مایہ ناز مصور : یوسف شیخ
مایہ ناز مصور : یوسف شیخ
Mar 24, 2021
مایہ ناز مصور
دیدبان شمارہ ١٣ کے سرورق کے مصور : یوسف شیخ
(دیدبان کے موجودہ شمارے کے مصور یوسف شیخ کا تعارف ان کی اپنی زبانی )
میرا نام محمد یوسف کاسٹ شیخ ہے میری پیدائش سندھ کے مردم خیز شہر میر پور خاص کی ہے ابتدائی تعلیم میر پور خاص ہی میں مکمل کی اس کے بعد جام شورو سندھ یونی ورسٹی سے گریجوشن کیا
مجھے بچپن ہی سے ڈرائنگز بنانے کا بہت شوق تھا ، پانچویں جماعت میں جب بروس لی اور سکس ملین ڈالر مین کی سیریز ٹیلی ویژن پر آتی تھیں تو ان کے اسکیچز بنایا کرتا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن گھر کا ماحول بہت مذہبی تھا خاص طور والد صاحب کو میرے اسکیچز بنانے پر شدید اعتراض تھا - لیکن میں چھپ کر اپنی ڈرائنگ کا شوق کر جاری رکھا تھا کہ میں نے تو یہی کرنا ہے غرض اس شوق کے ہاتھوں کافی مار بھی کھائی - ایک طرح سے میں نے آرٹ کے لئے اپنے گھر والوں کے خلاف بغاوت کی اور ڈرائنگز بنانا جاری رکھیں -
ہائی اسکول میں آرٹ کی کلاس میں اپنے ٹیچرز طارق بندش اور ناصر صاحب نے مجھے بہت سراہا اور وہیں سے میرے اندر چھپے آرٹسٹ کو دریافت کرنے میں مدد ملی لیکن میر پور ایک چھوٹا سا شہر جہاں آرٹ سے متعلق مواقع نہ ہونے کے برابر تھے اس وقت تو کوئی آرٹ کالج یا ادارہ ایسا نہ تھا جہاں اپنے اس شوق کو آگے بڑھایا جاسکتا صرف ایک سینما کے پوسٹر بنانے کی جگہ ایسی تھی جہاں اس شوق کی کچھ تسکین ممکن تھی- گل حسن صاحب میرے پہلے استاد تھے اسی طرح ارشاد بیگ صاحب جو پورٹریٹ بناتے تھے- ان لوگوں سے ملنا بھی ایک مشکل مہم سے کم نہ تھا پھر بھی جیسے تیسے کر کے ان تک پہنچ ہی گیا اور واٹر کلر ،آئل پینٹ ، پیسٹل ورک اور آرٹ کے دیگر میڈیمز میں کام کرنا ان ہی سے سیکھا -
مجھے میورل اور بڑے بل بورڈ اپنی طرف کھینچتے ، ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ ایسے بڑے میورلز بناؤں
جب کبھی کراچی جانا ہوتا جہاں ہمارے دادا رہتے تھے تو کیپری اور گوڈین سینما کے بل بورڈ گھنٹوں کھڑے ہو کر دیکھتا رہتا اور سوچتا کسی دن ایسے ہی بڑے میورل پر کام کروں -
١٩٨٥ میں مستقل طور پر کراچی منتقل ہونے کے بعد ایک ہندو آرٹسٹ تھے جیون صاحب ہمارے استاد بہت زبردست آرٹسٹ تھے وہ بھی سینما کے بل بورڈ کی پینٹنگز بناتے تھے ان سے بہت کچھ سیکھا -
اس ہی دوران گھریلو معاملات میں کافی مشکلات حائل رہیں - والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور بہنوں کی ذمہ داریاں میرے کاندھوں پر آ گئیں جن کی شادی بیاہ کا انتظام مجھے ہی کرنا تھا - غرض یہ کہ زندگی میں بڑے نشیب و فراز بھی آئے - برے وقت بھی دیکھے ، ایک ایسا وقت بھی آیا جب گھر میں کھانے کو نہ ہوتا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور تہیہ کر لیا کہ آرٹ کو نہیں چھوڑنا جو کچھ بھی کرنا ہے اس میں ہی کرنا ہے -محنت محنت محنت کئے چلے جا رہا ہوں اور ابھی تک محنت ہی کر رہا ہوں
٢٠٠٠ میں انڈس ویلی کا پروجیکٹ تھا جس پر میں نے کام کیا انہوں نے کئی کورس کروائے ، aptitude ٹیسٹ بھی دیئے لیکن باقاعدہ داخلہ نہیں مل سکا ، ایک طرح سے میں خداد اد صلاحیت کا حامل آرٹسٹ ہوں - لیکن کچھ نام ایسے ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے مثال کے طور پر نامور مصور اقبال مہدی ایک نہایت اچھے انسان بھی تھے ، .اسی طرح برٹش کونسل کی اس وقت کی ڈپٹی ڈائرکٹر ثمینہ احمد ، اور مصور عظمیٰ واحد ایکس پی آئی اے ایمپلائیز ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آرٹ کے اس سفر میں میری رہنمائی بھی کی اور ہمت بھی بندھائی-
