فیصلہ

فیصلہ

Feb 18, 2024

افسانہ

مصنف

ترجمہ ۔ ابو فہد ندوی

دیدبان شمارہ۔

افسانہ : فیصلہ

افسانہ نگار: امانی محمد ناصر ، امارات  (المجلۃ العربیۃ، جنوری 2024  ،ریاض)

عربی سے ترجمہ: ابوفہد ندوی،  نئی دہلی

ڈاکٹر ماہر  کے سامنے والی کرسی پر ایک خاتون  پیشینٹ بیٹھی ہوئی تھیں ، وہ مضطرب اورمتذبذب دکھائی دے رہی تھیں،ڈاکٹر ماہر کے ہاتھ میں کچھ رپورٹس تھیں، جنہیں وہ الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔

’’مبارک ہو.... مصنوعی تخم ریزی کا تجربہ (test tube baby procedure) کامیاب رہا‘‘ ڈاکٹر ماہرنے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی پیشینٹ کو تہنیت پیش کرتے ہوئے کہا۔

’کیا یہ سچ ہے؟  یقین نہیں آتا ڈاکٹر صاحب....! آخر کار سات سال کے طویل انتظار کے بعد میں ماں بن ہی جاؤں گی؟‘‘  خاتون نے قدرے حیرت ، مسرت اور الجھن  کے ساتھ جواب دیا ۔

’’ میں نے کہا تھا نا کہ اللہ بہت مہربان ہے؟‘‘ ڈاکٹرماہر نے مختصرا کہا۔

’’یا اللہ ....یااللہ ....آخر کار.... ‘‘

’’تمہارے لیے کچھ دوائیاں لکھ رہا ہوں اورپرہیزی غذا تجویز کررہا ہوں، دوائیاں پابندی سے لینا اور پرہیز پرسختی کے ساتھ عمل کرنا‘‘

ڈاکٹر ماہرنے مسکراتے ہوئے اس کی بات قطع کی۔ اورنسخہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’یہ نسخہ لیجیے، اور ایک ماہ بعد ملیے.... اور ہاں تمہیں اور تمہارے شوہر کو ڈھیر ساری مبارکباد‘‘

خاتون نے مسکراتے ہوئے ڈاکٹر ماہر کے ہاتھ سے نسخہ لے لیا، وہ زیر لب کچھ بدبدارہی تھی .... وہ کیبن سے نکل کرویٹنگ روم میں آگئی جہاں اور لوگ بھی اپنی باری کے انتظار میں تھے۔

جب وہ ڈاکٹر ماہر کے کیبن سے باہرنکل رہی تھی تو اس کے ذہن میں خیالات کی آندھیاں چل رہی تھیں:

میں  تو بانجھ تھی اورپھر بھی اپنے اندرون میں خوشیاں تلاش کررہی تھی، میں اپنی والدہ کی زرخیز کوکھ کے بارے میں بھی غلط سوچنے لگی تھی  کہ ایسی زرخیزکوکھ اسے وراثتا کیوں نہیں مل سکی۔

مجھے ان دوائیوں نے کتنا پریشان کردیا تھا،جنہیں میں  اس لیے لیا کرتی تھی تاکہ  میں اپنے شوہر اور گھروالوں کو راضی وخوش رکھ سکوں، میرے آنسو میرے رخساروں پر بارش کے قطروں کی طرح بہتے تھے اور میں  انہیں پونچھتے پونچھتے عاجز آچکی تھی۔

پھرمیں نے قضاوقدر کے آگے سر تسلیم خم کردیا ،  دعائیں مانگتی رہی اور اپنے رب کو پکارتی رہی.... ’’ اے میرے رب میں تکلیف میں ہوں اورتو بہت رحم فرمانے والا ہے ‘‘

