افسانہ :چھوٹی خالہ

افسانہ :چھوٹی خالہ

Feb 12, 2024

دیدبان شمارہ ۔ (۲۰ اور ۲۱)۲۰۲۴؁

افسانہ :چھوٹی خالہ

ادیب : قیُوّم خالد (شکاگو ، امریکہ)

سفر اپنے آخری مرحلہ میں تھا،ریل گاڑی کی رفتار دم توڑ رہی تھی، تھکن سے اُسکا جسم چُور چُور تھا، ایک ایک ہڈی درد کررہی تھی۔ حیدرآباد سے نئی دہلی،  نئی دہلی سے امرتسر،اٹاری، پھر واہگہ بارڈر، پھر لاہوراور وہاں سے اسلام آباد، بیچ میں اِمیگریشن اور کسٹمز کی خواری۔ سُلیمان بھائی نے کہا بھی تھا کہ ہوائی جہاز سے چلے جاؤ،ٹکٹ کے پیسے میں دیدیتا ہُوں۔لیکِن ابّا کی اُصول پسندی،وہ کب کِسی کا احسان لینے راضی ہوتے، وہ اپنی ضِد پر اڑے رہے کہ ٹرین سے ہی جاؤنگا۔سامان کُچھ زِیادہ نہ تھا،وہ دونوں سہُولت سے اِسٹیشن پر اُتر گئے،ابّا کی نظریں جمیل بھائی کو ڈُھونڈنے لگی،اچانک عاتِکہ کی نظر جِس پر پڑی وہ دُنیا کا آخری شخص تھا جِس سے وہ یہاں مِلنا چاہتی تھی،وہ اُسکے خالہ زادشجیع بھائی تھے۔ وہ تیزی سے اُن لوگوں کے قریب آئے،ابّا نے نہایت پُرتپاک انداز میں اُن سے ہاتھ مِلایا، ''مُجھے نجمہ باجی نے آپ لوگوں کو لینے کیلئے بھیجا ہے'' شجیع بھائی نے ادب سے کہا،وہ زیرِلب مُسکرادی اور ہاتھ اُٹھاکر سلام کیا،اُنہوں نے ہاتھ بڑھاکر مُصافحہ کرنا چاہا اچانک اُنہیں یاد آیا کہ یہ امریکہ نہیں ہے، اُنہوں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا،وہ پھر مُسکرادی اِس دفعہ مُسکراہٹ بہت واضح تھی۔ اگر ابّا نے اِنکار نہ کِیا ہوتا تو وہ اب اُنکے پیچھے کھڑی ہوتی ایک فرمابردار بیوی کی طرح۔کِیا پتہ وہ جینس اور ٹی شرٹ پہنکر ابّا کو ریسیو کرنے آتی۔وہ بھلا یہاں ہوتی ہی کیوں؟ صباحت بھابھی کے بغیر شجیع بھائی کا پاکستان سے کِیا رِشتہ؟ پھر اُسنے اپنے آپ پر ملامت کی،وہ نجمہ باجی کیلئے ضرور آتی، دوہرا رِشتہ جو ہوتا، اُسے اپنی منطق پر دِل ہی دِل میں ہنسی آگئی۔

''جمیل کیوں نہیں آئے'' ابّا نے کار میں بیٹھتے ہُوئے پُوچھا۔

''وہ اپنے کام کے سِلسلہ میں بحرین گئے ہُوئے ہیں، چار دِن بعد لوٹینگیں ''

''بیوی شدید بیمار ہے اور اُنہیں کام کی سُوجھی ہے''

'' مِڈل اِیسٹ میں کنٹریکٹس کے کام تو ہر حال میں نِبھانے ہوتے ہیں، پاکِستان ہِندوستان والا معاملہ نہیں چلتا ''  شجیع بھائی نے وضاحت کی جو ابّا کو پسند نہیں آئی۔

'' صباحت بھابھی کیسی ہیں، کیا وہ امریکہ میں ہی ہیں ''  عاتِکہ نے پُوچھا۔

'' نہیں وہ بھی آئی ہُوئی ہیں۔ آج نجمہ باجی کا کیمو تھیراپی کا دِن تھا، اُنکے ساتھ ہاسپِٹل گئی ہُوئی ہیں '' یہ جوا ب عاتکہ کو پسند نہیں آیا۔ ''یہاں تین دِن سے بارِش ہو رہی ہے''جمیل نے بات بدلتے ہُوئے کہا۔

اُسنے کھِڑکی میں سے جھانک کر دیکھا، پہاڑوں سے پانی ایسے رِس رہا تھا جیسے دِل میں قطرہ قطرہ غم رِستا ہے۔ باقی راستہ خاموشی سے کٹا، تینوں کے دِل بوجھل تھے۔

دو گھنٹے بعد نجمہ باجی بھی واپس آگئیں، نقاہت سے اُنکا حال خراب تھا۔قدم کہیں رکھ رہے تھے کہیں پڑھ رہے تھے۔دونوں باپ بیٹی مِلکر بہت روئے۔دو دِن تک اُنکی حالت بہت خراب رہی بات کرنے کے قابِل بھی نہیں تھی۔

کِتنی خوبصُورت زِندگی تھی آپی اور جمیل بھائی کی،کِتنا چاہتے ہیں جمیل بھائی۔امّاں پہلے اس رشتہ کے حق میں نہیں تھے،اُنہیں سُسرال سے دُکھ مِلے تھے۔ جمیل بھائی نے خُود امّاں کو یقین دِلایا تھا کہ وہ اُنکی بیٹی کو سُکھ چین سے رکھینگیں اُنہوں بات نِبھائی بھی۔ بیچ میں یہ بِیماری نِکل آئی، نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔

چار دِن بعد جمیل بھائی بھی بحرین سے واپس آگئے۔موقع سے ابّا نے بھتیجے کی سرزنِش کی کہ نجمہ کا  عِلاج امریکہ لے جاکر کراؤ۔ تُمھیں تو خبط ہے پاکستان میں رہنے کا۔ اِسلامی مملکت،  اِسلامی مملکت، مُجھے تو یہاں کُچھ نظر نہیں آیا۔ جمیل بھائی نے کُچھ نہیں کہا ۔ مگر بات بہت بڑھ گئی تھی ۔ پہلے پہل جب دونوں پِستانوں میں گِلٹیاں دریافت ہوئیں تو ڈاکٹر نے اُنھیں نِکال دِیاتھا،ٹیسٹ میں معلُوم ہُوا کہ کینسر ہے۔گِلٹیاں بہت تیزی سے واپس آگئیں اور ابکے دو گِلٹیاں اور زِیاد ہ تھیں،ڈاکٹر حیران رہ گیا، تیز رفتاری کہ پیشِ نظر ڈاکٹر وں کی رائے تھی کہ ِپستان نِکال دئے جائیں، نِکال دئے گئے۔کیموتھراپی بھی شُروع کردی گئی، اُسکے باوجُود کینسرقابُو میں نہ آیا اور سینہ میں پھیل گیا۔ عِلاج چلتا رہا مگر کوئی فائدہ نہ ہُوا،اب تو دِھیرے دِھیرے دِماغ بھی مُتّاثر ہونے لگا تھا۔ ڈاکٹر بے بس تھے۔

نجمہ کے بچّے بہت مِلنسار تھے،نانا اور چھوٹی خالہ کے آنے سے گھر میں ہلچل مچ گئی۔ بڑے  دوسمجھدار تھے باقی سب بچّے عاتِکہ کو گھیرے رہتے۔چھوٹی خالہ،چھوٹی خالہ کہتے منہ نہیں سُوکھتا، ہر ایک کی ضِدرہتی کہ کھانا عاتِکہ کے ہاتھ سے کھائنگے، منہ چھوٹی خالہ دُھلانا۔ غرض ہر کام چھوٹی خالہ کرنا۔ نجمہ نے ڈرایا کہ اِسطرح تنگ کروگی تو وہ چلی جائینگی یہ سُنکر حُسنہ نے عاتِکہ کی جُوتیاں چُھپادیں۔

ایک دِن کھانے کی میز پر شجیع اُکھڑےاُکھڑے سے اُداس سے تھے۔حالانکہ وہ بہت بذلہ سنج،ہنس مُکھ تھے اِتنی سنجیدگی سے مذاق کرتے کے سامنے والے کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ مذاق کر رہے ہیں، اُنکی موجودگی میں محفِل قہقہہ زار رہتی۔ وہ حاظر جواب بھی بہت تھے۔ عاتِکہ نے جُملہ کسا شجیع بھائی آپ فِکر نہ کریں میں صباحت بھابھی کو کُچھ بھی نہیں بتاؤنگی، پُرانے راز،راز ہی رہینگے۔ اس پر نجمہ اورصباحت  دونوں کِھل کِھلاکر ہنس پڑے۔نجمہ نے صباحت کو سب کُچھ بتادِیا تھا کہ کِس طرح شجیع کو عاتِکہ پسند تھی اور خالہ جان نے عاتِکہ کا رِشتہ مانگا تھا اور ابّا نے اِنکار کردِیا تھا۔

''تُم کب سے اِتنی باتُونی ہوگئی ہو۔ پہلے تو کِسی کو گھانس ہی نہیں ڈالتی تھیں ''۔ شجیع نے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دِیا۔ '' کیا کریں اب گھانس سستی ہوگئی ہے، اُسکے علاوہ اب لوگوں نے ہمیں گھانس ڈالنا چھوڑ دِیا ہے۔''  پھر ٹیبل پر خاموشی چھا گئی، بیساختہ ہنسی بھی ایک جُرم تھی۔

دو دِن بعد شجیع،صباحت  امریکہ واپس چلے گئے،نجمہ نے سُکون کا سانس لِیا اب وہ پُورا وقت عاتِکہ کیساتھ بِتا سکتی تھی۔اُسے احساس ِندامت نے گھیر لیا، شجیع چُھٹیاں لیکر اُتنی دورسے اُسکی عِیادت کو آیا تھا۔'' اچھّا ہُوا تُم ابّا کیساتھ آگئیں  مُجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی تھیں۔ ''  پھر دونوں نے دو تین دِن تک بہت باتیں کیں آمنہ کی شادی، دونوں بھائیوں کی زِندگی کی تفصیلات۔ مگر اِس دوران بھی حالات گمبھیر ہی رہے، نجمہ دو دفعہ باتھ رُوم میں گِرگئیں۔  

ایک دِن وہ دونوں باتیں کرتے بیٹھے تھے کہ اچانک نجمہ نے  پُوچھ ہی لِیا '' تُم نے اکرم سے طلّاق کیوں لی؟''

عاتِکہ چونک گئی حالانکہ اُسے پتہ تھا کہ ایک نہ ایک دِن یہ بات نِکلیگی۔ '' سب نصیب کی باتیں ہیں۔ پہلے بات endometriosis سے شُروع ہُوئی heavy bleeding مہینہ میں پندرہ پندرہ دِن تک۔چار blood transfusion ساتھ میں uterusمیں fibroids بننے لگے پھر ovarian cysts۔اِسی میں پانچ سال نِکل گئے۔کئی ڈاکٹروں کو دِکھایا سب نے یہی مشورہ دِیا کہ uterusنِکال دو۔ ''  

