عطر گِل

عطر گِل

Feb 18, 2025

مصنف

سائرہ ممتاز

شمارہ

شمارہ -٨ ٢

عطر گِل(افسانہ)


سائرہ ممتاز


محبوب!

پورے چاند کی رات ہے. روہی کے سینے پر ٹھنڈی ریت چاند کی روشنی میں چمک رہی ہے. ستارے دھرتی پر بکھرے ان کھربوں روشن جبینوں سے جھک جھک کر گلے مل رہے ہیں.گویا ملن کی رات ہو. اس یخ بستگی کو محسوس کرتے ہوئے ایک گھڑ سوار مشرق کی اور سے نمودار ہوتا ہے، سنہری ریت سے دودھیائی سفیدی منعکس ہو کر کالے سیاہ مشکی گھوڑے پر پڑتی ہے تو ریگستان کا فسوں دوچند ہو جاتا ہے! آنے والے کو شمال کی سمت جانے کا اذن ملا ہوا ہے. شمال کی طرف پہاڑوں میں گھری وادی ہے جہاں کوئی انتظار کر رہا ہے.!

محبت!

دھانی گھاگرے اور سرخ چولی پہنے ایک ناری اپنے سفید کڑوں والی سنہری باہیں گھٹنوں کے گرد باندھے بیٹھے بیٹھے تھک گئی ہے. پچھلی رات چلنے والی باد صرصر سب کچھ اڑا کر لے گئی تھی. بستی میں اب کوئی جھونپڑا نہیں بچا تھا اور نہ ہی اس نار کے باپ کی وہ مریل اونٹنی دکھائی پڑتی تھی جو خشک اور گرم دنوں میں ان کی واحد ساتھی ہوا کرتی تھی. وہ اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ اگلی بستی تک آئی ہے، یہاں کچھ کچی پکی قبریں ہیں، دو ایک تالاب ہیں جو خشک پڑے ہیں، انھیں کچھ اور نہ ملا تو اپنے تھیلے میں پکے ہوئے پیلو ڈالتے رہے، پھر ایک گندے جوہڑ جیسے تالاب سے جہاں ریگستانی چرند و پرند، حشرات باہم اکٹھے ہوتے تھے، پانی کپڑے سے نچوڑ نچوڑ کر اکٹھا کیا جس کی رنگت مٹیالی رنگت والے اللہ یار سے بھی کہیں گہری تھی. اور مقدار اتنی ہی تھی کہ ایک جوان آدمی اگر اس گھُلی ہوئی مٹی والے پانی سے منہ ہاتھ دھونا پسند کرتا تو بآسانی کر سکتا تھا.!

عاشق!

ایک صد چاک گریبان کسی دہلیز پر بیٹھا ہے. آدھی رات کے وقت آسمان پر تاروں کی مکیش بھری چادر تمتما رہی ہے. فضا میں سینکڑوں سالوں کی حدی خوانی کا سرور رچا ہے. ایک طرف کاسہ اور دوسری جانب کتا اس گریبان چاک والے کے ہم نشین ہیں.

کہانی!

موت کی کسمپرسی ہے نہ کہ کسمپرسی کی موت ہے کہ ایسے وقت پر آئے جب دو بوند ہونٹ گیلے کرنے کے لیے بھی پانی موجود نہ ہو. ریگزاروں میں چلنے والے جھکڑ پچھلی رات سب کچھ سمیٹ کر اپنے ساتھ واہو رولوں میں لپیٹ کر لے جا چکے ہوں. آسمان سے تپش لپکتی ہو اور زمین پر بکھری ریت پر دانے بھونے جا سکتے ہوں تو اس دھرتی کا پرانا باسی کب تلک انتظار کر سکے گا؟ ہیضے اور دیگر وبائی امراض سے مرنے والے اکثر لوگ بے جنازہ دفنائے جا چکے تھے. بچ جانے والوں کو حکومتی امدادی کارکن گاڑیوں میں بھر کر خوابوں کے کسی شہر میں لاوارث مرنے کے لیے لے جا چکے تھے، اور باقی بس وہی بچ رہے جن میں یا سکت تھی یا محبت تھی!

بکریوں، بھیڑوں اور اونٹوں کے لیے چارے کے نام پر فقط کانٹے بھری سوکھی لکڑیوں کے ڈھیر تھے جو حلق میں پہنچنے سے قبل ہی تالو چھید دیتے تھے. ان بے شعوروں نے شعور حاصل کر لیا تھا کہ اب فقط دو گھونٹ پانی پر گزارہ کرنا پڑے گا.

اللہ یار جب دو گھونٹ پانی جمع کر چکا تو سانوری کو لے کر اپنے ٹوبے کی اور چل پڑا جو اب سوکھ چکا تھا اور وہاں کے چالیس پچاس نفوس کسی اور گاؤں ہجرت کر چکے تھے. یہاں پر اللہ یار اپنی بیمار اور بوڑھی بیوی کی وجہ سے رہنے پر مجبور تھا جو آخری دموں پر لگتی تھی اور کبھی تو یوں لگتا جیسے ابھی اٹھ کر بیٹھ جائے گی. ہوتا یوں تھا کہ وہ لیٹے لیٹے ہی ایک دم چونک پڑتی، آنکھوں کے سامنے ہاتھوں کا چھجا بنا کر مشرق کی سمت دیکھتی اور پھر کچھ بڑبڑانے لگتی. سانوری نے جھونپڑی میں پہنچتے ہی ماں کا پسینہ اپنی اوڑھنی سے صاف کیا اور پھر ایک ململ کے باریک کپڑے سے پانی چھاننے لگی جو بمشکل چار پانچ گلاس جتنا تھا، اس نے مدقوق ہوتی سانسوں والی بوڑھی ست بائی کو پانی پلایا

افق پر اب گہری نارنجی روشنی تھی. اس نے کان لگا کر سننا چاہا، ست بھرائی کسی چنن پیر کا نام لے رہی تھی.

