افسانہ ۔ باسی بھات
افسانہ ۔ باسی بھات
May 15, 2019
شکیلہ اختر کا افسانہ اور تعارف
یہ افسانہ شکیلہ اختر کے افسانوی مجموعہ’’۔ لہو کے مول ‘‘مطبوعہ۱۹۷۶بک امپوریم پٹنہ(ص۔ ۲۲ سے ۳۴) سے لیا گیا ہے۔
باسی بھات
شکیلہ اختر
اس کے پیروں کی گردش نے زمین کے ایک ایک ذرے کو اس طرح سے پہچان لیا تھا جیسے ننھے بچے اپنی ماں کی ہنستی کو جان لیتے ہیں وہ زمین کی ہر ایک اونچ نیچ سے واقف ہوچکا تھا، گھر کے ہر ایک کمرے کی ساخت اور بناوٹ کو وہ اچھی طرح سے جانتا تھا اور مکان کے اندر زمینوں کی کھلتی ہوئی تہیں اس کے پائوں کے نیچے آپ ہی آپ بچھتی چلی جاتی تھیں۔ اس کے کان ہر آہٹ پر چوکنے ہوجاتے تھے، وہ دور ونزدیک سے آتی ہوئی ہلکی اور بھاری آوازوں کی منٹوں میں پہچان لیتا تھا، آواز کی ہر ایک لہر کو وہ اتنی تیزی سے محسوس کرلیا کرتا جیسے الفاظ کی لہریں خود اپنی روشنی اس کو دکھائی جارہی ہوں۔ اور اس کے متحرک پائوں کے نیچے دنیاروشن تھی، وہ اپنے گائوں کی ایک ایک گلی، گلی کے ایک موڑ اور اس کے پیچ وخم کو اس طرح سے جانتا تھا جیسے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو۔ اس کے تیز چلتے ہوئے پائوں کی حرکتوں نے گائوں کی ان ساری چوکھٹوں، کوٹھریوں اور آنگنوں کو پہچان لیا تھا جہاں وہ ہمیشہ سے آتا جاتا رہا تھا، وہ اپنے دوستوں کے گھروں میں پھیلی ہوئی ہر ایک بو کے فرق کو بھی جان گیا تھا۔ اس کے نتھنے اس کے پائوں کے تلوئوں کی طرح ہمیشہ پھڑکتے رہتے تھے۔ اس کی بائیں طرف کی ڈھلکتی ہوئی گردن کے ساتھ اس کے کان ہر ایک آواز چوکنا رہتے اور وہ انہی آوازوں کے سہارے اور اپنے پائوں کی مضبوط انگلیوں کی گرفت سے اس دنیا اور جہان کی ہر چیز کو محسوس کررہا تھا۔
اس کی آنکھوں کی روشنی کے بنا اس کے گرد اندھیرا تھا، پہلی بار اس نے اندھیرے سے نکلتے ہوئے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے چند سالوں تک دنیا کی روشنی کو، دیکھا ضرور تھا۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی دکھتی ہوئی آنکھوں کا علاج اس کی ماں نے دیہاتی طور پر ہار سنگار کے کھردرے پتوں سے خراش دے کر کرایاتھا۔ اور ہار سنگار کے ہرے پتوں نے اس کی آنکھوں کی دونوں پتلیوں کی کچھ اس طرح گھس کر رکھ دیا تھا کہ بچارہ رحمو پھران ہرے کچنارپتوں میں ہار سنگار کے حسین اور معطر پھولوں کی جھومتی ہوئی بہار کو کبھی نہ دیکھ سکا، جو ساری فضا کو اپنی خوشبوں سے مست بنادیتی ہیں۔ پھولوں کی ان خوشبوئوں میں کتنی حیات آفرینی تھی مگر۔۔۔۔ وہی ہرے پتے جو سرخ ڈنٹیوں میں سفید پھولوں کے حسن کو نکھار دیتے ہیں رحمو کی آنکھوں کو دس لیا تھا۔۔۔۔ اپنی زہریلی زبانوں سے اس کی بینائی کو چاٹ گئے تھے۔ اور اس طرح سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چاند اور ستاروں والی دنیا اور سورج کی جگمگاتی ہوئی روشنیوں سے بے خبر اور لاعلم ہوچکا تھا۔ یہی اس کی زندگی کا بہت بڑا المیہ تھا۔
ویسے اس نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ بڑے آرام سے زندگی گزارتا چلا آرہا ہے۔ ایک چہل پہل والے پر رونق گھر میں اس کی جگہ تھی۔ وہ ہر آواز پر کان لگا کر سننے کا عادی ہوچکا تھا اور ان ہی آوازوں کو سن کر اس نے دنیا کا ایک اندازہ لگا لیا تھا۔ دن اور رات کے فرق کو جانتا تھا اور ان ہی سارے محسوسات پر اسے زندگی گزارنے کا ایک خاص ڈھنگ بھی آگیا تھا۔
اس نے کبھی کوئی اونچی تمنا نہیں کی تھی۔ صبح سویرے باسی بھات کے ساتھ بھنا ہوا گوشت اور دہی کا مٹھا کھا کر وہ اتنا سیر ہوجاتا کہ پھرکسی نعمت کی اسے حاجت نہ رہتی تھی۔ پھر وہ گائوں بھر کی گلیوں، کوچوں اور سڑکوں پر دندناتا پھرتا، اس کی گردن آواز کو غور سے سننے کے لیے ہمیشہ ایک انداز سے ٹیڑھی رہا کرتی تھی۔ اسی طرح سے پھرتے پھراتے وہ بستی بھر کے حالات سے باخبر ہوجاتا تھا، ہر ایک آواز سے اس نے بولنے والے کی شخصیت کا اندازہ لگا لیا تھا۔
