غار
غار
Jan 9, 2019
امر جلیل کی کہانی
دیدبان شمارہ ۔ ۹
غار
سندھی کہانی
تحریر : امر جلیل
اردو ترجمہ : عامرصدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً ہر روز ہی ایسا ہوتا ہے کہ اماں پریشان ہوکر میرے غار میں چلی آتی ہیں۔ وہ تصدیق کرنے آتی ہیں کہ میں زندہ ہوں یا نعمتوں بھرا یہ جہان چھوڑ کر چلا گیا ہوں۔
جھک کر، میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اماں غور سے گردن کی طرف دیکھتی ہے، میرا سر سلامت دیکھ کر، ٹھنڈی سانس لے کر، پیار کے ساتھ مجھے سہلاتی ہے اور پھر آہ کو سانسوں میں سمیٹ لیتی ہے، آنکھ سے لڑھک آئے آنسوؤں کا میرے سر پر محراب بنا کر اپنی دنیا میں واپس لوٹ جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اماں اکثر میرے لئے پریشان رہتی ہے۔ وہ مسلسل ہر رات میرے بارے میں ایک ڈراؤنا خواب دیکھتی ہے، خواب دیکھ کر ڈر جاتی ہے، کانپ جاتی ہے، نیند سے چونک کر اٹھ بیٹھتی ہے اور خود کو پرسکون کرنے کے لیے پانی کا گلاس بھر کر پیتی ہے۔ اماں خواب میں مجھے بِنا سرکے ریگستان میں بھٹکتا ہوا دیکھتی ہے۔ میرے ایک ہاتھ میں میرا کٹا سر اور دوسرے ہاتھ میں کانٹوں کا تاج دیکھتی ہے۔
اماں نے دوجوتشوں سے خواب کی تعبیر نکلوائی تھی۔ ان دونوں میں سے ایک جوتش دیسی تھا اور دوسرا پردیسی۔ دیسی جوتش سے وہ سکھر کے قریب کسی متبرک مقام پر ملی تھی۔دھیان سے خواب سن کر اسکا زائچہ بنانے کے بعد اس نے اماں کو خوش خبری دی تھی۔
’’تمہارا بیٹا بڑی لمبی عمر جئے گا۔ خدا کے فضل سے پاکستان کا بادشاہ بنے گا۔‘‘
زائچے کی قیمت ادا کرتے ہوئے اماں نے دیسی جوتش کو پانچ سو روپے دیے اور ساتھ میں ایک کالا سیاہ مرغ اورکا لا سیاہ بکرا، جو اس بات کے گواہ تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بکرا ہو بہو مجھ جیسا تھا، جب قصائی نے بکرے کا سر دھڑ سے الگ کیا اور اس کے سر سے بھیجا نکالا تھا تب بکرے کے سر میں سے بھیجے کے بجائے مینڈک نکل آیا تھا۔ پردیسی جوتش سے اماں’’ویانا ‘‘ میں عورتوں کی یونین میں ملی تھی۔ میری اماں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ پاکستان میں برباد ہو گئی عورتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کی جدوجہد میں اقوام متحدہ میں کام کرتے گزارا۔ اس نے ایک این جی او بھی بڑی کامیابی کے ساتھ چلائی تھی، جسکی تعریف کے شکل میں تعریفی خط اور سونے کا تمغہ حاصل ہوا تھا۔ ان دنوں اماں کو عورتوں کی بہتری کے سلسلے میں نیویارک، ہیگ، لندن، جینوا وغیرہ پریس کانفرنسوں میں جانا پڑتا تھا۔ پردیسی جوتش سے اماں کی ملاقات ’’ویانا‘‘ میں ہی ہوئی تھی۔
اس جوتش نے خواب کی وضاحت کرنے سے پہلے کچھ تبصرے کئے۔ لیپ ٹاپ پر پاور پوائنٹ اور ایم ایس ایکسل کی مددسے رنگین زائچہ بنایا ، خوابوں کی تعبیر نامی سوفٹ وئیر سے مدد لی، پھربہت ہی اداس لہجے میں خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ تمہارا بیٹا حکمرانوں کے ہاتھوں مارا جائے گا اور اگر بچ گیا تو خودکشی کر لے گا۔‘‘
میں نے بھی اپنی جانب سے انٹرنیٹ سے خواب کی تعبیر ڈاؤن لوڈ کی تھی۔ اس میں لکھا تھا۔’’تم ایک شادی شدہ عورت کے عشق میں گرفتار رہو گے اور اپنے سر میں عاشق کی طرح خاک ڈال کر ریگستان میں گھومتے رہو گے۔‘‘
تینوں تعبیروں میں سے اماں نے پردیسی جوتش کی تعبیر کو زیادہ اہمیت دی۔ ایک بار میں نے اماں سے کہا تھا۔’’ویانا والے جوتش کی پیشگوئی ایک دم بکواس ہے۔ سرتو سرداروں کے گرتے ہیں، میں خرگوش ہوں، بے مطلب ہی آدمی بن گیا ہوں۔ میں شکاری کتوں کاتر نوالہ تو ہو سکتا ہوں، پر کسی معرکے میں اپنا سر دے سکوں، یہ ممکن نہیں۔‘‘
اماں کو میری بات ناگوار لگی، اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
’’ دیسی جوتش کی پیشگوئی مجھے صحیح لگی ہے۔‘‘میں نے کہا تھا۔’’پاکستان پر اکثر مجھ جیسے خبطی، دیوانوں نے حکومت کی ہے۔ اسی وجہ سے ممکن ہے کہ میں پاکستان پر حکومت کروں۔‘‘
میری ماں ضرورت سے زیادہ پڑھی لکھی تھی۔ شکاگو یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کرکے آئی ہے، اسی لیے میری بات سمجھ نہ پائی۔ مجھے الجھن زدہ اور کچھ کچھ بددماغ سمجھتی ہے۔ میں اس کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ اسکی تین بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں، سندھیوں کے سبھی اکلوتے بیٹے کچھ کچھ خبطی ،کچھ کچھ پاگل، کچھ کچھ سانولے ہوتے ہیں، پر میں کچھ زیادہ ہی شیدی ہوں۔
مجھے غار سے نکال کر اپنی دنیا میں لانے کے لیے اماں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاگلوں کے سر سے پاگل پنا اتارنے والا شاید ہی کوئی ڈاکٹر ہو، جس نے مجھے نہ دیکھا ہو۔ دو تین گھنٹے میرا دماغ چاٹنے کے بعد مجھے نیند آنے کی اور سوچ کو مفلوج کرنے کی گولیاں نسخے میں لکھ کر دے دیتے ہیں۔
ایک بار اماں مجھے ڈاکٹر سارہ سولنگی کے پاس لے گئی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ گائناکالوجسٹ نہ تھی، سائیکالوجسٹ تھی یا سائیکاٹرسٹ۔ آدمیوں کے سر سے جنون کی بیماری دور کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ وہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ جس نے بھی اس کا نام رکھا تھا، سوچ سمجھ کر رکھا تھا۔ بہت ہی تعریف کے قابل تھی وہ۔ مجھے یقین نہیں کہ میں پاگل ہوں یا نہیں ہوں، ڈاکٹر سارہ سولنگی کو دیکھنے کے بعد مجھے خیال آیا تھا کہ میں تمام عمر کے لئے پاگل بنا رہوں گا۔ ڈاکٹر سارہ سے علاج کرواؤں گا، تو کبھی بھی ٹھیک ہونے کی کوشش نہیں کروں گا۔ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی اماں کے خواب کی تیسری پیشگوئی مجھے مقدر پر تصدیق کی مہر لگاتی لگی۔
ڈاکٹر سارہ سولنگی سے میرا تعارف کراتے اماں نے کہا تھا۔ ’’عدم میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اللہ نے تمہارے ہاتھوں میں شفا دی ہے۔ تم میرے بیٹے کا علاج کرو، اسکو نارمل کر دو۔‘‘
مجھے غصہ آ گیا تھا، میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’میں نارمل ہوں۔میں نارمل ہوں۔‘‘
ڈاکٹر سارہ نے ایک دم کہا تھا۔’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم نارمل ہو۔‘‘
