مذہب سائنس اور نفسیات
مذہب سائنس اور نفسیات
Jan 12, 2023
مصنفین : ڈاکٹر سہیل زبیری ، ڈاکٹر خالد سہیل
کتاب : مذہب سائنس اور نفسیات
مصنفین : ڈاکٹر سہیل زبیری ، ڈاکٹر خالد سہیل
تبصرہ : نعیم اشرف
انگریزی کتاب: "ریلیجن ، سائنس اینڈ سائیکالوجی" کو اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع راقم کو فراہم کیا گیا - یہ ترجمہ قریب 4 ماہ میں مکمل ہوا۔اور کتاب کانام "مذہب سائنس اور نفسیات " رکھا گیا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں جب ڈاکٹر خالد سہیل نے مجھے پاکستان فون کر کے ترجمہ کرنے کے لیے میری رضامندی مانگی تو میں نے حسبِ عادت کتاب پڑھنے کے لیے منگوا لی۔ آغاز میں میرا تاثر یہی تھا کہ بچپن کے دو ہم جماعت دوست نصف صدی کے بعد ملے ہیں اور ان مضامین و خطوط میں بچپن کی یادیں تازہ کی ہونگی۔ مگر جب کتاب مجھے دی گئی تو بات کچھ اور نکلی۔ کتاب میں بچپن کی باتیں صرف چند تھیں۔ بلکہ "مذہب ، سائنس اور نفسیات" زندگی سے متعلق سنجیدہ موضوعات پر مبنی اہم دستاویز ہے جو خطوط کی شکل میں دو سائنسدانوں نے ایک دوسرے کو تحریر کیے ہیں۔ یہاں پر روایتی تعارف لکھنے کی بجائے میں اپنے وہ تاثرات رقم کرنا چاہونگا جو اس کتاب کو ترجمہ کرتے ہوئے میرے ذہن میں پیدا اُبھرے ہیں۔
تعلیمی انتظام کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ناطے سے اکثر سوچا کرتا ہوں کہ ہم اپنے طلباء کوزمانہِ حال کے کون سے لوگ متعارف کروا سکتے ہیں جن کی مثال سامنے رکھ کروہ عملی زندگی میں ایک متوازن رویہ، تخلیقی شعور اور منفرد سوچ پیدا کر سکیں۔ رول ماڈل کہاں سے آئیں؟ یہی مسئلہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی اُن لوگوں کو درپیش تھا جو پاکستانی بچوں کے لیے نصابی کُتب مرتب کر رہے تھے۔ اُن کو جب اپنی سرزمین پر کوئی رول ماڈل نہ ملا تو انھوں نے بیرونِ مُلک سے کچھ رول ماڈل درآمد کر لیے ۔ لہٰذا ہماری نصابی کُتب عرب ، افغان اور دیگر حملہ آوروں سے بھری پڑی ہیں۔ محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی جیسے لشکریوں کو بچوں کے سامنے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور اس پر طُرہ یہ کہ محمد اقبال جیسے شاعراور نسیم حجازی جیسے ادیب ان امپورٹد ہیروز کی وسوانح حیات پر تہذیبی نرگسیت کا تڑکہ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کو ہمارے آباء اجداد بتاتے ہیں اور نئی نسل کو محنت ، راست بازی اور جہدِ و جہد کی روش ترک کر کے فوجی طاقت جمع کرنے اور دنیا کی خوشحال سر زمینوں سے سونا ، ہیرے ، جواہرات اور خوبصورت عورتوں کو اپنے قبضے میں لانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ چاہے اس عمل میں معصوم جانیں ، بچے ، بوڑھے اور خواتین کتنی تعداد میں کیوں نہ مار دیے جائیں۔ 'کے۔ کے۔ عزیز' (K.K.Aziz) نے اپنی کتاب "مرڈر آف ہسٹری" (Murder of History) میں اول جماعت سے گریجوئیشن تک پاکستانی نصابِ تعلیم میں شامل ، تاریخ ، مطالعہ پاکستان اور معاشرتی عُلوم کی ایسی 66 نصابی کتب کی نشان دہی کی ہے جن میں حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ عزیز کے بقول ہمارے بچوں سے سنگین جھوٹ بولے گئے اور آج بھی بولے جا رہے ہیں۔