اس نے اللہ یار کو پکارا.

’’ابا، مائی چنن پیر کا نام لیتی ہے.‘‘

اللہ یار نے مایوسی سے جھکی گردن اٹھائی اور چلم کا کش لیتے ہوئے بولا،

’’ہم روہیلوں کو زیب نہیں دیتا کہ ذرا سی خشک سالی آنے پر کسی بزرگ کو تکلیف دینے چل پڑیں، حوصلہ رکھ ستی! آج مشرق کی طرف آسمان کے تیور کچھ اور ہی لگتے ہیں.‘‘

چند لمحے توقف کے بعد کہنے لگا

’’آج رات تک پانی نہ برسا تو میں تجھے چنن پیر کیا، کہے گی تو سائیں فرید کے پاس بھی لے چلوں گا، بس ہمت رکھ.‘‘

یہ اور بات تھی کہ اس کی اپنی ہمت بوڑھے چہرے کی جھریوں میں چھپ چکی تھی. رات کو انھوں نے باجرے کی میٹھی ٹکیاں کھا لیں اور دو دو گھونٹ پانی پی کر اپنی اپنی جگہ لیٹ گئے. باہر ایک جاں بلب اونٹنی بلبلا رہی تھی.

روہی ڈائن ڈریندی اے

شک نیتے یار کوں نکھڑیندی اے

اللہ یار نے دو چار کھنگورے مارے اور جھڑک کر بولا

’’تیکوں ول نا آیا منگن دا! سچل ویلے کھوٹے راگ نا چھیڑ‘‘

سانوری کو وہ فقیر یاد آتا ہے جو اس نے پچھلے برس خواجہ غلام فرید کے عرس پر دیکھا تھا. اس کے ساتھ ایک کتا یوں لپٹ لپٹ کر چلتا تھا گویا کتا نہ ہو، اس کا یار ہو.

ست بائی کے خیالوں کی ڈور اس کے دل سے بندھی بندھی پچاس برس پیچھے چلی جاتی ہے اور لاشعور کی چادر پر شمال کا صحرا ابھر آتا ہے جہاں ایک گھڑ سوار اترا تھا.

..............................................................

جنوب و شمال سے اٹھنے والے سرد ہوائیں قطبین کے سروں سے ٹکرا کر، برف کے بڑے بڑے تودوں میں سے گزر کر یوں نکلتی تھیں جیسے اپنا سراپا برف کی سفیدی میں چھوڑ آئی ہوں. شاں شاں کی آوازیں سنائی دیتیں لیکن آواز لگانے والیاں کہیں دکھائی نہ پڑتیں. خاموشی کی زبان میں وادیوں کے باسی پرند چرند، ماہیاں، گھاس البیلے اور نویلے اقسام کے پھول آپس میں نجانے کیا کیا سرگوشیاں کر رہے تھے کہ گنگا ندی اپنے دہانے سے پھوٹتی پھواریں روک کر بولی:

’’مجھے جمنا، سرسوتی اور خشک ہوتے جہلم سے زیادہ گھاگھرا کا دکھ کھائے جاتا ہے. ہمارا جنم یہاں ملکوتی حسن کے پردوں میں لپٹے شفاف بادلوں کی چھاؤں تلے ہوتا ہے، پھر ہم اس دھرتی کی ڈھیروں مٹی اپنے وجود سے لپٹائے پھرتی ہیں جس میں ہر جاندار کی زندگی کا سامان ہوتا ہے، اور وہ ہاکڑا ندی جو سوکھ چکی ہے، بانجھ ہو چکی ہے، اس کی کوکھ میں فقط ریت پھر چکی ہے.

اے ہمالیہ! تم اپنے وجود میں چھپی ڈھیروں بوندیں وہاں کیوں نہیں بھیجتے جہاں کے باسیوں سے زمین کی زرخیزی راضی نہیں ہے اور یہ نیلا گگن جن سے ناراض ہی رہتا ہے. جن کے خواب، سراب بن جاتے ہیں اور محبت ان کے لیے ہمیشہ خدا کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش ہوتی ہے.‘‘

جواب میں سرد اور یخ بستہ وجود والا ہمالہ مزید پتھریلا اور سخت ہو جاتا ہے، اس کے دہانے سے اب ایسا کوئی چشمہ نہیں پھوٹتا جو ریگزاروں کو سیراب کر دے! لیکن نجانے کیوں محبت رکھنے والے دل ہمیشہ پہاڑوں اور دریاؤں کی جانب آنکھیں لگائے رکھتے ہیں. شاید انھیں محبت آبشاروں سی برستی محسوس ہوتی ہو جو سخت جان پہاڑوں کا سینہ چیر کر نکلتی ہیں اور پھر ہر شے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہیں.

..............................................................

ست بائی پکھی واسوں کی جھونپڑی میں پیدا ہوئی جن کے پاس ریگستانی حسن تھا! اور صحرا ہمیشہ اسرار کے پردے میں لپٹے رہتے ہیں، جل تھل نہیں کر سکتے لیکن جیت لیتے ہیں. ایسے ہی جنوبی شہر کے رہنے والے حق نواز جوئیہ کو ایک دن صحرا رنگیلی چنری سے باندھے اپنے دامن میں کھینچ لاتا ہے. حق نواز جوئیہ ست بائی کو بہت جتن سے حاصل کرتا ہے. شادی کر کے گھر لے جاتا ہے اور اسے یہ یاد نہیں رہتا کہ روہیلے جہاں پیدا ہوتے ہیں مرتے بھی وہی ہیں. ان کی قسمت میں ریت لکھی ہوتی ہے لہذا وہ مٹی میں پنپ نہیں پاتے. ست بائی بھی کملا جاتی ہے، روہی میں کھلنے والا پھول اپنی آب و تاب برقرار نہیں رکھ پاتا. اس کے لیے حالات اور موسم سازگار نہیں رہتے. اینٹ گارے اور پتھر لوہے سے بننے والے گھر اس کے لیے قفس ثابت ہوتے ہیں، یوں قید ہونے والا پکھیرو جاں بلب ہو جاتا ہے اور ایک دن رہائی پا ہی جاتا ہے. حق نواز کے ماں باپ بہت جلد اسے قائل کر لیتے ہیں کہ جس بے نام و نسب کو تم زبردستی اٹھا کر لائے تھے، اسے اب چھوڑ دینے میں ہی تمہارے حسب و نسب کی بقا ہے. یوں نامہربان مٹی والے شہریوں کے پاس وہ اپنا سات سال کا بیٹا چھوڑ کر واپس روہی چلی آتی ہے. حق نواز کے گھر کی دہلیز پر کھڑی جب وہ اپنے گم شدہ سات سالوں کا حساب کتاب دیکھ رہی تھی، اسی سمے طلاق نامہ پکڑتے ہوئے ست بائی نے سنا وہ کہہ رہا تھا،

