٹاپ کر کے ہی اسکول چھوڑا۔ جب یہ طے کر لیا کہ سول سروس میں جانا ہے‘ تو داخلے کی فیس تک مزدوری کرکے حاصل کی اور امتحان میں بیٹھ گیا۔ میرٹ میں اوپر آنے سے گروپ اچھا ملا۔ سو یوں میرے اندر ایک انوکھا سا بائیولوجیکل امتزاج پیدا ہو چکا تھا ، جو افتادگیِ طبع کا باعث بھی تھا۔

شام فرصت کے اوقات میں سرکاری گھر کے وسیع و عریض لان میں پورے جسم پر چادر لپیٹ کر دیہی انداز سے صوفہ نما کرسی پر گھنٹوں بیٹھا رہتا اور سگریٹ پھونکتا رہتا۔ نوکر جا چکے ہوتے۔ گارڈ زاپنے گارڈ رومز میں ہوتے ۔ عالیہ حسبِ معمول فون پر اپنی کزنز سے مصروف گفتگو رہتی اور گاہے گاہے ایک نظر ہمارے بیڈ روم سے ملحقہ چھوٹے سے سیلف میڈ لکڑی کے کمرے میں ڈال لیتی جو میں نے چار سالہ مانو کی سہولت کے لئے گزشتہ برس یہاں شفٹ ہوتے ہی بنوا لیا تھا۔ عالیہ کا خیال تھا کہ بچوں کو شروع دن سے ہی الگ کمروں میں رہنا چاہیے تاکہ ان کا ذاتی اعتماد بحال رہے۔ میں اس معاملے میں کوئی رائے نہیں رکھتا تھا سو بات مان لی۔

یوں تو سرکار کی نوکری میں اب وہ طنطنہ اور دبدبہ نہیں رہا ، جو اگلے وقتوں میں اس نوکری کا فخر تھا۔ تاہم اگر آپ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں ہیں تو زندگی اتنی مشکل نہیں رہتی۔ ابتدا میں اِس ضلع میں کچھ مسائل تھے، لیکن مارشل لاءکے زمانے میں ضلعی ترقیاتی کام کاج اور سرگرمیوں میں چونکہ سیاسی مداخلت نہیں ہوتی لہذا متعلقہ اداروں کے افسران اپنی مرضی سے کام نبٹاتے رہتے ہیں اور مقامی سیاست دان رخنے نہیں ڈالتے۔ سواب میرا کام بھی بڑی حد تک ہموار تھا۔ کارِ سرکار بے حد ہموار سطح پر ہونے سے سرکاری فائلوں پر جو اکثر رات بھر میں بیٹھ کر فیصلے دیا کرتا تھا، اب تقریباً ختم ہو چکی تھیں۔

بحیثیت ڈپٹی کمشنر یہ میری تیسری پوسٹنگ تھی ۔ پچھلے شاندار تجربے اور اچھے افسران کے ساتھ بہترین تعلق اور کارکردگی پر میں ہمیشہ سر فہرست ہی رہا۔ اس کارکردگی میں بڑا حصہ میرا وہ ماتحت سٹاف ڈال دیتا ،جنہیں میں بطور خاص تگ و دو کر کے اپنے ضلع میں تعینات کرواتا۔ انہیں معلوم تھا کہ غضنفر علی آفندی خود کھاتا ہے اور نہ کھانے دیتا ہے۔ اَپ رائٹ ہونے کی میری شہرت اوپر تک واضح تھی۔ دوسرے قانونی معاملات میں میری اپروچ بے حد فطری انصاف پر مبنی ہوتی، جس سے سائل و شکایت کنندہ مطمئن رہتے۔

یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ میرے ایک دیرینہ اسکول کلاس فیلو خالد میرے ضلع میں ڈاکٹر تعینات ہوا۔ خالدمجھے ملنے آیا، تو میں بے حد خوش تھا۔ ایک عرصہ بعد ملاقات ہو رہی تھی ہم نے خوب باتیں کیں۔ ان کے ساتھ ایک نہایت ہی خوبصورت لڑکی بھی تھی۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ کوئی ماڈل وغیرہ ہو۔اِس کا تعارف خالد نے یہ کہہ کر کرایا کہ وہ ان کے پاس کسی مشترک دوست کی سفارش لے کر آئی ہے۔

وہ لڑکی بنیادی طور پر ایک بائیولوجیکل ریسرچر تھی جو کسی این جی او کی طرف سے وائرالوجی کے کسی خاص جرثومہ پر ریسرچ کر رہی تھی جو دیہی علاقوں میں انسان اور جانوروں کے ایک ساتھ رہنے سے وجود میں آتا ہے۔ اسے کسی سرکاری ہوسٹل یا ریسٹ ہاؤس میں ایک آدھ مہینے کے لئے بورڈنگ لاجنگ درکار تھی۔ چونکہ ضلع پسماندہ تھا تو اس میں کوئی بہت زیادہ ہوٹلز یا موٹلزوغیرہ نہیں تھے ۔ دن بھر وٹنریری اور دیگر ہیلتھ سٹاف سے رابطہ کے بعد اس کو پر سکون اور محفوظ رہائش کی ضرورت تھی ۔ جس میں اگر ممکن ہو تو انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر ہو۔

میں نے اسی وقت اپنے سول لائنز ایریا کے افسر کو بلایا اور سرکاری ریسٹ ہاؤس کا بہترین کمرہ خاتون کو دینے کا کہہ دیا۔ خالد اور وہ لڑکی بے حد خوش ہوئے اور تھوڑی دیر بعد چائے وغیرہ پی کر ایک ساتھ نکل گئے۔ چلتے چلتے لڑکی نے مجھے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا جسے میں نے شکریہ کے ساتھ بے اعتنائی سے پڑھے بغیر دراز میں رکھ دیا۔

چند دن یونہی گزر گئے۔ ایک دن آفس میں ٹی بریک کے وقت مجھے یاد آیا کہ کئی روز ہوئے خالد سے ملاقات نہ ہوئی ہے ۔ میں نے اپنے پی اے کو ڈاکٹر خالد سے بات کرانے کو کہا۔ تو معلوم ہوا کہ خالد کئی روز ہوئے لاہور جا چکا ہے۔ جب خالد کے ایک کولیگ سے رابطہ ہوا تو اُس نے بتایا کہ خالد تو انگلینڈ پہنچ چکا ہے ۔ اِس کا ایف آر سی ایس کا امتحان تھا، جس کی اطلاع تاخیر سے ملی تو وہ بمشکل وقت پر وہاں پہنچ سکا۔ بات سمجھ میں آگئی کہ کیوں وہ اچانک بنا اطلاع نکل گیا۔خالدآج بھی انگلینڈ میں ہے ۔

ایک دن شام کو میں لان میں بیٹھا دفتر کی کچھ فائلیں نبٹا رہا تھا کہ قاصد نے اطلاع دی کہ کوئی خاتون ملنے ٓئی ہیں۔ میں نے پوچھا کون ہیں اور کیوں ملنے آئی ہیں ؟ اس نے ایک کارڈ مجھے تھما دیا۔ حورعین عدنان مائکرو بیالوجسٹ ۔۔۔ کارڈ دیکھتے ہی مجھے یاد آیا یہ تو وہی لڑکی ہے جو خالد کے ساتھ آئی تھی اور اسے میں نے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں جگہ دلوائی تھی۔دِل میں ایک کسک تو پہلے دن سے ہی موجود تھی۔ خالد کا ریفرنس بھی تھا‘سو انکار کرنا ممکن نہ تھا۔ میں نے اندر بلا لیا۔