’’تو پھر اماں کیوں سمجھتی ہے کہ میں نارمل نہیں ہوں؟‘‘میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا،’’ ڈاکٹر سارہ، میری جانب غور سے دیکھو، کیا میں تمہیں ابنارمل نظر آتا ہوں؟‘‘
’’ایسے بات نہیں کرتے بیٹے!‘‘اماں نے کہا تھا۔’’ تم کے بدلے ’آپ‘کہو، کیا میں آپ کو ابنارمل نظر آتا ہوں؟‘‘
میں کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’میڈم، عدم جس طرح بات کر رہا ہے، اس کوبات کرنے دیجئے۔‘‘
ڈاکٹر سارہ نے اماں سے کہا۔’’میں چاہتی ہوں کہ آپ ویٹنگ روم میں جاکر بیٹھیں۔ برا مت مانئے گا، میں عدم سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
اماں پیار سے میری طرف دیکھتے ہوئے ویٹنگ روم کی جانب چلی گئی۔ ڈاکٹرسارہ نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر غور سے میری طرف دیکھا۔ وہ مجھے بے حدپسند آئی تھی۔ آخر ڈاکٹر سارہ نے خاموش توڑتے ہوئے کہا ۔’’مجھے اپنے بارے میں بتا ؤ عدم۔‘‘
’’کیا بتاؤں؟‘‘
’’اپنے اسکول کے بارے میں بتاؤ، کچھ اپنے کالج کے بارے میں بتا دو، کچھ یونیورسٹی کے بارے میں بتاؤ۔‘‘
’’کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہوا تھا، میں بہت عام سا طالب علم تھا۔‘‘
’’اور نوکری؟‘‘
’’نوکری میں نے چھوڑ دی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں کام کر نہیں پایا۔‘‘
’’کوئی خاص سبب تھا؟‘‘
’’کوئی خاص سبب نہیں تھا۔‘‘مجھے پیشانی سے پسینہ بہتا ہوا محسوس ہوا تھا،’’ بس، میں نوکری کر نہیں پایا تھا۔‘‘
ڈاکٹر سارہ اپنی کرسی سے اٹھ کر میرے پاس آکر کھڑی ہوئی۔ اس نے پینے کے لئے مجھے پانی کا گلاس دیا تھا۔
’’عدم!‘‘ڈاکٹر سارہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، میں گردن اوپر اٹھا کر ڈاکٹر سارہ کی طرف دیکھ نہیں پایا تھا۔ مجھے لگا تھا، اگر اس کی طرف دیکھا، تو وہ ہماری درمیانی سرحدوں کو توڑکر میرے وجود میں گھس آئے گی، میرے اندر ہلچل مچا دے گی۔
’’عدم!‘‘
میں نے ڈاکٹر سارہ کی آواز سنی۔
’’میری طرف دیکھو، عدم۔‘‘
میں نے ڈاکٹر سارہ کی طرف دیکھا، وہ اپنی کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔ اس نے پوچھا، ’’تم اپنے کمرے سے باہر کیوں نہیں آتے؟‘‘
’’کمرہ!‘‘میں نے حیرت سے پوچھا تھا۔’’کون سا کمرہ؟‘‘
’’گھر میں تمہارا کمرہ۔‘‘
’’گھر، کون سا گھر؟‘‘
’’جہاں تم رہتے ہو۔‘‘
’’میرا کوئی گھر نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر تم کہاں رہتے ہو عدم؟‘‘
’’میں غار میں رہتا ہوں۔‘‘
اچانک میرے اوپر آسمان پر ہزاروں رتھ چلے آئے اور ایک لمحے میں گزر گئے۔ صدیوں سے بند تاریخ کے ماتم کدے سینے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ کائنات میں تھرتھراہٹ ہوئی، بجلی گری اور قلعے کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔
مجھے کچھ پتہ نہیں کہ ایسے کیوں ہوا تھا، اور کس لیے ہوا تھا۔ میں نے بدخواہوں لوگوں سے سنا تھا کہ میرے پیدائش کے بعد بابا بہت اداس ہو گئے تھے، تنہا اور خاموش رہنے لگے تھے۔ قہقہے لگاتے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو انہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ تاریخ کو تمام علوم اور عقیدوں کا چشم دید گواہ مانتے تھے۔ ملک میں اور ملک سے باہر کی درسگاہوں میں ان کی بڑی دھاک تھی۔ اپنے پورے نام کے بجائے ''پروفیسر روحل'' کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ مجھ سے بہت پیار تھا انہیں۔ بابا ان انسانوں میں سے تھے، جو بیٹے کے لیے مایوس رہتے ہیں۔ تیسری بیٹی شانی کی پیدائش کے بعد، اماں کے بجائے بابا نے چوتھے بچے کا خیال دل سے نکال دیاتھا۔
شانی کے تین سال بعد میں پیدا ہوا تھا۔ بدخواہ لوگوں کے مطابق بابا بہت اداس ہوئے تھے۔ مجھے گود میں لے کر خیالوں میں گم ہو گئے تھے۔ کچھ لوگوں نے انہیں روتے ہوئے دیکھا تھا۔
ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے بدخواہوں اور بدخواہوں کی باتوں کو ذہن کی ہارڈ ڈسک سے مٹا دیا، ہمیشہ کے لئے ڈیلیٹ کر دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ بابا کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا باپ ہو گا، جس نے اتنی شدت سے اپنے بیٹے سے پیار کیا ہوگا۔ پر میں نے بابا کو کبھی بھی ہنستے نہیں دیکھا تھا۔
ایک بار میں نے بابا سے کہا تھا، ’’میری سب سے بڑی تمنا ہے کہ میں نامور مسخرا بنوں اور اپنی حرکتوں سے، باتوں سے آپ کو قہقہہ لگا کر ہنسنے پر مجبور کر دوں۔‘‘
میری بات سن کر بابا کے ہونٹوں پر بہت اداس، دل کو مسل دینے والی مسکراہٹ اتر آئی تھی۔
’’میرے ہنسنے یا نہ ہنسنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پرابا نے مجھے نرمی سے پیار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’تاریخ نے بلند قہقہے لگا کر ہنسنے والوں کو آخر میں روتے دیکھا ہے۔‘‘
کچھ دیر کی بے چین خاموشی کے بعد بابا نے کہا تھا، ’’تمہارے پیدا ہونے سے پہلے میں زوردار قہقہہ لگا کر ہنس سکتا تھا۔‘‘
تب، بابا کے کہے جملوں کا مطلب مجھے سمجھ نہیں آیا تھا۔ کالج میں پڑھتا تھا، لیکچر سننے کی بجائے، بابا کے جملوں کے مفہوم کے بارے میں سوچتا رہتا۔ ایک بار کالج بیچ میں چھوڑکر میں کراچی یونیورسٹی گیا تھا۔ بابا لائبریری میں تھے، کسی انٹرنیشنل سمینار کے لئے پیپر تیار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے۔
’’بہت پریشان ہوں۔‘‘کہا تھا،’’آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘
لیکن بابا کے چہرے پر اداس مسکراہٹ اتر آئی۔ میز سے پیپر اٹھا کر بریف کیس میں ڈالتے ہوئے کہا تھا، ’’مجھے قہقہہ لگا کر ہنسنے پر مجبور کرنے کی قسم تو نہیں کھائی ہے؟‘‘
لیکن بابا مجھے اپنے ڈپارٹمنٹ کے کمرے میں لے کر آئے، پوچھا ،’’لنچ کیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’میں نے بھی نہیں کھایا ہے۔‘‘ پرابا نے کہا، ’’پہلے ہم کھانا کھائیں گے، اور پھر یونیورسٹی سے باہر چل کر بات کریں گے۔‘‘
کینٹین والوں سے فون پر بات کرنے سے پہلے بابا نے پوچھا تھا۔ ’’شامی کباب کھاؤگے؟ اچھے ہوتے ہیں۔‘‘
’’جو آپ کھائیں، وہی میرے لئے بھی منگوا لیں۔‘‘میں نے کہا تھا۔
