افسانہ: غم سے نجات پائے کیوں

افسانہ: غم سے نجات پائے کیوں

Apr 16, 2023

ایک منفرد اسلوب کا بیانیہ

مصنف

طارق چھتاری

شمارہ

شمارہ - ١٨

دیدبان شمارہ ۔۱۸

غم سے نَجات پائے کیوں

طارق چھتاری

شکستہ دیوارودر، ہرسُوبیاباں، قیامت خیزیہ منظر کہ بوسیدہ محراب کے نیچے شطرنجی بچھا کر مرزا نوشہ نے سیاہ مہروں کو بساط پر یوں سجایا گویا ان کی فتح لازم ہو اور مدِّ مقابل کی شکست ملزوم مرزا نے فرغل سمیٹا اور دوزانو بیٹھ کر پیادے کو ایک خانہ آگے بڑھادیا۔ دوسری جانب کا سفید پیادہ ایک ساتھ دو خانے آگے بڑھ گیا۔

”یہ کیا ہوااور کیوں کر ہوا؟“انہوں نے سوال کرنا چاہا لیکن جب نظر اٹھا کر دیکھا تو پایا کہ وہاں کوئی نہیں ہے۔

”معلوم ہوتا ہے سفید پیادے خود مختار ہیں۔“

دراصل چال چلنے والا سب کی نظروں سے پوشیدہ تھااور اس نے کھیل کے بیشتر اصول بھی تبدیل کر دیے تھے۔اس کا پیادہ ہمیشہ پہلی چال دو خانے چلتا تھا۔

مرزا اسداللہ خاں غالب نے چار چھ چالوں میں ہی قلعہ بنا لیا اور وزیر ،ہاتھی،اونٹ اور ڈھائی چال چلنے والے گھوڑے کی پاسبانی میں اپنے بادشاہ کو محفوظ کر لیا۔وقت کے بازی گر نے کیا چال چلی کہ سفید مہرے ’بِشپ،نائٹ، روک اور پَون‘اس طرح اپنا اپنا مقام متعین کرنے لگے کہ کوئین قلعے کی سب سے طاقتور محافظ بن گئی۔ دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھنے والے اسداللہ ،خان بہادر، نظامِ جنگ نہایت احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے مگر جانے کیسے بساط الٹ گئی۔چوسر بچھائی تو سب گوٹیاں بکھر گئیں اور پیچھے سے آکر شہر کوتوال نے نجم الدولہ ،دبیر الملک مرزا غالب کو قمار خانہ چلانے کے جرم میں گرفتار کر لیا کہ کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف۔ فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں۔ ستم زدگاں کے مکان کی طرح تنگ قیدخانہ فرنگ کی ہیبت ناک دیواریں ،موٹی موٹی آہنی سلاخیں ،نیچی چھت اور چھت سے لگے روشن دان کہ جن سے روشنی کی بجائے کمرے میں تاریکی داخل ہوتی تھی۔کوئی پوچھے کہ یہ قیدی کون ہے تو تم ہی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا؟یہی کہ ایک قمار باز، تماشبین اور بادہ خوار کہ وتیرہ جس کا آوارگی یایہ کہ شاعر،ولی اور فلسفی ، جس کی آنکھ سے لہو ٹپکتا ہے اور دل جسم کے ساتھ جل کر راکھ ہو گیا ہے۔مدّ تِ قید چھ ماہ قرار پائی ہے اور رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔سشن جج باوجود ے کہ اس کا دوست ہے اور اکثر صحبتوں میں بے تکلّفانہ ملتا ہے،اس نے بھی اِغماض اور تغافل اختیار کیا۔صدر میں اپیل کی مگر کسی نے نہ سنی اور وہی حکم بحال رہا۔

اب مرزاغالب کسی محفل ِسخن میں نہیں جیل خانے میں تھے۔وہ بیقراری کہ ہائے ہائے۔چارو ناچار کیا کرتے، کبھی صبر کیا اور کبھی شکوہ۔زندگی کچھ اس ڈھب سے گزر رہی تھی کہ رات میں چاند گرہن لگتا اور دن میں سورج سَوا نیزے پر اُتر آتا۔ آنکھیں نہ بند ہوتی تھیں اور نہ کھلتی تھیں کہ ایک شب نیم باز آنکھوں سے خواب دیکھا : عمائدین ِشہر اور منتخب شعراءجمع ہیں، محفل شباب پر ہے۔اِدھر محمد ابراہیم ذوق ،نواب ضیاالدین نیّر،مفتی صدرالدین آزردہ،امام بخش صہبائی تو اُدھر سید غلام علی وحشت ،حکیم مومن خاں مومن ،نواب شیفتہ،لالہ مہیش داس اور ہر گوپال تَفتہ۔ سامنے تاجدارِ ہندوستان ابو ظفر سراج الدین بہادرشاہ۔