اکثر آرٹسٹ کسی نہ کسی اسکول آف تھاٹ سے منسلک ہو کر کام کرتے ہیں ، مثال کے طور پر جمیل نقش ، ہاجرہ منصور اور دیگر بڑے آرٹسٹ بھی مختلف اسکول آف تھاٹس سے وابستہ رہے ہیں -
لیکن میری سوچ یہ ہے کہ میں کسی مکتبہ فکر کے زیر اثر نہیں رہا بلکہ اسی کوشش میں رہا کہ اپنی الگ پہچان بناؤں ، کوئی دور سے دیکھے تو سمجھ جائے کہ یہ میری پینٹنگ ہے اسی لئے میں کسی بھی اسکول آف تھاٹ سے خود کو کنیکٹ نہیں کر پایا یہ میری اپنی سوچ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں کسی سے متاثر ہو کر پینٹنگز بنا نہیں سکتا - نہ میں کسی گیلری سے منسلک رہا اگرچہ میرے کافی شو ہو چکے ہیں برٹش کونسل کے تعاون سے پاکستان یوروپین کلچر کے تحت ہونے والی میری نمائش کو کافی سراہا گیا - میرے سولو شو کے علاوہ گروپ شو بھی ہو چکے ہیں -
کئی سیریز پر کام کیا ہے . میں سیمی نیوڈ بھی کر رہا ہوں اس سلسلے میں کئی پینٹنگز دیکھی جا سکتی ہیں -
اب میری سوچ بدل رہی ہے اور اسلامی حوالے سے کام شروع کیا ہے ، کیلی گرافی سے بہت متاثر ہوں ، لیکن ایک فن پارے کی تکمیل میں کافی لمبا عرصہ درکار ہے دیکھیں کب تک مکمل ہوں -
بہرحال آرٹ کا یہ سفر ابھی جاری ہے - دیدبان کو کچھ مختلف ادوار میں تیار کی گئی پینٹنگز کے عکس بھیجے ہیں امید ہے آرٹ کے شائقین کے ذوق کی تسکین ہو گی - بہت شکریہ
یوسف شیخ
٩ مارچ ٢٠٢١
نوٹ : یہ معلومات آرٹسٹ یوسف شیخ نے ایک آڈیو پیغام میں بھیجیں جنھیں سلمیٰ جیلانی نے اپنے الفاظ میں ٹائپ کر کے مضمون کی شکل دی
دیدبان شمارہ ١٣ کے سرورق کے مصور : یوسف شیخ
(دیدبان کے موجودہ شمارے کے مصور یوسف شیخ کا تعارف ان کی اپنی زبانی )
میرا نام محمد یوسف کاسٹ شیخ ہے میری پیدائش سندھ کے مردم خیز شہر میر پور خاص کی ہے ابتدائی تعلیم میر پور خاص ہی میں مکمل کی اس کے بعد جام شورو سندھ یونی ورسٹی سے گریجوشن کیا
مجھے بچپن ہی سے ڈرائنگز بنانے کا بہت شوق تھا ، پانچویں جماعت میں جب بروس لی اور سکس ملین ڈالر مین کی سیریز ٹیلی ویژن پر آتی تھیں تو ان کے اسکیچز بنایا کرتا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن گھر کا ماحول بہت مذہبی تھا خاص طور والد صاحب کو میرے اسکیچز بنانے پر شدید اعتراض تھا - لیکن میں چھپ کر اپنی ڈرائنگ کا شوق کر جاری رکھا تھا کہ میں نے تو یہی کرنا ہے غرض اس شوق کے ہاتھوں کافی مار بھی کھائی - ایک طرح سے میں نے آرٹ کے لئے اپنے گھر والوں کے خلاف بغاوت کی اور ڈرائنگز بنانا جاری رکھیں -
ہائی اسکول میں آرٹ کی کلاس میں اپنے ٹیچرز طارق بندش اور ناصر صاحب نے مجھے بہت سراہا اور وہیں سے میرے اندر چھپے آرٹسٹ کو دریافت کرنے میں مدد ملی لیکن میر پور ایک چھوٹا سا شہر جہاں آرٹ سے متعلق مواقع نہ ہونے کے برابر تھے اس وقت تو کوئی آرٹ کالج یا ادارہ ایسا نہ تھا جہاں اپنے اس شوق کو آگے بڑھایا جاسکتا صرف ایک سینما کے پوسٹر بنانے کی جگہ ایسی تھی جہاں اس شوق کی کچھ تسکین ممکن تھی- گل حسن صاحب میرے پہلے استاد تھے اسی طرح ارشاد بیگ صاحب جو پورٹریٹ بناتے تھے- ان لوگوں سے ملنا بھی ایک مشکل مہم سے کم نہ تھا پھر بھی جیسے تیسے کر کے ان تک پہنچ ہی گیا اور واٹر کلر ،آئل پینٹ ، پیسٹل ورک اور آرٹ کے دیگر میڈیمز میں کام کرنا ان ہی سے سیکھا -
