اِگنورنٹ
اِگنورنٹ
Sep 25, 2015
گرمی کی شدت میں دور آسما ن پر تنی بادلوں کی سیاہ چادر
افسانہ - اِگنورنٹ
ارشد علی
گرمی کی شدت میں دور آسما ن پر تنی بادلوں کی سیاہ چادر مون سون کی آمد کا پیغام تھی۔اور اُس کی سیاہی میں ہر پل اضافہ ہوتا جا رہا تھا،دل خوشی سے مچل رہا تھااور نگاہیں اضطراب کی حالت میںآسمان کا طواف کر رہی تھیں۔ایسے میں سیدو نائی کے گھر کے باہر بچوں کا ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوا اور مدھم آواز میں بولے جانے والے
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘
کے الفاظ سیدو کے پڑوسی ماسٹر فتح محمد کے آنگن میں بیٹھے گولے کی سماعتوں سے ٹکرانے لگے۔اُس نے حسرت بھری نگاہیں رضائی کے پرانے غلاف سے بنائے گئے پردے کے پیچھے چھپے لکڑی کے دروازے پر ڈالی،اور دوبارہ نہ چاہتے ہوئے رٹے رٹائے الفاظ
A FOR APP آُآاپیل معنے سیب،
B FOR BALL بال معنے گیند،
دھرانے لگا۔مدہم آواز بتدریج بڑھنے لگی،
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘ ،
C FOR CAT، کیٹ معنے بلی ،
’مینہ برسا دے زور و زور‘،
D FOR DOG ڈوگ معنے کُتا،
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘ ،
E FOR ELEPHANT،
اور نگاہیں ایک بار پھر دروازے کی جانب اُٹھ گیءں،دل بے قراری سے دھڑکنے لگا۔ اورہونٹوں کی جنبش سےF FOR FLAG کی بجائے’مینہ برسا دے زور و زور‘کے الفاظ ظاہر ہونے لگے، آسمان سے بارش کے چند قظرے گرے اور بچوں نے نعروں سے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ گولے نے دروازے سے نظریں ہٹا کر باجی ثمینہ کی جانب دیکھا اور دوبارہ قاعدے پر نگاہیں جمانے کی کوشش کرنے لگا۔
G FOR .........
’باجی ہم چھٹی کریں بارش ہونے لگی ہے‘ ۔گولے کے منہ سے نکلا۔
باجی ثمینہ نے اسے گھور کر دیکھا اور خلافِ معمول کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر کو تفہیمی انداز میں جنبش دی۔ گولے کو اپنی نظر کا دھوکہ محسوس ہوا وہ یقین کے لئے دوبارہ گویا ہوا،
’باجی جائیں‘
باجی کاٹ کھانے والے انداز میں چلائی،
’ہاں کہہ جو دیا جاؤ‘
اُس نے تیزی کے ساتھ اپنی سلیٹ،قلم،دوات،کاپی کے نام پر چند صفحات اور قاعدے کی باقیات کپڑے کے تھیلے میں اُڑیسنا شروع کیں ساتھ ہی ڑرتے ڑرتے ترچھی نگاہ سے باجی کی جانب دیکھا کہیں وہ اَپنا فیصلہ تبدیل ہی نہ کر لیں۔ باجی کو مشغول پا کر اُس نے کپڑے کے تھیلے کو دونوں بازوؤں میں پہنتے ہوئے پیٹھ پر لادا، تختی بستے اور کمر کے درمیان پھنسا کر تیزی سے دروازے کی جانب لپکا۔ اپنے جوش و خروش اور جذبات کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے خوشی سے کانپتی آواز میں پُکارا۔
’باجی جی اَسامالیکم‘
اور دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی گولے نے سیدو نائی کے گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔
گلی میں بچوں کا شور ہر لحظہ بڑھتا جا رہا تھا گولے پر نظر پڑتے ہی ایک لمحے کے لئے خاموشی طاری ہوئی،ہونٹوں پر مسکراہٹیں ناچیں،آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہوئے، اور