'' وہ تو طلّاق نہیں دے رہا تھا، تُم نے خُودکیوں لی''  

'' وہ تو adoptionکی بات کررہا  تھا، مگر مُجھ سے دُوسروں کے بچّے نہیں  پالے جاتے ''

نجمہ ایک لمحہ کیلئے چونک گئی پر کُچھ کہا نہیں۔

'' پھر بے رُوح زِندگی گُزارنے سے کیا فائدہ۔ اب اپنے ہی امّی ابّا کی بات لے لو زِندگی بھر بنی نہیں (امّاں کو ابّا کے اُصولوں سے چِڑ تھی اور زِندگی میں لچک چاہتی تھیں اور ابّا اپنے اُصولوں پر اڑے رہتے)، مگر چھ بچّے پیدا کرلئے، یہاں تو بچّوں کی بات بھی نہیں تھی۔''

''پھر بھی طلّاق شدہ زِندگی سے وہ زِندگی بہتر تھی۔ ''

''اور جِس طرح سے اُسنے جلد ہی شادی کرلی اُس سے ظاہر ہُوا کہ وہ میرا دِل رکھنے کیلئے کہہ رہا تھا، کل کے پچھتاؤوں سے آج کے کڑے فیصلے بہتر ہوتے ہیں،اپنی زِندگی کیساتھ کِسی اور کی زِندگی برباد کرنے سے کیاحاصل۔میں اب نوکری کرتی ہُوں کِسی پر بوجھ نہیں ہُوں اور اپنی زندگی سے مُطمئن ہُوں '' عاتِکہ بہن کے گلے لگ گئی اور گال پر ایک بوسہ لے لیااور بات ختم کردی۔ نجمہ کی بات ادُھوری رہ گئی۔

دو دِن نجمہ کی طبیعت بہت خراب رہی وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر سکی، دو دِن بعد نجمہ نے کہا '' تُمہیں یاد ہے نا میں نے تُم سے کہا تھا کہ جب تُم یہاں آؤگی تو میں تُمھاری شادی کرادُونگی  ''

'' وہ توآپ مذاق میں کہہ رہی تھیں، مُجھ سے کون شادی کریگا ''

ہیں تُمہارے چاہنے والے ''  نجمہ نے مذاق کے لہجہ میں کہا۔

'' چاہنے والے کب تک اِنتظارکرتے،کب کے گھر بسا چُکے ''

عاتِکہ صاف محسُوس کررہی تھی کہ نجمہ بار بار تُھوک نِنگل رہی ہے اور اور لفظ اُسکے گلے میں پھنس رہے ہیں، وہ وہ نہیں کہہ پارہی جو کہنا چاہ رہی ہے۔بِالآخر نجمہ نے کہا   ''نہیں میں نے سنجیدگی سے کہا تھا، غرض میری ہے، میرے بچّے  چھوٹے ہیں اور اُنھیں یہاں پاکستان میں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ جمیل دو دو مہینے مِڈل اِیسٹ میں رہتے ہیں اور اکژ باہر آنا جانا رہتا ہے۔گھر دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے، مُجھے یقین ہیکہ جمیل دُوسری شادی کر لینگیں۔ نئی ماں بچّوں سے کیسا سُلوک کریگی نہیں معلوم۔ میری خواہش ہیکہ تُم جمیل سے شادی کرلو، میں نے جمیل سے بات کی ہے وہ اس بات پر راضی ہے۔ '' عاتِکہ یہ سب سُنکر سنّ رہ گئی اور تُھوک نِنگل کر بڑی مُشکِل سے بول سکی ''میرے سارے حالات جاننے کے بعد بھی؟''

''ہاں۔ اُنھیں بچّوں کے لئے صرف ایک ماں چاہئے''وہ کِتنی ہی دیر گُم سُم رہی، اُس سے کُچھ بولا نہیں جارہا تھا اُس کی آنکھ سے آنسُو بہہ نِکلے، دونوں بہنیں رونے لگیں۔

'' آپی یہ بات آپ نے کِسی کو بتائی تو نہیں ابّا کو، بھائیوں کو؟''

'' نہیں، یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہے، صرف جمیل کو پتہ ہیکہ میں تُم سے یہ بات کرنے والی ہُوں، وہ بھی غیر جانبدار ہیں۔میری ہی غرض ہے اِسلئے میں بے غیرت ہوکر بات کر رہی ہُوں ''  

'' بات یہ نہیں ہے، یہ ایک بڑا فیصلہ ہے، پتہ نہیں مُجھے پاکستان میں رہنے کی اِجازت مِلیگی یا  نہیں ''

''  اُسکی فِکر نہ کرو جمیل اِنتظام کرلینگے''

'' ویسے تو آدھا خاندان مُجھ سے ناراض ہے پھر بھی میں یہاں اکیلی رہ جاؤنگی، تُم بھی تو یہاں اکیلی ہو یہ تُمہارا ہی حوصلہ ہے ''  

'' میرے بچّے بڑے ہوکر تُمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑینگے''

'' پھر بھی میں سارے خاندان سے کٹ جاؤنگی،جمیل بھائی کو مجھ سے اچھی بِیوی مِل جائگی''

'' تُم سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو، تُم پر میں کوئی زبردستی نہیں کر رہی ہوں۔تُم یہاں آئی تو مُجھے خیال آیا کہ میرے بچّوں کو تُم سے اچھی ماں کون مِل سکتی ہے۔ مُناسِب سمجھو تو ابّا سے مشورہ کرلو''