یونیورسٹی کینٹین سے لنچ آیا۔ دال، چاول اور سبزی ساتھ میں شامی کباب بھی تھے۔ چپ چاپ لنچ کیا۔ رہ رہ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی لیتے۔ اس دوران مجھے باربار یہ خیال آیا کہ بابا سے کچھ نہ پوچھوں،اپنی بے چینی کو اپنے اندر دفن کر دوں، بدخواہوں کی باتوں پر توجہ نہ دوں، ان کو بغیر کسی وجہ کے پریشان نہ کروں۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے کہ میرے پیدا ہونے کے بعد بابا بہت اداس اور چپ چاپ رہنے لگے ہیں۔ ہو سکتا ہے، میں انہیں پسند نہ آیا ہوں۔ ویسے بھی بابا نے تین بچوں کی پلاننگ کی تھی۔ شانی کے تین سال بعد میں اچانک ہی پیدا ہوا تھا۔ ان کا منصوبہ اپ سیٹ کر دی تھی میں نے، پر اس میں میرا قصور نہیں تھا۔ دنیا میں آنا نہ آنا میرے بس میں نہیں تھا۔ مجھے صرف ایک بات کا افسوس تھا کہ میں بابا کے لیے منحوس ثابت نہیں ہوا تھا۔ جس برس میں پیدا ہوا تھا، اسی سال بابا نے ورلڈ ہسٹوریکل کانگریس کی صدارت کی تھی۔ میں بارہ تیرہ برس کا تھا کہ بابا ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے تھے اور جب میں سترہ سال کا تھا کہ بابا ڈین فیکلٹی آف آرٹس مقرر ہوئے تھے،میں منحوس نہ تھا۔
برسوں پہلے کا ماجرا ہے، پردیس میں رہنے والے بابا کے ایک پرانے دوست اپنے بچوں سمیت پاکستان گھومنے آئے تھے۔ کراچی میں ہمارے پاس آکر ٹھہرے تھے۔ مجھے چاکلیٹ کھلاتے تھے اور پرندوں کے لطیفے سناتے تھے۔ ان لطیفوں پر دیگر لوگ کم، وہ خود بہت ہنستے تھے۔ ایک دن مجھے گھسیٹ کر، اپنی گود میں بٹھایا تھا اور بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’’یار روحل، نہ تو تم اپنے بیٹے جیسے ہو اور نہ ہی تمہارا بیٹا تمہارے جیسا ہے۔‘‘پھر اماں کی طرف دیکھتے پوچھا تھا۔‘‘ یہ ماجرا کیا ہے، امریکہ سے کسی نیگرو کا بیٹا تو نہیں چراکر لے آئے ہو؟‘‘
خود زور زور سے قہقہے لگا کر ہنس پڑے، پر بابا ہنس نہیں سکے۔ انہوں نے حسرت کے ساتھ میری طرف دیکھا۔ تب میں چھوٹا تھا، پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، لیکن مجھے سب کچھ یاد ہیں، میں کچھ بھی بھول نہیں پایا ہوں۔ میرا ایک ایک احساس میرے وجود میں پروان چڑھا ہے، میرے ساتھ بڑا ہوا ہے۔
یونیورسٹی میں بابا کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے ایک واضح یا مبہم خوف مجھے پریشان کرتا رہا تھا۔ میں بابا سے کچھ پوچھ سکوں گا یا ہکلا کر خاموش ہو جاؤں گا؟
لنچ کے بعد بابا نے پوچھا، ’’چائے پیوگے؟‘‘
’’آپ پیءں گے؟‘‘ میں نے پوچھا تھا۔
’’ویسے تو نہیں پیتا ہوں، آج پی لیتے ہیں۔‘‘بابا نے جواب دیا۔
چائے بھی خاموش رہ کر پی لی ہم نے۔ جانے کیوں میں نے محسوس کیا تھا کہ کچھ دیر کے بعد میں پل صراط سے گذروں گا۔
پل صراط کا سفر کراچی یونیورسٹی اوراوجھا سینی ٹوریم کے درمیان شروع ہوا تھا۔
’’لوگ بیٹا پیدا ہونے پر خوش ہوتے ہیں، میرے پیدا ہونے پر آپ خوش کیوں نہیں ہوئے تھے؟‘‘میں نے دکھ سے پوچھا۔
’’میری تینوں بیٹیاں کسی بیٹے سے کم نہیں ہیں۔‘‘
’’میں نے سنا ہے میرے پیدا ہونے کے بعد آپ بہت اداس ہو گئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے ملنا اور بات چیت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا؟‘‘لیکن بابا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
’’میری بات سن رہے ہیں نہ، بابا؟‘‘
’’ہاں عدم، سن رہا ہوں۔‘‘
’’میرے پیدا ہونے کے بعد، آپ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’ہنسنا بس میں کہاں ہوتا ہے عدم؟‘‘
’’میرا پیدا ہونا آپکو ناگوار گزرا تھا؟‘‘مگربابا نے گردن نیچے کر لی، جواب نہیں دیا تھا۔
میں نے دوسری بار اپنا خیال دوہرایا۔ ’’میرا پیدا ہونا آپکو ناگوار لگا تھا؟‘‘
’’بابا!‘‘میں نے بابا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا، ان کا درد میری سمجھ میں نہیں آیا، میں نے پوچھا تھا۔‘‘ میرے پیدا ہونے پر آپ کو بہت دکھ ہوا تھا؟‘‘پربابا نے میرے ہاتھ کو کچھ اس طرح جکڑ کر پکڑ لیا جیسے کہہ رہے ہوں،’’ ہاں! تمہارے پیدا ہونے پر مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔‘‘ پل صراط کے بیچ سے میں نے بابا سے پوچھا تھا۔ ’’کیوں دکھ ہوا تھا آپ کو؟‘‘
’’کیونکہ میرا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔‘‘پرابا نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ پھر وہ آسمان کی طرف دیکھتے رہے اور کہنے لگے۔ ’’تم میرے بیٹے نہیں تھے، عدم!‘‘
میں نے صورِاسرافیل کی آواز سنی۔ سب کچھ پوری کائنات کے ساتھ اندھیرے میں گم ہو گیا۔ میں گم ہو گیا، بابا گم ہو گئے۔ اندھیرے میں جیسے کروڑوں ابابیلیں اور چمگادڑیں غاروں سے نکل آئیں، میرے اوپر سے اندھیرے میں گھومتی رہیں۔فنا کے ایک لمحے نے بقا کے تمام لمحات کو نگل لیا۔
میں نے پھرصورِاسرافیل کی آواز سنی۔ ابابیلیں اور چمگادڑیں غاروں کی طرف لوٹ آئیں، اندھیرے کے بجائے نور کو بے نور کرنے والی روشنی چھا گئی۔ سورج مکمل طور پر ڈوب گیا۔ میں نے خود کو بابا سے ہزاروں میل دور محسوس کیا۔ میں نے بابا سے پوچھا، ’’آپ نے کس طرح سمجھا کہ میں آپ کا بیٹا نہ تھا؟‘‘
’’شانی کے پیدا ہونے کے بعد میں نے آپریشن کرا لیا تھا۔‘‘دل میں دراڑ ڈالنے والی دکھ بھری آواز میں بابا نے کہا’’مجھ سے بچے کی توقع، امکان کے باہر تھی۔‘‘
’’اماں کو معلوم تھا اس بات کا؟‘‘میں نے بابا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اسکو فرصت کہاں ہوتی ہے۔ ’’پھرابا کی آواز کی گونج سنائی دی۔ ’’وہ اکثراقوام متحدہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کی خاطر ملک سے باہر رہتی تھی۔‘‘
آسمانی کتابوں والی قیامت جانے کب آئے گی، پر میرے لئے قیامت آئی اور سب کچھ تہس نہس کر کے چلی گئی۔ کچھ باقی نہ بچا ۔
نہ حساب، نہ کتاب اور نہ سزا ،نہ جزا۔
بابا نے یونیورسٹی سے استعفی دے دیا۔ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے اور نیپال میں جوگیوں کے ساتھ ہمالیہ کے غاروں میں جاکر بس گئے۔ جانے سے پہلے بابا نے مجھے بہت پیار کیا تھا۔ انکے سسکتے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے میں نے پوچھا تھا،’’میری وجہ سے جوگ لے رہے ہیں نہ؟‘‘