’میں آیا‘
کہتے ہوئے گولا سیدو نائی کے گھر کی چوکھٹ عبور کر گیا۔بارش کے قطرے اب زیادہ تیزی سے برسنے لگے تھے ہر قطرے کے ساتھ ہجوم پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ نعرے لگانے لگتا۔چند ثانیے بعد ان نعروں میں ایک آواز اکا اضافہ ہو گیا اور گولا صرف جانگیے میں اپنی آبرو کو سمیٹے زوروشور سے چلانے لگا۔
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ ، مینہ برسا دے زور و زور‘
بارش کی رفتار میں ہونے والے اضافے کے ساتھ ساتھ بچوں کے نعروں،اُن کی ہنسی،اُچھل کود،بھاگ دوڑ میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔اسی شغل میں مشغول یہ ٹولی ’طافو کمہیار‘ کے گھر سے قریب کھڑے طافو کے گدھوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والی ٹولی سے جا ملی۔ اور گولا کچھ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ طافو کی چھت پر لگے پرنالے سے گرنے والے پانی کے نیچے کھڑا ہو کر لطف اندوز ہونے لگا۔ وہ اس شغل سے محظوظ ہو رہے تھے کہ ’ طافو کمہیار‘ کا ٹیپو پانی سے بھرا ڈبہ لیے’ بابے بلوں‘ کی تاریک کوٹھری میں داخل ہوا، اور بچے دبی دبی ہنسی میں دروازے کی اُوٹ سے کوٹھڑی کے اندر جھانکنے لگے۔جیسے ہی ٹیپُونے بابے پر پانی اُلٹا اور بابا ہڑبھڑا کر اُٹھا تو دروازے سے اندر جھانکنے والوں کی دبی دبی ہنسی اُونچے اُونچے قہقوں میں تبدیل ہو گئی۔بابا شدید غصے کی حالت میں اُن کی جانب لپکا، اور وہ تمام گالیاں جو وہ پچھلے چالیس برسوں سے اُن ہندوؤں اور سکھوں کو دیتا آ رہا تھا جنھوں نے دوران ہجرت بابے سے اُس کے تمام رشتے چھین لئے تھے ان بچوں کو دینے لگا۔بچے گالیوں سے بے نیاز دوڑتے ہوئے ’جنے جولاہے‘ کی ’لوموں‘ میں داخل ہو کر نعرے بازی کرنے لگے۔
ایسے میں گولے کی نظر گلی سے جانوروں کو باڑے میں منتقل کرتی ’ماسی‘ زبیدہ پر پڑی اور اُس نے چند بچوں کو ساتھ لے کر دو بھینس، ایک ’بچھڑا‘ ایک ’ویہڑی‘ کھول لی اور رسی پکڑ کر دوڑنے لگے۔ بچوں کو نیا شغل ملا تو وہ بھی جانوروں کے پیچھے دوڑے ’ماسی‘ دروازے میں کھڑی ہو کر لعن طعن کرنے لگی۔’حافظ جی‘عبدالرحمن کے ’بار آگے‘ ماسی کے بندے کو آتے دیکھ کر یہ ہجوم جانور چھوڑ کے منشی حسنے کی حویلی کے ساتھ گزرتی گلی میں داخل ہو کر بڑی سڑک کے کنارے ’پٹھوں‘ کی ’ٹال‘ میں جا نکلا۔
بارش اپنی انتہائی رفتار سے جاری تھی، سڑک پر ’گوڈے گوڈے‘ سے زیادہ پانی تھا جس میں ساتھ بہتے گندے نالے کا پانی بھی شامل ہو چکا تھا نعروں کی آواز تھمنے میں نہ آتی تھی۔
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ ، مینہ برسا دے زور و زور‘
ایسے میں گولا چلایا! میں تیراکی کرنے لگا ہوں۔ اور سڑک پر بہتے پانی میں گر کر لگا ہاتھ پاؤں مارنے، اُس کی دیکھا دیکھی تمام بچے پانی میں بیٹھ یا لیٹ کر تیراکی کی مشق کرنے لگے۔