ظلم وقہر کا طوفان مجھے  ہر طرف سے گھیر رہا تھا اورمیں خود کو اس کی منجھدھار میں گھرا ہوا پارہی تھی۔ میرے بائیں طرف  میرے خاوند، داہنی طرف ان کی والدہ اور باقی اطراف میں ان کے والد اور بھائی گھیرا ڈالے رہتے تھے۔ اورمیں  اس طوفان میں غرق ہو رہی تھی، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی   گرم نگاہیں میرے وجود کو جھلسادیں  گی ، مجھے یہ خوف ستاتا رہتا تھا کہ میری زندگی برباد نہ ہوجائے، میں کہیں اپنے خاوند کو کھو نہ دوں....اور ان کی نگاہ میں ہمیشہ کے لیے بانجھ نہ رہ جاؤں۔

میں  نے مقدور بھر اس طوفان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، مگر غیر شعوری طور پراس کے بہاؤ میں بہتی چلی گئی۔ شاید اس لیے کہ میری ساری کوشش یہ تھی کہ میں  اپنے گھر کو منہدم ہونے سے بچاسکوں، جس گھرکی بنیادیں  میں نے اسی طوفان کے درمیان اٹھائی تھیں....میری حالت کچھ ایسی تھی کہ میرے لیے کسی طرح بھی ان حالات سے بھاگ پانا ممکن نہ تھا۔

آخرمیں نے کتنا انتظار کیا ....اور میں کس قدر مایوسیوں کی دلدل میں اترتی چلی گئی۔ میں  اپنے اندرون میں ایک آگ محسوس کرتی تھی جومیری آنتوں اور کوکھ کو جلائے جارہی تھی، میں  تنہائیوں میں اللہ سے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی دعا مانگا کرتی تھی.... ’’ اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا ‘‘

آخرمیں نے   اس سردوگرم طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے کتنے ہی سردو گرم موسم اسی طرح گزار دئے، محض اس خوف سے کہ  کہیں اپنے خاوند کو کھونہ دوں.... اسی خاوند کو جن کی دوسری شادی کی تیاری ان کی ماں بہت پہلے سے کررہی تھیں.... اگر یہ غریب ونادار نہ ہوتے توان کی ماں کا اب تک تو  کبھی کی ان کی دوسری شادی کرا چکی ہوتیں ۔

اور جیسے ہی انہیں خوشحالی نصیب  ہوگی  تو وہ  دوسری شادی کرنے میں ذرا بھی توقف نہیں کریں گے اور پھراپنے بچے کا وہی نام رکھیں گے جواس بچے کاہوسکتا ہےجوخود  اس وقت میری  کوکھ میں جنم لے رہا ہے....

یااللہ تیری رحمتیں بھی کیسی عجیب ہیں ....

مصنوعی تخم ریزی کے عمل کے مثبت  نتائج حاصل کرنے کے لیے  میں کتنی بے قرارتھی،تاکہ اس  سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنی ساس کے منہ پر دے ماروں....

لیکن  اس وقت جب اچانک  اس کے لیے ویٹنگ روم کا  دروازہ کھولا گیا تو وہ   اپنی ساس سے صرف اتنا ہی کہہ سکی: ’’میں امید سے ہوں‘‘  اس وقت  اس کی  آنکھوں میں چیلنج   اور خود اعتمادی تھی۔

ویٹنگ روم میں  ایک خاتون سوسن بھی بیٹھی اپنی باری کا انتظار کررہی تھی، وہ تقریبا تیس سال کی رہی ہوگی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی: ’’جب جب بھی میں امید سے ہوئی آپ نے آبارشن کروانے کا مطالبہ کیا، اگرآپ کے حساب سے دیکھا جائے تو جب تک یہ منحوس جنگ ہم پر مسلط رہے گی ہم ایک بھی بچہ پیدا کرنے اوراسے پالنے پوسنے کے لائق نہیں ہوسکیں گے.... دیکھئے آپ کی غیر منصفانہ سوچ  کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ  آپ  کواس  ڈھلتی ہوئی عمر میں بعض    جنسی عوارض بھی لاحق ہوگئے  ہیں  ۔ نتیجتا مجبور ہوکر اب ہمیں مصنوعی تخم ریزی کے ذریعہ بچہ حاصل کرنے کے لیے  اس کلینک پر آنا پڑا ہے....  مگر جنگ ابھی تک بھی جاری ہے۔ اب اگر یہ ناہنجار جنگ مزید اگلے دس سال تک چلتی رہے تو کیا ہم اسی طرح بے اولاد ے رہیں گے۔؟