حویلی کے اندر بڑے سرکار کے فتح پیچ کی گڑ گڑاہٹ اور تمباکو کا خوشبودار دھواں اس کو بے حد اچھا لگتا تھا وہ گھنٹوں ان کی آرام کرسی کے پاس بیٹھا رہتا۔ ان دنوں رحمو بہت کم عمر تھا اور بڑے سرکار اس پر بہت تھے، وہ گھر کے اندر کی ساری رپورٹیں بڑے سرکار کو سنایا کرتا تھا کہ کل کون سی مرغی پکی تھی۔ بڑی دلہن اور منجھلی دلہن میں کس بات پر تکرار ہوئی تھی اور گھر کے لڑکے اور لڑکیوں میں کون زیادہ کھیلتا ہے اور کون پڑھنے لکھنے میں جی لگاتا ہے۔ گھر کے اندر چھوٹی بہو بیگم کا راج تھا۔ اور باہر چھوٹے صاحب زمینداری کا سارا کام سنبھالے ہوئے تھے۔
بڑے سرکار کا خاندان کافی بڑاتھا۔ چھٹیوں کے موقع پر ان کے بیٹے اور بہوئیں آتیں اور مہمانوں کی طرح ان کی بڑی خاطریں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے لیے قسم قسم کے کھانے پکتے۔ بٹیر اور تیتر ڈھونڈڈھونڈ کر منگائے جاتے اور سارے گائوں میں ایک رونق سی چھا جاتی۔ موٹروں پر شہروں سے پڑھنے والے بڑے سرکار کے پوتے اور پوتیاں آتیں اور ان گاڑیوں کو قریب سے دیکھنے کے لیے گائوں والوںکی جب ایک بھیڑ سی لگ جاتی تھی تو اس وقت رحمو کو یہ بات محسوس کرکے بڑے مسرت ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنی گردن ٹیڑھی کئے ہوئے لمبے لمبے ڈگگ بھرتا گاڑی کے قریب آجاتا اور ٹٹول کر اس پر ہاتھ پھیرتا گدوں کو چھوتا، دروازوں کو کھولتا اور بند کرتا پھر خوشیوں بھری آواز میں کہتا، ارے بھائی ہٹ جائو۔۔۔۔۔ موٹرگاڑی کے پاس بھیڑ مت لگائو۔ اور یہ کہتے ہوئے اس کو اپنی برتری کا گہرا احساس ہوا کرتا تھا اس کی انگلیوں میں اس وقت جیسے دئیے سے جل جاتے تھے۔ اور اس کے گرد چھایا ہوا اندھیرا مٹ کر رہ جاتا تھا۔
رحمو گھر کے سارے بچوں کے ساتھ پل کر ہر کھیل کو د میں شریک ہوتا رہا تھا، لٹو وہ نچاتا، گڈیوں کے پینچ وہ لڑاتا۔ تاش کے ہر کھیل میں وہ برابر کا شریک سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ تاش وہ اسی طرح سے کھیلتا تھا کہ پتیاں بھلے کو اس کے ہاتھ میں ہوتی تھیں مگر چال کوئی اور چلا کرتا تھا۔
بڑے سرکار کے مرنے کے بعد چھوٹے صاحب کا خاندان بستی چلے جاتے تب چھوٹی دلہن اور ان کی لڑکیاں اس کو باہر برآمدے میں بیٹھ کر گانے کو کہتیں اور وہ آدھی آدھی رات تک چھوٹے صاحب کے خوف سے بے نیاز ہو کر برسات کی کالی اندھیری راتوں میں لہک لہک کر گاتا۔
کیسے کھیلن جیہیں ساون میں کجریا
بدریا گھر آئی مندی!
اس کے ساتھ کھیلی ہوئی ساری لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں ہوتی چلی گئیں مگر وہ کنوارہ کا کنوارہ رہا۔ شادیوں کے ہنگاموں میں اسک ا موڑ ہمیشہ خراب رہتا۔ اس کی وجہ جو بھی ہو مگر اس کی شکایت یہی رہتی تھی کہ میراناشتہ کھانا گڑ بڑ ہوتا رہتا ہے۔ مجال نہ تھی کہ وہ ناشتہ میں کبھی روٹی تو کھالے۔ بغیر گوشت کے وہ کھانا حرام سمجھتا تھا۔ اور اچھی گاڑھی گرم گرم چائے جب تک اس کو نہیں ملتی وہ روٹھا ہوا سا بیٹھا رہتا، اور چھوٹی دلہن اور ان کی لڑکیاں اس کے یہ سارے نخرے سہتی چلی آرہی تھیں۔ چھوٹی دلہن جب کبھی اکیلی ہوتیں اور اپنے بچوں کے لیے ان کا جی گھبراتا تو وہ اس کو اپنے پاس بلا کر بہت سی باتیں کیا کرتیں۔ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں کو یاد کرتیں۔ پھر اسی کی باتیں اس سے پوچھتیں کہ تونے کیسے ڈربے کے اندر سے مرغی چرالی تھی؟ اور کرتے کے نیچے سے چھپی ہوئی مرغی نے کٹاس کٹاس کرکے تجھے پکڑوادیا تھا۔ اس کو چھوٹی دلہن کی ہنسی بہت اچھی لگتی تھی۔ اور وہ اس کو اس لیے بھی عزیز تھیں کہ اس کے کھانے پینے کا انہیں بہت خیال رہتا تھا۔ چھوٹی دلہن سے سبھی پیار کرتے تھے وہ اس گائوں کی اَنّ داتا سمجھی جاتی تھیں۔ انہوں نے اس گائوں کے رہنے والوں کو اپنی محبت اور خلوص کا سہارادیاتھا۔
پھر اچانک اس کوٹھی کی رونق پر اوس پڑگئی تھیں، چھوٹی دلہن کا ہارٹ فیل ہوگیا۔ برسوں تک ہر کسی کا دل ان کے غم میں سسکتا رہا تھا اور چھوٹے صاحب نے اس غم کو اتنا محسوس کیا کہ وہ بھی جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
