دوئی کا انت
دوئی کا انت
Mar 24, 2021
وبا کے دنوں میں تحریر کردہ فلیش فکشن
دوئی کا انت
وہ جب ہجوم میں ہوتا، دوستوں کے ہمراہ یا خاندان کی معیت میں ۔۔۔۔ سب کچھ درست ہوتا ۔۔۔۔ کسی طرح کی کوئی پریشانی، کوئی الجھن نہیں۔
لیکن جونہی وہ کسی اور کی بجائے اپنی صحبت میں آتا تو پریشانی اسے گھیر لیتی، وہ تنہائی سے بھاگتا، اپنے آپ سے ڈر جاتا۔ حالانکہ اس کا اپنا آپ تو خود اس سے ڈرا ہوا تھا۔ تنہائی میسر آتے ہی اسے اپنی روح نظر آتی، ایک کونے میں دبکی ہوئی، سہمی ہوئی، منہ بسورتی ہوئی، اس سے بری طرح خفا۔ اور اس کا دل ۔۔۔۔ اپنا بدن سہلاتے ہوئے، آنکھوں میں آنسووں کو روک کر اسے یوں دیکھتا جیسے کوئی بچہ کسی بڑے سے مار کھا کر ہچکیوں میں پوچھے کہ مجھے کیوں مارا؟
دراصل وہ انتہا کا معیار پرست تھا۔ وہ اچھائی اور معیار کے مذہبی/سماجی/اخلاقی تازیانوں سے خود اپنی ہی دھلائی کرتا رہا تھا، یہ کام اس نے زندگی بھر کیا اور بے تحاشا کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اس کے اندر کا بشر زخم زخم ہو کر اس سے ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا۔
شاید ہمیشہ کے لیے نہیں ۔۔۔۔ آخر وہ اس کا اپنا تھا ۔۔۔۔ اسے تو بس پیار اور تسلیم کیے جانے کی ایک چھوٹی سی تھپکی کی ضرورت تھی۔ یہ وہ بات تھی جو اس کے بڑوں کی تربیت، کتابوں، ناصحوں کے مشوروں نے نہیں ، ایک جبری تنہائی نے ان ایام میں اُسے سمجھائی جب دنیا بھر میں ایک خوفناک وبا پھوٹ پڑی تھی اور انسانوں کی باہمی صحبتوں کے سلسلے نہ رہے تھے۔ جب بقا کا مسئلہ درپیش ہوا تو انسان انسانوں سے دور بھاگنے لگے۔ دوسروں سے دور بھاگنا تو خیر ممکن تھا۔ لیکن اس جبری تنہائی میں وہ اپنے آپ سے بھاگ کر کہاں جاتا۔ وہ کئی ہفتوں تک اتنا زیادہ اپنے ساتھ رہا کہ رفتہ رفتہ دوری کا احساس جاتا رہا اور وہ کچھ کچھ خود کو پہچاننے لگا۔ وہ اتنا برا نہیں تھا جتنی وہ خود کو سزا دیتا رہا تھا۔ وہ بہترین انسان بننے کی مشقت کرتے کرتے اپنے نفس کی بشری ناطاقتی ہی کو بھول گیا تھا۔ وہ اسے برا بھلا تو کہتا رہا تھا، لیکن کبھی اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر یہ نہیں کہا تھا، "کوئی بات نہیں، غلطی بھی انسان ہی کرتا ہے۔" اس نے ایک کونے میں دبکی ہوئی اپنی خوفزدہ روح کو پیار سے اپنے پاس بلایا، اس کا رنگ گندمی تھا، کچھ داغ بھی تھے اس پر، ٹھوکروں، نفرتوں، شکایتوں، احسان فراموشیوں، وعدہ خلافیوں، کمزوریوں، رنجشوں کے داغ، گذرے وقت کے چھوڑے ہوئے پکے داغ، جنھیں اب دھونا مشکل تھا۔ اس نے اس داغ داغ روح کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ قبولیت اور اپنائیت کی یہی گھڑی تھی جب دوئی کا عذاب ختم ہوا اور اسے خود اپنی صحبت میں مزا آنے لگا۔