’’میری محبت تجھے راس نہ آئی ست بائی، لیکن جب تو بوڑھی ہو جائے اور روہی میں بہت دنوں تک بارش نہ ہو، تب مشرق کی جانب دیکھتی رہنا، میں تیرے لیے پانی لاؤں گا.‘‘ وہ ڈھونڈتی ہوئی اس ٹوبے کے نشان تک پہنچ ہی جاتی ہے جہاں اس کے جانے کے سال بعد ہی باپ کسی ٹوبے کے کنارے ریت اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کر کے لیٹ جاتا ہے. جو حشر اس غیرت والے کے ساتھ اٹھایا گیا تھا اب وہ حشر پر موقوف ٹھہرتا ہے

سالوں بعد پھر سے گنگا اور ہمالیہ میں ٹھن جاتی ہے. گنگا ندی کو اعتراض ہے کہ دھرتی، ہمالیہ اور دوسرے دیوہیکل پہاڑوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے. اور دھرتی پرانی تاریخ کے دھارے موڑ دیتی ہے یا اجاڑ دیتی ہے. اس گٹھ جوڑ نے ہندوستان کے سینے پر بھی ہزاروں میل تک پھیلا ہوا صحرا بنا ڈالا ہے جہاں محبت ریت کی صورت میں بکھر چکی ہے. اور جہاں کے باسی اپنی زندگی کو، بھوک پیاس کو بھوگ لگا کر راضی رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.

ہمالیہ اس مرتبہ چپ نہیں رہتا. ایک قیامت خیز انگڑائی لیتا ہے جس سے سینکڑوں من وزنی پتھر اس کے وجود سے سرک کر پانیوں میں گرنے لگتے ہیں یوں ندیاں اور جھرنے بلبلا اٹھتے ہیں.

’’یہ کیا کیا تم نے، ابھی آگ اگلتے تو ہمارا وجود خاک ہو جاتا. تم تو زندگی اور قدرت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو.‘‘

اور ہمالیہ مسکراتا ہے! اچھا خوب! یعنی بات سمجھ لی تم نے. یہی اصول ہے، زندگی تغیرات کے رتھ پر سوار ہے، یہاں کسی کو ثبات نہیں، یاد کرو کیا جس دن ہمارا جنم ہوا تھا اس دن ہم ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں؟ نہیں نا. یہ تو قدرت ہی طے کرتی ہے. جنم، پرورش، حادثے، تصویریں اور واقعات پیدا کرتی ہے یوں ہر ایک کے حصے میں تھوڑا تھوڑا سب آ جاتا ہے، زندگی، موت، ہنسی، رونا، دکھ سکھ، خوشی غمی، محبت نفرت ہر جیوت شے کو ہر ایک احساس کا مزہ چکھنا ہے، یہی اس دنیا کا قانون ہے. ہمالیہ سکوت اختیار کرتا ہے.

گنگا کے وجود میں جذبات سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور پھر سینکڑوں زندگیاں پانی کی نذر ہو جاتی ہیں. ہمالیہ سوال کرتا ہے.

’’ کیا یہ ظلم و ستم اور ناانصافی نہیں ہے کہ چشم زدن میں لاکھوں اقسام کی زندگیاں تم نے اپنے پیٹ میں انڈیل دی ہیں.‘‘

گنگا کہتی ہے.

’’جو محبت دیتا ہے اسے مارنے اور مربے کا حق بھی حاصل رہتا ہے. میں اس دھرتی کو اپنا لہو اپنا وجود اور محبت دیتی ہوں. اس لیے اس کی. زندگی پر میرا اختیار ابھی باقی ہے!‘‘

..........................................

ست بائی سے شادی کی خواہش لیے منتظر بیٹھے اللہ یار کو قسمت ایک بار پھر موقع دیتی ہے. وہ اپنی تائی تاجو سے ست بائی کو مانگ لیتا ہے. یوں ان کے گھر سانوری پیدا ہوتی ہے جو ست بائی سے زیادہ اللہ یار کو پیاری ہوتی ہے. وہ اسے سائیں فرید کی دعا سمجھ کر بہت دیکھ ریکھ سے اس کی پرورش کرتا ہے. ریت پر رہنے والوں کے ناز و نعم یہی ہوتے ہیں کہ انھیں پینے کے لیے صاف اور تازہ پانی ملتا رہے، کھانے کے لیے جو مرضی مل جائے، ان کا ہر لقمہ سجدہ شکر ہوتا ہے. یوں تو سانوری کو بھی یاد تھا کہ ایک مرتبہ سخت قحط سالی میں جب ہر طرف دھول نما ریت اڑتی تھی اور اس کے باپ کی سوتیلی پھوپھی تھر کے کسی دور دراز گاؤں سے انھیں ملنے آئی تھی اس رات وہاں صرف تلا ہوا گوشت تھا جس سے اس کی مہمان داری نبھائی جانی تھی، اور وہ گوشت ٹڈی دل کے حملے کے بعد پکڑے جانے والے ٹڈوں کاگوشت تھا! جو مفلس اور پران ہارتے لوگوں پر حلال ہو جاتا ہے.

