جھکڑوں-میں-جگنو
جھکڑوں-میں-جگنو
Oct 15, 2025


مصنف
عینی علی
جھکڑوں میں جگنو
عینی علی
سنا ہے کہ ایک دن
دنیا لپیٹ دی جاےُ گی
خیر و شر کی یہ بازی
سمیٹ دی جائے گی
سب کو اپنی ہی بس پڑی ہوگی
کسی کو کسی کی خبر نہیں ہو گی
ہر سانس دربدر ہمکتی ہو گی
ہر آنکھ میں اشک مژگاں پہ نمی ہو گی
ذرا سوچو!
چاند کی بڑھیا کدھر ہو گی؟
اس آخری رات دم سحری
بڑھیا نے کرم کے ڈنڈے پہ
وقت کی پوٹلی دھری ہو گی
اوراس میں لے کر
اپنی بُنّت، وہ چلی ہو گی
ذرا سوچو چاند کی بڑھیا کدھر ہو گی ؟
وہ جو محبوب کو چاند کہتے ہوں گے
ان کےادھ کُھلے کواڑ کھڑکتے ہوں گے
جا بجا عشق کے عین ،شین ،قاف
جان بلب، نڈھال سے پڑے ہوں گے
کون سمیٹے اس بکھیڑے میں
کون سوجھائے اس اندھیرے میں
وہ جو روشنی میں بے بصر تھے
اندھیرے میں نہ گرے ہوں گے
ہاتھ میں سوت آنکھوں میں تھکن لیے
بڑھیا در پہ نہ کھڑی ہو گی
ذرا سوچو!
وہ کیا سوچتی ہو گی؟
کون پہنے گا اس بے مثال خلعت کو
کون جانے گا اس اذنِ رحمت کو
جس کے خیال کی اک رَمز محض
کن فیکوں سے کائینات بن گئی ہو گی
ریزہ ریزہ پہاڑوں کے جھکڑوں میں وہ
کوئی خوش نصیب جگنو ہی کھوجتی ہو گی
جس نے ڈالا سوال ہستی کا
اپنی بے باک شاد کام مستی کا
جو جانتا تھا اپنے ہونے پہ استفسار کی اصل
جو سن رہا تھا ازل سے پیام، نامہ بر کا
بنا کے خالق نے شریک کیا سجدوں میں
اور اکیلا بھٹکنے دیا جنتّوں میں
اسنے ڈالا جب سوال جوڑی کا
بنا دی کاٹ کر پسلیوں سے
خطا کو باندھا عہد توبہ سے
اٹھا کر پھینک دیا پستیوں میں
اُسے بنا ڈالا پیغمبر انسانوں کا
اِسے دیا مقام ماں سا ہستیوں میں
وہ جو مہلتوں کا خواستگار ہوا ؟
کیا ہوا کہ وہ نہ خوار ہوا ؟
بڑھیا اسی عقل کے سوالوں کی کھڑکی کا
وہی پردہ تو بن رہی ہو گی
ذرا سوچو وہ کیا نہ سوچتی ہو گی؟
بڑھیا کو گڑگڑاتی روحیں روکتی ہوں گی
شہادتیں، قربانیاں، معافیاں پیر پڑی ہوں گی
ہم سے مانگا نہ تھا اس نے ہم ہی کو
اب کیوں گُھما رہا ہے جیسے ہم ہی ہو
ہم نے بنا کے معبد اسے معبود کیا
کر کے سجدہ اسے مسجود کیا
بدل ڈالا جنگلوں کو تہذیبوں میں
لگا کر نعرہ انالحق
اس کے راندہ کو بھی مبہوت کیا
اس کا صلہ ہم کیا مانگیں؟
اس کی جزا ہم کیا سوچیں؟
شائید وہ ان کو بتلا سکتی ہو گی؟
ذرا سوچو!
ازل سے طاقتوں کے تمام ناخدا
قید اپنے واہمہِ ذات کے زندانوں میں
ان بھوکے ننگوں کی طرح سلاخوں سے برتن بجا کے
بڑھیا سے اپنےتمامتر زعم کے بدلے
اپنی نجات کی تدبیر مانگیں گے
ان ہی بھوکے ننگوں کی طرح
جنہیں روٹی کا ایک ٹکڑا دینے کو
ان کی خدائی کم پڑی جاتی تھی
آج اس خلعتِ فاخرہ کی
اِک جھلک ان کو چونکا دے گی
زندگی بھر کا زعم
مٹی میں ملا دے گی
اُن کی بے فیض زنجیروں کی کھڑک
بڑھیا نے کہاں سنی ہوگی!
ذراسوچو!
