لاک ڈاؤن اور دیگر افسانچہ
لاک ڈاؤن اور دیگر افسانچہ
Oct 27, 2020
مختصر مختصر افسانہ
غضنفر علی
لاک ڈاؤن
"ممی! پاپا یہاں نہیں ہیں تو کتنا سکون ہے نا؟ "
نہ ڈانٹ ڈپٹ،نہ چلا چلی،نہ روسا پھولی,نہ رونا دھونا۔ سبھی بے فکری سے اپنی اپنی مرضی کے کام میں مست ہیں۔"
" تو کیا تم چاہتے ہو کہ وہ لاک ڈاؤن میں وہیں پڑے رہیں ؟"
"نہیں۔"
" پھر تم نے ایسا کیوں کہا ؟ "
"بس میں نے تو یوں ہی کہہ دیا جو مجھ میں فیل آیا۔"
'جبھی تم نے پاپا کو ایک بار بھی یاد نہیں کیا؟ "
'ایسی بات نہیں ہے۔یاد کیا مگر۔۔۔۔"
"مگر کیا؟"
بچہ چپ رہا۔
"اچھا یہ بتاؤ اور سچ بولنا،کبھی تمہارے دل میں یہ خواہش جاگی
کہ وہ جلدی سے آجائیں؟"
"نہیں۔"
"کبھی یہ فیل ہوا کہ ان کی کمی کھل رہی ہے ؟ "
"نہیں۔"
'کسی وقت یہ فیل آتا ہے کہ کاش وہ یہاں ہوتے؟ "
"نہیں؟"
"کبھی ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پاپا کو ٹھیک سے کھانا مل رہا ہو گا کہ نہیں؟"
"نہیں،مگر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
"یوں ہی۔"
"اتنے سارے سوال وہ بھی ایک ساتھ یوں ہی نہیں پوچھے جاتے۔بتائیے نا کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
"میں یہ دیکھ رہی تھی کہ لاک ڈاؤن کہاں تک ہے اور کس حد تک ہے۔"
غضنفر
لاک ڈاؤن
چار لوگ ایک مولوی کے ہمراہ میت کو لے کر ہانپتے کانپتے قبرستان پہنچے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ اور لوگ ان کے ارد گرد آکر کھڑے ہو گئے۔بھیڑ سے ایک شخص بولا
"یہاں نہیں دفنا سکتے۔"
"کیوں،یہ قبرستان تو ہمارا بھی ہے۔ ،،
چاروں میں سے ایک نے جواب دیا۔
"ہے مگر جس میت کو آپ لے کر آۓ ہیں وہ اگر یہاں دفن ہوئی تو ہماری بھی قبریں کھد جائیں گں۔"
"ایسا کچھ نہیں ہوگا اور اب تو سرکاری اعلان بھی آ چکا ہے۔"
" ہم کسی اعلان ولان کو نہیں مانتے۔اگر ہمیں کچھ ہو گیا تو یہ اعلان نہیں بچا سکتا۔اس لیے ہم یہاں کسی بھی حالت میں دفن ہونے نہیں دیں گے۔"
"میرا باپ زندگی میں تو کوئی سکھ پا نہ سکا اور اب مرنے کے بعد بھی اس کی یہ۔۔۔۔پلز ایسا نہ کیجیے،، نو جوان کی آنکھیں چھلک آئیں۔
"دیکھو بیٹے !ہم تمھارے دشمن نہیں ہیں مگر ہمیں اپنی جان کی بھی تو فکر کر نی ہے۔میری مانو تو بیری والے قبرستان میں چلے جاؤ وہاں رقم لے کر دفنانے دے رہے ہیں۔"
ایک بزرگ نے سمجھایا۔
"چچا! رقم بھرنا ہمارے بس کا نہیں ہے ۔خدا کے واسطے ہم پر رحم کیجیے۔"
"کسی کا واسطہ باسطہ دینے کی ضرورت نہیں،بس یہاں سے لے جاؤ اور جلدی کرو نہیں تو؟"
نہیں تو کیا؟"
"کچھ اور برا ہو سکتا ہے۔، اس بار اسکے اندر کا خوف غیظ وغضب بن کر لہرانے لگا۔
چاروں اتنے ڈر گئے کہ جھٹ سے میت کو پھر سے کاندھوں پر اٹھا لیا۔مارے ڈر کے مولوی صاحب کہیں غائب ہو گئے تھے۔
" اس تردد سے تو بہتر ہے کہ آگ کے حوالے کردیں"
" تم سہی سوچ رہے ہو کیا پتا یہی خدا کی مرضی ہو۔"
اور انکے پاؤں اپنے آپ مرگھٹ کی جانب مڑ گئے
گیٹ پر پہنچے تو چوکیدار بولا
"یہ تو مسلمان کی میت لگے ہے، اسے ادھر کیوں لاۓ ہو؟"
"جلانے کے لیے"
" پرنتو دوسرے دھرم کے مردے کو ہم جلا نہیں سکتے".