دونوں نے ابّا سے بات کی تو اُنہوں نے اپنا دامن صاف بچالِیا، پہلی شادی میری ذِمہ داری تھی وہ میں نے پُوری کردی، اِسنے میری مرضی کے خِلاف طلّاق لے لی، اب اِسکی زِندگی ہے اِسکے فیصلے ہیں۔ابّا کے لہجہ میں ناراضگی تھی۔'' ویسے تُم اِس سے بڑی قُربانی مانگ رہی ہو۔یہ تو اپنی زِندگی بھی نہیں چلا سکتی'' عاتِکہ جُھنجُھلاکر کمرے سے نِکل گئی۔

عاتِکہ لاکھ سوچنے کے باوجُود اِس اُلجھن کو سُلجھانہیں پا رہی تھی کُچھ سُوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ اب اُسے جمیل بھائی کے سامنے آتے ہُوئے جِھجھک ہو رہی تھی۔اِتّفاق سے جمیل کام کے  سِلسِلہ میں مسقط چلے گئے۔ دِن بہت بے کیف گُزر رہے تھے۔ ابّا بیحد بور ہورہے تھے، اُن سے بات کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ایک دِن ابّا نے سخت ناراض ہوکر کہا'' جمیل نے اگریکلچر کی فیلڈ یہ کہکرچُنی تھی کہ خاندان کی زمینوں کی دیکھ بھال کریگا، تعلیم کے بعد امریکہ چلا گیا، وہاں سے مشرقِ وسطہ نِکل گیا horticulturist بنکرپھروہاں سے یہاں۔ اگر مُجھے پتہ ہوتایہ پاکستان آکر بیٹھ جائیگاتو اُسے میں اپنی بیٹی کیوں دیتا؟   میری بیٹی سب سے کٹ گئی ''  

''جانے بھی دِیجئے نا ابّا اب تو سب کُچھ ختم ہوگیا''  نجمہ نے اُداس ہوکر کہا ۔

عاتِکہ خِجل سی تھی، دِن تو باتوں اوردُوسری مصرُوفیتوں میں گُزر جاتا،لیکِن راتوں میں عاتِکہ کو نِیند نہیں آتی۔ نجمہ بھی سُبکی محسُوس کر رہی تھی کہ بات بھی کھوئی مُدّعا کہہ کے۔ عیادت کیلئے دونوں حیدرآباد سے آئے تھے لیکِن اب نجمہ دونوں کی دِلجوئی کر رہی تھی، طبیعت  ہُنوز گمبھیر تھی، اب اُسکے سُدھرنے کی کوئی صُورت نہ تھی،ڈاکٹروں نے تو پہلے ہی جواب دیدیا تھا۔''

اِسلام آباد بہت خُوبصورت شہر ہے کاش میں آپ دونوں کو دِکھانے چل سکتی ''۔ پھر اُسنے دو دِن میں ڈرائیورکے ذریعہ شہر کی سیر کروادی اور بچّوں کو بھی ساتھ کردیا کہ نانا اور خالہ کا دِل لگا رہے۔بڑا لڑکا نو برس کا تھا، اُسنے گائیڈ کے فرائض جیسے تیسے نِبھالئے۔

جمیل کے آنے کے کوئی آثار نہ تھے، ابّا اور عاتِکہ کے جانے کے دِن آگئے، نجمہ نے ابّا کومشورہ دِیا کہ جمیل کے آنے تک ٹہر جائیں پِھر چلے جانا۔وہ پہلے بہادری سے اپنی بیماری سے لڑ رہی تھی۔اپنوں کے آ جانے کے بعداُن کے جانے کے خیال سے ہی نہ جانے کیوں اب اُسے گھر میں اکیلے رہنے سے ڈر لگ رہا تھا۔حالانکہ گھر میں نوکر چاکر تھے، گاڑی تھی،ڈرائیور تھا، ہر قسم کی سہُولت تھی۔ ابّا نے یہ کہکر بات مسترِد کردی کہ جمیل کی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے یہ مناسب نہیں ہے،میری بھی حیدرآباد میں مصروفیات ہیں۔ٹکٹیں الگ ضائع ہوجائینگی اور پِھر اِسلام آباد سے لیکر حیدرآبادتک ریزرویشن مِلنا بہت مُشکِل ہوگا۔

'' آپ لوگ پلین سے چلے جائیں ''

'' یہ تُم لوگ کیا پلین پلین کی رٹ لگاتے رہتے ہو ''  ابّا ناراض ہوگئے۔

مُسلسِل جاگنے سے عاتِکہ کی آنکھیں سُوجھ رہی تھیں،کُچھ دخل رونے کا بھی تھا۔حالت یہ تھی کہ ہر کوئی اپنا غم دُوسرے سے چُھپارہا تھا۔ جانے کی صبح بھی آگئی اورگھڑی بھی آ گئی۔ ابّا نے کار میں بیٹھ کر آواز لگائی ''چلو بھئی دیر ہو رہی ہے'' پانچ مِنٹ بعد ابّا نے پھرآواز لگائی۔ نجمہ بڑی مُشکِل سے چل کر باہر آئی تھی،آنسو ضبط کرکے،گاڑی کے باہر کھڑی تھی۔''  حسن جاکر دیکھو چھوٹی خالہ کہاں ہے، تُم اُن کا سامان تو لیکر آؤ''۔حسن بھاگ کر اندر گیا،  اور تھوڑی دیر بعد آکر اِطلّاع دی۔ کمرے میں چھوٹی خالہ کا ساراسامان بِکھرا پڑا ہے، اور چھوٹی خالہ ابّو کی پھولوں کی نرسری میں ہے۔

