خالد جاوید کے ناول نعمت خانے میں مطبخی استعارے

خالد جاوید کے ناول نعمت خانے میں مطبخی استعارے

Oct 10, 2025

مصنف

علی رفاد فتیحی

خالد جاوید کے ناول نعمت خانے میں مطبخی استعارے

علی رفاد فتیحی


ادب میں مطبخی استعارے (culinary metaphors) وہ علامتی یا تمثیلی عبارات ہیں جو کھانے، پکوان، یا باورچی خانے سے متعلق اصطلاحات کو استعمال کرتے ہوئے انسانی جذبات، تجربات، یا حالات کو بیان کرتی ہیں۔ یہ استعارے ادب کو زیادہ رنگیین، دلچسپ، اور قابلِ فہم بناتے ہیں، کیونکہ کھانا انسانی زندگی کا ایک بنیادی اور عالمگیر جزو ہے، جو مختلف ثقافتوں اور معاشروں میں مشترکہ تجربات کی عکاسی کرتا ہے۔ کھانا ہر ثقافت کا حصہ ہے، اس لیے مطبخی استعارے مختلف پس منظر کے قارئین کے لیے قابلِ فہم ہوتے ہیں اورعالمگیر تجربات کو سادہ اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کھانے کے ذائقوں (میٹھا، کھٹا، نمکین) سے جذبات کی شدت یا نوعیت کو بیان کرنا قاری کے لیے قابل فہم بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تقریبا تمام زبانوں میں ایسے لسانی اظہار ملتے ہیں جن میں مطبخی استعاروں کا استعمال نظر آتا ہے۔ انگریزی محاورے

The Proof of the Pudding is in the eating یا

You can’t make omelette without breaking eggs

اس کی موثر مثالیں ہیں۔ مطبخی استعارے کسی مخصوص ثقافت کے کھانوں یا پکوان کے طریقوں سے جڑ کر اس ثقافت کی منفرد خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ استعارے ادب کو خوبصورت اور شاعرانہ بناتے ہیں، کیونکہ کھانے سے متعلق الفاظ اکثر حواس (ذائقہ، بو، رنگ) کو جگاتے ہیں، اور قاری کے تخیل کو متحرک کرتے ہیں بعض صورتوں میں کچھ مطبخی استعارے مخصوص ثقافتوں تک محدود ہو سکتے ہیں، جو دوسری ثقافتوں کے قارئین کے لیے سمجھنا مشکل ہو۔ اگر ضرورت سے زیادہ استعمال ہوں تو یہ استعارے اپنی تازگی کھو سکتے ہیں اور کلیشے بن سکتے ہیں۔ کھانا ایک بنیادی اور آفاقی انسانی تجربہ ہے۔ ہر انسان ذائقہ، خوشبو، ساخت (texture) اور رنگت سے واقف ہے۔ مطبخی استعارے قاری کے حسیاتی نظام (senses) کو براہِ راست متحرک کرتے ہیں اور تجربے کو انتہائی واضح، اور قابل محسوس (tangible) اور یادگار بنا دیتے ہیں۔

خالد جاوید کے ناول "نعمت خانہ" میں کھانے کا استعارہ اور وجودی فکر کا گہرا تعلق ہے۔ مصنف نے کھانے کے ذریعے انسانی existence کی پیچیدگیوں، تضادات، اور حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ ناول نہ صرف اردو ادب بلکہ عالمی ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس ناول نے existence کے سیاہ اور روشن دونوں پہلوؤں کو پیش کر کے قاری کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ ناول کا عنوان "نعمت خانہ" (جو روایتی طور پر کھانے کی الماری یا باورچی خانہ کے کیبنٹ کو کہتے ہیں) خود ایک مطبخی استعارہ ہے، جو کھانے کی نعمت اور اس کی تباہ کن طاقت کی عکاسی کرتا ہے۔ خالد جاوید باورچی خانے کو ناول کا مرکزی منظر بناتے ہیں، جہاں یہ نہ صرف گھریلو زندگی کا مرکز ہے بلکہ انسانی جذبات اور سماجی تنازعات کا علامتی اسٹیج بھی۔ مطبخی استعارے ناول کو حسِ ذائقہ اور بو سے بھرپور بناتے ہیں، جو قاری کو جسمانی اور نفسیاتی سطح پر متاثر کرتے ہیں۔ خالد جاوید نے "نعمت خانہ" میں مطبخی استعاروں کو ایک ایسا فنکارانہ ذریعہ بنایا ہے جو نہ صرف ناول کے بیانیے کو توانائی بخشتا ہے بلکہ اسے گہرائی، وسعت اور فلسفیانہ اہمیت بھی عطا کرتا ہے۔ یہ استعارے انسانی زندگی کے روشن اور تاریک دونوں پہلوؤں کو پیش کرتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس ناول نے اردو ادب میں استعاراتی technique کے نئے امکانات دریافت کیے ہیں اور اسے بین الاقوامی سطح پر پہچان دلائی ہے ۔

نعمت خانہ جوائنٹ فیملی سے نیوکلیئر فیملی کی طرف سماجی تبدیلیوں کی داستان ہے، جو ایک یتیم لڑکے حفیظ یعنی "گڈو میاں" (بعد میں "میاں") کی آنکھوں سے بیان کی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھوک، کھانے، باورچی خانے، اور انسانی خواہشات کے گرد گھومتی ہے، جہاں مطبخی عناصر وجودی سوالات (جیسے زندگی کی بے معنویت، موت کی ناگزیریت، اور وجود کی تنہائی) کو علامتی طور پر اجاگر کرتے ہیں۔ ناول کا اسلوب سرریل، فلسفیانہ، اور گراسک (ناخوشگوار) ہے، جو کافکا، کامو، اور بورخیس جیسے مغربی وجودی لکھاریوں سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ خالد جاوید اکثر استعاروں کا سہارا لیتے ہیں اور وہ مناظر کھینچتے ہیں جو قاری کو محظوظ کرتے ہیں، اور کبھی کبھار نفرت سے بھر دیتے ہیں۔ ناول کے آغاز میں، مرکزی کردار خود کو ہوا کے طور پر بیان کرتا ہے، جو اس کی یادوں کی طرح ہے، جو اسے ہر جگہ بھوت کی طرح ستاتی ہے۔ یہ نوستالجیا کے ایک دور کو بھی جنم دیتا ہے جو ایک گزرے ہوئے دور کے بارے میں ہے۔ کردار غور کرتا ہے: "موت میں صرف یادیں ضائع ہوتی ہیں۔ میں زندہ ہوں، دوسروں سے کہیں زیادہ زندہ۔" اسی طرح، ناول کا دوسرا باب "شور" حفیظ کی اندرونی آواز کو بیان کرتا ہے جو اس کے ماضی سے وابستگی اور اس کے جرم کے احساسِ ندامت کے بارے میں ہے جو اس کی نوعمری میں دو بار ہوا۔ جرائم کے باوجود، مرکزی کردار قاری کی ہمدردی حاصل کرتا ہے۔ جو چیز ہماری ہمدردی حاصل کرتی ہے وہ انصاف کا ایک بلند احساس اور ایک مثالی تعلق کی تلاش ہے جو وہ بدقسمتی سے اپنی پوری زندگی میں برقرار نہیں رکھ پاتا۔ اس طرح، وہ لڑکی جو اکثر اس کے خوابوں میں آتی تھی، ایک خواب ہی رہتی ہے۔ اس کی بیٹی کے لیے اس کی خواہش، جو شاید اسے اپنی ساری محبت دیتی، جیسے اس کے کانوں میں گونجتا تھا، "پاپا، پاپا، میرا پاپا"، پوری نہیں ہوتی کیونکہ اس کی بیوی بچی کو اس لیے حمل گرا دیتی ہے کہ وہ لڑکی ہے۔ حفیظ بچی کے نقصان سے تباہ ہو جاتا ہے، اور اسے اپنی بیوی سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انجم آپا اور انجم باجی، جن کے لیے اس نے جرائم کیے اور اپنی آخری سانس تک اپنی زندگی کو احساسِ ندامت سے بھاری کیا، ان کی شادی کے بعد اس پر کم ہی توجہ دیتی ہیں۔