وہ مظلوم جن کی آنکھوں کی حیرت
ان کے نامعلوم قاتلوں کو ڈھونڈتی ہوگی
کم سے کم اپنی ادھ ننگی نچڑی لاشوں پر
انصاف کے سُوت کی بنی
چادر کے تو منتظر ہوں گے؟
مگرچاند کی بڑھیا
کیا جانتی ہو گی؟
چاند کی بڑھیا اجرت کی دعویداری میں
اپنا شاہکار لیے رواں ہو گی
اس کی ماورائے زمان و مکاں کی پوٹلی میں
کسی کا حساب یا ثواب نہیں
کسی کی عزت کا معیار نہیں
کوئی کَلس خدائی کا
کوئی چادرِ مزار نہیں
بس ایک قلب سلیم کی ڈلی ہو گی
ذرا سوچو!
چاند کی بڑھیا
کیسی بے خودی میں چلی ہو گی؟
کیا وہ دیکھ پائے گی ان بدنصیبوں کو
رہے جو پابند اپنی ذات کے قیدخانے میں
کیا برا ہے جو جان دی
اسی عجز کے پھول جانے میں
ہر عالم متعصب ، ہر زاہد خشک
اپنے تمغوں کی گٹھڑیوں کا بوجھ
اپنی اَنا کے گدھوں پہ لادے
اپنی ہی راہگزر طویل کر رہے ہوں گے
اس کے گزرنے کی ہر اک چاپ سے بے خبر
جنت دوزخ کے سپنے بُن رہے ہوں گے
وہ ایک دن جو ہے فیصلے کا
جس کا خالق ہے وہ جو خود اللہ
بڑھ کے تھامے گا اس کی محنت کو
اور ڈال دے گا جس کے کاندھے پہ
وہی بڑھیا کا منظورِ نظر ہو گا
ذرا سوچو!
وصل کے اس ایک پل کے لیے
جانے کتنی صدیوں سے
منتظر رہی ہو گی؟
تصور کرو اس کے عہد نامے کا
اس کے پورا ہو جانے کے کارنامے کا
نظر ڈالو اپنی ہستی پہ
اپنی شاد کام مستی پہ
اپنی ذات کا بھرم لے کر
اپنے عہد کی شرم لے کر
تم کہاں کھڑے ہو گے ؟
تم کس سے جڑے ہو گے؟
چاند کی بڑھیا
شاید یہ دیکھتی ہو گی
شاید یہ جانتی ہو گی
ذرا سوچو
عینی علی
جھکڑوں میں جگنو
عینی علی
سنا ہے کہ ایک دن
دنیا لپیٹ دی جاےُ گی
خیر و شر کی یہ بازی
سمیٹ دی جائے گی
سب کو اپنی ہی بس پڑی ہوگی
کسی کو کسی کی خبر نہیں ہو گی
ہر سانس دربدر ہمکتی ہو گی
ہر آنکھ میں اشک مژگاں پہ نمی ہو گی
ذرا سوچو!
چاند کی بڑھیا کدھر ہو گی؟
اس آخری رات دم سحری
بڑھیا نے کرم کے ڈنڈے پہ
وقت کی پوٹلی دھری ہو گی
اوراس میں لے کر
اپنی بُنّت، وہ چلی ہو گی
ذرا سوچو چاند کی بڑھیا کدھر ہو گی ؟
وہ جو محبوب کو چاند کہتے ہوں گے
ان کےادھ کُھلے کواڑ کھڑکتے ہوں گے
جا بجا عشق کے عین ،شین ،قاف
جان بلب، نڈھال سے پڑے ہوں گے
کون سمیٹے اس بکھیڑے میں
کون سوجھائے اس اندھیرے میں
وہ جو روشنی میں بے بصر تھے
اندھیرے میں نہ گرے ہوں گے
ہاتھ میں سوت آنکھوں میں تھکن لیے
بڑھیا در پہ نہ کھڑی ہو گی
ذرا سوچو!