یہ ترجمہ کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں طلباء کو ان کے تعلیمی درجے کے مطابق کے مطابق "کیس سٹڈیز" پڑھانی چاہئیں۔ جن میں زمانہِ حال اور ماضی قریب کےاپنی سرزمین کے سائنسی، سماجی اور علمی شعبوں میں اہم کارنامے سر انجام دینی والی شخصیات کی سوانح حیات بچوں کو بتائی جائیں۔ اور ان افراد کو پاکستان کی مختلف جامعات میں گیسٹ سپیکر کے طور پر مدعو کیا جائے تاکہ بچے ان سے مکالمہ بھی کر سکیں۔ میری خیال میں لمحہ موجود میں تعلیم کے حوالے سے یہ ملک کی بہت بڑی خدمت ہوگی ۔ مگر بد قسمتی سے اربابِ اختیار کے غیر سنجیدہ روئیے کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہ حال کی کوئی بڑی علمی ، ادبی اور سائنسی شخصیت بچوں کو نہیں پڑھائی جاتی۔ اور نہ ایسے افراد سے بچوں کو ملوایا جاتا ہے جو خواب دیکھتے ہیں پھر ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے ثابت قدمی سے کوشش کرتے ہیں۔ نیلسن مینڈیلا، ابراہم لنکن ، نیکولا ٹیسلا ، تھامس ایڈیسن ، نیوٹن اور البرٹ آئن سٹائن جیسے لوگ۔ جن کی زندگیاں انسانیت کی بھلائی کے لیے وقف ہوں۔ ماضی قریب اور زمانہِ حال میں ڈاکٹر عبدالسلام، عبدالستار ایدھی ، جسٹس بھگوان داس، حکیم محمد سعید ، پرویز ھُود بھائی،رمضان چھیپا ، سلیم الزمان صدیقی’ احمد حسن دانی ، ادیب الحسن رضوی ، انصار برنی ، ڈاکٹر امجد ثاقب اور روتھ فاؤ جیسے افراد کی انسانیت کی بھلائی کے لیے کی جانے والی تاریخی کاوشوں پر کیس سٹڈیز بچوں کے نصاب میں شامل کی جانی چاہئیں ۔
'پالو کوہیلو' نے اپنے ناول شہرہ آفاق ناول : "الکیمسٹ" میں ایک جگہ لکھا : " اگر تمھارا خواب سچا ہے اور تمھیں تمھاری منزل صاف دکھائی دے رہی ہے تو اس کو پانے کے لیے تن دہی سے جدو جہد کرو۔ اور یاد رکھو کہ فطرت کی قوتیں یکجا ہو کر تمھیں تمھاری منزل سے ہمکنار کر دیں گی۔"
1960ء کی دہائی میں کنٹونمنٹ ہائی سکول پشاور کی جماعت ہفتم کے دو طالبِ علم بھی کچھ ایسے خواب دیکھتے ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ بچے عام اوسط درجے کے اردو میڈیم سکول میں تعلیم حاصل کر کے اپنے اپنے خوابوں کی تلاش میں دنیا کی بہترین جامعات میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں سے اپنے اپنے شعبے کی اعلیٰ ترین تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ، دونوں طلباء سائنسدان ، نفسیات دان اور مصنفین بن جاتے ہیں۔ او اپنی بقیہ زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ کیا یہ اور ان جیسے دیگر افراد آج کے طالب علم کے لیے رول ماڈل نہیں؟