شہنشاہِ فلک منظر، بہادر شاہ ظفر اٹھتے ہیں اور چھ پارچے کا خِلعت مع تین رقومِ جواہر یعنی جِیغہ، سرپیچ اور حمائلِ مروارید ایک نقرئی تشت میں رکھ کر غالب ِ خستہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ مرزا کی آنکھیں بند ہو نے لگتی ہیں کہ محسوس ہوا شاہ نے اپنا دست ِ شفقت ان کی پیشانی پر رکھ دیا ہے اور اس کے بعد ایک بے کس ضعیف بادشاہ کی کانپتی ہوئی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔

”مرزا نوشہ اٹھو۔“

مرزا اسداللہ خاں غالب کی آنکھ کھل گئی۔ سامنے قید خانے کا دربان کھڑا تھا۔

”میرے بھائی سنتے ہو؟ ذرا نزدیک تو آوکچھ تو بتلاؤکہ میں کس جرم میں گرفتار ہوا؟“

دربان آخر کیا جواب دیتا ۔قریب آیا اور بولا ۔ ”کچھ درکار ہے کیا؟“

”بے شک۔“

”کیاچاہیے حضور؟“

”محض ایک تپائی۔“

”تپائی؟ لیکن کیوں؟“

”مطمئن رہو دربان۔“

”کیا فرار ہونا چاہتے ہیں یا پھندا لگا کر مرنا؟“

”فرار کی حاجت نہیں اور موت میری قسمت نہیں کہ اس کا ایک دن معیّن ہے۔“

دربان باہر نکلا،سلاخوں کی زنجیر میں تالا لگایا اور تھوڑی دیر بعد لکڑی کی ایک چھوٹی میز لے کر آگیا۔

”بہت مشکل سے لایا ہوں مرزاصاحب ۔“

”جیتے رہو،آفریں،صد ہزار آفریں۔“

دربان مرزا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا لیکن چھپ کر دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر وہ اس میز کا کیا کریں گے؟ غالب روزن کو تکتے رہے، دیر تک تکا کیے، بالآخر صبح ہوئی اور سورج نکل آیا۔ حبس گزیدہ غالب نے دیوار کے سہارے میز لگائی اور اس پر چڑھ گئے۔دربان چوکنّا ہوگیا۔ وہ ایک ہی جست میں مرزا کو گرفت میں لینا چاہتا تھا،مگر کچھ ایسا دیکھا کہ بے حس وحرکت بُت بنا کھڑا رہا۔دراصل سوختہ ساماں مرزا غالب کا چہرہ یکایک آتَش رنگ ہو گیا تھا اور پھر لمحے بھر میں ہی سیاہ پڑ گیا، گویا ان کا دل سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیاہو۔مرزاغالب بمشکل تمام میز سے اترے ۔چہرہ فق تھا اور جسم لرز رہا تھا۔ دربان قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ مرزا نے جبیں سے پسینہ پونچھا اور خلاءمیں گھورنے لگے۔گمان گزرا کہ وہ اپنے کو اپنا غیر تصور کر رہے ہیں۔

”مرزا صاحب آپ کی اس حیرانی و پریشانی کا سبب؟“

”کیا تم جانتے ہو دربان کہ باہر ہوا کیا ہے؟ “اتنا کہا اور روشن دان پر نگاہ جما دی۔

”آپ نے باہر ایسا کیا دیکھ لیا مرزا صاحب کہ آپ کی یہ حالت“

”ابھی میرے حواس درست نہیں،یکتائے روزگار یہ غالب فی الوقت تنہائی چاہتا ہے۔“

دربان چلا گیا۔لیکن وہ ہر روز دیکھتا کہ مرزا غالب روشن دان سے باہر جھانکتے ہیں اور اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ دربان تجربے کار تھا، اسے پورا یقین تھا کہ مرزا قید کی تنہائی سے گھبرا گئے ہیں۔ کھلی فضا میں سانس لینے اور انسانوں کے درمیان جانے کی خواہش ہی ان کی اس حالت کا سبب ہے۔ ان کے لیے تو نہ وہ زمانہ رہا، نہ وہ لوگ، جن کے ساتھ شطرنج اور چوسر کی بازیاں لگتی تھیں اور ساغر و مینا کی محفلیں جمتی تھیں۔

