سدرہ سحر عمران کی نظمیں

سدرہ سحر عمران کی نظمیں

Apr 16, 2023

مصنف

سدرہ سحر عمران

شمارہ

شمارہ - ١٨

دیدبان شمارہ ۔ ۱۸

سدرہ سحر عمران کی نظمیں

خواب کا تیسرا پہر

ایک رنگ

جو تمہاری آنکھوں سے

خوف کھاتے ہوئے مرگیا

میرے چہرے پر

ہنستی ہوئی عورت

پینٹ کرسکتا تھا

ایک پھول

جو تمہارے سینے کی

شاخ پر اٹکا ہوا تھا

تمہارے لمس کی

خوشبو نہ ملنے سے

مرجھاگیا

ایک ستارہ

جو قافلے سے بچھڑ گیا

میری ہتھیلی پر

تمہارا ساتھ اگاسکتا تھا

لیکن!

ہجر کو موت نہیں آئی!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری تنہائی ٹوٹ جائے گی


بارش کی تنہائی ٹوٹ جائے گی

جب پانی سے دھواں اٹھ رہا ہوگا

تم اپنے آخری دنوں کے سورج

بدن کی تہوں میں

چھپاتے جانا

روشنی۔۔۔

تمہیں کاٹ کھانے کو دوڑے گی

اور آوازیں

تمہیں زنجیروں کی طرح باندھ کر

تنہائی کے نچلےجہنم میں

پھینک دیں گی

تم آگ کے پھول بناکر بیچنا

اور گونگے پن کے بدلے

کچھ پتھر خریدکر

آسمان کے دریا میں اچھال دینا

!!میری تنہائی ٹوٹ جائے گی

سدرہ سحر عمران

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہرکانام:عورت

بہت سے مردتنہائی میں

گھنگھرو دکھائی دیتے ہیں

بہت سی عورتیں چوراہوں پر

کوٹھے کے ٹکٹ بیچتی ہیں

ان کی ہنسی ۔۔۔

ماچس کی تیلی جیسی ہے

اور پاؤں ۔۔۔

مردوں کی زبانوں میں گھرے رہتے ہیں

مرد اپنے گھروں کی کھڑکیاں

بند ہوتے ہی

اپنے گریبانوں کے بٹن کھول لیتے ہیں

عورتیں اپنی پلکوں پر

دودوگز کی سیاہ راتیں

نچاتے ہوئے

مردوں کے ناپ کا جوتا بن جاتی ہیں

اس شہر کے ہر دروازے پر

ایک گالی لکھی ہے

اور ہر مرد کا دل

ایک ہی عورت کے پاس ورڈ سے کھلتا ہے

ظل الہی!

آپ کے جاگنے کا وقت گزر رہا ہے

ہم رات کا جنم نہیں روک سکیں گے

ظل الہی!