پورے گھر میں افراتفری کا عالم ہے ہر ایک کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔جمعدار صبح ہی صبح پہنچ گئے تھے اور اب تک تمام گلی کی صفائی مکمل ہو چکی تھی۔نائی گوشت فرائی کر کے فارغ ہو چکے تھے ، نانبائی کو روٹی کا ’آرڑر‘ دیا جا چکا تھا۔غرض چار سُو دعوت کا عالم تھا۔ مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے گرمی کی شدت میں خاصی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ خدیجہ خاتون بے چینی سے اِدھر اُدھر جاتی نوکروں کو احکامات جاری کرنے میں مصروف تھی۔ اسی اثناء میں فون کی گھنٹی بجی ،چھوٹی پنکی نے فون سُننے کے بعد ریسیور کریڈل پر رکھا اور جوش کے ساتھ چلائی،
’’امی! بھیا، اسلام آباد ’ائیر پورٹ‘ سے نکل چکے ہیں بس چار پانچ گھنٹے میں گھر پہنچ جائیں گے۔‘‘
خدیجہ خاتون تصور میں بیٹے کو سینے سے لگائے بُڑبڑائی،
’’ میرا لال دس سال بعد گھر واپس آ رہا ہَے‘‘ اور اُس کی بلائیں لیتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھ کر پکاری،’’ ہائے اللہ! یہ وقت ٹھہر سا کیوں گیا ہے پانچ گھنٹے کیسے گزریں گے۔‘‘
سفید رنگ کی نئی ماڑل کی کار فراٹے بھرتے ہوئے دوڑی جا رہی ہے ، گاڑی کے اندر دھیمی آواز میں انگلش میوزک بج رہا ہے اور ڈرائیور کے ساتھ ’فرنٹ سیٹ‘ پر طویل القامت خوبصورت جوان ہلکے ’ سکن کلر‘ کا سوٹ پہنے ’میرون کلر‘ کی ’ٹائی‘ لگائے سر کی پُشت کو سیٹ کی ٹیک کے ساتھ لگائے آنکھیں موندے براجمان ہے۔گاڑی چار گھنٹے کے بعد ساہیاں والا ’انٹر چینج‘ سے ’آؤٹ‘ ہوئی تو چندلمحوں میں گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور گاڑی جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔اُڑتی ہوئی دُھول میں چھپی ٹوٹی ہوئی سڑک کے درمیان بیٹھا گدھا اُٹھ کر سڑک کے دوسرے کِنارے جا بیٹھا۔ اُس نے آنکھیں کھولیں، ناگواری سے پہلے ڈرائیور اور پھر چاروں جانب دیکھا، زیر لب کچھ بُڑبڑاتے ہوئے سر کو دوبارہ سیٹ کی ٹیک پر رکھ دیا۔اُسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔
ڈرائیور کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے گاڑی کو گنے کی ٹرالیوں، جانوروں کے اجڑ، تانگوں، رکشوں، سائیکلوں، دوڑتے ہوئے برہنہ بچوں اور گدھا گاڑیوں سے بچاتے ہوئے گڑھوں میں چھپی سڑک پر دوڑائے جا رہا ہے۔اُسکی نگاہیں ’ونڈ سکرین‘ پر جمی ہوئی اور پاؤں تیزی کے ساتھ ’کلچ‘ ’بریک‘ اور ’ایکسیلیٹر‘ پر متحرک ہیں۔ پنتالیس منٹ میں گاڑی بارہ کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کر کے تحصیل چوک سے دائیں مُڑی، اور پندرہ منٹ کے بعد ’پٹھوں‘ کی ’ٹال‘ کے سامنے گدھا گاڑیوں، رکشوں، اور پیدل چلنے والوں کے درمیان پھنس گئی۔اُس کے چہرے پر ناگواری کے گہرے ہوتے اثرات کے ساتھ ڈرائیور اپنے ہاتھ کا دباؤ ’ہارن‘ پر مزید بڑھا دیتا ہے۔ بالآخر گاڑی بمشکل منشی حسنے کی حویلی والی گلی میں داخل ہوئی اور حافظ جی عبدالرحمن کے گھر کے سامنے پہنچ کر رُک گئی۔
