لومڑی کا انجام
لومڑی کا انجام
Mar 15, 2018
دیدبان شمارہ ۔ ۷
لومڑی کا انجام
کہانی؛ زکریا تامر
ترجمہ؛ قیصر نذیر خاورؔ
"الو کے شور سے قریب سوئے شیر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے پریشان ہو کر اسے حاکمانہ لہجے میں کہا؛” بس بہت ہوا! بندکرو اپنا یہ دہلا دینے والا شور۔
" میں نے آپ کو اس لئے جگایا کہ آپ کو آگاہ کر سکوں کہ آپ آنے والے دنوں میں مرنے والے ہیں کیونکہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں ۔“ الو نے جواب دیا، ” آپ مر جاﺅ گے اور اس جنگل سے بہت دور چلے جاﺅ گے۔"
شیر نے نظر گھما کر اپنے ارد گرد دیکھا، صاف نیلے آسمان ، سنہری چمکیلی دھوپ، سبز گھاس اور پیلے، لال اور سفید پھولوں کو دیکھ کر بے ثباتی عالم پر غور کیا تو اور پریشان ہو گیا۔ اسے موت اور الو سے نفرت ہونے لگی۔ بڑھاپے کا احساس اسے تکلیف دینے لگا لیکن جیسے ہی اس کی نظر ایک فربہ لومڑی پر پڑی تو اس کا سارا تاسف جاتا رہا اور اس نے لومڑی کا تعاقب کرنے کی ٹھانی۔
"الو نے پھر شور مچا دیا؛ ” لومڑی مرنے والی ہے۔ ۔ ۔ لومڑی مرنے والی ہے۔
"لومڑی کو جب اس خطرے سے آگاہی ہوئی تو وہ بری طرح خوفزدہ ہو گئی لیکن وہ وہاں سے بھاگی نہیں۔ وہ جلدی سے شیر کے پاس پہنچی اور الو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو کہا؛ ” آپ سچ مچ اس کاہن کی باتوں پر یقین کرتے ہیں؟
"شیر متجسّس ہوا اور اس نے لومڑی سے پوچھا؛ ” تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
" کل ، اسی طرح کے ایک کاہن نے مجھے کہا تھا کہ جس روز میری موت واقع ہو گی تو اس کے اگلے دن آپ بھی چل بسیں گے ۔“
شیر کے چہرے پر حقارت بھری مسکراہٹ آئی اور اس نے ٹھٹھا لگاتے ہوئے کہا؛ ” اور تمہیں کیسے پتہ ہے کہ وہ کاہن میرے بارے میں ہی بات کر رہا تھا؟ یہ جنگل شیروں سے بھرا پڑا ہے ، اور جیسا کہ تم جانتی ہو ہم شیروں کے نام نہیں ہوتے "۔
اس کاہن نے مجھے یہ بتایا تھا کہ میں اس شیر کو دیکھتے ہی بھانپ جاﺅں گی جس نے میرے مرنے کے بعد اس دنیا سے جانا ہو گا کیونکہ میں جان جاﺅں گی کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اور جیسے ہی میں نے آپ کو دیکھا ، مجھے فوری طور پر پتہ چل گیا کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں"۔
” اور میں اس وقت کیا سوچ رہا ہوں ؟ “ مخمسے میں پھنسے شیر نے پوچھا۔
” آپ سوچ رہے ہیں کہ لومڑی کا گوشت اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ یہ تمام غم بھلا دیتا ہے اور سب بیماریوں کو سرعت سے ٹھیک کر دیتا ہے۔ “
شیر حیران ہو کر بولا؛ ” سچی بات تو یہ ہے کہ میں واقعی ایسا ہی سوچ رہا تھا۔ “
یہ سن کر الو نے پھر شور مچا دیا: ” چالاک لومڑی نے طاقتور شیر کو جھانسا دے دیا۔ “
” چپ کرو، تمہارا اس معاملے سے کیا لینا دینا۔“ شیر نے الو کو سختی سے ڈانٹا ۔ پھر وہ لومڑی کی طرف متوجہ ہوا اور اسے حلیمی کے ساتھ التجائی انداز میں کہنے لگا؛ ” میرے ساتھ رہو، میں تمہیں گوشت ، انگور اور وہ سب جو تمہیں چاہئیے ہو گا ، مہیا کروں گا۔ “
لومڑی یہ سن کر خوش ہوئی اور اس نے شیر کو معاہدے کا عندیہ دے دیا۔ پہلے کی ناخوشگوار صورت حال بدلی ، ایک محبت نے جنم لیا جس میں وہ خوشی خوشی بلا خوف و خطر اور کشٹ سے آزاد زندگی گزارنے لگی۔
ایک دن شیر بھوکا تھا اور جنگل میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور لومڑی پر جھپٹا ، اس کی فریاد اور مدد کے لئے پکار پر دھیان دئیے بغیر وہ اسے چٹ کر گیا۔ شکم بھر جانے پر وہ دریا پر گیا ، اپنے پنجے دھوئے، دانت صاف کئے اور شاخوں بھرے ایک درخت تلے لیٹ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور نیند کے مزے لینے ہی لگا تھا کہ الو کے شور سے خوفزدہ ہو کر اچھل پڑا۔ الو کہہ رہا تھا؛ ” شیر مرنے لگا ہے۔۔۔ شیر مرنے لگا ہے۔۔۔۔“