ہر سڑک

لاش میں بدل چکی ہے

شہر کےگلدان میں

آنسو کھل گئے

تابوتوں کی لے پر

بین رقصاں ہے

دیکھئے

موت کس قدر خوب صورت ناچتی ہے

ظل الہی

موت کا مجرا دیکھیے

۔۔۔۔۔۔۔۔

موت کے سو سال

ہم نے اپنی آنکھوں کی

کالک مانجھ کر

تمہارے دن اجالےہیں

جب کسی گلے میں پھنسی ہوئی

آخری چیخ

ہمارے نام کے ہجوں پر

دف بجائے گی

ہمیں سلگا دیا جائے گا

آگ ۔۔۔

ہمیں ریشم کی طرح کتر گئی

ہم نے جسم کی چمنیوں پر

ہجر کے پتھر ابالے

پیروں میں سمندر بھرا

اور زندگی کو پتنگ کی طرح

دشمن کے آسمان پر

اڑادیا۔۔۔

کاش ۔۔۔

مٹئ کو

لکڑی کے میز کی طرح کاٹا جاسکتا

ہم خود کو چار ٹکڑوں میں

منقسم کرتے

اور جرگہ ہماری موت پر

طوائفیں بلاتا

شیشے کی دیوار پر

برسوں سے

ایک خواب رینگ رہا تھا

تمہاری آنکھ جیسا

اور ہم زہر بنانے کے کھیل میں

اول آئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت چل رہا ہے

خود سے باتیں کرتے ہوئے

بڑبڑاتے

کسی تنک مزاج بوڑھے آدمی کی طرح

گالم گلوچ کرتے

گلی سے پتھر اٹھاکر

ان راستوں کی طرف پھینکتے ہوئے

جو اس کے پیچھے دیر تک بھونکتے رہتے ہیں

وقت چل رہا ہے

پھٹی ہوئی ایڑیوں میں

زندگی کی دھول اڑس کر

اس کے پیروں میں جلتے سورج کی

ٹوٹی ہوئی چپلیں ہیں

تیز دھار کے سائے چبھتے رہتے ہیں

مگر

سانس لینے والی گھڑی کے سیل

آخری دم پر ہیں

وقت چل رہا ہے

نبض کی گھنٹیوں کے ساتھ

دروازے بجتے ہیں

کوئی کھولنے نہیں جاتا

دستکوں کی سانس پھولنے لگی ہے

کوئی چاپ سر نہیں اٹھاتی

شاید تمام لوگ مر چکے

وقت چل رہا ہے

دیدبان شمارہ ۔ ۱۸

سدرہ سحر عمران کی نظمیں

خواب کا تیسرا پہر

ایک رنگ

جو تمہاری آنکھوں سے

خوف کھاتے ہوئے مرگیا

میرے چہرے پر

ہنستی ہوئی عورت

پینٹ کرسکتا تھا

ایک پھول

جو تمہارے سینے کی

شاخ پر اٹکا ہوا تھا

تمہارے لمس کی

خوشبو نہ ملنے سے

مرجھاگیا

ایک ستارہ

جو قافلے سے بچھڑ گیا

میری ہتھیلی پر

تمہارا ساتھ اگاسکتا تھا

لیکن!

ہجر کو موت نہیں آئی!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری تنہائی ٹوٹ جائے گی


بارش کی تنہائی ٹوٹ جائے گی

جب پانی سے دھواں اٹھ رہا ہوگا

تم اپنے آخری دنوں کے سورج

بدن کی تہوں میں

چھپاتے جانا

روشنی۔۔۔

تمہیں کاٹ کھانے کو دوڑے گی

اور آوازیں

تمہیں زنجیروں کی طرح باندھ کر

تنہائی کے نچلےجہنم میں

پھینک دیں گی

تم آگ کے پھول بناکر بیچنا

اور گونگے پن کے بدلے

کچھ پتھر خریدکر

آسمان کے دریا میں اچھال دینا

!!میری تنہائی ٹوٹ جائے گی

سدرہ سحر عمران

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہرکانام:عورت

بہت سے مردتنہائی میں

گھنگھرو دکھائی دیتے ہیں

بہت سی عورتیں چوراہوں پر

کوٹھے کے ٹکٹ بیچتی ہیں

ان کی ہنسی ۔۔۔

ماچس کی تیلی جیسی ہے

اور پاؤں ۔۔۔

مردوں کی زبانوں میں گھرے رہتے ہیں

مرد اپنے گھروں کی کھڑکیاں

بند ہوتے ہی

اپنے گریبانوں کے بٹن کھول لیتے ہیں

عورتیں اپنی پلکوں پر

دودوگز کی سیاہ راتیں

نچاتے ہوئے

مردوں کے ناپ کا جوتا بن جاتی ہیں

اس شہر کے ہر دروازے پر

ایک گالی لکھی ہے

اور ہر مرد کا دل

ایک ہی عورت کے پاس ورڈ سے کھلتا ہے

ظل الہی!

آپ کے جاگنے کا وقت گزر رہا ہے

ہم رات کا جنم نہیں روک سکیں گے

ظل الہی!

ہر سڑک

لاش میں بدل چکی ہے

شہر کےگلدان میں

آنسو کھل گئے

تابوتوں کی لے پر

بین رقصاں ہے

دیکھئے

موت کس قدر خوب صورت ناچتی ہے

ظل الہی

موت کا مجرا دیکھیے

۔۔۔۔۔۔۔۔

موت کے سو سال

ہم نے اپنی آنکھوں کی

کالک مانجھ کر

تمہارے دن اجالےہیں

جب کسی گلے میں پھنسی ہوئی

آخری چیخ

ہمارے نام کے ہجوں پر

دف بجائے گی

ہمیں سلگا دیا جائے گا

آگ ۔۔۔

ہمیں ریشم کی طرح کتر گئی

ہم نے جسم کی چمنیوں پر

ہجر کے پتھر ابالے

پیروں میں سمندر بھرا

اور زندگی کو پتنگ کی طرح

دشمن کے آسمان پر

اڑادیا۔۔۔

کاش ۔۔۔

مٹئ کو

لکڑی کے میز کی طرح کاٹا جاسکتا

ہم خود کو چار ٹکڑوں میں

منقسم کرتے

اور جرگہ ہماری موت پر

طوائفیں بلاتا

شیشے کی دیوار پر

برسوں سے

ایک خواب رینگ رہا تھا

تمہاری آنکھ جیسا

اور ہم زہر بنانے کے کھیل میں

اول آئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت چل رہا ہے

خود سے باتیں کرتے ہوئے

بڑبڑاتے

کسی تنک مزاج بوڑھے آدمی کی طرح

گالم گلوچ کرتے

گلی سے پتھر اٹھاکر

ان راستوں کی طرف پھینکتے ہوئے

جو اس کے پیچھے دیر تک بھونکتے رہتے ہیں

وقت چل رہا ہے

پھٹی ہوئی ایڑیوں میں

زندگی کی دھول اڑس کر

اس کے پیروں میں جلتے سورج کی

ٹوٹی ہوئی چپلیں ہیں

تیز دھار کے سائے چبھتے رہتے ہیں

مگر

سانس لینے والی گھڑی کے سیل

آخری دم پر ہیں

وقت چل رہا ہے

نبض کی گھنٹیوں کے ساتھ

دروازے بجتے ہیں

کوئی کھولنے نہیں جاتا

دستکوں کی سانس پھولنے لگی ہے

کوئی چاپ سر نہیں اٹھاتی

شاید تمام لوگ مر چکے

وقت چل رہا ہے

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024