تمثیل حفصہ کی نظمیں
تمثیل حفصہ کی نظمیں
May 17, 2019
فنِ مصوری پر لکھی تمثیل حفصہ کی نظمیں
فنِ مصوری پر لکھی تمثیل حفصہ کی نظمیں
۵ نظمیں آرٹ پر۔۔۔ تمثیل حفصہ
“رنگوں سے مل کر اداس ہونا”
تمثیل حفصہ
اکثر یوں ہوتا ہے
جب تاریخ میں جھانک کر
سرخ آنکھوں سے دیکھیں
تو ''مونا لیزا'' ہنسنے لگ جاتی ہے
"آدم اور حوا” دو پتوں میں
پلکیں جھکائے جنت سے باہر آتے ہیں
جیسے رسوائی کا کوئی خوف نہ ہو
جب "ڈیویڈ" سینہ تانے
"کرائیسٹ میری کی گود میں ہو"
تو مٹی زندہ ہو جاتی ہے
اور سنگ مرمر کے شیشوں پہ
ایسے سجنے لگ جاتی ہے
جیسے رنگوں کی "سٹیری نائٹ" ۔۔۔!
رات میں تارے گرتے گرتے
محلوں میں آ جاتے ہیں
جہاں شاہ جہاں کی گود میں سوئی
"تاج محل" کی دیوی
صدیاں بیت جانے کے بعد بھی جاگ رہی ہے
اور اک اک سر میں
" دیپک راگ" آلاپ رہی ہے
"بلیو روم" کے مدھم رنگ
"لاسٹ سپر" کے کالے دل والے
بارہ لوگوں کی دھڑکنوں جیسے نہیں!
اوپر اشارہ کرنے والی انگلی
"سیس ٹائن چیپل کی سیلنگ" میں آدھے ترچھے لوگوں کی انتھک بھیڑ جاری ہے
"جنت کے دروازے" سے
وہی دیوی " وینس ڈارف" جھانک رہی ہے
جسکو پتھروں میں چھوڑ آئے تھے
ایسی غاروں کے اندر
رنگوں سے جادو ہوتے تھے
ہاتھوں کے نقشوں سے
لمحوں میں تخلیق ہونے والی پینٹنگز
مدتوں بعد بھی زندہ ہیں
خاموشی کو آواز دے کر
مردہ سانسوں کو پیوند لگائے ہیں
شاہکاروں کو زنجیر چڑھا کے
لٹکا کے
تاریخ میں رکھ کربیٹھ گئے ہیں
اور اپنی عظمت بھول گئے ہیں!!!
—————————————————————
“نقطہ”
Vitruvian Man
( Drawing by Leonardo da Vinci )
تمثیل حفصہ
کائنات کی سازش
تو نے کیسے سوچی ہے
آدمی کا پورا تن
دونوں ہاتھ پھیلائے
دونوں پاؤں پھیلائے
دائرہ بناتے ہیں
دائرے کی دنیا ہے
ناپ لیتی ہیں سانسیں
ایک انچ ہٹ جائے
ایک سانس گھٹ جائے
اک مربع آہٹ کا
اک بگولہ گردش کا
ایک نقطہ خواہش کا
پھیلتا ہی جائے تو
آنکھ کے جزیرے میں
کائنات بن جائے
آدمی کے ہونے سے...
—————————————————————
“ٹک ٹک ٹک۔۔”
The Persistence of Memory
(Painting by Salvador Dali)
تمثیل حفصہ
آؤ ڈالی کی پینٹنگ سے
وقت کی گرتی خالی گھڑیاں
گن گن گن کے رکھتے جائیں
سوکھی شاخ پہ بہتی سوئیاں
دور پہاڑوں پر ویراں میں
شام کی دستک ہو جانے پر
شیلف پہ رکھا
اک بوسیدہ ماس کا ٹکڑا
اور زمیں پر خشکابے کے سارے لمحے
ایک پلک کے سو جانے سے
ایسے سوئے جیسے کوئی
خواب ہو سویا
یا پھر ٹک ٹک، ٹک ٹک کرتی
ساری گھڑیاں
اس لمحے میں رک سی جائیں
شام کے منظر میں کھو جائیں
اور زمیں پہ سوتی جائیں
خواب کے امبر پر خوابوں میں
آنے والے سب وقتوں کی
ایسی بھی کوئی ساعت ہو
ایک صدی کے کٹ جانے پر
اب بھی جیسے وہ زندہ ہوں
—————————————————————
''فرعون زندہ ہیں''
تمثیل حفصہ
ابولہول کی دنیا میں
فریادیں جو کرتے ہیں
اہراموں کے اندر سے
چیخوں سے یہ لکھتے ہیں
دیواروں کے اوپر بھی
رنگوں میں یہ چھپتے ہیں
تابوتوں کے کونے میں
'' کا'' نامی اک کوا ہے
زندہ لاش کے سینے میں
پتھر سا دل رکھا ہے
سناٹا سا رہتا ہے
ابولہول کی دنیا میں
آج بھی ایسا ہوتا ہے
فریادیں جو کرتا ہے
فرعونوں کی آوازیں
اہراموں کے اندر سے
دہشت کی ہر آہٹ پر
چیخوں سے یہ لکھتی ہیں
ان کو بھی دفنا دیں گے
دیواروں کے اوپر سے
پتھر پھینکے جاتے ہیں
شام پہ سرخی چھاتی ہے
بےکس، بے بس، بیچارے
رنگوں میں چھپ جاتے ہیں
تابوتوں کے کونوں میں
ٹکڑے پھینکے جاتے ہیں
'' کا'' نامی اک کوا بھی
زندہ لاشیں کھاتا ہے
دھک دھک کرتی ہیں آہیں
سناٹا سا چھاتا ہے
ابولہول کی دنیا میں
اہراموں کو موت نہیں....
