حفیظ تبسم کی نظمیں

حفیظ تبسم کی نظمیں

Apr 14, 2024

شمارہ ۔حفیظ تبسم ۲۴

حفیظ تبسم

خدا سے ایک مکالمہ

(خالی۔۔۔جگہیں۔۔۔۔ پر۔۔۔کریں)

شاید اس جنم کی آخری برف باری ہے

جس کے نتیجے میں

زمین کے ادھڑے سینے سے

اناج نہیں

نرم تہہ دار برف اگ آئی تھی

میں خدا سے مخاطب ہوں

سپنے سائے سے محروم انسان کے لیے

سورج کی روشنی ضروری ہے

ورنہ اندھیرے کے بڑھے ہوئے ناخن

عین اس مقام پر خراش ڈالیں گے

جہاں دھڑکتا ہے دل

اور دل میں ایک یاد

جو پچھلی برف باری کے دوران دماغی توازن کھو بیٹھی تھی

میں خدا سے مخاطب ہوں

مجھے جانا ہے شہر کی طرف

ٹھیک اس جگہ

جہاں وہ ڈاک خانہ آباد ہے

اور تمھیں علم ہے ڈاکیے کا

جس نے میرے نام کا آخری خط کھول کر پڑھا

اور دریائی گزرگاہ کے قریب مر گیا

کیا وہ خط

اس لڑکی کی طرف سے تھا

جو لفظ سے معنی تک

سرخ روشنائی سے لکھتی تھی

میں خدا سے مخاطب ہوں

کہ زندہ رہنے کے لیے

آئندہ کے دن کا انتظار اتنا ضروری کیوں ہے

برف نے راستے بند کیے

غذائی قلت

اور ڈاکیے کی پراسرار موت

سوال سے جواب تک

خالی۔۔۔جگہیں۔۔۔ خالی۔۔۔ ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

Death anniversary of bomb blast

وہ سب رو رہے تھے

یادگار پر پھول چڑھا کر

اور فریم میں لگی تصویروں کے چہرے

سیاہ حاشیے سے

پسند کا پھول چومنے سے قاصر تھے

بوڑھے چہرے نے

ساتھ کی تصویر کو کہنی مارتے ہوئے کہا؛

اتنے آنسو کہاں سے آئے

ہمارے دور میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں

"خاموش رہو"

تقریب کے بعد بتاؤں گی

چھوٹے بچے نے

ساتھ کے فریم میں بیٹھے بچے سے کہا؛

اتنے کھلونے کہاں سے آئے

ہمارے قصبے میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں

"خاموش رہو"

ہمیں پہچان لیا جائے گا

تقریب کے اختتام پر

تصویریں عجائب گھر لوٹیں

پھول اور کھلونے

انتظامیہ کے گھروں میں

حاشیے میں نیند جھولتی تصویریں

کئی ہفتے تبصرہ کرتی رہیں

وہ کون لوگ تھے

جو آنسو بہاتے کے مقابلے میں شریک ہوئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

زوال کی آخری ساعت

انتظار کے موسم میں

دروازے پر

تالا لگا کر

چابی دریا میں پھینک دینی چاہیے

خوابوں کی دنیا سے

نکل کر دیکھنا چاہیے

وہ آئینہ

جو روح کے زخم بھی دکھاتا ہے

یادوں کا گیت گنگنانے کی بجائے

پڑھنی چاہیے

وہ کتاب

جو اپنے زخم میں داخل ہونے کا راستہ بتاتی ہے

پھینک دینا چاہیے

وہ رومال

جس کی یادداشت میں

خوشی کا کوئی آنسو نہیں

سرخ پین سے لگا دینا چاہیے

حاشیہ

اس کیلنڈر پر

جس پر نئی زندگی کی تاریخ درج نہیں

کوڑھ زدہ وعدوں کو

وعدہ معاف گواہ بنا کر

لکھنا چاہیے

آپ بیتی کا دیباچہ

اور یاد کرنا چاہیے

تمھارے پیاروں میں کون ہے

جو زندہ ہے ؟

اس کے مرنے کی دعا مانگتے ہوئے

سوچنا چاہیے

کیا میں اپنی مرضی کی موت کا مستحق ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

کفن پر لکھی نظم

میری قبر میں سانپ رہتا ہے

جس کا زہر ایک آدمی نے چوس لیا تھا

اور کچھ کیڑے مکوڑے

جو میرے کفن سے لپٹی اداسی کے کان میں گھس جاتے ہیں

اور پوچھتے ہیں

اس لڑکی کے بارے میں

جس کا ایک خط قبر کے پتے پر موصول ہوا تھا

(خط کی تحریر آنسوؤں سے مٹی ہوئی تھی جو پڑھء بغیر دیوار کی درز میں چھپا دیا تھا )

