نیّرِ تاب دار تھا نہ رہا
نیّرِ تاب دار تھا نہ رہا
Jan 24, 2019
کلدیپ نیر جدید ہندوستان میں کئی تاریخی اور اہم واقعات کے گواہ تھے۔
دیدبان شمارہ ۔۹
نیّرِ تاب دار تھا نہ رہا
کلدیپ نیر جدید ہندوستان میں کئی تاریخی اور اہم واقعات کے گواہ تھے۔
فیصل فاروق
حالیہ دِنوں کئی ایسی عظیم شخصیتیں ہم سے رخصت ہوئیں جنہوں نے اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کی وجہ سے قارئین کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا تھا۔ اُنہی محترم شخصیات میں سے ایک کلدیپ نیر بھی ہیں۔ کلدیپ نیر طویل مدت سے بیمار چل رہے تھے اور ۹۵/سال کی عمر میں اِس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آزاد ہندوستان کی صحافت کے اہم ستون کلدیپ نیر نہ صرف عظیم صحافی بلکہ ایک عظیم انسان تھے۔ اُن کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہندوستان کے بٹوارے سے لے کر نریندر مودی کے عروج تک کے تاریخ ساز عہد کے چشم دید گواہ تو تھے ہی بلکہ اُنہوں نے اُس عہد کو اپنے قلم سے رقم بھی کیا۔ اُنہوں نے ہمیشہ حق کی آواز بلند کی اور حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی۔ اکہتر سال کی اپنی صحافتی زندگی میں اُنہوں نے کافی نام کمایا۔
اعتدال و توازن، حقیقت پسندی، وسیع القلبی اور کشادہ نظری اُن کا امتیازی وصف تھا۔ وہ آسان لفظوں میں بڑی خوبصورتی سے اپنی بات کہہ دیتے تھے جو کہ مؤثر ثابت ہوتی تھی۔ اُن کے بے خوف خیالات و نظریات اور اُن کا کام کئی دہائیوں پر محیط رہا۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر انگریزی صحافت کے دِلدادہ تھے اور انگریزی صحافت کے معیار کو مثالی قرار دیتے تھے لیکن اردو کے ساتھ اُن کا عاشقانہ رشتہ تھا۔ کلدیپ نیر نے اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بھی اپنا کردار نبھانے کی پوری کوشش کی۔ اُنہیں مجاہدِ آزادی مولانا حسرت موہانی کے ساتھ کام کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ایک ایسے وقت میں جب قلم اور آزادی اظہارِ رائے پر پابندیاں لگانے کی درپردہ کوششیں ہو رہی ہیں کلدیپ نیر کا جانا جمہوریت کے اِس چوتھے ستون کیلئے ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں۔
پریس کی آزادی اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ہمیشہ جد وجہد کرنے والے معروف صحافی کلدیپ نیر کی پیدائش ۱۴/اگست ۱۹۲۳ء کو غیر منقسم ہندوستان کے سیالکوٹ میں ہوئی تھی جو اِس وقت پاکستان میں ہے۔ سیالکوٹ کی مِٹی نے کئی اہم شخصیات کو پیدا کیا ہے۔ کلدیپ نیر اِس بات پر بھی فخر کرتے تھے کہ وہ اُس جگہ کے رہنے والے ہیں جس نے اردو کے دو بڑے شاعروں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کو پیدا کیا۔ اُنہوں نے لاہور سے قانون کی پڑھائی کی تھی اور امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری حاصل کی تھی۔ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی۔ وکالت کی ڈگری ہونے کے باوجود کلدیپ نیر نے بطور صحافی اپنے کریئر کی شروعات کی۔ اُنہوں نے دہلی کے بَلّی ماراں سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ اخبار انجام سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر مولانا حسرت موہانی کے زیرِ نگرانی وحدت نامی اخبار میں کچھ دِن کام کیا اور اُنہی کے مشورہ سے انگریزی صحافت کو اپنا میدانِ عمل بنایا اور اُس میں بڑی اہم خدمات انجام دیں۔ مولانا حسرت موہانی آئین ساز اسمبلی کے رکن بھی تھے۔
کلدیپ نیر نے مہاتما گاندھی کے قتل کی پوری خبر موقعہ واردات پر پہنچ کر کوَر کی تھی۔ نیر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ اپنے کریئر کے شروعاتی دِنوں میں اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے ٹیلی پرنٹر کی گھنٹی بجی اور ایک خبر فلیش ہوئی 'گاندھی شاٹ ٹو ڈیتھ'۔ اُنہوں نے بتایا میں فوراً بِرلا ہاؤس بھاگا۔ میرا ایک ساتھی مجھے اپنی موٹر سائیکل پر پچھلی سیٹ پر بٹھا کر وہاں چھوڑ آیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور مولانا آزاد پہنچ چکے تھے۔ میرے سامنے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن وہاں پہنچے اور اُنہوں نے گاندھی کے جسد خاکی کو سیلوٹ کیا۔ مجھے نجی طور پر لگا کہ ملک کے سر پر ہاتھ رکھنے والا ہمارے درمیان سے اُٹھ گیا۔
کلدیپ نیر نے پریس اِنفارمیشن بیورو (پی آئی بی) حکومتِ ہند میں کئی سال تک اپنی خدمات انجام دیں۔ اُنہیں اُس وقت کے وزیر داخلہ گووند ولبھ پنت کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا۔ کلدیپ نیر کا خیال تھا کہ پنڈت جی بہت بڑے آدمی تھے اور اُن کا اِنسانی پہلو بہت مضبوط تھا۔ گووند ولبھ پنت کے بعد جب لال بہادر شاستری وزیر داخلہ بنے تو اُنہوں نے سارا اسٹاف بدل ڈالا سواۓ اُن کے ڈرائیور اور پریس آفیسر کلدیپ نیر کے۔ کلدیپ نیر کا کہنا تھا کہ شاستری جیسے سادہ لوح اِنسان نہ تو اُس وقت سیاست میں تھے نہ آج ہیں۔ اِس کے علاوہ نیر ہندوستانی خبر رساں ایجنسی یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی)، پاکستان کے مشہور انگریزی زبان کے اخبار دی ڈان، انگریزی زبان میں شائع ہونے والا روزنامہ اخبار دی اِسٹیٹس مین اور دی اِنڈین ایکسپریس کے ساتھ طویل مدت تک منسلک رہے۔ وہ پچیس سال تک دی ٹائمز لندن کے نامہ نگار بھی رہے ہیں۔ وہ دہلی میں دی اِسٹیٹس مین کے مدیر بھی رہے ہیں۔ انگریزی صحافت میں اُنہیں اِس بات کا بھی فائدہ ملا کہ وہ ملک کے تیسرے وزیراعظم رہ چکے لال بہادر شاستری اور یوپی کے پہلے وزیراعلیٰ رہ چکے گووند ولبھ پنت کی وزارت داخلہ میں اِنفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے کام کرچکے تھے۔ وہ شاستری جی کے بہت قریب رہے۔ اُس وقت یہ پہلی شخصیت تھی جس نے لال بہادر شاستری کے موت کی اطلاع دی۔
