غنی پہوال کی نظمیں

غنی پہوال کی نظمیں

Jan 15, 2019

غنی پہوال کی مزاحمتی نظمیں

مصنف

غنی پہوال

شمارہ

شمارہ - ٩

دیدبان شمارہ 9

غنی پہوال کی نظمیں


آنکھیں کھولو سسّی

سسّی۔۔۔۔۔۔

تم اپنے ساتھ ایک لافانی جذبہ لے کر

پیدا ہوئی تھی

تمہارے جذبے نے عشق کو

لباس فراہم کیا

تمہارے سراپا میں گُم سمندر کے

موجوں نے بھی یہی پوشاک پہن لی

اور جب تمہارے ارمانوں کی

لہریں بھپرنے لگیں

تو پُنّو کے نقش ہائے پاء

خود سے بچھڑ گئی

جب وقت کے پاوں کے چھالے

پرندے بن کر اُڑنے لگے

اور بادل کی آنکھ بھی نم ہوگئی

تو تُم اُس ببول سے لپٹ کر

روتی رہی

جہاں کبھی پُنّو سستایا تھا

قرنوں کے پیاسے کانٹوں نے

تمہارا امرت پی لیا

اور جنگل گدھ بن کر

تمہارے اُوپر منڈلاتا رہا

سسّی آنکھیں کھولو

دیکھ کیچ سے پیار کا کارواں

پُنّو کی تلاش میں آیا ہے

پُنّو۔۔۔۔۔۔

جسے کالے سانپ نے

کسی نگینے کی طرح

اپنے منہ میں چھپا لیا ہے

سسّی آنکھیں کھولو

پُنّو شاہ لطیف کے بول

اور سُر میں مجسم ہوکر

تُجھے پُکارتا ہے

مگر تُم دریائے سندھ کو

مقدس پیڑ بنا کر

چھاوں میں سو گئی ہو

آنکھیں کھولو سسّی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برگد

ایک نظارہ مجھ میں ہمیشہ زندہ ہے

میری بے حس و حرکت ماں

چار پائی پر پڑی ہے

کچھ ہمسائیاں بین کرتی ہوئی

اُسے سفید چادر اوڑھا رہی ہیں

ماں کی رحلت کا یہ منظر

میرے اندر پینٹ ہوجاتا ہے

مدتیں گزریں

میں جب بھی اس منظر سے بھاگ کر

اپنی ماں کی آغوش میں جانا چاہتا

تو ایک برگد کے تنے سے لپٹ کررونے لگتا

اور وہ مجھے اپنی آغوش میں لے لیتا

میں رفتہ رفتہ برگد سے قریب تر ہوتا گیا

اور دھیرے دھیرے مجھ پر انکشاف ہوا

کہ برگد بلکل میری ماں کی طرح سانس لیتا ہے

اس کی دھڑکنیں ماں کے دل کی طرح ہیں

پھر مجھے اس کی پناہ میں سکون آنے لگا

جیسے میں اپنی کوئی ہوئی ماں کی ممتا دریافت کرچکا تھا

آج ساٹھ سالوں کے بعد

اسی ممتا کی چھاوں میں بیٹھے

سوچ رہا ہوں

کہ لوگ یتیم خانوں میں

برگد کے پیڑ کیوں نہیں لگاتے

۔۔۔۔۔۔۔۔

چیونٹیاں

میں جب بھی کوئی خواب دیکھتا ہوں

تو صبح وہ میری دائیں آنکھ سے

کالا کیکڑا بن کرنکل جاتا ہے

میرے گھر کی دیوا ریں او ردیگر اشیا

اب ان سے مانوس ہوچکے ہیں

شمسہ کو اگرکیکڑوں سے الرجی نہیں ہوتی

تو شایداب تک ہم شادی کرچکے ہوتے

آج شام حسبِ عادت

میں کیکڑوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا

تو دیوار پر لگی بل گیٹس کی تصویر کے ہونٹوں پر

طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی

تو میں نے خفگی چھپانے کیلئے

فورا نظریں تصویر سے پھیر کر

ٹی وی کی طرف کر لیں

اور صوفے پر بیٹھ گیا