٭٭٭٭٭

دیدبان شمارہ ۔ (۲۰ اور ۲۱)۲۰۲۴؁

افسانہ :چھوٹی خالہ

ادیب : قیُوّم خالد (شکاگو ، امریکہ)

سفر اپنے آخری مرحلہ میں تھا،ریل گاڑی کی رفتار دم توڑ رہی تھی، تھکن سے اُسکا جسم چُور چُور تھا، ایک ایک ہڈی درد کررہی تھی۔ حیدرآباد سے نئی دہلی،  نئی دہلی سے امرتسر،اٹاری، پھر واہگہ بارڈر، پھر لاہوراور وہاں سے اسلام آباد، بیچ میں اِمیگریشن اور کسٹمز کی خواری۔ سُلیمان بھائی نے کہا بھی تھا کہ ہوائی جہاز سے چلے جاؤ،ٹکٹ کے پیسے میں دیدیتا ہُوں۔لیکِن ابّا کی اُصول پسندی،وہ کب کِسی کا احسان لینے راضی ہوتے، وہ اپنی ضِد پر اڑے رہے کہ ٹرین سے ہی جاؤنگا۔سامان کُچھ زِیادہ نہ تھا،وہ دونوں سہُولت سے اِسٹیشن پر اُتر گئے،ابّا کی نظریں جمیل بھائی کو ڈُھونڈنے لگی،اچانک عاتِکہ کی نظر جِس پر پڑی وہ دُنیا کا آخری شخص تھا جِس سے وہ یہاں مِلنا چاہتی تھی،وہ اُسکے خالہ زادشجیع بھائی تھے۔ وہ تیزی سے اُن لوگوں کے قریب آئے،ابّا نے نہایت پُرتپاک انداز میں اُن سے ہاتھ مِلایا، ''مُجھے نجمہ باجی نے آپ لوگوں کو لینے کیلئے بھیجا ہے'' شجیع بھائی نے ادب سے کہا،وہ زیرِلب مُسکرادی اور ہاتھ اُٹھاکر سلام کیا،اُنہوں نے ہاتھ بڑھاکر مُصافحہ کرنا چاہا اچانک اُنہیں یاد آیا کہ یہ امریکہ نہیں ہے، اُنہوں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا،وہ پھر مُسکرادی اِس دفعہ مُسکراہٹ بہت واضح تھی۔ اگر ابّا نے اِنکار نہ کِیا ہوتا تو وہ اب اُنکے پیچھے کھڑی ہوتی ایک فرمابردار بیوی کی طرح۔کِیا پتہ وہ جینس اور ٹی شرٹ پہنکر ابّا کو ریسیو کرنے آتی۔وہ بھلا یہاں ہوتی ہی کیوں؟ صباحت بھابھی کے بغیر شجیع بھائی کا پاکستان سے کِیا رِشتہ؟ پھر اُسنے اپنے آپ پر ملامت کی،وہ نجمہ باجی کیلئے ضرور آتی، دوہرا رِشتہ جو ہوتا، اُسے اپنی منطق پر دِل ہی دِل میں ہنسی آگئی۔

''جمیل کیوں نہیں آئے'' ابّا نے کار میں بیٹھتے ہُوئے پُوچھا۔

''وہ اپنے کام کے سِلسلہ میں بحرین گئے ہُوئے ہیں، چار دِن بعد لوٹینگیں ''

''بیوی شدید بیمار ہے اور اُنہیں کام کی سُوجھی ہے''

'' مِڈل اِیسٹ میں کنٹریکٹس کے کام تو ہر حال میں نِبھانے ہوتے ہیں، پاکِستان ہِندوستان والا معاملہ نہیں چلتا ''  شجیع بھائی نے وضاحت کی جو ابّا کو پسند نہیں آئی۔

'' صباحت بھابھی کیسی ہیں، کیا وہ امریکہ میں ہی ہیں ''  عاتِکہ نے پُوچھا۔

'' نہیں وہ بھی آئی ہُوئی ہیں۔ آج نجمہ باجی کا کیمو تھیراپی کا دِن تھا، اُنکے ساتھ ہاسپِٹل گئی ہُوئی ہیں '' یہ جوا ب عاتکہ کو پسند نہیں آیا۔ ''یہاں تین دِن سے بارِش ہو رہی ہے''جمیل نے بات بدلتے ہُوئے کہا۔

اُسنے کھِڑکی میں سے جھانک کر دیکھا، پہاڑوں سے پانی ایسے رِس رہا تھا جیسے دِل میں قطرہ قطرہ غم رِستا ہے۔ باقی راستہ خاموشی سے کٹا، تینوں کے دِل بوجھل تھے۔

دو گھنٹے بعد نجمہ باجی بھی واپس آگئیں، نقاہت سے اُنکا حال خراب تھا۔قدم کہیں رکھ رہے تھے کہیں پڑھ رہے تھے۔دونوں باپ بیٹی مِلکر بہت روئے۔دو دِن تک اُنکی حالت بہت خراب رہی بات کرنے کے قابِل بھی نہیں تھی۔

کِتنی خوبصُورت زِندگی تھی آپی اور جمیل بھائی کی،کِتنا چاہتے ہیں جمیل بھائی۔امّاں پہلے اس رشتہ کے حق میں نہیں تھے،اُنہیں سُسرال سے دُکھ مِلے تھے۔ جمیل بھائی نے خُود امّاں کو یقین دِلایا تھا کہ وہ اُنکی بیٹی کو سُکھ چین سے رکھینگیں اُنہوں بات نِبھائی بھی۔ بیچ میں یہ بِیماری نِکل آئی، نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔

چار دِن بعد جمیل بھائی بھی بحرین سے واپس آگئے۔موقع سے ابّا نے بھتیجے کی سرزنِش کی کہ نجمہ کا  عِلاج امریکہ لے جاکر کراؤ۔ تُمھیں تو خبط ہے پاکستان میں رہنے کا۔ اِسلامی مملکت،  اِسلامی مملکت، مُجھے تو یہاں کُچھ نظر نہیں آیا۔ جمیل بھائی نے کُچھ نہیں کہا ۔ مگر بات بہت بڑھ گئی تھی ۔ پہلے پہل جب دونوں پِستانوں میں گِلٹیاں دریافت ہوئیں تو ڈاکٹر نے اُنھیں نِکال دِیاتھا،ٹیسٹ میں معلُوم ہُوا کہ کینسر ہے۔گِلٹیاں بہت تیزی سے واپس آگئیں اور ابکے دو گِلٹیاں اور زِیاد ہ تھیں،ڈاکٹر حیران رہ گیا، تیز رفتاری کہ پیشِ نظر ڈاکٹر وں کی رائے تھی کہ ِپستان نِکال دئے جائیں، نِکال دئے گئے۔کیموتھراپی بھی شُروع کردی گئی، اُسکے باوجُود کینسرقابُو میں نہ آیا اور سینہ میں پھیل گیا۔ عِلاج چلتا رہا مگر کوئی فائدہ نہ ہُوا،اب تو دِھیرے دِھیرے دِماغ بھی مُتّاثر ہونے لگا تھا۔ ڈاکٹر بے بس تھے۔

نجمہ کے بچّے بہت مِلنسار تھے،نانا اور چھوٹی خالہ کے آنے سے گھر میں ہلچل مچ گئی۔ بڑے  دوسمجھدار تھے باقی سب بچّے عاتِکہ کو گھیرے رہتے۔چھوٹی خالہ،چھوٹی خالہ کہتے منہ نہیں سُوکھتا، ہر ایک کی ضِدرہتی کہ کھانا عاتِکہ کے ہاتھ سے کھائنگے، منہ چھوٹی خالہ دُھلانا۔ غرض ہر کام چھوٹی خالہ کرنا۔ نجمہ نے ڈرایا کہ اِسطرح تنگ کروگی تو وہ چلی جائینگی یہ سُنکر حُسنہ نے عاتِکہ کی جُوتیاں چُھپادیں۔

ایک دِن کھانے کی میز پر شجیع اُکھڑےاُکھڑے سے اُداس سے تھے۔حالانکہ وہ بہت بذلہ سنج،ہنس مُکھ تھے اِتنی سنجیدگی سے مذاق کرتے کے سامنے والے کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ مذاق کر رہے ہیں، اُنکی موجودگی میں محفِل قہقہہ زار رہتی۔ وہ حاظر جواب بھی بہت تھے۔ عاتِکہ نے جُملہ کسا شجیع بھائی آپ فِکر نہ کریں میں صباحت بھابھی کو کُچھ بھی نہیں بتاؤنگی، پُرانے راز،راز ہی رہینگے۔ اس پر نجمہ اورصباحت  دونوں کِھل کِھلاکر ہنس پڑے۔نجمہ نے صباحت کو سب کُچھ بتادِیا تھا کہ کِس طرح شجیع کو عاتِکہ پسند تھی اور خالہ جان نے عاتِکہ کا رِشتہ مانگا تھا اور ابّا نے اِنکار کردِیا تھا۔

''تُم کب سے اِتنی باتُونی ہوگئی ہو۔ پہلے تو کِسی کو گھانس ہی نہیں ڈالتی تھیں ''۔ شجیع نے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دِیا۔ '' کیا کریں اب گھانس سستی ہوگئی ہے، اُسکے علاوہ اب لوگوں نے ہمیں گھانس ڈالنا چھوڑ دِیا ہے۔''  پھر ٹیبل پر خاموشی چھا گئی، بیساختہ ہنسی بھی ایک جُرم تھی۔

دو دِن بعد شجیع،صباحت  امریکہ واپس چلے گئے،نجمہ نے سُکون کا سانس لِیا اب وہ پُورا وقت عاتِکہ کیساتھ بِتا سکتی تھی۔اُسے احساس ِندامت نے گھیر لیا، شجیع چُھٹیاں لیکر اُتنی دورسے اُسکی عِیادت کو آیا تھا۔'' اچھّا ہُوا تُم ابّا کیساتھ آگئیں  مُجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی تھیں۔ ''  پھر دونوں نے دو تین دِن تک بہت باتیں کیں آمنہ کی شادی، دونوں بھائیوں کی زِندگی کی تفصیلات۔ مگر اِس دوران بھی حالات گمبھیر ہی رہے، نجمہ دو دفعہ باتھ رُوم میں گِرگئیں۔  

ایک دِن وہ دونوں باتیں کرتے بیٹھے تھے کہ اچانک نجمہ نے  پُوچھ ہی لِیا '' تُم نے اکرم سے طلّاق کیوں لی؟''

عاتِکہ چونک گئی حالانکہ اُسے پتہ تھا کہ ایک نہ ایک دِن یہ بات نِکلیگی۔ '' سب نصیب کی باتیں ہیں۔ پہلے بات endometriosis سے شُروع ہُوئی heavy bleeding مہینہ میں پندرہ پندرہ دِن تک۔چار blood transfusion ساتھ میں uterusمیں fibroids بننے لگے پھر ovarian cysts۔اِسی میں پانچ سال نِکل گئے۔کئی ڈاکٹروں کو دِکھایا سب نے یہی مشورہ دِیا کہ uterusنِکال دو۔ ''  