وی پی سنگھ کی دورِ حکومت میں کلدیپ نیر کو ۱۹۹۰ء میں گریٹ بریٹین میں ہندوستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا تھا جبکہ وہ ۱۹۹۶ء میں ہندوستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے رکن بھی رہے۔ اور پھر ۱۹۹۷ء میں اُنہیں پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا رکن نامزد کیا گیا۔ اُنہوں نے چھ سال تک اِس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔ کلدیپ نیر کو نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی طرف سے ایلیومنی میرِٹ ایوارڈ ۱۹۹۹ء میں دیا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں اُنہیں صحافت میں اُن کی گراں قدر خدمات کیلئے لائیو ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ صحافت کے شعبہ میں قابلِ قدر خدمات انجام دینے والوں کو نیر سے منسوب "کلدیپ نیر صحافتی ایوارڈ" دیا جاتا ہے۔ کلدیپ نیر ایک سیکولر قلمکار اورجمہوری اقدار کے امین تھے۔ وہ شدت پسند تنظیموں اور خاص طور پر آر ایس ایس کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے اور واجپئی حکومت میں یہاں تک کہا تھا کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے کہ آر ایس ایس کے کارکنان کو حکومت کے اعلیٰ عہدوں سے دور رکھا جائے اور اُنہیں حکومت کے کام کاج کیلئے نہ اہل قرار دیا جائے۔
راقم کے ایک دوست جو آر ٹی آئی رضاکار ہیں بتاتے ہیں کہ حق معلومات (آر ٹی آئی) کو نافذ کرانے میں ایک اہم رول کلدیپ نیر کا بھی رہا ہے۔ وہ شروعات سے ہی اِس کی تمام تحریکوں سے جڑے رہے اور لِکھتے رہے۔ آر ٹی آئی کے اِس ایکٹ پر کلدیپ نیر نے جتنا لکھا، شاید ہی کسی اور نے اِتنا لکھا ہو۔ معلومات فراہم کرنے کیلئے ایک قومی سطح کا قانون بنانا ایک مشکل امر ثابت ہوا۔ یہ قانون پورے ہندوستان پر محیط ہے سوائے جموں و کشمیر کے جہاں جموں و کشمیر حق معلومات قانون ۲۰۰۹ء نافذ العمل ہے۔ یہ سبھی دستوری ارباب مجاز کا احاطہ کرتا ہے جن میں حکومت، مقننہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ قانون میں یہ بھی مذکور ہے کہ ادارہ جات یا ارباب مجاز جو ملکیت، زیرِ نگرانی یا قابلِ لحاظ حد تک مالیہ فراہم کردہ حکومت یا نیم سرکاری اداروں کے تحت آتے ہیں، وہ اِس قانون کا حصہ بن جاتے ہیں۔
کلدیپ نیر کی اہم کتابوں میں بٹوین دی لائنس، بیانڈ دی لائنس (سوانح عمری)، ڈسٹنٹ نیبرس: اے ٹیل آف دی سب کانٹی نینٹ، ٹیلس آف ٹو سٹیز، وال ایٹ واگھا: انڈیا پاکستان رلیشنز، انڈیا ہائوس، اِسکوپ: اِنسائڈ اسٹوریز فرام دی پارٹیشن ٹو پریزنٹ، ٹریجڈی آف پنجاب، اِن جیل، رپورٹ آن افغانستان، ایمرجنسی ری ٹولڈ، انڈیا آفٹر نہرو شامل ہیں۔ لیکن بھگت سنگھ کی زندگی پر لکھی گئی کتاب ودآؤٹ فیئر اور ایمرجنسی پر لکھی گئی اُن کی کتاب دی ججمنٹ: انسائڈ اسٹوری آف دی ایمرجنسی اِن انڈیا خاصی مشہور ہوئی۔ وِدآؤٹ فیئر نامی اِس کتاب میں کلدیپ نیر نے ہندوستانی نوجوانوں پر بھگت سنگھ کے اثرات اور اُس بے مثال آدمی اور اُس کے ساتھیوں، سُکھدیو اور راج گرو کے کاموں کو دکھایا ہے۔ یہ کتاب شہید اعظم بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے یہ بتاتی ہے کہ ہنس راج ووہرا نے بطور سرکاری گواہ بھگت سنگھ کو کیوں دھوکہ دیا۔ اِس کتاب نے سُکھدیو پر بھی نئی روشنی ڈالی، بعض مورخین کی طرف سے جن کی وفاداری پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ اور دی ججمنٹ میں کلدیپ نیر نے ۱۲/جون ۱۹۷۵ء جس دِن الہ آباد ہائی کورٹ نے اِندرا گاندھی کو لے کر فیصلہ سنایا تھا سے اپنا بیان شروع کیا ہے۔ یہ ایمرجنسی پر لکھی گئی اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔
کلدیپ نیر ہندوستان کے پہلے سِنڈیکیٹ کالم نگاروں میں سے ایک تھے۔ انگریزی میں لِکھا ہوا اُن کا ہفتہ وار کالم "بٹوین دی لائنس" (بين السطور) اردو اخبارات سمیت ہندوستان کی تمام اہم زبانوں کے تقریباً ٨٠/اخبارات میں بیک وقت شائع ہوا کرتا تھا۔ مگر اردو اخبارات کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ اُنہیں اُن کا مضمون اردو میں ہی ملتا تھا۔ کیونکہ اُس کا اردو ترجمہ وہ اپنی نگرانی میں کرواتے تھے۔ اُنہوں نے ہندوستانی سیاست کی سب سے زیادہ معلوماتی تفصیل کی ایک سیریز لکھی۔ اُن میں سے ایک، "بٹوین دی لائنس" جو کہ شاید ہندوستان میں سب سے پہلی نان فِکشن بہترین فروخت کنندہ کتاب تھی۔ اُن کی تحریروں کے تراجم ہندوستان بھر کے متعدد اخبارات اور رسائل و جرائد میں اہتمام سے شائع تو ہوتے ہی تھے۔ علاوہ ازیں بعض عالمی معاملات میں اُن کے موقف کو الیکٹرانِک میڈیا بھی نمایاں انداز میں شائع کیا کرتا تھا۔ کلدیپ نیر کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے بارے میں اُن کی خود نوشت کے دیباچہ نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ کلدیپ نیر کے نام کا ترجمہ "سیکولرازم" ہے۔