’’نہیں عدم، نہیں۔‘‘پھربابا نے میری آنکھوں پر، گالوں پر، ماتھے پرپیار کرتے ہوئے کہا ’’تمہارا کوئی دوش نہیں بلکہ کسی کا بھی قصور نہیں ہے۔‘‘
ان کے دونوں ہاتھوں کو چومتے ہوئے میں نے کہا تھا، ’’پھر جوگ کیوں لے رہے ہیں؟‘‘
’’ایک ماں کی حرمت کا راز میرے پاس امانت ہے۔‘‘لیکن ابا کا مبہم جواب میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ میں نے حیرانی سے بابا کی طرف دیکھا۔
’’راز راز نہیں رہا ہے عدم۔‘‘بابا نے الوداع کہتی نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور کہا تھا، ’’اب تم جان چکے ہو کہ تاریخ کے ابتدائی دور کی طرح اس کے اختتامی دور میں، انسان کو باپ کی بجائے ماں کے نام سے کیوں پکارا جاتا رہا۔ تمہاری زندگی میں میرا رول ختم ہوا عدم۔‘‘
بابا پھر غائب ہو گئے۔
کبھی بھی بابا کا خط آتا، ہر خط میں ہر بار ایک جملہ لکھتے ہیں، ’’تم مجھے بہت یاد آتے ہو عدم۔‘‘
میں نے اپنے غار کو بابا کی یاد سے روشن کر دیا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر سارہ سولنگی سے کہا تھا، ’’یقین کرو سارہ، میں ٹھیک ہوں، ساری کی ساری گڑبڑ اماں کے سرمیں ہے۔‘‘
’’میں کہاں کہتی ہوں کہ تم ٹھیک نہیں ہو؟‘‘ڈاکٹر سارہ نے کہا، ’’لیکن تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو کہ گڑبڑ میڈم کے سر میں ہے؟‘‘
’’وہ اکثر میرے بارے میں ایک خوفناک خواب دیکھتی ہے۔‘‘میں نے کہا۔
’’وہ مجھے سر کے بغیر بیابانوں میں بھٹکتے دیکھتی ہے، میرے ایک ہاتھ میں میرا کٹا سر اور دوسرے ہاتھ میں کانٹوں کا تاج ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سارہ کو کچھ کچھ تعجب ہوا تھا، پوچھا تھا۔ ’’پر، میڈم نے تو کبھی اپنے کسی خواب کا ذکر نہیں کیا۔‘‘
’’وہ اپنے خواب کا کسی سے بھی ذکر نہیں کرتی ہے۔‘‘میں نے کہا۔
’’تمہارے ساتھ کرتی ہیں؟‘‘ڈاکٹر سارہ نے پوچھا۔
’’بہت کم۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’خواب دیکھنے کے بعد وہ غار میں چلی آتی ہے، میری گردن اور سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی کرتی ہے کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر سارہ نے کاغذ پر کچھ لکھا اور پوچھا تھا۔ ’’اس خواب کے بارے میں میڈم نے تمہارے ساتھ کب ذکر کیا تھا، میرا مطلب ہے پہلی بار؟‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا۔
مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اماں نے کب پہلی بار مجھ سے خواب کا ذکر کیا تھا۔ بابا کے غائب ہونے سے پہلے وہ میرے بارے میں خوفناک خواب نہیں دیکھتی تھی، میرے بارے میں اچھے خواب دیکھتی تھی۔ وہ خواب میں مجھے روئی بھرے ریچھ کی ساتھ کھیلتے دیکھتی تھی۔ اماں کبھی بھی اپنے خواب کی تعبیر کسی دیسی یا پردیسی جوتش سے نہیں کرواتی تھی۔ جب بھی ولایت سے واپس لوٹتی میرے لئے تحفے کے طور پر ایک روئی بھرا ریچھ ضرور لے آتی۔ میں سمجھتا ہوں، یا مجھے گمان ہے کہ بابا کے غائب ہونے کے بعد اماں نے میرے بارے میں، پہلی بار ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا،لیکن بعد میں خوابوں کی دنیا میں بہت توڑ پھوڑ ہوئی۔‘‘
اماں مجھ سے بار بار پوچھتی، ’’جاتے وقت تمہارے باپ نے تم سے کیا بات چیت کی؟‘‘
اور ہر بار میں نے اسے وہی جواب دیا تھا ۔ ’’اس نے میرے ساتھ آگاہی کے دردناک عذابوں کے بابت بات کی تھی۔‘‘
اماں جواب کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتی تھی، پر پہنچ نہ پاتی، پریشان ہو جاتی، جیسے تڑپتی رہتی، کھنڈرات جیسے گھر میں بے مقصد گھومتی تھی، اپنے آپ سے بات کرتی۔ ایک بار اس نے کہا تھا ’’میں روحل جیسی حساس نہیں ہوں۔ اس لئے تم میرے ساتھ آگاہی کی بات نہ کر، صرف بتا دو کہ جاتے وقت اس نے میرے بارے میں کیا کہا تھا؟‘‘
’’آپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔‘‘میں نے غور سے اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا’’اس درویش کو خبر تھی کہ میں اس کا بیٹا نہیں تھا۔‘‘
زمین ہل گئی، زلزلے کی طرح، پھر نہ جانے کتنے سال اور صدیاں خاموشی کا ایک موسم لے آئیں اور گزر گئیں۔ اس کے بعد نہ کوئی زلزلہ آیا، نہ کہیں آتش فشاں پھوٹا، نہ بجلی کڑکی، نہ آسمان سے آبشار برسے اور نہ سمندر میں طوفان آیا۔
اس خاموشی کو میں نے توڑا تھا، یہ ضروری تھا، ورنہ سانس لینا محال ہوا جاتا تھا۔
’’اگر آسمان تک میری پہنچ میری رسائی میں ہوتی ،تو شاید میں مرنے دم تک تم سے کبھی نہ پوچھتا۔‘‘میں نے اماں سے کہا اور پھر پوچھا’’اس لئے، تم بتاؤ کہ میں کس کا بیٹا ہوں؟‘‘
اماں کانپ گئی، میری طرف بڑھی، مجھے پیار سے شرابور کرتے کہا۔ ’’کیا یہ کافی نہیں کہ میں تمہاری ماں ہوں؟‘‘
’’جس قیامت سے میں گزرا ہوں، اس میں یہ کافی نہیں ہے۔ مجھے بتاؤ کہ میں کس کا بیٹا ہوں؟‘‘
اماں لاچار ہوکر یہاں وہاں دیکھنے لگی، اور پھر ٹوٹے پھوٹے لہجے میں جیسے اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ملکوں کے بننے اور بگڑنے کے بعد کئی ایسے لڑکے پیدا ہوتے ہیں، جنہیں اپنے باپ کا پتہ نہیں ہوتا ہے، وہ اپنی ماں سے باپ کے بارے میں سوال نہیں پوچھتے۔‘‘
’’میرے پیدا ہونے سے نہ ملک بنا تھا اور نہ ہی کوئی ملک ٹوٹا تھا، ہاں میرے پیدا ہونے سے ایک آدمی کا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔‘‘
میں سمجھتا ہوں اس کے بعد اماں نے پھر کبھی بھی مجھے خواب میں روئی سے بھرے ریچھ کی ساتھ کھیلتے نہیں دیکھا ہے، نہ اس کے بعد اس نے مجھے سر کے بغیر بیابان میں بھٹکتے دیکھا ہے۔ پر یہ باتیں ڈاکٹر سارہ سولنگی کو بتانے جیسی نہ تھیں، اس لئے وہ میرا علاج کرتی ہیں، اماں کا علاج نہیں کرتیں۔ وہ مجھے اچھی لگتی ہیں اور انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی اماں کے خواب کی تعبیر لگتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی سارہ کا یہ باتیں جاننے کا جذبہ میں مناسب سمجھتا ہوں، بلکہ میں اس بات کا ذکر کسی سے بھی کرنا نہیں چاہتا۔ جس راز پر سے قیامت کے دن پردہ اٹھنا نہیں ہے، اس راز سے پردہ اٹھانے کا حق میں بھی نہیں رکھتا۔ میرا باپ جانے کون ہے ،پر حقیقت میں میں بیٹا اس شخص کا ہوں، جس نے ہمالیہ کی ایک غار میں جا کر جوگ لیا ہے۔