حق نواز جوئیہ کا اکلوتا بیٹا دن رات ماں کو یاد کرتا تھا، چڑچڑے پن اور بدمزاجی نے اسے بگاڑ دیا تھا، آہستہ آہستہ اس نے اسکول جانا چھوڑ دیا، کھانے کے وقت ضد کرنے لگتا، بلاوجہ گھر کے برتن توڑ دیتا اور نوکروں کو مارپیٹ کرتا. یوں اسے بھی بالآخر دوسری شادی پر رضامند ہونا پڑا، بلاول نواز جوئیہ کی خوش قسمتی کہ اسے ماں کا نعم البدل نصیب ہوا. اس گرہستن نے اپنا آپ مار کے حق نواز کے مکان کو گھر بنا دیا لیکن ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ حق نواز مجذوب بن کر سائیں فرید کے در پر بیٹھ گیا. گھر والوں نے لاکھ جتن کر لیے لیکن وہ انھیں پہچاننے سے انکاری ہو جاتا، کبھی گھر کا کوئی فرد لینے جاتا اور وہ مزار پر بیٹھا مل جاتا تو جانے والا سبکی اور شرمندگی لے کر لوٹ آتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ ڈھونڈنے والا ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتا لیکن اس کا دور دور تک پتا نہ چلتا. تن کے جن کپڑوں میں وہ گھر سےگیا تھا وہ بالآخر چھیتڑوں میں بدل گئے اور گھر والے بھی صبر کر کے بیٹھ گئے. سانوری ایک مرتبہ اپنے باپ کے ساتھ سائیں فرید کے میلے پر گئی تھی، جہاں اس نے ایک مجذوب دیکھا، اس کے پاس ایک کاسہ تھا اور قریب ہی ایک کتا بیٹھا تھا. مجذوب نے اسےگڑ کی ڈلی کھانے کے لیے دی لیکن اس کے باپ اللہ یار نے یہ منظر نہیں دیکھا. البتہ سانوری کو یہ پورا منظر جزئیات سمیت ازبر تھا..

..........................................

ہمالیہ کھڑا ہوتا ہے اور خدائے لم یزل سے سوال کرتا ہے. پالنے والے! اگر یہ صحرا تیرے رازوں میں سے ایک راز ہیں تو انھیں دریاؤں اور پانیوں بھرے چشموں پر عیاں کر دے تاکہ ان کے دل کی خلش دور ہو سکے. اور یہ تیری قدرت سے شاکی رہنا چھوڑ دیں. اگر تو ہمارا سینہ چیر کر ہریالی اُگا سکتا ہے تو بے شک ریت میں گل و گلزار بھی کھلا سکتا ہے.! پالنے والے ہواؤں کا رخ موڑ دے کہ وہ انسانوں کے دلوں میں انسان کی محبت پیدا کرنے والی خوشبو لے اڑیں.

..........................................

اللہ یار دیکھتا ہے کہ روہی کے مشرق پر کالی گھٹا چھا جاتی ہے. وہ ست بائی کو بستر پر ڈال کر باہر لے آتا ہے جہاں جھونپڑے سے باہر سانوری اونٹنی کا دودھ نکالنے کی کوشش کر رہی تھی. لیکن وہاں تو بدن میں خون کی جگہ بھی پیاس دوڑ رہی تھی اور دودھ کے سوتے خشک ہو چکے تھے. آسمان کی نیلاہٹ یک بیک کالک میں بدل جاتی ہے،گویا اللہ یار کے اپنی بیوی سے کیے گئے وعدے پر لبیک کہنے آئی ہو! شوق کہتا تھا کہ برس جاؤ اور جوش جنوں کہتا تھا کہ ہالی نہ وس کالیار! ابھی پھولوں کے رنگ کالے ہونے دے! ست بائی افق کے تیور دیکھتی ہے اور پھولوں کے رنگ کالے سے سرخی مائل ہو جاتے ہیں. جوش جنوں یہ برداشت نہیں کر پاتا اور پھکیرو پنجرہ خالی کر جاتا ہے. ست بائی کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں، شمال کو دیکھتی جاتی ہیں. اللہ یار اور سانوری رونے کی کوشش کر رہے تھے لیکن آنسو سارے کالیار پی چکا تھا. پھر امبر سے کہیں ایک قطرہ گرتا ہے اور اللہ یار کے جھریوں بھرے گال پر عین آنکھ کے نیچے لڑھک جاتا ہے. گویا آنسو دان ہوتا ہے. دان کرنے کا اصول ہے قطرہ دان کرنے لگو تو سمندر خود ہی جھولی الٹ دیتا ہے.

یوں پھر ریگزار میں چھم چھم مینہ برسنے لگتا ہے. اور اس چھتنار جیسی برسات میں شمال کی سمت جانے والا گھڑ سوار اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے. اللہ یار نے دیکھا کہ اس کے پیچھے ایک مجذوب تھا جس کا کاسہ پانی سے بھر چکا تھا. ریگزار سے ریت اور مٹی کی ملی جلی خوشبو اٹھ رہی تھی. سوندھی مہک جس سے مشام جاں معطر کرنے کا یہ وقت مناسب نہیں تھا لیکن مجذوب گھوڑے سے اترتا ہے اور ست بائی کی بےکفن لاش کے پاس پہنچ کر کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے جیسے کہنا چاہتا ہو کہ وعدہ وفا کرنے میں اتنی دیر تو نہیں ہوئی تھی. پھر اپنا کاسہ میں مٹی سے بھرا پانی ست بائی پر انڈیل دیتا ہے،گویا بے کفن لباس پر عطر گِل چھڑک رہا ہو. اللہ یار نے سنا مجذوب کہہ رہا تھا. روہیلوں کی میت پر مشک کافور نہیں مٹی کا عطر سجتا ہے!


