غزلیں اور نظمیں :بلقیس ظفیرالحسن
غزلیں اور نظمیں :بلقیس ظفیرالحسن
Feb 4, 2023
دیدبان شمارہ ۔۱۷ ۲۰۲۳
بلقیس ظفیر الحسن کی غزلیں اور نظمیں:۔۔۔۔
غزلیں
(1)
زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں
اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں
درد کا اپنے مداوا کسے منظور نہیں
ہاں مگر کیوں کسی قاتل کو مسیحا سمجھیں
شعبدہ بازی کسی کی نہ چلے گی ہم پر
طنز و دشنام کو کہتے ہو لطیفہ سمجھیں
خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے
ہم تو شعلوں سے نہ گز ریں گے نہ سیتا سمجھیں
چھوڑئے پیروں میں کیا لکڑیاں باندھے پھر نا
اپنے قد سے مرا قد شوق سے چھوٹا سمجھیں
کوئ اچھا ہے تو اچھا ہی کہیں گے ہم بھی
لوگ بھی کیا ہیں ذرا دیکھئے کیا کیا سمجھیں
ہم تو بیگانے سے خود کو بھی ملے ہیں بلقیس
کس توقع پہ کسی شخص کو اپنا سمجھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2)
بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا
ہر ایک سنگ سے یوں ہم نے استفادہ کیا
ہے یوں کہ کچھ تو بغاوت سر شت ہم بھی ہیں
ستم بھی اس نے ضرورت سےکچھ زیادہ کیا
جو جگہ کے تھا قابل اسے وہیں رکھا
نہ زیادہ کم کیا ہم نے نہ کم زیادہ کیا
ہمیں تو موت بھی دے کوئ کب گوارا تھا
یہ اپنا قتل تو بالقصد بالارادہ کیا
نہ لوٹنے کا ہے رستہ نہ ٹھہرنے کی ہے جا
کدھر کا آج جنوں نے مرے ارادہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3)
موسم میں کچھ فرق پڑا یا ہم میں ہی احساس نہیں ہے
ابکے برس ان پھولوں میں وہ پہلی سی بو باس نہیں ہے
ہم کہ نہ بھٹکے جنگل جنگل جھیل گئے سب جاں سے نہ گزرے
کیالکھیں اپنی بیتی،کوئ بات ہی اس میں خاص نہیں ہے
مری ہوئ مچھلی کی طرح ہم پڑے ہیں اک مردہ پانی میں
لہر میں مدوجزر بدن میں شدومد انفاس نہیں ہے
آس کہاں اک یاس تھی وہ بھی رو رو چلی گئ دکھیاری
کیا کیجے یہ موسم دل کمبخت کسی کو راس نہیں ہے
سنگ ستم معمول بنے تو سہ لینا آہی جاتا ہے
پہلے درد بہت ہوتا تھا شکر ہے اب احساس نہیں ہے
..................
:نظمیں
سحر پر داختہ کار خانوں کا اک جال پھیلا ہوا
صف بہ صف سامری
رسیاں اذدہے بن گئیں
کفچہ ہائے دہن نیلگوں 'لپلپاتے ہوئے"
زہر شعلے اگلتے ہوئے لہر ئے!
رسیاں ازدہے بن گئبں
کفچہ ہائے دہن نیلگوں 'لپلپاتے ہوئے‘
زہر شعلے اگلتے ہوئے لہر ئے!
تیز پا اسپ اپنے سموں میں لپیٹے ہوئے
بجلیاں گرم نتھنوں کی پگھلی ہوئ
سانسوں کی آندھیاں
کب سے میرا تعاقب ہے جاری کہاں جاؤں میں؟
مجھ کو معلوم ہے
وادئ طور سے کوئ شعلہ صدا مجھ کو آواز دے
میری قسمت نہیں
میری سونی ہتھیلی پہ وہ داغ جس سے ضیا پھوٹ کر تیرگی چیر ڈالے
اجاگر نہ ہوگا کبھی
کوہ سینا پہ کوئ تجلی کبھی میری خاطر نہیں ہونے والی عیاں
معجزوں وا لا کوئ عصا مجھ کو بخشا نہیں جائے گا ۔
اور یہ سم بہ سم بجلیاں
صف بہ صف سامری!
زہر شعلے اگلتے ہوئے لہر ئے!
راستہ دے نہ دے نیل، لیکن بتا دے مجھے !