چوالیس سال سے شعبہ تعلیم سے منسلک ڈاکٹر سہیل زبیری نے قائدِ اعظم یونیورسٹی میں فزکس میں سب سے پہلے پی ۔ ایچ ۔ ڈی کا پروگرام شروع کیا اور 20 برس تک اس کی آبیاری کی۔ اس دوران متعدد طلباء کو پی۔ایچ۔ڈی اور ایم۔فل کروائی۔ ڈاکٹر کا خاص علاقہ کوانٹم آپٹکس ہے۔ یہ فزکس کی قدرے نئی شاخ ہے۔ لہٰذا اس پر ایک بنیادی اورمستند کتاب کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر زبیری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے اس مضمون پر پہلی پہلی کتاب لکھی جو دنیا کی متعدد جامعات میں نصاب کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے۔ 'کوانٹم مکینکس' کے شعبے میں بھی ڈاکٹر زبیری کا ''بلا واسطہ رابطہ'' کی دریافت اور ''سالڈ سٹیٹ فزکس'' میں ''لیتھوگرافی'' پرکم سے کم فاصلہ ناپنے کے طریقے جیسی پیش رفت پر اہم کام ہے۔
کتاب کے دوسرے مصنف ڈاکٹر خالد سہیل بطورِ نفسیاتی طبیب(سائیکو تھراپسٹ) گزشتہ نصف صدی سے دُکھی انسانوں میں خوشیاں تقسیم کرنے اور امید کی شمعیں روشن کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں ۔ شاعری کے علاوہ ایک مستند ادیب کے طور پر نفسیات ، ادب، سماج ، فلسفے اور تحقیق جیسے متنوع موضوعات پر 70 انگریزی اور اردو کتب کے مصنف اور " ھم سب " پر 500سے اوپر مضامین کے لکھاری ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سہیل گرین زون تھیریپی کے بانی ہیں۔ بلا شبہ ڈاکٹر زبیری ایک سائنسدان اور ڈاکٹر سہیل جیسے عقبری پاکستانی بچوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔
دوسرا احساس جو ترجمہ کرتے ہوئے ہوا وہ پاکستانی معاشرے کی بد قسمتی تھا ۔ کس قدر دُکھ کی بات ہے کہ ہمارا نظام ٹیلنٹ کی قدر نہیں کرتا ۔ لہٰذا لائق ، ہنرمند، تخلیقی صلاحیتوں سے بہرہ ورہونہار طلباء کو اپنا ہی وطن چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور مادرِ وطن کو ان کی صلاحیتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
اگلا احساس یہ پیدا ہوا کہ ہمارے بچوں کو خود سوچ کر اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اول تو ہمارا نصابِ تعلیم ہی تخلیق و تحقیق کی نمو نہیں کرتا ۔ یہ علم سے زیادہ یاداشت کا امتحان لیتا ہے۔ اگر کوئی تخلیقی ذہن پیدا ہو بھی جائے تو اس کی اتنی ناقدری ہوتی ہے کہ وہ مُلک چھوڑ کر بیرونِ مُلک سدھار جاتا ہے۔
ایک اور احساس مجھے طبیعات کے حوالے سے جدید تحقیق دیکھ کرہوا ۔ خاص کر کوانٹم آپٹکس جیسی سائنس کی نئی شاخ میں ڈاکٹر سہیل زبیری کی خدمات دیکھ کر بطورِ پاکستانی فخر بھی محسوس ہُوا۔ سائنس کے طالب علم کے طور طبیعات کی دنیا کے عظیم سائنسدانوں نیوٹن، آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کی دریافتیں جو زمانہ حال کی جدید ترین معلومات ہیں ، پڑھ کر سائنسی ایمان تازہ ہوا۔ علمِ نفسیات میں آج کے مشہور طبیعات دانوں 'سگمنڈ فرائیڈ' سے لے کر 'مرے بوون' تک کے نظریات اس کتاب کا مرکزی خیال ہیں ۔ اس طرح یہ کتاب دو دوستوں کی ذاتی باتوں سے آگے نکل کر طبیعات ، نفسیات ، فلسفے، فلکیات اور زندگی کے اہم حقائق سے روشناس کرواتی اہم کتاب ہے۔
میں ڈاکٹر سہیل زبیری اور ڈاکٹر خالد سہیل کو پاکستانی قوم بالخصوص جوانوں کو اس کتاب کی صورت ایک خوبصورت تحفہ دینے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ یہ کتاب اگست کے وسط تک طبع ہو کر دستیاب ہوگی۔