کام سے فارغ ہوتے ہی جب میں لڑکی کی طرف متوجہ ہوا تو وہ آج مجھے پہلے سے کہیں زیادہ حسین لگی۔ میں فوراً متاثر ہونے والا شخص نہ ہوں، لیکن اس لڑکی میں ناجانے کیا جادو تھا کہ مجھ پر اس کا سحر طاری ہو گیا۔ میں نے سوچا اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ میں عالیہ کو بھی شام کی چائے پر یہیں لان میں بلا لیتا ہوں ۔ ارادہ تھا کہ اس پری پیکر کو کھنگالا جائے تاکہ اس کا پس منظر تو معلوم ہو۔ یہ سوچ کر میں نے بٹلر کو آواز دی اور عالیہ کو بلا بھیجا اور کافی کا کہہ کر لڑکی سے گفتگو شروع کردی۔

حورعین نے بتایا کہ وہ اپنے کام کا بیشتر حصہ مکمل کر چکی ہے ۔ جس زونوسس وائرس پر وہ کام کر رہی ہے جو عموماً جانوروں سے انسانوں میں داخل ہوتا ہے اس کے بعد انسان سے انسانوں تک پھیلتا ہے۔ وہ اب چند دنوں میں ہی یہاں سے چلی جائے گی۔ دراصل وہ شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔

وہ لڑکی مجھے بے حد بااخلاق لگی ۔ لباس اس کے متناسب جسم پر بے حد دل آویز تھا ۔ جسم سے اٹھتی ہوئی دلفریب مہک اور اس کی کھنکھناتی آواز سے مجھے انس سا ہونے لگا۔ جب اس نے بے تکلفانہ انداز میں بتایا کہ وہ مجھ سے بے حد متاثر ہے کہ میں نے اس قدر اوائل عمری میں ہی پروفیشنل کامیابیاں سمیٹ لی ہیں‘ تو اندر کے برسوں کے زنگ خوردہ احساسِ کمتری کو جیسے کسی نے اتار پھینکا ہو اور ملائم و نفیس سطح ابھری ہو جو روح کو مزید لطیف کردے۔ میں کھِل اٹھا۔ ہم جوں جوں باتیں کرتے جا رہے تھے توں توں میرے اندر یہ خواہش پیدا ہونے لگی کہ کاش عالیہ یہاں نہ آئے اور ہم گھنٹوں باتیں کرتے رہیں۔

بٹلر کافی رکھ کر جا چکا تھا۔ میں حورعین کے سراپے میں کھویا ہوا تھا کہ وہ اچانک تعظیماً کھڑی ہوگئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو عالیہ مانو سمیت آرہی تھی۔ میں نے حورعین سے عالیہ اور مانو کا مختصر تعارف کروایا۔ حورعین نے بڑے بے تکلفی سے مانو کو گود میں بٹھا لیا اور پیار کرنے لگی۔ تاہم عالیہ کی آمد پر گفتگو کا رخ نجی گفتگو کی جانب مڑ چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اکلوتی بیٹی ہے ۔ ابا مر چکے ہیں اور اماں ٹیچر ہیں، اماں ہی اسے تعلیم دلوائی ہے ۔ ابا کی پنشن پر گزر بسر ہوتاہے۔ دونوں لاہور کے متوسط علاقے میں رہتے ہیں۔

کچھ دیر فیملی گفتگو ہوتی رہی۔ پھر عالیہ مانو کو لیکر اندر چلی گئی۔ فائلیں لینے کے لئے میرا پی اے دفتر سے آیا بیٹھا تھا سو میں نے اسے بلایا اور تمام فائلیں حوالے کیں ۔ میرا خیال تھا کہ حورعین بھی اب اجازت لے گی، لیکن وہ میری طرف بے حد التفات بھری نظروں سے دیکھتی رہی مسکراتی رہی اور بیٹھی رہی۔میں اور حورعین دونوں اکیلے بنا گفتگو کئے کچھ دیر یونہی بیٹھے رہے۔ اس اثنا میں ہم دونوں اپنے اپنے

موبائلوں پر میسجز دیکھتے رہے۔

مجھے محسوس ہوا کہ اب جو گفتگو ہو گی‘ اس کے لئے بھرپور تعلقات کی اشد ضرورت ہے‘ ورنہ گفتگو سطحی اور پر تکلف ہی رہے گی۔

اچانک حورعین نے میری خاموشی کو ملاقات کا اختتام سمجھتے ہوئے مجھ سے اجازت مانگ لی اور کہا ۔ کبھی موقع ملے تو ہمارے گھر ضرور تشریف لائیں۔ اب اس لمحے اسے روکنا مجھے مناسب نہ لگا ورنہ میرا خیال تھا کہ آج ڈنر ایک ساتھ کریں گے۔

وہ چلی تو گئی لیکن یوں جیسے گردباد اپنے پیچھے تباہی کی پوری داستان چھوڑ جاتاہے۔ دوبارہ ملنے کی دعوت آنکھوں سے جھانکتی دل کے اندر کا حال منکشف کر رہی تھی ۔ انداز دلربائی بے حد ملتفت تھا۔ رات بھر جاگنے اور سوچنے کے بعد مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس قدر مجھ میں اترتی کیوں جا رہی ہے۔ ناجانے مجھے اس کی آنکھوں میں سچائی نظر آرہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی قسم کی کوئی جنسی اختلاط کی دعوت ہو یا انفیچوئیشن نظر آتی ہو۔ پسندیدگی کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں جو دوسرے انسان کو بے بس کر دیتی ہیں بالخصوص جب دعوت جنسِ مخالف کی طرف سے ہو اور پسندیدگی سے بھرپور دلی جذبات آنکھوں سے آشکار بھی ہورہے ہوں۔

میں سر جھٹکتا رہا کہ ابھی میری شادی کو بمشکل سات آٹھ برس ہوئے ہیں ۔ میں جنسی طور پر مکمل آسودہ حال شخص ہوں ایک بیٹی کا باپ ہوں اور وفا شعار بیوی کا شوہر ہوں ۔گو عالیہ میرے لیے ہمیشہ ایک بے جان جسم کا ٹکڑا ہی ثابت ہوئی کہ اس نے کبھی دلربائی نہیں دکھائی ۔ نہ ہی کبھی ناز و نخرے۔ میں ہمیشہ خود کو تسلی دیتا اور یہ احساس رکھتا کہ وہ کوئی طوائف تھوڑی ہے جو میرے چونچلے اٹھائے گی۔ وہ ایک سنجیدہ لڑکی ہے جو اپنے شوہر اور گھر سے مخلص ہے۔ اس سب احساس کے باوجود حورعین نے میرے اندر سب کچھ ہلا دیا تھا۔ میں اپنے آپ سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔

چند دنوں بعد مجھے ایک میٹنگ میں لاہور جانا پڑا۔ میں پہلا دن تو سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا۔ دوسرے دن مقامی ہوٹل میں شفٹ ہوگیا اور حورعین کو بتایا کہ میں ایک میٹنگ میں یہاں کل تک موجود ہوں۔ اگلے دن حورعین صبح آٹھ بجے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔ہم نے ایک ساتھ ناشتہ کمرے میں ہی کیا۔ بارہ بجے مجھے چیک آوٹ ہونا تھا ، تب تک ہم ساتھ تھے۔گفتگو تھی کہ ختم ہی نہ ہو رہی تھی۔ حورعین کی قربت کا احساس مجھے پاگل کر دے گا، مجھے قطعی علم نہ تھا۔ گو میں بے حد پرسکون، سنجیدہ سوچ و فکر رکھنے والا اور حد درجہ عقلیت پسند ہوں لیکن ناجانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ ہم دونوں کی روحیں شاید جنم جنم کی ساتھی رہی ہوں۔کتابوں کی پڑھی باتیں تھیں یا اس کے حسن ِ جمال کا کرشمہ تھا،میں فیصلہ نہ کرسکا۔

اچانک فون کی گھنٹی نے مجھے جیسے جگا دیا ہو۔ ڈرائیور نے آمد کی اطلاع دی تھی۔ شام تک میرا ضلع پہنچنا ضروری تھا۔ لہذا بادلِ ناخواستہ اس بار میں نے اجازت چاہی‘ توحورعین نے چلتے چلتے مجھے کہا ۔

”کیا دوستوں کو اس طرح رخصت کیا جاتا ہے؟ “

” میں دل میں گھر بنانے والوں کو کبھی رخصت نہیں کرتا “۔ یہ کہتے ہوئے میں اس کی جانب بڑھتا چلا گیا۔

لمحوں کی سیج پر پگلنا کوئی آسان کام نہیں ، لیکن ایسا ہوا ۔ وہ چند ہی ساعتوں میں مضبوط عمارت کو ملیامیٹ کر کے مسکراتی ہوئی نکل گئی۔

میں گھر پہنچا تو ایک بدلا ہو انسان تھا۔ دنیا کی ہر چیز حسین اور قابلِ ستائش تھی ماسوائے عالیہ جس کے ٹھنڈے پن نے میرے اندر اتر کر مجھے براعظم انٹارکٹیکا کی برفیلی وادی بنا رکھا تھا۔زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے۔ خواہشات کی نرم گرم وادیوں میں اترنا اچھا لگنے لگا۔لباس میں کانٹ چھانٹ اور فیشن ابھرنے لگا۔ سچ پوچھیں یہ انداز تو میرے کبھی کالج یونیورسٹی میں نہ تھے۔ میں دل میں ہنستا۔ اس بار کیوپڈ وار کر گیا ہے۔ بچ کر دکھاؤ؟

ساحلوں سے لگے سفینوں میں جھنڈے بدلنے لگے ۔ لیکن مجھے یہ احساس ہی نہ ہوا کہ طوفان کی آمد نے میرے چاروں طرف ایک خاموشی سے طاری کر دی تھی۔ روز رات دیر گئے تک بات ہوتی تو عالیہ کو الجھن ہونے لگی۔ میں کام کے بہانے کیمپ آفس جو گھر کی انیکسی میں ہی تھا ، مصروف رہنے لگا۔ اس حد تک کہ کھانا بھی وہیں کھا لیتا۔اور پھر ایک دن نا چاہتے ہوئے بھی حورعین کے گھر پہنچ گیا۔

میں سرکاری افسر ہونے کے باعث اپنی ساکھ کا بے حد خیال رکھنے والا شخص تھا۔ حورعین کے گھر ایک پرائیویٹ ٹیکسی پر پہنچا تھا ۔ ٹیکسی وہیں روک لی تھی۔

ملاقات کیا ہوئی بس یوں سمجھئے کہ لوہا پگل کر نئی ساخت اختیار کر رہا تھا۔حورعین کی ماں ایک جہاندیدہ عورت تھیں، انہوں نے میرے اور حورعین کے اندر بیک وقت برپا ہونے والے اُس طوفان کو بھانپ لیا ‘ جو خاندان کے خاندان اجاڑ دیتا ہے۔ کہنے لگیں بہتر ہے کہ تم دونوں اچھی طرح سوچ لو کہ مستقبل میں کیا کرنا ہے؟ ورنہ اس آگ کے دریا میں اترنے کی ضرورت نہیں۔

میں نے حورعین کے ساتھ شمالی علاقوں کی خاموش وادیوں میں جانے کا سوچا، تاکہ تسلسل سے میسر آنے والی ممکنہ تنہائی شاید اس طوفان سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھا دے۔

چند دنوں بعد ہم گلگت کے ایک ہوٹل میں پہنچ گئے۔ میں نے اپنی سرکاری حیثیت کو کیموفلاج کر لیا تھا‘ تا وقت کہ ہم کسی نتیجے پر نہ پہنچیں۔ گلگت کا موسم شاندار تھا۔ فائیو سٹار ہوٹل کی بالکونی سے دور فطری مناظرمیں ڈوبے ہوئے دو انسان پہلی بار تاریخ کے پنّے پر لکھے اُسی واقعہ کو دھرا رہے تھے جس کی بدولت آدم کو باغِ عدن سے نکالا گیا۔ ہم دونوں کسی سنگین جرم کے ارتکاب کی خلش میں مبتلا باغِ عدن کے شجرِ عقلیت سے راہنمائی کے متمنی تھے۔ باغِ رضوان سے باغِ شدّاد کا سفر کسی طور پر مستقبل کے طوفانوں کو روک سکنے کی صلاحیت کو سلب کر دینے پر کسی دلیل کو سننے کو تیار نہ تھا۔ صرف معروضیت ایسا مخمصہ تھا، جسے ہم دونوں نے میسر اپنی ذہانت سے ہی حل کرنا تھا۔

بالآخر حورعین نے ایک حل نکال لیا۔دوسرے دن شام کی چائے پر ہم بالکونی میں بیٹھے شام کی خنک ہواؤں میں بیتے دنوں پر گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک حورعین نے کہا۔

غضنفر ! ہمارے ملاپ کی ایک ہی صورت ہے۔

وہ کیا؟ میرے چہرے پر مسرت پھیل گئی۔

کہ تم میرے سوشل سٹیٹس پر اتر آؤ۔

”کیا؟“ میں بھونچکا رہ گیا۔

”میں عالیہ اور مانو کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں نے اِن کی سماجی ذمہ داری اٹھائی ہے۔“

میں نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

” تب میں تین ہاتھوں کو کیسے پکڑ سکتی ہوں۔ میرے اپنے دو ہاتھ ہیں

وہ اپنے ہاتھ کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ اس کی دلیل سچائی پر مبنی تھی۔

"میری جان! تم قربانی دے سکتی ہو؟ جس سماج میں ہم رہتے ہیں یہاں اس کی مذہبی اجازت ہے۔  "میں نے کہا۔

” جس سماج میں میرا مستقبل ہے وہاں اس کی کوئی صورت نہیں۔ وائرالوجی میں میرا مستقبل یہاں نہیں ہے۔ مجھے ابھی مزید علم حاصل کرنا ہے۔ اب شجرِ علم سے میرا رابطہ ہو چکا ہے۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔

” جس رابطے پر تمہیں فخرہے‘ اس کا راستہ تو میرے دل سے گزرتا ہے۔“ میں اپنے تفاخر کی دہلیز سے مسکرایا۔

” ڈارلنگ! یہیں تم غلطی کر رہے ہو ‘جسے تم دل کہتے ہو وہ تمہارا ذہن ہے۔ وہی تمہیں معروضیت کا احساس دلا رہا ہے۔ “

اس کے چہرے پر ملال کی ایک لہر آئی اور تیزی سے گزر گئی۔” تم اکیلے ہی آبجیکٹ ازم کا شکار نہیں ہو۔ میں بھی ہوں۔

” تو بس۔۔۔ پھر اپنے اپنے رستوں پر ندی کے نہ ملنے والے دو کناروں کی طرح چلتے رہتے ہیں۔“

میں انجانے خوف میں پیچھے ہٹنے لگا۔

وہ خاموش ہو گئی۔

ہم نے گلگت کی اداس فضاؤں میں ایک دوسرے کو الوداع کیا اور اپنی اپنی زندگیوں میں خاموشی سے واپس داخل ہوگئے۔

تب سے ہم دونوں کے دل میں پیار کا ایک اِن ایکٹو جر ثومہ اندر کہیں چپک کر رہ گیا ہے ،جو کبھی کبھار خودبہ خود ایکٹو ہو کر دل و دماغ میں نئے سرے سے توڑ پھوڑ شروع کردیتا ہے۔

۔۔۔۔

نعیم بیگ لاہور ۔ 22/مئی۔ 2020ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت کے موضوع پر ثلاثیہ (ٹرائیولوجی)

دوسری کہانی

بساط بھر دنیا

۔۔۔

پہاڑوں سے اچھلتا جھاگ پھیلاتا نیچے کی طرف گول گول چکنے پتھروں پر بہتا شفاف پانی جب پرسکون ندی میں آن ملتا ہے‘ تو میرے خیال میں اسے خود بھی پر سکون ہو جانا چاہیے، لیکن میں نے ایسا کم ہی دیکھا ہے۔ اس شوریدہ سر بہتے پانی کو پرسکون میدانی فضا میں ندی کی دھیمی اور بے آواز روانی کبھی راس نہ آئی۔ اس نے ہمیشہ بغاوت کی کوشش کی ‘ اور اگر کچھ نہ ہو سکاتو کناروں سے اچھل ا چھل کر نزدیکی آبادیوں کو اپنے جنون کا پیغام بھیجنا‘ اس کی دیوانگی نہیں تو اور کیا کہی جا سکتی ہے۔

وہ تھی تو برسات رت میں شگفتہ کلی کی مانند ’ پر بات بے بات دل دہلا دینے میں اسے مہارت حاصل تھی ۔

الفت میں بھٹکی ہوئی ان سونی سونی راہوں کی مانند یادیں‘ برسوں کی پیاس لئے مجھے آج بھی بے چین کرجاتی ہے۔

اچھا ٹھہریے! یوں شاید اپنی بات سمجھا نہ پاؤں گا۔

آئیے اِس بوتہ خاک کو ابتدا سے دیکھتے ہیں۔

وہ دن میری زندگی کا انوپ دن تھا۔اُس دن نفیسہ بہت خوش تھی۔ لہرا لہرا کر میرے کلّوں پر انگلیوں سے نقش بناتی۔ جب میرے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیرتے ہوئے انھیں یکلخت بکھیر دیتی تو خوب ہنستی۔ میں نے وفورِ جذبات میں جب اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا ’ اور اس کی انگلیاں چٹخانے لگا ‘تو وہ بیک وقت درد اور ہنسی میں اپنے دوسرے ہاتھ سے مجھے نوچنے لگی۔

چھوڑو مجھے۔۔۔ چھوڑو‘ نا ! بدتمیز انسان۔۔۔

وہ ہنستی ہنستی اچانک خاموش ہو گئی۔ میں نے اس کے چہرے پر کرب کے سائے دیکھے۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔

'میں بول اٹھا۔ ' کہو! نفیسہ ۔۔۔ تم کچھ کہنا چاہ رہی ہو؟

تب اُس نے مجھ سے بنا کسی جھجھک اپنی خواہش کا اظہار کیا تو میرے جسم میں جان نہ رہی۔ میرے وہم و گمان میں بھی کبھی ایسا نہ تھا۔ میں اِس کی بات سن کر اندر سے دہل سا گیا۔ کیا ایسا ممکن ہے میرے لئے؟

یہ کیا کہہ رہی ہے؟

اچھا اب آپ پوچھیں گے کہ یہ نفیسہ کون ہے ؟

رکیے‘ میں تفصیل سے اس پورے معاملے کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

نفیسہ میری دوسری بیوی ہے۔ بے حد خوبصورت ہے۔ سچ پوچھئے کہ تخلیق کار نے اس کی تراش خراش اور رنگ و روپ میں ممکنہ حد تک مبالغے سے کام لیا ہے۔ ممکن ہے وہ اِس پری چہرہ کو صرف اپنے لئے مختص کرنا چاہتا ہو‘ لیکن وہی بنیادی غلطی کہ اسے خود اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ اب اپنے ہاں اس نے اپنی تخلیقی مہارت اور بجھارت کو استعمال میں کہاں لانا تھا۔ سارا آفاقی پروگرام ہی نا بدل جاتا۔ سو آدم کے سر مونڈھ دی گئی۔

میری پہلی بیوی عارفہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ میں بھی انھی کے ساتھ ہی رہتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھار الگ ہوجاتا ہوں۔ بس وہ الگ رہنا کیا ہے؟ یوں سمجھئے کہ ہم اپنے اپنے انتظامی یونٹس میں رہتے ہیں۔

نفیسہ ابھی تک ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ہم دونوں نے اپنی شادی کو اپنے اپنے خاندان سے خفیہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے شادی کے لئے چند دوستوں کو بتانا پڑا تھا۔ اِس نے تو سرے سے کسی کو شامل حال ہی نہ کیا۔ صرف اِس کی ماں جانتی ہے کہ وہ میری منکوحہ ہے۔

ملاپ کے لئے ہم اکثر طویل سفر پر نکل جاتے اور چند دن ایک ساتھ گزار کر واپس اپنی اپنی دنیا میں لوٹ جاتے۔ شادی کو خفیہ رکھنے کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ نفیسہ کا موقف ہے‘ کہ اسے اپنی شادی کو اس لئے اُس وقت تک خفیہ رکھنا ہے جب تک اس کی چھوٹی بہن کی شادی نہ ہوجائے اور وہ خود بھی اپنے پروفیشن میں کسی مقام پر نہ پہنچ جائے۔

دراصل وہ ایک مقامی کالج میں استاد ہے۔ ادب و آرٹ سے پیار کرتی ہے‘ بے حد باذوق ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ وہ جلد ہی پروفیسر کے عہدہ پر ترقی پا جائے گی۔

مجھے تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔ میں اِسی شہر کا جانا پہچانا سائکارٹسٹ ہوں۔وہی روٹین کی پیسے بنانے والی مشین کہہ لیں یا ڈاکٹر؟

میرے لئے اس شہر میں ہر شخص اپنی نوعیت میں ایک الگ ذہنی مریض ہے۔ جب وہ کسی خاص مسئلے کے تحت مجھ سے رابطہ کرتا ہے تو تین چار سیشن میں ان کی خوب خدمت کرتا ہوں۔ اگر وہ جواباً کچھ مزید دینے کے قابل نہ ہو ں تو میں برا نہیں مناتا، بس اسے طویل عرصے کے لئے نسخہ دے کر چھوڑ دیتا ہوں ‘ تاکہ وہ اپنی زندگی میں خوش رہے۔

آپ سمجھ رہے ہیں نا!