میری قبر پر

کوئی پھول چڑھانے، نظمیں سننے اور اگربتی جلانے نہیں آتا

حالاں کہ زمین کو خیر باد کہنے سے پہلے

لوگ زخم پر میری شاعری کی پٹیاں باندھا کرتے تھے

شاید وہ جانتے ہیں

قبر میں نظمیں لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی

کئی برسوں بعد اچانک

وہ لڑکی گود میں بچہ لیے نمودار ہوئی اور رونے لگی

اس نے ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگی

دنیا کی دلدل سے میرے پاس آنے کے لیے

میں نے دیکھا اپنا تباہ حال، بدبخت مسکن

نامرادی کے نوکیلے خار

روح میں چھبتے محسوس ہوئے

اور میں چیخ کر سنانے لگا ایک نظم

"اے شادماں لڑکی، کیوں خدا کی زمین کے نیچے آنا چاہتی ہے

جہاں سو کر خواب دیکھنے پر پابندی ہے

تو بنا ایک پراسرار آدمی

جو تیری محبت میں نارنگیوں کا باغ اگائے

اور تم درخت کے تنوں پر

اپنی محبت کی داستان لکھتے ہوئے یاد کرنا

میں کسی جہان میں زندہ تھا بھی یا نہیں "

اس دن سے

شاعری مجھ پر مہربان ہے

اور میں کفن پر نظمیں لکھ کر کیڑے مکوڑے کو سناتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

وہ خواب جو جلاوطن کیا گیا

میں خواب دیکھتا ہوں

"سانولی گداز لڑکی

محبوباؤں کی ملکہ

اپنی ابدی تنہائی سے واپس آکر میرے پہلو میں سو رہی ہے"

دور چوک میں گھڑیال چار بجنے کا اعلان کرتا ہے

میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں آنکھیں نہیں کھولتا

میں جانتا ہوں خوشی کے لمحات زندہ رکھنا ایک فن ہے

مجھے پسند نہیں

وعدے، قسمیں اور عہد نامے

دنیا محبت کے کشکول میں آنسوؤں کی بھیک دیتی ہے

ایسے میں فراموشی کے ساتھ

پر سکون موت جیسی نیند

نعمت ہے

کیا کوئی بتا سکتا ہے

گہرے شدید دکھ

مسمار ہوتی دھندلی امیدیں

اور کوٹ کی جیب میں پڑی ایک یاد

بے وطن آدمی کے لیے محبت کا گیت گا

سکتی ہے

اگر نہیں تو

میں آخری سانس تک

ایک ہی خواب کے سہارے زندہ رہنا چاہتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

بے سمتی میں چلتا سایہ

صبح سے شام

اور شام سے رات تک

ایک سایہ ہے تعاقب میں

جس نے لگا رکھی ہیں میری آنکھیں

اور پہن رکھے ہیں آگ کے جوتے

وہ چلتا ہے دھیمی رفتار سے

جیسے کہ میں

اور دائیں بوٹ کی ایڑی سے

ہر 10 منٹ کے بعد سگریٹ مسلتا ہے

مگر وہ میں نہیں ہوں

وہ رکتا ہے اور سوچتا ہے

وہ مجھے چوہے کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں

تاکہ پورے یقین سے کہہ سکیں

میں خوف کی دیوار میں چھپ گیا ہوں

اور ہوا میں مکا لہراتا ہے

مگر میں ایسا نہیں کرسکتا

وہ زمین پر بیٹھ جاتا ہے

اور کنکری سے ایک گھر کا نقشہ بناتا ہے

حالاں کہ اس کا ہاتھ

نہ تو دروازہ کھول سکتا ہے

اور انھیں توڑ سکتا ہے

وہ تو ایک مکھی تک نہیں بھگا سکتا

مجھے ایسے آدمی سے اپنا موازنہ نہیں کرنا چاہیے

وہ بھاری قدموں سے چلتا

فٹ پاتھ کے کان میں سہ حرفی سرگوشی کرتا ہے

"کل ملیں گے"

نیند کے انتظار میں بیٹھے کتے بھونکنے لگتے ہیں

وہ آخر کار لیتا ہے ہاتھ میں پتھر

محض دکھانے کے لیے

اور شراب خانے کے سامنے بغیر شہد کے چھتا نما بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہے

مگر وہ میں نہیں ہوں

پھر کون میرے تعاقب میں ہے

مجھے خدا کے رجسٹر میں شکایت درج کرنی چاہیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمارہ ۔حفیظ تبسم ۲۴