ویٹنگ روم میں ایک اور جوڑا بھی اپنی باری کا منتظر تھا، یہ اسقاط کے حمل کے  کیس کے سلسلے میں آیا ہواتھا، ان کی عمریں بیس سال کے آس پاس تھیں، خاتون نے اپنے شوہر کو غمزدہ نظر سے دیکھا، جس کے چہرے پر اضطراب کی پرچھائیاں تھیں، وہ سوسن کی باتیں  بڑی غور سےسن رہا تھا....

اس نے اپنے  شوہر کے ہاتھ کو آہستہ سے چھوا اور اس کی طرف امید افزا نظروں سے دیکھا، اسے خیال ہوا کہ شاید وہ اس خاتون سوسن کی باتیں سن کر اسقاط حمل کا اپنا فیصلہ بدل دے.... مگر وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔

’’ اگر آپ اپنے پہلے بچے کوضائع کرنے کے لیے مجھے مجبور نہ کرتے تو کیا آج وہ دس سال کا نہیں ہوتا؟‘‘ سوسن سے اپنےشوہر سے سوال کیا، اس کا سلسلۂ  کلام ہنوز جاری تھا۔

اس کے بیس سالہ شوہر نے یہ بات سن کر نظریں جھکالیں اور اپنی غم زدہ بیوی کی طرف دیکھا۔

سوسن ابھی تک بھی سلسلہ کلام جاری رکھے ہوئے  تھی:

’’ ٹھیک ہے مازن!  تم کوئی حتمی  فیصلہ کرلو ، مصنوعی تخم ریزی کے ذریعہ بچہ حاصل کرنے اور پھر ابارشن کرنے  کا مطالبہ کرکے مجھے  پریشان مت کرنا‘‘

مازن گہری خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا،افسردہ خاطر اور غیر حاضرسا۔ اور سوسن غم واندوہ اور بے صبری کے عالم میں بولے جارہی تھی۔ یہاں تک دھیرے دھیرے اس کی آواز بیٹھتی اور گم ہوتی چلی گئی،جیسے وہ بے خیالی میں غرق ہو، اس کے ہونٹوں کی حرکات اور گھبراہٹ کے آثار کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔مازن نے اس کی تائید میں سر کو جنبش دی،گویا وہ اپنے پورے ہوش وحواس کے ساتھ اسے سن رہا تھا اور اس سے متفق تھا۔ لیکن اس کا دل خود اس کے اپنے حال  اور سوسن کی حالت سے پھٹا جارہا تھا۔اس ناہنجار جنگ نے آخر اسے  اولاد سے محروم کردیا تھا، وہ بھی اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ۔

سوسن اولاد حاصل کرنے کی اپنی رائے پر مصر تھی اور مازن اس کے برخلاف اپنی رائے پر مصر  تھا، اس بات کو لے کر کئی بار ان دونوں کے مابین چپقلش ہوچکی تھی۔ آخر کاراس نے مازن کے سامنے سپرافگندگی اختیار کرلی اور اسقاط حمل کے لیے راضی ہوگئی۔

اس کا سر بری طرح دکھ رہا تھا، وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا، اس کے دماغ پر اس کی وائف کی آواز ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔ ’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘

وہ اپنے آپ سے سوال کرنے لگاکہ وہ خود کس طرح شریک جنگ  ہوگیا حالانکہ اس نے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔اور یہ اس لیے کہ اس نے اپنے کئی بچوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے کھاٹ اتاردیا تھا، اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے موت اس کے شہرکے بچوں کو کھارہی ہے۔

شدت اضطراب سے اس کی حالت ایسی ہورہی تھی جیسے ابھی پھٹ پڑے گا، مگر اس کی بیوی مسلسل اپنے اضطراب کا اظہار کیے جارہی تھی۔ جبکہ اس کے دماغ میں بچوں کی کلکاریاں گونج رہی تھیں۔

وہ بڑی شدت کے ساتھ یہ بات محسوس کررہا تھا کہ  اس نے اپنی زندگی میں کئی غلط فیصلے کیے ہیں لیکن نومولود کے قتل جیسا کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ ویسے اسے خطا کہنا شاید مناسب بھی نہ ہو کیونکہ اس نے بچوں کا قتل ضرور کیا تھا مگر اس وقت جب انہوں نے نورحیات کی ایک کرن بھی نہیں دیکھی تھی۔تو یہ قتل تو نہیں ہوا؟

’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘ اس کی شریک حیات کا یہ جملہ ابھی تک بھی اس کے دماغ میں دھما چوکڑی مچائے ہوئے تھا۔

اب تو اسے یہ خوف بھی ستانے لگا تھا کہ اگر وہ مصنوعی تخم ریزی کے ذریعہ بھی بچہ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو کیا ہوگا؟ ۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو یہ خود اس کی وجہ سے ہی  ہوگا۔ اس کی شریک حیات عمردراز ہوگئی تھی اوردوبارہ بچے پیدا کرنے کے لائق ہونے والی نہ تھی، وہ بار بار کے استقرار حمل اور باربار کےاسقاط حمل کی وجہ سے بہت کمزور بھی ہوگئی تھی۔اور تو اور ،اب تو وہ  خود بھی  بعض جنسی عوارض سے دوچار تھا۔ اس کی شریک حیات کا وہ جملہ اب بھی اس کے دماغ میں ہتھوڑے برسارہا تھا: ’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘

یا اللہ میری مدد فرما۔ میں اپنےتمام  گناہوں سے توبہ کرتا ہوں...... وہ استغفار کرنے لگا...پھر اگلے ہی لمحے میں وہ سوچنے لگاکہ اب  توبہ  واستغفار بھی کچھ فائدہ دینے والانہیں ہے،جب  اس نے اپنے تمام بچوں کو قتل کردیا ہے، نورحیات کی کرن دیکھنے سے پہلے ہی۔

اسی لمحے اس کی نظریں اس بیس سالہ جوڑے کی طرف ملتفت ہوئیں، جو اسقاط حمل کے لیے آیا ہوا تھا۔دونوں اپنی ہی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔

’’ اسقاط حمل والی پیشینٹ  کون ہے ؟‘‘ اچانک ڈاکٹر کی آواز گونجی  اور وہ دونوں جیسے چونک سے گئے۔مگر ویٹنگ روم میں  بدستورخاموشی چھائی رہی۔

بیس سالہ نوجوان  اضطراری کیفیت کے ساتھ کھڑا ہوا۔ سوسن کا جملہ  اس کے سر میں بھی بادلوں کی طرح گھن گرج پیدا کررہا تھا۔’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘

اس نے ایک نظر سوسن اور اس کے شوہر پر ڈالی ، پھر ڈاکٹر ماہرکی طرف دیکھا اور پھراپنی بیوی کی طرف، جو اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی  اور مضطرب دکھائی دے رہی تھی...اس نے عجلت  واضطراب کے عالم میں  اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑااورڈاکٹر کو جواب دیتا ہوا کلینک سے باہر نکل گیا:

’’  نہیں ڈاکٹر صاحب! اسقاط حمل کے لیے کوئی پیشینٹ نہیں ہے‘

دیدبان شمارہ۔

افسانہ : فیصلہ

افسانہ نگار: امانی محمد ناصر ، امارات  (المجلۃ العربیۃ، جنوری 2024  ،ریاض)

عربی سے ترجمہ: ابوفہد ندوی،  نئی دہلی

ڈاکٹر ماہر  کے سامنے والی کرسی پر ایک خاتون  پیشینٹ بیٹھی ہوئی تھیں ، وہ مضطرب اورمتذبذب دکھائی دے رہی تھیں،ڈاکٹر ماہر کے ہاتھ میں کچھ رپورٹس تھیں، جنہیں وہ الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔

’’مبارک ہو.... مصنوعی تخم ریزی کا تجربہ (test tube baby procedure) کامیاب رہا‘‘ ڈاکٹر ماہرنے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی پیشینٹ کو تہنیت پیش کرتے ہوئے کہا۔

’کیا یہ سچ ہے؟  یقین نہیں آتا ڈاکٹر صاحب....! آخر کار سات سال کے طویل انتظار کے بعد میں ماں بن ہی جاؤں گی؟‘‘  خاتون نے قدرے حیرت ، مسرت اور الجھن  کے ساتھ جواب دیا ۔

’’ میں نے کہا تھا نا کہ اللہ بہت مہربان ہے؟‘‘ ڈاکٹرماہر نے مختصرا کہا۔

’’یا اللہ ....یااللہ ....آخر کار.... ‘‘

’’تمہارے لیے کچھ دوائیاں لکھ رہا ہوں اورپرہیزی غذا تجویز کررہا ہوں، دوائیاں پابندی سے لینا اور پرہیز پرسختی کے ساتھ عمل کرنا‘‘

ڈاکٹر ماہرنے مسکراتے ہوئے اس کی بات قطع کی۔ اورنسخہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’یہ نسخہ لیجیے، اور ایک ماہ بعد ملیے.... اور ہاں تمہیں اور تمہارے شوہر کو ڈھیر ساری مبارکباد‘‘

خاتون نے مسکراتے ہوئے ڈاکٹر ماہر کے ہاتھ سے نسخہ لے لیا، وہ زیر لب کچھ بدبدارہی تھی .... وہ کیبن سے نکل کرویٹنگ روم میں آگئی جہاں اور لوگ بھی اپنی باری کے انتظار میں تھے۔

جب وہ ڈاکٹر ماہر کے کیبن سے باہرنکل رہی تھی تو اس کے ذہن میں خیالات کی آندھیاں چل رہی تھیں:

میں  تو بانجھ تھی اورپھر بھی اپنے اندرون میں خوشیاں تلاش کررہی تھی، میں اپنی والدہ کی زرخیز کوکھ کے بارے میں بھی غلط سوچنے لگی تھی  کہ ایسی زرخیزکوکھ اسے وراثتا کیوں نہیں مل سکی۔

مجھے ان دوائیوں نے کتنا پریشان کردیا تھا،جنہیں میں  اس لیے لیا کرتی تھی تاکہ  میں اپنے شوہر اور گھروالوں کو راضی وخوش رکھ سکوں، میرے آنسو میرے رخساروں پر بارش کے قطروں کی طرح بہتے تھے اور میں  انہیں پونچھتے پونچھتے عاجز آچکی تھی۔

پھرمیں نے قضاوقدر کے آگے سر تسلیم خم کردیا ،  دعائیں مانگتی رہی اور اپنے رب کو پکارتی رہی.... ’’ اے میرے رب میں تکلیف میں ہوں اورتو بہت رحم فرمانے والا ہے ‘‘

