فیکٹری کا آسیب
فیکٹری کا آسیب
Feb 4, 2023
دیدبان شمارہ فروری 2023
فیکٹری کا آسیب
سلمیٰ جیلانی
ان سلے کپڑے کے بہت سے تھان اوپر تلے رکھے تھے - کتنےہی کھلے ہوئے زمین میں بکھرے ہوئے تھے - ماسٹر نوشاد اور اس کے ساتھی قمیضوں کی کٹائی میں مصروف تھے -
اسی بڑے ہال میں ایک قطار میں لگی ہوئی سلائی مشینوں پر جھکی عورتیں اپنے کام میں مگن تھیں - یہ ایک عام سی لیکن بڑی گارمنٹ فیکٹری کا منظر تھا ، جہاں بظاہر سب کچھ نارمل لگ رہا تھا ، لیکن حقیقت میں کچھ دنوں سے ایک پرسرار خبر عورتوں میں گردش کر رہی تھی - اس خبر کا تعلق واش روم سے تھا جہاں سب سے پہلے سیما نے اک سیاہ ہیولیٰ دیکھا اور پھر وہ اتنی خوف زدہ ہو گئی کہ اس واقعہ کے بعد دوبارہ کام پر واپس ہی نہ آ سکی - ابھی عید سے ایک دن پہلے اس کے انتقال کی خبر نے ساتھی خواتین کو نہ صرف اداس کر دیابلکہ شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا -
آج بھی وہ سب خاموشی سے کام تو کر رہی تھیں لیکن ان کا دل انجانے خوف سے دوچار تھا - ایسا کیوں ہو رہا تھا کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا - وہ کام کرتے ہوئے دھیمے بلکہ سرگوشیوں میں فیکٹری میں نظر آنے والے اس بھوت کے متعلق باتیں بھی کرتی جا رہی تھیں - سعدیہ جو ان میں نسبتاً نو جوان اور نڈر تھی ، ذرا زور سے بولی " تم لوگ خومخواہ ڈر رہی ہو میں دیکھتی ہوں - بھوت کیسے مجھے ڈراتا ہے " یہ کہتے ہوے وہ سیدھی واش روم کی طرف چلی گئی - ابھی بمشکل پانچ منٹ ہوئے ہونگے کہ اس کی چیخوں سے برآمدہ گونجنے لگا - وہ بھاگتی ہوئی سیدھی ہال میں آ کر کپڑے کے تھانوں پر آن گری ، اس کے پیچھے فرزانہ اور نازنین تھیں - ان کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا - بس پھر کیا تھا ، سارے ہال میں ایک افراتفری پھیل گئی عورتیں چیختی چلاتیں ہال سے باہرکو بھاگنے لگیں ان میں سے کئی ایک ساتھ چھوٹے سے دروازے سے نکلنے کی کوشش میں ایک دوسرے پر گر گئیں - اس بھگڈر میں کتنی ہی زخمی ہو گئیں ، ادھر یہ ہنگامہ جاری تھاکہ کسی نے ہسپتال اور پولیس کو فون کر ڈالا اور کچھ ہی دیر میں ایمبولنسیں ہارنبجاتی ہوئی فیکٹری کے احاطے میں داخل ہونے لگیں-
--------
سامنے والے بلاک میں کھڑے محمود اوراسد تیار شدہ کپڑوں کے پیکٹ بکسوں میں ڈالتے اسی موضوع پر رائے زنی کررہے تھے-
محمود بولا ،" ارے یار یہ عورتوں کو کیا ہوگیا ہے --بلکل ہی پاگل ہو گئی ہیں "
اسد نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا " ہاں' یا تو یہ لوگ بہت ہی بیوقوف ہیں یا پھر بہت معصوم " معصوم تو ہر گز نہیں کہہ سکتے" ، محمود انہیں معصوم ماننے کو تیار نہ تھا" یہ سب حد سے بڑھی ہوئی توہم پرستی کا شکار ہورہی ہیں ، بھلا اس ماڈرن زمانے میں بھوت کہاں سے آ گئے"
ابھی وہ ایک دوسرے کو دلائل ہی دے رہےتھے کہ ایمبولنس کے ہارنوں نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی -
وہ بھی بھاگتے ہوے ہال میں پہنچے اور وہاں موجود زخمی عورتوں کو اٹھانے میں دوسروں کی مدد کرنے لگے
---------
ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں بھی یہ بھوت زدہ عورتیں مسلسل چیخ رہی تھیں ، سعدیہ کو ڈاکٹروں نے سکون آور دوا کے انجکشن دے دیے تھے لیکن پھر بھی وہ جیسے ہی ہوش میں آتی اور اس کی چیخ و پکار شروع ہو جاتی ،ابھی کچھ ہی منٹ پہلے اسے ایک انجکشن اور لگایا گیا چونکہ یہ انوکھا واقعہ ٹی وی چینلز پر بھی بار بارگردش کر رہا تھا ماحول میں عجیب سی سنسنی پھیلی ہوئی تھی ، نرس سمیہ حقیقت جاننے کے لئے کافی متجسس تھی اس نے سعدیہ سےاستفسار کیا " ہاں تو بی بی آپ نے سب سے پہلے ایسا کیا دیکھا تھا"
سعدیہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں ، اس نے کوئی جواب نہ دیا بس ہلکی سی چیخ ماری اور خاموش ہو گئی، نرس سمیہ نے دوبارہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا، اسی اثنا میں دوسری عورتوں کے چیخنے پر متوجہ ہو کر سعدیہ خودہی ساری کہانی دہرانے لگی وہ -- وہ میں نے ایک سیاہ سایہ دیکھا بہت ہی بڑا سایہ وہ کسی آدمی کا ہر گز نہیں ہو سکتا وہ ضرور کوئی جن یا بھوت تھا یہ کہتے ہوئے اس نےپھر چلانا شروع کر دیا جیسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا ھو-
وارڈ میں موجود دوسری عورتیں بھی ہسٹریائی انداز میں چیخ و پکار میں مبتلاتھیں - ڈاکٹر اپنی سی پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح انہیں پرسکون کیا جا سکے ،نرس سارا صبح سے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر انہیں دوائیں دیتی پھر رہی تھی ، ساتھ ہی ان سے انٹرویوز بھی جاری تھے فرزانہ نےگھگھیا تے ہوئے کہا " میں نے ایک عورت دیکھی جس نے سیاہ برقعہ پہنا ہوا تھا اور اس کے پاؤں الٹے تھے ، وہ بہت ہی لمبے قد کی تھی " یہ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے خوف جھانک رہا تھا ابھی وہ یہ کہہ ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک لڑکی اپنا نام لے کر چلانے لگی میرا نام سوہی ہے ، میرا نام سوہی ہے سوہی کی ماں جو پاس ہی کھڑی اسے قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی ، نرس سارا سے کہنے لگی ،سسٹر اس کا نام سدرہ ہے ، دیکھیں اتنا ڈر گئی ہے کہ اپنا نام تک بھول گئی ، ہاں ہاں میں بھول گئی جی سسٹر میں سدرہ ہوں ، یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا یہ سب فیکٹری کے بھوت کی وجہ سے ہو رہا ہے وہ یہ کہتے ہوئے رونے لگی میں اب وہاں کام نہیں کروں گی اور زور زور سےرونا شروع کر دیا بس ایک بار پھر سے وارڈ میں موجود عورتوں پر ہسٹیریا کا دورہ پڑگیا-
----------------
ڈاکٹرز اور دیگر میڈیکل اسٹاف کی میٹنگ جاری تھی ، سینئر ڈاکٹر نوید کا کہنا تھا" یہ اجتماعی ہسٹیریا کی ایک قسم ہے ، ایسا پہلےبھی کئی فیکٹریوں میں ہو چکا ہے ،
