غزل صابر ظفر
غزل صابر ظفر
Nov 11, 2020
غزل
غزل ۔۔۔۔۔۔۔صابر ظفر
کاش سفر تمام ہو ، آخری باب کی طرف
اور وہاں پتا چلے ، اصل ہے خواب کی طرف
دھول میں اٹ گئے ورق ، بھول گئے سبھی سبق
دھیان دیا نہیں گیا ، کوئ نصاب کی طرف
سب ہیں بنے ہوے خیال ، سب ہیں بنے ہوے سوال
ایسا نہیں کوئ کہ جو آے جواب کی طرف
سب سے ہوے ہیں بے نیاز،سب سے ہوے ہیں پاک باز
کر کے گناہ ، آے ہیں ، جو بھی ثواب کی طرف
خود سے رجوع کرتے کیا ، بات شروع کرتے کیا
اپنی طرف نہیں تھے ہم ، ہم تھے جناب کی طرف
ایسا ہو ہم سفر کوئ ، ایسا ہو راہ بر کوئ
لمحہ بہ لمحہ گامزن ، جو ہو غیاب کی طرف
وہ تھی لہو میں تر ڈگر ، جانا پڑا ہمیں جدھر
یعنی چلی یہ زندگی ، ایک عذاب کی طرف
لطف تھا اس خرام میں، تیغ گئ نیام میں
دیکھی گئ برہنگی ، ایک حجاب کی طرف
اپنا سفر تمام تر ، ہوتا رہا ہے عمر بھر
آب سے آگ کی طرف ، آگ سے آب کی طرف
ایک طرف ہے بے ثبات ، ایک طرف ہے بس حیات
چھوڑو یہ فیس بک ظفر ، آو کتاب کی طرف
غزل ۔۔۔۔۔۔۔صابر ظفر
کاش سفر تمام ہو ، آخری باب کی طرف
اور وہاں پتا چلے ، اصل ہے خواب کی طرف
دھول میں اٹ گئے ورق ، بھول گئے سبھی سبق
دھیان دیا نہیں گیا ، کوئ نصاب کی طرف
سب ہیں بنے ہوے خیال ، سب ہیں بنے ہوے سوال
ایسا نہیں کوئ کہ جو آے جواب کی طرف
سب سے ہوے ہیں بے نیاز،سب سے ہوے ہیں پاک باز
کر کے گناہ ، آے ہیں ، جو بھی ثواب کی طرف
خود سے رجوع کرتے کیا ، بات شروع کرتے کیا
اپنی طرف نہیں تھے ہم ، ہم تھے جناب کی طرف
ایسا ہو ہم سفر کوئ ، ایسا ہو راہ بر کوئ
لمحہ بہ لمحہ گامزن ، جو ہو غیاب کی طرف
وہ تھی لہو میں تر ڈگر ، جانا پڑا ہمیں جدھر
یعنی چلی یہ زندگی ، ایک عذاب کی طرف
لطف تھا اس خرام میں، تیغ گئ نیام میں
دیکھی گئ برہنگی ، ایک حجاب کی طرف
اپنا سفر تمام تر ، ہوتا رہا ہے عمر بھر
آب سے آگ کی طرف ، آگ سے آب کی طرف
ایک طرف ہے بے ثبات ، ایک طرف ہے بس حیات
چھوڑو یہ فیس بک ظفر ، آو کتاب کی طرف