اسکرین پر کوکر بنانے والی ایک کمپنی کا

نیااور متاثر کن اشتہار چل رہاتھا

میں جیسے ہی اشتہار دیکھنے میں مگن ہوا

اشتہار سے ایک چیونٹی برآمد ہوئی

اوراسکرین سے باہر کود پڑی

کودتے ہی وہ خود بخود بکری جتنی بڑی ہوگئی

پھر وہ کسی روبوٹ کی طرح چل کر

میرے پُرانے ماڈل کے کوکر کو منہ میں دبا کر باہر نکل گئی

میں ابھی سنبھلا نہیں تھا کہ

واشینگ مشین بنانے والوں کے اشتہار سے

ایک اور چیونٹی برآمد ہوئی جس کی جسامت گائے جتنی تھی

سب کیکڑے خوف زدہ ہوکر

میرے اوپر چڑھ کر میرے جسم سے چمٹ گئے

میں کیکڑوں کو سنبھالنے میں لگا تھا

کہ فریج بنانے والوں کے اشتہار سے بھی

ایک دیو قامت چیونٹی نمودار ہوئی

میرے پسینے چھوٹنے لگے

میں شمسہ کو پکارنا چاہ رہا تھا

مگر میری گویائی جواب دے گئی تھی

ڈر کے مارے میں نے آنکھیں میچ لیں

اور جب آنکھیں کھولیں تووہ چیونٹی فریج لے جا چکی تھی

میں نے پھرتی سے ٹی وی بند کردیا

تھوڑی دیر بعد کیکڑے بھی رینگتے ہوئے نیچے اُتر گئے

ایک لمبا سانس لیتے ہوئے

میں نے پسینے پونچھ لئے

اور ٹیبل پر پڑا اخبار اُٹھا کر دیکھنے لگا

اخبار میں چھپے نئے فیشن کی ملبوسات والوں کے اشتہار سے

ہزاروں چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں نکل کر

ٹھڈی دل کی طرح مجھ سے چمٹ گئیں

میں بے حس و حرکت دیکھتا رہا

تھوڑی دیر بعد چیونٹیاں مرے جسم سے الگ ہوکر

بڑی تیزی سے باہر نکل گئیں

میں حواس باختہ ہوکر بھاگتا ہوا دروازے پر گیا

پورا شہر اور شاہراہیں مختلف اقسام اور جسامت کی

چیونٹیوں سے بھری پڑیں تھیں

اور ہر چیونٹی کے منہ میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور تھی

جنہیں وہ اپنی بلوں میں لے جارہی تھیں

اور شہر کے سارے لوگ برہنہ کھڑے

گھروں کے دروازوں پر دیکھ رہے تھے

.........

لوکسٹا (۱)

اے حریص لوکسٹا

ہاں ۔۔۔ تمہاری زہر آلود

مکاریوں کے دواخانے میں

کوئی بھی دم توڑ سکتا ہے

مگر وقت کے کھیت میں

سچائی نام کی ایک

ایسی بوٹی بھی اُگتی ہے

جو ہر قسم کے زہر کوزائل کرسکتی ہے

یہی سبب ہے کہ

زندگی کبھی نہیں مرتی

یہ جسموں کی دوئی

بس زمانی دھوکا ہے

زندگی تو ایک اکائی ہے

۔۔۔۔۔ خدا کی طرح

۱۔ لوکسٹا : لوکسٹا آف گول (locusta of gaul) رومن ایمپائر میں تاریخ کی پہلی پیشہ ور قاتلہ جو جڑی بوٹیوں سے ہر قسم کا زہر تیار کرنے میں مہارت رکھتی تھی۔اس بے رحم شاطر قاتلہ نے اپنی زندگی جڑی بوٹیوں سے زہر کشید کرنے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے میں وقف کردی تھی۔ اپنے تیار کردہ اَزہار کے نتائج سے اطمئینان کے لئے بادشاوں کی سرپرستی میں وہ ان کو سب سے پہلے غلاموں پر آزماتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