شیر کو تب احساس ہوا کہ اس سے کیا کر ڈالا تھا۔ وہ گہرے پچھتاوے میں ڈوب گیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اگلے روز مر جائے گا جیسا کہ لومڑی نے کہا تھا۔ لیکن وہ نہ مرا۔ اس کی زندگی چلتی رہی اور وہ لومڑیوں اور ان تمام جانوروں کا شکار کرتا رہا جو طاقت میں اس سے کمتر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ :---
ستا سی سالہ زکریا تامر ، شام کے شہر دمشق میں2 جنوری 1931 ءکو پیدا ہوئے۔ عربی زبان کے اہم ترین ادیبوں میں شمار ہوتا ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے ادب کے لئے بھی مشہور ہیں۔ ان کی بہت سی کہانیوں کی بنیاد لوک ادب پر ہے جسے وہ بہت مہارت کے ساتھ ورائے حقیقی
(Surrealistic)
انداز میں سیاسی و سماجی جبر اور استحصال کے خلاف احتجاج کے لئے برتتے ہیں۔ افسانوں کے دس سے زائد مجموعوں، طنزیہ مضامین کے دو انتخابات اور بچوں کے لئے لکھی گئی ان گنت کتابوں کے ساتھ وہ اب بھی باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔
مندرجہ بالا کہانی ‘For Every Fox, An End’
پہلی بار جون 1985 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ وہ سال ہے جب شام میں صدراتی انتخابات ہوئے تھے جن میں ملک کی صدارت کے لئے صرف ایک ہی امیدوار تھا۔۔۔ حافظ الاسد ۔۔۔ جس نے 100 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ یاد رہے کہ حافظ الااسد نے 1970 ء میں صالح جدید کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور وہ 2000 ءتک شام کا صدر رہا۔ اس کے مرنے پر اس کا بیٹا بشار حافظ الاسد شام کا صدر بنا اور اب تک ہے۔
دیدبان شمارہ ۔ ۷
لومڑی کا انجام
کہانی؛ زکریا تامر
ترجمہ؛ قیصر نذیر خاورؔ
"الو کے شور سے قریب سوئے شیر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے پریشان ہو کر اسے حاکمانہ لہجے میں کہا؛” بس بہت ہوا! بندکرو اپنا یہ دہلا دینے والا شور۔
" میں نے آپ کو اس لئے جگایا کہ آپ کو آگاہ کر سکوں کہ آپ آنے والے دنوں میں مرنے والے ہیں کیونکہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں ۔“ الو نے جواب دیا، ” آپ مر جاﺅ گے اور اس جنگل سے بہت دور چلے جاﺅ گے۔"
شیر نے نظر گھما کر اپنے ارد گرد دیکھا، صاف نیلے آسمان ، سنہری چمکیلی دھوپ، سبز گھاس اور پیلے، لال اور سفید پھولوں کو دیکھ کر بے ثباتی عالم پر غور کیا تو اور پریشان ہو گیا۔ اسے موت اور الو سے نفرت ہونے لگی۔ بڑھاپے کا احساس اسے تکلیف دینے لگا لیکن جیسے ہی اس کی نظر ایک فربہ لومڑی پر پڑی تو اس کا سارا تاسف جاتا رہا اور اس نے لومڑی کا تعاقب کرنے کی ٹھانی۔
"الو نے پھر شور مچا دیا؛ ” لومڑی مرنے والی ہے۔ ۔ ۔ لومڑی مرنے والی ہے۔
"لومڑی کو جب اس خطرے سے آگاہی ہوئی تو وہ بری طرح خوفزدہ ہو گئی لیکن وہ وہاں سے بھاگی نہیں۔ وہ جلدی سے شیر کے پاس پہنچی اور الو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو کہا؛ ” آپ سچ مچ اس کاہن کی باتوں پر یقین کرتے ہیں؟
"شیر متجسّس ہوا اور اس نے لومڑی سے پوچھا؛ ” تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
" کل ، اسی طرح کے ایک کاہن نے مجھے کہا تھا کہ جس روز میری موت واقع ہو گی تو اس کے اگلے دن آپ بھی چل بسیں گے ۔“
شیر کے چہرے پر حقارت بھری مسکراہٹ آئی اور اس نے ٹھٹھا لگاتے ہوئے کہا؛ ” اور تمہیں کیسے پتہ ہے کہ وہ کاہن میرے بارے میں ہی بات کر رہا تھا؟ یہ جنگل شیروں سے بھرا پڑا ہے ، اور جیسا کہ تم جانتی ہو ہم شیروں کے نام نہیں ہوتے "۔