عطر گِل(افسانہ)


سائرہ ممتاز


محبوب!

پورے چاند کی رات ہے. روہی کے سینے پر ٹھنڈی ریت چاند کی روشنی میں چمک رہی ہے. ستارے دھرتی پر بکھرے ان کھربوں روشن جبینوں سے جھک جھک کر گلے مل رہے ہیں.گویا ملن کی رات ہو. اس یخ بستگی کو محسوس کرتے ہوئے ایک گھڑ سوار مشرق کی اور سے نمودار ہوتا ہے، سنہری ریت سے دودھیائی سفیدی منعکس ہو کر کالے سیاہ مشکی گھوڑے پر پڑتی ہے تو ریگستان کا فسوں دوچند ہو جاتا ہے! آنے والے کو شمال کی سمت جانے کا اذن ملا ہوا ہے. شمال کی طرف پہاڑوں میں گھری وادی ہے جہاں کوئی انتظار کر رہا ہے.!

محبت!

دھانی گھاگرے اور سرخ چولی پہنے ایک ناری اپنے سفید کڑوں والی سنہری باہیں گھٹنوں کے گرد باندھے بیٹھے بیٹھے تھک گئی ہے. پچھلی رات چلنے والی باد صرصر سب کچھ اڑا کر لے گئی تھی. بستی میں اب کوئی جھونپڑا نہیں بچا تھا اور نہ ہی اس نار کے باپ کی وہ مریل اونٹنی دکھائی پڑتی تھی جو خشک اور گرم دنوں میں ان کی واحد ساتھی ہوا کرتی تھی. وہ اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ اگلی بستی تک آئی ہے، یہاں کچھ کچی پکی قبریں ہیں، دو ایک تالاب ہیں جو خشک پڑے ہیں، انھیں کچھ اور نہ ملا تو اپنے تھیلے میں پکے ہوئے پیلو ڈالتے رہے، پھر ایک گندے جوہڑ جیسے تالاب سے جہاں ریگستانی چرند و پرند، حشرات باہم اکٹھے ہوتے تھے، پانی کپڑے سے نچوڑ نچوڑ کر اکٹھا کیا جس کی رنگت مٹیالی رنگت والے اللہ یار سے بھی کہیں گہری تھی. اور مقدار اتنی ہی تھی کہ ایک جوان آدمی اگر اس گھُلی ہوئی مٹی والے پانی سے منہ ہاتھ دھونا پسند کرتا تو بآسانی کر سکتا تھا.!

عاشق!

ایک صد چاک گریبان کسی دہلیز پر بیٹھا ہے. آدھی رات کے وقت آسمان پر تاروں کی مکیش بھری چادر تمتما رہی ہے. فضا میں سینکڑوں سالوں کی حدی خوانی کا سرور رچا ہے. ایک طرف کاسہ اور دوسری جانب کتا اس گریبان چاک والے کے ہم نشین ہیں.

کہانی!

موت کی کسمپرسی ہے نہ کہ کسمپرسی کی موت ہے کہ ایسے وقت پر آئے جب دو بوند ہونٹ گیلے کرنے کے لیے بھی پانی موجود نہ ہو. ریگزاروں میں چلنے والے جھکڑ پچھلی رات سب کچھ سمیٹ کر اپنے ساتھ واہو رولوں میں لپیٹ کر لے جا چکے ہوں. آسمان سے تپش لپکتی ہو اور زمین پر بکھری ریت پر دانے بھونے جا سکتے ہوں تو اس دھرتی کا پرانا باسی کب تلک انتظار کر سکے گا؟ ہیضے اور دیگر وبائی امراض سے مرنے والے اکثر لوگ بے جنازہ دفنائے جا چکے تھے. بچ جانے والوں کو حکومتی امدادی کارکن گاڑیوں میں بھر کر خوابوں کے کسی شہر میں لاوارث مرنے کے لیے لے جا چکے تھے، اور باقی بس وہی بچ رہے جن میں یا سکت تھی یا محبت تھی!

بکریوں، بھیڑوں اور اونٹوں کے لیے چارے کے نام پر فقط کانٹے بھری سوکھی لکڑیوں کے ڈھیر تھے جو حلق میں پہنچنے سے قبل ہی تالو چھید دیتے تھے. ان بے شعوروں نے شعور حاصل کر لیا تھا کہ اب فقط دو گھونٹ پانی پر گزارہ کرنا پڑے گا.

اللہ یار جب دو گھونٹ پانی جمع کر چکا تو سانوری کو لے کر اپنے ٹوبے کی اور چل پڑا جو اب سوکھ چکا تھا اور وہاں کے چالیس پچاس نفوس کسی اور گاؤں ہجرت کر چکے تھے. یہاں پر اللہ یار اپنی بیمار اور بوڑھی بیوی کی وجہ سے رہنے پر مجبور تھا جو آخری دموں پر لگتی تھی اور کبھی تو یوں لگتا جیسے ابھی اٹھ کر بیٹھ جائے گی. ہوتا یوں تھا کہ وہ لیٹے لیٹے ہی ایک دم چونک پڑتی، آنکھوں کے سامنے ہاتھوں کا چھجا بنا کر مشرق کی سمت دیکھتی اور پھر کچھ بڑبڑانے لگتی. سانوری نے جھونپڑی میں پہنچتے ہی ماں کا پسینہ اپنی اوڑھنی سے صاف کیا اور پھر ایک ململ کے باریک کپڑے سے پانی چھاننے لگی جو بمشکل چار پانچ گلاس جتنا تھا، اس نے مدقوق ہوتی سانسوں والی بوڑھی ست بائی کو پانی پلایا

افق پر اب گہری نارنجی روشنی تھی. اس نے کان لگا کر سننا چاہا، ست بھرائی کسی چنن پیر کا نام لے رہی تھی.

اس نے اللہ یار کو پکارا.