دیدبان شمارہ 9

غنی پہوال کی نظمیں


آنکھیں کھولو سسّی

سسّی۔۔۔۔۔۔

تم اپنے ساتھ ایک لافانی جذبہ لے کر

پیدا ہوئی تھی

تمہارے جذبے نے عشق کو

لباس فراہم کیا

تمہارے سراپا میں گُم سمندر کے

موجوں نے بھی یہی پوشاک پہن لی

اور جب تمہارے ارمانوں کی

لہریں بھپرنے لگیں

تو پُنّو کے نقش ہائے پاء

خود سے بچھڑ گئی

جب وقت کے پاوں کے چھالے

پرندے بن کر اُڑنے لگے

اور بادل کی آنکھ بھی نم ہوگئی

تو تُم اُس ببول سے لپٹ کر

روتی رہی

جہاں کبھی پُنّو سستایا تھا

قرنوں کے پیاسے کانٹوں نے

تمہارا امرت پی لیا

اور جنگل گدھ بن کر

تمہارے اُوپر منڈلاتا رہا

سسّی آنکھیں کھولو

دیکھ کیچ سے پیار کا کارواں

پُنّو کی تلاش میں آیا ہے

پُنّو۔۔۔۔۔۔

جسے کالے سانپ نے

کسی نگینے کی طرح

اپنے منہ میں چھپا لیا ہے

سسّی آنکھیں کھولو

پُنّو شاہ لطیف کے بول

اور سُر میں مجسم ہوکر

تُجھے پُکارتا ہے

مگر تُم دریائے سندھ کو

مقدس پیڑ بنا کر

چھاوں میں سو گئی ہو

آنکھیں کھولو سسّی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برگد

ایک نظارہ مجھ میں ہمیشہ زندہ ہے

میری بے حس و حرکت ماں

چار پائی پر پڑی ہے

کچھ ہمسائیاں بین کرتی ہوئی

اُسے سفید چادر اوڑھا رہی ہیں

ماں کی رحلت کا یہ منظر

میرے اندر پینٹ ہوجاتا ہے

مدتیں گزریں

میں جب بھی اس منظر سے بھاگ کر

اپنی ماں کی آغوش میں جانا چاہتا

تو ایک برگد کے تنے سے لپٹ کررونے لگتا

اور وہ مجھے اپنی آغوش میں لے لیتا

میں رفتہ رفتہ برگد سے قریب تر ہوتا گیا

اور دھیرے دھیرے مجھ پر انکشاف ہوا

کہ برگد بلکل میری ماں کی طرح سانس لیتا ہے

اس کی دھڑکنیں ماں کے دل کی طرح ہیں

پھر مجھے اس کی پناہ میں سکون آنے لگا

جیسے میں اپنی کوئی ہوئی ماں کی ممتا دریافت کرچکا تھا

آج ساٹھ سالوں کے بعد

اسی ممتا کی چھاوں میں بیٹھے

سوچ رہا ہوں

کہ لوگ یتیم خانوں میں

برگد کے پیڑ کیوں نہیں لگاتے

۔۔۔۔۔۔۔۔

چیونٹیاں

میں جب بھی کوئی خواب دیکھتا ہوں

تو صبح وہ میری دائیں آنکھ سے

کالا کیکڑا بن کرنکل جاتا ہے

میرے گھر کی دیوا ریں او ردیگر اشیا

اب ان سے مانوس ہوچکے ہیں

شمسہ کو اگرکیکڑوں سے الرجی نہیں ہوتی

تو شایداب تک ہم شادی کرچکے ہوتے

آج شام حسبِ عادت

میں کیکڑوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا

تو دیوار پر لگی بل گیٹس کی تصویر کے ہونٹوں پر

طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی

تو میں نے خفگی چھپانے کیلئے

فورا نظریں تصویر سے پھیر کر

ٹی وی کی طرف کر لیں

اور صوفے پر بیٹھ گیا

اسکرین پر کوکر بنانے والی ایک کمپنی کا

نیااور متاثر کن اشتہار چل رہاتھا