کوثر جمال- سڈنی
دوئی کا انت
وہ جب ہجوم میں ہوتا، دوستوں کے ہمراہ یا خاندان کی معیت میں ۔۔۔۔ سب کچھ درست ہوتا ۔۔۔۔ کسی طرح کی کوئی پریشانی، کوئی الجھن نہیں۔
لیکن جونہی وہ کسی اور کی بجائے اپنی صحبت میں آتا تو پریشانی اسے گھیر لیتی، وہ تنہائی سے بھاگتا، اپنے آپ سے ڈر جاتا۔ حالانکہ اس کا اپنا آپ تو خود اس سے ڈرا ہوا تھا۔ تنہائی میسر آتے ہی اسے اپنی روح نظر آتی، ایک کونے میں دبکی ہوئی، سہمی ہوئی، منہ بسورتی ہوئی، اس سے بری طرح خفا۔ اور اس کا دل ۔۔۔۔ اپنا بدن سہلاتے ہوئے، آنکھوں میں آنسووں کو روک کر اسے یوں دیکھتا جیسے کوئی بچہ کسی بڑے سے مار کھا کر ہچکیوں میں پوچھے کہ مجھے کیوں مارا؟
دراصل وہ انتہا کا معیار پرست تھا۔ وہ اچھائی اور معیار کے مذہبی/سماجی/اخلاقی تازیانوں سے خود اپنی ہی دھلائی کرتا رہا تھا، یہ کام اس نے زندگی بھر کیا اور بے تحاشا کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اس کے اندر کا بشر زخم زخم ہو کر اس سے ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا۔
شاید ہمیشہ کے لیے نہیں ۔۔۔۔ آخر وہ اس کا اپنا تھا ۔۔۔۔ اسے تو بس پیار اور تسلیم کیے جانے کی ایک چھوٹی سی تھپکی کی ضرورت تھی۔ یہ وہ بات تھی جو اس کے بڑوں کی تربیت، کتابوں، ناصحوں کے مشوروں نے نہیں ، ایک جبری تنہائی نے ان ایام میں اُسے سمجھائی جب دنیا بھر میں ایک خوفناک وبا پھوٹ پڑی تھی اور انسانوں کی باہمی صحبتوں کے سلسلے نہ رہے تھے۔ جب بقا کا مسئلہ درپیش ہوا تو انسان انسانوں سے دور بھاگنے لگے۔ دوسروں سے دور بھاگنا تو خیر ممکن تھا۔ لیکن اس جبری تنہائی میں وہ اپنے آپ سے بھاگ کر کہاں جاتا۔ وہ کئی ہفتوں تک اتنا زیادہ اپنے ساتھ رہا کہ رفتہ رفتہ دوری کا احساس جاتا رہا اور وہ کچھ کچھ خود کو پہچاننے لگا۔ وہ اتنا برا نہیں تھا جتنی وہ خود کو سزا دیتا رہا تھا۔ وہ بہترین انسان بننے کی مشقت کرتے کرتے اپنے نفس کی بشری ناطاقتی ہی کو بھول گیا تھا۔ وہ اسے برا بھلا تو کہتا رہا تھا، لیکن کبھی اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر یہ نہیں کہا تھا، "کوئی بات نہیں، غلطی بھی انسان ہی کرتا ہے۔" اس نے ایک کونے میں دبکی ہوئی اپنی خوفزدہ روح کو پیار سے اپنے پاس بلایا، اس کا رنگ گندمی تھا، کچھ داغ بھی تھے اس پر، ٹھوکروں، نفرتوں، شکایتوں، احسان فراموشیوں، وعدہ خلافیوں، کمزوریوں، رنجشوں کے داغ، گذرے وقت کے چھوڑے ہوئے پکے داغ، جنھیں اب دھونا مشکل تھا۔ اس نے اس داغ داغ روح کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ قبولیت اور اپنائیت کی یہی گھڑی تھی جب دوئی کا عذاب ختم ہوا اور اسے خود اپنی صحبت میں مزا آنے لگا۔
کوثر جمال- سڈنی