شاعر: جان ڈکسن کی نظم کا اردو ترجمہ

شاعر: جان ڈکسن کی نظم کا اردو ترجمہ

Aug 19, 2025

مسافتِ ناآزمودہ

زرد پتوں کی گھنی دنیا میں

وہ جو رستے الگ ہوئے تھے،

میں، جو راہروِ سفر تھا رک کر تنہا

بہت دیر تلک محو رہا،

کس سمت جاؤں،میں کس کو اپناؤں،

تاحدِ نظر دیکھا تو فطرت کے خارزاروں میں

بن کی زلفیں مسافتوں کو نگل رہی تھیں،

پھر نئی راہ پہ جادہء پیمان ہوا،

ان چھوئی راہ،

سبزے میں لپٹی ہوئی،

گہری خامشی میں سمٹی ہوئی

کسی کی چاہ کی منتظر،

انجانی گزرگاہ،

پھر جو دیکھا تو،

دونوں رستے ہی ایک جیسے تھے،

جن کی مٹی میں ساعتوں کا

کوئی سراغ تک نہ باقی تھا

اس صبح،

پتوں کی کہر میں لپٹے ہوئے دونوں رستے

کسی انجان سی دستک کی طرح ساکت تھے،

میں نے سوچا کہ،

یہ پہلا رستہ کبھی اور سہی،

شاید کبھی اور!

میں جو واقف تھا

کہ یہ دونوں رستے،

ہم آغوش سمت میں نہیں پلٹیں گے

وقت کی بے ربط روانی کے تسلسل میں

کاسۂ سفر کبھی رکتا ہی نہیں

جب کسی دور کے لمحے میں،

کہیں ماضی کی مہک،

سانس لے گی تو میں کہوں گا۔۔۔

وہ جو رستے الگ ہوئے تھے،

تو میں نے فراموش گزرگاہ چنی تھی

اور اسی راہ نے۔۔۔

میری تقدیر بدل دی تھی

شاعر: رابرٹ فراسٹ | مترجم: اعجازالحق

دو شہروں کی کہانی

رونالڈ کولمین جو ساری عمر

بے راہ و بیکار گزاری تھی

اب واضح آنکھوں نڈر نگاہوں سے

سولی کی جانب گامزن ہے

یہی ہے اس کی ساعتِ کامل

کھلے گلے کی سفید قمیص میں

وہ جھوکی نظروں، سہمی زلفوں والی

اک زرد حسیں کو دلاسا دیتا

جب اک تھرتھراتی گاڑی میں

گزر رہا ہے نالوں کی بستی

گندی گلیوں کے شور میں

تمباکو تھوکتے ٹانگوں سے محروم گدا کے پاس

اور اس بڑھیا کے سائے سے جو ماضی کی نفرت میں

اپنی چھاتیاں ہنسی میں ہلتی دیکھتی ہے

پھر چیخ و پکار میں ہجوم کے شور میں

پاپ کارن، برگر، بیئر کی باس لیے

نکلتے ہیں منہ زور سوال گھوڑوں جیسے چہرے

کولمین کا سر مانگتے

ٹماٹر، خون اور جگر کے شوربے میں چیختے ہیں

اس کی زرد جڑوں والی مسکراہٹ پر

یہ سہ پہر کے خوش آہنگ وزن میں

یہ لمحۂ شعر و جمال میں

جب کولمین خوابوں کا خالق

زلفوں کا پیارا، شراب کا رند

چڑھتا ہے چوبی سیڑھیوں پر

اور گلوٹین لکڑی کا سایہ ہے

خون کی لکیر ہے

اک صدیوں کی کلہاڑی

باسکٹ میں گرتے سر

خوفزدہ، رسمی آنکھیں

یہاں تک کہ جلاد بھی

آستین، ٹائی، دستانوں کے ساتھ اک بشر ہے

اور کولمین جو فنا کے کنارے ہے

اوپر دیکھتا ہے روئی جیسے بادلوں کی جانب

اور نیچے پتھریلی گلی کے ساکت انسانوں کی طرف

شاعر: جان ڈکسن | مترجم: محمداعجازالحق (فورٹ عباس)