(اختتام)
دیدبان شمارہ ۔ ۹
غار
سندھی کہانی
تحریر : امر جلیل
اردو ترجمہ : عامرصدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً ہر روز ہی ایسا ہوتا ہے کہ اماں پریشان ہوکر میرے غار میں چلی آتی ہیں۔ وہ تصدیق کرنے آتی ہیں کہ میں زندہ ہوں یا نعمتوں بھرا یہ جہان چھوڑ کر چلا گیا ہوں۔
جھک کر، میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اماں غور سے گردن کی طرف دیکھتی ہے، میرا سر سلامت دیکھ کر، ٹھنڈی سانس لے کر، پیار کے ساتھ مجھے سہلاتی ہے اور پھر آہ کو سانسوں میں سمیٹ لیتی ہے، آنکھ سے لڑھک آئے آنسوؤں کا میرے سر پر محراب بنا کر اپنی دنیا میں واپس لوٹ جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اماں اکثر میرے لئے پریشان رہتی ہے۔ وہ مسلسل ہر رات میرے بارے میں ایک ڈراؤنا خواب دیکھتی ہے، خواب دیکھ کر ڈر جاتی ہے، کانپ جاتی ہے، نیند سے چونک کر اٹھ بیٹھتی ہے اور خود کو پرسکون کرنے کے لیے پانی کا گلاس بھر کر پیتی ہے۔ اماں خواب میں مجھے بِنا سرکے ریگستان میں بھٹکتا ہوا دیکھتی ہے۔ میرے ایک ہاتھ میں میرا کٹا سر اور دوسرے ہاتھ میں کانٹوں کا تاج دیکھتی ہے۔
اماں نے دوجوتشوں سے خواب کی تعبیر نکلوائی تھی۔ ان دونوں میں سے ایک جوتش دیسی تھا اور دوسرا پردیسی۔ دیسی جوتش سے وہ سکھر کے قریب کسی متبرک مقام پر ملی تھی۔دھیان سے خواب سن کر اسکا زائچہ بنانے کے بعد اس نے اماں کو خوش خبری دی تھی۔
’’تمہارا بیٹا بڑی لمبی عمر جئے گا۔ خدا کے فضل سے پاکستان کا بادشاہ بنے گا۔‘‘
زائچے کی قیمت ادا کرتے ہوئے اماں نے دیسی جوتش کو پانچ سو روپے دیے اور ساتھ میں ایک کالا سیاہ مرغ اورکا لا سیاہ بکرا، جو اس بات کے گواہ تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بکرا ہو بہو مجھ جیسا تھا، جب قصائی نے بکرے کا سر دھڑ سے الگ کیا اور اس کے سر سے بھیجا نکالا تھا تب بکرے کے سر میں سے بھیجے کے بجائے مینڈک نکل آیا تھا۔ پردیسی جوتش سے اماں’’ویانا ‘‘ میں عورتوں کی یونین میں ملی تھی۔ میری اماں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ پاکستان میں برباد ہو گئی عورتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کی جدوجہد میں اقوام متحدہ میں کام کرتے گزارا۔ اس نے ایک این جی او بھی بڑی کامیابی کے ساتھ چلائی تھی، جسکی تعریف کے شکل میں تعریفی خط اور سونے کا تمغہ حاصل ہوا تھا۔ ان دنوں اماں کو عورتوں کی بہتری کے سلسلے میں نیویارک، ہیگ، لندن، جینوا وغیرہ پریس کانفرنسوں میں جانا پڑتا تھا۔ پردیسی جوتش سے اماں کی ملاقات ’’ویانا‘‘ میں ہی ہوئی تھی۔
اس جوتش نے خواب کی وضاحت کرنے سے پہلے کچھ تبصرے کئے۔ لیپ ٹاپ پر پاور پوائنٹ اور ایم ایس ایکسل کی مددسے رنگین زائچہ بنایا ، خوابوں کی تعبیر نامی سوفٹ وئیر سے مدد لی، پھربہت ہی اداس لہجے میں خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ تمہارا بیٹا حکمرانوں کے ہاتھوں مارا جائے گا اور اگر بچ گیا تو خودکشی کر لے گا۔‘‘
میں نے بھی اپنی جانب سے انٹرنیٹ سے خواب کی تعبیر ڈاؤن لوڈ کی تھی۔ اس میں لکھا تھا۔’’تم ایک شادی شدہ عورت کے عشق میں گرفتار رہو گے اور اپنے سر میں عاشق کی طرح خاک ڈال کر ریگستان میں گھومتے رہو گے۔‘‘
تینوں تعبیروں میں سے اماں نے پردیسی جوتش کی تعبیر کو زیادہ اہمیت دی۔ ایک بار میں نے اماں سے کہا تھا۔’’ویانا والے جوتش کی پیشگوئی ایک دم بکواس ہے۔ سرتو سرداروں کے گرتے ہیں، میں خرگوش ہوں، بے مطلب ہی آدمی بن گیا ہوں۔ میں شکاری کتوں کاتر نوالہ تو ہو سکتا ہوں، پر کسی معرکے میں اپنا سر دے سکوں، یہ ممکن نہیں۔‘‘
اماں کو میری بات ناگوار لگی، اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
’’ دیسی جوتش کی پیشگوئی مجھے صحیح لگی ہے۔‘‘میں نے کہا تھا۔’’پاکستان پر اکثر مجھ جیسے خبطی، دیوانوں نے حکومت کی ہے۔ اسی وجہ سے ممکن ہے کہ میں پاکستان پر حکومت کروں۔‘‘
میری ماں ضرورت سے زیادہ پڑھی لکھی تھی۔ شکاگو یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کرکے آئی ہے، اسی لیے میری بات سمجھ نہ پائی۔ مجھے الجھن زدہ اور کچھ کچھ بددماغ سمجھتی ہے۔ میں اس کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ اسکی تین بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں، سندھیوں کے سبھی اکلوتے بیٹے کچھ کچھ خبطی ،کچھ کچھ پاگل، کچھ کچھ سانولے ہوتے ہیں، پر میں کچھ زیادہ ہی شیدی ہوں۔
مجھے غار سے نکال کر اپنی دنیا میں لانے کے لیے اماں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاگلوں کے سر سے پاگل پنا اتارنے والا شاید ہی کوئی ڈاکٹر ہو، جس نے مجھے نہ دیکھا ہو۔ دو تین گھنٹے میرا دماغ چاٹنے کے بعد مجھے نیند آنے کی اور سوچ کو مفلوج کرنے کی گولیاں نسخے میں لکھ کر دے دیتے ہیں۔
ایک بار اماں مجھے ڈاکٹر سارہ سولنگی کے پاس لے گئی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ گائناکالوجسٹ نہ تھی، سائیکالوجسٹ تھی یا سائیکاٹرسٹ۔ آدمیوں کے سر سے جنون کی بیماری دور کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ وہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ جس نے بھی اس کا نام رکھا تھا، سوچ سمجھ کر رکھا تھا۔ بہت ہی تعریف کے قابل تھی وہ۔ مجھے یقین نہیں کہ میں پاگل ہوں یا نہیں ہوں، ڈاکٹر سارہ سولنگی کو دیکھنے کے بعد مجھے خیال آیا تھا کہ میں تمام عمر کے لئے پاگل بنا رہوں گا۔ ڈاکٹر سارہ سے علاج کرواؤں گا، تو کبھی بھی ٹھیک ہونے کی کوشش نہیں کروں گا۔ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی اماں کے خواب کی تیسری پیشگوئی مجھے مقدر پر تصدیق کی مہر لگاتی لگی۔
ڈاکٹر سارہ سولنگی سے میرا تعارف کراتے اماں نے کہا تھا۔ ’’عدم میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اللہ نے تمہارے ہاتھوں میں شفا دی ہے۔ تم میرے بیٹے کا علاج کرو، اسکو نارمل کر دو۔‘‘
مجھے غصہ آ گیا تھا، میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’میں نارمل ہوں۔میں نارمل ہوں۔‘‘
ڈاکٹر سارہ نے ایک دم کہا تھا۔’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم نارمل ہو۔‘‘