میں کہ موسیٰ نہیں
پھر بھی فرما روائ فر عون تسلیم کیسے کروں____کیا کروں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم 'ہاوس وائف
میری ماں مالکن گھر کی کہلاتی تھی اور اسے
اپنے گھر میں کہیں اک جگہ نا ملی
گھر کے سب لوگ آرام سے پیر پھیلا سکیں ،اسلئے
عمر بھر پاوں اپنے سکو ڑے رہی
اور اسی حال میں ایک دن مر گئ
گھر کا موسم بدلتا ہی رہتاتھا جب گرمیاں
سخت پڑتیں تو وہ سر سے پا تک پسینے میں ڈوبی ہوئ
اپنے آنچل کی ٹھنڈی ہواؤں سے اک ایک کو ڈھکنے لگ جاتی تھی
'کڑ کڑاتی ہوئ سردیوں میں وہ اپنے لہو کی حرارت
ہر اک جسم میں منتقل کردے اس فکر میں نیلی پڑ جاتی تھی
' میری ماں ایک دیوی ہے 'ایثار کاایک پیکر 'یہ
کہتے ہوئے لوگ تھکتے نہ تھے-
کس کی کیا ہے ضرورت 'وہ کہنے سے پہلے ہی
سب جان لیتی،بنا مانگے ہی سب کو وردان دیتی -( دیویاں صرف وردان دیتی ہیں پاتی نہیں!)
دوسروں کے لئے زندگی وقف اسکی تھی
لیکن اسے بھی ہے جینے کاحق ،اس نے خود بھی نہ سوچا کبھی
سوچتی بھی تو کیا فرق پڑتا تھا،حق کے لئے
کیسے لڑتے ہیں ،اس کو کہاں آتا تھا۔تھی وہ
بیوی کسی کی،تو ماں تھی کسی کی،
کسی کی وہ بیٹی تھی
'دن'اپنے تھے'اور اپنوں سے کیسا گلا!
اسکے مر جانے پر سب بہت روئے۔بے انتہا دکھ ہوا،
کون اب گھر سنبھالے چالاک دوسرے سے سبھوں نے کہا-
اپنی ماں کی طرح میں بھی خود کو سکو ڑے ہوئے
یوں ہی مر جاونگی،مجھ کو بھی حق ہے جینے کا۔۔میں بھی نہ کہ پاونگی،
حوصلہ اپنے پیاروں سے لڑنے کا مجھ میں بھی بلکل نہیں
اور ہو بھی تو کیا میرے ہاتھ آئےگا ' دیوی ‘
بننے کا مو ہوم سا آسرا ہے سو وہ بھی نہ رہ پاے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیدبان شمارہ ۔۱۷ ۲۰۲۳
بلقیس ظفیر الحسن کی غزلیں اور نظمیں:۔۔۔۔
غزلیں
(1)
زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں
اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں
درد کا اپنے مداوا کسے منظور نہیں
ہاں مگر کیوں کسی قاتل کو مسیحا سمجھیں
شعبدہ بازی کسی کی نہ چلے گی ہم پر
طنز و دشنام کو کہتے ہو لطیفہ سمجھیں
خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے
ہم تو شعلوں سے نہ گز ریں گے نہ سیتا سمجھیں
چھوڑئے پیروں میں کیا لکڑیاں باندھے پھر نا
اپنے قد سے مرا قد شوق سے چھوٹا سمجھیں
کوئ اچھا ہے تو اچھا ہی کہیں گے ہم بھی
لوگ بھی کیا ہیں ذرا دیکھئے کیا کیا سمجھیں
ہم تو بیگانے سے خود کو بھی ملے ہیں بلقیس
کس توقع پہ کسی شخص کو اپنا سمجھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2)
بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا
ہر ایک سنگ سے یوں ہم نے استفادہ کیا
ہے یوں کہ کچھ تو بغاوت سر شت ہم بھی ہیں
ستم بھی اس نے ضرورت سےکچھ زیادہ کیا
جو جگہ کے تھا قابل اسے وہیں رکھا
نہ زیادہ کم کیا ہم نے نہ کم زیادہ کیا
ہمیں تو موت بھی دے کوئ کب گوارا تھا
یہ اپنا قتل تو بالقصد بالارادہ کیا
نہ لوٹنے کا ہے رستہ نہ ٹھہرنے کی ہے جا
کدھر کا آج جنوں نے مرے ارادہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3)
موسم میں کچھ فرق پڑا یا ہم میں ہی احساس نہیں ہے
ابکے برس ان پھولوں میں وہ پہلی سی بو باس نہیں ہے
ہم کہ نہ بھٹکے جنگل جنگل جھیل گئے سب جاں سے نہ گزرے
کیالکھیں اپنی بیتی،کوئ بات ہی اس میں خاص نہیں ہے
مری ہوئ مچھلی کی طرح ہم پڑے ہیں اک مردہ پانی میں
لہر میں مدوجزر بدن میں شدومد انفاس نہیں ہے
آس کہاں اک یاس تھی وہ بھی رو رو چلی گئ دکھیاری
کیا کیجے یہ موسم دل کمبخت کسی کو راس نہیں ہے
سنگ ستم معمول بنے تو سہ لینا آہی جاتا ہے
پہلے درد بہت ہوتا تھا شکر ہے اب احساس نہیں ہے
..................