وہ گاڑی سے اُترا، لباس کی شکنوں کو درست کیا،آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا کر چاروں جانب نگاہ دوڑائی۔اُسے چند قدم دور بندر کا تماشا ہوتا نظر آیا، جس کے چاروں جانب موجود لباس سے ناآشنا بچے مداری سے قطع نظر بڑے انہماک کے ساتھ اُس کی جانب متوجہ تھے۔ اُن کے چہروں سے اُس کے جانے کے بعد اُن کے دلوں میں مچلنے والی گاڑی کو چھونے کی خواہش ظاہر ہو رہی تھی۔ ادھ کھلے دروازوں میں پردے کے پیچھے چھپی خواتین تجسس کے ساتھ اُسے دیکھنے میں مصروف تھیں۔اُس نے طویل سانس لیا اور نپے تلے قدموں میں آگے بڑھنے لگا۔
’ماسی‘ زبیدہ کے دروازے کے سامنے نالی بند ہونے کے باعث پوری گلی میں گندا بدبُودار پانی کھڑا تھا۔وہ پنجوں کے بل چلتے ہوئے آگے بڑھنے لگا کہ اُس کی نگاہ ’ماسی‘ کی بڑی بہو پر پڑی جو ننگے پاؤں پانی میں کھڑی دیوار پر اُپلے تھاپنے میں مصروف تھی۔اُسے دیکھ کر اِسے اُبکائی آتی محسوس ہوئی اور وہ سر کو جھٹکا دیتے ہوئے تیز تیز قدم اُٹھاتا آگے کی جانب چل دیا۔بابے بلوں کی کوٹھڑی میں اُس کے پوتے نے چائے کا کھوکھا بنایا ہوا تھا جس میں مکھیوں کی بڑی تعدادبھنبھنا رہی تھی۔ بارش کی چند ’کنیاں‘ اُسے خود پر گرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ وہ ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ ’لوموں‘ کے ساتھ بنی حجام، درزی، اور کریانے کی دوکانوں پر ڈالتے ہوئے چارپائی پر درا ز ’جنے جولاہے‘ کی جانب متوجہ ہوا اور سر کو جھکاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ’طافو کمہیار‘ کے دروازے پر اُس سے چند قدم دور گلی کے عین درمیان میں چھت سے نکاسیء آب کا پائپ نہ ہونے کی وجہ سے گندا پانی گرنے لگا ۔اُس نے بمشکل اپنے کپڑوں کو چھینٹوں سے بچایا۔ چند قدم آگے اُس کی مڈبھیڑ طافو کے گدھوں سے ہوئی جنھیں تمام دن باربرداری کیلئے استعمال کرنے کے بعد ٹیپُو گھر کی جانب لا رہا تھا۔ اُن سے خود کو بمشکل بچاتے ہوئے وہ گلی کے کونے پر جمع کوڑے کے ڈھیر تک پہنچا، ڈھیر سے شدید قسم کا تعفن اُٹھ رہا تھا۔ اُس نے سانس کو روکا ۔ناقابل برداشت تعفن کی وجہ سے ناک پر رومال رکھا اور تقریباً دوڑتے ہوئے گلی میں بائیں جانب مُڑ گیا تو اُسے جانگیوں میں ملبوس چند بچے دوڑتے اور نعرے لگاتے نظر آئے۔
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ ، مینہ برسا دے زور و زور‘
پہلی بار اُس کے قدم لڑکھڑائے، دِل تیزی سے دھڑکا، منہ سے دبی دبی آواز نکلی
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘
اس سے پہلے کہ وہ اس لَے میں بہہ جاتا اُس نے اپنے قدموں کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پایا، آگے نکل جانے والے بچوں پر ایک نگاہ ڈالی، چشمہ اُتار کر آنکھوں کو معمولی سا رگڑا، ٹائی کی ’ناٹ‘ کو مزید ’ٹائٹ‘ کیا، ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے زیرِ لب بُڑبڑایا
'Uncultured, Illiterate and Ignorant people'
اور تیز تیز قدم اُٹھاتا چوہدری محمد بلال، چوہدری سعید احمد کی دہلیز عبور کر گیا، وہی دہلیز جس سے بیس سال قبل سیدو نائی کا گولا ’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘کے نعرے لگاتا جانگیے میں اپنی آبرو سمیٹے برآمد ہوا تھا۔