" وہاں کوئی زہریلی گیس بھی تو ہو سکتی ہے" سسٹر سارا جو کافی تجربہ کار تھی اپنی رائے دینا ضروری سمجھتی تھی -
" نہیں ان کے ٹیسٹ تو ایسا کچھ ظاہر نہیں کر رہے" ' ڈاکٹر عطیہ نے خیال ظاہر کیا،" یہ ماس ہسٹیریا ہی ہے اکثر فیکٹریوں میں کپڑوں کے رنگ ، کمیکلز اور مختلف چیزوں کی موجودگی، گندگی اور بوریت سب مل کر ایسا ماحول بنا دیتے ہیں جو عورتوں کو نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے"
" ہاں میں نے بھی انٹرنیٹ پرپڑھا تھا ، بنگلہ دیش کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں بھی ایسے ہی بھوت دیکھے گئے ہیں" نرس سمیہ نے شوشہ چھوڑا ، وہ اس معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہتی تھی ، میٹنگ کے بعد دونوں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں آخر بھوت فیکٹریوں میں کیا کر رہے ہیں انہیں اس بات کی تشویش تھی-
وارڈ کے باہر بیٹھی ہوئی فرزانہ کی بہن سعدیہ کی والدہ سے پر زور انداز میں کہہ رہی تھی " ہمیں ان ڈاکٹروں پر ذرا اعتبار نہیں ، یہ اچھی بات ہے کہ عبد الله شاہ غازی کا عرس اگلے ہی ہفتے ہے، ہم انہیں مزار پر لے جائیں گے اسی طرح اس بھوت سے پیچھا چھوٹے گا"
------------------
فیکٹری کی وہ ساری متاثرہ خواتین اتنی خوف زدہ تھیں کہ دوبارہ کام پر واپس نہیں آنا چاہتی تھیں، چار ہزار ملازمین میں سے آدھی تعداد کے گھر بیٹھ جانے سے کاروبار کو سخت نقصان کا سامنا تھا سیٹھ نفیس بہت پریشان تھے ، فیکٹری مینجر احمد نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا
" آپ نے دیکھا تھا --- ابھی پچھلے ہی ہفتے ہم نے مولوی رحمت کو بلوایا تھا ، عمل پڑھوانے کے لئے ، لیکن وہ کیسے چیخیں مارتے ہوئے بھاگے تھے"
" ہاں- یہ تو ٹھیک ہے، پھر اب کیا کرناچاہیے؟ سیٹھ نفیس نے پریشان لہجے میں جواب دیا " میں چاہتا ہوں کام فوری طور پرشروع ہو جائے - تم کو معلوم ہے اگر آرڈروقت پر تیار نہ ہوئے تو ہمیں آئندہ بھی مشکلات ہو سکتی ہیں، کتنا کومپٹیشن بڑھ گیا ہے" یہ کہتے ہوئے وہ ایکدم چونکے ، کہیں یہ کسی کی سازش تو نہیں ، ضرور کوئی ہمارے کاروبار کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے"
مینجر احمد کافی جہاندیدہ شخص تھا ،کچھ سوچتے ہوئے بولا ، " ہوں ، یہ بات خارج از امکان نہیں ، لیکن ان عورتوں میں سے کوئی بھی کام چھوڑ کر نہیں گئی - یعنی وہ سچ میں خوف زدہ ہیں ، اگر کسی دوسری فیکٹری میں چلی جاتیں- تو-میں سمجھتا کہ زیادہ پیسے کے لالچ میں کام چھوڑ گئی ہیں"
ابھی ان کی گفتگو جاری تھی کہ ڈاکٹر نویدکا فون آگیا
نفیس صاحب دراصل میڈکل ٹیم فیکٹری کے متاثرہ حصے کا معائینہ کرنا چاہتی ہے ، تاکہ اس قضیے کی اصل وجہ تک پہنچا جا سکے
ڈاکٹر نوید نے مزید وضاحت کرتے ہوے کہا " جو خواتین اس واقعے سے متاثر ہوئی ہیں وہ نفسیاتی مریض نہیں بلکہ وقتی وسوسوں کا شکار ہیں انہیں ایک ہفتہ آرام کرنے دیا جائے "-