مسافتِ ناآزمودہ

زرد پتوں کی گھنی دنیا میں

وہ جو رستے الگ ہوئے تھے،

میں، جو راہروِ سفر تھا رک کر تنہا

بہت دیر تلک محو رہا،

کس سمت جاؤں،میں کس کو اپناؤں،

تاحدِ نظر دیکھا تو فطرت کے خارزاروں میں

بن کی زلفیں مسافتوں کو نگل رہی تھیں،

پھر نئی راہ پہ جادہء پیمان ہوا،

ان چھوئی راہ،

سبزے میں لپٹی ہوئی،

گہری خامشی میں سمٹی ہوئی

کسی کی چاہ کی منتظر،

انجانی گزرگاہ،

پھر جو دیکھا تو،

دونوں رستے ہی ایک جیسے تھے،

جن کی مٹی میں ساعتوں کا

کوئی سراغ تک نہ باقی تھا

اس صبح،

پتوں کی کہر میں لپٹے ہوئے دونوں رستے

کسی انجان سی دستک کی طرح ساکت تھے،

میں نے سوچا کہ،

یہ پہلا رستہ کبھی اور سہی،

شاید کبھی اور!

میں جو واقف تھا

کہ یہ دونوں رستے،

ہم آغوش سمت میں نہیں پلٹیں گے

وقت کی بے ربط روانی کے تسلسل میں

کاسۂ سفر کبھی رکتا ہی نہیں

جب کسی دور کے لمحے میں،

کہیں ماضی کی مہک،

سانس لے گی تو میں کہوں گا۔۔۔

وہ جو رستے الگ ہوئے تھے،

تو میں نے فراموش گزرگاہ چنی تھی

اور اسی راہ نے۔۔۔

میری تقدیر بدل دی تھی

شاعر: رابرٹ فراسٹ | مترجم: اعجازالحق

دو شہروں کی کہانی

رونالڈ کولمین جو ساری عمر

بے راہ و بیکار گزاری تھی

اب واضح آنکھوں نڈر نگاہوں سے

سولی کی جانب گامزن ہے

یہی ہے اس کی ساعتِ کامل

کھلے گلے کی سفید قمیص میں

وہ جھوکی نظروں، سہمی زلفوں والی

اک زرد حسیں کو دلاسا دیتا

جب اک تھرتھراتی گاڑی میں

گزر رہا ہے نالوں کی بستی

گندی گلیوں کے شور میں

تمباکو تھوکتے ٹانگوں سے محروم گدا کے پاس

اور اس بڑھیا کے سائے سے جو ماضی کی نفرت میں

اپنی چھاتیاں ہنسی میں ہلتی دیکھتی ہے

پھر چیخ و پکار میں ہجوم کے شور میں

پاپ کارن، برگر، بیئر کی باس لیے

نکلتے ہیں منہ زور سوال گھوڑوں جیسے چہرے

کولمین کا سر مانگتے

ٹماٹر، خون اور جگر کے شوربے میں چیختے ہیں

اس کی زرد جڑوں والی مسکراہٹ پر

یہ سہ پہر کے خوش آہنگ وزن میں

یہ لمحۂ شعر و جمال میں

جب کولمین خوابوں کا خالق

زلفوں کا پیارا، شراب کا رند

چڑھتا ہے چوبی سیڑھیوں پر

اور گلوٹین لکڑی کا سایہ ہے

خون کی لکیر ہے

اک صدیوں کی کلہاڑی

باسکٹ میں گرتے سر

خوفزدہ، رسمی آنکھیں

یہاں تک کہ جلاد بھی

آستین، ٹائی، دستانوں کے ساتھ اک بشر ہے

اور کولمین جو فنا کے کنارے ہے

اوپر دیکھتا ہے روئی جیسے بادلوں کی جانب

اور نیچے پتھریلی گلی کے ساکت انسانوں کی طرف

شاعر: جان ڈکسن | مترجم: محمداعجازالحق (فورٹ عباس)



خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024