غزل:پرویز اختر
غزل:پرویز اختر
Dec 10, 2025
پینثنگ- اسرار فاروقی


دیدبان شمارہ 30 نومبر
غزل پرویز اختر
کوئی تو بیچ میں آنا تھا
میں اسکا وہ میرا تھا
تیری آنکھ میں آنسو ہیں
مجھ کو تو مر جانا تھا
سب مج، جل کر رہتے تھے
کتنا اچھا لگتا تھا
قدروں کی بربادی میں
حصہّ تو ہم سب کا تھا
اک صحرا تھا دور تلک
پانی ڈھونڈ کے لانا تھا
احساسات سے عاری شہر
اس میں زندہ رہنا تھا
جتنے دکھ تھے میرے تھے
باقی سب افسانہ تھا
اب کے بادل میرے گھر
چھپّر پھاڑ کے آیا تھا
گھر میں آ کر مارا گیا
دنیا سے جیت آیا تھا
جانے کیا، کیا ہوتا ہے
جانے کیا، کیا سوچا تھا
سانس بھی لینا مشکل ہے
اک تو ہی تو میرا تھا
میرے دکھ ہی میرے تھے
باقی سب دنیا کا تھا
پیاس سے میری موت ہوئی
سب کا دامن گیلا تھا
ایسا وقت بھی گزرا ہے
میں بھی سویا کرتا تھا
...................................
دیدبان شمارہ 30 نومبر
غزل پرویز اختر
کوئی تو بیچ میں آنا تھا
میں اسکا وہ میرا تھا
تیری آنکھ میں آنسو ہیں
مجھ کو تو مر جانا تھا
سب مج، جل کر رہتے تھے
کتنا اچھا لگتا تھا
قدروں کی بربادی میں
حصہّ تو ہم سب کا تھا
اک صحرا تھا دور تلک
پانی ڈھونڈ کے لانا تھا
احساسات سے عاری شہر
اس میں زندہ رہنا تھا
جتنے دکھ تھے میرے تھے
باقی سب افسانہ تھا
اب کے بادل میرے گھر
چھپّر پھاڑ کے آیا تھا
گھر میں آ کر مارا گیا
دنیا سے جیت آیا تھا
جانے کیا، کیا ہوتا ہے
جانے کیا، کیا سوچا تھا
سانس بھی لینا مشکل ہے
اک تو ہی تو میرا تھا
میرے دکھ ہی میرے تھے
باقی سب دنیا کا تھا
پیاس سے میری موت ہوئی
سب کا دامن گیلا تھا
ایسا وقت بھی گزرا ہے
میں بھی سویا کرتا تھا
...................................