اب مرزا غالب کی سزا کے تین ماہ مکمّل ہو گئے تھے۔دن ڈھل رہ اتھا ،شب کی آمد آمد تھی۔ابھی مشعلیں روشن نہیں کی گئی تھیں ۔مرزا رنج سے خوگر ہو چکے تھے اور ان کی تمام مشکلیں آسان ہو گئی تھیں۔ وہ گاؤتکئے پر نیم دراز تھے کہ اسی پل لوہے کا دروازہ کھلا۔ دو سائے رینگتے ہوئے نظر آئے ۔ایک نے قدم بڑھا کر آبنوسی کشتی میز پر رکھ دی۔اس میں کشمش ،بادام اور آخروٹ سے بھرا پیالہ اور ولایتی شراب کا شیشہ رکھا تھا۔

”دربان ! تمہارے ہم راہ کون ہے؟“

”حضور،نواب مصطفی خاں۔“

غالب کے چہرے پر شادمانی کے نقوش ابھر آئے۔

”تو اے کہ شیفتہ و حسرتی لقب داری۔“

”آداب مرزا نوشہ“

کسی نے مشعل جلا دی اور کمرہ روشنی سے بھر گیا۔

”گویا کہ آج رحمت ِ حق بشر کی شکل میں آئی ہے۔“ مرزا غالب نے کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔نواب صاحب جہانگیر آباد مصطفی خاں شیفتہ کو بھی اپنے بوریے پر بٹھا لیا۔

”مرزا صاحب آپ کے لیے خوش خبری ہے۔“

”اب نہ اچھی خبر سے خوشی ہوتی ہے اور نہ بری خبر سے آزردگی۔“غالب تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر بولے۔ ”میں واقف ہوں کہ شیفتہ نے ہمیشہ مجھ سے دوستی اور مہربانی کا برتاوکیا ہے۔“

” مرزا صاحب یہ آپ کا حق ہے۔“

”مِنّت کش ہوں تمہارا۔“

نواب شیفتہ نے مرزا صاحب کو رہائی کا پروانہ دکھاتے ہوئے کہا۔

”آدھی معیاد گزرنے کے بعد مجسٹریٹ کو رحم آیا اور صدر میں آپ کی رہائی کی رپورٹ کی اور وہا ں سے حکم رہائی کا آگیا۔“

مرزا اسد اللہ خاں غالب بجائے خوش ہونے کے فکر مند نظر آنے لگے۔

” ہائے یہ کیا غضب ہوا۔“ علاوہ اس کے کچھ نہ کہہ سکے۔

”سنا ہے کہ جب رحم دل حاکموں نے مجسٹریٹ کو آپ کی آزادہ روی سے مطلع کیا تو مجسٹریٹ نے خودبخود رہائی کی رپورٹ بھیج دی۔“

یہ سننا تھا کہ سپاہ گری سے منسلک اپنے خاندان پر نازاں مرزا اسد اللہ خاں غالب پر لرزہ طاری ہوگیا۔گلے کی تمام رگیں تن گئیں۔خوف اور دہشت کا یہ عالم تھا کہ جیسے مالیخولیا کا دورہ پڑ گیا ہو۔ شیفتہ نے یہ منظر دیکھا تو ششدر رہ گئے،خود کو سنبھالا اور آہستہ سے بولے۔

”مرزا صاحب آپ کو رہائی ملی ہے۔ سزا کی مدّت نصف ہوئی ہے، اس میں توسیع نہیں۔“

” شیفتہ وہ آوازیں سنو۔“

”کون سی آوازیں۔وہ آوازیں جہاں رقص وسرود کی محفل ہے۔ساز ہے آواز ہے اور آپ کی غزل۔ کیا آپ وہاں جانا نہیں چاہتے مرزا نوشہ؟ “شیفتہ نے ان کو معمول پر لانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ غالب کو نہیں معلوم تھا کہ وہ جنوں میں کیا کیا کچھ بک رہے ہیں۔

