خوابوں کی کیاری

خوابوں کی کیاری

Mar 24, 2018

نظم - نیئر حیات قاسمی

مصنف

نیئر حیات قاسمی

شمارہ

شمارہ -٧

دیدبان شمارہ۔۷


(جنگ زدہ شامی بچوں کے نام)

خوابوں کی کیاری

نیّر حیات قاسمی

جب،سردی کی گرم راتوں میں 

لحاف اوڑھے

کافی کا کپ تھامے ہاتھ میں آپ،

خبرنامہ زیست کا پلٹتے ہیں

تو چہرے کی تیوریاں

اور آپ کی آنکھوں کے تاثرات پکار اُٹھتے ہیں

کہ دن بھر گونا گوں مصروفیت کے بعد

یہی دو چار پَل تو ہوتے ہیں 

جب انساں سکون لیتا ہے

تو ایسے پَلوں میں اِس طرح کی تصویریں 

سارا موڈ بگاڑ دیتی ہیں

(ہیں نا! ایسا ہی سوچتے ہیں آپ؟)

پھرایسے میں 

دبیز رات کی خموشی میں

جب صحن میں کچھ کھٹکتا ہےتو 

آپ چونک اُٹھتے ہیں

ا یک انجانا سا خوف، سراسیمگی اوڑھ

ملگجے صحن میں چاپ بھرتا ہے

آپ، دَم سادھے اِس انتظار میں رہتے ہیں

کہ کون ہے وہاں؟ کیا ہے؟

 کچھ ہے بھی یا ، گماں ہے؟

تب، کھڑکی سے ٹپکتی ایک بلی کی صدا ،اور تھوڑا شور 

آپ کو احساس یہ دلاتا ہے

کہ نہیں! کچھ بھی تو نہیں ! بس وہم ہی تھا

شکر ہے! سب خیریت ہے

آپ دھیرے سے اُٹھ کے کمرے میں جھانکتے ہیں

کہ جہاں آ پ کی جیون ساتھی اور آپ کا بچہ

سکون کی نیند تانے، بے خوف سوتے ہیں

ایسے میں 

وہاں سے کچھ دُور، بلکہ ، میلوں دُور

ایک گھر میرا بھی ہے

جس کے صحن پہ چھائی گہری خموشی اور سیاہ اندھیرا

پھسل کر، گھر کے اندر، کونے کھدروں میں آبسا ہے

اور ہم، ایک دوجے کے ساتھ ساتھ 

ویرانی سے آلودہ، نیم سلامت کمرے کی چھت کے نیچے

دُبکے بیٹھے ہیں 

کہ باہر، فلک کے آنگن میں، ہون والی ہلچل اور بے ہنگم شور نے 

ہمیں پھر، بوسیدہ نیند سے اُٹھا دیا ہے

میں نے بے خیالی کے ہاتھوں سے ، ایک فرضی کپ دودھ کا تھام رکھا ہے

تب، کتابِ زیست کا آخری صفحہ

گرم ہوا کے اُس جھونکے سے اُلٹتا ہے

جو صحن میں ہونے والے تیزشور سے جنما ہے

تو میری ماں کی ادھوری آواز،میرے کانوں سے ٹکراتی ہے”

!بیٹا! ۔۔۔باہر مت آنا

باہر، ”بلیوں“ کی لڑائی میں

ہمارے خوابوں کی کیاری، ٹوٹ کر،ریزہ ریزہ ہو گئی ہے

 تمہارے پاﺅں ننگے ہیں اور خوابوں کی کرچیاں ، بہت تیز ہیں

!باہر مت آنا! اب باہر۔۔۔۔ کبھی مت آنا

میری ماں کی مدھم ہوتی ہوئی آواز

 اب دُور اُفق پر طلوع ہو رہی ہے

میں نے دودھ کا فرضی گلاس یہیں کہیں رکھ دیا ہے

اور دونوں ہاتھوں سے اپنی بہن اور بھائی کے منجمد ہاتھ تھامے

کمرے کی ادھوری چھت سے باہر جھانک رہا ہوں

جہاں

ہمارے خوابوں کی کیاری سے دھواں اُٹھ رہا ہے

اور اُوپر سامنے ہی 

فلک کی سیاہی میں”بلیاں“ لڑ رہی ہیں

دیدبان شمارہ۔۷


(جنگ زدہ شامی بچوں کے نام)