مجھے میورل اور بڑے بل بورڈ اپنی طرف کھینچتے ، ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ ایسے بڑے میورلز بناؤں
جب کبھی کراچی جانا ہوتا جہاں ہمارے دادا رہتے تھے تو کیپری اور گوڈین سینما کے بل بورڈ گھنٹوں کھڑے ہو کر دیکھتا رہتا اور سوچتا کسی دن ایسے ہی بڑے میورل پر کام کروں -
١٩٨٥ میں مستقل طور پر کراچی منتقل ہونے کے بعد ایک ہندو آرٹسٹ تھے جیون صاحب ہمارے استاد بہت زبردست آرٹسٹ تھے وہ بھی سینما کے بل بورڈ کی پینٹنگز بناتے تھے ان سے بہت کچھ سیکھا -
اس ہی دوران گھریلو معاملات میں کافی مشکلات حائل رہیں - والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور بہنوں کی ذمہ داریاں میرے کاندھوں پر آ گئیں جن کی شادی بیاہ کا انتظام مجھے ہی کرنا تھا - غرض یہ کہ زندگی میں بڑے نشیب و فراز بھی آئے - برے وقت بھی دیکھے ، ایک ایسا وقت بھی آیا جب گھر میں کھانے کو نہ ہوتا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور تہیہ کر لیا کہ آرٹ کو نہیں چھوڑنا جو کچھ بھی کرنا ہے اس میں ہی کرنا ہے -محنت محنت محنت کئے چلے جا رہا ہوں اور ابھی تک محنت ہی کر رہا ہوں
٢٠٠٠ میں انڈس ویلی کا پروجیکٹ تھا جس پر میں نے کام کیا انہوں نے کئی کورس کروائے ، aptitude ٹیسٹ بھی دیئے لیکن باقاعدہ داخلہ نہیں مل سکا ، ایک طرح سے میں خداد اد صلاحیت کا حامل آرٹسٹ ہوں - لیکن کچھ نام ایسے ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے مثال کے طور پر نامور مصور اقبال مہدی ایک نہایت اچھے انسان بھی تھے ، .اسی طرح برٹش کونسل کی اس وقت کی ڈپٹی ڈائرکٹر ثمینہ احمد ، اور مصور عظمیٰ واحد ایکس پی آئی اے ایمپلائیز ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آرٹ کے اس سفر میں میری رہنمائی بھی کی اور ہمت بھی بندھائی-
اکثر آرٹسٹ کسی نہ کسی اسکول آف تھاٹ سے منسلک ہو کر کام کرتے ہیں ، مثال کے طور پر جمیل نقش ، ہاجرہ منصور اور دیگر بڑے آرٹسٹ بھی مختلف اسکول آف تھاٹس سے وابستہ رہے ہیں -
لیکن میری سوچ یہ ہے کہ میں کسی مکتبہ فکر کے زیر اثر نہیں رہا بلکہ اسی کوشش میں رہا کہ اپنی الگ پہچان بناؤں ، کوئی دور سے دیکھے تو سمجھ جائے کہ یہ میری پینٹنگ ہے اسی لئے میں کسی بھی اسکول آف تھاٹ سے خود کو کنیکٹ نہیں کر پایا یہ میری اپنی سوچ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں کسی سے متاثر ہو کر پینٹنگز بنا نہیں سکتا - نہ میں کسی گیلری سے منسلک رہا اگرچہ میرے کافی شو ہو چکے ہیں برٹش کونسل کے تعاون سے پاکستان یوروپین کلچر کے تحت ہونے والی میری نمائش کو کافی سراہا گیا - میرے سولو شو کے علاوہ گروپ شو بھی ہو چکے ہیں -
کئی سیریز پر کام کیا ہے . میں سیمی نیوڈ بھی کر رہا ہوں اس سلسلے میں کئی پینٹنگز دیکھی جا سکتی ہیں -
اب میری سوچ بدل رہی ہے اور اسلامی حوالے سے کام شروع کیا ہے ، کیلی گرافی سے بہت متاثر ہوں ، لیکن ایک فن پارے کی تکمیل میں کافی لمبا عرصہ درکار ہے دیکھیں کب تک مکمل ہوں -
بہرحال آرٹ کا یہ سفر ابھی جاری ہے - دیدبان کو کچھ مختلف ادوار میں تیار کی گئی پینٹنگز کے عکس بھیجے ہیں امید ہے آرٹ کے شائقین کے ذوق کی تسکین ہو گی - بہت شکریہ
یوسف شیخ
٩ مارچ ٢٠٢١
نوٹ : یہ معلومات آرٹسٹ یوسف شیخ نے ایک آڈیو پیغام میں بھیجیں جنھیں سلمیٰ جیلانی نے اپنے الفاظ میں ٹائپ کر کے مضمون کی شکل دی