افسانہ - اِگنورنٹ
ارشد علی
گرمی کی شدت میں دور آسما ن پر تنی بادلوں کی سیاہ چادر مون سون کی آمد کا پیغام تھی۔اور اُس کی سیاہی میں ہر پل اضافہ ہوتا جا رہا تھا،دل خوشی سے مچل رہا تھااور نگاہیں اضطراب کی حالت میںآسمان کا طواف کر رہی تھیں۔ایسے میں سیدو نائی کے گھر کے باہر بچوں کا ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوا اور مدھم آواز میں بولے جانے والے
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘
کے الفاظ سیدو کے پڑوسی ماسٹر فتح محمد کے آنگن میں بیٹھے گولے کی سماعتوں سے ٹکرانے لگے۔اُس نے حسرت بھری نگاہیں رضائی کے پرانے غلاف سے بنائے گئے پردے کے پیچھے چھپے لکڑی کے دروازے پر ڈالی،اور دوبارہ نہ چاہتے ہوئے رٹے رٹائے الفاظ
A FOR APP آُآاپیل معنے سیب،
B FOR BALL بال معنے گیند،
دھرانے لگا۔مدہم آواز بتدریج بڑھنے لگی،
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘ ،
C FOR CAT، کیٹ معنے بلی ،
’مینہ برسا دے زور و زور‘،
D FOR DOG ڈوگ معنے کُتا،
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘ ،
E FOR ELEPHANT،
اور نگاہیں ایک بار پھر دروازے کی جانب اُٹھ گیءں،دل بے قراری سے دھڑکنے لگا۔ اورہونٹوں کی جنبش سےF FOR FLAG کی بجائے’مینہ برسا دے زور و زور‘کے الفاظ ظاہر ہونے لگے، آسمان سے بارش کے چند قظرے گرے اور بچوں نے نعروں سے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ گولے نے دروازے سے نظریں ہٹا کر باجی ثمینہ کی جانب دیکھا اور دوبارہ قاعدے پر نگاہیں جمانے کی کوشش کرنے لگا۔
G FOR .........
’باجی ہم چھٹی کریں بارش ہونے لگی ہے‘ ۔گولے کے منہ سے نکلا۔
باجی ثمینہ نے اسے گھور کر دیکھا اور خلافِ معمول کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر کو تفہیمی انداز میں جنبش دی۔ گولے کو اپنی نظر کا دھوکہ محسوس ہوا وہ یقین کے لئے دوبارہ گویا ہوا،
’باجی جائیں‘
باجی کاٹ کھانے والے انداز میں چلائی،
’ہاں کہہ جو دیا جاؤ‘
اُس نے تیزی کے ساتھ اپنی سلیٹ،قلم،دوات،کاپی کے نام پر چند صفحات اور قاعدے کی باقیات کپڑے کے تھیلے میں اُڑیسنا شروع کیں ساتھ ہی ڑرتے ڑرتے ترچھی نگاہ سے باجی کی جانب دیکھا کہیں وہ اَپنا فیصلہ تبدیل ہی نہ کر لیں۔ باجی کو مشغول پا کر اُس نے کپڑے کے تھیلے کو دونوں بازوؤں میں پہنتے ہوئے پیٹھ پر لادا، تختی بستے اور کمر کے درمیان پھنسا کر تیزی سے دروازے کی جانب لپکا۔ اپنے جوش و خروش اور جذبات کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے خوشی سے کانپتی آواز میں پُکارا۔
’باجی جی اَسامالیکم‘
اور دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی گولے نے سیدو نائی کے گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔
گلی میں بچوں کا شور ہر لحظہ بڑھتا جا رہا تھا گولے پر نظر پڑتے ہی ایک لمحے کے لئے خاموشی طاری ہوئی،ہونٹوں پر مسکراہٹیں ناچیں،آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہوئے، اور