کلدیپ نیر کی تحریروں پرشدید تنقید اور اعتراضات بھی ہوتے رہے۔ ڈاکٹر منیش کمار اپنے ایک مضمون "یہ کلدیپ نیر صاحب کو کیا ہو گیا؟" میں لکھتے ہیں کہ "صحافی کے قلم میں طاقت ہوتی ہے اور اگر وہ صحافی کلدیپ صاحب جیسے قدآور ہوں تو طاقت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اِس طاقت کا استعمال عوام کی طرفداری کیلئے ہونا چاہئے نہ کہ سرکار کی۔ صحافی کا کام سرکار کے کام کاج کی غلطیوں کو اُجاگر کرنا ہوتا ہے، یہ بات کلدیپ صاحب سے بہتر ہندوستان میں کون جان سکتا ہے؟ وہ جانتے ہیں اور یہ ہم لوگوں نے اُن سے ہی سیکھا ہے کہ ایک صحافی کو سرکار کیلئے میڈیا منیجر کی طرح کام نہیں کرنا چاہئے۔ جس کام کیلئے ملک میں کئی صحافی کافی ہیں اور کئی تو ایسے بھی ہیں، جنہوں نے یہ کام خود ہی اپنے سر پر لے لیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے کلدیپ صاحب اُن میں سے نہیں ہیں، کیوںکہ زمانہ اِتنا بدل گیا ہے کہ لوگ فوراً یہ الزام لگانے لگیں گے کہ کلدیپ صاحب کانگریس کی پونچھ پکڑ کر پھر سے راجیہ سبھا جانا چاہتے ہیں۔"
کلدیپ نیر کی پہچان ایک سیاسی مبصر کی تھی۔ کلدیپ نیر کو دی اِسٹیٹس مین کے ایڈیٹر کے طور پر ایمرجنسی کے دوران اِندرا گاندھی حکومت کے خلاف اپنے موقف کیلئے جانا جاتا تھا۔ اُس دور میں اپنی تحریروں کے ذریعہ اُنہوں نے جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائی اور امن پسندی کی پُرزور وکالت کی۔ کلدیپ نیر اُن لوگوں میں سے تھے جِنہوں نے ایمرجنسی کی کھل کر مخالفت کی تھی اور دہشت پسند قانون میسا کے تحت جیل بھی گئے تھے۔ حکومت وقت کی طرف سے جب کبھی پریس کی آزادی صلب کرنے کی کوشش ہوئی وہ اُس کے خلاف میدان میں کود پڑے۔ اُنہوں نے معاصر صحافیوں کے ساتھ صف آراء ہو کر دہلی کے اِنڈیا گیٹ پر راجیو گاندھی حکومت کے ذریعہ لائے گئے متنازعہ ہتک عزت ایکٹ کی پُرزور مخالفت بھی کی تھی۔ اِسی طرح دو سال قبل جب این ڈی ٹی وی پر موجودہ مودی سرکار نے پابندی لگانے کی کوشش کی تو اُس وقت بھی دہلی پریس کلب میں جو احتجاج ہوا اُس میں کلدیپ نیر ضعیف العمری کے باوجود موجود رہے۔ ایک سیاسی مبصر کے طور پر اُنہوں نے موجودہ مسائل پر آزادانہ طور پر اپنے خیالات کو لکھا۔ اُنہوں نے انقلابی خیالات کے سماجی کارکن انا ہزارے کی بدعنوانی کے خلاف چلائی گئی تحریک کی حمایت بھی کی تھی۔
۱۹۴۷ء میں جب ملک تقسیم ہوا تو فوج کے ایک بریگیڈیئر نے کلدیپ نیر کے والد کو پیشکش کی کہ وہ ہندوستان جا رہے ہیں اور اُن کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے والد نے کہا کہ وہ اُن کے تینوں بیٹوں کو اپنے ساتھ ہندوستان لے جائیں۔ بریگیڈیئر نے کہا کہ تینوں بیٹوں کو لے جانا تو ممکن نہیں ہے، البتہ وہ اُن کے کسی ایک بیٹے کو لے جا سکتے ہیں۔ اُن کے والد نے تینوں بیٹوں کے نام کی چٹھی اڑائی، قرعہ فال کلدیپ کے نام نِکلا۔ چنانچہ کلدیپ نیر اُس بریگیڈیئر کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر پہلے لاہور پھر وہاں سے اَمرتسر پہنچے۔ کلدیپ نیر نے اِنتقال سے محض سات دِن پہلے پندرہ اگست یومِ آزادی کو شائع کردہ اپنے مضمون میں بھی اِس دِل سوز واقعہ کی منظر کشی کی ہے۔
کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ یہ ۱۲/اگست ۱۹۴۷ء کا واقعہ ہے یعنی ہندوستان کے آزاد ہونے سے محض تین دِن پہلے۔ پیشے سے ڈاکٹر میرے والد نے ہم تینوں بھائیوں کو بلا کر پوچھا کہ ہمارا کیا پروگرام ہے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ میں پاکستان میں رکنا چاہتا ہوں بالکل اُسی طرح جیسے مسلمان ہندوستان میں ہیں۔ میرے بڑے بھائی نے جو اُس وقت امرتسر میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کررہے تھے یہ کہتے ہوئے مداخلت کی کہ مسلمان ہندوؤں سے مغربی پنجاب میں مکانات خالی کروالیں گے اُسی طرح جیسے مشرقی پنجاب میں رہنے والے مسلمانوں سے گھر خالی کرالئے جائیں گے۔ میں نے پوچھا کہ اگر ہندو اِس پر راضی نہیں ہوں گے توایسا کیونکر ممکن ہے؟ اُن کا جواب یہ تھا کہ ہمیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ ۱۷/اگست کو آزادی کے بعد بعض مسلم صاحبان ہمارے پاس آئے اور اُنھوں نے گھر چھوڑ دینے کی درخواست کی۔ میں نے اُن میں سے ایک سے پوچھا کہ ہم کہاں جائیں گے؟ اُنہوں نے جالندھر میں اپنے گھر کی چابیاں دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ کرنا نہیں پڑے گا کیونکہ اُن کا گھر مکمل طور پر ساز وسامان سے آراستہ ہے اور رہائش کیلئے تیار ہے۔ ہم نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔
لیکن اُن کے جانے کے بعد ہم مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے کھانے کی میز کے گرد بیٹھ گئے۔ میں نے گھر والوں کو بتایا کہ میں پاکستان میں ہی رکوں گا اور اُنھوں نے کہا کہ وہ امرتسر چلے جائیں گے اور انتشار ختم ہونے پر واپس آجائیں گے۔ ہم سب نے اس پر اتفاق کیا کہ حالات کتنے ہی حوصلہ شکن ہوں ہم زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں واپس آسکتے ہیں۔ گھر میں تالہ لگاتے ہوئے میری ماں نے یہ جملہ کہا تھا کہ اُنھیں عجیب سا احساس ہورہا ہے کہ ہم لوگ واپس نہیں آئیں گے۔ میرے بڑے بھائی نے ماں کی بات سے اتفاق کر لیا۔ میں نے سیاحوں والے نیلے کینوس بیگ میں پتلون اور قمیص رکھی اور یہ کہہ کر اُن سے رخصت ہوا کہ ہم دریاگنج، دہلی میں اپنے ماما کے گھر پرملیں گے۔ میرے والد نے میرے لئے سفر کو آسان بنا دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے مریض بریگیڈیئر سے کہہ دیا تھا کہ وہ اُن کے تینوں بیٹوں کو سرحد پار کرا دیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے جونگے میں اتنی جگہ نہیں ہے اور میں ایک ہی کو لے جاسکوں گا۔ اگلی صبح مجھے اُن کی گاڑی میں ٹھونس دیا گیا۔ میں اپنے آنسوؤں کو چھپا نہ سکا۔ کچھ یقین نہیں تھا کہ کیا ہم دوبارہ مل پائیں گے؟