’’ابا، مائی چنن پیر کا نام لیتی ہے.‘‘

اللہ یار نے مایوسی سے جھکی گردن اٹھائی اور چلم کا کش لیتے ہوئے بولا،

’’ہم روہیلوں کو زیب نہیں دیتا کہ ذرا سی خشک سالی آنے پر کسی بزرگ کو تکلیف دینے چل پڑیں، حوصلہ رکھ ستی! آج مشرق کی طرف آسمان کے تیور کچھ اور ہی لگتے ہیں.‘‘

چند لمحے توقف کے بعد کہنے لگا

’’آج رات تک پانی نہ برسا تو میں تجھے چنن پیر کیا، کہے گی تو سائیں فرید کے پاس بھی لے چلوں گا، بس ہمت رکھ.‘‘

یہ اور بات تھی کہ اس کی اپنی ہمت بوڑھے چہرے کی جھریوں میں چھپ چکی تھی. رات کو انھوں نے باجرے کی میٹھی ٹکیاں کھا لیں اور دو دو گھونٹ پانی پی کر اپنی اپنی جگہ لیٹ گئے. باہر ایک جاں بلب اونٹنی بلبلا رہی تھی.

روہی ڈائن ڈریندی اے

شک نیتے یار کوں نکھڑیندی اے

اللہ یار نے دو چار کھنگورے مارے اور جھڑک کر بولا

’’تیکوں ول نا آیا منگن دا! سچل ویلے کھوٹے راگ نا چھیڑ‘‘

سانوری کو وہ فقیر یاد آتا ہے جو اس نے پچھلے برس خواجہ غلام فرید کے عرس پر دیکھا تھا. اس کے ساتھ ایک کتا یوں لپٹ لپٹ کر چلتا تھا گویا کتا نہ ہو، اس کا یار ہو.

ست بائی کے خیالوں کی ڈور اس کے دل سے بندھی بندھی پچاس برس پیچھے چلی جاتی ہے اور لاشعور کی چادر پر شمال کا صحرا ابھر آتا ہے جہاں ایک گھڑ سوار اترا تھا.

..............................................................

جنوب و شمال سے اٹھنے والے سرد ہوائیں قطبین کے سروں سے ٹکرا کر، برف کے بڑے بڑے تودوں میں سے گزر کر یوں نکلتی تھیں جیسے اپنا سراپا برف کی سفیدی میں چھوڑ آئی ہوں. شاں شاں کی آوازیں سنائی دیتیں لیکن آواز لگانے والیاں کہیں دکھائی نہ پڑتیں. خاموشی کی زبان میں وادیوں کے باسی پرند چرند، ماہیاں، گھاس البیلے اور نویلے اقسام کے پھول آپس میں نجانے کیا کیا سرگوشیاں کر رہے تھے کہ گنگا ندی اپنے دہانے سے پھوٹتی پھواریں روک کر بولی:

’’مجھے جمنا، سرسوتی اور خشک ہوتے جہلم سے زیادہ گھاگھرا کا دکھ کھائے جاتا ہے. ہمارا جنم یہاں ملکوتی حسن کے پردوں میں لپٹے شفاف بادلوں کی چھاؤں تلے ہوتا ہے، پھر ہم اس دھرتی کی ڈھیروں مٹی اپنے وجود سے لپٹائے پھرتی ہیں جس میں ہر جاندار کی زندگی کا سامان ہوتا ہے، اور وہ ہاکڑا ندی جو سوکھ چکی ہے، بانجھ ہو چکی ہے، اس کی کوکھ میں فقط ریت پھر چکی ہے.

اے ہمالیہ! تم اپنے وجود میں چھپی ڈھیروں بوندیں وہاں کیوں نہیں بھیجتے جہاں کے باسیوں سے زمین کی زرخیزی راضی نہیں ہے اور یہ نیلا گگن جن سے ناراض ہی رہتا ہے. جن کے خواب، سراب بن جاتے ہیں اور محبت ان کے لیے ہمیشہ خدا کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش ہوتی ہے.‘‘

جواب میں سرد اور یخ بستہ وجود والا ہمالہ مزید پتھریلا اور سخت ہو جاتا ہے، اس کے دہانے سے اب ایسا کوئی چشمہ نہیں پھوٹتا جو ریگزاروں کو سیراب کر دے! لیکن نجانے کیوں محبت رکھنے والے دل ہمیشہ پہاڑوں اور دریاؤں کی جانب آنکھیں لگائے رکھتے ہیں. شاید انھیں محبت آبشاروں سی برستی محسوس ہوتی ہو جو سخت جان پہاڑوں کا سینہ چیر کر نکلتی ہیں اور پھر ہر شے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہیں.

..............................................................

ست بائی پکھی واسوں کی جھونپڑی میں پیدا ہوئی جن کے پاس ریگستانی حسن تھا! اور صحرا ہمیشہ اسرار کے پردے میں لپٹے رہتے ہیں، جل تھل نہیں کر سکتے لیکن جیت لیتے ہیں. ایسے ہی جنوبی شہر کے رہنے والے حق نواز جوئیہ کو ایک دن صحرا رنگیلی چنری سے باندھے اپنے دامن میں کھینچ لاتا ہے. حق نواز جوئیہ ست بائی کو بہت جتن سے حاصل کرتا ہے. شادی کر کے گھر لے جاتا ہے اور اسے یہ یاد نہیں رہتا کہ روہیلے جہاں پیدا ہوتے ہیں مرتے بھی وہی ہیں. ان کی قسمت میں ریت لکھی ہوتی ہے لہذا وہ مٹی میں پنپ نہیں پاتے. ست بائی بھی کملا جاتی ہے، روہی میں کھلنے والا پھول اپنی آب و تاب برقرار نہیں رکھ پاتا. اس کے لیے حالات اور موسم سازگار نہیں رہتے. اینٹ گارے اور پتھر لوہے سے بننے والے گھر اس کے لیے قفس ثابت ہوتے ہیں، یوں قید ہونے والا پکھیرو جاں بلب ہو جاتا ہے اور ایک دن رہائی پا ہی جاتا ہے. حق نواز کے ماں باپ بہت جلد اسے قائل کر لیتے ہیں کہ جس بے نام و نسب کو تم زبردستی اٹھا کر لائے تھے، اسے اب چھوڑ دینے میں ہی تمہارے حسب و نسب کی بقا ہے. یوں نامہربان مٹی والے شہریوں کے پاس وہ اپنا سات سال کا بیٹا چھوڑ کر واپس روہی چلی آتی ہے. حق نواز کے گھر کی دہلیز پر کھڑی جب وہ اپنے گم شدہ سات سالوں کا حساب کتاب دیکھ رہی تھی، اسی سمے طلاق نامہ پکڑتے ہوئے ست بائی نے سنا وہ کہہ رہا تھا،