'' وہ تو طلّاق نہیں دے رہا تھا، تُم نے خُودکیوں لی''  

'' وہ تو adoptionکی بات کررہا  تھا، مگر مُجھ سے دُوسروں کے بچّے نہیں  پالے جاتے ''

نجمہ ایک لمحہ کیلئے چونک گئی پر کُچھ کہا نہیں۔

'' پھر بے رُوح زِندگی گُزارنے سے کیا فائدہ۔ اب اپنے ہی امّی ابّا کی بات لے لو زِندگی بھر بنی نہیں (امّاں کو ابّا کے اُصولوں سے چِڑ تھی اور زِندگی میں لچک چاہتی تھیں اور ابّا اپنے اُصولوں پر اڑے رہتے)، مگر چھ بچّے پیدا کرلئے، یہاں تو بچّوں کی بات بھی نہیں تھی۔''

''پھر بھی طلّاق شدہ زِندگی سے وہ زِندگی بہتر تھی۔ ''

''اور جِس طرح سے اُسنے جلد ہی شادی کرلی اُس سے ظاہر ہُوا کہ وہ میرا دِل رکھنے کیلئے کہہ رہا تھا، کل کے پچھتاؤوں سے آج کے کڑے فیصلے بہتر ہوتے ہیں،اپنی زِندگی کیساتھ کِسی اور کی زِندگی برباد کرنے سے کیاحاصل۔میں اب نوکری کرتی ہُوں کِسی پر بوجھ نہیں ہُوں اور اپنی زندگی سے مُطمئن ہُوں '' عاتِکہ بہن کے گلے لگ گئی اور گال پر ایک بوسہ لے لیااور بات ختم کردی۔ نجمہ کی بات ادُھوری رہ گئی۔

دو دِن نجمہ کی طبیعت بہت خراب رہی وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر سکی، دو دِن بعد نجمہ نے کہا '' تُمہیں یاد ہے نا میں نے تُم سے کہا تھا کہ جب تُم یہاں آؤگی تو میں تُمھاری شادی کرادُونگی  ''

'' وہ توآپ مذاق میں کہہ رہی تھیں، مُجھ سے کون شادی کریگا ''

ہیں تُمہارے چاہنے والے ''  نجمہ نے مذاق کے لہجہ میں کہا۔

'' چاہنے والے کب تک اِنتظارکرتے،کب کے گھر بسا چُکے ''

عاتِکہ صاف محسُوس کررہی تھی کہ نجمہ بار بار تُھوک نِنگل رہی ہے اور اور لفظ اُسکے گلے میں پھنس رہے ہیں، وہ وہ نہیں کہہ پارہی جو کہنا چاہ رہی ہے۔بِالآخر نجمہ نے کہا   ''نہیں میں نے سنجیدگی سے کہا تھا، غرض میری ہے، میرے بچّے  چھوٹے ہیں اور اُنھیں یہاں پاکستان میں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ جمیل دو دو مہینے مِڈل اِیسٹ میں رہتے ہیں اور اکژ باہر آنا جانا رہتا ہے۔گھر دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے، مُجھے یقین ہیکہ جمیل دُوسری شادی کر لینگیں۔ نئی ماں بچّوں سے کیسا سُلوک کریگی نہیں معلوم۔ میری خواہش ہیکہ تُم جمیل سے شادی کرلو، میں نے جمیل سے بات کی ہے وہ اس بات پر راضی ہے۔ '' عاتِکہ یہ سب سُنکر سنّ رہ گئی اور تُھوک نِنگل کر بڑی مُشکِل سے بول سکی ''میرے سارے حالات جاننے کے بعد بھی؟''

''ہاں۔ اُنھیں بچّوں کے لئے صرف ایک ماں چاہئے''وہ کِتنی ہی دیر گُم سُم رہی، اُس سے کُچھ بولا نہیں جارہا تھا اُس کی آنکھ سے آنسُو بہہ نِکلے، دونوں بہنیں رونے لگیں۔

'' آپی یہ بات آپ نے کِسی کو بتائی تو نہیں ابّا کو، بھائیوں کو؟''

'' نہیں، یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہے، صرف جمیل کو پتہ ہیکہ میں تُم سے یہ بات کرنے والی ہُوں، وہ بھی غیر جانبدار ہیں۔میری ہی غرض ہے اِسلئے میں بے غیرت ہوکر بات کر رہی ہُوں ''  

'' بات یہ نہیں ہے، یہ ایک بڑا فیصلہ ہے، پتہ نہیں مُجھے پاکستان میں رہنے کی اِجازت مِلیگی یا  نہیں ''

''  اُسکی فِکر نہ کرو جمیل اِنتظام کرلینگے''

'' ویسے تو آدھا خاندان مُجھ سے ناراض ہے پھر بھی میں یہاں اکیلی رہ جاؤنگی، تُم بھی تو یہاں اکیلی ہو یہ تُمہارا ہی حوصلہ ہے ''  

'' میرے بچّے بڑے ہوکر تُمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑینگے''

'' پھر بھی میں سارے خاندان سے کٹ جاؤنگی،جمیل بھائی کو مجھ سے اچھی بِیوی مِل جائگی''

'' تُم سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو، تُم پر میں کوئی زبردستی نہیں کر رہی ہوں۔تُم یہاں آئی تو مُجھے خیال آیا کہ میرے بچّوں کو تُم سے اچھی ماں کون مِل سکتی ہے۔ مُناسِب سمجھو تو ابّا سے مشورہ کرلو''