سیالکوٹ سے سمبروال تک کے سفر میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ لیکن وہاں سے دونوں طرف کے انسانوں کے کارواں آ اور جا رہے تھے۔ ہندو ہندوستان کی طرف اور مسلمان پاکستانی حصے کی طرف۔ اچانک ہمارے جونگے کو روکا گیا۔ ایک ضعیف سکھ راستے میں کھڑا اپنے پوتے کو ہندوستان لے جانے کی درخواست کررہا تھا۔ میں نے اُن سے نرمی سے کہا کہ میں ابھی طالب علم ہوں اور اُن کے پوتے کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا چاہے اُن کی درخواست کتنی ہی معقول ہو۔ بوڑھے آدمی نے کہا کہ میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو کھو چکا ہوں۔ بس یہ پوتا ہی باقی ہے۔ میں چاہتا ہوں یہ تو زندہ رہے۔ مجھے آج بھی اُس کا آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ یاد ہے۔ لیکن میں نے سچائی بتادی تھی۔ میں اُس بچے کی پرورش کیسے کرتا جبکہ میرے مستقبل کا ہی کوئی بھروسہ نہ تھا۔ پھر ہم آگے بڑھے۔ سفر کرتے ہوئے ہم دیکھ سکتے تھے کہ سامان کس طرح ہر طرف بکھرا پڑا تھا۔ ہاں اُس وقت تک لاشیں اُٹھا لی گئی تھیں۔ فضا میں تعفن بہت زیادہ تھا۔ یہی وقت تھا جب میں نے دونوں ملکوں کے درمیان اچھے روابط کو فروغ دینے کا خود سے وعدہ کیا۔ واگھا سرحد پر شمع افروزی شروع کرنے کا یہی سبب تھا۔ یہ عمل آج سے ۲۰/سال پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ ایک مختصر سی تحریک تھی جس میں پندرہ بیس افراد شامل ہوئے تھے۔ اب اِس طر ف سے ایک لاکھ افراد اور محدود تعداد میں ہی سہی پاکستان کے عوام اِس مہم میں شامل ہو گئے ہیں۔ عوام کے جوش و خروش کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ لیکن حکومتیں راہ میں حائل ہیں۔ پورے علاقے میں کرفیو ہے اور سرحد پر پہنچنے کیلئے اجازت لینی پڑتی ہے۔
کلدیپ نیر آگے پر امید انداز میں لکھتے ہیں کہ میں نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو لکھا ہے کہ حکام، بارڈر سیکوریٹی فورس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس دونوں کو ہدایت دیں کہ ہمیں شمع افروزی کیلئے زیرو پوائنٹ تک پہنچنے کی اجازت دیں جہاں پر لوہے کے پھاٹکوں پر سے دونوں طرف کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ مشق چند افراد تک محدود ہے۔ کاش کہ سرحد کو نرم بنا کر صورتِ حال کو پُرسکون بنایا جا سکے اور دونوں ملکوں کے درمیان عداوت دور ہو۔ میں اُس بس میں موجود تھا جو وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی لاہور لے کر گئے تھے۔ دونوں طرف سے اُس کا خیر مقدم ہوا تھا اور میں نے سوچا کہ یہ سفر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ دو طرفہ تجارت اور بین عوام کے درمیان رابطوں کو بحال کرے گا، لیکن ایک دوسرے کے ملک میں آمد و رفت سے روکنے والے خاردار تاراور ویزا کی سخت پابندیاں دیکھ کر مجھے مایوسی ہوتی ہے۔ ماضی میں دانشوروں، موسیقاروں اور فنکاروں کی باہمی ملاقات ہوئی تھی اور اُن کے مشترکہ پروگرام بھی ہوتے تھے لیکن اب یہ بھی موقوف ہے کیونکہ حکومتیں ویزا جاری کرنے میں سختی برت رہی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے تعلق سے کلدیپ نیر آگے لکھتے ہیں کہ نو منتخب وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ تجارت اور کاروبار کو یقینی بنائیں گے۔ مجھے فکر صرف یہ ہے کہ فوج سے اُن کی قربت شاید اپنا وعدہ پورا کرنے کی اُنھیں اجازت نہ دے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ فوج سے قربت کے زاویے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہو۔ وہ بھی امن قائم ہوتے دیکھنا چاہے گی کیونکہ جنگ میں تو اُسی کے افراد لڑتے اور اُس کے عواقب بھگتتے ہیں۔ نئی دہلی کو ایک کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اُس نے پاکستان کے دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کرنے اور ممبئی دھماکوں کے قصورواروں کو سزا دینے سے پہلے اسلام آباد سے مذاکرات نہ کرنے کا سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان پُرخلوص روابط کیلئے ہندوستان کے مطالبے کے پیش نظر نئے وزیراعظم عمران خان کو اقدام کرنا چاہئے۔
کلدیپ نیر ممتاز صحافی، دانشور، سماجی کارکن، مدیر، مصنف اور کالم نگار تو تھے ہی لیکن اُنہیں پریس کی آزادی، انسانی حقوق کے تحفظ اور ہند و پاک دوستی کیلئے اُن کی انتھک جدوجہد کیلئے بھی یاد رکھا جائے گا۔ مشہور مورخ رام چندر گوہا نے ایک تعزیتی پیغام میں لکھا ہے کہ "کلدیپ نیر اُس نسل کے صحافی تھے جو پیسے اور شہرت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز سننے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔ مذہبی ہم آہنگی کیلئے اُن کی کوششوں، اُن کی ایمانداری اور ایمرجنسی کے دوران اُن کی جرأت کو یاد رکھا جائے گا۔" کلدیپ نیر جدید ہندوستان میں کئی تاریخی اور اہم واقعات کے گواہ تھے۔ اُنہوں نے ایماندار صحافت کے معیار کو بلند رکھا اور اُس سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ صحیح معنوں میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کے داعی تھے۔ ماضی میں میڈیا کا رول بڑا ہی تابناک اور روشن تھا البتہ دورِ حاضر میں اِس کی روشنی بتدریج مدھم ہوتی جارہی ہے۔ کلدیپ نیر کو سچا خراجِ عقیدت یہی ہوگا کہ غلط کو صحیح اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں مصروف دورِ حاضر کا میڈیا ضمیر کی آواز کو مشعل بناکر اُن کے مِشن کو آگے بڑھاۓ۔