”آخر آپ کا مُدّعا کیا ہے مرزا نوشہ ؟“

وہ خاموش رہے تو دربان نے آگے بڑھ کر کہا ۔”نواب صاحب معافی پاؤں تو کچھ کہوں؟“

” ہاں بتاؤکہ ہوا کیا ہے؟“

”مرزا صاحب روزانہ اس جھروکے سے باہر جھانکتے ہیں اور پھر“ وہ اپنی بات مکمّل بھی نہیں کر پایا تھا کہ مرزا نوشہ اسداللہ خاں غالب گویا ہوئے۔

” بھائی شیفتہ تم کہتے ہو میں یہاں تین ماہ سے ہوں، میں کہتا ہوں صدہا سال گزرگئے۔“

”کیا سینکڑوں برس؟“

” ہاں میرے بھائی! اب یہی میری جائے پناہ ہے ۔ کیا تم نہیں جانتے ہو قید خانے میں تو سب خیریت ہے، لیکن باہر پوری کائنات مشکوک ہے۔ یہ دنیا دیارِ غیر معلوم ہوتی ہے اور ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی ہماری خبر نہیں آتی ۔

اہل ِ خرد کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ آتش ہے ،دھنواں ہے ،غبار ہے ،گویا ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے۔“

شیفتہ نے مرزا کا ہاتھ تھام لیااور بولے۔”لیکن مرزا صاحب یہ ایک قید خانہ ہے۔“

”اور وہ کیا ہے باہر؟ شیفتہ یہاں سزا ہے تو وہاں قضا ہے میرے بھائی۔وہاں کوہِ گراں گردش میں ہیں، جن سے ٹکرا کر انسانوں کے سر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔“

”یہ آپ کا وہم ہے مرزا صاحب۔“

”نہیں شیفتہ یہ وہ منظر ہے جو خود اپنا ناظر ہے ۔جو غائب بھی ہے اور حاضر بھی۔“شیفتہ خاموش تھے اور مرزا بول رہے تھے۔

” مقدّ س صحیفوں کے حرف مٹنے لگے ہیں۔چھاپ تلک سب چھین لی گئی ہیں۔ کوہِ قاف کی پریوں کے بال و پر نوچ لیے گئے ہیں اور سارا عالم حشر کا میدان بن گیا ہے۔ارژنگ ، عظیم مصوّر کا نگار خانہ ، ویران ہے جبکہ اسلحہ خانوں کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔سقراط ،افلاطون اور ارسطو کو قتل کر دیا گیا ہے ۔میرا بائی اور حبّہ خاتون گرفتار کر لی گئی ہیں اور ہر موڑ پر کالی داس ،رومی ،عمر خیام اور شیکسپئر سر کے بل کھڑے ہیں۔بدھ اور مہاویر کی تعلیمات کے نئے معنی تلاش کیے جا رہے ہیں۔فرید بابا اور نانک گرو افسردہ ہیں۔ خزاں کی حکمرانی ہے اور اب گھر کی دیواروں پر بھی سبزہ نہیں اگتا۔ہائے ہائے وہ شہرِ فسوں کہ ذکر آتے ہی جس کا سینے پر اِک تیر لگتا تھا۔آہ“

غالب کی زباں سے آہ نکلی اور وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے، پھر لڑکھڑا کر زمین پر یوں گرے جیسے سارے عالم کی بلند اور عظیم الشان تاریخی عمارتیں گر کر ریزہ ریزہ ہو گئی ہوں۔ نجم الدولہ، دبیر الملک ، نظامِ جنگ،خان بہادر مرزا اسد اللہ خاں غالب نے ایک ہچکی لی اور موت کی آغوش میں چلے گئے۔ غالب کی لاش فرش پر پڑی تھی اور وہ خود قید خانے کے تاریک گوشے میں بیٹھے تماشائے اہل ِجہاں دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کی لاش ہزار لاشوں میں تبدیل ہو گئی۔

”یا الٰہی،یہ ماجرا کیا ہے؟“

سارا جہاں محوِ حیرت تھا کہ شاعروں اور فن کاروں ،فلسفیوں اور دانشوروں ،صوفیوں اور سنتوں کی بے شمار لاشیں قید خانے کی سنگلاخ زمین پر بکھری پڑی تھیں، غالب تاریک گوشے میں بیٹھے تھے اور قید خانہ فرنگ کا دربان اپنی جگہ اسی طرح تعینات تھا لیکن سخن فہم اور غالب کے طرفدار نواب مصطفی خان شیفتہ وہاں سے غائب تھے۔

....٭....٭....