نفیسہ میری سٹوڈنٹ تھی ‘جب وہ مجھ پر مر مٹی تھی۔ آج ملاپ ہوئے چار برس گزر چکے ہیں۔اُس نے قصداً اولاد سے اجتناب برتا‘ اور خود مجھے بھی اولاد کی کوئی خاص تمنا نہ تھی‘ کہ پہلی بیوی سے میری اولاد ہے اور وہ سب اپنی اپنی دنیا میں مست اور خوشحال ہیں۔

اب چند دنوں سے نفیسہ کچھ بے چین سی لگ رہی تھی۔ شادی سے پہلے دو برس اور بعد ازاں اگلے دو برسوں میں ہم نے جسماجی تعلق کو بہت اہم سمجھا تھا۔ لیکن سچ پوچھئے تو میں نفیسہ کی محبت اور جسم دونوں میں گرفتار ہوں۔ وہ عادت کی بہت اچھی ہے۔ ہمیشہ کمپرومائز کرنا ، ہمبل رہنا اور محبت میں اظہار کو عشق کی بنیادی کلید سمجھنا‘ اس کے لئے بہت اہم ہے۔ وہ سگمنڈ فرائیڈ کی قائل نہ ہے‘ جس نے عورت کو ہمیشہ تبدیلی سے عاری سمجھا اور ایک حد تک غیر فعال (پیسوو)کہا ہے

لیکن حقیقت یہ کہ وہ اپنے باطن میں فرائیڈ کی ” پینس انوائے“ کی لغوی مثال ہے۔

یہ سب کچھ میں نے اس کے ساتھ جسمانی تعلق یا یوں کہہ لیں شادی کے بعد جانا۔ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اس قدر پرجوش اور بے چین ہوتی کہ میرے پورے جسم کو اپنے اندر اتار لینا چاہتی تھی۔ وہ اپنے جسم میں عضوِ تناسل کی کمی کو علامتی سطح پر مجھے منفیت کا نشانہ بناتی اور جوابی طور پر میرے وجود کو کسی مرد کی بجائے عورت کا جسم سمجھتی تھی۔

اِس بات کا اظہار لاشعوری طور پر اُن ہیجان خیز لمحات میں خوب کرتی‘ جس میں مجھے کبھی کبھار فزیکل تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔

خیر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے ایک دوسرے کے وجودی امکانات کی عمیق گہرایوں سے اورشعوری طور پر محبت کے اظہار کو زبان دے کر زندگی کا خوب لطف اٹھایا۔

ابتدائی تین برس تو چٹکیوں میں گزر گئے۔ تب رفتہ رفتہ ہم دونوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ ہم تنہا ہوتے جا رہے ہیں اور کہیں کہیں اپنی اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوش بھی۔

پھر یہ ہوا کہ ہماری گفتگو کا محور یہی موضوع رہنے لگا۔

بظاہر اس دوسری شادی کے بعد میرا کچھ بھی سٹیک پر نہ تھا۔ بل کہ میں قدرے بہتر پوزیشن میں تھا۔ تاہم نفیسہ کے اندر مجھے ایک عجیب سی بے چینی ابھرتی نظر آ نے لگی۔ کبھی کبھار تو وہ اِس خفیہ شادی کے تعلق پر پڑھی لکھی ہونے کے باوجود مباح کی بحث میں بھی الجھ جاتی۔ جو میرے لئے سوہان روح ہوتا۔ آپ کی منکوحہ جب گناہ کی دہلیز سے آواز دے تو مرد کے لئے مشکل تو ہو جاتی ہے نا۔

چونکہ میں اِس کے نفسیاتی خلاءکو سمجھتا تھا‘ سو نظر انداز کر دیتا ۔

بحیثیت نفسیات دان مجھے نفیسہ کے اندر جلتے ہوئے الاؤکے پیش نظر یہ احساس ہونے لگا کہ شاید وہ مجھے ایک مُبرِّد کے طور پر اپنی زندگی میں لائی ہے۔ایک ایسا آئس برگ جو جلتے الاؤ کو رفتہ رفتہ ٹھنڈا کرتا جائے۔

 اس الاؤکو مسلسل آگ بجھانے والے ایک آلے کی ضرورت تھی‘ ورنہ وہ سماجی زندگی سے یوں نہ الگ تھلگ رہتی۔ میں اکثر اس کا سائکو انلائسس کرتا ‘اور بالآخر خود کو سمجھا بجھا کر خاموش ہوجاتا۔ میں نے کئی بار اسے  مشورہ دیا کہ آؤ

  اب نئی زندگی کی ابتدا سماج کی ایک سنجیدہ اکائی کی صورت کرتے ہیں۔ تم کچھ نہیں کھوؤگي  معاشرے میں شادی شدہ ہونے کے اس ناتے تمھیں جو عزت ملے گی اس کا تم سوچ بھی نہیں سکتی ‘ لیکن اس کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی۔ مجھے ابھی اپنی شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔ چونکہ میں خود بھی ان سوالات سے بچنا ہی چاہتا تھا ‘ سو اس کی ہاں میں ہاں ملا کر خاموش ہوجاتا ۔

جس دن ہمارا آخری جسمانی ملاپ تھا‘ وہ کوئی طے شدہ آخری ملاقات نہ تھی۔ وہ حسب معمول ایک تفریحی ملاقات تھی۔ ہم شہر سے دور تفریح پر دو روز کے لئے ایک وسیع و عریض فارم ہاوس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ زندگی کی ہر سہولت وہاں موجود تھی۔ فارم ہاؤس کے مالک میرے دوست تھے۔ انھی کی دعوت پر میں پہلی بار نفیسہ کو لے کر وہاں گیا تھا۔ وہاں ایک فیملی اور بھی ٹھہری ہوئی تھی۔ جن کے دو ننھے منے بچے اکثر ہمیں باہر وسیع و عریض لان میں بھاگتے دوڑتے نظر آتے۔

نفیسہ اچانک ان بچوں کو دیکھ کر بدک گئی اور اپنے آپ کو چھپانے لگی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ ان بچوں کو پہچانتی ہے ۔

” میں تمھیں بتا رہی ہوں ظفر!