"کیوں؟"
"لو،اب یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے،
اسے جلانے سے بلوہ نہیں ہو جاۓ گا؟"
غضنفر
تختی یا تختہ
ابا! آپ نے اپنے ٹھیلے پر یہ کیسی تختی لگا رکھی ہے؟"
"اپنے نام کی"
"مگر آپ کا نام تو رحیم خان ہے اور اس پر شنکر رام لکھا ہوا ہے۔"
"آج سے یہی میرا نام ہے۔"
"مگر کیوں ابا! آپ نے نام کیوں بدل لیا؟"
"نہیں بدلتا تو ٹھیلے کی سبزیاں بنا بکے ہی واپس آ جاتیں۔"
"مگر ایسا کرنے سے جانتے ہیں کیا ہوگا؟"
"کیا ہوگا۔؟"
خدا نخواستہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔"
شمشان پہنچ جاؤں گا۔ یہی نا؟ بیٹے! جس
صورت,حال میں ہم آج پہنچ گئے ہیں،یہ ضروری نہیں کہ قبرستان میں بھی جگہ مل ہی جاۓ۔"
بیٹے کی آنکھوں میں یکایک قبرستان کا پھاٹک کھلا اور پھر کھٹاک سے بند ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر
لکشمن ریکھا
وہ اس سے چھے فٹ کی دوری پر کھڑی تھی
اسے بتایا گیا تھا کہ ریکھا لانگھنے پر راون دبوچ سکتا ہے ۔دونوں کے ہونٹ بند تھے مگر آنکھیں بول رہی تھیں
آنکھیں بتا رہی تھیں کہ تقریبا"چالیس پینتالیس سال سے وہ ایک دوسرے کے قریب تھے۔اتنے قریب کہ دھڑکنیں اور سانسیں سنائی دیتی تھیں
دفعتا" اس کے کان میں یہ جملہ بھی گونجنے لگا
"میری بڑی اچھا ہے کہ میرا دم تمھاری باہوں میں نکلے."
اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ دل مچل اٹھا۔شدید خواہش جاگی کہ وہ لکشمن ریکھا لانگھ کر اس کے پاس چلی جاۓ اور اسے بستر سے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لے۔
مگر وہ ایسا نہ کر سکی ۔ اس لیے نہیں کہ وہاں سخت پہرہ تھا یا اسے اپنی جان کا خطرہ تھا بلکہ اس لیے کہ
اسے واپس اپنے گھر جانا تھا جہاں اس کے بچے تھے اور جن کے ہوتے ہوۓ بھی اسے اکیلے آنا پڑا تھا ۔
غضنفر
بے بس دماغ
"سر باہر ایک آدمی کھڑا ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔کہتا ہے وہ آپ کے گاؤں کا ہے۔"
"اسے اندر بلا لو۔"
"نمستے بابو صاحب!"