’’میری محبت تجھے راس نہ آئی ست بائی، لیکن جب تو بوڑھی ہو جائے اور روہی میں بہت دنوں تک بارش نہ ہو، تب مشرق کی جانب دیکھتی رہنا، میں تیرے لیے پانی لاؤں گا.‘‘ وہ ڈھونڈتی ہوئی اس ٹوبے کے نشان تک پہنچ ہی جاتی ہے جہاں اس کے جانے کے سال بعد ہی باپ کسی ٹوبے کے کنارے ریت اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کر کے لیٹ جاتا ہے. جو حشر اس غیرت والے کے ساتھ اٹھایا گیا تھا اب وہ حشر پر موقوف ٹھہرتا ہے

سالوں بعد پھر سے گنگا اور ہمالیہ میں ٹھن جاتی ہے. گنگا ندی کو اعتراض ہے کہ دھرتی، ہمالیہ اور دوسرے دیوہیکل پہاڑوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے. اور دھرتی پرانی تاریخ کے دھارے موڑ دیتی ہے یا اجاڑ دیتی ہے. اس گٹھ جوڑ نے ہندوستان کے سینے پر بھی ہزاروں میل تک پھیلا ہوا صحرا بنا ڈالا ہے جہاں محبت ریت کی صورت میں بکھر چکی ہے. اور جہاں کے باسی اپنی زندگی کو، بھوک پیاس کو بھوگ لگا کر راضی رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.

ہمالیہ اس مرتبہ چپ نہیں رہتا. ایک قیامت خیز انگڑائی لیتا ہے جس سے سینکڑوں من وزنی پتھر اس کے وجود سے سرک کر پانیوں میں گرنے لگتے ہیں یوں ندیاں اور جھرنے بلبلا اٹھتے ہیں.

’’یہ کیا کیا تم نے، ابھی آگ اگلتے تو ہمارا وجود خاک ہو جاتا. تم تو زندگی اور قدرت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو.‘‘

اور ہمالیہ مسکراتا ہے! اچھا خوب! یعنی بات سمجھ لی تم نے. یہی اصول ہے، زندگی تغیرات کے رتھ پر سوار ہے، یہاں کسی کو ثبات نہیں، یاد کرو کیا جس دن ہمارا جنم ہوا تھا اس دن ہم ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں؟ نہیں نا. یہ تو قدرت ہی طے کرتی ہے. جنم، پرورش، حادثے، تصویریں اور واقعات پیدا کرتی ہے یوں ہر ایک کے حصے میں تھوڑا تھوڑا سب آ جاتا ہے، زندگی، موت، ہنسی، رونا، دکھ سکھ، خوشی غمی، محبت نفرت ہر جیوت شے کو ہر ایک احساس کا مزہ چکھنا ہے، یہی اس دنیا کا قانون ہے. ہمالیہ سکوت اختیار کرتا ہے.

گنگا کے وجود میں جذبات سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور پھر سینکڑوں زندگیاں پانی کی نذر ہو جاتی ہیں. ہمالیہ سوال کرتا ہے.

’’ کیا یہ ظلم و ستم اور ناانصافی نہیں ہے کہ چشم زدن میں لاکھوں اقسام کی زندگیاں تم نے اپنے پیٹ میں انڈیل دی ہیں.‘‘

گنگا کہتی ہے.

’’جو محبت دیتا ہے اسے مارنے اور مربے کا حق بھی حاصل رہتا ہے. میں اس دھرتی کو اپنا لہو اپنا وجود اور محبت دیتی ہوں. اس لیے اس کی. زندگی پر میرا اختیار ابھی باقی ہے!‘‘

..........................................

ست بائی سے شادی کی خواہش لیے منتظر بیٹھے اللہ یار کو قسمت ایک بار پھر موقع دیتی ہے. وہ اپنی تائی تاجو سے ست بائی کو مانگ لیتا ہے. یوں ان کے گھر سانوری پیدا ہوتی ہے جو ست بائی سے زیادہ اللہ یار کو پیاری ہوتی ہے. وہ اسے سائیں فرید کی دعا سمجھ کر بہت دیکھ ریکھ سے اس کی پرورش کرتا ہے. ریت پر رہنے والوں کے ناز و نعم یہی ہوتے ہیں کہ انھیں پینے کے لیے صاف اور تازہ پانی ملتا رہے، کھانے کے لیے جو مرضی مل جائے، ان کا ہر لقمہ سجدہ شکر ہوتا ہے. یوں تو سانوری کو بھی یاد تھا کہ ایک مرتبہ سخت قحط سالی میں جب ہر طرف دھول نما ریت اڑتی تھی اور اس کے باپ کی سوتیلی پھوپھی تھر کے کسی دور دراز گاؤں سے انھیں ملنے آئی تھی اس رات وہاں صرف تلا ہوا گوشت تھا جس سے اس کی مہمان داری نبھائی جانی تھی، اور وہ گوشت ٹڈی دل کے حملے کے بعد پکڑے جانے والے ٹڈوں کاگوشت تھا! جو مفلس اور پران ہارتے لوگوں پر حلال ہو جاتا ہے.