وہ نمیرہ کے بچے ہیں۔ میں نے اِن سے باتوں باتوں میں ان کی ماما کا نام بھی کنفرم کر لیا ہے۔ “

نفیسہ نے بے چینی سے کہا ۔” نمیرہ میری بچپن کی سہلی ہے۔ میں اس کی فیملی اور بچوں کی تصویریں دیکھ چکی ہوں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ بچوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ نمیرہ کو اچانک یہ سب دیکھ کر صدمہ پہنچے گا۔“

” تو کیا ہوا؟ اچھا ہے آج یونہی یہ راز کھلنے دو۔ اسے قطعاً صدمہ نہیں پہنچے گا۔ یہ تمھارا خوف ہے جو تمہیں روکتا ہے۔ یقین کرو کہ وہ خوش ہوجائے گی‘ کیونکہ تمھاری سہلیوں کو اکثر تمھاری شادی کی فکر رہتی ہے اور تم سے پوچھتی بھی رہتی ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ معاملے کو خوش اسلوبی سے سنبھال لوں گا۔“

دراصل میرے اندر کے نفسیاتی دباو  

نے مجھے اکسایا کہ یہی وقت ہے معاملے کو کھلنے دو تاکہ ہمہ وقت اِن خفیہ ملاقاتوں سے اس کی جان چھٹ جائےگی۔ مجھے نفیسہ کا بے حد خیال تھا۔ میرے تئیں نفیسہ اپنی سماجی زندگی میں جس مصنوعی طریقے سے رہ رہی ہے وہ اس کے لئے اور میرے لئے قطعی سود مند نہیں۔

دوسری طرف مجھے ایک اطمینان اور بھی تھا کہ میں نے عارفہ سے جب ایک روز اتفاقاً خوشگوار موڈ میں بات کرتے ہوئے پوچھا ‘

کہ اگر میں دوسری شادی کر لوں تو تمارا ردِ عمل کیا ہوگا؟

تو اس پر وہ بولی” مجھے کیا ؟ آپ بھلے چار شادیاں کر لیں‘ بس میرے بچوں کے مالی معاملات اور مستقبل کو محفوظ کردیں۔ آپ جو چاہیں کریں۔

گو یہ بات اچھی خاصی کھٹکنے والی تھی، لیکن میں نظر انداز کر گیا۔

لیکن سچ جانیں‘ عارفہ کی اس بات نے مجھے ذاتی طور پر بہت سہارا دیا تھا۔ وہ الگ بات کہ یہ احساس شدید کرب پہنچا گیا کہ اب عارفہ بھی اس ٹھہرے ہوئے بدبودار سماج میں میری طرح کی ایک ” ذمہ دار اکائی‘ بن چکی ہے جہاں انسانی قدروں کی نمو رک چکی ہو ۔

میرے لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ ابھر آئی۔

’اب معاشرے کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔‘

مجھے جب بھی اپنے آپ کو سماجی کٹہرے میں لانا پڑا، میں اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر فوراً آنکھ بچا کر نکل جاتا ہوں۔ سوال یہ تھا کہ کیا میں اپنے آپ کا سامنا کر سکتا ہوں؟ یہ سوال بہت مشکل ہے اور آپ جانتے ہیں کہ میں کبھی ایسے مشکل کاموں میں ہاتھ ہی نہیں ڈالتا ۔ ازلی سہل پسند جو ٹھہرا۔

یہاں پہنچ کر یہ احساس بار گراں کی طرح میرے کندھوں پر آن پڑاکہ وقت خود تو رک چکا ہے ۔ لیکن جان بوجھ کر معاملہ طویل کر رہا ہے۔ اِسے اور کچھ نہیں مل رہا۔ اور یہ بھی طے کرنا باقی ہے کہ صداقت ہے کہاں ؟ یا یہ ایک انجان سی کسک یا خوف ہے جو نفیسہ کو جینے نہیں دیتا؟

مجھے معلوم ہے کہ میں نے زندگی کو کبھی شر اور خیر کے حوالوں سے نہیں دیکھا بلکہ انسان کو اس کی فطری جبلت کے حوالے سے دیکھا ہے جو مظاہر میں اعمال کا نتیجہ ہے ۔ جس نے پہلے نفیسہ کو دباو

میں رکھا پھرمجھے ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وقت نے اپنے کردار نفسیات دان ڈاکٹر کو بھی نچوڑ کر رکھ دیا۔ میرے لئے یہاں یہ بھی طے کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ نفیسہ اپنے موقف پر درست ہے یا عارفہ؟

ووسری طرف مجھے اپنے نفسیات دان کردار سے بھی اختلاف ہے ۔ تاہم میرا خیال ہے کہ وقت کو معلوم ہے کہ کن سچائیوں کو سامنے لانا ہے اور کہاں ڈنڈی مارنی ہے۔ وہ خود بھی تو اسی سماج کا عکس ہے‘ اوپر سے تو ٹپکا نہیں کہ ہر بات آفاقی اور مربوط ہو۔ زمین کی پیداوار ہیں۔ ہم سب کو سماجی ارتقاءیہاں تک لایا ہے۔ آگے کہاں تک انسان کو جانا ہے اسے خود معلوم نہیں ۔ ایسی صورت میں میں ہوں کون جو سچ کو عیاں نہیں ہونے دیتا؟

میرے اندر اچانک ایک سرگوشی ابھری۔ اگر میں نہیں کہوں گا تو پھر کون کہے گا؟

کہنے کے لئے کیا کوئی فرشتہ اترے گا؟

”ہوں۔ یہ ٹھیک ہے۔ چلئے! میں مان لیتا ہوں۔“ میں نے فوراً سرگوشی کے سامنے ہتھیار پھینک دئے۔

جی تو میں کہہ رہا تھا کہ میں سماج میں دوسرے انسانوں کی طرح ہی سہل پسند ٹھہرا ہوں۔ مشکل کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتا‘ لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ کہ چلو یوں بھی کر لیتے ہیں۔ بیشتر انسان انتہا پسند ہی تو ہوتے ہیں’ لیکن مجھے ان سے کیا لینا دینا۔

آخر نفیسہ میرے دل میں بستی ہے جس کی میں نے اپنے ہاتھوں سے آبیاری کی ہے۔ اگر وہ چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔

آخر ہو ہی رہا ہے نا جو وہ چاہ رہی ہے؟

وہ جس شد ت سے مجھے پیار کرتی ہے مجھے کچھ تو اسے واپس لوٹانا ہے۔

پیار کے بدلے پیار۔ ۔۔پیار کے بدلے زندگی۔

پیار کے بدلے ہر وہ شے جسے وہ اس دنیا میں برتنا چاہتی ہے۔

میں نے نفیسہ کی طرف دیکھا وہ دانتوں سے مسلسل اپنے ناخن کتر رہی تھی۔ اِس کی ازلی معصومیت اس کے چہرے پر شفق کی طرح نمودار ہونے لگی۔

میں نے دھیرے سے اِس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہم دونوں کی آنکھیں ایک ساتھ ڈبڈبا گئیں۔

ہاں نفیسہ! تم شادی کر سکتی ہو۔ج‍اؤ۔ اپنی بساط بھر نئی دنیا بساؤ۔

میں یہیں کہیں آس پاس تمہیں زندگی کے سفر میں ملتا رہوں گا۔“

۔۔۔۔

نعیم بیگ ۔ لاہور18 فروری 2023ء

محبت کے موضوع پر افسانوی ثلاثیہ ( ٹرائیولوجی)

تیسری کہانی

تابِ محبت

نعیم بیگ لاہور

۔۔۔

ڈئیر شیراز

کیسے ہو؟ ایک خبر ہے تمہارے لئے۔

تمھیں یہ سن کر خوشی ہوگی‘ اوہ ہو ۔۔۔ خوشی تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ مہک جاؤگے ‘ جھوم جا‎‏ؤگے۔

