کے بی فراق کی نظمیں

کے بی فراق کی نظمیں

Feb 10, 2019

مزاحمتی نظمیں

کایا کلپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کے بی فراق

صبحِ دم مِری سوچ کا محور

شام سمے کی تنہائی میں

رات بھی اک

اژدر کی صورت

مجھ میں ایک پُر ہول اذیت

روح کی تھاہ میں

سر نہوڑائے

سوچ رہا ہے

کون ہوں مَیںاِس

کُنجِ نارسائی کی اتھاہ بھنور میں

کون مِری آواز کو جانے

اور مِرا وجود پہچانے

جو اِس پل کی گرفت میں جیسے

اننت وقت کی چیخ میں جاگے

اور یہ خود سے کہہ بھی رہا ہے

کہ مجھ میں یہ کون بول رہا ہے

اب کے روحِ عصر کے بھیتر

ایک یہی آواز ہے ہر سو

۔۔۔۔۔مَیں مسنگ پرسن نہیں ہوں شاید

پر خود میں یہ سب بھوگ رہا ہوں۔

۶ دسمبر ۸۱۰۲ئ

گواچن سے پرے بھی کچھ ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کے بی فراق

ہم نارضامندی کی پیدائش میں

پیدا ہوئے ہی نہیں

اگر ہم پیدا ہوتے

تو ہماری حالت کچھ اور ہوتی

جانے یہ بات کیونکر تاریخ میں

یوں لکھ دی گئی

کہ جاﺅ

آج تم پر کوئی گرفت نہیں

تم سب آزاد ہو

لیکن آج تک مَیں

آزادی ایسے شبد کی معنویت سے آشنا نہ ہوسکا

اور نہ ہی اس کی سرشاری کو جی پایا ہوں

محض ایک بوسے کی سکرات میں جینے والے لوگ ہی دیکھ رہاہوں

جو خود سے بھی یہ سچ کہنے کی حسرت میں

پیدا ہوئے نہیں

اور اس خوف میں ہیں

کہیں کوئی یہ کہہ کرگرفت نہ کرلے

اس بابت یہ نہ کہہ جائے

یہ تم نے کیسے انگلی میں سگریٹ لینے کی چنتا

پال رکھی ہے

اور دھوئیں کے مرغولے میں خود کو

زمان و مکان کی بندش سے پہلے

آنول تلاشنے نکلے ہو

اور کس کے رحم کی اذیت میں دن بھوگ رہے ہو

یہ سب تو ہوناتھا اک دن

کیوں جلدی میں سب کچھ غارت کرنے میں

اپنا گیان لیے پھرتے ہو

جوکہ اب تک

بھیتر سے نکلے نہیں۔

کایا کلپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کے بی فراق

صبحِ دم مِری سوچ کا محور

شام سمے کی تنہائی میں

رات بھی اک

اژدر کی صورت

مجھ میں ایک پُر ہول اذیت

روح کی تھاہ میں

سر نہوڑائے

سوچ رہا ہے

کون ہوں مَیںاِس

کُنجِ نارسائی کی اتھاہ بھنور میں

کون مِری آواز کو جانے

اور مِرا وجود پہچانے

جو اِس پل کی گرفت میں جیسے

اننت وقت کی چیخ میں جاگے

اور یہ خود سے کہہ بھی رہا ہے

کہ مجھ میں یہ کون بول رہا ہے

اب کے روحِ عصر کے بھیتر

ایک یہی آواز ہے ہر سو

۔۔۔۔۔مَیں مسنگ پرسن نہیں ہوں شاید

پر خود میں یہ سب بھوگ رہا ہوں۔

۶ دسمبر ۸۱۰۲ئ

گواچن سے پرے بھی کچھ ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کے بی فراق

ہم نارضامندی کی پیدائش میں

پیدا ہوئے ہی نہیں

اگر ہم پیدا ہوتے

تو ہماری حالت کچھ اور ہوتی

جانے یہ بات کیونکر تاریخ میں

یوں لکھ دی گئی

کہ جاﺅ

آج تم پر کوئی گرفت نہیں

تم سب آزاد ہو

لیکن آج تک مَیں

آزادی ایسے شبد کی معنویت سے آشنا نہ ہوسکا

اور نہ ہی اس کی سرشاری کو جی پایا ہوں

محض ایک بوسے کی سکرات میں جینے والے لوگ ہی دیکھ رہاہوں

جو خود سے بھی یہ سچ کہنے کی حسرت میں

پیدا ہوئے نہیں

اور اس خوف میں ہیں

کہیں کوئی یہ کہہ کرگرفت نہ کرلے

اس بابت یہ نہ کہہ جائے

یہ تم نے کیسے انگلی میں سگریٹ لینے کی چنتا

پال رکھی ہے

اور دھوئیں کے مرغولے میں خود کو

زمان و مکان کی بندش سے پہلے

آنول تلاشنے نکلے ہو

اور کس کے رحم کی اذیت میں دن بھوگ رہے ہو

یہ سب تو ہوناتھا اک دن

کیوں جلدی میں سب کچھ غارت کرنے میں

اپنا گیان لیے پھرتے ہو

جوکہ اب تک

بھیتر سے نکلے نہیں۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024