طارق چھتاری

”اریب ہاؤس“

ناظمہ منزل

امیرنشاں روڈ، دودھ پور

علی گڑھ-202002

دیدبان شمارہ ۔۱۸

غم سے نَجات پائے کیوں

طارق چھتاری

شکستہ دیوارودر، ہرسُوبیاباں، قیامت خیزیہ منظر کہ بوسیدہ محراب کے نیچے شطرنجی بچھا کر مرزا نوشہ نے سیاہ مہروں کو بساط پر یوں سجایا گویا ان کی فتح لازم ہو اور مدِّ مقابل کی شکست ملزوم مرزا نے فرغل سمیٹا اور دوزانو بیٹھ کر پیادے کو ایک خانہ آگے بڑھادیا۔ دوسری جانب کا سفید پیادہ ایک ساتھ دو خانے آگے بڑھ گیا۔

”یہ کیا ہوااور کیوں کر ہوا؟“انہوں نے سوال کرنا چاہا لیکن جب نظر اٹھا کر دیکھا تو پایا کہ وہاں کوئی نہیں ہے۔

”معلوم ہوتا ہے سفید پیادے خود مختار ہیں۔“

دراصل چال چلنے والا سب کی نظروں سے پوشیدہ تھااور اس نے کھیل کے بیشتر اصول بھی تبدیل کر دیے تھے۔اس کا پیادہ ہمیشہ پہلی چال دو خانے چلتا تھا۔

مرزا اسداللہ خاں غالب نے چار چھ چالوں میں ہی قلعہ بنا لیا اور وزیر ،ہاتھی،اونٹ اور ڈھائی چال چلنے والے گھوڑے کی پاسبانی میں اپنے بادشاہ کو محفوظ کر لیا۔وقت کے بازی گر نے کیا چال چلی کہ سفید مہرے ’بِشپ،نائٹ، روک اور پَون‘اس طرح اپنا اپنا مقام متعین کرنے لگے کہ کوئین قلعے کی سب سے طاقتور محافظ بن گئی۔ دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھنے والے اسداللہ ،خان بہادر، نظامِ جنگ نہایت احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے مگر جانے کیسے بساط الٹ گئی۔چوسر بچھائی تو سب گوٹیاں بکھر گئیں اور پیچھے سے آکر شہر کوتوال نے نجم الدولہ ،دبیر الملک مرزا غالب کو قمار خانہ چلانے کے جرم میں گرفتار کر لیا کہ کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف۔ فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں۔ ستم زدگاں کے مکان کی طرح تنگ قیدخانہ فرنگ کی ہیبت ناک دیواریں ،موٹی موٹی آہنی سلاخیں ،نیچی چھت اور چھت سے لگے روشن دان کہ جن سے روشنی کی بجائے کمرے میں تاریکی داخل ہوتی تھی۔کوئی پوچھے کہ یہ قیدی کون ہے تو تم ہی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا؟یہی کہ ایک قمار باز، تماشبین اور بادہ خوار کہ وتیرہ جس کا آوارگی یایہ کہ شاعر،ولی اور فلسفی ، جس کی آنکھ سے لہو ٹپکتا ہے اور دل جسم کے ساتھ جل کر راکھ ہو گیا ہے۔مدّ تِ قید چھ ماہ قرار پائی ہے اور رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔سشن جج باوجود ے کہ اس کا دوست ہے اور اکثر صحبتوں میں بے تکلّفانہ ملتا ہے،اس نے بھی اِغماض اور تغافل اختیار کیا۔صدر میں اپیل کی مگر کسی نے نہ سنی اور وہی حکم بحال رہا۔

اب مرزاغالب کسی محفل ِسخن میں نہیں جیل خانے میں تھے۔وہ بیقراری کہ ہائے ہائے۔چارو ناچار کیا کرتے، کبھی صبر کیا اور کبھی شکوہ۔زندگی کچھ اس ڈھب سے گزر رہی تھی کہ رات میں چاند گرہن لگتا اور دن میں سورج سَوا نیزے پر اُتر آتا۔ آنکھیں نہ بند ہوتی تھیں اور نہ کھلتی تھیں کہ ایک شب نیم باز آنکھوں سے خواب دیکھا : عمائدین ِشہر اور منتخب شعراءجمع ہیں، محفل شباب پر ہے۔اِدھر محمد ابراہیم ذوق ،نواب ضیاالدین نیّر،مفتی صدرالدین آزردہ،امام بخش صہبائی تو اُدھر سید غلام علی وحشت ،حکیم مومن خاں مومن ،نواب شیفتہ،لالہ مہیش داس اور ہر گوپال تَفتہ۔ سامنے تاجدارِ ہندوستان ابو ظفر سراج الدین بہادرشاہ۔