پوچھو بھلا کیوں؟

بتاؤں ؟

اچھا بتاتی ہوں‘ کیوں پاگل ہو رہے ہو؟

میں آ رہی ہوں تمھارے پاس ہمیشہ کے لئے۔ ہے نا ایک دھماکہ خیز نیوز؟

یہ ہے وہ بات جس پر تم میرے ہونٹ چوم لیا کرتے تھے۔ میری انگلیوں کی پوروں پر ‘ میرے کانوں کی لوؤں پر اپنے گرم ہونٹ رکھ دیا کرتے تھے ۔ میں شرم کے مارے تمھیں روکتی تھی اور تم سے دور ہٹ جایا کرتی تھی۔

اِس بار میں تمھیں روکوں گی بھی نہیں۔ تمہیں پورا اختیا ہوگا۔ مجھ پر ‘ میرے جسم پر ‘ میرے ایک ایک انگ ‘ اور ذہن کے اُن گوشوں پر ‘ جہاں کبھی انجانے میں تمھارے بارے عجیب و غریب خوف ابھرا کرتے تھے۔ دور سمندروں کے پارسرابوں کی امید و بیم میں ایک انجانی  پر مسرت کسک مجھے تم سے دور کر دیا کرتی تھی۔

چلو اچھا ہوا۔اِس بار محبت میں مفلسی اور دولت کی فراوانی نے میرے سارے کس بل نکال دئیے۔

۔۔۔

شیراز لمحہ بھر کو رک کر اِس عبارت کو غور سے دیکھنے لگا ‘ جو وٹس اپ کے میسج باکس میں ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ وہ موبائل فون کی سکرین سکرول کر کے عبارت کی طوالت کا اندازہ کرنے لگا۔خوشی اِس کے انگ انگ سے پھوٹنے لگی۔ خط کی ابتدائی عبارت نے سب کچھ عیاں کر دیا تھا۔

آج صبح سویرے جب وہ بستر سے اٹھا تو حسب معمول سرہانے کی قریب تپائی پر پڑے موبائل فون کو دیکھنے لگا۔ اصل مقصد تو یہ دیکھنا ہوتاہے کہ بیٹری مکمل چارج ہو ئی کہ نہیں۔ کیونکہ پھر دن بھر کی مصروفیت اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی ۔ لیکن سب سے پہلے ایک انجان نمبر سے’ ڈئیر شیراز‘ کے ابھرتے ہوئے الفاظ کے نوٹیفیکیشن نے اسے متوجہ کر لیا جو رات کو کسی وقت آیا ہوگا۔

یہ نمبر امریکا کا تھا۔ اِس کے ذہن میں یکایک کڑیاں ملنے لگیں۔ سحر بھی تو امریکا میں ہی رہتی ہے۔

یہ سحر ہی تھی۔

۔۔۔

دیکھو اب تم حیران نہ ہونا۔مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے۔ آج مجھے روکنا نہیں۔ ایک بار سب کچھ کہہ لینے دو کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ جب میں تمھارے پاس ہوں گی‘ تو مجھ سے کچھ بھی نہ کہا جائے گا۔

ملزم نے اپنی صفائی میں کچھ تو کہنا ہوتا ہے ۔ میں تمھاری محبت کی سب سے بڑی مجرم تھی۔

نو برس پہلے برسات کی ایک سرمئی شام کو جب شہر میں آوارہ بادلوں کی رم جھم پھوار نے دلوں کے موسم کو بے قابو کر رکھا تھا ‘ میں نے تم سے اچانک ملنے کے لئے فون کیا تو شاید تم مصروف تھے لیکن میرے اصرار ر پر تم چلے آئے۔ ملاقات کے لئے وہی سحر انگیز دھنوں والا ریسٹورانٹ تھا۔ میں تمہارے انتظار میں کار میں ہی بیٹھی رہی کہ جب تم آؤ گے تو اکھٹے اندر جائیں گے۔ تم نے میری گاڑی کے قریب ہی اپنی کار پارک کرلی اور اتر کر میری کار میں بیٹھ گئے۔ تم بے تاب تھے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن میں نے تمہیں موقع ہی نہیں دیا۔ اپنے اندر کے طوفان کو تمہارے اند ر فوراً انڈیلنا چاہتی تھی۔

تب ہی میں نے باتوں باتوں میں تم پر غم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ ویسے تو ان دنوں میری مصروفیت کی وجہ سے تم مجھ سے تقریباً مایوس ہی تھے۔ پھر جب میں نے اگلے ہفتے شادی اور دو دن بعدامریکا رخصتی کی بات تمھیں بتائی تو میں تمھارا چہرہ بغور دیکھ رہی تھی۔تم بے حد متین لگے

تم نے مجھ سے فوراً پوچھا ۔ کیا تم آئس کریم کھاؤگي۔  اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر گاڑی سے اتر کر ریسٹورانٹ کے باہر کھڑے ٹھیلے سے میری پسندیدہ آئس کریم لے آئے۔ تم نے مجھ سے صرف اتنا کہا۔

مانو ! مبارک ہو۔کیا تم مجھے اپنا شادی کارڈ دینے آئی ہو یا مجھے رخصت کرنے ؟  وہ سحرکو پیار سے مانو پکارتا تھا۔

اس وقت میں تمھارے چہرے پر رنج و الم کی پوری داستان پڑھ رہی تھیں۔ میں جانتی ہوں کہ تم ایک ناقابل یقین حد تک عقلیت پسند ہو۔تم نے مجھے نئی زندگی اور نئی محبتوں کی دعا دی‘ میرے بائیں کان کی لوَ کو خاموشی سے چوما اورگاڑی سے اتر گئے۔

تم نے مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ تم شادی کے تیسرے دن کیسے اچانک امریکا جا سکتی ہو؟ تم جان چکے تھے کہ کاغذات کی تیاری میں برس دو برس تو لگ جاتے ہیں یقیناً نکاح ہو چکا ہوگا۔ جو میں نے تم سے چھپائے رکھا۔ خاندان کے بے پناہ  دباؤ پر اماں کے دور دراز کے امیر ترین بھتیجے عامر کے ساتھ میں پیپر میریج کر چکی تھی ۔

اور شاید یہی وجہ تھی کہ تمھارے قریب ہوتے ہوئے بھی دور رہی۔  

اُس وقت میں تمھارا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی کہ ان چند لمحات نے تمھیں ایک دم بوڑھا کر دیا تھا ۔ اپنی کار میں بیٹھ کر تم نے اپنی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا اور تیزی سے نکل گئے۔ میں کم عقل یہی سمجھی کہ تم نے یہ نشان میرے لئے بنایا تھا ۔ لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ یہ نشان تو بنانے والا ہمیشہ اپنے لئے بناتا ہے۔ میری زندگی میں تو ہمیشہ ہار ہی لکھی ہے۔