ناول ایک بڑے مسلم متوسط خاندان کی زندگی کو باورچی خانے کے مرکز میں پیش کرتا ہے، جہاں کھانا پکانے کی رسومات، جنسی خواہشات، بیماریاں، اور موت ایک دوسرے میں گھل مل جاتی ہیں۔ مرکزی کردار گڈو میاں کو ایک عجیب قوت حاصل ہے جو باورچی خانے میں پکائے جانے والے کھانے سے مستقبل کی المناک پیشگوئی کراتی ہے۔ خاندان کی عورتیں (بہت سی کا نام "انجُم" ہے) باورچی خانے میں محبت، حسد، اور جدوجہد کی عکاس بنتی ہیں، جبکہ مردانہ کردار (جیسے گڈو میاں کے دوست) فلسفیانہ مباحثوں میں مگن رہتے ہیں۔ ناول ہندوستان کی تقسیم، ثقافتی تبدیلیوں، اور مسلم شناخت کی پیچیدگیوں کو بھی چھوتا ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ انسانی وجود کی اندرونی جدوجہد پر مرکوز ہے۔ آخری حصوں میں وبائیں، موت، اور ذہنی بحران ناول کو ایک وجودی المیے کی شکل دیتے ہیں، جہاں کھانا نہ صرف نعمت بلکہ لعنت بھی بن جاتا ہے۔حقیقت پسندی سے گریز کے باوجود، یہ ناول ایک ایسی تحریر ہے جو اس سیاسی ماحول سے آگاہ ہے جس میں یہ لکھی گئی ہے۔ ناول وجودی فلسفے (existentialism) کی گہری جھلک پیش کرتا ہے، جہاں انسانی زندگی بے معنی، تنہا، اور موت کی طرف مائل دکھائی جاتی ہے

"انسان اپنی آنتوں کے اندر رہتے ہیں۔ ان کے اعضاءِ تناسل محض ان کے وجود کی امکان ہیں، ان کے سایوں کا مسکن۔ ذہنی اور روحانی طور پر، لوگ اپنے اندرونی اعضاء کے اندر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے چہروں پر اپنی شررت، بسیار خوری اور خواہشات پھینکتے ہوئے، دوسرے کو نگلنے کی بھوک کی بدصورت سرخ رنگت سے اپنے منہ لتھڑے ہوئے۔"

باورچی خانے کے مضمر معنی implied لذیذ لطف و انبساط کی قاری کی توقعات کو الٹتے ہوئے، خالدجاوید کا مرکزی کردار فوری طور پر باورچی خانے کو "ایک خطرناک جگہ" اور کھانے کو ایک پیشنگو، محرک، اور اکثر ناقابل تصور سانحے کے دروازے کے طور پر قائم کرتا ہے۔

حقیقت پسندی کی قائم شدہ روایات سے واضح انحراف کے ساتھ، خالد جاوید اس طرح اس ناول کا پلاٹ بنتے ہیں جسے شاید ایک 'بلڈنگس رومان' (Bildungsroman) کہا جا سکتا ہے یہ ا یک ادبی صنف ہے جس میں مرکزی کردار کی بچپن سے لے کر جوانی تک نفسیاتی اور اخلاقی نشوونما کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں عام طور پر ایک مشکل سفر، غلطیوں سے سیکھنا اور معاشرے میں اپنی جگہ تلاش کرنا شامل ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح جرمن زبان سے لی گئ ہے جس کا مطلب ہے "تعلیمی ناول" یا "تشکیلی ناول"، اور یہ صنف کردار کے اندرونی ارتقاء اور پختگی کے عمل پر مرکوز ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ "بالغ ہونے کی کہانی" (Coming-of-age story) سے ملتی جلتی ہے، لیکن بلڈنگس رومان مرکزی کردار کے مخصوص نفسیاتی اور اخلاقی تبدیلی پر زیادہ زور دیتی ہے۔

خالد جاوید کا ناول نعمت خانہ اپنے مرکزی کردار حفیظ کی تاریخ کا سراغ لگاتا ہے، جو ایک ایسے ملک کی تاریخ کے ساتھ ملتا ہے جو تیزی سے زیادہ عدم رواداری، معاندانہ رویوں ، اور مخرب کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں خوفناکی باورچی خانے کے کونوں میں چھپی رہتی ہے اور افراتفری نظر کے سامنے چھپی رہتی ہے۔ ابتدائی بچپن میں یتیم ہونے والا حفیظ، یا گڈو میاں، جیسا کہ خاندان والے اسے پکارتے ہیں، ایک مڈل کلاس مسلم جوائنٹ فیملی میں، رشتہ داروں سے بھرے ہوئے ماحول میں پلتا بڑھتا ہے۔ اس آبائی گھر میں باورچی خانہ ہے، سیاہ آلود دیواروں اور بکھری اینٹوں کی ایک جگہ، چیونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں اور کبھی کبھار سانپوں کا مسکن۔ خستہ حال اور بکھرا ہوا، یہ باورچی خانہ، حفیظ کے بیان میں، جھگڑوں اور طاقت کی کشمکش، تشدد اور برائی کا مرکز ہے، چاہے وہ غذائیت اور محبت کی کوشش ہی کیوں نہ کرے۔ اسی باورچی خانے میں وہ اپنی اس 'چھٹی حس' کو دریافت کرتا ہے، جس کا وہ اکثر ذکر کرتا ہے، آنے والے سانحے کو محسوس کرنے کی ایک عجیب صلاحیت، جو پکائے جانے والے کھانے سے عجیب طرز سے وابستہ ہے۔ اس عجیب مصیبت کا بوجھ اس کے لیے سوائے صدمے کے کچھ نہیں لاتی۔ حفیظ کی یہ حس کھانا پکانے یا اس کی خوشبو سے جڑی ہوئی ہے۔ باورچی خانے کا ماحول، جو عام طور پر راحت اور لذت سے وابستہ ہوتا ہے، حفیظ کے لیے ایک ایسی جگہ بن جاتا ہے جہاں وہ اپنی نفسیاتی بصیرت یا پیشن گوئی کے ذریعے آنے والے خطرات کو محسوس کرتا ہے۔ یہ خوشبوئیں اس کے لیے محض کھانے کی علامت نہیں بلکہ ایک گہرے، غیر مرئی خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ خالد جاوید کا اسلوب اکثر حقیقت اور علامت کے درمیان ایک دھندلا سا پردہ رکھتا ہے۔ حفیظ کی چھٹی حس کو اس کی اندرونی بے چینی، معاشرتی دباؤ، یا وجودی بحران کی عکاسی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کھانا، جو زندگی اور رزق کی علامت ہے، اس کے لیے مصیبت کی پیشین گوئی کا ذریعہ بن جاتا ہے، جو اس کے وجود کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صلاحیت حفیظ کے لیے ایک بوجھ ہے، جو اسے صدمے کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ حس اسے مستقبل کے ممکنہ خطرات سے خبردار تو کرتی ہے، لیکن وہ ان سے بچنے یا ان کا مقابلہ کرنے میں بے بس ہوتا ہے۔ یہ بے بسی اس کے کردار کو ایک المناک رنگ دیتی ہے۔ حفیظ کی یہ چھٹی حس شاید اس کی زندگی کے تلخ تجربات، معاشرتی عدم مساوات، یا ذاتی صدمات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ حس ایک طرح سے اس کی اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے، جہاں باورچی خانہ ایک علامتی میدان بن جاتا ہے۔نعمت خانہ میں باورچی خانے کا کردار محض ایک جگہ نہیں بلکہ ایک علامتی مرکز ہے جہاں زندگی، موت، لذت، اور تکلیف کے موضوعات آپس میں مل جاتے ہیں۔ حفیظ کی چھٹی حس اسے ایک غیر معمولی کردار بناتی ہے، لیکن ساتھ ہی اسے تنہائی اور صدمے کی گہرائیوں میں بھی دھکیلتی ہے۔ یہ حس اس کی زندگی کے تضادات—خوشی اور غم، رزق اور نقصان—کو اجاگر کرتی ہے۔ حفیظ بے حسی اور تشویش، احساسِ جرم اور بدخواہی کے درمیان سمجھوتہ کرتا ہے، اپنی داستان کو ایک التجا، یا ایک عرضی میں ڈھالتا ہے، جو شاید کبھی ناول کے کے قاری تک نہ پہنچ پائے۔

اس ناول میں پلاٹ تقریباً ضمنی ہو جاتا ہے۔ حفیظ کی یادداشت بلاشبہ، کھانے پر اور اکثر زندگی اور موت، موت اور قتل، جرم اور قابلیت پر غور و خوض میں بدل جاتی ہے، ۔ وہ دنیا جسے وہ "حقیقتاً جانتا ہے"، سفید کاغذ کے ٹکڑے پر سلیٹی رنگ کی پینسل سے بنایا گیا ایک نقطہ ہے۔ یا پھر ایک غیر حقیقی چیز؟ یہ ہم بالکل نہیں جانتے کیونکہ حفیظ دو ٹوک اورقطعی (conclusive ) جوابات دینے کا عہد نہیں کرتا۔ کھانے میں اس کی دلچسپی اس خواہش

سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ دنیا انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ایک قسم کا صریح اور منطقی نتیجہ ( corollary) کے طور پر، انسانوں نے دنیا کو کیسے دھوکہ دیا ہے۔ وہ تشریح اعضا anatomy کو سطحی سائنس سے الگ سمجھتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ "ہاتھ وجود سے الگ ہیں، کبھی کبھار ذہن اور دماغ اور جسم کے لیے عجیب اور غیر مانوس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ہاتھ ایسا کھانا پکاتے ہیں جس کا ذائقہ، خوشبو کے ساتھ ساتھ ظاہری شکل بھی مختلف ہوتی ہے۔"

کھانا ایک خالص اور صاف چیز ہے، لیکن گڈو کہتا ہے کہ اشیائے خوردنی جیسے ہی ہاضمے کی نالی میں پہنچتی ہے ناپاک ہو جاتی ہے اور فضلے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ناول میں فضلے، پیشاب، خون، اور جسمانی fluids کا تذکرہ بھی کھانے کے استعارے کے ساتھ کیا گیا ہے، جو انسانی وجود کی اس مکروہ حقیقت کو ظاہر کرتاہے جسے عام طور پر چھپایا جاتا ہے ۔ باورچی خانہ، حفیظ کی یادداشت میں محویت یا ذہنی مشغولیت پیدا کرتا ہے ، اس طرح وہ ایک " شہوانی کشش" حاصل کر لیتا ہے، ایک زندگی کی توانائی جو sensual/sexual سے زیادہ فلسفیانہ محسوس ہوتی ہے۔

پہلے شخص کے بیانیہ جو نعمت خانہ کے زیادہ تر حصے پر مشتمل ہے، حفیظ ( گڈو) اکثر ادبی طور پر لکھنے میں اپنی عدم صلاحیت کا ذکر کرتا ہے۔ وہ tenses کے درمیان تمیز نہیں کر سکتا، وہ کہتا ہے۔ "دور کا ماضی اور past perfect میرے لیے ایک جیسے ہیں۔ درحقیقت، میرے احساس کے مطابق، present اور past tense جڑواں لگتے ہیں۔ future tense کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، future tense میرے لیے ماضی کے زمانوں جیسی لگتی ہے۔"

حفیظ کی فکر کے ساتھ وقت ایک ہموار، بغیر کسی رکاوٹ کے ایک موضوع، منظر یا حصے سے دوسری طرف منتقل ہوتا جاتا ہے ۔ یہ منتقلی اتنی آسان ہے کہ تقریباً نظر نہیں آتی ۔ اس کیفیت کو موسیقی کی ایک اصطلاح "segue" سے باسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ اس اصطلاح کا مفہوم ہے " ایک ہموار منتقلی " اس ناول میں وقت خطی طور پر (linearly )چلنے سے انکار کر دیتا ہے۔ سالوں کے بجائے، حفیظ کی زندگی موسموں اور مہینوں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے، اور ایک خاص دوریت ( circularity ) حاصل کرتی ہے. ناول کی دائروی تکنیک ( circular narrative ) زندگی کی cyclicity کو ظاہر کرتی ہے—جہاں زندگی کا آغاز اور اختتام ایک ہی نقطے پر ملتا ہے۔ اور جہاں ایک اباؤ فضول اور بے معنی تکرار، غیر متواتر مون سون اور سردیاں زندگی کو بوجھل بنا دیتی ہے۔ ۔

نعمت خانہ کے ابتدائ حصے میں قاری کو حفیظ تقریباً آسیب زدہ نظر آتا ہے، اور آہستہ آہستہ قاری کے سامنے وہ کھلتا جاتا ہے۔ وہ اپنی جمالیاتی حس کی اپنے مخصوص حرکتوں کی وجہ سے وہ قاری کو عجیب الخلقت اور مضحکہ خیزنظر آتا ہے۔ اس میں مخصوص کھانوں کی خوشبو سے برے واقعات کا اندیشہ محسوس کرنے کی ایک پراسرار صلاحیت ہے۔ یہ استعارہ existence کے خوف اور عدم تحفظ کی عکاسی کرتا ہے۔ مثلا وہ کہتا ہے: "میں مخصوص کھانے کی خوشبو سن کر کسی برے واقعے کے ہونے کو یقینی بنا سکتا ہوں" ۔ یہ وجودی anxiety کی علامت ہے—جہاں انسان اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی اور خوفزدہ رہتا ہے۔ وہ نہ صرف گھریلو جگہوں بلکہ انسانی روح کے تاریک گوشوں میں بھی جاتا ہے۔ کھانوں کی اقسام اس کے لیے بدشگونی کی علامت بن جاتی ہیں۔ مختلف مواقع پر، وہ پیش گوئی کرتا ہے کہ کچھ برا ہونے والا ہے، اور اس بدشگونی کو اس مخصوص کھانے سے جوڑتا ہے جو اس دن پکایا گیا تھا۔

" کڑھی۔" میں نے سوچنا شروع کیا، اور میرے جسم میں ایک جھٹکا سا لگا۔ آج جمعرات ہے، اور جمعرات کو کڑھی پکانا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ میرے سر کے بالوں میں ایک نامعلوم قسم کی بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ ایک لمحے کے لیے، میرے سر کے بال کھڑے ہو گئے۔ مجھے اپنے گلے سے سینے تک پگھلا ہوا آگ بہتا ہوا محسوس ہوا۔ میں شعور کی ایک فٹ کا تجربہ کرنے والا تھا۔ آج ایک بار پھر میں نے ایک پراسرار اور بدشگونی روحانی صلاحیت کا تجربہ کیا جو خالق کے سامنے شر کے پیش خیمہ کو ایک سادہ کھیل کے طور پر پیش کرتی ہے۔ وہ لمحہ گزر گیا۔ میری حواس اور شعور اپنی معمول کی حالت میں واپس آ گئے۔

"آج کڑھی نہیں پکانی چاہیے تھی۔ یہ اچھا شگون نہیں ہے،" میں بڑبڑایا۔

• خوشبو انسانی دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہیں، کیونکہ وہ براہ راست لاشعوری جذبات سے جڑتی ہے ۔ کڑھی کی مخصوص خوشبو (دہی، بیسن، اور مصالحوں کا امتزاج) حفیظ کے لیے ایک خاص قسم کی حسسیت پیدا کر تی ہے، جو اس کے دماغ میں خطرے کے اشاروں سے جڑ جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی منطقی وجہ ہو سکتی ہے جو اس کی حس کو سمجھاتی ہے۔ حفیظ کی چھٹی حس کو ایک طرح کی فطری یا ماورائی بصیرت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس کی روزمرہ زندگی کے ایک عام عنصر (کڑھی) سے جڑ جاتی ہے۔ یہ حس اس کے ماحول سے اس کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔

قاری کی نظر مسلسل گندگی اور زوال، بیماری اور وبا کی طرف جاتی ہے۔ جسے صرف احشانی امراض کہا جا سکتا ہے۔ انسان قابلِ نفرت طریقے سے برتاؤ کر تےہیں۔ اس معاندانہ کائنات میں تشدد ایک لازمی حصہ ہے۔ مرتکب مختلف ہو سکتے ہیں لیکن شکار ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ بے بس ہوتے ہیں۔ قتل ہوتے ہیں اور بغیر سزا کے چلے جاتے ہیں۔ خون بہتا ہے، خون رشتوں کو داغدار کرتا ہے، اور خون مرکزی کردار کی یادیں اور تاریک تکلیف دہ منظرمیں سرایت کر جاتا ہے۔

اورچی خانہ عورت کے لیے تخلیقی اظہار کی جگہ بھی ہے اور قید بھی۔ خواتین کھانا پکاتے ہوئے اپنی تسخیر شدہ قوت کا اظہار کرتی ہیں، مگر یہی جگہ ان کی محکومیت کی بھی علامت ہے۔ باورچی خانے میں خواتین کی محنت، برتنوں کی کھنک، کھانا پکتے وقت کی آوازیں ۔یہ سب زندگی کے بے رحم حقیقت کی طرف اشارہ ہیں۔ مصنف کے الفاظ میں: "باورچی خانہ ایک انتہائی بھیانک اور ناخوشگوار مگر انسانی آنتوں کے لیے شہوت سے بھری جگہ کا نام ہے" ۔ ناول میں باورچی خانے میں وہ سب کچھ شامل ہے جو انسانی زندگی میں "اچھا، برا اور بدصورت" ہو سکتا ہے۔ اس زندگی کے بیان کی زبان بھوک ہے۔ بھوک دو چیزوں کی علامت ہے: پہلی، اچھے کھانے کی خواہش جو کبھی ختم نہیں ہوتی، چاہے پیاروں کی وفات پر غم ہو یا جشن کے مواقع پر؛ دوسری، بھوک سماجی طور پر بنائے گئے اور کنٹرول شدہ اصولوں کے تحت عمل میں لائی جانے والی ہوس کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ باورچی خانہ سب سے زیادہ "خطرناک" جگہ ہے:

لیکن حقیقت یہ ہے کہ باورچی خانہ ہمیشہ سے ایک میدان جنگ رہا ہے۔ میں نے خواتین کو نمک اور مرچوں کے جھگڑوں پر ایک دوسرے کے بال کھینچتے دیکھا ہے۔ یہ باورچی خانے کی جنگ تھی جس نے دلوں کو ہڈیوں سے اور ناخنوں کو ہڈیوں سے جدا کیا۔

اس باورچی خانے میں عورتوں کی کوئ حیثیت نہیں ہوتی اور اکثر انہیں اطاعت گزاری اور حوالگی میں زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں اور تشدد ان پر تقریباً ایک روزمرہ کی عام بات کی طرح وارد کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس ناول میں عورتوں سے نفرت (misogyny ) جسمانی تشدد تک محدود نہیں نظر آتا ہے۔

حفیظ کی زندگی کی تمام خواتین تبدل پذیر ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ان سب کا نام انجم ہی ہے۔پہلی عورت جو اسے متوجہ کرتی ہے وہ اس کی کزن، انجم باجی ہے، غیر معمولی ہاتھوں اور اس لیے غیر معمولی کھانا پکانے کی مہارت والی۔ انجم آپا ایک کزن ہے جس کے ساتھ وہ جاسوسی ناولوں کا شریک ہے اور ناول میں وہ انھیں اس کے غیر مہذب اور بد سلوک خاوند سے بچانے کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کا پہلا جنسی رابطہ ایک دوسری انجم کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ پہلی بار مشفقانہ توجہ ایک دوسری انجم، ایک رقاصہ سے محسوس کرتا ہے۔ آخر کار ، وہ ایک انجم سے شادی کر لیتا ہے۔ نعمت خانہ انسانی جذبات کی سطحیت اور رشتوں کی نازکی کو ظاہر کرتا ہے۔ حفیظ کی انجم سے شادی، جو کالج کی کینٹین میں زیادتی کا شکار ہوئی تھی، اس کی گواہی دیتی ہے۔ حفیظ ہمیں کبھی نہیں بتاتا کہ اس نے کن حالات میں انجم سے شادی کی اور انجم کبھی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی۔ اس کے برعکس، وہ حفیظ کی خوشی کو اس کی بیٹی کو حمل گرا کر چھین لیتی ہے اور دو بیٹوں کی پرورش کرتی ہے جو کبھی اپنے باپ کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خواتین جو حفیظ کی زندگی کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہیں، ان کا نام ایک ہی ہے – انجم۔ چونکہ حفیظ اپنی جڑوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے، وہ اپنی موت کے بعد اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ مل جاتا ہے کیونکہ اس نے ان کے ساتھ چھت، باورچی خانہ، اور وقت بانٹا تھا:

ہر ایک کو ایک دن جا کر ان لوگوں کے ساتھ ملنا ہوگا جو اس جیسے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اسے پہچان سکیں یا نہیں۔ کیا یہی وہ چیز ہے جسے دوبارہ زندہ ہونا کہتے ہیں یا یہ دوسری موت ہے یا یہ موت کے عدالت میں ایک قا نونی مقدمہ ہے؟ ایک مقدمہ جو انسانی آنتوں کے خلاف دائر کیا گیا ہے، جو ابدی ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا؟

ان تمام ایک ہی نام والی خواتین میں جو چیز مشترک رہتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس کی زندگی میں یہ ناگہانی ہیں۔ یہ خواتین جذبات، یہاں تک کہ actions کو تحریک دیتی ہیں ۔، اور پھر، فرماں برداری سے پس پردہ ( background ) چلی جاتی ہیں۔ گویا ان کی زندگی غیر متغیر (stereotype )نظر آتی ہے۔

حقیقت پسندی سے گریز کے باوجود، نعمت خانہ ایک ایسی تحریر ہے جو اس سیاسی ماحول سے آگاہ ہے جس میں یہ لکھی گئی ہے۔خالد جاویدتغیر پسندی ( radicalisation ) کے گزر گاہ کا سراغ لگاتے ہیں، اور اسے فرقہ وارانہ تناؤ اور فسادات کے نقشے پر اس کا خاکہ پیش کرتے ہیں ۔ حفیظ اصرار کرتا ہے کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے، "کسی کے ایمان کا معاملہ۔" وہ تغیر پسندی ( radicalisation ) کے خطرات سے آگاہ کرتا ہے ۔ وہ اس بات پر اعتراض کرتا ہے کہ بچوں کو وہ سب کچھ پروسا جا رہا ہے جسے بخوبی سمجھ پانے کی ذہنی بلوغت ان میں نہیں ہوتی ۔ وہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد فسادات اور بھارت میں liberalisation کے آغاز کے بے جوڑ ملاپ کو محسوس کرتا ہے: "نئی نسل مذہبی بنیاد پرستی سے متاثر ہو گئی اور orthodox ideology مذہبی دہشت گردوں کو جنم دینے لگی۔ (...) نفرت اور کڑواہٹ کا بازار موبائل فون ، انٹر نیٹ، اور فیس بک ، کی آمد کے ساتھ پھلنا پھولنا شروع ہو گیا۔ دنیا ایک گاؤں میں سکڑ گئی ۔ ایک ایسا گاؤں جہاں نفرت، آگ اور خون کا کھیل ہر وقت کھیلا جا رہا تھا۔ اور ہر کوئی جدید کہلانے کی خواہش میں اس کھیل میں شریک ہیں ۔ ترقی کی تلاش اکثر ہمدردی اور رواداری کی قیمت پر ہوتی ہے، وہ یہ کہتا محسوس ہوتا ہے۔ اپنے ہی بیٹوں کی طرف سے کافر قرار دیا گیا، حفیظ خود کو ایک ایسی دنیا میں outcast پاتا ہے جسے سمجھنا اس کے لیے بند ہو چکا ہے۔

جاوید کی تحریر میں اکثر" مالیخولیا " کا رساو دکھتا ہے، لیکن یہ ذہنی عارضہ کبھی بھی ماضی پرستی کی پناہ میں نہیں جاتا ۔ حفیظ کی شکست ، ناکامی اور alienation کی کہانی بھی ماضی پرستی کی پناہ میں نہیں جاتی اور شکست خوردگی کی ایک ایسی کہانی بن جاتی ہے، جسے ایک ناقص اور شکستہ کردار کے حافظے نے شکل دینے کی کوشش کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا اکثر غیر صحت مند نظر آتی ہے ۔ اس دنیا کے ملمعہ کے نیچے ایک ڈراونی کریہہ ، اور حقیقت کی مکروہ شکل سے آراستہ زندگی نظر آتی ہے۔

یہ ناول ہمارے لاشعور کی سچائی اور اس گوتھک ماحول کی بازگشت کرتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ یہ ناول نہ صرف سرریلزم اور تاریک مزاح (Dark Humour) کی تکنیکی اصولوں کو شامل کرتا ہے بلکہ ڈسٹوپین ادب کی ایک مثال بھی دکھائی دیتا ہے۔

اس ناول میں، خالد جاوید ہماری توجہ ان انسانی زندگیوں کی طرف مبذول کراتے ہیں جو تاریکی، اداسی، اور معاشرے کی طرف سے مقرر کردہ حدود کے نیچے موجود ہیں۔ خوشی، دلکشی، اور لذت جو ہمیں نظر آتی ہے وہ کچھ بھی نہیں بلکہ ایک سطحی چیز، ایک جھوٹا چہرہ ہے۔ سب سے بڑھ کر لوگ اپنا اصلی چہرہ دکھانا نہیں چاہتے۔ وہ اپنے دکھوں کو مادی چیزوں کے نیچے چھپا کر ان پر پردہ ڈالتے ہیں۔ اس رویے کے علاج کے طور پر، خالد جاوید چاہتے ہیں کہ ہم ہر جگہ موجود اداسی کو قبول کریں۔ ناول آخر میں دل پر ایک گہرا زخم چھوڑتا ہے۔