دونوں نے ابّا سے بات کی تو اُنہوں نے اپنا دامن صاف بچالِیا، پہلی شادی میری ذِمہ داری تھی وہ میں نے پُوری کردی، اِسنے میری مرضی کے خِلاف طلّاق لے لی، اب اِسکی زِندگی ہے اِسکے فیصلے ہیں۔ابّا کے لہجہ میں ناراضگی تھی۔'' ویسے تُم اِس سے بڑی قُربانی مانگ رہی ہو۔یہ تو اپنی زِندگی بھی نہیں چلا سکتی'' عاتِکہ جُھنجُھلاکر کمرے سے نِکل گئی۔

عاتِکہ لاکھ سوچنے کے باوجُود اِس اُلجھن کو سُلجھانہیں پا رہی تھی کُچھ سُوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ اب اُسے جمیل بھائی کے سامنے آتے ہُوئے جِھجھک ہو رہی تھی۔اِتّفاق سے جمیل کام کے  سِلسِلہ میں مسقط چلے گئے۔ دِن بہت بے کیف گُزر رہے تھے۔ ابّا بیحد بور ہورہے تھے، اُن سے بات کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ایک دِن ابّا نے سخت ناراض ہوکر کہا'' جمیل نے اگریکلچر کی فیلڈ یہ کہکرچُنی تھی کہ خاندان کی زمینوں کی دیکھ بھال کریگا، تعلیم کے بعد امریکہ چلا گیا، وہاں سے مشرقِ وسطہ نِکل گیا horticulturist بنکرپھروہاں سے یہاں۔ اگر مُجھے پتہ ہوتایہ پاکستان آکر بیٹھ جائیگاتو اُسے میں اپنی بیٹی کیوں دیتا؟   میری بیٹی سب سے کٹ گئی ''  

''جانے بھی دِیجئے نا ابّا اب تو سب کُچھ ختم ہوگیا''  نجمہ نے اُداس ہوکر کہا ۔

عاتِکہ خِجل سی تھی، دِن تو باتوں اوردُوسری مصرُوفیتوں میں گُزر جاتا،لیکِن راتوں میں عاتِکہ کو نِیند نہیں آتی۔ نجمہ بھی سُبکی محسُوس کر رہی تھی کہ بات بھی کھوئی مُدّعا کہہ کے۔ عیادت کیلئے دونوں حیدرآباد سے آئے تھے لیکِن اب نجمہ دونوں کی دِلجوئی کر رہی تھی، طبیعت  ہُنوز گمبھیر تھی، اب اُسکے سُدھرنے کی کوئی صُورت نہ تھی،ڈاکٹروں نے تو پہلے ہی جواب دیدیا تھا۔''

اِسلام آباد بہت خُوبصورت شہر ہے کاش میں آپ دونوں کو دِکھانے چل سکتی ''۔ پھر اُسنے دو دِن میں ڈرائیورکے ذریعہ شہر کی سیر کروادی اور بچّوں کو بھی ساتھ کردیا کہ نانا اور خالہ کا دِل لگا رہے۔بڑا لڑکا نو برس کا تھا، اُسنے گائیڈ کے فرائض جیسے تیسے نِبھالئے۔

جمیل کے آنے کے کوئی آثار نہ تھے، ابّا اور عاتِکہ کے جانے کے دِن آگئے، نجمہ نے ابّا کومشورہ دِیا کہ جمیل کے آنے تک ٹہر جائیں پِھر چلے جانا۔وہ پہلے بہادری سے اپنی بیماری سے لڑ رہی تھی۔اپنوں کے آ جانے کے بعداُن کے جانے کے خیال سے ہی نہ جانے کیوں اب اُسے گھر میں اکیلے رہنے سے ڈر لگ رہا تھا۔حالانکہ گھر میں نوکر چاکر تھے، گاڑی تھی،ڈرائیور تھا، ہر قسم کی سہُولت تھی۔ ابّا نے یہ کہکر بات مسترِد کردی کہ جمیل کی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے یہ مناسب نہیں ہے،میری بھی حیدرآباد میں مصروفیات ہیں۔ٹکٹیں الگ ضائع ہوجائینگی اور پِھر اِسلام آباد سے لیکر حیدرآبادتک ریزرویشن مِلنا بہت مُشکِل ہوگا۔

'' آپ لوگ پلین سے چلے جائیں ''

'' یہ تُم لوگ کیا پلین پلین کی رٹ لگاتے رہتے ہو ''  ابّا ناراض ہوگئے۔

مُسلسِل جاگنے سے عاتِکہ کی آنکھیں سُوجھ رہی تھیں،کُچھ دخل رونے کا بھی تھا۔حالت یہ تھی کہ ہر کوئی اپنا غم دُوسرے سے چُھپارہا تھا۔ جانے کی صبح بھی آگئی اورگھڑی بھی آ گئی۔ ابّا نے کار میں بیٹھ کر آواز لگائی ''چلو بھئی دیر ہو رہی ہے'' پانچ مِنٹ بعد ابّا نے پھرآواز لگائی۔ نجمہ بڑی مُشکِل سے چل کر باہر آئی تھی،آنسو ضبط کرکے،گاڑی کے باہر کھڑی تھی۔''  حسن جاکر دیکھو چھوٹی خالہ کہاں ہے، تُم اُن کا سامان تو لیکر آؤ''۔حسن بھاگ کر اندر گیا،  اور تھوڑی دیر بعد آکر اِطلّاع دی۔ کمرے میں چھوٹی خالہ کا ساراسامان بِکھرا پڑا ہے، اور چھوٹی خالہ ابّو کی پھولوں کی نرسری میں ہے۔

٭٭٭٭٭

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024