—————————————————————
“مٹیالی مایا”
(وینس آف ویلن ڈارف)
تمثیل حفصہ
وہ اک عورت، ہے بدصورت
چہرہ، آنکھیں، ہونٹ نہیں ہیں
بالوں میں پیچیدہ گنگھرو
پاؤں کٹے اور ہاتھ ہیں ٹوٹے
سینے سے جذبات ہیں پھوٹے
کہنے کو اک ماں کی مورت
چوتھا، پانچواں، چھٹا ہوگا
موٹی، بھدی،گندی، کالی
ہر عورت ہے جیسے گالی
پتھر میں چنوایا تم نے
پتھر میں بنوایا تم نے
لطف ہی لطف اٹھایا تم نے
اس کی کچھ پہچان نہیں ہے
پتھر میں اب جان نہیں ہے
مار دو یا پھر پھوڑ دو اس کو
لیکن زندہ چھوڑ دو اس کو
کب ہے اس کو جانا تم نے
یا پھر دیوی مانا تم نے
جھوٹ ہی لکھا جھوٹ بنایا
عورت لکھ کر نام کمایا
عورت ہے مٹیالی مایا
جس کو کوئی سمجھ نہ پایا
صدیاں بیتی لیکن اب تک
عورت کی پلٹی نہ کایا
—————————————————————
فنِ مصوری پر لکھی تمثیل حفصہ کی نظمیں
۵ نظمیں آرٹ پر۔۔۔ تمثیل حفصہ
“رنگوں سے مل کر اداس ہونا”
تمثیل حفصہ
اکثر یوں ہوتا ہے
جب تاریخ میں جھانک کر
سرخ آنکھوں سے دیکھیں
تو ''مونا لیزا'' ہنسنے لگ جاتی ہے
"آدم اور حوا” دو پتوں میں
پلکیں جھکائے جنت سے باہر آتے ہیں
جیسے رسوائی کا کوئی خوف نہ ہو
جب "ڈیویڈ" سینہ تانے
"کرائیسٹ میری کی گود میں ہو"
تو مٹی زندہ ہو جاتی ہے
اور سنگ مرمر کے شیشوں پہ
ایسے سجنے لگ جاتی ہے
جیسے رنگوں کی "سٹیری نائٹ" ۔۔۔!
رات میں تارے گرتے گرتے
محلوں میں آ جاتے ہیں
جہاں شاہ جہاں کی گود میں سوئی
"تاج محل" کی دیوی
صدیاں بیت جانے کے بعد بھی جاگ رہی ہے
اور اک اک سر میں
" دیپک راگ" آلاپ رہی ہے
"بلیو روم" کے مدھم رنگ
"لاسٹ سپر" کے کالے دل والے
بارہ لوگوں کی دھڑکنوں جیسے نہیں!
اوپر اشارہ کرنے والی انگلی
"سیس ٹائن چیپل کی سیلنگ" میں آدھے ترچھے لوگوں کی انتھک بھیڑ جاری ہے
"جنت کے دروازے" سے
وہی دیوی " وینس ڈارف" جھانک رہی ہے
جسکو پتھروں میں چھوڑ آئے تھے
ایسی غاروں کے اندر
رنگوں سے جادو ہوتے تھے
ہاتھوں کے نقشوں سے
لمحوں میں تخلیق ہونے والی پینٹنگز
مدتوں بعد بھی زندہ ہیں
خاموشی کو آواز دے کر
مردہ سانسوں کو پیوند لگائے ہیں
شاہکاروں کو زنجیر چڑھا کے
لٹکا کے
تاریخ میں رکھ کربیٹھ گئے ہیں
اور اپنی عظمت بھول گئے ہیں!!!