خالد جاوید کے ناول نعمت خانے میں مطبخی استعارے

علی رفاد فتیحی


ادب میں مطبخی استعارے (culinary metaphors) وہ علامتی یا تمثیلی عبارات ہیں جو کھانے، پکوان، یا باورچی خانے سے متعلق اصطلاحات کو استعمال کرتے ہوئے انسانی جذبات، تجربات، یا حالات کو بیان کرتی ہیں۔ یہ استعارے ادب کو زیادہ رنگیین، دلچسپ، اور قابلِ فہم بناتے ہیں، کیونکہ کھانا انسانی زندگی کا ایک بنیادی اور عالمگیر جزو ہے، جو مختلف ثقافتوں اور معاشروں میں مشترکہ تجربات کی عکاسی کرتا ہے۔ کھانا ہر ثقافت کا حصہ ہے، اس لیے مطبخی استعارے مختلف پس منظر کے قارئین کے لیے قابلِ فہم ہوتے ہیں اورعالمگیر تجربات کو سادہ اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کھانے کے ذائقوں (میٹھا، کھٹا، نمکین) سے جذبات کی شدت یا نوعیت کو بیان کرنا قاری کے لیے قابل فہم بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تقریبا تمام زبانوں میں ایسے لسانی اظہار ملتے ہیں جن میں مطبخی استعاروں کا استعمال نظر آتا ہے۔ انگریزی محاورے

The Proof of the Pudding is in the eating یا

You can’t make omelette without breaking eggs

اس کی موثر مثالیں ہیں۔ مطبخی استعارے کسی مخصوص ثقافت کے کھانوں یا پکوان کے طریقوں سے جڑ کر اس ثقافت کی منفرد خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ استعارے ادب کو خوبصورت اور شاعرانہ بناتے ہیں، کیونکہ کھانے سے متعلق الفاظ اکثر حواس (ذائقہ، بو، رنگ) کو جگاتے ہیں، اور قاری کے تخیل کو متحرک کرتے ہیں بعض صورتوں میں کچھ مطبخی استعارے مخصوص ثقافتوں تک محدود ہو سکتے ہیں، جو دوسری ثقافتوں کے قارئین کے لیے سمجھنا مشکل ہو۔ اگر ضرورت سے زیادہ استعمال ہوں تو یہ استعارے اپنی تازگی کھو سکتے ہیں اور کلیشے بن سکتے ہیں۔ کھانا ایک بنیادی اور آفاقی انسانی تجربہ ہے۔ ہر انسان ذائقہ، خوشبو، ساخت (texture) اور رنگت سے واقف ہے۔ مطبخی استعارے قاری کے حسیاتی نظام (senses) کو براہِ راست متحرک کرتے ہیں اور تجربے کو انتہائی واضح، اور قابل محسوس (tangible) اور یادگار بنا دیتے ہیں۔

خالد جاوید کے ناول "نعمت خانہ" میں کھانے کا استعارہ اور وجودی فکر کا گہرا تعلق ہے۔ مصنف نے کھانے کے ذریعے انسانی existence کی پیچیدگیوں، تضادات، اور حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ ناول نہ صرف اردو ادب بلکہ عالمی ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس ناول نے existence کے سیاہ اور روشن دونوں پہلوؤں کو پیش کر کے قاری کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ ناول کا عنوان "نعمت خانہ" (جو روایتی طور پر کھانے کی الماری یا باورچی خانہ کے کیبنٹ کو کہتے ہیں) خود ایک مطبخی استعارہ ہے، جو کھانے کی نعمت اور اس کی تباہ کن طاقت کی عکاسی کرتا ہے۔ خالد جاوید باورچی خانے کو ناول کا مرکزی منظر بناتے ہیں، جہاں یہ نہ صرف گھریلو زندگی کا مرکز ہے بلکہ انسانی جذبات اور سماجی تنازعات کا علامتی اسٹیج بھی۔ مطبخی استعارے ناول کو حسِ ذائقہ اور بو سے بھرپور بناتے ہیں، جو قاری کو جسمانی اور نفسیاتی سطح پر متاثر کرتے ہیں۔ خالد جاوید نے "نعمت خانہ" میں مطبخی استعاروں کو ایک ایسا فنکارانہ ذریعہ بنایا ہے جو نہ صرف ناول کے بیانیے کو توانائی بخشتا ہے بلکہ اسے گہرائی، وسعت اور فلسفیانہ اہمیت بھی عطا کرتا ہے۔ یہ استعارے انسانی زندگی کے روشن اور تاریک دونوں پہلوؤں کو پیش کرتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس ناول نے اردو ادب میں استعاراتی technique کے نئے امکانات دریافت کیے ہیں اور اسے بین الاقوامی سطح پر پہچان دلائی ہے ۔

نعمت خانہ جوائنٹ فیملی سے نیوکلیئر فیملی کی طرف سماجی تبدیلیوں کی داستان ہے، جو ایک یتیم لڑکے حفیظ یعنی "گڈو میاں" (بعد میں "میاں") کی آنکھوں سے بیان کی جاتی ہے۔ یہ کہانی بھوک، کھانے، باورچی خانے، اور انسانی خواہشات کے گرد گھومتی ہے، جہاں مطبخی عناصر وجودی سوالات (جیسے زندگی کی بے معنویت، موت کی ناگزیریت، اور وجود کی تنہائی) کو علامتی طور پر اجاگر کرتے ہیں۔ ناول کا اسلوب سرریل، فلسفیانہ، اور گراسک (ناخوشگوار) ہے، جو کافکا، کامو، اور بورخیس جیسے مغربی وجودی لکھاریوں سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ خالد جاوید اکثر استعاروں کا سہارا لیتے ہیں اور وہ مناظر کھینچتے ہیں جو قاری کو محظوظ کرتے ہیں، اور کبھی کبھار نفرت سے بھر دیتے ہیں۔ ناول کے آغاز میں، مرکزی کردار خود کو ہوا کے طور پر بیان کرتا ہے، جو اس کی یادوں کی طرح ہے، جو اسے ہر جگہ بھوت کی طرح ستاتی ہے۔ یہ نوستالجیا کے ایک دور کو بھی جنم دیتا ہے جو ایک گزرے ہوئے دور کے بارے میں ہے۔ کردار غور کرتا ہے: "موت میں صرف یادیں ضائع ہوتی ہیں۔ میں زندہ ہوں، دوسروں سے کہیں زیادہ زندہ۔" اسی طرح، ناول کا دوسرا باب "شور" حفیظ کی اندرونی آواز کو بیان کرتا ہے جو اس کے ماضی سے وابستگی اور اس کے جرم کے احساسِ ندامت کے بارے میں ہے جو اس کی نوعمری میں دو بار ہوا۔ جرائم کے باوجود، مرکزی کردار قاری کی ہمدردی حاصل کرتا ہے۔ جو چیز ہماری ہمدردی حاصل کرتی ہے وہ انصاف کا ایک بلند احساس اور ایک مثالی تعلق کی تلاش ہے جو وہ بدقسمتی سے اپنی پوری زندگی میں برقرار نہیں رکھ پاتا۔ اس طرح، وہ لڑکی جو اکثر اس کے خوابوں میں آتی تھی، ایک خواب ہی رہتی ہے۔ اس کی بیٹی کے لیے اس کی خواہش، جو شاید اسے اپنی ساری محبت دیتی، جیسے اس کے کانوں میں گونجتا تھا، "پاپا، پاپا، میرا پاپا"، پوری نہیں ہوتی کیونکہ اس کی بیوی بچی کو اس لیے حمل گرا دیتی ہے کہ وہ لڑکی ہے۔ حفیظ بچی کے نقصان سے تباہ ہو جاتا ہے، اور اسے اپنی بیوی سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انجم آپا اور انجم باجی، جن کے لیے اس نے جرائم کیے اور اپنی آخری سانس تک اپنی زندگی کو احساسِ ندامت سے بھاری کیا، ان کی شادی کے بعد اس پر کم ہی توجہ دیتی ہیں۔