ظلم وقہر کا طوفان مجھے  ہر طرف سے گھیر رہا تھا اورمیں خود کو اس کی منجھدھار میں گھرا ہوا پارہی تھی۔ میرے بائیں طرف  میرے خاوند، داہنی طرف ان کی والدہ اور باقی اطراف میں ان کے والد اور بھائی گھیرا ڈالے رہتے تھے۔ اورمیں  اس طوفان میں غرق ہو رہی تھی، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی   گرم نگاہیں میرے وجود کو جھلسادیں  گی ، مجھے یہ خوف ستاتا رہتا تھا کہ میری زندگی برباد نہ ہوجائے، میں کہیں اپنے خاوند کو کھو نہ دوں....اور ان کی نگاہ میں ہمیشہ کے لیے بانجھ نہ رہ جاؤں۔

میں  نے مقدور بھر اس طوفان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، مگر غیر شعوری طور پراس کے بہاؤ میں بہتی چلی گئی۔ شاید اس لیے کہ میری ساری کوشش یہ تھی کہ میں  اپنے گھر کو منہدم ہونے سے بچاسکوں، جس گھرکی بنیادیں  میں نے اسی طوفان کے درمیان اٹھائی تھیں....میری حالت کچھ ایسی تھی کہ میرے لیے کسی طرح بھی ان حالات سے بھاگ پانا ممکن نہ تھا۔

آخرمیں نے کتنا انتظار کیا ....اور میں کس قدر مایوسیوں کی دلدل میں اترتی چلی گئی۔ میں  اپنے اندرون میں ایک آگ محسوس کرتی تھی جومیری آنتوں اور کوکھ کو جلائے جارہی تھی، میں  تنہائیوں میں اللہ سے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی دعا مانگا کرتی تھی.... ’’ اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا ‘‘

آخرمیں نے   اس سردوگرم طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے کتنے ہی سردو گرم موسم اسی طرح گزار دئے، محض اس خوف سے کہ  کہیں اپنے خاوند کو کھونہ دوں.... اسی خاوند کو جن کی دوسری شادی کی تیاری ان کی ماں بہت پہلے سے کررہی تھیں.... اگر یہ غریب ونادار نہ ہوتے توان کی ماں کا اب تک تو  کبھی کی ان کی دوسری شادی کرا چکی ہوتیں ۔

اور جیسے ہی انہیں خوشحالی نصیب  ہوگی  تو وہ  دوسری شادی کرنے میں ذرا بھی توقف نہیں کریں گے اور پھراپنے بچے کا وہی نام رکھیں گے جواس بچے کاہوسکتا ہےجوخود  اس وقت میری  کوکھ میں جنم لے رہا ہے....

یااللہ تیری رحمتیں بھی کیسی عجیب ہیں ....

مصنوعی تخم ریزی کے عمل کے مثبت  نتائج حاصل کرنے کے لیے  میں کتنی بے قرارتھی،تاکہ اس  سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنی ساس کے منہ پر دے ماروں....

لیکن  اس وقت جب اچانک  اس کے لیے ویٹنگ روم کا  دروازہ کھولا گیا تو وہ   اپنی ساس سے صرف اتنا ہی کہہ سکی: ’’میں امید سے ہوں‘‘  اس وقت  اس کی  آنکھوں میں چیلنج   اور خود اعتمادی تھی۔

ویٹنگ روم میں  ایک خاتون سوسن بھی بیٹھی اپنی باری کا انتظار کررہی تھی، وہ تقریبا تیس سال کی رہی ہوگی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی: ’’جب جب بھی میں امید سے ہوئی آپ نے آبارشن کروانے کا مطالبہ کیا، اگرآپ کے حساب سے دیکھا جائے تو جب تک یہ منحوس جنگ ہم پر مسلط رہے گی ہم ایک بھی بچہ پیدا کرنے اوراسے پالنے پوسنے کے لائق نہیں ہوسکیں گے.... دیکھئے آپ کی غیر منصفانہ سوچ  کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ  آپ  کواس  ڈھلتی ہوئی عمر میں بعض    جنسی عوارض بھی لاحق ہوگئے  ہیں  ۔ نتیجتا مجبور ہوکر اب ہمیں مصنوعی تخم ریزی کے ذریعہ بچہ حاصل کرنے کے لیے  اس کلینک پر آنا پڑا ہے....  مگر جنگ ابھی تک بھی جاری ہے۔ اب اگر یہ ناہنجار جنگ مزید اگلے دس سال تک چلتی رہے تو کیا ہم اسی طرح بے اولاد ے رہیں گے۔؟