خوابوں کی کیاری

نیّر حیات قاسمی

جب،سردی کی گرم راتوں میں 

لحاف اوڑھے

کافی کا کپ تھامے ہاتھ میں آپ،

خبرنامہ زیست کا پلٹتے ہیں

تو چہرے کی تیوریاں

اور آپ کی آنکھوں کے تاثرات پکار اُٹھتے ہیں

کہ دن بھر گونا گوں مصروفیت کے بعد

یہی دو چار پَل تو ہوتے ہیں 

جب انساں سکون لیتا ہے

تو ایسے پَلوں میں اِس طرح کی تصویریں 

سارا موڈ بگاڑ دیتی ہیں

(ہیں نا! ایسا ہی سوچتے ہیں آپ؟)

پھرایسے میں 

دبیز رات کی خموشی میں

جب صحن میں کچھ کھٹکتا ہےتو 

آپ چونک اُٹھتے ہیں

ا یک انجانا سا خوف، سراسیمگی اوڑھ

ملگجے صحن میں چاپ بھرتا ہے

آپ، دَم سادھے اِس انتظار میں رہتے ہیں

کہ کون ہے وہاں؟ کیا ہے؟

 کچھ ہے بھی یا ، گماں ہے؟

تب، کھڑکی سے ٹپکتی ایک بلی کی صدا ،اور تھوڑا شور 

آپ کو احساس یہ دلاتا ہے

کہ نہیں! کچھ بھی تو نہیں ! بس وہم ہی تھا

شکر ہے! سب خیریت ہے

آپ دھیرے سے اُٹھ کے کمرے میں جھانکتے ہیں

کہ جہاں آ پ کی جیون ساتھی اور آپ کا بچہ

سکون کی نیند تانے، بے خوف سوتے ہیں

ایسے میں 

وہاں سے کچھ دُور، بلکہ ، میلوں دُور

ایک گھر میرا بھی ہے

جس کے صحن پہ چھائی گہری خموشی اور سیاہ اندھیرا

پھسل کر، گھر کے اندر، کونے کھدروں میں آبسا ہے

اور ہم، ایک دوجے کے ساتھ ساتھ 

ویرانی سے آلودہ، نیم سلامت کمرے کی چھت کے نیچے

دُبکے بیٹھے ہیں 

کہ باہر، فلک کے آنگن میں، ہون والی ہلچل اور بے ہنگم شور نے 

ہمیں پھر، بوسیدہ نیند سے اُٹھا دیا ہے

میں نے بے خیالی کے ہاتھوں سے ، ایک فرضی کپ دودھ کا تھام رکھا ہے

تب، کتابِ زیست کا آخری صفحہ

گرم ہوا کے اُس جھونکے سے اُلٹتا ہے

جو صحن میں ہونے والے تیزشور سے جنما ہے

تو میری ماں کی ادھوری آواز،میرے کانوں سے ٹکراتی ہے”

!بیٹا! ۔۔۔باہر مت آنا

باہر، ”بلیوں“ کی لڑائی میں

ہمارے خوابوں کی کیاری، ٹوٹ کر،ریزہ ریزہ ہو گئی ہے

 تمہارے پاﺅں ننگے ہیں اور خوابوں کی کرچیاں ، بہت تیز ہیں

!باہر مت آنا! اب باہر۔۔۔۔ کبھی مت آنا

میری ماں کی مدھم ہوتی ہوئی آواز

 اب دُور اُفق پر طلوع ہو رہی ہے

میں نے دودھ کا فرضی گلاس یہیں کہیں رکھ دیا ہے

اور دونوں ہاتھوں سے اپنی بہن اور بھائی کے منجمد ہاتھ تھامے

کمرے کی ادھوری چھت سے باہر جھانک رہا ہوں

جہاں

ہمارے خوابوں کی کیاری سے دھواں اُٹھ رہا ہے

اور اُوپر سامنے ہی 

فلک کی سیاہی میں”بلیاں“ لڑ رہی ہیں

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024