’میں آیا‘
کہتے ہوئے گولا سیدو نائی کے گھر کی چوکھٹ عبور کر گیا۔بارش کے قطرے اب زیادہ تیزی سے برسنے لگے تھے ہر قطرے کے ساتھ ہجوم پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ نعرے لگانے لگتا۔چند ثانیے بعد ان نعروں میں ایک آواز اکا اضافہ ہو گیا اور گولا صرف جانگیے میں اپنی آبرو کو سمیٹے زوروشور سے چلانے لگا۔
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ ، مینہ برسا دے زور و زور‘
بارش کی رفتار میں ہونے والے اضافے کے ساتھ ساتھ بچوں کے نعروں،اُن کی ہنسی،اُچھل کود،بھاگ دوڑ میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔اسی شغل میں مشغول یہ ٹولی ’طافو کمہیار‘ کے گھر سے قریب کھڑے طافو کے گدھوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والی ٹولی سے جا ملی۔ اور گولا کچھ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ طافو کی چھت پر لگے پرنالے سے گرنے والے پانی کے نیچے کھڑا ہو کر لطف اندوز ہونے لگا۔ وہ اس شغل سے محظوظ ہو رہے تھے کہ ’ طافو کمہیار‘ کا ٹیپو پانی سے بھرا ڈبہ لیے’ بابے بلوں‘ کی تاریک کوٹھری میں داخل ہوا، اور بچے دبی دبی ہنسی میں دروازے کی اُوٹ سے کوٹھڑی کے اندر جھانکنے لگے۔جیسے ہی ٹیپُونے بابے پر پانی اُلٹا اور بابا ہڑبھڑا کر اُٹھا تو دروازے سے اندر جھانکنے والوں کی دبی دبی ہنسی اُونچے اُونچے قہقوں میں تبدیل ہو گئی۔بابا شدید غصے کی حالت میں اُن کی جانب لپکا، اور وہ تمام گالیاں جو وہ پچھلے چالیس برسوں سے اُن ہندوؤں اور سکھوں کو دیتا آ رہا تھا جنھوں نے دوران ہجرت بابے سے اُس کے تمام رشتے چھین لئے تھے ان بچوں کو دینے لگا۔بچے گالیوں سے بے نیاز دوڑتے ہوئے ’جنے جولاہے‘ کی ’لوموں‘ میں داخل ہو کر نعرے بازی کرنے لگے۔
ایسے میں گولے کی نظر گلی سے جانوروں کو باڑے میں منتقل کرتی ’ماسی‘ زبیدہ پر پڑی اور اُس نے چند بچوں کو ساتھ لے کر دو بھینس، ایک ’بچھڑا‘ ایک ’ویہڑی‘ کھول لی اور رسی پکڑ کر دوڑنے لگے۔ بچوں کو نیا شغل ملا تو وہ بھی جانوروں کے پیچھے دوڑے ’ماسی‘ دروازے میں کھڑی ہو کر لعن طعن کرنے لگی۔’حافظ جی‘عبدالرحمن کے ’بار آگے‘ ماسی کے بندے کو آتے دیکھ کر یہ ہجوم جانور چھوڑ کے منشی حسنے کی حویلی کے ساتھ گزرتی گلی میں داخل ہو کر بڑی سڑک کے کنارے ’پٹھوں‘ کی ’ٹال‘ میں جا نکلا۔
بارش اپنی انتہائی رفتار سے جاری تھی، سڑک پر ’گوڈے گوڈے‘ سے زیادہ پانی تھا جس میں ساتھ بہتے گندے نالے کا پانی بھی شامل ہو چکا تھا نعروں کی آواز تھمنے میں نہ آتی تھی۔
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ ، مینہ برسا دے زور و زور‘
ایسے میں گولا چلایا! میں تیراکی کرنے لگا ہوں۔ اور سڑک پر بہتے پانی میں گر کر لگا ہاتھ پاؤں مارنے، اُس کی دیکھا دیکھی تمام بچے پانی میں بیٹھ یا لیٹ کر تیراکی کی مشق کرنے لگے۔