فیصل فاروق ممبئی، اِنڈیا میں رہائش پذیر شاعر، کالم نِگار اور صَحافی ہیں۔
دیدبان شمارہ ۔۹
نیّرِ تاب دار تھا نہ رہا
کلدیپ نیر جدید ہندوستان میں کئی تاریخی اور اہم واقعات کے گواہ تھے۔
فیصل فاروق
حالیہ دِنوں کئی ایسی عظیم شخصیتیں ہم سے رخصت ہوئیں جنہوں نے اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کی وجہ سے قارئین کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا تھا۔ اُنہی محترم شخصیات میں سے ایک کلدیپ نیر بھی ہیں۔ کلدیپ نیر طویل مدت سے بیمار چل رہے تھے اور ۹۵/سال کی عمر میں اِس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آزاد ہندوستان کی صحافت کے اہم ستون کلدیپ نیر نہ صرف عظیم صحافی بلکہ ایک عظیم انسان تھے۔ اُن کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہندوستان کے بٹوارے سے لے کر نریندر مودی کے عروج تک کے تاریخ ساز عہد کے چشم دید گواہ تو تھے ہی بلکہ اُنہوں نے اُس عہد کو اپنے قلم سے رقم بھی کیا۔ اُنہوں نے ہمیشہ حق کی آواز بلند کی اور حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی۔ اکہتر سال کی اپنی صحافتی زندگی میں اُنہوں نے کافی نام کمایا۔
اعتدال و توازن، حقیقت پسندی، وسیع القلبی اور کشادہ نظری اُن کا امتیازی وصف تھا۔ وہ آسان لفظوں میں بڑی خوبصورتی سے اپنی بات کہہ دیتے تھے جو کہ مؤثر ثابت ہوتی تھی۔ اُن کے بے خوف خیالات و نظریات اور اُن کا کام کئی دہائیوں پر محیط رہا۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر انگریزی صحافت کے دِلدادہ تھے اور انگریزی صحافت کے معیار کو مثالی قرار دیتے تھے لیکن اردو کے ساتھ اُن کا عاشقانہ رشتہ تھا۔ کلدیپ نیر نے اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بھی اپنا کردار نبھانے کی پوری کوشش کی۔ اُنہیں مجاہدِ آزادی مولانا حسرت موہانی کے ساتھ کام کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ایک ایسے وقت میں جب قلم اور آزادی اظہارِ رائے پر پابندیاں لگانے کی درپردہ کوششیں ہو رہی ہیں کلدیپ نیر کا جانا جمہوریت کے اِس چوتھے ستون کیلئے ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں۔
پریس کی آزادی اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ہمیشہ جد وجہد کرنے والے معروف صحافی کلدیپ نیر کی پیدائش ۱۴/اگست ۱۹۲۳ء کو غیر منقسم ہندوستان کے سیالکوٹ میں ہوئی تھی جو اِس وقت پاکستان میں ہے۔ سیالکوٹ کی مِٹی نے کئی اہم شخصیات کو پیدا کیا ہے۔ کلدیپ نیر اِس بات پر بھی فخر کرتے تھے کہ وہ اُس جگہ کے رہنے والے ہیں جس نے اردو کے دو بڑے شاعروں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کو پیدا کیا۔ اُنہوں نے لاہور سے قانون کی پڑھائی کی تھی اور امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری حاصل کی تھی۔ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی۔ وکالت کی ڈگری ہونے کے باوجود کلدیپ نیر نے بطور صحافی اپنے کریئر کی شروعات کی۔ اُنہوں نے دہلی کے بَلّی ماراں سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ اخبار انجام سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر مولانا حسرت موہانی کے زیرِ نگرانی وحدت نامی اخبار میں کچھ دِن کام کیا اور اُنہی کے مشورہ سے انگریزی صحافت کو اپنا میدانِ عمل بنایا اور اُس میں بڑی اہم خدمات انجام دیں۔ مولانا حسرت موہانی آئین ساز اسمبلی کے رکن بھی تھے۔
کلدیپ نیر نے مہاتما گاندھی کے قتل کی پوری خبر موقعہ واردات پر پہنچ کر کوَر کی تھی۔ نیر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ اپنے کریئر کے شروعاتی دِنوں میں اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے ٹیلی پرنٹر کی گھنٹی بجی اور ایک خبر فلیش ہوئی 'گاندھی شاٹ ٹو ڈیتھ'۔ اُنہوں نے بتایا میں فوراً بِرلا ہاؤس بھاگا۔ میرا ایک ساتھی مجھے اپنی موٹر سائیکل پر پچھلی سیٹ پر بٹھا کر وہاں چھوڑ آیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور مولانا آزاد پہنچ چکے تھے۔ میرے سامنے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن وہاں پہنچے اور اُنہوں نے گاندھی کے جسد خاکی کو سیلوٹ کیا۔ مجھے نجی طور پر لگا کہ ملک کے سر پر ہاتھ رکھنے والا ہمارے درمیان سے اُٹھ گیا۔
کلدیپ نیر نے پریس اِنفارمیشن بیورو (پی آئی بی) حکومتِ ہند میں کئی سال تک اپنی خدمات انجام دیں۔ اُنہیں اُس وقت کے وزیر داخلہ گووند ولبھ پنت کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا۔ کلدیپ نیر کا خیال تھا کہ پنڈت جی بہت بڑے آدمی تھے اور اُن کا اِنسانی پہلو بہت مضبوط تھا۔ گووند ولبھ پنت کے بعد جب لال بہادر شاستری وزیر داخلہ بنے تو اُنہوں نے سارا اسٹاف بدل ڈالا سواۓ اُن کے ڈرائیور اور پریس آفیسر کلدیپ نیر کے۔ کلدیپ نیر کا کہنا تھا کہ شاستری جیسے سادہ لوح اِنسان نہ تو اُس وقت سیاست میں تھے نہ آج ہیں۔ اِس کے علاوہ نیر ہندوستانی خبر رساں ایجنسی یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی)، پاکستان کے مشہور انگریزی زبان کے اخبار دی ڈان، انگریزی زبان میں شائع ہونے والا روزنامہ اخبار دی اِسٹیٹس مین اور دی اِنڈین ایکسپریس کے ساتھ طویل مدت تک منسلک رہے۔ وہ پچیس سال تک دی ٹائمز لندن کے نامہ نگار بھی رہے ہیں۔ وہ دہلی میں دی اِسٹیٹس مین کے مدیر بھی رہے ہیں۔ انگریزی صحافت میں اُنہیں اِس بات کا بھی فائدہ ملا کہ وہ ملک کے تیسرے وزیراعظم رہ چکے لال بہادر شاستری اور یوپی کے پہلے وزیراعلیٰ رہ چکے گووند ولبھ پنت کی وزارت داخلہ میں اِنفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے کام کرچکے تھے۔ وہ شاستری جی کے بہت قریب رہے۔ اُس وقت یہ پہلی شخصیت تھی جس نے لال بہادر شاستری کے موت کی اطلاع دی۔