خوشیوں اور غموں کے ہر ایک احساس کو وہ بڑی گہرائی سے محسوس کرتا رہا تھا۔ اب اس رونق بھرے گھر کی ویرانی پر اس کا دل بھی خون کے آنسورورہا تھا۔ وہ اس ویرانی کو دیکھ تو نہیں سکتا تھا مگر محسوس کرکے کُڑھ تو سکتا تھا۔ اپنی بے نور آنکھوں سے آنسو تو بہا سکتا تھا۔ پھر اس ویرانے میں چھوٹے صاحب کے منجھلے لڑکے اپنے خاندان کو لے کر آگئے اور زندگی کی ایک لہر سے وہ کوٹھی جگمگااٹھی۔ پھر چھوٹے صاحب کا خاص نوکر منیر بھی اس ویران کو ٹھی کی رونق کو دیکھ کر اپنے کندھے پر بے کار پڑے ہوئے جھاڑن سے فرنیچرو ں کو پوچھنے لگا۔ سناٹے مٹ گئے تھے اور رونقیں بڑھتی گئیں تھیں۔ ڈرائنگ روم اور بیڈ روم کے لیے نئے نئے سامان آنے لگے۔ کوٹھی کو نئے انداز سے سنوارا گیا۔ گملوں کی قطاریں بدل گئیں۔ جگہ جگہ تبدیلیاں ہوئیں نئے نئے موڑ پیدا ہوتے چلے گئے مگر رحمو کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہی تھی کہ اب اس کے جانے پہچانے ہوئے راستے بدلتے جارہے تھے وہ قدم قدم پر لڑکھڑانے لگا تھا۔ اس کے قدموں کے لیے اس کی اپنی زمین انجانی سی بنتی جارہی تھی وہ چلنے سے پہلے لرزاٹھتا تھا۔ اس کے پائوں میں جلتی ہوئی قندیلیں جیسے بجھتی جارہی تھیں۔ گھر کے در ودیوار غیر مانوس سے ہوتے جارہے تھے۔ اس کا دل بیٹھا بیٹھا سا رہتا۔ گھر کے اندر کی اپنائیت کے نشان مدھم پڑتے جارہے تھے۔ اس کے پاوں کی ٹھوکروں سے کئی قیمتی پھول سے بھرے ہوئے گملے ٹوٹ چکے تھے۔ مالی نے ان کی ٹوٹی ہوئی ڈالیاں سب کسی کو دکھائیں مگر رحمو کے خون سے رستے ہوئے پائوں کے زخموں کی کسی کو خبر تک نہ ہوسکی تھی،۔۔۔ اس کے تیز چلتے ہوئے پائوں کی آنکھیں اچانک اندھی ہوچکی تھیں۔ اس کے راستے گم ہوتے جارہے تھے۔ وہ اپنی کوٹھری میں مقید سا ہو کر رہ گیا تھا اس کے خیالوں میں گزری ہوئی آوازوں کی بازگشت سنائی دیتی۔ چھوٹی دلہن اور ان کے سارے بچے کھلی ہوئی راہیں اور کشادہ راستے۔ جانی بوجھی ہوئی اٹھنے بیٹھنے کی جگہیں۔ ہر طرف اپنا چھایا ہوا ماحول نوکروں کے کوارٹروں میں ان کی آزادہنسی اور دل لگی۔ بے فکری اور چین کی زندگی۔ وہ سب کیا ہوگئے؟ یہ حقیقتیں خواب ہو کر کیوں رہ گئیں؟ ہائے وہ سب کچھ کیسے مٹ گیا؟
اور اب دلہن بیگم جیسے اس گھر کو شیشے کا محل بنانا چاہ رہی تھیں۔ اور شیشے کے اس درودیوار میں رحمو کی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی وہ اس گھر میں تڑپ رہا تھا۔ اور کانچ کی کرچیوں نے صرف اس کے پیروں کو ہی نہیں، اس کی روح اس کی ساری امنگوں کو بھی لہولہان بنا رکھا تھا۔
رحموں کے اس اندھیارے میں ایک منیر ہی بس اس کا اکیلا سہارا تھا۔ بیچارا منیر چھوٹے سرکار کے بعد بھی ان کے کمرے اور ان کی ساری چیزوں کو اب تک اسی ڈھنگ سے سجائے جیسے ان کی واپسی کا انتظار کرتا رہاتھا۔ ۔۔۔۔ مگر اب پہلے کے سارے مٹتے ہوئے نقوش کو دیکھ کر وہ تلملارہا تھا، سلک رہا تھا۔
ان ساری کڑھنوں کے بعد بھی جب کبھی رحمو اپنی اداسیوں سے گھبرا کر لہک لہک کر گانا چاہتا تو دلہن بیگم اس کو گانے سے روک دیتیں، کبھی وہ ان کے بچوں کی پڑھائی کا وقت ہوتا تھا اور کبھی ریڈیو پر ہوتا ہوا گانا رحمو کی آواز سے ڈسٹرب ہو جاتا تھا۔ اس کوٹھی میں قسم قسم کے گانے لہکتے رہتے تھے۔ مگر رحمو کے لب خاموش ہوچکے تھے۔ اس کے چہرے پر گھر کی چھٹتی ہوئی ساری ویرانی چھا کر رہ گئی تھی۔ کبھی کبھی وہ بڑی بے چارگی کے عالم میں اپنی اندھی آنکھوں کو اوپر اُٹھا کر سوچا کرتا تھا کہ وہ اتنا اچھا زمانہ کیسے بچھڑ گیا؟ اس کو بہت سی باتوں کے ساتھ اس بات کی بے چینی سی ہوا کرتی تھی کہ یہ راشن کا بکھیڑا کہاں سے آگیا ہے؟ چھوٹی دلہن کے سامنے دھان اور چاولوں کے جن ڈھیروں پر وہ کودتا پھاندتا رہا تھا وہ سارے کھیت کھلیان اب کہاں چلے گئے؟
دلہن بیگم کے ساتھ کئی ملازم آئے تھے ان کے بچوں کے لیے ایک آیا بھی آئی تھی، ہر روز منیر کی اس آیا سے جھڑپیں چل جاتیں۔ منیر چھوٹے صاحب کا خاص اور چہیتا ملازم تھا وہ کسی آیا سے ڈرنا جانتا ہی نہیں تھا۔ پھر بھی منیر رحمو کے پاس کوٹھری میں آکر اپنے دل کی ساری بھڑاس نکالتا۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔ سالی اپنے کونہ جانے کیا سمجھتی ہے، آگرہ کی بولی بولے، چاہے نکھلؤ کی۔ ہم بھی چھوٹے سرکار کے نوکر ہیں ہونہہ۔ کسی سے ڈرنہیں سکتے۔ جائو۔ جائو۔ کہدو اپنی میم صاحب کو ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ منیر جنم کا پاگل تھا۔ وہ اپنا گھر مرشدآباد بتایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں تک بنگلہ زبان بھی بولتا رہا تھا۔ اور بات بات میں حضرت عباس کی قسمیں کھانے کا بھی عادی تھا۔ مگر رفتہ رفتہ وہ ساری یادیں اس کے ذہن سے مٹی چلی گئیں۔ بس ایک اس کی اپنی انا رہ گئی تھی کہ وہ اس گھر کے مالک چھوٹے صاحب کا خاص ملازم ہے ۔وہ چھوٹےصاحب جو اس کو ٹھی سے جداہوکر ایک خوبصورت گھر میں آرام کی نیند سوچکے تھے، لیکن منیر نے اب تک ان کی یادوں اور ان کی چیزوں کو اسی طرح سجائے رکھا تھا جیسے ان کی زندگی میں سجی ہوئی تھیں۔لیکن رحمو ڈر پوک بن چکا تھا۔ کس سے بولے ؟ کیا کوئی اس سے وہ پہلا ساخلوص برتے گا؟جو گزرتا ہے گزرتا رہے۔ زندگی ہی کتنے دنوں کی ہے؟ مگر ۔۔۔۔۔دلہن بیگم نے چاولوں کے ان سارے ڈھیروں کو کیا کردیا؟ ہائے یہ روٹی کی مصیبت تو کسی طرح اس سے سہی نہیں جاتی تھی۔۔۔۔۔ دلہن بیگم جو اس کو یہ روز روز ڈالڈا کے پکے ہوئے پراٹھوں کا ناشتہ دیا کرتی ہیں تو ان روٹیوں پر وہ کتنے دن جی سکے گا؟۔ ہائے وہ پانی دیا ہوا ٹھنڈا ٹھنڈا بھات، اور دہی کے ساتھ بھُنا ہوا گوشت کھاکر جی کیسا مست ہوجاتا تھا۔ مگر اب روٹیوں کو کھا کر منہ کامزا کتنا خراب ہوجاتا ہے۔ اَخ۔ تُھو۔ تُھو۔ رحمو نے بیٹھے بیٹھے وہیں پر تھوک دیا۔
شکیلہ اختر
شکیلہ اختر کی ادبی زندگی کے آغازکے متعلق وثوق سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے۔ اس سلسلے میں خود ان کے بیانات بھی غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں۔ مختلف بیانات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے ابتدامیں انہوں نے کچھ غزلیں یا تفریحی مضامین لکھے ہوں مگر ان کا پہلا افسانہ 1936 کے آس پاس ہی شائع ہوا ہوگا۔شکیلہ اختر کا تعلق بہار سے ہے ۔ انکی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’درپن ‘‘ کے نام سے لاہور کے مکتبہ اردو نے ۱۹۳۷ میں شائع کیا تھا ۔ اس مجموعے میں کل چودہ افسانے ہیں۔ اس کے بعد شکیلہ اختر کی درج ذیل تصانیف منظر عام پر آئیں۔۔
۱۔آنکھ مچولی ( افسانوی مجموعہ جس میں کل گیارہ افسانے ہیں) (مطبوعہ ۔ممبئی ۱۹۴۰(
۲۔ ڈائن ( افسانوی مجموعہ جس میں کل بارہ افسانے ہیں ( مطبوعہ ۔ مکتبہ دین و دانش پٹنہ ، ۱۹۵۲(
۳۔ آگ اور پتھر ( افسانوی مجموعہ جس میں کل تیرہ افسانے ہیں(مطبوعہ ۔’’۱۹۶۷(
۴۔تنکے کا سہارا ( تین ناولٹ بشمول نفرت ،تنکے کا سہارا وغیرہ) مطبوعہ۔لکھنئو۔۱۹۷۵(
۵۔ لہو کے مول( افسانوی مجموعہ جس میں کل بارہ افسانے ہیں ) مطبوعہ پٹنہ۔۱۹۷۸(
۶۔آخری سلام ( افسانوی مجموعہ جس میں کل پندرہ افسانے ہیں) مطبوعہ لکھنو۔۱۹۷۸(
انہوں نے اختر اورینوی کے اداریوں کا ایک مجموعہ بھی ترتیب دیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔ ان پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں او ران کی مختلف کتابوں پر بہار، بنگال اور اتر پردیش اردو اکادمی نے انعامات دئیے ہیں۔ وہ ایک عرصہ تک بہار اردو اکادمی کی مجلس عاملہ اور سب کمیٹیوں کی رکن رہی ہیں۔اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں شکیلہ اختر کا اپناایک انداز اور مقام ہے۔ گرچہ ان کا دائرہ کار محدود اور طرز بیان سادہ ہے مگر افسانوں میں تاثیر کی کمی نہیں۔ اردو کے اہم ناقدوں نے ان کی انفرادیت تسلیم کی ہے۔
ڈاکٹر عبد المغنی لکھتے ہیں:
’’ یہ مطالعہ حیات بہت صاف ، سیدھا اور فطری ہے اس مطالعہ کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نہ تو عصمت چغتائی کی طرح جنسی انحراف کا تعاقب ہے نہ حجاب امتیاز علی کی طرح ما فوق الفطری تخیلات کی جلوہ گری نہ قرۃ العین حیدر کی طرح صوفیانہ فلسفہ طرزی اور نہ ہاجرہ سرور کی کی طرح اشتراکی پیچ و خم۔ شکیلہ اختر براہ راست اور خالص اردو معاشرت کے احوال و کوائف کا نقشہ پوری وفاداری اور یکسوئی کے ساتھ کھینچ دیتی ہیں۔
شادی کے بعد شکیلہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پٹنہ میں اختر اورینوی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ واقع چھجو باغ میں گذرا۔ یہاں ملک کے مشاہیر اہل قلم کی برابری اور آمد و رفت رہتی تھی۔ جن کی میز بانی ان کے فرائض میں داخل تھی۔