پورے گھر میں افراتفری کا عالم ہے ہر ایک کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔جمعدار صبح ہی صبح پہنچ گئے تھے اور اب تک تمام گلی کی صفائی مکمل ہو چکی تھی۔نائی گوشت فرائی کر کے فارغ ہو چکے تھے ، نانبائی کو روٹی کا ’آرڑر‘ دیا جا چکا تھا۔غرض چار سُو دعوت کا عالم تھا۔ مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے گرمی کی شدت میں خاصی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ خدیجہ خاتون بے چینی سے اِدھر اُدھر جاتی نوکروں کو احکامات جاری کرنے میں مصروف تھی۔ اسی اثناء میں فون کی گھنٹی بجی ،چھوٹی پنکی نے فون سُننے کے بعد ریسیور کریڈل پر رکھا اور جوش کے ساتھ چلائی،
’’امی! بھیا، اسلام آباد ’ائیر پورٹ‘ سے نکل چکے ہیں بس چار پانچ گھنٹے میں گھر پہنچ جائیں گے۔‘‘
خدیجہ خاتون تصور میں بیٹے کو سینے سے لگائے بُڑبڑائی،
’’ میرا لال دس سال بعد گھر واپس آ رہا ہَے‘‘ اور اُس کی بلائیں لیتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھ کر پکاری،’’ ہائے اللہ! یہ وقت ٹھہر سا کیوں گیا ہے پانچ گھنٹے کیسے گزریں گے۔‘‘
سفید رنگ کی نئی ماڑل کی کار فراٹے بھرتے ہوئے دوڑی جا رہی ہے ، گاڑی کے اندر دھیمی آواز میں انگلش میوزک بج رہا ہے اور ڈرائیور کے ساتھ ’فرنٹ سیٹ‘ پر طویل القامت خوبصورت جوان ہلکے ’ سکن کلر‘ کا سوٹ پہنے ’میرون کلر‘ کی ’ٹائی‘ لگائے سر کی پُشت کو سیٹ کی ٹیک کے ساتھ لگائے آنکھیں موندے براجمان ہے۔گاڑی چار گھنٹے کے بعد ساہیاں والا ’انٹر چینج‘ سے ’آؤٹ‘ ہوئی تو چندلمحوں میں گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور گاڑی جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔اُڑتی ہوئی دُھول میں چھپی ٹوٹی ہوئی سڑک کے درمیان بیٹھا گدھا اُٹھ کر سڑک کے دوسرے کِنارے جا بیٹھا۔ اُس نے آنکھیں کھولیں، ناگواری سے پہلے ڈرائیور اور پھر چاروں جانب دیکھا، زیر لب کچھ بُڑبڑاتے ہوئے سر کو دوبارہ سیٹ کی ٹیک پر رکھ دیا۔اُسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔
ڈرائیور کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے گاڑی کو گنے کی ٹرالیوں، جانوروں کے اجڑ، تانگوں، رکشوں، سائیکلوں، دوڑتے ہوئے برہنہ بچوں اور گدھا گاڑیوں سے بچاتے ہوئے گڑھوں میں چھپی سڑک پر دوڑائے جا رہا ہے۔اُسکی نگاہیں ’ونڈ سکرین‘ پر جمی ہوئی اور پاؤں تیزی کے ساتھ ’کلچ‘ ’بریک‘ اور ’ایکسیلیٹر‘ پر متحرک ہیں۔ پنتالیس منٹ میں گاڑی بارہ کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کر کے تحصیل چوک سے دائیں مُڑی، اور پندرہ منٹ کے بعد ’پٹھوں‘ کی ’ٹال‘ کے سامنے گدھا گاڑیوں، رکشوں، اور پیدل چلنے والوں کے درمیان پھنس گئی۔اُس کے چہرے پر ناگواری کے گہرے ہوتے اثرات کے ساتھ ڈرائیور اپنے ہاتھ کا دباؤ ’ہارن‘ پر مزید بڑھا دیتا ہے۔ بالآخر گاڑی بمشکل منشی حسنے کی حویلی والی گلی میں داخل ہوئی اور حافظ جی عبدالرحمن کے گھر کے سامنے پہنچ کر رُک گئی۔