وی پی سنگھ کی دورِ حکومت میں کلدیپ نیر کو ۱۹۹۰ء میں گریٹ بریٹین میں ہندوستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا تھا جبکہ وہ ۱۹۹۶ء میں ہندوستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے رکن بھی رہے۔ اور پھر ۱۹۹۷ء میں اُنہیں پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا رکن نامزد کیا گیا۔ اُنہوں نے چھ سال تک اِس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔ کلدیپ نیر کو نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی طرف سے ایلیومنی میرِٹ ایوارڈ ۱۹۹۹ء میں دیا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں اُنہیں صحافت میں اُن کی گراں قدر خدمات کیلئے لائیو ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ صحافت کے شعبہ میں قابلِ قدر خدمات انجام دینے والوں کو نیر سے منسوب "کلدیپ نیر صحافتی ایوارڈ" دیا جاتا ہے۔ کلدیپ نیر ایک سیکولر قلمکار اورجمہوری اقدار کے امین تھے۔ وہ شدت پسند تنظیموں اور خاص طور پر آر ایس ایس کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے اور واجپئی حکومت میں یہاں تک کہا تھا کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے کہ آر ایس ایس کے کارکنان کو حکومت کے اعلیٰ عہدوں سے دور رکھا جائے اور اُنہیں حکومت کے کام کاج کیلئے نہ اہل قرار دیا جائے۔
راقم کے ایک دوست جو آر ٹی آئی رضاکار ہیں بتاتے ہیں کہ حق معلومات (آر ٹی آئی) کو نافذ کرانے میں ایک اہم رول کلدیپ نیر کا بھی رہا ہے۔ وہ شروعات سے ہی اِس کی تمام تحریکوں سے جڑے رہے اور لِکھتے رہے۔ آر ٹی آئی کے اِس ایکٹ پر کلدیپ نیر نے جتنا لکھا، شاید ہی کسی اور نے اِتنا لکھا ہو۔ معلومات فراہم کرنے کیلئے ایک قومی سطح کا قانون بنانا ایک مشکل امر ثابت ہوا۔ یہ قانون پورے ہندوستان پر محیط ہے سوائے جموں و کشمیر کے جہاں جموں و کشمیر حق معلومات قانون ۲۰۰۹ء نافذ العمل ہے۔ یہ سبھی دستوری ارباب مجاز کا احاطہ کرتا ہے جن میں حکومت، مقننہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ قانون میں یہ بھی مذکور ہے کہ ادارہ جات یا ارباب مجاز جو ملکیت، زیرِ نگرانی یا قابلِ لحاظ حد تک مالیہ فراہم کردہ حکومت یا نیم سرکاری اداروں کے تحت آتے ہیں، وہ اِس قانون کا حصہ بن جاتے ہیں۔
کلدیپ نیر کی اہم کتابوں میں بٹوین دی لائنس، بیانڈ دی لائنس (سوانح عمری)، ڈسٹنٹ نیبرس: اے ٹیل آف دی سب کانٹی نینٹ، ٹیلس آف ٹو سٹیز، وال ایٹ واگھا: انڈیا پاکستان رلیشنز، انڈیا ہائوس، اِسکوپ: اِنسائڈ اسٹوریز فرام دی پارٹیشن ٹو پریزنٹ، ٹریجڈی آف پنجاب، اِن جیل، رپورٹ آن افغانستان، ایمرجنسی ری ٹولڈ، انڈیا آفٹر نہرو شامل ہیں۔ لیکن بھگت سنگھ کی زندگی پر لکھی گئی کتاب ودآؤٹ فیئر اور ایمرجنسی پر لکھی گئی اُن کی کتاب دی ججمنٹ: انسائڈ اسٹوری آف دی ایمرجنسی اِن انڈیا خاصی مشہور ہوئی۔ وِدآؤٹ فیئر نامی اِس کتاب میں کلدیپ نیر نے ہندوستانی نوجوانوں پر بھگت سنگھ کے اثرات اور اُس بے مثال آدمی اور اُس کے ساتھیوں، سُکھدیو اور راج گرو کے کاموں کو دکھایا ہے۔ یہ کتاب شہید اعظم بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے یہ بتاتی ہے کہ ہنس راج ووہرا نے بطور سرکاری گواہ بھگت سنگھ کو کیوں دھوکہ دیا۔ اِس کتاب نے سُکھدیو پر بھی نئی روشنی ڈالی، بعض مورخین کی طرف سے جن کی وفاداری پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ اور دی ججمنٹ میں کلدیپ نیر نے ۱۲/جون ۱۹۷۵ء جس دِن الہ آباد ہائی کورٹ نے اِندرا گاندھی کو لے کر فیصلہ سنایا تھا سے اپنا بیان شروع کیا ہے۔ یہ ایمرجنسی پر لکھی گئی اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔
کلدیپ نیر ہندوستان کے پہلے سِنڈیکیٹ کالم نگاروں میں سے ایک تھے۔ انگریزی میں لِکھا ہوا اُن کا ہفتہ وار کالم "بٹوین دی لائنس" (بين السطور) اردو اخبارات سمیت ہندوستان کی تمام اہم زبانوں کے تقریباً ٨٠/اخبارات میں بیک وقت شائع ہوا کرتا تھا۔ مگر اردو اخبارات کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ اُنہیں اُن کا مضمون اردو میں ہی ملتا تھا۔ کیونکہ اُس کا اردو ترجمہ وہ اپنی نگرانی میں کرواتے تھے۔ اُنہوں نے ہندوستانی سیاست کی سب سے زیادہ معلوماتی تفصیل کی ایک سیریز لکھی۔ اُن میں سے ایک، "بٹوین دی لائنس" جو کہ شاید ہندوستان میں سب سے پہلی نان فِکشن بہترین فروخت کنندہ کتاب تھی۔ اُن کی تحریروں کے تراجم ہندوستان بھر کے متعدد اخبارات اور رسائل و جرائد میں اہتمام سے شائع تو ہوتے ہی تھے۔ علاوہ ازیں بعض عالمی معاملات میں اُن کے موقف کو الیکٹرانِک میڈیا بھی نمایاں انداز میں شائع کیا کرتا تھا۔ کلدیپ نیر کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے بارے میں اُن کی خود نوشت کے دیباچہ نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ کلدیپ نیر کے نام کا ترجمہ "سیکولرازم" ہے۔