’’تو پھر اماں کیوں سمجھتی ہے کہ میں نارمل نہیں ہوں؟‘‘میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا،’’ ڈاکٹر سارہ، میری جانب غور سے دیکھو، کیا میں تمہیں ابنارمل نظر آتا ہوں؟‘‘
’’ایسے بات نہیں کرتے بیٹے!‘‘اماں نے کہا تھا۔’’ تم کے بدلے ’آپ‘کہو، کیا میں آپ کو ابنارمل نظر آتا ہوں؟‘‘
میں کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’میڈم، عدم جس طرح بات کر رہا ہے، اس کوبات کرنے دیجئے۔‘‘
ڈاکٹر سارہ نے اماں سے کہا۔’’میں چاہتی ہوں کہ آپ ویٹنگ روم میں جاکر بیٹھیں۔ برا مت مانئے گا، میں عدم سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
اماں پیار سے میری طرف دیکھتے ہوئے ویٹنگ روم کی جانب چلی گئی۔ ڈاکٹرسارہ نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر غور سے میری طرف دیکھا۔ وہ مجھے بے حدپسند آئی تھی۔ آخر ڈاکٹر سارہ نے خاموش توڑتے ہوئے کہا ۔’’مجھے اپنے بارے میں بتا ؤ عدم۔‘‘
’’کیا بتاؤں؟‘‘
’’اپنے اسکول کے بارے میں بتاؤ، کچھ اپنے کالج کے بارے میں بتا دو، کچھ یونیورسٹی کے بارے میں بتاؤ۔‘‘
’’کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہوا تھا، میں بہت عام سا طالب علم تھا۔‘‘
’’اور نوکری؟‘‘
’’نوکری میں نے چھوڑ دی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں کام کر نہیں پایا۔‘‘
’’کوئی خاص سبب تھا؟‘‘
’’کوئی خاص سبب نہیں تھا۔‘‘مجھے پیشانی سے پسینہ بہتا ہوا محسوس ہوا تھا،’’ بس، میں نوکری کر نہیں پایا تھا۔‘‘
ڈاکٹر سارہ اپنی کرسی سے اٹھ کر میرے پاس آکر کھڑی ہوئی۔ اس نے پینے کے لئے مجھے پانی کا گلاس دیا تھا۔
’’عدم!‘‘ڈاکٹر سارہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، میں گردن اوپر اٹھا کر ڈاکٹر سارہ کی طرف دیکھ نہیں پایا تھا۔ مجھے لگا تھا، اگر اس کی طرف دیکھا، تو وہ ہماری درمیانی سرحدوں کو توڑکر میرے وجود میں گھس آئے گی، میرے اندر ہلچل مچا دے گی۔
’’عدم!‘‘
میں نے ڈاکٹر سارہ کی آواز سنی۔
’’میری طرف دیکھو، عدم۔‘‘
میں نے ڈاکٹر سارہ کی طرف دیکھا، وہ اپنی کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔ اس نے پوچھا، ’’تم اپنے کمرے سے باہر کیوں نہیں آتے؟‘‘
’’کمرہ!‘‘میں نے حیرت سے پوچھا تھا۔’’کون سا کمرہ؟‘‘
’’گھر میں تمہارا کمرہ۔‘‘
’’گھر، کون سا گھر؟‘‘
’’جہاں تم رہتے ہو۔‘‘
’’میرا کوئی گھر نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر تم کہاں رہتے ہو عدم؟‘‘
’’میں غار میں رہتا ہوں۔‘‘
اچانک میرے اوپر آسمان پر ہزاروں رتھ چلے آئے اور ایک لمحے میں گزر گئے۔ صدیوں سے بند تاریخ کے ماتم کدے سینے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ کائنات میں تھرتھراہٹ ہوئی، بجلی گری اور قلعے کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔
مجھے کچھ پتہ نہیں کہ ایسے کیوں ہوا تھا، اور کس لیے ہوا تھا۔ میں نے بدخواہوں لوگوں سے سنا تھا کہ میرے پیدائش کے بعد بابا بہت اداس ہو گئے تھے، تنہا اور خاموش رہنے لگے تھے۔ قہقہے لگاتے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو انہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ تاریخ کو تمام علوم اور عقیدوں کا چشم دید گواہ مانتے تھے۔ ملک میں اور ملک سے باہر کی درسگاہوں میں ان کی بڑی دھاک تھی۔ اپنے پورے نام کے بجائے ''پروفیسر روحل'' کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ مجھ سے بہت پیار تھا انہیں۔ بابا ان انسانوں میں سے تھے، جو بیٹے کے لیے مایوس رہتے ہیں۔ تیسری بیٹی شانی کی پیدائش کے بعد، اماں کے بجائے بابا نے چوتھے بچے کا خیال دل سے نکال دیاتھا۔
شانی کے تین سال بعد میں پیدا ہوا تھا۔ بدخواہ لوگوں کے مطابق بابا بہت اداس ہوئے تھے۔ مجھے گود میں لے کر خیالوں میں گم ہو گئے تھے۔ کچھ لوگوں نے انہیں روتے ہوئے دیکھا تھا۔
ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے بدخواہوں اور بدخواہوں کی باتوں کو ذہن کی ہارڈ ڈسک سے مٹا دیا، ہمیشہ کے لئے ڈیلیٹ کر دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ بابا کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا باپ ہو گا، جس نے اتنی شدت سے اپنے بیٹے سے پیار کیا ہوگا۔ پر میں نے بابا کو کبھی بھی ہنستے نہیں دیکھا تھا۔
ایک بار میں نے بابا سے کہا تھا، ’’میری سب سے بڑی تمنا ہے کہ میں نامور مسخرا بنوں اور اپنی حرکتوں سے، باتوں سے آپ کو قہقہہ لگا کر ہنسنے پر مجبور کر دوں۔‘‘
میری بات سن کر بابا کے ہونٹوں پر بہت اداس، دل کو مسل دینے والی مسکراہٹ اتر آئی تھی۔
’’میرے ہنسنے یا نہ ہنسنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پرابا نے مجھے نرمی سے پیار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’تاریخ نے بلند قہقہے لگا کر ہنسنے والوں کو آخر میں روتے دیکھا ہے۔‘‘
کچھ دیر کی بے چین خاموشی کے بعد بابا نے کہا تھا، ’’تمہارے پیدا ہونے سے پہلے میں زوردار قہقہہ لگا کر ہنس سکتا تھا۔‘‘
تب، بابا کے کہے جملوں کا مطلب مجھے سمجھ نہیں آیا تھا۔ کالج میں پڑھتا تھا، لیکچر سننے کی بجائے، بابا کے جملوں کے مفہوم کے بارے میں سوچتا رہتا۔ ایک بار کالج بیچ میں چھوڑکر میں کراچی یونیورسٹی گیا تھا۔ بابا لائبریری میں تھے، کسی انٹرنیشنل سمینار کے لئے پیپر تیار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے۔
’’بہت پریشان ہوں۔‘‘کہا تھا،’’آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘
لیکن بابا کے چہرے پر اداس مسکراہٹ اتر آئی۔ میز سے پیپر اٹھا کر بریف کیس میں ڈالتے ہوئے کہا تھا، ’’مجھے قہقہہ لگا کر ہنسنے پر مجبور کرنے کی قسم تو نہیں کھائی ہے؟‘‘
لیکن بابا مجھے اپنے ڈپارٹمنٹ کے کمرے میں لے کر آئے، پوچھا ،’’لنچ کیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’میں نے بھی نہیں کھایا ہے۔‘‘ پرابا نے کہا، ’’پہلے ہم کھانا کھائیں گے، اور پھر یونیورسٹی سے باہر چل کر بات کریں گے۔‘‘
کینٹین والوں سے فون پر بات کرنے سے پہلے بابا نے پوچھا تھا۔ ’’شامی کباب کھاؤگے؟ اچھے ہوتے ہیں۔‘‘
’’جو آپ کھائیں، وہی میرے لئے بھی منگوا لیں۔‘‘میں نے کہا تھا۔