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
یہ افسانہ شکیلہ اختر کے افسانوی مجموعہ’’۔ لہو کے مول ‘‘مطبوعہ۱۹۷۶بک امپوریم پٹنہ(ص۔ ۲۲ سے ۳۴) سے لیا گیا ہے۔
باسی بھات
شکیلہ اختر
اس کے پیروں کی گردش نے زمین کے ایک ایک ذرے کو اس طرح سے پہچان لیا تھا جیسے ننھے بچے اپنی ماں کی ہنستی کو جان لیتے ہیں وہ زمین کی ہر ایک اونچ نیچ سے واقف ہوچکا تھا، گھر کے ہر ایک کمرے کی ساخت اور بناوٹ کو وہ اچھی طرح سے جانتا تھا اور مکان کے اندر زمینوں کی کھلتی ہوئی تہیں اس کے پائوں کے نیچے آپ ہی آپ بچھتی چلی جاتی تھیں۔ اس کے کان ہر آہٹ پر چوکنے ہوجاتے تھے، وہ دور ونزدیک سے آتی ہوئی ہلکی اور بھاری آوازوں کی منٹوں میں پہچان لیتا تھا، آواز کی ہر ایک لہر کو وہ اتنی تیزی سے محسوس کرلیا کرتا جیسے الفاظ کی لہریں خود اپنی روشنی اس کو دکھائی جارہی ہوں۔ اور اس کے متحرک پائوں کے نیچے دنیاروشن تھی، وہ اپنے گائوں کی ایک ایک گلی، گلی کے ایک موڑ اور اس کے پیچ وخم کو اس طرح سے جانتا تھا جیسے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو۔ اس کے تیز چلتے ہوئے پائوں کی حرکتوں نے گائوں کی ان ساری چوکھٹوں، کوٹھریوں اور آنگنوں کو پہچان لیا تھا جہاں وہ ہمیشہ سے آتا جاتا رہا تھا، وہ اپنے دوستوں کے گھروں میں پھیلی ہوئی ہر ایک بو کے فرق کو بھی جان گیا تھا۔ اس کے نتھنے اس کے پائوں کے تلوئوں کی طرح ہمیشہ پھڑکتے رہتے تھے۔ اس کی بائیں طرف کی ڈھلکتی ہوئی گردن کے ساتھ اس کے کان ہر ایک آواز چوکنا رہتے اور وہ انہی آوازوں کے سہارے اور اپنے پائوں کی مضبوط انگلیوں کی گرفت سے اس دنیا اور جہان کی ہر چیز کو محسوس کررہا تھا۔
اس کی آنکھوں کی روشنی کے بنا اس کے گرد اندھیرا تھا، پہلی بار اس نے اندھیرے سے نکلتے ہوئے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے چند سالوں تک دنیا کی روشنی کو، دیکھا ضرور تھا۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی دکھتی ہوئی آنکھوں کا علاج اس کی ماں نے دیہاتی طور پر ہار سنگار کے کھردرے پتوں سے خراش دے کر کرایاتھا۔ اور ہار سنگار کے ہرے پتوں نے اس کی آنکھوں کی دونوں پتلیوں کی کچھ اس طرح گھس کر رکھ دیا تھا کہ بچارہ رحمو پھران ہرے کچنارپتوں میں ہار سنگار کے حسین اور معطر پھولوں کی جھومتی ہوئی بہار کو کبھی نہ دیکھ سکا، جو ساری فضا کو اپنی خوشبوں سے مست بنادیتی ہیں۔ پھولوں کی ان خوشبوئوں میں کتنی حیات آفرینی تھی مگر۔۔۔۔ وہی ہرے پتے جو سرخ ڈنٹیوں میں سفید پھولوں کے حسن کو نکھار دیتے ہیں رحمو کی آنکھوں کو دس لیا تھا۔۔۔۔ اپنی زہریلی زبانوں سے اس کی بینائی کو چاٹ گئے تھے۔ اور اس طرح سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چاند اور ستاروں والی دنیا اور سورج کی جگمگاتی ہوئی روشنیوں سے بے خبر اور لاعلم ہوچکا تھا۔ یہی اس کی زندگی کا بہت بڑا المیہ تھا۔
ویسے اس نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ بڑے آرام سے زندگی گزارتا چلا آرہا ہے۔ ایک چہل پہل والے پر رونق گھر میں اس کی جگہ تھی۔ وہ ہر آواز پر کان لگا کر سننے کا عادی ہوچکا تھا اور ان ہی آوازوں کو سن کر اس نے دنیا کا ایک اندازہ لگا لیا تھا۔ دن اور رات کے فرق کو جانتا تھا اور ان ہی سارے محسوسات پر اسے زندگی گزارنے کا ایک خاص ڈھنگ بھی آگیا تھا۔
اس نے کبھی کوئی اونچی تمنا نہیں کی تھی۔ صبح سویرے باسی بھات کے ساتھ بھنا ہوا گوشت اور دہی کا مٹھا کھا کر وہ اتنا سیر ہوجاتا کہ پھرکسی نعمت کی اسے حاجت نہ رہتی تھی۔ پھر وہ گائوں بھر کی گلیوں، کوچوں اور سڑکوں پر دندناتا پھرتا، اس کی گردن آواز کو غور سے سننے کے لیے ہمیشہ ایک انداز سے ٹیڑھی رہا کرتی تھی۔ اسی طرح سے پھرتے پھراتے وہ بستی بھر کے حالات سے باخبر ہوجاتا تھا، ہر ایک آواز سے اس نے بولنے والے کی شخصیت کا اندازہ لگا لیا تھا۔