اس کاہن نے مجھے یہ بتایا تھا کہ میں اس شیر کو دیکھتے ہی بھانپ جاﺅں گی جس نے میرے مرنے کے بعد اس دنیا سے جانا ہو گا کیونکہ میں جان جاﺅں گی کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اور جیسے ہی میں نے آپ کو دیکھا ، مجھے فوری طور پر پتہ چل گیا کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں"۔
” اور میں اس وقت کیا سوچ رہا ہوں ؟ “ مخمسے میں پھنسے شیر نے پوچھا۔
” آپ سوچ رہے ہیں کہ لومڑی کا گوشت اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ یہ تمام غم بھلا دیتا ہے اور سب بیماریوں کو سرعت سے ٹھیک کر دیتا ہے۔ “
شیر حیران ہو کر بولا؛ ” سچی بات تو یہ ہے کہ میں واقعی ایسا ہی سوچ رہا تھا۔ “
یہ سن کر الو نے پھر شور مچا دیا: ” چالاک لومڑی نے طاقتور شیر کو جھانسا دے دیا۔ “
” چپ کرو، تمہارا اس معاملے سے کیا لینا دینا۔“ شیر نے الو کو سختی سے ڈانٹا ۔ پھر وہ لومڑی کی طرف متوجہ ہوا اور اسے حلیمی کے ساتھ التجائی انداز میں کہنے لگا؛ ” میرے ساتھ رہو، میں تمہیں گوشت ، انگور اور وہ سب جو تمہیں چاہئیے ہو گا ، مہیا کروں گا۔ “
لومڑی یہ سن کر خوش ہوئی اور اس نے شیر کو معاہدے کا عندیہ دے دیا۔ پہلے کی ناخوشگوار صورت حال بدلی ، ایک محبت نے جنم لیا جس میں وہ خوشی خوشی بلا خوف و خطر اور کشٹ سے آزاد زندگی گزارنے لگی۔
ایک دن شیر بھوکا تھا اور جنگل میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور لومڑی پر جھپٹا ، اس کی فریاد اور مدد کے لئے پکار پر دھیان دئیے بغیر وہ اسے چٹ کر گیا۔ شکم بھر جانے پر وہ دریا پر گیا ، اپنے پنجے دھوئے، دانت صاف کئے اور شاخوں بھرے ایک درخت تلے لیٹ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور نیند کے مزے لینے ہی لگا تھا کہ الو کے شور سے خوفزدہ ہو کر اچھل پڑا۔ الو کہہ رہا تھا؛ ” شیر مرنے لگا ہے۔۔۔ شیر مرنے لگا ہے۔۔۔۔“
شیر کو تب احساس ہوا کہ اس سے کیا کر ڈالا تھا۔ وہ گہرے پچھتاوے میں ڈوب گیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اگلے روز مر جائے گا جیسا کہ لومڑی نے کہا تھا۔ لیکن وہ نہ مرا۔ اس کی زندگی چلتی رہی اور وہ لومڑیوں اور ان تمام جانوروں کا شکار کرتا رہا جو طاقت میں اس سے کمتر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ :---
ستا سی سالہ زکریا تامر ، شام کے شہر دمشق میں2 جنوری 1931 ءکو پیدا ہوئے۔ عربی زبان کے اہم ترین ادیبوں میں شمار ہوتا ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے ادب کے لئے بھی مشہور ہیں۔ ان کی بہت سی کہانیوں کی بنیاد لوک ادب پر ہے جسے وہ بہت مہارت کے ساتھ ورائے حقیقی
(Surrealistic)
انداز میں سیاسی و سماجی جبر اور استحصال کے خلاف احتجاج کے لئے برتتے ہیں۔ افسانوں کے دس سے زائد مجموعوں، طنزیہ مضامین کے دو انتخابات اور بچوں کے لئے لکھی گئی ان گنت کتابوں کے ساتھ وہ اب بھی باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔
مندرجہ بالا کہانی ‘For Every Fox, An End’
پہلی بار جون 1985 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ وہ سال ہے جب شام میں صدراتی انتخابات ہوئے تھے جن میں ملک کی صدارت کے لئے صرف ایک ہی امیدوار تھا۔۔۔ حافظ الاسد ۔۔۔ جس نے 100 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ یاد رہے کہ حافظ الااسد نے 1970 ء میں صالح جدید کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور وہ 2000 ءتک شام کا صدر رہا۔ اس کے مرنے پر اس کا بیٹا بشار حافظ الاسد شام کا صدر بنا اور اب تک ہے۔