جی ہاں کیوں نہیں ہم تو خود بھی یہی چاہتے ہیں سیٹھ نفیس نے سر ہلاتے ہوے جواب دیا-
ان تینوں کی فون کانفرنس کے بعد یہ طے کیا گیا کہ فیکٹری کو ایک ہفتے کے لئے جھاڑ پھونک اور صفائی کے لئے بندکر دیا جائے
-------------
ایک ہفتے بعد جب ورکرز فیکٹری میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے -
اتنا روشن دن پہلے کبھی نہ نکلا تھا، فیکٹری کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا ہر چیزاپنی جگہ سلیقے سے سجی تھی ، نئی آرام دہ کرسیاں اور چمکتی ہوئی مشینیں، سب سے بڑھ کر خواتین کے واش روم تھے جو کسی فائیوسٹار ہوٹل کے باتھ روم کا منظر پیش کر رہےتھے- یہی نہیں جانے کب کے داغ دھبے سب مٹ چکے تھے - نئے رنگ و روغن نے واش رومز کی صورت ہی بدل ڈالی تھی - وہ آسیب زدہ سیاہ پھپھوند کہیں غائب ہو چکی تھی اور اپنے ساتھ سارے جنوں بھوتوں کو بھی لے گئی تھی -
سامنے نوٹس بورڈ پر ڈاکٹر نوید اور انکے میڈکل بورڈ کی رپورٹ لگی تھی -
رپورٹ میں لکھا تھا " باتھ روم اور عورتوں کے کام کرنے کی جگہ پر بڑی مقدار میں لگے ہوئے بلیک مولڈ کی وجہ سے ان کو فریب نظر اور آسیبی کیفیات کا سامنا تھا-
---------------
٢٠١٢ میں فیکٹری میں اجتماعی ہسٹیریا کی نفسیات کے تناظر میں لکھی گئی ایک کہانی -
ہو سکتا ہے اس کہانی میں ادبی تخلیقیت دکھائی نہ دے لیکن اسے ایک نفسیاتی مسئلے کے حل تلاش کرنے کی کوشش کہی جا سکتی ہے
دیدبان شمارہ فروری 2023
فیکٹری کا آسیب
سلمیٰ جیلانی
ان سلے کپڑے کے بہت سے تھان اوپر تلے رکھے تھے - کتنےہی کھلے ہوئے زمین میں بکھرے ہوئے تھے - ماسٹر نوشاد اور اس کے ساتھی قمیضوں کی کٹائی میں مصروف تھے -
اسی بڑے ہال میں ایک قطار میں لگی ہوئی سلائی مشینوں پر جھکی عورتیں اپنے کام میں مگن تھیں - یہ ایک عام سی لیکن بڑی گارمنٹ فیکٹری کا منظر تھا ، جہاں بظاہر سب کچھ نارمل لگ رہا تھا ، لیکن حقیقت میں کچھ دنوں سے ایک پرسرار خبر عورتوں میں گردش کر رہی تھی - اس خبر کا تعلق واش روم سے تھا جہاں سب سے پہلے سیما نے اک سیاہ ہیولیٰ دیکھا اور پھر وہ اتنی خوف زدہ ہو گئی کہ اس واقعہ کے بعد دوبارہ کام پر واپس ہی نہ آ سکی - ابھی عید سے ایک دن پہلے اس کے انتقال کی خبر نے ساتھی خواتین کو نہ صرف اداس کر دیابلکہ شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا -
آج بھی وہ سب خاموشی سے کام تو کر رہی تھیں لیکن ان کا دل انجانے خوف سے دوچار تھا - ایسا کیوں ہو رہا تھا کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا - وہ کام کرتے ہوئے دھیمے بلکہ سرگوشیوں میں فیکٹری میں نظر آنے والے اس بھوت کے متعلق باتیں بھی کرتی جا رہی تھیں - سعدیہ جو ان میں نسبتاً نو جوان اور نڈر تھی ، ذرا زور سے بولی " تم لوگ خومخواہ ڈر رہی ہو میں دیکھتی ہوں - بھوت کیسے مجھے ڈراتا ہے " یہ کہتے ہوے وہ سیدھی واش روم