کلدیپ نیر کی تحریروں پرشدید تنقید اور اعتراضات بھی ہوتے رہے۔ ڈاکٹر منیش کمار اپنے ایک مضمون "یہ کلدیپ نیر صاحب کو کیا ہو گیا؟" میں لکھتے ہیں کہ "صحافی کے قلم میں طاقت ہوتی ہے اور اگر وہ صحافی کلدیپ صاحب جیسے قدآور ہوں تو طاقت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اِس طاقت کا استعمال عوام کی طرفداری کیلئے ہونا چاہئے نہ کہ سرکار کی۔ صحافی کا کام سرکار کے کام کاج کی غلطیوں کو اُجاگر کرنا ہوتا ہے، یہ بات کلدیپ صاحب سے بہتر ہندوستان میں کون جان سکتا ہے؟ وہ جانتے ہیں اور یہ ہم لوگوں نے اُن سے ہی سیکھا ہے کہ ایک صحافی کو سرکار کیلئے میڈیا منیجر کی طرح کام نہیں کرنا چاہئے۔ جس کام کیلئے ملک میں کئی صحافی کافی ہیں اور کئی تو ایسے بھی ہیں، جنہوں نے یہ کام خود ہی اپنے سر پر لے لیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے کلدیپ صاحب اُن میں سے نہیں ہیں، کیوںکہ زمانہ اِتنا بدل گیا ہے کہ لوگ فوراً یہ الزام لگانے لگیں گے کہ کلدیپ صاحب کانگریس کی پونچھ پکڑ کر پھر سے راجیہ سبھا جانا چاہتے ہیں۔"
کلدیپ نیر کی پہچان ایک سیاسی مبصر کی تھی۔ کلدیپ نیر کو دی اِسٹیٹس مین کے ایڈیٹر کے طور پر ایمرجنسی کے دوران اِندرا گاندھی حکومت کے خلاف اپنے موقف کیلئے جانا جاتا تھا۔ اُس دور میں اپنی تحریروں کے ذریعہ اُنہوں نے جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائی اور امن پسندی کی پُرزور وکالت کی۔ کلدیپ نیر اُن لوگوں میں سے تھے جِنہوں نے ایمرجنسی کی کھل کر مخالفت کی تھی اور دہشت پسند قانون میسا کے تحت جیل بھی گئے تھے۔ حکومت وقت کی طرف سے جب کبھی پریس کی آزادی صلب کرنے کی کوشش ہوئی وہ اُس کے خلاف میدان میں کود پڑے۔ اُنہوں نے معاصر صحافیوں کے ساتھ صف آراء ہو کر دہلی کے اِنڈیا گیٹ پر راجیو گاندھی حکومت کے ذریعہ لائے گئے متنازعہ ہتک عزت ایکٹ کی پُرزور مخالفت بھی کی تھی۔ اِسی طرح دو سال قبل جب این ڈی ٹی وی پر موجودہ مودی سرکار نے پابندی لگانے کی کوشش کی تو اُس وقت بھی دہلی پریس کلب میں جو احتجاج ہوا اُس میں کلدیپ نیر ضعیف العمری کے باوجود موجود رہے۔ ایک سیاسی مبصر کے طور پر اُنہوں نے موجودہ مسائل پر آزادانہ طور پر اپنے خیالات کو لکھا۔ اُنہوں نے انقلابی خیالات کے سماجی کارکن انا ہزارے کی بدعنوانی کے خلاف چلائی گئی تحریک کی حمایت بھی کی تھی۔
۱۹۴۷ء میں جب ملک تقسیم ہوا تو فوج کے ایک بریگیڈیئر نے کلدیپ نیر کے والد کو پیشکش کی کہ وہ ہندوستان جا رہے ہیں اور اُن کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے والد نے کہا کہ وہ اُن کے تینوں بیٹوں کو اپنے ساتھ ہندوستان لے جائیں۔ بریگیڈیئر نے کہا کہ تینوں بیٹوں کو لے جانا تو ممکن نہیں ہے، البتہ وہ اُن کے کسی ایک بیٹے کو لے جا سکتے ہیں۔ اُن کے والد نے تینوں بیٹوں کے نام کی چٹھی اڑائی، قرعہ فال کلدیپ کے نام نِکلا۔ چنانچہ کلدیپ نیر اُس بریگیڈیئر کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر پہلے لاہور پھر وہاں سے اَمرتسر پہنچے۔ کلدیپ نیر نے اِنتقال سے محض سات دِن پہلے پندرہ اگست یومِ آزادی کو شائع کردہ اپنے مضمون میں بھی اِس دِل سوز واقعہ کی منظر کشی کی ہے۔
کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ یہ ۱۲/اگست ۱۹۴۷ء کا واقعہ ہے یعنی ہندوستان کے آزاد ہونے سے محض تین دِن پہلے۔ پیشے سے ڈاکٹر میرے والد نے ہم تینوں بھائیوں کو بلا کر پوچھا کہ ہمارا کیا پروگرام ہے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ میں پاکستان میں رکنا چاہتا ہوں بالکل اُسی طرح جیسے مسلمان ہندوستان میں ہیں۔ میرے بڑے بھائی نے جو اُس وقت امرتسر میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کررہے تھے یہ کہتے ہوئے مداخلت کی کہ مسلمان ہندوؤں سے مغربی پنجاب میں مکانات خالی کروالیں گے اُسی طرح جیسے مشرقی پنجاب میں رہنے والے مسلمانوں سے گھر خالی کرالئے جائیں گے۔ میں نے پوچھا کہ اگر ہندو اِس پر راضی نہیں ہوں گے توایسا کیونکر ممکن ہے؟ اُن کا جواب یہ تھا کہ ہمیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ ۱۷/اگست کو آزادی کے بعد بعض مسلم صاحبان ہمارے پاس آئے اور اُنھوں نے گھر چھوڑ دینے کی درخواست کی۔ میں نے اُن میں سے ایک سے پوچھا کہ ہم کہاں جائیں گے؟ اُنہوں نے جالندھر میں اپنے گھر کی چابیاں دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ کرنا نہیں پڑے گا کیونکہ اُن کا گھر مکمل طور پر ساز وسامان سے آراستہ ہے اور رہائش کیلئے تیار ہے۔ ہم نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔
لیکن اُن کے جانے کے بعد ہم مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے کھانے کی میز کے گرد بیٹھ گئے۔ میں نے گھر والوں کو بتایا کہ میں پاکستان میں ہی رکوں گا اور اُنھوں نے کہا کہ وہ امرتسر چلے جائیں گے اور انتشار ختم ہونے پر واپس آجائیں گے۔ ہم سب نے اس پر اتفاق کیا کہ حالات کتنے ہی حوصلہ شکن ہوں ہم زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں واپس آسکتے ہیں۔ گھر میں تالہ لگاتے ہوئے میری ماں نے یہ جملہ کہا تھا کہ اُنھیں عجیب سا احساس ہورہا ہے کہ ہم لوگ واپس نہیں آئیں گے۔ میرے بڑے بھائی نے ماں کی بات سے اتفاق کر لیا۔ میں نے سیاحوں والے نیلے کینوس بیگ میں پتلون اور قمیص رکھی اور یہ کہہ کر اُن سے رخصت ہوا کہ ہم دریاگنج، دہلی میں اپنے ماما کے گھر پرملیں گے۔ میرے والد نے میرے لئے سفر کو آسان بنا دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے مریض بریگیڈیئر سے کہہ دیا تھا کہ وہ اُن کے تینوں بیٹوں کو سرحد پار کرا دیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے جونگے میں اتنی جگہ نہیں ہے اور میں ایک ہی کو لے جاسکوں گا۔ اگلی صبح مجھے اُن کی گاڑی میں ٹھونس دیا گیا۔ میں اپنے آنسوؤں کو چھپا نہ سکا۔ کچھ یقین نہیں تھا کہ کیا ہم دوبارہ مل پائیں گے؟