:نظمیں
سحر پر داختہ کار خانوں کا اک جال پھیلا ہوا
صف بہ صف سامری
رسیاں اذدہے بن گئیں
کفچہ ہائے دہن نیلگوں 'لپلپاتے ہوئے"
زہر شعلے اگلتے ہوئے لہر ئے!
رسیاں ازدہے بن گئبں
کفچہ ہائے دہن نیلگوں 'لپلپاتے ہوئے‘
زہر شعلے اگلتے ہوئے لہر ئے!
تیز پا اسپ اپنے سموں میں لپیٹے ہوئے
بجلیاں گرم نتھنوں کی پگھلی ہوئ
سانسوں کی آندھیاں
کب سے میرا تعاقب ہے جاری کہاں جاؤں میں؟
مجھ کو معلوم ہے
وادئ طور سے کوئ شعلہ صدا مجھ کو آواز دے
میری قسمت نہیں
میری سونی ہتھیلی پہ وہ داغ جس سے ضیا پھوٹ کر تیرگی چیر ڈالے
اجاگر نہ ہوگا کبھی
کوہ سینا پہ کوئ تجلی کبھی میری خاطر نہیں ہونے والی عیاں
معجزوں وا لا کوئ عصا مجھ کو بخشا نہیں جائے گا ۔
اور یہ سم بہ سم بجلیاں
صف بہ صف سامری!
زہر شعلے اگلتے ہوئے لہر ئے!
راستہ دے نہ دے نیل، لیکن بتا دے مجھے !
میں کہ موسیٰ نہیں
پھر بھی فرما روائ فر عون تسلیم کیسے کروں____کیا کروں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم 'ہاوس وائف
میری ماں مالکن گھر کی کہلاتی تھی اور اسے
اپنے گھر میں کہیں اک جگہ نا ملی
گھر کے سب لوگ آرام سے پیر پھیلا سکیں ،اسلئے
عمر بھر پاوں اپنے سکو ڑے رہی
اور اسی حال میں ایک دن مر گئ
گھر کا موسم بدلتا ہی رہتاتھا جب گرمیاں
سخت پڑتیں تو وہ سر سے پا تک پسینے میں ڈوبی ہوئ
اپنے آنچل کی ٹھنڈی ہواؤں سے اک ایک کو ڈھکنے لگ جاتی تھی
'کڑ کڑاتی ہوئ سردیوں میں وہ اپنے لہو کی حرارت
ہر اک جسم میں منتقل کردے اس فکر میں نیلی پڑ جاتی تھی
' میری ماں ایک دیوی ہے 'ایثار کاایک پیکر 'یہ
کہتے ہوئے لوگ تھکتے نہ تھے-
کس کی کیا ہے ضرورت 'وہ کہنے سے پہلے ہی
سب جان لیتی،بنا مانگے ہی سب کو وردان دیتی -( دیویاں صرف وردان دیتی ہیں پاتی نہیں!)
دوسروں کے لئے زندگی وقف اسکی تھی
لیکن اسے بھی ہے جینے کاحق ،اس نے خود بھی نہ سوچا کبھی
سوچتی بھی تو کیا فرق پڑتا تھا،حق کے لئے
کیسے لڑتے ہیں ،اس کو کہاں آتا تھا۔تھی وہ
بیوی کسی کی،تو ماں تھی کسی کی،
کسی کی وہ بیٹی تھی
'دن'اپنے تھے'اور اپنوں سے کیسا گلا!
اسکے مر جانے پر سب بہت روئے۔بے انتہا دکھ ہوا،
کون اب گھر سنبھالے چالاک دوسرے سے سبھوں نے کہا-
اپنی ماں کی طرح میں بھی خود کو سکو ڑے ہوئے
یوں ہی مر جاونگی،مجھ کو بھی حق ہے جینے کا۔۔میں بھی نہ کہ پاونگی،
حوصلہ اپنے پیاروں سے لڑنے کا مجھ میں بھی بلکل نہیں
اور ہو بھی تو کیا میرے ہاتھ آئےگا ' دیوی ‘
بننے کا مو ہوم سا آسرا ہے سو وہ بھی نہ رہ پاے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