یونیورسٹی کینٹین سے لنچ آیا۔ دال، چاول اور سبزی ساتھ میں شامی کباب بھی تھے۔ چپ چاپ لنچ کیا۔ رہ رہ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی لیتے۔ اس دوران مجھے باربار یہ خیال آیا کہ بابا سے کچھ نہ پوچھوں،اپنی بے چینی کو اپنے اندر دفن کر دوں، بدخواہوں کی باتوں پر توجہ نہ دوں، ان کو بغیر کسی وجہ کے پریشان نہ کروں۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے کہ میرے پیدا ہونے کے بعد بابا بہت اداس اور چپ چاپ رہنے لگے ہیں۔ ہو سکتا ہے، میں انہیں پسند نہ آیا ہوں۔ ویسے بھی بابا نے تین بچوں کی پلاننگ کی تھی۔ شانی کے تین سال بعد میں اچانک ہی پیدا ہوا تھا۔ ان کا منصوبہ اپ سیٹ کر دی تھی میں نے، پر اس میں میرا قصور نہیں تھا۔ دنیا میں آنا نہ آنا میرے بس میں نہیں تھا۔ مجھے صرف ایک بات کا افسوس تھا کہ میں بابا کے لیے منحوس ثابت نہیں ہوا تھا۔ جس برس میں پیدا ہوا تھا، اسی سال بابا نے ورلڈ ہسٹوریکل کانگریس کی صدارت کی تھی۔ میں بارہ تیرہ برس کا تھا کہ بابا ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے تھے اور جب میں سترہ سال کا تھا کہ بابا ڈین فیکلٹی آف آرٹس مقرر ہوئے تھے،میں منحوس نہ تھا۔
برسوں پہلے کا ماجرا ہے، پردیس میں رہنے والے بابا کے ایک پرانے دوست اپنے بچوں سمیت پاکستان گھومنے آئے تھے۔ کراچی میں ہمارے پاس آکر ٹھہرے تھے۔ مجھے چاکلیٹ کھلاتے تھے اور پرندوں کے لطیفے سناتے تھے۔ ان لطیفوں پر دیگر لوگ کم، وہ خود بہت ہنستے تھے۔ ایک دن مجھے گھسیٹ کر، اپنی گود میں بٹھایا تھا اور بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’’یار روحل، نہ تو تم اپنے بیٹے جیسے ہو اور نہ ہی تمہارا بیٹا تمہارے جیسا ہے۔‘‘پھر اماں کی طرف دیکھتے پوچھا تھا۔‘‘ یہ ماجرا کیا ہے، امریکہ سے کسی نیگرو کا بیٹا تو نہیں چراکر لے آئے ہو؟‘‘
خود زور زور سے قہقہے لگا کر ہنس پڑے، پر بابا ہنس نہیں سکے۔ انہوں نے حسرت کے ساتھ میری طرف دیکھا۔ تب میں چھوٹا تھا، پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، لیکن مجھے سب کچھ یاد ہیں، میں کچھ بھی بھول نہیں پایا ہوں۔ میرا ایک ایک احساس میرے وجود میں پروان چڑھا ہے، میرے ساتھ بڑا ہوا ہے۔
یونیورسٹی میں بابا کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے ایک واضح یا مبہم خوف مجھے پریشان کرتا رہا تھا۔ میں بابا سے کچھ پوچھ سکوں گا یا ہکلا کر خاموش ہو جاؤں گا؟
لنچ کے بعد بابا نے پوچھا، ’’چائے پیوگے؟‘‘
’’آپ پیءں گے؟‘‘ میں نے پوچھا تھا۔
’’ویسے تو نہیں پیتا ہوں، آج پی لیتے ہیں۔‘‘بابا نے جواب دیا۔
چائے بھی خاموش رہ کر پی لی ہم نے۔ جانے کیوں میں نے محسوس کیا تھا کہ کچھ دیر کے بعد میں پل صراط سے گذروں گا۔
پل صراط کا سفر کراچی یونیورسٹی اوراوجھا سینی ٹوریم کے درمیان شروع ہوا تھا۔
’’لوگ بیٹا پیدا ہونے پر خوش ہوتے ہیں، میرے پیدا ہونے پر آپ خوش کیوں نہیں ہوئے تھے؟‘‘میں نے دکھ سے پوچھا۔
’’میری تینوں بیٹیاں کسی بیٹے سے کم نہیں ہیں۔‘‘
’’میں نے سنا ہے میرے پیدا ہونے کے بعد آپ بہت اداس ہو گئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے ملنا اور بات چیت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا؟‘‘لیکن بابا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
’’میری بات سن رہے ہیں نہ، بابا؟‘‘
’’ہاں عدم، سن رہا ہوں۔‘‘
’’میرے پیدا ہونے کے بعد، آپ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’ہنسنا بس میں کہاں ہوتا ہے عدم؟‘‘
’’میرا پیدا ہونا آپکو ناگوار گزرا تھا؟‘‘مگربابا نے گردن نیچے کر لی، جواب نہیں دیا تھا۔
میں نے دوسری بار اپنا خیال دوہرایا۔ ’’میرا پیدا ہونا آپکو ناگوار لگا تھا؟‘‘
’’بابا!‘‘میں نے بابا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا، ان کا درد میری سمجھ میں نہیں آیا، میں نے پوچھا تھا۔‘‘ میرے پیدا ہونے پر آپ کو بہت دکھ ہوا تھا؟‘‘پربابا نے میرے ہاتھ کو کچھ اس طرح جکڑ کر پکڑ لیا جیسے کہہ رہے ہوں،’’ ہاں! تمہارے پیدا ہونے پر مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔‘‘ پل صراط کے بیچ سے میں نے بابا سے پوچھا تھا۔ ’’کیوں دکھ ہوا تھا آپ کو؟‘‘
’’کیونکہ میرا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔‘‘پرابا نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ پھر وہ آسمان کی طرف دیکھتے رہے اور کہنے لگے۔ ’’تم میرے بیٹے نہیں تھے، عدم!‘‘
میں نے صورِاسرافیل کی آواز سنی۔ سب کچھ پوری کائنات کے ساتھ اندھیرے میں گم ہو گیا۔ میں گم ہو گیا، بابا گم ہو گئے۔ اندھیرے میں جیسے کروڑوں ابابیلیں اور چمگادڑیں غاروں سے نکل آئیں، میرے اوپر سے اندھیرے میں گھومتی رہیں۔فنا کے ایک لمحے نے بقا کے تمام لمحات کو نگل لیا۔
میں نے پھرصورِاسرافیل کی آواز سنی۔ ابابیلیں اور چمگادڑیں غاروں کی طرف لوٹ آئیں، اندھیرے کے بجائے نور کو بے نور کرنے والی روشنی چھا گئی۔ سورج مکمل طور پر ڈوب گیا۔ میں نے خود کو بابا سے ہزاروں میل دور محسوس کیا۔ میں نے بابا سے پوچھا، ’’آپ نے کس طرح سمجھا کہ میں آپ کا بیٹا نہ تھا؟‘‘
’’شانی کے پیدا ہونے کے بعد میں نے آپریشن کرا لیا تھا۔‘‘دل میں دراڑ ڈالنے والی دکھ بھری آواز میں بابا نے کہا’’مجھ سے بچے کی توقع، امکان کے باہر تھی۔‘‘
’’اماں کو معلوم تھا اس بات کا؟‘‘میں نے بابا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اسکو فرصت کہاں ہوتی ہے۔ ’’پھرابا کی آواز کی گونج سنائی دی۔ ’’وہ اکثراقوام متحدہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کی خاطر ملک سے باہر رہتی تھی۔‘‘
آسمانی کتابوں والی قیامت جانے کب آئے گی، پر میرے لئے قیامت آئی اور سب کچھ تہس نہس کر کے چلی گئی۔ کچھ باقی نہ بچا ۔
نہ حساب، نہ کتاب اور نہ سزا ،نہ جزا۔
بابا نے یونیورسٹی سے استعفی دے دیا۔ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے اور نیپال میں جوگیوں کے ساتھ ہمالیہ کے غاروں میں جاکر بس گئے۔ جانے سے پہلے بابا نے مجھے بہت پیار کیا تھا۔ انکے سسکتے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے میں نے پوچھا تھا،’’میری وجہ سے جوگ لے رہے ہیں نہ؟‘‘