حفیظ تبسم

خدا سے ایک مکالمہ

(خالی۔۔۔جگہیں۔۔۔۔ پر۔۔۔کریں)

شاید اس جنم کی آخری برف باری ہے

جس کے نتیجے میں

زمین کے ادھڑے سینے سے

اناج نہیں

نرم تہہ دار برف اگ آئی تھی

میں خدا سے مخاطب ہوں

سپنے سائے سے محروم انسان کے لیے

سورج کی روشنی ضروری ہے

ورنہ اندھیرے کے بڑھے ہوئے ناخن

عین اس مقام پر خراش ڈالیں گے

جہاں دھڑکتا ہے دل

اور دل میں ایک یاد

جو پچھلی برف باری کے دوران دماغی توازن کھو بیٹھی تھی

میں خدا سے مخاطب ہوں

مجھے جانا ہے شہر کی طرف

ٹھیک اس جگہ

جہاں وہ ڈاک خانہ آباد ہے

اور تمھیں علم ہے ڈاکیے کا

جس نے میرے نام کا آخری خط کھول کر پڑھا

اور دریائی گزرگاہ کے قریب مر گیا

کیا وہ خط

اس لڑکی کی طرف سے تھا

جو لفظ سے معنی تک

سرخ روشنائی سے لکھتی تھی

میں خدا سے مخاطب ہوں

کہ زندہ رہنے کے لیے

آئندہ کے دن کا انتظار اتنا ضروری کیوں ہے

برف نے راستے بند کیے

غذائی قلت

اور ڈاکیے کی پراسرار موت

سوال سے جواب تک

خالی۔۔۔جگہیں۔۔۔ خالی۔۔۔ ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

Death anniversary of bomb blast

وہ سب رو رہے تھے

یادگار پر پھول چڑھا کر

اور فریم میں لگی تصویروں کے چہرے

سیاہ حاشیے سے

پسند کا پھول چومنے سے قاصر تھے

بوڑھے چہرے نے

ساتھ کی تصویر کو کہنی مارتے ہوئے کہا؛

اتنے آنسو کہاں سے آئے

ہمارے دور میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں

"خاموش رہو"

تقریب کے بعد بتاؤں گی

چھوٹے بچے نے

ساتھ کے فریم میں بیٹھے بچے سے کہا؛

اتنے کھلونے کہاں سے آئے

ہمارے قصبے میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں

"خاموش رہو"

ہمیں پہچان لیا جائے گا

تقریب کے اختتام پر

تصویریں عجائب گھر لوٹیں

پھول اور کھلونے

انتظامیہ کے گھروں میں

حاشیے میں نیند جھولتی تصویریں

کئی ہفتے تبصرہ کرتی رہیں

وہ کون لوگ تھے

جو آنسو بہاتے کے مقابلے میں شریک ہوئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

زوال کی آخری ساعت

انتظار کے موسم میں

دروازے پر

تالا لگا کر

چابی دریا میں پھینک دینی چاہیے

خوابوں کی دنیا سے

نکل کر دیکھنا چاہیے

وہ آئینہ

جو روح کے زخم بھی دکھاتا ہے

یادوں کا گیت گنگنانے کی بجائے

پڑھنی چاہیے

وہ کتاب

جو اپنے زخم میں داخل ہونے کا راستہ بتاتی ہے

پھینک دینا چاہیے

وہ رومال

جس کی یادداشت میں

خوشی کا کوئی آنسو نہیں

سرخ پین سے لگا دینا چاہیے

حاشیہ

اس کیلنڈر پر

جس پر نئی زندگی کی تاریخ درج نہیں

کوڑھ زدہ وعدوں کو

وعدہ معاف گواہ بنا کر

لکھنا چاہیے

آپ بیتی کا دیباچہ

اور یاد کرنا چاہیے

تمھارے پیاروں میں کون ہے

جو زندہ ہے ؟

اس کے مرنے کی دعا مانگتے ہوئے

سوچنا چاہیے

کیا میں اپنی مرضی کی موت کا مستحق ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

کفن پر لکھی نظم

میری قبر میں سانپ رہتا ہے

جس کا زہر ایک آدمی نے چوس لیا تھا

اور کچھ کیڑے مکوڑے

جو میرے کفن سے لپٹی اداسی کے کان میں گھس جاتے ہیں

اور پوچھتے ہیں

اس لڑکی کے بارے میں

جس کا ایک خط قبر کے پتے پر موصول ہوا تھا

(خط کی تحریر آنسوؤں سے مٹی ہوئی تھی جو پڑھء بغیر دیوار کی درز میں چھپا دیا تھا )