ویٹنگ روم میں ایک اور جوڑا بھی اپنی باری کا منتظر تھا، یہ اسقاط کے حمل کے  کیس کے سلسلے میں آیا ہواتھا، ان کی عمریں بیس سال کے آس پاس تھیں، خاتون نے اپنے شوہر کو غمزدہ نظر سے دیکھا، جس کے چہرے پر اضطراب کی پرچھائیاں تھیں، وہ سوسن کی باتیں  بڑی غور سےسن رہا تھا....

اس نے اپنے  شوہر کے ہاتھ کو آہستہ سے چھوا اور اس کی طرف امید افزا نظروں سے دیکھا، اسے خیال ہوا کہ شاید وہ اس خاتون سوسن کی باتیں سن کر اسقاط حمل کا اپنا فیصلہ بدل دے.... مگر وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔

’’ اگر آپ اپنے پہلے بچے کوضائع کرنے کے لیے مجھے مجبور نہ کرتے تو کیا آج وہ دس سال کا نہیں ہوتا؟‘‘ سوسن سے اپنےشوہر سے سوال کیا، اس کا سلسلۂ  کلام ہنوز جاری تھا۔

اس کے بیس سالہ شوہر نے یہ بات سن کر نظریں جھکالیں اور اپنی غم زدہ بیوی کی طرف دیکھا۔

سوسن ابھی تک بھی سلسلہ کلام جاری رکھے ہوئے  تھی:

’’ ٹھیک ہے مازن!  تم کوئی حتمی  فیصلہ کرلو ، مصنوعی تخم ریزی کے ذریعہ بچہ حاصل کرنے اور پھر ابارشن کرنے  کا مطالبہ کرکے مجھے  پریشان مت کرنا‘‘

مازن گہری خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا،افسردہ خاطر اور غیر حاضرسا۔ اور سوسن غم واندوہ اور بے صبری کے عالم میں بولے جارہی تھی۔ یہاں تک دھیرے دھیرے اس کی آواز بیٹھتی اور گم ہوتی چلی گئی،جیسے وہ بے خیالی میں غرق ہو، اس کے ہونٹوں کی حرکات اور گھبراہٹ کے آثار کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔مازن نے اس کی تائید میں سر کو جنبش دی،گویا وہ اپنے پورے ہوش وحواس کے ساتھ اسے سن رہا تھا اور اس سے متفق تھا۔ لیکن اس کا دل خود اس کے اپنے حال  اور سوسن کی حالت سے پھٹا جارہا تھا۔اس ناہنجار جنگ نے آخر اسے  اولاد سے محروم کردیا تھا، وہ بھی اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ۔

سوسن اولاد حاصل کرنے کی اپنی رائے پر مصر تھی اور مازن اس کے برخلاف اپنی رائے پر مصر  تھا، اس بات کو لے کر کئی بار ان دونوں کے مابین چپقلش ہوچکی تھی۔ آخر کاراس نے مازن کے سامنے سپرافگندگی اختیار کرلی اور اسقاط حمل کے لیے راضی ہوگئی۔

اس کا سر بری طرح دکھ رہا تھا، وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا، اس کے دماغ پر اس کی وائف کی آواز ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔ ’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘

وہ اپنے آپ سے سوال کرنے لگاکہ وہ خود کس طرح شریک جنگ  ہوگیا حالانکہ اس نے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔اور یہ اس لیے کہ اس نے اپنے کئی بچوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے کھاٹ اتاردیا تھا، اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے موت اس کے شہرکے بچوں کو کھارہی ہے۔