شہنشاہِ فلک منظر، بہادر شاہ ظفر اٹھتے ہیں اور چھ پارچے کا خِلعت مع تین رقومِ جواہر یعنی جِیغہ، سرپیچ اور حمائلِ مروارید ایک نقرئی تشت میں رکھ کر غالب ِ خستہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ مرزا کی آنکھیں بند ہو نے لگتی ہیں کہ محسوس ہوا شاہ نے اپنا دست ِ شفقت ان کی پیشانی پر رکھ دیا ہے اور اس کے بعد ایک بے کس ضعیف بادشاہ کی کانپتی ہوئی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔

”مرزا نوشہ اٹھو۔“

مرزا اسداللہ خاں غالب کی آنکھ کھل گئی۔ سامنے قید خانے کا دربان کھڑا تھا۔

”میرے بھائی سنتے ہو؟ ذرا نزدیک تو آوکچھ تو بتلاؤکہ میں کس جرم میں گرفتار ہوا؟“

دربان آخر کیا جواب دیتا ۔قریب آیا اور بولا ۔ ”کچھ درکار ہے کیا؟“

”بے شک۔“

”کیاچاہیے حضور؟“

”محض ایک تپائی۔“

”تپائی؟ لیکن کیوں؟“

”مطمئن رہو دربان۔“

”کیا فرار ہونا چاہتے ہیں یا پھندا لگا کر مرنا؟“

”فرار کی حاجت نہیں اور موت میری قسمت نہیں کہ اس کا ایک دن معیّن ہے۔“

دربان باہر نکلا،سلاخوں کی زنجیر میں تالا لگایا اور تھوڑی دیر بعد لکڑی کی ایک چھوٹی میز لے کر آگیا۔

”بہت مشکل سے لایا ہوں مرزاصاحب ۔“

”جیتے رہو،آفریں،صد ہزار آفریں۔“

دربان مرزا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا لیکن چھپ کر دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر وہ اس میز کا کیا کریں گے؟ غالب روزن کو تکتے رہے، دیر تک تکا کیے، بالآخر صبح ہوئی اور سورج نکل آیا۔ حبس گزیدہ غالب نے دیوار کے سہارے میز لگائی اور اس پر چڑھ گئے۔دربان چوکنّا ہوگیا۔ وہ ایک ہی جست میں مرزا کو گرفت میں لینا چاہتا تھا،مگر کچھ ایسا دیکھا کہ بے حس وحرکت بُت بنا کھڑا رہا۔دراصل سوختہ ساماں مرزا غالب کا چہرہ یکایک آتَش رنگ ہو گیا تھا اور پھر لمحے بھر میں ہی سیاہ پڑ گیا، گویا ان کا دل سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیاہو۔مرزاغالب بمشکل تمام میز سے اترے ۔چہرہ فق تھا اور جسم لرز رہا تھا۔ دربان قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ مرزا نے جبیں سے پسینہ پونچھا اور خلاءمیں گھورنے لگے۔گمان گزرا کہ وہ اپنے کو اپنا غیر تصور کر رہے ہیں۔

”مرزا صاحب آپ کی اس حیرانی و پریشانی کا سبب؟“

”کیا تم جانتے ہو دربان کہ باہر ہوا کیا ہے؟ “اتنا کہا اور روشن دان پر نگاہ جما دی۔

”آپ نے باہر ایسا کیا دیکھ لیا مرزا صاحب کہ آپ کی یہ حالت“

”ابھی میرے حواس درست نہیں،یکتائے روزگار یہ غالب فی الوقت تنہائی چاہتا ہے۔“

دربان چلا گیا۔لیکن وہ ہر روز دیکھتا کہ مرزا غالب روشن دان سے باہر جھانکتے ہیں اور اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ دربان تجربے کار تھا، اسے پورا یقین تھا کہ مرزا قید کی تنہائی سے گھبرا گئے ہیں۔ کھلی فضا میں سانس لینے اور انسانوں کے درمیان جانے کی خواہش ہی ان کی اس حالت کا سبب ہے۔ ان کے لیے تو نہ وہ زمانہ رہا، نہ وہ لوگ، جن کے ساتھ شطرنج اور چوسر کی بازیاں لگتی تھیں اور ساغر و مینا کی محفلیں جمتی تھیں۔