حویلی کے اندر بڑے سرکار کے فتح پیچ کی گڑ گڑاہٹ اور تمباکو کا خوشبودار دھواں اس کو بے حد اچھا لگتا تھا وہ گھنٹوں ان کی آرام کرسی کے پاس بیٹھا رہتا۔ ان دنوں رحمو بہت کم عمر تھا اور بڑے سرکار اس پر بہت تھے، وہ گھر کے اندر کی ساری رپورٹیں بڑے سرکار کو سنایا کرتا تھا کہ کل کون سی مرغی پکی تھی۔ بڑی دلہن اور منجھلی دلہن میں کس بات پر تکرار ہوئی تھی اور گھر کے لڑکے اور لڑکیوں میں کون زیادہ کھیلتا ہے اور کون پڑھنے لکھنے میں جی لگاتا ہے۔ گھر کے اندر چھوٹی بہو بیگم کا راج تھا۔ اور باہر چھوٹے صاحب زمینداری کا سارا کام سنبھالے ہوئے تھے۔
بڑے سرکار کا خاندان کافی بڑاتھا۔ چھٹیوں کے موقع پر ان کے بیٹے اور بہوئیں آتیں اور مہمانوں کی طرح ان کی بڑی خاطریں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے لیے قسم قسم کے کھانے پکتے۔ بٹیر اور تیتر ڈھونڈڈھونڈ کر منگائے جاتے اور سارے گائوں میں ایک رونق سی چھا جاتی۔ موٹروں پر شہروں سے پڑھنے والے بڑے سرکار کے پوتے اور پوتیاں آتیں اور ان گاڑیوں کو قریب سے دیکھنے کے لیے گائوں والوںکی جب ایک بھیڑ سی لگ جاتی تھی تو اس وقت رحمو کو یہ بات محسوس کرکے بڑے مسرت ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنی گردن ٹیڑھی کئے ہوئے لمبے لمبے ڈگگ بھرتا گاڑی کے قریب آجاتا اور ٹٹول کر اس پر ہاتھ پھیرتا گدوں کو چھوتا، دروازوں کو کھولتا اور بند کرتا پھر خوشیوں بھری آواز میں کہتا، ارے بھائی ہٹ جائو۔۔۔۔۔ موٹرگاڑی کے پاس بھیڑ مت لگائو۔ اور یہ کہتے ہوئے اس کو اپنی برتری کا گہرا احساس ہوا کرتا تھا اس کی انگلیوں میں اس وقت جیسے دئیے سے جل جاتے تھے۔ اور اس کے گرد چھایا ہوا اندھیرا مٹ کر رہ جاتا تھا۔
رحمو گھر کے سارے بچوں کے ساتھ پل کر ہر کھیل کو د میں شریک ہوتا رہا تھا، لٹو وہ نچاتا، گڈیوں کے پینچ وہ لڑاتا۔ تاش کے ہر کھیل میں وہ برابر کا شریک سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ تاش وہ اسی طرح سے کھیلتا تھا کہ پتیاں بھلے کو اس کے ہاتھ میں ہوتی تھیں مگر چال کوئی اور چلا کرتا تھا۔
بڑے سرکار کے مرنے کے بعد چھوٹے صاحب کا خاندان بستی چلے جاتے تب چھوٹی دلہن اور ان کی لڑکیاں اس کو باہر برآمدے میں بیٹھ کر گانے کو کہتیں اور وہ آدھی آدھی رات تک چھوٹے صاحب کے خوف سے بے نیاز ہو کر برسات کی کالی اندھیری راتوں میں لہک لہک کر گاتا۔
کیسے کھیلن جیہیں ساون میں کجریا
بدریا گھر آئی مندی!
اس کے ساتھ کھیلی ہوئی ساری لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں ہوتی چلی گئیں مگر وہ کنوارہ کا کنوارہ رہا۔ شادیوں کے ہنگاموں میں اسک ا موڑ ہمیشہ خراب رہتا۔ اس کی وجہ جو بھی ہو مگر اس کی شکایت یہی رہتی تھی کہ میراناشتہ کھانا گڑ بڑ ہوتا رہتا ہے۔ مجال نہ تھی کہ وہ ناشتہ میں کبھی روٹی تو کھالے۔ بغیر گوشت کے وہ کھانا حرام سمجھتا تھا۔ اور اچھی گاڑھی گرم گرم چائے جب تک اس کو نہیں ملتی وہ روٹھا ہوا سا بیٹھا رہتا، اور چھوٹی دلہن اور ان کی لڑکیاں اس کے یہ سارے نخرے سہتی چلی آرہی تھیں۔ چھوٹی دلہن جب کبھی اکیلی ہوتیں اور اپنے بچوں کے لیے ان کا جی گھبراتا تو وہ اس کو اپنے پاس بلا کر بہت سی باتیں کیا کرتیں۔ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں کو یاد کرتیں۔ پھر اسی کی باتیں اس سے پوچھتیں کہ تونے کیسے ڈربے کے اندر سے مرغی چرالی تھی؟ اور کرتے کے نیچے سے چھپی ہوئی مرغی نے کٹاس کٹاس کرکے تجھے پکڑوادیا تھا۔ اس کو چھوٹی دلہن کی ہنسی بہت اچھی لگتی تھی۔ اور وہ اس کو اس لیے بھی عزیز تھیں کہ اس کے کھانے پینے کا انہیں بہت خیال رہتا تھا۔ چھوٹی دلہن سے سبھی پیار کرتے تھے وہ اس گائوں کی اَنّ داتا سمجھی جاتی تھیں۔ انہوں نے اس گائوں کے رہنے والوں کو اپنی محبت اور خلوص کا سہارادیاتھا۔
پھر اچانک اس کوٹھی کی رونق پر اوس پڑگئی تھیں، چھوٹی دلہن کا ہارٹ فیل ہوگیا۔ برسوں تک ہر کسی کا دل ان کے غم میں سسکتا رہا تھا اور چھوٹے صاحب نے اس غم کو اتنا محسوس کیا کہ وہ بھی جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