نمستے!کیسے ہو؟"
"اچھا نہیں ہوں بابو صاحب ۔بہت برا حال ہے۔کئ دن سے بچے بھوکے ہیں۔حالات ایسے ہیں کہ گھر بھی نہیں جا سکتا۔میرا یہاں کوئی نہیں ہے۔آپ کا پتا چلا تو آگیا ۔یہ سوچ کر کہ شاید کچھ مدد۔۔۔۔۔۔۔
"اچھا سوچا۔لو اسے رکھ لو کچھ دنوں کا راشن پانی تو آہی جاۓ گا۔ضرورت پڑے تو پھر آ جانا ۔ سنکوچ مت کرنا۔"
"شکریہ بابو صاحب! آپ کا اقبال بنا رہے۔خوب ترقی ہو۔چلتا ہوں۔"
"سر آپ نے اسے پانچ ہزار دے دیے؟"
"تو کیا ہوا۔ دیکھا نہیں کتنا پریشان حال ہے۔"
"مگر وہ تو ۔۔۔۔۔۔''
"وہ نہیں جو ہم ہیں۔یہی نا؟"
"جی"
"پرنتو انسان تو ہے نا۔"
"میں نے تو صرف اس لیے کہا تھا کہ آپ ان دنوں جس مہم میں جٹے ہوۓ ہیں وہ۔۔۔۔
"دیکھو، وہ میرا پروفیشن ہے۔ پروفیشن میں وہی کرنا ہوتا ہے جو پروفیشن کو سوٹ کرتا ہے اور یہ میرا نجی معاملہ ہے۔یہاں دماغ کا نہیں دل کا زور چلتا ہے۔ایک بات اور تمھیں بتا دوں کہ جو آدمی ابھی ابھی یہاں سے گیا ہے اس کے پریوار کے بھی کئی لوگ اس گروہ سے جڑے ہوۓ ہیں جس پر آج کل ہم لوگ کام کر رہے ہیں۔"
"اور پھر بھی آپ نے اس کی مدد کی؟"
"اس کا جواب میں دے چکا ہوں۔ایک راز کی بات تم اور جان لو کہ وہ گروہ بھی کوئی برا نہیں ہے۔ہماری رسرچ تو یہاں تک کہتی ہے کہ اس طرح کے جتنے گروہ کام کر رہے ہیں،سب میں صاف ستھرا،سیدھا سادہ اور بے ضرر وہی ہے۔اس کے پیروکار یا تو آسمان کے اوپر کی بات کرتے ہیں یا پھر زمین کے نیچے کی بات۔درمیان کی بات تو کرتے ہی نہیں جس سے فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اور ان سے تو اس لیے بھی کوئی خطرہ نہیں کہ دماغ کا استعمال تو کرتے ہی نہیں۔اور یہ جو کچھ ہو ا ہے وہ بھی ان کے سیدھے پن اور دماغ استعمال نہ کر نے کی وجہ سے ہوا ہے۔"
"پھر بھی آپ ان کے خلاف۔۔۔۔۔"
"میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں ایک پروفیشنل ہوں اور پروفیشنل اپنی کمپنی کا وکیل ہوتا ہےکہ وہ اپنی کمپنی کی رکشا کرے۔اسے جیت دلاۓ اور مخالف ہواؤں کو مات دے۔"
"تو سر!جیتنے کے لیے اس حد تک۔۔۔۔۔۔۔۔"
"صرف جیتنے کے لیے نہیں، اپنے شترو کو شکست دینے اور وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بھی۔نہیں سمجھے؟"
"جی،سمجھ گیا۔ مگر۔۔۔۔۔۔
"تم بہت اگر مگر کرتے ہو،ان سے بچنا چاہیے"۔
"کیوں سر؟"
"اس سے مشن کمزور پڑتا ہے اور منشا بھی۔"
"وہ کیسے سر؟"
"خود غور کرنا،جواب مل جاۓ گا۔"
غضنفر
مختصر مختصر افسانہ
غضنفر علی
لاک ڈاؤن
"ممی! پاپا یہاں نہیں ہیں تو کتنا سکون ہے نا؟ "
نہ ڈانٹ ڈپٹ،نہ چلا چلی،نہ روسا پھولی,نہ رونا دھونا۔ سبھی بے فکری سے اپنی اپنی مرضی کے کام میں مست ہیں۔"
" تو کیا تم چاہتے ہو کہ وہ لاک ڈاؤن میں وہیں پڑے رہیں ؟"
"نہیں۔"