۔۔۔

شیراز سوچوں میں گم ماضی کے طلسم میں آنے لگا۔ اسے وہ دن خوب یاد تھے جب دونوں پہلی بار یونیورسٹی کے لان میں اچانک ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تھے۔ سحر کے ایک ہاتھ میں دستی بیگ اور کتابیں تھیں دوسرے میں کافی کا چھلکتا ہوا کپ جس کے چند چھینٹے شیراز کی قمیص پر بھی اچھل کر گر گئے۔ قصور شیراز کانہ تھا ، گو وہ تیزی میں تھا کہ پہلے دن ہی استاد کو کلاس روم میں تاخیر سے نہیں جانا چاہیے۔ اُس نے از راہ اخلاق معذرت کی تو سحر اِٹھلا کر کہنے لگی۔چلیں معاف کر دیا حالانکہ غلطی اُسی کی تھی۔

شیراز نے پارکنگ میں کھڑی اپنی کار میں ہینگر سے لٹکی دوسری قمیص تیزی سے پہنی اور خلافِ توقع و پروگرام اپنی کلاس میں لیٹ پہنچا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سحر اسی یونیورسٹی میں لیکچرر لگ گئی ہے۔دونوںگاہے بگاہے سٹاف روم میں ملتے رہے ۔ جلد ہی سحر کو معلوم ہو گیا کہ شیراز شادی شدہ دو بچوں کا باپ ہے لیکن بیوی کی مسلسل بیماری کے ہاتھوں زندگی کے لطف سے محروم ہے۔ ممکن ہے کہ یہی وجہ رہی ہو کہ وہ سحر کے فسوں میں گرفتار ہوا۔ سحر اس سے گھنٹوں بات کرتی رہتی اور دونوں یوں رفتہ رفتہ قریب آنے لگے۔ شیراز کے بچے اپنی اسکول لائف میں مصروف تھے۔ گھر کا انتظام ایک آیا نے سنبھال رکھا تھا۔ یوں شیراز کی زندگی میں یونیورسٹی اور بیوی کی تیمارداری کے سوا کچھ نہ تھا۔ سو یہ قربت دوستی سے آگے محبت کی سیڑھی چڑھنے لگی۔ دونوں بظاہر شکل و شباہت میں دیکھنے والوں کے لئے پرفیکٹ جوڑا ہوتا۔ یہ احساس دن بہ دن دونوں کے دل میں راسخ ہونے لگا کہ دراصل وہ ایک دوسرے کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔ جسم و جاں میں بدلتی ہوئی حساسیت اب شیراز کی گفتگو اور طرز عمل میں آنے لگی۔ بیوی پہلے ہی نیم جان تھی سو شیراز کی بے رخی اس پر مزید اثر انداز ہونے لگی۔وہ گھر آ کر اکثر سوچوں میں گم رہنے لگا ۔ایک طوفان تھا جو اس کے اندر سر اٹھانے لگا۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے۔

وہ اکثر اپنی سٹڈی میں آرام کرسی پر جھولتا رہتا۔

بڑبڑاتا رہتا۔۔۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے؟

جو پوری زندگی ایک نیم اپاہج اور بیمار عورت کے ساتھ گزار دی جائے۔

شادی کے دس برسوں میں وہ صرف پیسہ کمانے والی مشین کی طرح کام کرتا رہا ہے۔

کیا یہ زندگی دوبارہ آئے گی۔ کیا دنیا کی راحتیں اور خوشیوں کے مواقع اِسے دوبارہ ملیں گے؟

نہیں کبھی نہیں۔ وہ خود ہی جواب دیتا۔

شیراز کو سحر کے ساتھ گزرے مسحور کن لمحے یاد آنے لگے۔ ایک دن وہ مال روڈ پر واقع ایک بار بی کیو شاپ کے باہر کار میں بار بی کیو کا لطف لے رہے تھے کہ ایک خوبصورت لڑکی نے اپنی کار میں بیٹھے ہوئے اس کی طرف مسکرا کردیکھا۔ از راہ اخلاق جواب میں شیراز بھی مسکرا دیا۔ سحر نے اِس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کے منہ کا رخ اپنی طرف کر لیا۔ اس قدر شدید ملکیت کا تصور کہ لمحہ بھر کو مسکراتی لڑکی برداشت نہ ہوئی۔ ان لمحات نے شیراز پر سحر کی محبت کے نقش ثبت کر دئیے۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اب سحر اسے چھوڑ نہیں سکتی کہ شیراز اِس کی روح میں اتر چکا ہے۔

۔۔۔

شیراز ایک انجانے کرب و دکھ کا شکار ہونے لگا۔ اِس سے وٹس اپ پر لکھا وہ طویل خط نہیں پڑھا جا رہا تھا۔ وہ ساعت بھر کے لئے رک کر بیتے دنوں کی یادوں کو تار یخ کے اوراق سے نکال کر دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا ۔

جوں جوں وہ ایسا کرتا وہ ایک انجانے کرب کا شکار ہوتا چلا رہاتھا۔ محبت کا زہریلاناگ اس ڈسنے لگا ‘ تاہم وہ لمحہ بھر رُک کر دوبارہ پڑھنے لگا۔لفظ اس کے سامنے بنسری کی المیہ دھن پر ناچنے لگے۔

۔۔۔

لیکن شیراز سنو !

میری کچھ مجبوریاں تھیں جنھیں نبھانے کے لئے مجھے یہ سب کچھ کرنا پڑا۔ تم سوچ نہیں سکتے کہ میں امریکا چلی جانے کے بعد پہلے دو برس سو تک نہ سکی۔ عنصر نے مجھ خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میں نے اسے صاف کہہ دیا تھا کہ تم میرے قریب نہیں آؤگے۔وہ کئی ماہ تک مجھے جسمانی تعلق پر قائل کرتا رہا۔تم جانتے ہو کہ مجھے اس تعلق سے ہمیشہ خوف رہا ہے۔

مرد کی قربت جب جسم کے راستے روح میں اترے توزندگی پُر آشوب ہو جاتی ہیں اور جب یہی قربت روح کے راستے جسم میں داخل ہو تو پر مسرت لطافتوں کا شمار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ناجانے کیوں عنصر کو میں کاغذوں پر قبول کرنے کے باوجود دل سے قبول نہ کر سکی۔ انہی دنوں میرے اندر کہاں سے ممتا کا بھوت اتر آیا۔ سو ایک دن میں نے عنصر کو جسم کی سہولت مہیا کر دی۔ یہاں سے میری سزا کا دور شروع ہو گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں بیک وقت کئی دریا پار کر کے اپنی خواہشوں کی کشتیوں کو جلا کر دولت تک پہنچی تھی۔ سو انسانی جبلت نے مجھے فتح کر لیا۔ اب میرے پاس سب کچھ ہے ماسوائے تمہاری محبت۔

۔۔۔

شیراز کو مانو کی وضاحتیں اب اُن سانپوں کی طرح محسوس ہونے لگیں‘ جو اس کے آس پاس بستر پر پھن پھیلائے کبھی سامنے کبھی فرش پر اڑتے پھر رہے تھے۔

اس نے زور سے سر جھٹکا اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔اعتماد کی ڈوب جانے والی کشتی کبھی دوبارہ ساحل پر اگر اتر بھی جائے تو صرف سیکریپ ہوتی ہے۔

یہ خیال بجلی کی طرح اِس کے ذہن میں کوندا اور اس کی انگلیاں فون پر مسلسل حرکت کرنے لگیں۔

وہ اس نمبر کو بلاک کر چکا تھا۔

۔۔۔

نعیم بیگ لاہور 18/ نومبر 2023ء

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024