1
کتاب : مذہب سائنس اور نفسیات
مصنفین : ڈاکٹر سہیل زبیری ، ڈاکٹر خالد سہیل
تبصرہ : نعیم اشرف
انگریزی کتاب: "ریلیجن ، سائنس اینڈ سائیکالوجی" کو اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع راقم کو فراہم کیا گیا - یہ ترجمہ قریب 4 ماہ میں مکمل ہوا۔اور کتاب کانام "مذہب سائنس اور نفسیات " رکھا گیا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں جب ڈاکٹر خالد سہیل نے مجھے پاکستان فون کر کے ترجمہ کرنے کے لیے میری رضامندی مانگی تو میں نے حسبِ عادت کتاب پڑھنے کے لیے منگوا لی۔ آغاز میں میرا تاثر یہی تھا کہ بچپن کے دو ہم جماعت دوست نصف صدی کے بعد ملے ہیں اور ان مضامین و خطوط میں بچپن کی یادیں تازہ کی ہونگی۔ مگر جب کتاب مجھے دی گئی تو بات کچھ اور نکلی۔ کتاب میں بچپن کی باتیں صرف چند تھیں۔ بلکہ "مذہب ، سائنس اور نفسیات" زندگی سے متعلق سنجیدہ موضوعات پر مبنی اہم دستاویز ہے جو خطوط کی شکل میں دو سائنسدانوں نے ایک دوسرے کو تحریر کیے ہیں۔ یہاں پر روایتی تعارف لکھنے کی بجائے میں اپنے وہ تاثرات رقم کرنا چاہونگا جو اس کتاب کو ترجمہ کرتے ہوئے میرے ذہن میں پیدا اُبھرے ہیں۔
تعلیمی انتظام کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ناطے سے اکثر سوچا کرتا ہوں کہ ہم اپنے طلباء کوزمانہِ حال کے کون سے لوگ متعارف کروا سکتے ہیں جن کی مثال سامنے رکھ کروہ عملی زندگی میں ایک متوازن رویہ، تخلیقی شعور اور منفرد سوچ پیدا کر سکیں۔ رول ماڈل کہاں سے آئیں؟ یہی مسئلہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی اُن لوگوں کو درپیش تھا جو پاکستانی بچوں کے لیے نصابی کُتب مرتب کر رہے تھے۔ اُن کو جب اپنی سرزمین پر کوئی رول ماڈل نہ ملا تو انھوں نے بیرونِ مُلک سے کچھ رول ماڈل درآمد کر لیے ۔ لہٰذا ہماری نصابی کُتب عرب ، افغان اور دیگر حملہ آوروں سے بھری پڑی ہیں۔ محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی جیسے لشکریوں کو بچوں کے سامنے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور اس پر طُرہ یہ کہ محمد اقبال جیسے شاعراور نسیم حجازی جیسے ادیب ان امپورٹد ہیروز کی وسوانح حیات پر تہذیبی نرگسیت کا تڑکہ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کو ہمارے آباء اجداد بتاتے ہیں اور نئی نسل کو محنت ، راست بازی اور جہدِ و جہد کی روش ترک کر کے فوجی طاقت جمع کرنے اور دنیا کی خوشحال سر زمینوں سے سونا ، ہیرے ، جواہرات اور خوبصورت عورتوں کو اپنے قبضے میں لانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ چاہے اس عمل میں معصوم جانیں ، بچے ، بوڑھے اور خواتین کتنی تعداد میں کیوں نہ مار دیے جائیں۔ 'کے۔ کے۔ عزیز' (K.K.Aziz) نے اپنی کتاب "مرڈر آف ہسٹری" (Murder of History) میں اول جماعت سے گریجوئیشن تک پاکستانی نصابِ تعلیم میں شامل ، تاریخ ، مطالعہ پاکستان اور معاشرتی عُلوم کی ایسی 66 نصابی کتب کی نشان دہی کی ہے جن میں حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ عزیز کے بقول ہمارے بچوں سے سنگین جھوٹ بولے گئے اور آج بھی بولے جا رہے ہیں۔