اب مرزا غالب کی سزا کے تین ماہ مکمّل ہو گئے تھے۔دن ڈھل رہ اتھا ،شب کی آمد آمد تھی۔ابھی مشعلیں روشن نہیں کی گئی تھیں ۔مرزا رنج سے خوگر ہو چکے تھے اور ان کی تمام مشکلیں آسان ہو گئی تھیں۔ وہ گاؤتکئے پر نیم دراز تھے کہ اسی پل لوہے کا دروازہ کھلا۔ دو سائے رینگتے ہوئے نظر آئے ۔ایک نے قدم بڑھا کر آبنوسی کشتی میز پر رکھ دی۔اس میں کشمش ،بادام اور آخروٹ سے بھرا پیالہ اور ولایتی شراب کا شیشہ رکھا تھا۔

”دربان ! تمہارے ہم راہ کون ہے؟“

”حضور،نواب مصطفی خاں۔“

غالب کے چہرے پر شادمانی کے نقوش ابھر آئے۔

”تو اے کہ شیفتہ و حسرتی لقب داری۔“

”آداب مرزا نوشہ“

کسی نے مشعل جلا دی اور کمرہ روشنی سے بھر گیا۔

”گویا کہ آج رحمت ِ حق بشر کی شکل میں آئی ہے۔“ مرزا غالب نے کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔نواب صاحب جہانگیر آباد مصطفی خاں شیفتہ کو بھی اپنے بوریے پر بٹھا لیا۔

”مرزا صاحب آپ کے لیے خوش خبری ہے۔“

”اب نہ اچھی خبر سے خوشی ہوتی ہے اور نہ بری خبر سے آزردگی۔“غالب تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر بولے۔ ”میں واقف ہوں کہ شیفتہ نے ہمیشہ مجھ سے دوستی اور مہربانی کا برتاوکیا ہے۔“

” مرزا صاحب یہ آپ کا حق ہے۔“

”مِنّت کش ہوں تمہارا۔“

نواب شیفتہ نے مرزا صاحب کو رہائی کا پروانہ دکھاتے ہوئے کہا۔

”آدھی معیاد گزرنے کے بعد مجسٹریٹ کو رحم آیا اور صدر میں آپ کی رہائی کی رپورٹ کی اور وہا ں سے حکم رہائی کا آگیا۔“

مرزا اسد اللہ خاں غالب بجائے خوش ہونے کے فکر مند نظر آنے لگے۔

” ہائے یہ کیا غضب ہوا۔“ علاوہ اس کے کچھ نہ کہہ سکے۔

”سنا ہے کہ جب رحم دل حاکموں نے مجسٹریٹ کو آپ کی آزادہ روی سے مطلع کیا تو مجسٹریٹ نے خودبخود رہائی کی رپورٹ بھیج دی۔“

یہ سننا تھا کہ سپاہ گری سے منسلک اپنے خاندان پر نازاں مرزا اسد اللہ خاں غالب پر لرزہ طاری ہوگیا۔گلے کی تمام رگیں تن گئیں۔خوف اور دہشت کا یہ عالم تھا کہ جیسے مالیخولیا کا دورہ پڑ گیا ہو۔ شیفتہ نے یہ منظر دیکھا تو ششدر رہ گئے،خود کو سنبھالا اور آہستہ سے بولے۔

”مرزا صاحب آپ کو رہائی ملی ہے۔ سزا کی مدّت نصف ہوئی ہے، اس میں توسیع نہیں۔“

” شیفتہ وہ آوازیں سنو۔“

”کون سی آوازیں۔وہ آوازیں جہاں رقص وسرود کی محفل ہے۔ساز ہے آواز ہے اور آپ کی غزل۔ کیا آپ وہاں جانا نہیں چاہتے مرزا نوشہ؟ “شیفتہ نے ان کو معمول پر لانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ غالب کو نہیں معلوم تھا کہ وہ جنوں میں کیا کیا کچھ بک رہے ہیں۔

”آخر آپ کا مُدّعا کیا ہے مرزا نوشہ ؟“

وہ خاموش رہے تو دربان نے آگے بڑھ کر کہا ۔”نواب صاحب معافی پاؤں تو کچھ کہوں؟“

” ہاں بتاؤکہ ہوا کیا ہے؟“

”مرزا صاحب روزانہ اس جھروکے سے باہر جھانکتے ہیں اور پھر“ وہ اپنی بات مکمّل بھی نہیں کر پایا تھا کہ مرزا نوشہ اسداللہ خاں غالب گویا ہوئے۔