وہ گاڑی سے اُترا، لباس کی شکنوں کو درست کیا،آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا کر چاروں جانب نگاہ دوڑائی۔اُسے چند قدم دور بندر کا تماشا ہوتا نظر آیا، جس کے چاروں جانب موجود لباس سے ناآشنا بچے مداری سے قطع نظر بڑے انہماک کے ساتھ اُس کی جانب متوجہ تھے۔ اُن کے چہروں سے اُس کے جانے کے بعد اُن کے دلوں میں مچلنے والی گاڑی کو چھونے کی خواہش ظاہر ہو رہی تھی۔ ادھ کھلے دروازوں میں پردے کے پیچھے چھپی خواتین تجسس کے ساتھ اُسے دیکھنے میں مصروف تھیں۔اُس نے طویل سانس لیا اور نپے تلے قدموں میں آگے بڑھنے لگا۔
’ماسی‘ زبیدہ کے دروازے کے سامنے نالی بند ہونے کے باعث پوری گلی میں گندا بدبُودار پانی کھڑا تھا۔وہ پنجوں کے بل چلتے ہوئے آگے بڑھنے لگا کہ اُس کی نگاہ ’ماسی‘ کی بڑی بہو پر پڑی جو ننگے پاؤں پانی میں کھڑی دیوار پر اُپلے تھاپنے میں مصروف تھی۔اُسے دیکھ کر اِسے اُبکائی آتی محسوس ہوئی اور وہ سر کو جھٹکا دیتے ہوئے تیز تیز قدم اُٹھاتا آگے کی جانب چل دیا۔بابے بلوں کی کوٹھڑی میں اُس کے پوتے نے چائے کا کھوکھا بنایا ہوا تھا جس میں مکھیوں کی بڑی تعدادبھنبھنا رہی تھی۔ بارش کی چند ’کنیاں‘ اُسے خود پر گرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ وہ ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ ’لوموں‘ کے ساتھ بنی حجام، درزی، اور کریانے کی دوکانوں پر ڈالتے ہوئے چارپائی پر درا ز ’جنے جولاہے‘ کی جانب متوجہ ہوا اور سر کو جھکاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ’طافو کمہیار‘ کے دروازے پر اُس سے چند قدم دور گلی کے عین درمیان میں چھت سے نکاسیء آب کا پائپ نہ ہونے کی وجہ سے گندا پانی گرنے لگا ۔اُس نے بمشکل اپنے کپڑوں کو چھینٹوں سے بچایا۔ چند قدم آگے اُس کی مڈبھیڑ طافو کے گدھوں سے ہوئی جنھیں تمام دن باربرداری کیلئے استعمال کرنے کے بعد ٹیپُو گھر کی جانب لا رہا تھا۔ اُن سے خود کو بمشکل بچاتے ہوئے وہ گلی کے کونے پر جمع کوڑے کے ڈھیر تک پہنچا، ڈھیر سے شدید قسم کا تعفن اُٹھ رہا تھا۔ اُس نے سانس کو روکا ۔ناقابل برداشت تعفن کی وجہ سے ناک پر رومال رکھا اور تقریباً دوڑتے ہوئے گلی میں بائیں جانب مُڑ گیا تو اُسے جانگیوں میں ملبوس چند بچے دوڑتے اور نعرے لگاتے نظر آئے۔
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ ، مینہ برسا دے زور و زور‘
پہلی بار اُس کے قدم لڑکھڑائے، دِل تیزی سے دھڑکا، منہ سے دبی دبی آواز نکلی
’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘
اس سے پہلے کہ وہ اس لَے میں بہہ جاتا اُس نے اپنے قدموں کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پایا، آگے نکل جانے والے بچوں پر ایک نگاہ ڈالی، چشمہ اُتار کر آنکھوں کو معمولی سا رگڑا، ٹائی کی ’ناٹ‘ کو مزید ’ٹائٹ‘ کیا، ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے زیرِ لب بُڑبڑایا
'Uncultured, Illiterate and Ignorant people'
اور تیز تیز قدم اُٹھاتا چوہدری محمد بلال، چوہدری سعید احمد کی دہلیز عبور کر گیا، وہی دہلیز جس سے بیس سال قبل سیدو نائی کا گولا ’کا لیا ں اٹا ں کالے روڑ‘کے نعرے لگاتا جانگیے میں اپنی آبرو سمیٹے برآمد ہوا تھا۔