یہ ترجمہ کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں طلباء کو ان کے تعلیمی درجے کے مطابق کے مطابق "کیس سٹڈیز" پڑھانی چاہئیں۔ جن میں زمانہِ حال اور ماضی قریب کےاپنی سرزمین کے سائنسی، سماجی اور علمی شعبوں میں اہم کارنامے سر انجام دینی والی شخصیات کی سوانح حیات بچوں کو بتائی جائیں۔ اور ان افراد کو پاکستان کی مختلف جامعات میں گیسٹ سپیکر کے طور پر مدعو کیا جائے تاکہ بچے ان سے مکالمہ بھی کر سکیں۔ میری خیال میں لمحہ موجود میں تعلیم کے حوالے سے یہ ملک کی بہت بڑی خدمت ہوگی ۔ مگر بد قسمتی سے اربابِ اختیار کے غیر سنجیدہ روئیے کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہ حال کی کوئی بڑی علمی ، ادبی اور سائنسی شخصیت بچوں کو نہیں پڑھائی جاتی۔ اور نہ ایسے افراد سے بچوں کو ملوایا جاتا ہے جو خواب دیکھتے ہیں پھر ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے ثابت قدمی سے کوشش کرتے ہیں۔ نیلسن مینڈیلا، ابراہم لنکن ، نیکولا ٹیسلا ، تھامس ایڈیسن ، نیوٹن اور البرٹ آئن سٹائن جیسے لوگ۔ جن کی زندگیاں انسانیت کی بھلائی کے لیے وقف ہوں۔ ماضی قریب اور زمانہِ حال میں ڈاکٹر عبدالسلام، عبدالستار ایدھی ، جسٹس بھگوان داس، حکیم محمد سعید ، پرویز ھُود بھائی،رمضان چھیپا ، سلیم الزمان صدیقی’ احمد حسن دانی ، ادیب الحسن رضوی ، انصار برنی ، ڈاکٹر امجد ثاقب اور روتھ فاؤ جیسے افراد کی انسانیت کی بھلائی کے لیے کی جانے والی تاریخی کاوشوں پر کیس سٹڈیز بچوں کے نصاب میں شامل کی جانی چاہئیں ۔
'پالو کوہیلو' نے اپنے ناول شہرہ آفاق ناول : "الکیمسٹ" میں ایک جگہ لکھا : " اگر تمھارا خواب سچا ہے اور تمھیں تمھاری منزل صاف دکھائی دے رہی ہے تو اس کو پانے کے لیے تن دہی سے جدو جہد کرو۔ اور یاد رکھو کہ فطرت کی قوتیں یکجا ہو کر تمھیں تمھاری منزل سے ہمکنار کر دیں گی۔"
1960ء کی دہائی میں کنٹونمنٹ ہائی سکول پشاور کی جماعت ہفتم کے دو طالبِ علم بھی کچھ ایسے خواب دیکھتے ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ بچے عام اوسط درجے کے اردو میڈیم سکول میں تعلیم حاصل کر کے اپنے اپنے خوابوں کی تلاش میں دنیا کی بہترین جامعات میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں سے اپنے اپنے شعبے کی اعلیٰ ترین تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ، دونوں طلباء سائنسدان ، نفسیات دان اور مصنفین بن جاتے ہیں۔ او اپنی بقیہ زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ کیا یہ اور ان جیسے دیگر افراد آج کے طالب علم کے لیے رول ماڈل نہیں؟