’’نہیں عدم، نہیں۔‘‘پھربابا نے میری آنکھوں پر، گالوں پر، ماتھے پرپیار کرتے ہوئے کہا ’’تمہارا کوئی دوش نہیں بلکہ کسی کا بھی قصور نہیں ہے۔‘‘
ان کے دونوں ہاتھوں کو چومتے ہوئے میں نے کہا تھا، ’’پھر جوگ کیوں لے رہے ہیں؟‘‘
’’ایک ماں کی حرمت کا راز میرے پاس امانت ہے۔‘‘لیکن ابا کا مبہم جواب میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ میں نے حیرانی سے بابا کی طرف دیکھا۔
’’راز راز نہیں رہا ہے عدم۔‘‘بابا نے الوداع کہتی نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور کہا تھا، ’’اب تم جان چکے ہو کہ تاریخ کے ابتدائی دور کی طرح اس کے اختتامی دور میں، انسان کو باپ کی بجائے ماں کے نام سے کیوں پکارا جاتا رہا۔ تمہاری زندگی میں میرا رول ختم ہوا عدم۔‘‘
بابا پھر غائب ہو گئے۔
کبھی بھی بابا کا خط آتا، ہر خط میں ہر بار ایک جملہ لکھتے ہیں، ’’تم مجھے بہت یاد آتے ہو عدم۔‘‘
میں نے اپنے غار کو بابا کی یاد سے روشن کر دیا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر سارہ سولنگی سے کہا تھا، ’’یقین کرو سارہ، میں ٹھیک ہوں، ساری کی ساری گڑبڑ اماں کے سرمیں ہے۔‘‘
’’میں کہاں کہتی ہوں کہ تم ٹھیک نہیں ہو؟‘‘ڈاکٹر سارہ نے کہا، ’’لیکن تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو کہ گڑبڑ میڈم کے سر میں ہے؟‘‘
’’وہ اکثر میرے بارے میں ایک خوفناک خواب دیکھتی ہے۔‘‘میں نے کہا۔
’’وہ مجھے سر کے بغیر بیابانوں میں بھٹکتے دیکھتی ہے، میرے ایک ہاتھ میں میرا کٹا سر اور دوسرے ہاتھ میں کانٹوں کا تاج ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سارہ کو کچھ کچھ تعجب ہوا تھا، پوچھا تھا۔ ’’پر، میڈم نے تو کبھی اپنے کسی خواب کا ذکر نہیں کیا۔‘‘
’’وہ اپنے خواب کا کسی سے بھی ذکر نہیں کرتی ہے۔‘‘میں نے کہا۔
’’تمہارے ساتھ کرتی ہیں؟‘‘ڈاکٹر سارہ نے پوچھا۔
’’بہت کم۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’خواب دیکھنے کے بعد وہ غار میں چلی آتی ہے، میری گردن اور سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی کرتی ہے کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر سارہ نے کاغذ پر کچھ لکھا اور پوچھا تھا۔ ’’اس خواب کے بارے میں میڈم نے تمہارے ساتھ کب ذکر کیا تھا، میرا مطلب ہے پہلی بار؟‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا۔
مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اماں نے کب پہلی بار مجھ سے خواب کا ذکر کیا تھا۔ بابا کے غائب ہونے سے پہلے وہ میرے بارے میں خوفناک خواب نہیں دیکھتی تھی، میرے بارے میں اچھے خواب دیکھتی تھی۔ وہ خواب میں مجھے روئی بھرے ریچھ کی ساتھ کھیلتے دیکھتی تھی۔ اماں کبھی بھی اپنے خواب کی تعبیر کسی دیسی یا پردیسی جوتش سے نہیں کرواتی تھی۔ جب بھی ولایت سے واپس لوٹتی میرے لئے تحفے کے طور پر ایک روئی بھرا ریچھ ضرور لے آتی۔ میں سمجھتا ہوں، یا مجھے گمان ہے کہ بابا کے غائب ہونے کے بعد اماں نے میرے بارے میں، پہلی بار ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا،لیکن بعد میں خوابوں کی دنیا میں بہت توڑ پھوڑ ہوئی۔‘‘
اماں مجھ سے بار بار پوچھتی، ’’جاتے وقت تمہارے باپ نے تم سے کیا بات چیت کی؟‘‘
اور ہر بار میں نے اسے وہی جواب دیا تھا ۔ ’’اس نے میرے ساتھ آگاہی کے دردناک عذابوں کے بابت بات کی تھی۔‘‘
اماں جواب کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتی تھی، پر پہنچ نہ پاتی، پریشان ہو جاتی، جیسے تڑپتی رہتی، کھنڈرات جیسے گھر میں بے مقصد گھومتی تھی، اپنے آپ سے بات کرتی۔ ایک بار اس نے کہا تھا ’’میں روحل جیسی حساس نہیں ہوں۔ اس لئے تم میرے ساتھ آگاہی کی بات نہ کر، صرف بتا دو کہ جاتے وقت اس نے میرے بارے میں کیا کہا تھا؟‘‘
’’آپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔‘‘میں نے غور سے اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا’’اس درویش کو خبر تھی کہ میں اس کا بیٹا نہیں تھا۔‘‘
زمین ہل گئی، زلزلے کی طرح، پھر نہ جانے کتنے سال اور صدیاں خاموشی کا ایک موسم لے آئیں اور گزر گئیں۔ اس کے بعد نہ کوئی زلزلہ آیا، نہ کہیں آتش فشاں پھوٹا، نہ بجلی کڑکی، نہ آسمان سے آبشار برسے اور نہ سمندر میں طوفان آیا۔
اس خاموشی کو میں نے توڑا تھا، یہ ضروری تھا، ورنہ سانس لینا محال ہوا جاتا تھا۔
’’اگر آسمان تک میری پہنچ میری رسائی میں ہوتی ،تو شاید میں مرنے دم تک تم سے کبھی نہ پوچھتا۔‘‘میں نے اماں سے کہا اور پھر پوچھا’’اس لئے، تم بتاؤ کہ میں کس کا بیٹا ہوں؟‘‘
اماں کانپ گئی، میری طرف بڑھی، مجھے پیار سے شرابور کرتے کہا۔ ’’کیا یہ کافی نہیں کہ میں تمہاری ماں ہوں؟‘‘
’’جس قیامت سے میں گزرا ہوں، اس میں یہ کافی نہیں ہے۔ مجھے بتاؤ کہ میں کس کا بیٹا ہوں؟‘‘
اماں لاچار ہوکر یہاں وہاں دیکھنے لگی، اور پھر ٹوٹے پھوٹے لہجے میں جیسے اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ملکوں کے بننے اور بگڑنے کے بعد کئی ایسے لڑکے پیدا ہوتے ہیں، جنہیں اپنے باپ کا پتہ نہیں ہوتا ہے، وہ اپنی ماں سے باپ کے بارے میں سوال نہیں پوچھتے۔‘‘
’’میرے پیدا ہونے سے نہ ملک بنا تھا اور نہ ہی کوئی ملک ٹوٹا تھا، ہاں میرے پیدا ہونے سے ایک آدمی کا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔‘‘
میں سمجھتا ہوں اس کے بعد اماں نے پھر کبھی بھی مجھے خواب میں روئی سے بھرے ریچھ کی ساتھ کھیلتے نہیں دیکھا ہے، نہ اس کے بعد اس نے مجھے سر کے بغیر بیابان میں بھٹکتے دیکھا ہے۔ پر یہ باتیں ڈاکٹر سارہ سولنگی کو بتانے جیسی نہ تھیں، اس لئے وہ میرا علاج کرتی ہیں، اماں کا علاج نہیں کرتیں۔ وہ مجھے اچھی لگتی ہیں اور انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی اماں کے خواب کی تعبیر لگتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی سارہ کا یہ باتیں جاننے کا جذبہ میں مناسب سمجھتا ہوں، بلکہ میں اس بات کا ذکر کسی سے بھی کرنا نہیں چاہتا۔ جس راز پر سے قیامت کے دن پردہ اٹھنا نہیں ہے، اس راز سے پردہ اٹھانے کا حق میں بھی نہیں رکھتا۔ میرا باپ جانے کون ہے ،پر حقیقت میں میں بیٹا اس شخص کا ہوں، جس نے ہمالیہ کی ایک غار میں جا کر جوگ لیا ہے۔
(اختتام)