کی طرف چلی گئی - ابھی بمشکل پانچ منٹ ہوئے ہونگے کہ اس کی چیخوں سے برآمدہ گونجنے لگا - وہ بھاگتی ہوئی سیدھی ہال میں آ کر کپڑے کے تھانوں پر آن گری ، اس کے پیچھے فرزانہ اور نازنین تھیں - ان کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا - بس پھر کیا تھا ، سارے ہال میں ایک افراتفری پھیل گئی عورتیں چیختی چلاتیں ہال سے باہرکو بھاگنے لگیں ان میں سے کئی ایک ساتھ چھوٹے سے دروازے سے نکلنے کی کوشش میں ایک دوسرے پر گر گئیں - اس بھگڈر میں کتنی ہی زخمی ہو گئیں ، ادھر یہ ہنگامہ جاری تھاکہ کسی نے ہسپتال اور پولیس کو فون کر ڈالا اور کچھ ہی دیر میں ایمبولنسیں ہارنبجاتی ہوئی فیکٹری کے احاطے میں داخل ہونے لگیں-
--------
سامنے والے بلاک میں کھڑے محمود اوراسد تیار شدہ کپڑوں کے پیکٹ بکسوں میں ڈالتے اسی موضوع پر رائے زنی کررہے تھے-
محمود بولا ،" ارے یار یہ عورتوں کو کیا ہوگیا ہے --بلکل ہی پاگل ہو گئی ہیں "
اسد نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا " ہاں' یا تو یہ لوگ بہت ہی بیوقوف ہیں یا پھر بہت معصوم " معصوم تو ہر گز نہیں کہہ سکتے" ، محمود انہیں معصوم ماننے کو تیار نہ تھا" یہ سب حد سے بڑھی ہوئی توہم پرستی کا شکار ہورہی ہیں ، بھلا اس ماڈرن زمانے میں بھوت کہاں سے آ گئے"
ابھی وہ ایک دوسرے کو دلائل ہی دے رہےتھے کہ ایمبولنس کے ہارنوں نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی -
وہ بھی بھاگتے ہوے ہال میں پہنچے اور وہاں موجود زخمی عورتوں کو اٹھانے میں دوسروں کی مدد کرنے لگے
---------
ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں بھی یہ بھوت زدہ عورتیں مسلسل چیخ رہی تھیں ، سعدیہ کو ڈاکٹروں نے سکون آور دوا کے انجکشن دے دیے تھے لیکن پھر بھی وہ جیسے ہی ہوش میں آتی اور اس کی چیخ و پکار شروع ہو جاتی ،ابھی کچھ ہی منٹ پہلے اسے ایک انجکشن اور لگایا گیا چونکہ یہ انوکھا واقعہ ٹی وی چینلز پر بھی بار بارگردش کر رہا تھا ماحول میں عجیب سی سنسنی پھیلی ہوئی تھی ، نرس سمیہ حقیقت جاننے کے لئے کافی متجسس تھی اس نے سعدیہ سےاستفسار کیا " ہاں تو بی بی آپ نے سب سے پہلے ایسا کیا دیکھا تھا"
سعدیہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں ، اس نے کوئی جواب نہ دیا بس ہلکی سی چیخ ماری اور خاموش ہو گئی، نرس سمیہ نے دوبارہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا، اسی اثنا میں دوسری عورتوں کے چیخنے پر متوجہ ہو کر سعدیہ خودہی ساری کہانی دہرانے لگی وہ -- وہ میں نے ایک سیاہ سایہ دیکھا بہت ہی بڑا سایہ وہ کسی آدمی کا ہر گز نہیں ہو سکتا وہ ضرور کوئی جن یا بھوت تھا یہ کہتے ہوئے اس نےپھر چلانا شروع کر دیا جیسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا ھو-