" پھر تم نے ایسا کیوں کہا ؟ "
"بس میں نے تو یوں ہی کہہ دیا جو مجھ میں فیل آیا۔"
'جبھی تم نے پاپا کو ایک بار بھی یاد نہیں کیا؟ "
'ایسی بات نہیں ہے۔یاد کیا مگر۔۔۔۔"
"مگر کیا؟"
بچہ چپ رہا۔
"اچھا یہ بتاؤ اور سچ بولنا،کبھی تمہارے دل میں یہ خواہش جاگی
کہ وہ جلدی سے آجائیں؟"
"نہیں۔"
"کبھی یہ فیل ہوا کہ ان کی کمی کھل رہی ہے ؟ "
"نہیں۔"
'کسی وقت یہ فیل آتا ہے کہ کاش وہ یہاں ہوتے؟ "
"نہیں؟"
"کبھی ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پاپا کو ٹھیک سے کھانا مل رہا ہو گا کہ نہیں؟"
"نہیں،مگر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
"یوں ہی۔"
"اتنے سارے سوال وہ بھی ایک ساتھ یوں ہی نہیں پوچھے جاتے۔بتائیے نا کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
"میں یہ دیکھ رہی تھی کہ لاک ڈاؤن کہاں تک ہے اور کس حد تک ہے۔"
غضنفر
لاک ڈاؤن
چار لوگ ایک مولوی کے ہمراہ میت کو لے کر ہانپتے کانپتے قبرستان پہنچے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ اور لوگ ان کے ارد گرد آکر کھڑے ہو گئے۔بھیڑ سے ایک شخص بولا
"یہاں نہیں دفنا سکتے۔"
"کیوں،یہ قبرستان تو ہمارا بھی ہے۔ ،،
چاروں میں سے ایک نے جواب دیا۔
"ہے مگر جس میت کو آپ لے کر آۓ ہیں وہ اگر یہاں دفن ہوئی تو ہماری بھی قبریں کھد جائیں گں۔"
"ایسا کچھ نہیں ہوگا اور اب تو سرکاری اعلان بھی آ چکا ہے۔"
" ہم کسی اعلان ولان کو نہیں مانتے۔اگر ہمیں کچھ ہو گیا تو یہ اعلان نہیں بچا سکتا۔اس لیے ہم یہاں کسی بھی حالت میں دفن ہونے نہیں دیں گے۔"
"میرا باپ زندگی میں تو کوئی سکھ پا نہ سکا اور اب مرنے کے بعد بھی اس کی یہ۔۔۔۔پلز ایسا نہ کیجیے،، نو جوان کی آنکھیں چھلک آئیں۔
"دیکھو بیٹے !ہم تمھارے دشمن نہیں ہیں مگر ہمیں اپنی جان کی بھی تو فکر کر نی ہے۔میری مانو تو بیری والے قبرستان میں چلے جاؤ وہاں رقم لے کر دفنانے دے رہے ہیں۔"
ایک بزرگ نے سمجھایا۔
"چچا! رقم بھرنا ہمارے بس کا نہیں ہے ۔خدا کے واسطے ہم پر رحم کیجیے۔"
"کسی کا واسطہ باسطہ دینے کی ضرورت نہیں،بس یہاں سے لے جاؤ اور جلدی کرو نہیں تو؟"
نہیں تو کیا؟"
"کچھ اور برا ہو سکتا ہے۔، اس بار اسکے اندر کا خوف غیظ وغضب بن کر لہرانے لگا۔
چاروں اتنے ڈر گئے کہ جھٹ سے میت کو پھر سے کاندھوں پر اٹھا لیا۔مارے ڈر کے مولوی صاحب کہیں غائب ہو گئے تھے۔
" اس تردد سے تو بہتر ہے کہ آگ کے حوالے کردیں"
" تم سہی سوچ رہے ہو کیا پتا یہی خدا کی مرضی ہو۔"
اور انکے پاؤں اپنے آپ مرگھٹ کی جانب مڑ گئے
گیٹ پر پہنچے تو چوکیدار بولا
"یہ تو مسلمان کی میت لگے ہے، اسے ادھر کیوں لاۓ ہو؟"
"جلانے کے لیے"
" پرنتو دوسرے دھرم کے مردے کو ہم جلا نہیں سکتے".