چوالیس سال سے شعبہ تعلیم سے منسلک ڈاکٹر سہیل زبیری نے قائدِ اعظم یونیورسٹی میں فزکس میں سب سے پہلے پی ۔ ایچ ۔ ڈی کا پروگرام شروع کیا اور 20 برس تک اس کی آبیاری کی۔ اس دوران متعدد طلباء کو پی۔ایچ۔ڈی اور ایم۔فل کروائی۔ ڈاکٹر کا خاص علاقہ کوانٹم آپٹکس ہے۔ یہ فزکس کی قدرے نئی شاخ ہے۔ لہٰذا اس پر ایک بنیادی اورمستند کتاب کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر زبیری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے اس مضمون پر پہلی پہلی کتاب لکھی جو دنیا کی متعدد جامعات میں نصاب کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے۔ 'کوانٹم مکینکس' کے شعبے میں بھی ڈاکٹر زبیری کا ''بلا واسطہ رابطہ'' کی دریافت اور ''سالڈ سٹیٹ فزکس'' میں ''لیتھوگرافی'' پرکم سے کم فاصلہ ناپنے کے طریقے جیسی پیش رفت پر اہم کام ہے۔
کتاب کے دوسرے مصنف ڈاکٹر خالد سہیل بطورِ نفسیاتی طبیب(سائیکو تھراپسٹ) گزشتہ نصف صدی سے دُکھی انسانوں میں خوشیاں تقسیم کرنے اور امید کی شمعیں روشن کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں ۔ شاعری کے علاوہ ایک مستند ادیب کے طور پر نفسیات ، ادب، سماج ، فلسفے اور تحقیق جیسے متنوع موضوعات پر 70 انگریزی اور اردو کتب کے مصنف اور " ھم سب " پر 500سے اوپر مضامین کے لکھاری ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سہیل گرین زون تھیریپی کے بانی ہیں۔ بلا شبہ ڈاکٹر زبیری ایک سائنسدان اور ڈاکٹر سہیل جیسے عقبری پاکستانی بچوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔
دوسرا احساس جو ترجمہ کرتے ہوئے ہوا وہ پاکستانی معاشرے کی بد قسمتی تھا ۔ کس قدر دُکھ کی بات ہے کہ ہمارا نظام ٹیلنٹ کی قدر نہیں کرتا ۔ لہٰذا لائق ، ہنرمند، تخلیقی صلاحیتوں سے بہرہ ورہونہار طلباء کو اپنا ہی وطن چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور مادرِ وطن کو ان کی صلاحیتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
اگلا احساس یہ پیدا ہوا کہ ہمارے بچوں کو خود سوچ کر اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اول تو ہمارا نصابِ تعلیم ہی تخلیق و تحقیق کی نمو نہیں کرتا ۔ یہ علم سے زیادہ یاداشت کا امتحان لیتا ہے۔ اگر کوئی تخلیقی ذہن پیدا ہو بھی جائے تو اس کی اتنی ناقدری ہوتی ہے کہ وہ مُلک چھوڑ کر بیرونِ مُلک سدھار جاتا ہے۔
ایک اور احساس مجھے طبیعات کے حوالے سے جدید تحقیق دیکھ کرہوا ۔ خاص کر کوانٹم آپٹکس جیسی سائنس کی نئی شاخ میں ڈاکٹر سہیل زبیری کی خدمات دیکھ کر بطورِ پاکستانی فخر بھی محسوس ہُوا۔ سائنس کے طالب علم کے طور طبیعات کی دنیا کے عظیم سائنسدانوں نیوٹن، آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کی دریافتیں جو زمانہ حال کی جدید ترین معلومات ہیں ، پڑھ کر سائنسی ایمان تازہ ہوا۔ علمِ نفسیات میں آج کے مشہور طبیعات دانوں 'سگمنڈ فرائیڈ' سے لے کر 'مرے بوون' تک کے نظریات اس کتاب کا مرکزی خیال ہیں ۔ اس طرح یہ کتاب دو دوستوں کی ذاتی باتوں سے آگے نکل کر طبیعات ، نفسیات ، فلسفے، فلکیات اور زندگی کے اہم حقائق سے روشناس کرواتی اہم کتاب ہے۔
میں ڈاکٹر سہیل زبیری اور ڈاکٹر خالد سہیل کو پاکستانی قوم بالخصوص جوانوں کو اس کتاب کی صورت ایک خوبصورت تحفہ دینے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ یہ کتاب اگست کے وسط تک طبع ہو کر دستیاب ہوگی۔
1