میں جیسے ہی اشتہار دیکھنے میں مگن ہوا

اشتہار سے ایک چیونٹی برآمد ہوئی

اوراسکرین سے باہر کود پڑی

کودتے ہی وہ خود بخود بکری جتنی بڑی ہوگئی

پھر وہ کسی روبوٹ کی طرح چل کر

میرے پُرانے ماڈل کے کوکر کو منہ میں دبا کر باہر نکل گئی

میں ابھی سنبھلا نہیں تھا کہ

واشینگ مشین بنانے والوں کے اشتہار سے

ایک اور چیونٹی برآمد ہوئی جس کی جسامت گائے جتنی تھی

سب کیکڑے خوف زدہ ہوکر

میرے اوپر چڑھ کر میرے جسم سے چمٹ گئے

میں کیکڑوں کو سنبھالنے میں لگا تھا

کہ فریج بنانے والوں کے اشتہار سے بھی

ایک دیو قامت چیونٹی نمودار ہوئی

میرے پسینے چھوٹنے لگے

میں شمسہ کو پکارنا چاہ رہا تھا

مگر میری گویائی جواب دے گئی تھی

ڈر کے مارے میں نے آنکھیں میچ لیں

اور جب آنکھیں کھولیں تووہ چیونٹی فریج لے جا چکی تھی

میں نے پھرتی سے ٹی وی بند کردیا

تھوڑی دیر بعد کیکڑے بھی رینگتے ہوئے نیچے اُتر گئے

ایک لمبا سانس لیتے ہوئے

میں نے پسینے پونچھ لئے

اور ٹیبل پر پڑا اخبار اُٹھا کر دیکھنے لگا

اخبار میں چھپے نئے فیشن کی ملبوسات والوں کے اشتہار سے

ہزاروں چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں نکل کر

ٹھڈی دل کی طرح مجھ سے چمٹ گئیں

میں بے حس و حرکت دیکھتا رہا

تھوڑی دیر بعد چیونٹیاں مرے جسم سے الگ ہوکر

بڑی تیزی سے باہر نکل گئیں

میں حواس باختہ ہوکر بھاگتا ہوا دروازے پر گیا

پورا شہر اور شاہراہیں مختلف اقسام اور جسامت کی

چیونٹیوں سے بھری پڑیں تھیں

اور ہر چیونٹی کے منہ میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور تھی

جنہیں وہ اپنی بلوں میں لے جارہی تھیں

اور شہر کے سارے لوگ برہنہ کھڑے

گھروں کے دروازوں پر دیکھ رہے تھے

.........

لوکسٹا (۱)

اے حریص لوکسٹا

ہاں ۔۔۔ تمہاری زہر آلود

مکاریوں کے دواخانے میں

کوئی بھی دم توڑ سکتا ہے

مگر وقت کے کھیت میں

سچائی نام کی ایک

ایسی بوٹی بھی اُگتی ہے

جو ہر قسم کے زہر کوزائل کرسکتی ہے

یہی سبب ہے کہ

زندگی کبھی نہیں مرتی

یہ جسموں کی دوئی

بس زمانی دھوکا ہے

زندگی تو ایک اکائی ہے

۔۔۔۔۔ خدا کی طرح

۱۔ لوکسٹا : لوکسٹا آف گول (locusta of gaul) رومن ایمپائر میں تاریخ کی پہلی پیشہ ور قاتلہ جو جڑی بوٹیوں سے ہر قسم کا زہر تیار کرنے میں مہارت رکھتی تھی۔اس بے رحم شاطر قاتلہ نے اپنی زندگی جڑی بوٹیوں سے زہر کشید کرنے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے میں وقف کردی تھی۔ اپنے تیار کردہ اَزہار کے نتائج سے اطمئینان کے لئے بادشاوں کی سرپرستی میں وہ ان کو سب سے پہلے غلاموں پر آزماتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024