سیالکوٹ سے سمبروال تک کے سفر میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ لیکن وہاں سے دونوں طرف کے انسانوں کے کارواں آ اور جا رہے تھے۔ ہندو ہندوستان کی طرف اور مسلمان پاکستانی حصے کی طرف۔ اچانک ہمارے جونگے کو روکا گیا۔ ایک ضعیف سکھ راستے میں کھڑا اپنے پوتے کو ہندوستان لے جانے کی درخواست کررہا تھا۔ میں نے اُن سے نرمی سے کہا کہ میں ابھی طالب علم ہوں اور اُن کے پوتے کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا چاہے اُن کی درخواست کتنی ہی معقول ہو۔ بوڑھے آدمی نے کہا کہ میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو کھو چکا ہوں۔ بس یہ پوتا ہی باقی ہے۔ میں چاہتا ہوں یہ تو زندہ رہے۔ مجھے آج بھی اُس کا آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ یاد ہے۔ لیکن میں نے سچائی بتادی تھی۔ میں اُس بچے کی پرورش کیسے کرتا جبکہ میرے مستقبل کا ہی کوئی بھروسہ نہ تھا۔ پھر ہم آگے بڑھے۔ سفر کرتے ہوئے ہم دیکھ سکتے تھے کہ سامان کس طرح ہر طرف بکھرا پڑا تھا۔ ہاں اُس وقت تک لاشیں اُٹھا لی گئی تھیں۔ فضا میں تعفن بہت زیادہ تھا۔ یہی وقت تھا جب میں نے دونوں ملکوں کے درمیان اچھے روابط کو فروغ دینے کا خود سے وعدہ کیا۔ واگھا سرحد پر شمع افروزی شروع کرنے کا یہی سبب تھا۔ یہ عمل آج سے ۲۰/سال پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ ایک مختصر سی تحریک تھی جس میں پندرہ بیس افراد شامل ہوئے تھے۔ اب اِس طر ف سے ایک لاکھ افراد اور محدود تعداد میں ہی سہی پاکستان کے عوام اِس مہم میں شامل ہو گئے ہیں۔ عوام کے جوش و خروش کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ لیکن حکومتیں راہ میں حائل ہیں۔ پورے علاقے میں کرفیو ہے اور سرحد پر پہنچنے کیلئے اجازت لینی پڑتی ہے۔
کلدیپ نیر آگے پر امید انداز میں لکھتے ہیں کہ میں نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو لکھا ہے کہ حکام، بارڈر سیکوریٹی فورس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس دونوں کو ہدایت دیں کہ ہمیں شمع افروزی کیلئے زیرو پوائنٹ تک پہنچنے کی اجازت دیں جہاں پر لوہے کے پھاٹکوں پر سے دونوں طرف کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ مشق چند افراد تک محدود ہے۔ کاش کہ سرحد کو نرم بنا کر صورتِ حال کو پُرسکون بنایا جا سکے اور دونوں ملکوں کے درمیان عداوت دور ہو۔ میں اُس بس میں موجود تھا جو وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی لاہور لے کر گئے تھے۔ دونوں طرف سے اُس کا خیر مقدم ہوا تھا اور میں نے سوچا کہ یہ سفر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ دو طرفہ تجارت اور بین عوام کے درمیان رابطوں کو بحال کرے گا، لیکن ایک دوسرے کے ملک میں آمد و رفت سے روکنے والے خاردار تاراور ویزا کی سخت پابندیاں دیکھ کر مجھے مایوسی ہوتی ہے۔ ماضی میں دانشوروں، موسیقاروں اور فنکاروں کی باہمی ملاقات ہوئی تھی اور اُن کے مشترکہ پروگرام بھی ہوتے تھے لیکن اب یہ بھی موقوف ہے کیونکہ حکومتیں ویزا جاری کرنے میں سختی برت رہی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے تعلق سے کلدیپ نیر آگے لکھتے ہیں کہ نو منتخب وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ تجارت اور کاروبار کو یقینی بنائیں گے۔ مجھے فکر صرف یہ ہے کہ فوج سے اُن کی قربت شاید اپنا وعدہ پورا کرنے کی اُنھیں اجازت نہ دے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ فوج سے قربت کے زاویے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہو۔ وہ بھی امن قائم ہوتے دیکھنا چاہے گی کیونکہ جنگ میں تو اُسی کے افراد لڑتے اور اُس کے عواقب بھگتتے ہیں۔ نئی دہلی کو ایک کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اُس نے پاکستان کے دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کرنے اور ممبئی دھماکوں کے قصورواروں کو سزا دینے سے پہلے اسلام آباد سے مذاکرات نہ کرنے کا سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان پُرخلوص روابط کیلئے ہندوستان کے مطالبے کے پیش نظر نئے وزیراعظم عمران خان کو اقدام کرنا چاہئے۔
کلدیپ نیر ممتاز صحافی، دانشور، سماجی کارکن، مدیر، مصنف اور کالم نگار تو تھے ہی لیکن اُنہیں پریس کی آزادی، انسانی حقوق کے تحفظ اور ہند و پاک دوستی کیلئے اُن کی انتھک جدوجہد کیلئے بھی یاد رکھا جائے گا۔ مشہور مورخ رام چندر گوہا نے ایک تعزیتی پیغام میں لکھا ہے کہ "کلدیپ نیر اُس نسل کے صحافی تھے جو پیسے اور شہرت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز سننے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔ مذہبی ہم آہنگی کیلئے اُن کی کوششوں، اُن کی ایمانداری اور ایمرجنسی کے دوران اُن کی جرأت کو یاد رکھا جائے گا۔" کلدیپ نیر جدید ہندوستان میں کئی تاریخی اور اہم واقعات کے گواہ تھے۔ اُنہوں نے ایماندار صحافت کے معیار کو بلند رکھا اور اُس سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ صحیح معنوں میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کے داعی تھے۔ ماضی میں میڈیا کا رول بڑا ہی تابناک اور روشن تھا البتہ دورِ حاضر میں اِس کی روشنی بتدریج مدھم ہوتی جارہی ہے۔ کلدیپ نیر کو سچا خراجِ عقیدت یہی ہوگا کہ غلط کو صحیح اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں مصروف دورِ حاضر کا میڈیا ضمیر کی آواز کو مشعل بناکر اُن کے مِشن کو آگے بڑھاۓ۔
فیصل فاروق ممبئی، اِنڈیا میں رہائش پذیر شاعر، کالم نِگار اور صَحافی ہیں۔