وہ کیا سوچتی ہو گی؟
کون پہنے گا اس بے مثال خلعت کو
کون جانے گا اس اذنِ رحمت کو
جس کے خیال کی اک رَمز محض
کن فیکوں سے کائینات بن گئی ہو گی
ریزہ ریزہ پہاڑوں کے جھکڑوں میں وہ
کوئی خوش نصیب جگنو ہی کھوجتی ہو گی
جس نے ڈالا سوال ہستی کا
اپنی بے باک شاد کام مستی کا
جو جانتا تھا اپنے ہونے پہ استفسار کی اصل
جو سن رہا تھا ازل سے پیام، نامہ بر کا
بنا کے خالق نے شریک کیا سجدوں میں
اور اکیلا بھٹکنے دیا جنتّوں میں
اسنے ڈالا جب سوال جوڑی کا
بنا دی کاٹ کر پسلیوں سے
خطا کو باندھا عہد توبہ سے
اٹھا کر پھینک دیا پستیوں میں
اُسے بنا ڈالا پیغمبر انسانوں کا
اِسے دیا مقام ماں سا ہستیوں میں
وہ جو مہلتوں کا خواستگار ہوا ؟
کیا ہوا کہ وہ نہ خوار ہوا ؟
بڑھیا اسی عقل کے سوالوں کی کھڑکی کا
وہی پردہ تو بن رہی ہو گی
ذرا سوچو وہ کیا نہ سوچتی ہو گی؟
بڑھیا کو گڑگڑاتی روحیں روکتی ہوں گی
شہادتیں، قربانیاں، معافیاں پیر پڑی ہوں گی
ہم سے مانگا نہ تھا اس نے ہم ہی کو
اب کیوں گُھما رہا ہے جیسے ہم ہی ہو
ہم نے بنا کے معبد اسے معبود کیا
کر کے سجدہ اسے مسجود کیا
بدل ڈالا جنگلوں کو تہذیبوں میں
لگا کر نعرہ انالحق
اس کے راندہ کو بھی مبہوت کیا
اس کا صلہ ہم کیا مانگیں؟
اس کی جزا ہم کیا سوچیں؟
شائید وہ ان کو بتلا سکتی ہو گی؟
ذرا سوچو!
ازل سے طاقتوں کے تمام ناخدا
قید اپنے واہمہِ ذات کے زندانوں میں
ان بھوکے ننگوں کی طرح سلاخوں سے برتن بجا کے
بڑھیا سے اپنےتمامتر زعم کے بدلے
اپنی نجات کی تدبیر مانگیں گے
ان ہی بھوکے ننگوں کی طرح
جنہیں روٹی کا ایک ٹکڑا دینے کو
ان کی خدائی کم پڑی جاتی تھی
آج اس خلعتِ فاخرہ کی
اِک جھلک ان کو چونکا دے گی
زندگی بھر کا زعم
مٹی میں ملا دے گی
اُن کی بے فیض زنجیروں کی کھڑک
بڑھیا نے کہاں سنی ہوگی!
ذراسوچو!
وہ مظلوم جن کی آنکھوں کی حیرت
ان کے نامعلوم قاتلوں کو ڈھونڈتی ہوگی
کم سے کم اپنی ادھ ننگی نچڑی لاشوں پر
انصاف کے سُوت کی بنی
چادر کے تو منتظر ہوں گے؟
مگرچاند کی بڑھیا
کیا جانتی ہو گی؟
چاند کی بڑھیا اجرت کی دعویداری میں
اپنا شاہکار لیے رواں ہو گی
اس کی ماورائے زمان و مکاں کی پوٹلی میں
کسی کا حساب یا ثواب نہیں
کسی کی عزت کا معیار نہیں
کوئی کَلس خدائی کا
کوئی چادرِ مزار نہیں
بس ایک قلب سلیم کی ڈلی ہو گی
ذرا سوچو!
چاند کی بڑھیا
کیسی بے خودی میں چلی ہو گی؟
کیا وہ دیکھ پائے گی ان بدنصیبوں کو
رہے جو پابند اپنی ذات کے قیدخانے میں
کیا برا ہے جو جان دی
اسی عجز کے پھول جانے میں
ہر عالم متعصب ، ہر زاہد خشک
اپنے تمغوں کی گٹھڑیوں کا بوجھ
اپنی اَنا کے گدھوں پہ لادے
اپنی ہی راہگزر طویل کر رہے ہوں گے
اس کے گزرنے کی ہر اک چاپ سے بے خبر
جنت دوزخ کے سپنے بُن رہے ہوں گے
وہ ایک دن جو ہے فیصلے کا
جس کا خالق ہے وہ جو خود اللہ
بڑھ کے تھامے گا اس کی محنت کو
اور ڈال دے گا جس کے کاندھے پہ
وہی بڑھیا کا منظورِ نظر ہو گا
ذرا سوچو!
وصل کے اس ایک پل کے لیے
جانے کتنی صدیوں سے
منتظر رہی ہو گی؟
تصور کرو اس کے عہد نامے کا
اس کے پورا ہو جانے کے کارنامے کا
نظر ڈالو اپنی ہستی پہ
اپنی شاد کام مستی پہ
اپنی ذات کا بھرم لے کر
اپنے عہد کی شرم لے کر
تم کہاں کھڑے ہو گے ؟
تم کس سے جڑے ہو گے؟
چاند کی بڑھیا
شاید یہ دیکھتی ہو گی
شاید یہ جانتی ہو گی
ذرا سوچو