میری قبر پر

کوئی پھول چڑھانے، نظمیں سننے اور اگربتی جلانے نہیں آتا

حالاں کہ زمین کو خیر باد کہنے سے پہلے

لوگ زخم پر میری شاعری کی پٹیاں باندھا کرتے تھے

شاید وہ جانتے ہیں

قبر میں نظمیں لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی

کئی برسوں بعد اچانک

وہ لڑکی گود میں بچہ لیے نمودار ہوئی اور رونے لگی

اس نے ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگی

دنیا کی دلدل سے میرے پاس آنے کے لیے

میں نے دیکھا اپنا تباہ حال، بدبخت مسکن

نامرادی کے نوکیلے خار

روح میں چھبتے محسوس ہوئے

اور میں چیخ کر سنانے لگا ایک نظم

"اے شادماں لڑکی، کیوں خدا کی زمین کے نیچے آنا چاہتی ہے

جہاں سو کر خواب دیکھنے پر پابندی ہے

تو بنا ایک پراسرار آدمی

جو تیری محبت میں نارنگیوں کا باغ اگائے

اور تم درخت کے تنوں پر

اپنی محبت کی داستان لکھتے ہوئے یاد کرنا

میں کسی جہان میں زندہ تھا بھی یا نہیں "

اس دن سے

شاعری مجھ پر مہربان ہے

اور میں کفن پر نظمیں لکھ کر کیڑے مکوڑے کو سناتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

وہ خواب جو جلاوطن کیا گیا

میں خواب دیکھتا ہوں

"سانولی گداز لڑکی

محبوباؤں کی ملکہ

اپنی ابدی تنہائی سے واپس آکر میرے پہلو میں سو رہی ہے"

دور چوک میں گھڑیال چار بجنے کا اعلان کرتا ہے

میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں آنکھیں نہیں کھولتا

میں جانتا ہوں خوشی کے لمحات زندہ رکھنا ایک فن ہے

مجھے پسند نہیں

وعدے، قسمیں اور عہد نامے

دنیا محبت کے کشکول میں آنسوؤں کی بھیک دیتی ہے

ایسے میں فراموشی کے ساتھ

پر سکون موت جیسی نیند

نعمت ہے

کیا کوئی بتا سکتا ہے

گہرے شدید دکھ

مسمار ہوتی دھندلی امیدیں

اور کوٹ کی جیب میں پڑی ایک یاد

بے وطن آدمی کے لیے محبت کا گیت گا

سکتی ہے

اگر نہیں تو

میں آخری سانس تک

ایک ہی خواب کے سہارے زندہ رہنا چاہتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حفیظ تبسم

بے سمتی میں چلتا سایہ

صبح سے شام

اور شام سے رات تک

ایک سایہ ہے تعاقب میں

جس نے لگا رکھی ہیں میری آنکھیں

اور پہن رکھے ہیں آگ کے جوتے

وہ چلتا ہے دھیمی رفتار سے

جیسے کہ میں

اور دائیں بوٹ کی ایڑی سے

ہر 10 منٹ کے بعد سگریٹ مسلتا ہے

مگر وہ میں نہیں ہوں

وہ رکتا ہے اور سوچتا ہے

وہ مجھے چوہے کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں

تاکہ پورے یقین سے کہہ سکیں

میں خوف کی دیوار میں چھپ گیا ہوں

اور ہوا میں مکا لہراتا ہے

مگر میں ایسا نہیں کرسکتا

وہ زمین پر بیٹھ جاتا ہے

اور کنکری سے ایک گھر کا نقشہ بناتا ہے

حالاں کہ اس کا ہاتھ

نہ تو دروازہ کھول سکتا ہے

اور انھیں توڑ سکتا ہے

وہ تو ایک مکھی تک نہیں بھگا سکتا

مجھے ایسے آدمی سے اپنا موازنہ نہیں کرنا چاہیے

وہ بھاری قدموں سے چلتا

فٹ پاتھ کے کان میں سہ حرفی سرگوشی کرتا ہے

"کل ملیں گے"

نیند کے انتظار میں بیٹھے کتے بھونکنے لگتے ہیں

وہ آخر کار لیتا ہے ہاتھ میں پتھر

محض دکھانے کے لیے

اور شراب خانے کے سامنے بغیر شہد کے چھتا نما بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہے

مگر وہ میں نہیں ہوں

پھر کون میرے تعاقب میں ہے

مجھے خدا کے رجسٹر میں شکایت درج کرنی چاہیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024