” بھائی شیفتہ تم کہتے ہو میں یہاں تین ماہ سے ہوں، میں کہتا ہوں صدہا سال گزرگئے۔“

”کیا سینکڑوں برس؟“

” ہاں میرے بھائی! اب یہی میری جائے پناہ ہے ۔ کیا تم نہیں جانتے ہو قید خانے میں تو سب خیریت ہے، لیکن باہر پوری کائنات مشکوک ہے۔ یہ دنیا دیارِ غیر معلوم ہوتی ہے اور ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی ہماری خبر نہیں آتی ۔

اہل ِ خرد کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ آتش ہے ،دھنواں ہے ،غبار ہے ،گویا ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے۔“

شیفتہ نے مرزا کا ہاتھ تھام لیااور بولے۔”لیکن مرزا صاحب یہ ایک قید خانہ ہے۔“

”اور وہ کیا ہے باہر؟ شیفتہ یہاں سزا ہے تو وہاں قضا ہے میرے بھائی۔وہاں کوہِ گراں گردش میں ہیں، جن سے ٹکرا کر انسانوں کے سر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔“

”یہ آپ کا وہم ہے مرزا صاحب۔“

”نہیں شیفتہ یہ وہ منظر ہے جو خود اپنا ناظر ہے ۔جو غائب بھی ہے اور حاضر بھی۔“شیفتہ خاموش تھے اور مرزا بول رہے تھے۔

” مقدّ س صحیفوں کے حرف مٹنے لگے ہیں۔چھاپ تلک سب چھین لی گئی ہیں۔ کوہِ قاف کی پریوں کے بال و پر نوچ لیے گئے ہیں اور سارا عالم حشر کا میدان بن گیا ہے۔ارژنگ ، عظیم مصوّر کا نگار خانہ ، ویران ہے جبکہ اسلحہ خانوں کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔سقراط ،افلاطون اور ارسطو کو قتل کر دیا گیا ہے ۔میرا بائی اور حبّہ خاتون گرفتار کر لی گئی ہیں اور ہر موڑ پر کالی داس ،رومی ،عمر خیام اور شیکسپئر سر کے بل کھڑے ہیں۔بدھ اور مہاویر کی تعلیمات کے نئے معنی تلاش کیے جا رہے ہیں۔فرید بابا اور نانک گرو افسردہ ہیں۔ خزاں کی حکمرانی ہے اور اب گھر کی دیواروں پر بھی سبزہ نہیں اگتا۔ہائے ہائے وہ شہرِ فسوں کہ ذکر آتے ہی جس کا سینے پر اِک تیر لگتا تھا۔آہ“

غالب کی زباں سے آہ نکلی اور وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے، پھر لڑکھڑا کر زمین پر یوں گرے جیسے سارے عالم کی بلند اور عظیم الشان تاریخی عمارتیں گر کر ریزہ ریزہ ہو گئی ہوں۔ نجم الدولہ، دبیر الملک ، نظامِ جنگ،خان بہادر مرزا اسد اللہ خاں غالب نے ایک ہچکی لی اور موت کی آغوش میں چلے گئے۔ غالب کی لاش فرش پر پڑی تھی اور وہ خود قید خانے کے تاریک گوشے میں بیٹھے تماشائے اہل ِجہاں دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کی لاش ہزار لاشوں میں تبدیل ہو گئی۔

”یا الٰہی،یہ ماجرا کیا ہے؟“

سارا جہاں محوِ حیرت تھا کہ شاعروں اور فن کاروں ،فلسفیوں اور دانشوروں ،صوفیوں اور سنتوں کی بے شمار لاشیں قید خانے کی سنگلاخ زمین پر بکھری پڑی تھیں، غالب تاریک گوشے میں بیٹھے تھے اور قید خانہ فرنگ کا دربان اپنی جگہ اسی طرح تعینات تھا لیکن سخن فہم اور غالب کے طرفدار نواب مصطفی خان شیفتہ وہاں سے غائب تھے۔

....٭....٭....

طارق چھتاری

”اریب ہاؤس“

ناظمہ منزل

امیرنشاں روڈ، دودھ پور

علی گڑھ-202002

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024