"کیوں؟"
"لو،اب یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے،
اسے جلانے سے بلوہ نہیں ہو جاۓ گا؟"
غضنفر
تختی یا تختہ
ابا! آپ نے اپنے ٹھیلے پر یہ کیسی تختی لگا رکھی ہے؟"
"اپنے نام کی"
"مگر آپ کا نام تو رحیم خان ہے اور اس پر شنکر رام لکھا ہوا ہے۔"
"آج سے یہی میرا نام ہے۔"
"مگر کیوں ابا! آپ نے نام کیوں بدل لیا؟"
"نہیں بدلتا تو ٹھیلے کی سبزیاں بنا بکے ہی واپس آ جاتیں۔"
"مگر ایسا کرنے سے جانتے ہیں کیا ہوگا؟"
"کیا ہوگا۔؟"
خدا نخواستہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔"
شمشان پہنچ جاؤں گا۔ یہی نا؟ بیٹے! جس
صورت,حال میں ہم آج پہنچ گئے ہیں،یہ ضروری نہیں کہ قبرستان میں بھی جگہ مل ہی جاۓ۔"
بیٹے کی آنکھوں میں یکایک قبرستان کا پھاٹک کھلا اور پھر کھٹاک سے بند ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر
لکشمن ریکھا
وہ اس سے چھے فٹ کی دوری پر کھڑی تھی
اسے بتایا گیا تھا کہ ریکھا لانگھنے پر راون دبوچ سکتا ہے ۔دونوں کے ہونٹ بند تھے مگر آنکھیں بول رہی تھیں
آنکھیں بتا رہی تھیں کہ تقریبا"چالیس پینتالیس سال سے وہ ایک دوسرے کے قریب تھے۔اتنے قریب کہ دھڑکنیں اور سانسیں سنائی دیتی تھیں
دفعتا" اس کے کان میں یہ جملہ بھی گونجنے لگا
"میری بڑی اچھا ہے کہ میرا دم تمھاری باہوں میں نکلے."
اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ دل مچل اٹھا۔شدید خواہش جاگی کہ وہ لکشمن ریکھا لانگھ کر اس کے پاس چلی جاۓ اور اسے بستر سے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لے۔
مگر وہ ایسا نہ کر سکی ۔ اس لیے نہیں کہ وہاں سخت پہرہ تھا یا اسے اپنی جان کا خطرہ تھا بلکہ اس لیے کہ
اسے واپس اپنے گھر جانا تھا جہاں اس کے بچے تھے اور جن کے ہوتے ہوۓ بھی اسے اکیلے آنا پڑا تھا ۔
غضنفر
بے بس دماغ
"سر باہر ایک آدمی کھڑا ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔کہتا ہے وہ آپ کے گاؤں کا ہے۔"
"اسے اندر بلا لو۔"
"نمستے بابو صاحب!"
