غزل : محسن شکیل
غزل : محسن شکیل
Jul 11, 2024
غزل : محسن شکیل
شعلے کے کچھ قریب بھی آیا تو میں گیا
رشتہ جنوں کا میں نے نبھایا تو میں گیا
ہر گز نہیں گیا میں بنا کارِ مضطرب
اس نے اگر چراغ جلایا تو میں گیا
میں کہہ رہا ہوں تیز نہ کر شعلگیِ عشق
تو نے ذرا سا لَو کو بڑھایا تو میں گیا
تھا چاند کی طرح تری کھڑکی پہ ضو فگن
سورج نکل کے بام پہ آیا تو میں گیا
جانا نہیں تھا اُس کی طرف اُس نے ارد گرد
اک شہر خامشی کا بسایا تو میں گیا
اپنا اَلم بیان کیا تو نے رنج میں
تجھ کو خبر نہیں کہ سنایا تو میں گیا
کوشش میں ہوں کہ پھونک دوں جلتا ہوا چراغ
اس کو اگر نہ میں نے بجھایا تو میں گیا
اُس کی کتھا میں جا نہیں پاتا کبھی مگر
کردار اُس نے ساتھ نبھایا تو میں گیا
تو نے گھمائے رکھے سرِ چاک آب و گِل
لیکن اِسی تڑپ سے بنایا تو میں گیا
قسمت کے ہیر پھیر بتائے گئے مگر
تیری ہتھیلیوں سے چرایا تو میں گیا
عزمِ سفر تھا ساتھ مگر ناخدا نے جب
دریا میں بادبان اٹھایا تو میں گیا
مجھ کو نہیں ہے تاب فسانے کی یہ سمجھ
آنسو جو درمیان میں آیا تو میں گیا
بادل ہوں اک نمو کے لیے اِس ہوا نے گر
کہسار پر بھی پھول کھلایا تو میں گیا
اُس نے بہائے خط مِرے لیکن کنارِ جُو
اُس کو یہ علم ہو کہ بہایا تو میں گیا
تعمیر کر مجھے کسی شعلے کی آنچ سے
تو نے اگر ہوا سے بنایا تو میں گیا
آنکھوں میں ایک خواب نے مجھ سے کیا سخن
باہر تمہاری آنکھ سے پایا تو میں گیا
غزل : محسن شکیل
شعلے کے کچھ قریب بھی آیا تو میں گیا
رشتہ جنوں کا میں نے نبھایا تو میں گیا
ہر گز نہیں گیا میں بنا کارِ مضطرب
اس نے اگر چراغ جلایا تو میں گیا
میں کہہ رہا ہوں تیز نہ کر شعلگیِ عشق
تو نے ذرا سا لَو کو بڑھایا تو میں گیا
تھا چاند کی طرح تری کھڑکی پہ ضو فگن
سورج نکل کے بام پہ آیا تو میں گیا
جانا نہیں تھا اُس کی طرف اُس نے ارد گرد
اک شہر خامشی کا بسایا تو میں گیا
اپنا اَلم بیان کیا تو نے رنج میں
تجھ کو خبر نہیں کہ سنایا تو میں گیا
کوشش میں ہوں کہ پھونک دوں جلتا ہوا چراغ
اس کو اگر نہ میں نے بجھایا تو میں گیا
اُس کی کتھا میں جا نہیں پاتا کبھی مگر
کردار اُس نے ساتھ نبھایا تو میں گیا
تو نے گھمائے رکھے سرِ چاک آب و گِل
لیکن اِسی تڑپ سے بنایا تو میں گیا
قسمت کے ہیر پھیر بتائے گئے مگر
تیری ہتھیلیوں سے چرایا تو میں گیا
عزمِ سفر تھا ساتھ مگر ناخدا نے جب
دریا میں بادبان اٹھایا تو میں گیا
مجھ کو نہیں ہے تاب فسانے کی یہ سمجھ
آنسو جو درمیان میں آیا تو میں گیا
بادل ہوں اک نمو کے لیے اِس ہوا نے گر
کہسار پر بھی پھول کھلایا تو میں گیا
اُس نے بہائے خط مِرے لیکن کنارِ جُو
اُس کو یہ علم ہو کہ بہایا تو میں گیا
تعمیر کر مجھے کسی شعلے کی آنچ سے
تو نے اگر ہوا سے بنایا تو میں گیا
آنکھوں میں ایک خواب نے مجھ سے کیا سخن
باہر تمہاری آنکھ سے پایا تو میں گیا