ناول ایک بڑے مسلم متوسط خاندان کی زندگی کو باورچی خانے کے مرکز میں پیش کرتا ہے، جہاں کھانا پکانے کی رسومات، جنسی خواہشات، بیماریاں، اور موت ایک دوسرے میں گھل مل جاتی ہیں۔ مرکزی کردار گڈو میاں کو ایک عجیب قوت حاصل ہے جو باورچی خانے میں پکائے جانے والے کھانے سے مستقبل کی المناک پیشگوئی کراتی ہے۔ خاندان کی عورتیں (بہت سی کا نام "انجُم" ہے) باورچی خانے میں محبت، حسد، اور جدوجہد کی عکاس بنتی ہیں، جبکہ مردانہ کردار (جیسے گڈو میاں کے دوست) فلسفیانہ مباحثوں میں مگن رہتے ہیں۔ ناول ہندوستان کی تقسیم، ثقافتی تبدیلیوں، اور مسلم شناخت کی پیچیدگیوں کو بھی چھوتا ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ انسانی وجود کی اندرونی جدوجہد پر مرکوز ہے۔ آخری حصوں میں وبائیں، موت، اور ذہنی بحران ناول کو ایک وجودی المیے کی شکل دیتے ہیں، جہاں کھانا نہ صرف نعمت بلکہ لعنت بھی بن جاتا ہے۔حقیقت پسندی سے گریز کے باوجود، یہ ناول ایک ایسی تحریر ہے جو اس سیاسی ماحول سے آگاہ ہے جس میں یہ لکھی گئی ہے۔ ناول وجودی فلسفے (existentialism) کی گہری جھلک پیش کرتا ہے، جہاں انسانی زندگی بے معنی، تنہا، اور موت کی طرف مائل دکھائی جاتی ہے

"انسان اپنی آنتوں کے اندر رہتے ہیں۔ ان کے اعضاءِ تناسل محض ان کے وجود کی امکان ہیں، ان کے سایوں کا مسکن۔ ذہنی اور روحانی طور پر، لوگ اپنے اندرونی اعضاء کے اندر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے چہروں پر اپنی شررت، بسیار خوری اور خواہشات پھینکتے ہوئے، دوسرے کو نگلنے کی بھوک کی بدصورت سرخ رنگت سے اپنے منہ لتھڑے ہوئے۔"

باورچی خانے کے مضمر معنی implied لذیذ لطف و انبساط کی قاری کی توقعات کو الٹتے ہوئے، خالدجاوید کا مرکزی کردار فوری طور پر باورچی خانے کو "ایک خطرناک جگہ" اور کھانے کو ایک پیشنگو، محرک، اور اکثر ناقابل تصور سانحے کے دروازے کے طور پر قائم کرتا ہے۔

حقیقت پسندی کی قائم شدہ روایات سے واضح انحراف کے ساتھ، خالد جاوید اس طرح اس ناول کا پلاٹ بنتے ہیں جسے شاید ایک 'بلڈنگس رومان' (Bildungsroman) کہا جا سکتا ہے یہ ا یک ادبی صنف ہے جس میں مرکزی کردار کی بچپن سے لے کر جوانی تک نفسیاتی اور اخلاقی نشوونما کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں عام طور پر ایک مشکل سفر، غلطیوں سے سیکھنا اور معاشرے میں اپنی جگہ تلاش کرنا شامل ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح جرمن زبان سے لی گئ ہے جس کا مطلب ہے "تعلیمی ناول" یا "تشکیلی ناول"، اور یہ صنف کردار کے اندرونی ارتقاء اور پختگی کے عمل پر مرکوز ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ "بالغ ہونے کی کہانی" (Coming-of-age story) سے ملتی جلتی ہے، لیکن بلڈنگس رومان مرکزی کردار کے مخصوص نفسیاتی اور اخلاقی تبدیلی پر زیادہ زور دیتی ہے۔

خالد جاوید کا ناول نعمت خانہ اپنے مرکزی کردار حفیظ کی تاریخ کا سراغ لگاتا ہے، جو ایک ایسے ملک کی تاریخ کے ساتھ ملتا ہے جو تیزی سے زیادہ عدم رواداری، معاندانہ رویوں ، اور مخرب کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں خوفناکی باورچی خانے کے کونوں میں چھپی رہتی ہے اور افراتفری نظر کے سامنے چھپی رہتی ہے۔ ابتدائی بچپن میں یتیم ہونے والا حفیظ، یا گڈو میاں، جیسا کہ خاندان والے اسے پکارتے ہیں، ایک مڈل کلاس مسلم جوائنٹ فیملی میں، رشتہ داروں سے بھرے ہوئے ماحول میں پلتا بڑھتا ہے۔ اس آبائی گھر میں باورچی خانہ ہے، سیاہ آلود دیواروں اور بکھری اینٹوں کی ایک جگہ، چیونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں اور کبھی کبھار سانپوں کا مسکن۔ خستہ حال اور بکھرا ہوا، یہ باورچی خانہ، حفیظ کے بیان میں، جھگڑوں اور طاقت کی کشمکش، تشدد اور برائی کا مرکز ہے، چاہے وہ غذائیت اور محبت کی کوشش ہی کیوں نہ کرے۔ اسی باورچی خانے میں وہ اپنی اس 'چھٹی حس' کو دریافت کرتا ہے، جس کا وہ اکثر ذکر کرتا ہے، آنے والے سانحے کو محسوس کرنے کی ایک عجیب صلاحیت، جو پکائے جانے والے کھانے سے عجیب طرز سے وابستہ ہے۔ اس عجیب مصیبت کا بوجھ اس کے لیے سوائے صدمے کے کچھ نہیں لاتی۔ حفیظ کی یہ حس کھانا پکانے یا اس کی خوشبو سے جڑی ہوئی ہے۔ باورچی خانے کا ماحول، جو عام طور پر راحت اور لذت سے وابستہ ہوتا ہے، حفیظ کے لیے ایک ایسی جگہ بن جاتا ہے جہاں وہ اپنی نفسیاتی بصیرت یا پیشن گوئی کے ذریعے آنے والے خطرات کو محسوس کرتا ہے۔ یہ خوشبوئیں اس کے لیے محض کھانے کی علامت نہیں بلکہ ایک گہرے، غیر مرئی خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ خالد جاوید کا اسلوب اکثر حقیقت اور علامت کے درمیان ایک دھندلا سا پردہ رکھتا ہے۔ حفیظ کی چھٹی حس کو اس کی اندرونی بے چینی، معاشرتی دباؤ، یا وجودی بحران کی عکاسی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کھانا، جو زندگی اور رزق کی علامت ہے، اس کے لیے مصیبت کی پیشین گوئی کا ذریعہ بن جاتا ہے، جو اس کے وجود کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صلاحیت حفیظ کے لیے ایک بوجھ ہے، جو اسے صدمے کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ حس اسے مستقبل کے ممکنہ خطرات سے خبردار تو کرتی ہے، لیکن وہ ان سے بچنے یا ان کا مقابلہ کرنے میں بے بس ہوتا ہے۔ یہ بے بسی اس کے کردار کو ایک المناک رنگ دیتی ہے۔ حفیظ کی یہ چھٹی حس شاید اس کی زندگی کے تلخ تجربات، معاشرتی عدم مساوات، یا ذاتی صدمات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ حس ایک طرح سے اس کی اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے، جہاں باورچی خانہ ایک علامتی میدان بن جاتا ہے۔نعمت خانہ میں باورچی خانے کا کردار محض ایک جگہ نہیں بلکہ ایک علامتی مرکز ہے جہاں زندگی، موت، لذت، اور تکلیف کے موضوعات آپس میں مل جاتے ہیں۔ حفیظ کی چھٹی حس اسے ایک غیر معمولی کردار بناتی ہے، لیکن ساتھ ہی اسے تنہائی اور صدمے کی گہرائیوں میں بھی دھکیلتی ہے۔ یہ حس اس کی زندگی کے تضادات—خوشی اور غم، رزق اور نقصان—کو اجاگر کرتی ہے۔ حفیظ بے حسی اور تشویش، احساسِ جرم اور بدخواہی کے درمیان سمجھوتہ کرتا ہے، اپنی داستان کو ایک التجا، یا ایک عرضی میں ڈھالتا ہے، جو شاید کبھی ناول کے کے قاری تک نہ پہنچ پائے۔

اس ناول میں پلاٹ تقریباً ضمنی ہو جاتا ہے۔ حفیظ کی یادداشت بلاشبہ، کھانے پر اور اکثر زندگی اور موت، موت اور قتل، جرم اور قابلیت پر غور و خوض میں بدل جاتی ہے، ۔ وہ دنیا جسے وہ "حقیقتاً جانتا ہے"، سفید کاغذ کے ٹکڑے پر سلیٹی رنگ کی پینسل سے بنایا گیا ایک نقطہ ہے۔ یا پھر ایک غیر حقیقی چیز؟ یہ ہم بالکل نہیں جانتے کیونکہ حفیظ دو ٹوک اورقطعی (conclusive ) جوابات دینے کا عہد نہیں کرتا۔ کھانے میں اس کی دلچسپی اس خواہش

سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ دنیا انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ایک قسم کا صریح اور منطقی نتیجہ ( corollary) کے طور پر، انسانوں نے دنیا کو کیسے دھوکہ دیا ہے۔ وہ تشریح اعضا anatomy کو سطحی سائنس سے الگ سمجھتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ "ہاتھ وجود سے الگ ہیں، کبھی کبھار ذہن اور دماغ اور جسم کے لیے عجیب اور غیر مانوس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ہاتھ ایسا کھانا پکاتے ہیں جس کا ذائقہ، خوشبو کے ساتھ ساتھ ظاہری شکل بھی مختلف ہوتی ہے۔"

کھانا ایک خالص اور صاف چیز ہے، لیکن گڈو کہتا ہے کہ اشیائے خوردنی جیسے ہی ہاضمے کی نالی میں پہنچتی ہے ناپاک ہو جاتی ہے اور فضلے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ناول میں فضلے، پیشاب، خون، اور جسمانی fluids کا تذکرہ بھی کھانے کے استعارے کے ساتھ کیا گیا ہے، جو انسانی وجود کی اس مکروہ حقیقت کو ظاہر کرتاہے جسے عام طور پر چھپایا جاتا ہے ۔ باورچی خانہ، حفیظ کی یادداشت میں محویت یا ذہنی مشغولیت پیدا کرتا ہے ، اس طرح وہ ایک " شہوانی کشش" حاصل کر لیتا ہے، ایک زندگی کی توانائی جو sensual/sexual سے زیادہ فلسفیانہ محسوس ہوتی ہے۔

پہلے شخص کے بیانیہ جو نعمت خانہ کے زیادہ تر حصے پر مشتمل ہے، حفیظ ( گڈو) اکثر ادبی طور پر لکھنے میں اپنی عدم صلاحیت کا ذکر کرتا ہے۔ وہ tenses کے درمیان تمیز نہیں کر سکتا، وہ کہتا ہے۔ "دور کا ماضی اور past perfect میرے لیے ایک جیسے ہیں۔ درحقیقت، میرے احساس کے مطابق، present اور past tense جڑواں لگتے ہیں۔ future tense کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، future tense میرے لیے ماضی کے زمانوں جیسی لگتی ہے۔"

حفیظ کی فکر کے ساتھ وقت ایک ہموار، بغیر کسی رکاوٹ کے ایک موضوع، منظر یا حصے سے دوسری طرف منتقل ہوتا جاتا ہے ۔ یہ منتقلی اتنی آسان ہے کہ تقریباً نظر نہیں آتی ۔ اس کیفیت کو موسیقی کی ایک اصطلاح "segue" سے باسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ اس اصطلاح کا مفہوم ہے " ایک ہموار منتقلی " اس ناول میں وقت خطی طور پر (linearly )چلنے سے انکار کر دیتا ہے۔ سالوں کے بجائے، حفیظ کی زندگی موسموں اور مہینوں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے، اور ایک خاص دوریت ( circularity ) حاصل کرتی ہے. ناول کی دائروی تکنیک ( circular narrative ) زندگی کی cyclicity کو ظاہر کرتی ہے—جہاں زندگی کا آغاز اور اختتام ایک ہی نقطے پر ملتا ہے۔ اور جہاں ایک اباؤ فضول اور بے معنی تکرار، غیر متواتر مون سون اور سردیاں زندگی کو بوجھل بنا دیتی ہے۔ ۔

نعمت خانہ کے ابتدائ حصے میں قاری کو حفیظ تقریباً آسیب زدہ نظر آتا ہے، اور آہستہ آہستہ قاری کے سامنے وہ کھلتا جاتا ہے۔ وہ اپنی جمالیاتی حس کی اپنے مخصوص حرکتوں کی وجہ سے وہ قاری کو عجیب الخلقت اور مضحکہ خیزنظر آتا ہے۔ اس میں مخصوص کھانوں کی خوشبو سے برے واقعات کا اندیشہ محسوس کرنے کی ایک پراسرار صلاحیت ہے۔ یہ استعارہ existence کے خوف اور عدم تحفظ کی عکاسی کرتا ہے۔ مثلا وہ کہتا ہے: "میں مخصوص کھانے کی خوشبو سن کر کسی برے واقعے کے ہونے کو یقینی بنا سکتا ہوں" ۔ یہ وجودی anxiety کی علامت ہے—جہاں انسان اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی اور خوفزدہ رہتا ہے۔ وہ نہ صرف گھریلو جگہوں بلکہ انسانی روح کے تاریک گوشوں میں بھی جاتا ہے۔ کھانوں کی اقسام اس کے لیے بدشگونی کی علامت بن جاتی ہیں۔ مختلف مواقع پر، وہ پیش گوئی کرتا ہے کہ کچھ برا ہونے والا ہے، اور اس بدشگونی کو اس مخصوص کھانے سے جوڑتا ہے جو اس دن پکایا گیا تھا۔

" کڑھی۔" میں نے سوچنا شروع کیا، اور میرے جسم میں ایک جھٹکا سا لگا۔ آج جمعرات ہے، اور جمعرات کو کڑھی پکانا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ میرے سر کے بالوں میں ایک نامعلوم قسم کی بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ ایک لمحے کے لیے، میرے سر کے بال کھڑے ہو گئے۔ مجھے اپنے گلے سے سینے تک پگھلا ہوا آگ بہتا ہوا محسوس ہوا۔ میں شعور کی ایک فٹ کا تجربہ کرنے والا تھا۔ آج ایک بار پھر میں نے ایک پراسرار اور بدشگونی روحانی صلاحیت کا تجربہ کیا جو خالق کے سامنے شر کے پیش خیمہ کو ایک سادہ کھیل کے طور پر پیش کرتی ہے۔ وہ لمحہ گزر گیا۔ میری حواس اور شعور اپنی معمول کی حالت میں واپس آ گئے۔

"آج کڑھی نہیں پکانی چاہیے تھی۔ یہ اچھا شگون نہیں ہے،" میں بڑبڑایا۔

• خوشبو انسانی دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہیں، کیونکہ وہ براہ راست لاشعوری جذبات سے جڑتی ہے ۔ کڑھی کی مخصوص خوشبو (دہی، بیسن، اور مصالحوں کا امتزاج) حفیظ کے لیے ایک خاص قسم کی حسسیت پیدا کر تی ہے، جو اس کے دماغ میں خطرے کے اشاروں سے جڑ جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی منطقی وجہ ہو سکتی ہے جو اس کی حس کو سمجھاتی ہے۔ حفیظ کی چھٹی حس کو ایک طرح کی فطری یا ماورائی بصیرت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس کی روزمرہ زندگی کے ایک عام عنصر (کڑھی) سے جڑ جاتی ہے۔ یہ حس اس کے ماحول سے اس کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔

قاری کی نظر مسلسل گندگی اور زوال، بیماری اور وبا کی طرف جاتی ہے۔ جسے صرف احشانی امراض کہا جا سکتا ہے۔ انسان قابلِ نفرت طریقے سے برتاؤ کر تےہیں۔ اس معاندانہ کائنات میں تشدد ایک لازمی حصہ ہے۔ مرتکب مختلف ہو سکتے ہیں لیکن شکار ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ بے بس ہوتے ہیں۔ قتل ہوتے ہیں اور بغیر سزا کے چلے جاتے ہیں۔ خون بہتا ہے، خون رشتوں کو داغدار کرتا ہے، اور خون مرکزی کردار کی یادیں اور تاریک تکلیف دہ منظرمیں سرایت کر جاتا ہے۔

اورچی خانہ عورت کے لیے تخلیقی اظہار کی جگہ بھی ہے اور قید بھی۔ خواتین کھانا پکاتے ہوئے اپنی تسخیر شدہ قوت کا اظہار کرتی ہیں، مگر یہی جگہ ان کی محکومیت کی بھی علامت ہے۔ باورچی خانے میں خواتین کی محنت، برتنوں کی کھنک، کھانا پکتے وقت کی آوازیں ۔یہ سب زندگی کے بے رحم حقیقت کی طرف اشارہ ہیں۔ مصنف کے الفاظ میں: "باورچی خانہ ایک انتہائی بھیانک اور ناخوشگوار مگر انسانی آنتوں کے لیے شہوت سے بھری جگہ کا نام ہے" ۔ ناول میں باورچی خانے میں وہ سب کچھ شامل ہے جو انسانی زندگی میں "اچھا، برا اور بدصورت" ہو سکتا ہے۔ اس زندگی کے بیان کی زبان بھوک ہے۔ بھوک دو چیزوں کی علامت ہے: پہلی، اچھے کھانے کی خواہش جو کبھی ختم نہیں ہوتی، چاہے پیاروں کی وفات پر غم ہو یا جشن کے مواقع پر؛ دوسری، بھوک سماجی طور پر بنائے گئے اور کنٹرول شدہ اصولوں کے تحت عمل میں لائی جانے والی ہوس کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ باورچی خانہ سب سے زیادہ "خطرناک" جگہ ہے:

لیکن حقیقت یہ ہے کہ باورچی خانہ ہمیشہ سے ایک میدان جنگ رہا ہے۔ میں نے خواتین کو نمک اور مرچوں کے جھگڑوں پر ایک دوسرے کے بال کھینچتے دیکھا ہے۔ یہ باورچی خانے کی جنگ تھی جس نے دلوں کو ہڈیوں سے اور ناخنوں کو ہڈیوں سے جدا کیا۔

اس باورچی خانے میں عورتوں کی کوئ حیثیت نہیں ہوتی اور اکثر انہیں اطاعت گزاری اور حوالگی میں زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں اور تشدد ان پر تقریباً ایک روزمرہ کی عام بات کی طرح وارد کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس ناول میں عورتوں سے نفرت (misogyny ) جسمانی تشدد تک محدود نہیں نظر آتا ہے۔

حفیظ کی زندگی کی تمام خواتین تبدل پذیر ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ان سب کا نام انجم ہی ہے۔پہلی عورت جو اسے متوجہ کرتی ہے وہ اس کی کزن، انجم باجی ہے، غیر معمولی ہاتھوں اور اس لیے غیر معمولی کھانا پکانے کی مہارت والی۔ انجم آپا ایک کزن ہے جس کے ساتھ وہ جاسوسی ناولوں کا شریک ہے اور ناول میں وہ انھیں اس کے غیر مہذب اور بد سلوک خاوند سے بچانے کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کا پہلا جنسی رابطہ ایک دوسری انجم کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ پہلی بار مشفقانہ توجہ ایک دوسری انجم، ایک رقاصہ سے محسوس کرتا ہے۔ آخر کار ، وہ ایک انجم سے شادی کر لیتا ہے۔ نعمت خانہ انسانی جذبات کی سطحیت اور رشتوں کی نازکی کو ظاہر کرتا ہے۔ حفیظ کی انجم سے شادی، جو کالج کی کینٹین میں زیادتی کا شکار ہوئی تھی، اس کی گواہی دیتی ہے۔ حفیظ ہمیں کبھی نہیں بتاتا کہ اس نے کن حالات میں انجم سے شادی کی اور انجم کبھی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی۔ اس کے برعکس، وہ حفیظ کی خوشی کو اس کی بیٹی کو حمل گرا کر چھین لیتی ہے اور دو بیٹوں کی پرورش کرتی ہے جو کبھی اپنے باپ کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خواتین جو حفیظ کی زندگی کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہیں، ان کا نام ایک ہی ہے – انجم۔ چونکہ حفیظ اپنی جڑوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے، وہ اپنی موت کے بعد اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ مل جاتا ہے کیونکہ اس نے ان کے ساتھ چھت، باورچی خانہ، اور وقت بانٹا تھا:

ہر ایک کو ایک دن جا کر ان لوگوں کے ساتھ ملنا ہوگا جو اس جیسے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اسے پہچان سکیں یا نہیں۔ کیا یہی وہ چیز ہے جسے دوبارہ زندہ ہونا کہتے ہیں یا یہ دوسری موت ہے یا یہ موت کے عدالت میں ایک قا نونی مقدمہ ہے؟ ایک مقدمہ جو انسانی آنتوں کے خلاف دائر کیا گیا ہے، جو ابدی ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا؟

ان تمام ایک ہی نام والی خواتین میں جو چیز مشترک رہتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس کی زندگی میں یہ ناگہانی ہیں۔ یہ خواتین جذبات، یہاں تک کہ actions کو تحریک دیتی ہیں ۔، اور پھر، فرماں برداری سے پس پردہ ( background ) چلی جاتی ہیں۔ گویا ان کی زندگی غیر متغیر (stereotype )نظر آتی ہے۔

حقیقت پسندی سے گریز کے باوجود، نعمت خانہ ایک ایسی تحریر ہے جو اس سیاسی ماحول سے آگاہ ہے جس میں یہ لکھی گئی ہے۔خالد جاویدتغیر پسندی ( radicalisation ) کے گزر گاہ کا سراغ لگاتے ہیں، اور اسے فرقہ وارانہ تناؤ اور فسادات کے نقشے پر اس کا خاکہ پیش کرتے ہیں ۔ حفیظ اصرار کرتا ہے کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے، "کسی کے ایمان کا معاملہ۔" وہ تغیر پسندی ( radicalisation ) کے خطرات سے آگاہ کرتا ہے ۔ وہ اس بات پر اعتراض کرتا ہے کہ بچوں کو وہ سب کچھ پروسا جا رہا ہے جسے بخوبی سمجھ پانے کی ذہنی بلوغت ان میں نہیں ہوتی ۔ وہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد فسادات اور بھارت میں liberalisation کے آغاز کے بے جوڑ ملاپ کو محسوس کرتا ہے: "نئی نسل مذہبی بنیاد پرستی سے متاثر ہو گئی اور orthodox ideology مذہبی دہشت گردوں کو جنم دینے لگی۔ (...) نفرت اور کڑواہٹ کا بازار موبائل فون ، انٹر نیٹ، اور فیس بک ، کی آمد کے ساتھ پھلنا پھولنا شروع ہو گیا۔ دنیا ایک گاؤں میں سکڑ گئی ۔ ایک ایسا گاؤں جہاں نفرت، آگ اور خون کا کھیل ہر وقت کھیلا جا رہا تھا۔ اور ہر کوئی جدید کہلانے کی خواہش میں اس کھیل میں شریک ہیں ۔ ترقی کی تلاش اکثر ہمدردی اور رواداری کی قیمت پر ہوتی ہے، وہ یہ کہتا محسوس ہوتا ہے۔ اپنے ہی بیٹوں کی طرف سے کافر قرار دیا گیا، حفیظ خود کو ایک ایسی دنیا میں outcast پاتا ہے جسے سمجھنا اس کے لیے بند ہو چکا ہے۔

جاوید کی تحریر میں اکثر" مالیخولیا " کا رساو دکھتا ہے، لیکن یہ ذہنی عارضہ کبھی بھی ماضی پرستی کی پناہ میں نہیں جاتا ۔ حفیظ کی شکست ، ناکامی اور alienation کی کہانی بھی ماضی پرستی کی پناہ میں نہیں جاتی اور شکست خوردگی کی ایک ایسی کہانی بن جاتی ہے، جسے ایک ناقص اور شکستہ کردار کے حافظے نے شکل دینے کی کوشش کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا اکثر غیر صحت مند نظر آتی ہے ۔ اس دنیا کے ملمعہ کے نیچے ایک ڈراونی کریہہ ، اور حقیقت کی مکروہ شکل سے آراستہ زندگی نظر آتی ہے۔

یہ ناول ہمارے لاشعور کی سچائی اور اس گوتھک ماحول کی بازگشت کرتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ یہ ناول نہ صرف سرریلزم اور تاریک مزاح (Dark Humour) کی تکنیکی اصولوں کو شامل کرتا ہے بلکہ ڈسٹوپین ادب کی ایک مثال بھی دکھائی دیتا ہے۔

اس ناول میں، خالد جاوید ہماری توجہ ان انسانی زندگیوں کی طرف مبذول کراتے ہیں جو تاریکی، اداسی، اور معاشرے کی طرف سے مقرر کردہ حدود کے نیچے موجود ہیں۔ خوشی، دلکشی، اور لذت جو ہمیں نظر آتی ہے وہ کچھ بھی نہیں بلکہ ایک سطحی چیز، ایک جھوٹا چہرہ ہے۔ سب سے بڑھ کر لوگ اپنا اصلی چہرہ دکھانا نہیں چاہتے۔ وہ اپنے دکھوں کو مادی چیزوں کے نیچے چھپا کر ان پر پردہ ڈالتے ہیں۔ اس رویے کے علاج کے طور پر، خالد جاوید چاہتے ہیں کہ ہم ہر جگہ موجود اداسی کو قبول کریں۔ ناول آخر میں دل پر ایک گہرا زخم چھوڑتا ہے۔


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024