نمستے!کیسے ہو؟"
"اچھا نہیں ہوں بابو صاحب ۔بہت برا حال ہے۔کئ دن سے بچے بھوکے ہیں۔حالات ایسے ہیں کہ گھر بھی نہیں جا سکتا۔میرا یہاں کوئی نہیں ہے۔آپ کا پتا چلا تو آگیا ۔یہ سوچ کر کہ شاید کچھ مدد۔۔۔۔۔۔۔
"اچھا سوچا۔لو اسے رکھ لو کچھ دنوں کا راشن پانی تو آہی جاۓ گا۔ضرورت پڑے تو پھر آ جانا ۔ سنکوچ مت کرنا۔"
"شکریہ بابو صاحب! آپ کا اقبال بنا رہے۔خوب ترقی ہو۔چلتا ہوں۔"
"سر آپ نے اسے پانچ ہزار دے دیے؟"
"تو کیا ہوا۔ دیکھا نہیں کتنا پریشان حال ہے۔"
"مگر وہ تو ۔۔۔۔۔۔''
"وہ نہیں جو ہم ہیں۔یہی نا؟"
"جی"
"پرنتو انسان تو ہے نا۔"
"میں نے تو صرف اس لیے کہا تھا کہ آپ ان دنوں جس مہم میں جٹے ہوۓ ہیں وہ۔۔۔۔
"دیکھو، وہ میرا پروفیشن ہے۔ پروفیشن میں وہی کرنا ہوتا ہے جو پروفیشن کو سوٹ کرتا ہے اور یہ میرا نجی معاملہ ہے۔یہاں دماغ کا نہیں دل کا زور چلتا ہے۔ایک بات اور تمھیں بتا دوں کہ جو آدمی ابھی ابھی یہاں سے گیا ہے اس کے پریوار کے بھی کئی لوگ اس گروہ سے جڑے ہوۓ ہیں جس پر آج کل ہم لوگ کام کر رہے ہیں۔"
"اور پھر بھی آپ نے اس کی مدد کی؟"
"اس کا جواب میں دے چکا ہوں۔ایک راز کی بات تم اور جان لو کہ وہ گروہ بھی کوئی برا نہیں ہے۔ہماری رسرچ تو یہاں تک کہتی ہے کہ اس طرح کے جتنے گروہ کام کر رہے ہیں،سب میں صاف ستھرا،سیدھا سادہ اور بے ضرر وہی ہے۔اس کے پیروکار یا تو آسمان کے اوپر کی بات کرتے ہیں یا پھر زمین کے نیچے کی بات۔درمیان کی بات تو کرتے ہی نہیں جس سے فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اور ان سے تو اس لیے بھی کوئی خطرہ نہیں کہ دماغ کا استعمال تو کرتے ہی نہیں۔اور یہ جو کچھ ہو ا ہے وہ بھی ان کے سیدھے پن اور دماغ استعمال نہ کر نے کی وجہ سے ہوا ہے۔"
"پھر بھی آپ ان کے خلاف۔۔۔۔۔"
"میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں ایک پروفیشنل ہوں اور پروفیشنل اپنی کمپنی کا وکیل ہوتا ہےکہ وہ اپنی کمپنی کی رکشا کرے۔اسے جیت دلاۓ اور مخالف ہواؤں کو مات دے۔"
"تو سر!جیتنے کے لیے اس حد تک۔۔۔۔۔۔۔۔"
"صرف جیتنے کے لیے نہیں، اپنے شترو کو شکست دینے اور وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بھی۔نہیں سمجھے؟"
"جی،سمجھ گیا۔ مگر۔۔۔۔۔۔
"تم بہت اگر مگر کرتے ہو،ان سے بچنا چاہیے"۔
"کیوں سر؟"
"اس سے مشن کمزور پڑتا ہے اور منشا بھی۔"
"وہ کیسے سر؟"
"خود غور کرنا،جواب مل جاۓ گا۔"
غضنفر