—————————————————————
“نقطہ”
Vitruvian Man
( Drawing by Leonardo da Vinci )
تمثیل حفصہ
کائنات کی سازش
تو نے کیسے سوچی ہے
آدمی کا پورا تن
دونوں ہاتھ پھیلائے
دونوں پاؤں پھیلائے
دائرہ بناتے ہیں
دائرے کی دنیا ہے
ناپ لیتی ہیں سانسیں
ایک انچ ہٹ جائے
ایک سانس گھٹ جائے
اک مربع آہٹ کا
اک بگولہ گردش کا
ایک نقطہ خواہش کا
پھیلتا ہی جائے تو
آنکھ کے جزیرے میں
کائنات بن جائے
آدمی کے ہونے سے...
—————————————————————
“ٹک ٹک ٹک۔۔”
The Persistence of Memory
(Painting by Salvador Dali)
تمثیل حفصہ
آؤ ڈالی کی پینٹنگ سے
وقت کی گرتی خالی گھڑیاں
گن گن گن کے رکھتے جائیں
سوکھی شاخ پہ بہتی سوئیاں
دور پہاڑوں پر ویراں میں
شام کی دستک ہو جانے پر
شیلف پہ رکھا
اک بوسیدہ ماس کا ٹکڑا
اور زمیں پر خشکابے کے سارے لمحے
ایک پلک کے سو جانے سے
ایسے سوئے جیسے کوئی
خواب ہو سویا
یا پھر ٹک ٹک، ٹک ٹک کرتی
ساری گھڑیاں
اس لمحے میں رک سی جائیں
شام کے منظر میں کھو جائیں
اور زمیں پہ سوتی جائیں
خواب کے امبر پر خوابوں میں
آنے والے سب وقتوں کی
ایسی بھی کوئی ساعت ہو
ایک صدی کے کٹ جانے پر
اب بھی جیسے وہ زندہ ہوں
—————————————————————
''فرعون زندہ ہیں''
تمثیل حفصہ
ابولہول کی دنیا میں
فریادیں جو کرتے ہیں
اہراموں کے اندر سے
چیخوں سے یہ لکھتے ہیں
دیواروں کے اوپر بھی
رنگوں میں یہ چھپتے ہیں
تابوتوں کے کونے میں
'' کا'' نامی اک کوا ہے
زندہ لاش کے سینے میں
پتھر سا دل رکھا ہے
سناٹا سا رہتا ہے
ابولہول کی دنیا میں
آج بھی ایسا ہوتا ہے
فریادیں جو کرتا ہے
فرعونوں کی آوازیں
اہراموں کے اندر سے
دہشت کی ہر آہٹ پر
چیخوں سے یہ لکھتی ہیں
ان کو بھی دفنا دیں گے
دیواروں کے اوپر سے
پتھر پھینکے جاتے ہیں
شام پہ سرخی چھاتی ہے
بےکس، بے بس، بیچارے
رنگوں میں چھپ جاتے ہیں
تابوتوں کے کونوں میں
ٹکڑے پھینکے جاتے ہیں
'' کا'' نامی اک کوا بھی
زندہ لاشیں کھاتا ہے
دھک دھک کرتی ہیں آہیں
سناٹا سا چھاتا ہے
ابولہول کی دنیا میں
اہراموں کو موت نہیں....
—————————————————————
“مٹیالی مایا”
(وینس آف ویلن ڈارف)
تمثیل حفصہ
وہ اک عورت، ہے بدصورت
چہرہ، آنکھیں، ہونٹ نہیں ہیں
بالوں میں پیچیدہ گنگھرو
پاؤں کٹے اور ہاتھ ہیں ٹوٹے
سینے سے جذبات ہیں پھوٹے
کہنے کو اک ماں کی مورت
چوتھا، پانچواں، چھٹا ہوگا
موٹی، بھدی،گندی، کالی
ہر عورت ہے جیسے گالی
پتھر میں چنوایا تم نے
پتھر میں بنوایا تم نے
لطف ہی لطف اٹھایا تم نے
اس کی کچھ پہچان نہیں ہے
پتھر میں اب جان نہیں ہے
مار دو یا پھر پھوڑ دو اس کو
لیکن زندہ چھوڑ دو اس کو
کب ہے اس کو جانا تم نے
یا پھر دیوی مانا تم نے
جھوٹ ہی لکھا جھوٹ بنایا
عورت لکھ کر نام کمایا
عورت ہے مٹیالی مایا
جس کو کوئی سمجھ نہ پایا
صدیاں بیتی لیکن اب تک
عورت کی پلٹی نہ کایا
—————————————————————