شدت اضطراب سے اس کی حالت ایسی ہورہی تھی جیسے ابھی پھٹ پڑے گا، مگر اس کی بیوی مسلسل اپنے اضطراب کا اظہار کیے جارہی تھی۔ جبکہ اس کے دماغ میں بچوں کی کلکاریاں گونج رہی تھیں۔

وہ بڑی شدت کے ساتھ یہ بات محسوس کررہا تھا کہ  اس نے اپنی زندگی میں کئی غلط فیصلے کیے ہیں لیکن نومولود کے قتل جیسا کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ ویسے اسے خطا کہنا شاید مناسب بھی نہ ہو کیونکہ اس نے بچوں کا قتل ضرور کیا تھا مگر اس وقت جب انہوں نے نورحیات کی ایک کرن بھی نہیں دیکھی تھی۔تو یہ قتل تو نہیں ہوا؟

’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘ اس کی شریک حیات کا یہ جملہ ابھی تک بھی اس کے دماغ میں دھما چوکڑی مچائے ہوئے تھا۔

اب تو اسے یہ خوف بھی ستانے لگا تھا کہ اگر وہ مصنوعی تخم ریزی کے ذریعہ بھی بچہ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو کیا ہوگا؟ ۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو یہ خود اس کی وجہ سے ہی  ہوگا۔ اس کی شریک حیات عمردراز ہوگئی تھی اوردوبارہ بچے پیدا کرنے کے لائق ہونے والی نہ تھی، وہ بار بار کے استقرار حمل اور باربار کےاسقاط حمل کی وجہ سے بہت کمزور بھی ہوگئی تھی۔اور تو اور ،اب تو وہ  خود بھی  بعض جنسی عوارض سے دوچار تھا۔ اس کی شریک حیات کا وہ جملہ اب بھی اس کے دماغ میں ہتھوڑے برسارہا تھا: ’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘

یا اللہ میری مدد فرما۔ میں اپنےتمام  گناہوں سے توبہ کرتا ہوں...... وہ استغفار کرنے لگا...پھر اگلے ہی لمحے میں وہ سوچنے لگاکہ اب  توبہ  واستغفار بھی کچھ فائدہ دینے والانہیں ہے،جب  اس نے اپنے تمام بچوں کو قتل کردیا ہے، نورحیات کی کرن دیکھنے سے پہلے ہی۔

اسی لمحے اس کی نظریں اس بیس سالہ جوڑے کی طرف ملتفت ہوئیں، جو اسقاط حمل کے لیے آیا ہوا تھا۔دونوں اپنی ہی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔

’’ اسقاط حمل والی پیشینٹ  کون ہے ؟‘‘ اچانک ڈاکٹر کی آواز گونجی  اور وہ دونوں جیسے چونک سے گئے۔مگر ویٹنگ روم میں  بدستورخاموشی چھائی رہی۔

بیس سالہ نوجوان  اضطراری کیفیت کے ساتھ کھڑا ہوا۔ سوسن کا جملہ  اس کے سر میں بھی بادلوں کی طرح گھن گرج پیدا کررہا تھا۔’’اگر جنگ مزید دس سالوں تک چلتی رہی تو کیا آپ ہمیں بے اولاد ہی رہنے دیں گے؟‘‘

اس نے ایک نظر سوسن اور اس کے شوہر پر ڈالی ، پھر ڈاکٹر ماہرکی طرف دیکھا اور پھراپنی بیوی کی طرف، جو اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی  اور مضطرب دکھائی دے رہی تھی...اس نے عجلت  واضطراب کے عالم میں  اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑااورڈاکٹر کو جواب دیتا ہوا کلینک سے باہر نکل گیا:

’’  نہیں ڈاکٹر صاحب! اسقاط حمل کے لیے کوئی پیشینٹ نہیں ہے‘

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024