حق نواز جوئیہ کا اکلوتا بیٹا دن رات ماں کو یاد کرتا تھا، چڑچڑے پن اور بدمزاجی نے اسے بگاڑ دیا تھا، آہستہ آہستہ اس نے اسکول جانا چھوڑ دیا، کھانے کے وقت ضد کرنے لگتا، بلاوجہ گھر کے برتن توڑ دیتا اور نوکروں کو مارپیٹ کرتا. یوں اسے بھی بالآخر دوسری شادی پر رضامند ہونا پڑا، بلاول نواز جوئیہ کی خوش قسمتی کہ اسے ماں کا نعم البدل نصیب ہوا. اس گرہستن نے اپنا آپ مار کے حق نواز کے مکان کو گھر بنا دیا لیکن ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ حق نواز مجذوب بن کر سائیں فرید کے در پر بیٹھ گیا. گھر والوں نے لاکھ جتن کر لیے لیکن وہ انھیں پہچاننے سے انکاری ہو جاتا، کبھی گھر کا کوئی فرد لینے جاتا اور وہ مزار پر بیٹھا مل جاتا تو جانے والا سبکی اور شرمندگی لے کر لوٹ آتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ ڈھونڈنے والا ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتا لیکن اس کا دور دور تک پتا نہ چلتا. تن کے جن کپڑوں میں وہ گھر سےگیا تھا وہ بالآخر چھیتڑوں میں بدل گئے اور گھر والے بھی صبر کر کے بیٹھ گئے. سانوری ایک مرتبہ اپنے باپ کے ساتھ سائیں فرید کے میلے پر گئی تھی، جہاں اس نے ایک مجذوب دیکھا، اس کے پاس ایک کاسہ تھا اور قریب ہی ایک کتا بیٹھا تھا. مجذوب نے اسےگڑ کی ڈلی کھانے کے لیے دی لیکن اس کے باپ اللہ یار نے یہ منظر نہیں دیکھا. البتہ سانوری کو یہ پورا منظر جزئیات سمیت ازبر تھا..

..........................................

ہمالیہ کھڑا ہوتا ہے اور خدائے لم یزل سے سوال کرتا ہے. پالنے والے! اگر یہ صحرا تیرے رازوں میں سے ایک راز ہیں تو انھیں دریاؤں اور پانیوں بھرے چشموں پر عیاں کر دے تاکہ ان کے دل کی خلش دور ہو سکے. اور یہ تیری قدرت سے شاکی رہنا چھوڑ دیں. اگر تو ہمارا سینہ چیر کر ہریالی اُگا سکتا ہے تو بے شک ریت میں گل و گلزار بھی کھلا سکتا ہے.! پالنے والے ہواؤں کا رخ موڑ دے کہ وہ انسانوں کے دلوں میں انسان کی محبت پیدا کرنے والی خوشبو لے اڑیں.

..........................................

اللہ یار دیکھتا ہے کہ روہی کے مشرق پر کالی گھٹا چھا جاتی ہے. وہ ست بائی کو بستر پر ڈال کر باہر لے آتا ہے جہاں جھونپڑے سے باہر سانوری اونٹنی کا دودھ نکالنے کی کوشش کر رہی تھی. لیکن وہاں تو بدن میں خون کی جگہ بھی پیاس دوڑ رہی تھی اور دودھ کے سوتے خشک ہو چکے تھے. آسمان کی نیلاہٹ یک بیک کالک میں بدل جاتی ہے،گویا اللہ یار کے اپنی بیوی سے کیے گئے وعدے پر لبیک کہنے آئی ہو! شوق کہتا تھا کہ برس جاؤ اور جوش جنوں کہتا تھا کہ ہالی نہ وس کالیار! ابھی پھولوں کے رنگ کالے ہونے دے! ست بائی افق کے تیور دیکھتی ہے اور پھولوں کے رنگ کالے سے سرخی مائل ہو جاتے ہیں. جوش جنوں یہ برداشت نہیں کر پاتا اور پھکیرو پنجرہ خالی کر جاتا ہے. ست بائی کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں، شمال کو دیکھتی جاتی ہیں. اللہ یار اور سانوری رونے کی کوشش کر رہے تھے لیکن آنسو سارے کالیار پی چکا تھا. پھر امبر سے کہیں ایک قطرہ گرتا ہے اور اللہ یار کے جھریوں بھرے گال پر عین آنکھ کے نیچے لڑھک جاتا ہے. گویا آنسو دان ہوتا ہے. دان کرنے کا اصول ہے قطرہ دان کرنے لگو تو سمندر خود ہی جھولی الٹ دیتا ہے.

یوں پھر ریگزار میں چھم چھم مینہ برسنے لگتا ہے. اور اس چھتنار جیسی برسات میں شمال کی سمت جانے والا گھڑ سوار اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے. اللہ یار نے دیکھا کہ اس کے پیچھے ایک مجذوب تھا جس کا کاسہ پانی سے بھر چکا تھا. ریگزار سے ریت اور مٹی کی ملی جلی خوشبو اٹھ رہی تھی. سوندھی مہک جس سے مشام جاں معطر کرنے کا یہ وقت مناسب نہیں تھا لیکن مجذوب گھوڑے سے اترتا ہے اور ست بائی کی بےکفن لاش کے پاس پہنچ کر کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے جیسے کہنا چاہتا ہو کہ وعدہ وفا کرنے میں اتنی دیر تو نہیں ہوئی تھی. پھر اپنا کاسہ میں مٹی سے بھرا پانی ست بائی پر انڈیل دیتا ہے،گویا بے کفن لباس پر عطر گِل چھڑک رہا ہو. اللہ یار نے سنا مجذوب کہہ رہا تھا. روہیلوں کی میت پر مشک کافور نہیں مٹی کا عطر سجتا ہے!


خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024