غزل۔یوسف مثالی

غزل۔یوسف مثالی

Sep 24, 2023

مصنف

یوسف مثالی

شمارہ

شمارہ - ١٩


دیدبان شمارہ۔۱۹

غزل: یوسف مثالی

مرے خیال سے خالی کیا گیا تجھکو

نگل نہ جائے تری ذات کا خلا تجھکو

نہ تیرے کام ہی آیا، نہ اپنے کام آیا

مجھے سنبھال کے رکھنے سے کیا ملا تجھکو

اسے اجاڑ دیا تیری بد دعاؤں نے

وہ ایک شخص جو دیتا رہا دعا تجھکو

میں ایک عمر سے تنہائی کے عذاب میں ہوں

پتا ہی کیا ہے جو یہ بھی نہیں پتا تجھکو

یہ روز خواب میں آنے کی کیا ضرورت ہے

نہ پا سکوں گا کبھی اور نہ پا سکا تجھکو

ترے بغیر بھی شاید کہیں وجود میں تھا

مرا جواز مگر ڈھونڈتا پھرا تجھکو

سدا سے میری روایت کے اعتبار میں ہیں

سنا رہی ہے جو قصّے تری ہوا تجھکو

۔۔۔۔

غزل 2 ۔۔۔۔۔ یوسف مثالی

اب کوئی بات نئی بات نہیں لگتی ہے

اور انہونی مرے ہاتھ نہیں لگتی ہے

خشک رہنے سے مری روح چٹخ جائے گی

جبکہ برسات میں برسات نہیں لگتی ہے

کس حوالے سے اسے تیرے حوالے کر دوں

اب مری ذات مری ذات نہیں لگتی ہے

فیصلہ طے ہے مرے يار ، چلو چلتے ہیں

جیت کے ساتھ کھڑی مات نہیں لگتی ہے

اس کا احساس اذیت میں گھلا ہو جیسے

ساتھ رہتی ہے مگر ساتھ نہیں لگتی ہے

چاند تاروں کے حوالوں سے کوئی بات کروں

مجھ سیہ بخت کی اوقات نہیں لگتی ہے

اپنی آنکھوں پہ بھروسا نہیں کرنا بنتا

رات ہوتے ہوئے جب رات نہیں لگتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دیدبان شمارہ۔۱۹

غزل: یوسف مثالی

مرے خیال سے خالی کیا گیا تجھکو

نگل نہ جائے تری ذات کا خلا تجھکو

نہ تیرے کام ہی آیا، نہ اپنے کام آیا

مجھے سنبھال کے رکھنے سے کیا ملا تجھکو

اسے اجاڑ دیا تیری بد دعاؤں نے

وہ ایک شخص جو دیتا رہا دعا تجھکو

میں ایک عمر سے تنہائی کے عذاب میں ہوں

پتا ہی کیا ہے جو یہ بھی نہیں پتا تجھکو

یہ روز خواب میں آنے کی کیا ضرورت ہے

نہ پا سکوں گا کبھی اور نہ پا سکا تجھکو

ترے بغیر بھی شاید کہیں وجود میں تھا

مرا جواز مگر ڈھونڈتا پھرا تجھکو

سدا سے میری روایت کے اعتبار میں ہیں

سنا رہی ہے جو قصّے تری ہوا تجھکو

۔۔۔۔

غزل 2 ۔۔۔۔۔ یوسف مثالی

اب کوئی بات نئی بات نہیں لگتی ہے

اور انہونی مرے ہاتھ نہیں لگتی ہے

خشک رہنے سے مری روح چٹخ جائے گی

جبکہ برسات میں برسات نہیں لگتی ہے

کس حوالے سے اسے تیرے حوالے کر دوں

اب مری ذات مری ذات نہیں لگتی ہے

فیصلہ طے ہے مرے يار ، چلو چلتے ہیں

جیت کے ساتھ کھڑی مات نہیں لگتی ہے

اس کا احساس اذیت میں گھلا ہو جیسے

ساتھ رہتی ہے مگر ساتھ نہیں لگتی ہے

چاند تاروں کے حوالوں سے کوئی بات کروں

مجھ سیہ بخت کی اوقات نہیں لگتی ہے

اپنی آنکھوں پہ بھروسا نہیں کرنا بنتا

رات ہوتے ہوئے جب رات نہیں لگتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024