وارڈ میں موجود دوسری عورتیں بھی ہسٹریائی انداز میں چیخ و پکار میں مبتلاتھیں - ڈاکٹر اپنی سی پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح انہیں پرسکون کیا جا سکے ،نرس سارا صبح سے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر انہیں دوائیں دیتی پھر رہی تھی ، ساتھ ہی ان سے انٹرویوز بھی جاری تھے فرزانہ نےگھگھیا تے ہوئے کہا " میں نے ایک عورت دیکھی جس نے سیاہ برقعہ پہنا ہوا تھا اور اس کے پاؤں الٹے تھے ، وہ بہت ہی لمبے قد کی تھی " یہ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے خوف جھانک رہا تھا ابھی وہ یہ کہہ ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک لڑکی اپنا نام لے کر چلانے لگی میرا نام سوہی ہے ، میرا نام سوہی ہے سوہی کی ماں جو پاس ہی کھڑی اسے قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی ، نرس سارا سے کہنے لگی ،سسٹر اس کا نام سدرہ ہے ، دیکھیں اتنا ڈر گئی ہے کہ اپنا نام تک بھول گئی ، ہاں ہاں میں بھول گئی جی سسٹر میں سدرہ ہوں ، یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا یہ سب فیکٹری کے بھوت کی وجہ سے ہو رہا ہے وہ یہ کہتے ہوئے رونے لگی میں اب وہاں کام نہیں کروں گی اور زور زور سےرونا شروع کر دیا بس ایک بار پھر سے وارڈ میں موجود عورتوں پر ہسٹیریا کا دورہ پڑگیا-
----------------
ڈاکٹرز اور دیگر میڈیکل اسٹاف کی میٹنگ جاری تھی ، سینئر ڈاکٹر نوید کا کہنا تھا" یہ اجتماعی ہسٹیریا کی ایک قسم ہے ، ایسا پہلےبھی کئی فیکٹریوں میں ہو چکا ہے ،
" وہاں کوئی زہریلی گیس بھی تو ہو سکتی ہے" سسٹر سارا جو کافی تجربہ کار تھی اپنی رائے دینا ضروری سمجھتی تھی -
" نہیں ان کے ٹیسٹ تو ایسا کچھ ظاہر نہیں کر رہے" ' ڈاکٹر عطیہ نے خیال ظاہر کیا،" یہ ماس ہسٹیریا ہی ہے اکثر فیکٹریوں میں کپڑوں کے رنگ ، کمیکلز اور مختلف چیزوں کی موجودگی، گندگی اور بوریت سب مل کر ایسا ماحول بنا دیتے ہیں جو عورتوں کو نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے"
" ہاں میں نے بھی انٹرنیٹ پرپڑھا تھا ، بنگلہ دیش کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں بھی ایسے ہی بھوت دیکھے گئے ہیں" نرس سمیہ نے شوشہ چھوڑا ، وہ اس معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہتی تھی ، میٹنگ کے بعد دونوں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں آخر بھوت فیکٹریوں میں کیا کر رہے ہیں انہیں اس بات کی تشویش تھی-
وارڈ کے باہر بیٹھی ہوئی فرزانہ کی بہن سعدیہ کی والدہ سے پر زور انداز میں کہہ رہی تھی " ہمیں ان ڈاکٹروں پر ذرا اعتبار نہیں ، یہ اچھی بات ہے کہ عبد الله شاہ غازی کا عرس اگلے ہی ہفتے ہے، ہم انہیں مزار پر لے جائیں گے اسی طرح اس بھوت سے پیچھا چھوٹے گا"
------------------
فیکٹری کی وہ ساری متاثرہ خواتین اتنی خوف زدہ تھیں کہ دوبارہ کام پر واپس نہیں آنا چاہتی تھیں، چار ہزار ملازمین میں سے آدھی تعداد کے گھر بیٹھ جانے سے کاروبار کو سخت نقصان کا سامنا تھا سیٹھ نفیس بہت پریشان تھے ، فیکٹری مینجر احمد نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا
" آپ نے دیکھا تھا --- ابھی پچھلے ہی ہفتے ہم نے مولوی رحمت کو بلوایا تھا ، عمل پڑھوانے کے لئے ، لیکن وہ کیسے چیخیں مارتے ہوئے بھاگے تھے"
" ہاں- یہ تو ٹھیک ہے، پھر اب کیا کرناچاہیے؟ سیٹھ نفیس نے پریشان لہجے میں جواب دیا " میں چاہتا ہوں کام فوری طور پرشروع ہو جائے - تم کو معلوم ہے اگر آرڈروقت پر تیار نہ ہوئے تو ہمیں آئندہ بھی مشکلات ہو سکتی ہیں، کتنا کومپٹیشن بڑھ گیا ہے" یہ کہتے ہوئے وہ ایکدم چونکے ، کہیں یہ کسی کی سازش تو نہیں ، ضرور کوئی ہمارے کاروبار کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے"
مینجر احمد کافی جہاندیدہ شخص تھا ،کچھ سوچتے ہوئے بولا ، " ہوں ، یہ بات خارج از امکان نہیں ، لیکن ان عورتوں میں سے کوئی بھی کام چھوڑ کر نہیں گئی - یعنی وہ سچ میں خوف زدہ ہیں ، اگر کسی دوسری فیکٹری میں چلی جاتیں- تو-میں سمجھتا کہ زیادہ پیسے کے لالچ میں کام چھوڑ گئی ہیں"
ابھی ان کی گفتگو جاری تھی کہ ڈاکٹر نویدکا فون آگیا
نفیس صاحب دراصل میڈکل ٹیم فیکٹری کے متاثرہ حصے کا معائینہ کرنا چاہتی ہے ، تاکہ اس قضیے کی اصل وجہ تک پہنچا جا سکے
ڈاکٹر نوید نے مزید وضاحت کرتے ہوے کہا " جو خواتین اس واقعے سے متاثر ہوئی ہیں وہ نفسیاتی مریض نہیں بلکہ وقتی وسوسوں کا شکار ہیں انہیں ایک ہفتہ آرام کرنے دیا جائے "-
جی ہاں کیوں نہیں ہم تو خود بھی یہی چاہتے ہیں سیٹھ نفیس نے سر ہلاتے ہوے جواب دیا-
ان تینوں کی فون کانفرنس کے بعد یہ طے کیا گیا کہ فیکٹری کو ایک ہفتے کے لئے جھاڑ پھونک اور صفائی کے لئے بندکر دیا جائے
-------------
ایک ہفتے بعد جب ورکرز فیکٹری میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے -
اتنا روشن دن پہلے کبھی نہ نکلا تھا، فیکٹری کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا ہر چیزاپنی جگہ سلیقے سے سجی تھی ، نئی آرام دہ کرسیاں اور چمکتی ہوئی مشینیں، سب سے بڑھ کر خواتین کے واش روم تھے جو کسی فائیوسٹار ہوٹل کے باتھ روم کا منظر پیش کر رہےتھے- یہی نہیں جانے کب کے داغ دھبے سب مٹ چکے تھے - نئے رنگ و روغن نے واش رومز کی صورت ہی بدل ڈالی تھی - وہ آسیب زدہ سیاہ پھپھوند کہیں غائب ہو چکی تھی اور اپنے ساتھ سارے جنوں بھوتوں کو بھی لے گئی تھی -
سامنے نوٹس بورڈ پر ڈاکٹر نوید اور انکے میڈکل بورڈ کی رپورٹ لگی تھی -
رپورٹ میں لکھا تھا " باتھ روم اور عورتوں کے کام کرنے کی جگہ پر بڑی مقدار میں لگے ہوئے بلیک مولڈ کی وجہ سے ان کو فریب نظر اور آسیبی کیفیات کا سامنا تھا-
---------------
٢٠١٢ میں فیکٹری میں اجتماعی ہسٹیریا کی نفسیات کے تناظر میں لکھی گئی ایک کہانی -
ہو سکتا ہے اس کہانی میں ادبی تخلیقیت دکھائی نہ دے لیکن اسے ایک نفسیاتی مسئلے کے حل تلاش کرنے کی کوشش کہی جا سکتی ہے