خوشیوں اور غموں کے ہر ایک احساس کو وہ بڑی گہرائی سے محسوس کرتا رہا تھا۔ اب اس رونق بھرے گھر کی ویرانی پر اس کا دل بھی خون کے آنسورورہا تھا۔ وہ اس ویرانی کو دیکھ تو نہیں سکتا تھا مگر محسوس کرکے کُڑھ تو سکتا تھا۔ اپنی بے نور آنکھوں سے آنسو تو بہا سکتا تھا۔ پھر اس ویرانے میں چھوٹے صاحب کے منجھلے لڑکے اپنے خاندان کو لے کر آگئے اور زندگی کی ایک لہر سے وہ کوٹھی جگمگااٹھی۔ پھر چھوٹے صاحب کا خاص نوکر منیر بھی اس ویران کو ٹھی کی رونق کو دیکھ کر اپنے کندھے پر بے کار پڑے ہوئے جھاڑن سے فرنیچرو ں کو پوچھنے لگا۔ سناٹے مٹ گئے تھے اور رونقیں بڑھتی گئیں تھیں۔ ڈرائنگ روم اور بیڈ روم کے لیے نئے نئے سامان آنے لگے۔ کوٹھی کو نئے انداز سے سنوارا گیا۔ گملوں کی قطاریں بدل گئیں۔ جگہ جگہ تبدیلیاں ہوئیں نئے نئے موڑ پیدا ہوتے چلے گئے مگر رحمو کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہی تھی کہ اب اس کے جانے پہچانے ہوئے راستے بدلتے جارہے تھے وہ قدم قدم پر لڑکھڑانے لگا تھا۔ اس کے قدموں کے لیے اس کی اپنی زمین انجانی سی بنتی جارہی تھی وہ چلنے سے پہلے لرزاٹھتا تھا۔ اس کے پائوں میں جلتی ہوئی قندیلیں جیسے بجھتی جارہی تھیں۔ گھر کے در ودیوار غیر مانوس سے ہوتے جارہے تھے۔ اس کا دل بیٹھا بیٹھا سا رہتا۔ گھر کے اندر کی اپنائیت کے نشان مدھم پڑتے جارہے تھے۔ اس کے پاوں کی ٹھوکروں سے کئی قیمتی پھول سے بھرے ہوئے گملے ٹوٹ چکے تھے۔ مالی نے ان کی ٹوٹی ہوئی ڈالیاں سب کسی کو دکھائیں مگر رحمو کے خون سے رستے ہوئے پائوں کے زخموں کی کسی کو خبر تک نہ ہوسکی تھی،۔۔۔ اس کے تیز چلتے ہوئے پائوں کی آنکھیں اچانک اندھی ہوچکی تھیں۔ اس کے راستے گم ہوتے جارہے تھے۔ وہ اپنی کوٹھری میں مقید سا ہو کر رہ گیا تھا اس کے خیالوں میں گزری ہوئی آوازوں کی بازگشت سنائی دیتی۔ چھوٹی دلہن اور ان کے سارے بچے کھلی ہوئی راہیں اور کشادہ راستے۔ جانی بوجھی ہوئی اٹھنے بیٹھنے کی جگہیں۔ ہر طرف اپنا چھایا ہوا ماحول نوکروں کے کوارٹروں میں ان کی آزادہنسی اور دل لگی۔ بے فکری اور چین کی زندگی۔ وہ سب کیا ہوگئے؟ یہ حقیقتیں خواب ہو کر کیوں رہ گئیں؟ ہائے وہ سب کچھ کیسے مٹ گیا؟
اور اب دلہن بیگم جیسے اس گھر کو شیشے کا محل بنانا چاہ رہی تھیں۔ اور شیشے کے اس درودیوار میں رحمو کی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی وہ اس گھر میں تڑپ رہا تھا۔ اور کانچ کی کرچیوں نے صرف اس کے پیروں کو ہی نہیں، اس کی روح اس کی ساری امنگوں کو بھی لہولہان بنا رکھا تھا۔
رحموں کے اس اندھیارے میں ایک منیر ہی بس اس کا اکیلا سہارا تھا۔ بیچارا منیر چھوٹے سرکار کے بعد بھی ان کے کمرے اور ان کی ساری چیزوں کو اب تک اسی ڈھنگ سے سجائے جیسے ان کی واپسی کا انتظار کرتا رہاتھا۔ ۔۔۔۔ مگر اب پہلے کے سارے مٹتے ہوئے نقوش کو دیکھ کر وہ تلملارہا تھا، سلک رہا تھا۔
ان ساری کڑھنوں کے بعد بھی جب کبھی رحمو اپنی اداسیوں سے گھبرا کر لہک لہک کر گانا چاہتا تو دلہن بیگم اس کو گانے سے روک دیتیں، کبھی وہ ان کے بچوں کی پڑھائی کا وقت ہوتا تھا اور کبھی ریڈیو پر ہوتا ہوا گانا رحمو کی آواز سے ڈسٹرب ہو جاتا تھا۔ اس کوٹھی میں قسم قسم کے گانے لہکتے رہتے تھے۔ مگر رحمو کے لب خاموش ہوچکے تھے۔ اس کے چہرے پر گھر کی چھٹتی ہوئی ساری ویرانی چھا کر رہ گئی تھی۔ کبھی کبھی وہ بڑی بے چارگی کے عالم میں اپنی اندھی آنکھوں کو اوپر اُٹھا کر سوچا کرتا تھا کہ وہ اتنا اچھا زمانہ کیسے بچھڑ گیا؟ اس کو بہت سی باتوں کے ساتھ اس بات کی بے چینی سی ہوا کرتی تھی کہ یہ راشن کا بکھیڑا کہاں سے آگیا ہے؟ چھوٹی دلہن کے سامنے دھان اور چاولوں کے جن ڈھیروں پر وہ کودتا پھاندتا رہا تھا وہ سارے کھیت کھلیان اب کہاں چلے گئے؟
دلہن بیگم کے ساتھ کئی ملازم آئے تھے ان کے بچوں کے لیے ایک آیا بھی آئی تھی، ہر روز منیر کی اس آیا سے جھڑپیں چل جاتیں۔ منیر چھوٹے صاحب کا خاص اور چہیتا ملازم تھا وہ کسی آیا سے ڈرنا جانتا ہی نہیں تھا۔ پھر بھی منیر رحمو کے پاس کوٹھری میں آکر اپنے دل کی ساری بھڑاس نکالتا۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔ سالی اپنے کونہ جانے کیا سمجھتی ہے، آگرہ کی بولی بولے، چاہے نکھلؤ کی۔ ہم بھی چھوٹے سرکار کے نوکر ہیں ہونہہ۔ کسی سے ڈرنہیں سکتے۔ جائو۔ جائو۔ کہدو اپنی میم صاحب کو ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ منیر جنم کا پاگل تھا۔ وہ اپنا گھر مرشدآباد بتایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں تک بنگلہ زبان بھی بولتا رہا تھا۔ اور بات بات میں حضرت عباس کی قسمیں کھانے کا بھی عادی تھا۔ مگر رفتہ رفتہ وہ ساری یادیں اس کے ذہن سے مٹی چلی گئیں۔ بس ایک اس کی اپنی انا رہ گئی تھی کہ وہ اس گھر کے مالک چھوٹے صاحب کا خاص ملازم ہے ۔وہ چھوٹےصاحب جو اس کو ٹھی سے جداہوکر ایک خوبصورت گھر میں آرام کی نیند سوچکے تھے، لیکن منیر نے اب تک ان کی یادوں اور ان کی چیزوں کو اسی طرح سجائے رکھا تھا جیسے ان کی زندگی میں سجی ہوئی تھیں۔لیکن رحمو ڈر پوک بن چکا تھا۔ کس سے بولے ؟ کیا کوئی اس سے وہ پہلا ساخلوص برتے گا؟جو گزرتا ہے گزرتا رہے۔ زندگی ہی کتنے دنوں کی ہے؟ مگر ۔۔۔۔۔دلہن بیگم نے چاولوں کے ان سارے ڈھیروں کو کیا کردیا؟ ہائے یہ روٹی کی مصیبت تو کسی طرح اس سے سہی نہیں جاتی تھی۔۔۔۔۔ دلہن بیگم جو اس کو یہ روز روز ڈالڈا کے پکے ہوئے پراٹھوں کا ناشتہ دیا کرتی ہیں تو ان روٹیوں پر وہ کتنے دن جی سکے گا؟۔ ہائے وہ پانی دیا ہوا ٹھنڈا ٹھنڈا بھات، اور دہی کے ساتھ بھُنا ہوا گوشت کھاکر جی کیسا مست ہوجاتا تھا۔ مگر اب روٹیوں کو کھا کر منہ کامزا کتنا خراب ہوجاتا ہے۔ اَخ۔ تُھو۔ تُھو۔ رحمو نے بیٹھے بیٹھے وہیں پر تھوک دیا۔
شکیلہ اختر
شکیلہ اختر کی ادبی زندگی کے آغازکے متعلق وثوق سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے۔ اس سلسلے میں خود ان کے بیانات بھی غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں۔ مختلف بیانات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے ابتدامیں انہوں نے کچھ غزلیں یا تفریحی مضامین لکھے ہوں مگر ان کا پہلا افسانہ 1936 کے آس پاس ہی شائع ہوا ہوگا۔شکیلہ اختر کا تعلق بہار سے ہے ۔ انکی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’درپن ‘‘ کے نام سے لاہور کے مکتبہ اردو نے ۱۹۳۷ میں شائع کیا تھا ۔ اس مجموعے میں کل چودہ افسانے ہیں۔ اس کے بعد شکیلہ اختر کی درج ذیل تصانیف منظر عام پر آئیں۔۔
۱۔آنکھ مچولی ( افسانوی مجموعہ جس میں کل گیارہ افسانے ہیں) (مطبوعہ ۔ممبئی ۱۹۴۰(
۲۔ ڈائن ( افسانوی مجموعہ جس میں کل بارہ افسانے ہیں ( مطبوعہ ۔ مکتبہ دین و دانش پٹنہ ، ۱۹۵۲(
۳۔ آگ اور پتھر ( افسانوی مجموعہ جس میں کل تیرہ افسانے ہیں(مطبوعہ ۔’’۱۹۶۷(
۴۔تنکے کا سہارا ( تین ناولٹ بشمول نفرت ،تنکے کا سہارا وغیرہ) مطبوعہ۔لکھنئو۔۱۹۷۵(
۵۔ لہو کے مول( افسانوی مجموعہ جس میں کل بارہ افسانے ہیں ) مطبوعہ پٹنہ۔۱۹۷۸(
۶۔آخری سلام ( افسانوی مجموعہ جس میں کل پندرہ افسانے ہیں) مطبوعہ لکھنو۔۱۹۷۸(
انہوں نے اختر اورینوی کے اداریوں کا ایک مجموعہ بھی ترتیب دیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔ ان پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں او ران کی مختلف کتابوں پر بہار، بنگال اور اتر پردیش اردو اکادمی نے انعامات دئیے ہیں۔ وہ ایک عرصہ تک بہار اردو اکادمی کی مجلس عاملہ اور سب کمیٹیوں کی رکن رہی ہیں۔اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں شکیلہ اختر کا اپناایک انداز اور مقام ہے۔ گرچہ ان کا دائرہ کار محدود اور طرز بیان سادہ ہے مگر افسانوں میں تاثیر کی کمی نہیں۔ اردو کے اہم ناقدوں نے ان کی انفرادیت تسلیم کی ہے۔
ڈاکٹر عبد المغنی لکھتے ہیں:
’’ یہ مطالعہ حیات بہت صاف ، سیدھا اور فطری ہے اس مطالعہ کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نہ تو عصمت چغتائی کی طرح جنسی انحراف کا تعاقب ہے نہ حجاب امتیاز علی کی طرح ما فوق الفطری تخیلات کی جلوہ گری نہ قرۃ العین حیدر کی طرح صوفیانہ فلسفہ طرزی اور نہ ہاجرہ سرور کی کی طرح اشتراکی پیچ و خم۔ شکیلہ اختر براہ راست اور خالص اردو معاشرت کے احوال و کوائف کا نقشہ پوری وفاداری اور یکسوئی کے ساتھ کھینچ دیتی ہیں۔
شادی کے بعد شکیلہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پٹنہ میں اختر اورینوی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ واقع چھجو باغ میں گذرا۔ یہاں ملک کے مشاہیر اہل قلم کی برابری اور آمد و رفت رہتی تھی۔ جن کی میز بانی ان کے فرائض میں داخل تھی۔
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)