اداریہ -' شمارہ-١ ' ۔ سلمی جیلانی

اداریہ -' شمارہ-١ ' ۔ سلمی جیلانی

Mar 16, 2018

برصغیر کی تہذیب و ثقافت

مصنف

سلمی جیلانی

شمارہ

شمارہ - ١

دیدبان شمارہ ۔۱

اداریہ : دید بان کا پہلا شمارہ اور برصغیر کی تہذیب و ثقافت 

سلمیٰ جیلانی 

 بتاریخ پچیس مارچ دو ہزار سولہ .اردو زبان کا جدید اون لائن ادبی جریدہ دید بان جس کا موٹو مولانا رومی کے اس کوٹ پر مبنی ہے ...تم ایک نہیں ہزاروں ہو پس اپنی شمع جلاؤ ہم نے اس کا نام دیدبان یعنی مرغ باد نما یا سمت نما کیوں رکھا اس ضمن میں کچھ کے بجائے اس جریدے کو اردو ادب کے قاری کے بازوق مطالعہ کی نذر کرتے ہیں جو کہ تین ،مصنفاؤں  ڈاکٹر نسترن فتیحی ، سلمیٰ جیلانی اور سبین علی کی کوششوں کا ثمر ہے یہ جریدہ مکمل نہیں ہوتا اگر وہ تمام ساتھی جن کے فن پارے اس اشاعت کا حصہ ہیں ہم تینوں  نئی ایڈیٹرز پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی بیش قیمت تخلیقات پیش نہ کرتے جس کے لئے دید بان ٹیم ان کی دلی سپاس گزار ہے اور میں خود ذاتی طور پر انتہائی ممنون ہوں ، ابھی تو اس سفر کی ابتدا ہے اور امید ہے کارواں بنتا جائے گا اور آج جو شمع ہم نے جلائی ہے اسے نوجوان اور بزرگ اور کم بزرگ و معتبر ادیب ، شعرا، دانشور اور ادب کے طالب علم مزید جلاء بخشیں گے، دید بان کے ٹائٹل کور پرپاکستان کے مایہ ناز مصورعجب خان کی پینٹنگ کا عکس ہے جس کے لئے دلی شکریہ عجب خان موجودہ دور کی ثقافت کو اپنی پینٹنگز میں جس طرح پیش کر رہے ہیں وہ نہایت قابل تعریف ہے یہ پینٹنگ بھی تمام محنت کشوں کی ترجمانی کر رہی ہے جو اپنا پسینہ بہا کر دنیا کو حسین روپ عطا کرتے ہیں . یہ اس سفر کا پہلا پڑاؤ ہے جہاں بیٹھ کر کچھ دیر کے لئے ہم برصغیر پاک و ہند کی صدیوں پرانی زرخیز مٹی سے گندھی ثقافت و تہذیب کے ذکر سے خود کو سیراب کریں گے یہی نہیں دنیا بھر کی تہذیب و ثقافت پر ہماری اجارہ داری ہو گی اور جہاں کہیں بھی کوئی خوشبو دار تخلیق ہمیں نظر آئے گی اس جریدے کے ثقافت ایڈیشن کا لازمی جزو قرار پائے گی مگر اس سے پہلے اس کے مفھوم کو سمجھ لیتے ہیں ثقافت کے بے شمار لغوی معنوں میں سے ایک تہذیب و تمدن بھی ہے یعنی کسی بھی گروہ کے رسم و رواج ، باہمی سلوک اور عادات و اطوار رہن سہن کے طریقے ، فنون لطیفہ سے شناسائی اور دوسرے مثبت مادی اوصاف جو وہ آنے والی نسلوں کو منتقل کریں گویا ثقافت دراصل وہ عمارت ہے جو کسی بھی قوم یا گروہ کی اقدار و روایات کی مضبوط بنیاد پر قائم ہوتی ہے یوں تو تہذیب و ثقافت دو الگ الگ لیکن ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم حقیقتیں ہے اسی لئے ہم انہیں ساتھ ساتھ رکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھیں گے برصغیر کی تہذیب و تمدن جس کی مٹی سے اردو اور دوسری علاقائی زبانوں کا خمیر اٹھا ،اس کی ابتدا کے بارے میں شکیل الرحمٰن اپنی کتاب ہندوستانی جمالیات میں لکھتے ہیں ہندستانی تہذیب مانو سنسکرتی یا مانو دھرم کے نام سے یاد کی جاتی ہے جو کہ آفاقی اقدار کی ترجمان ہے ، اس قدیم ترین خطے میں تہذیب کی ابتدا کب سے ہوئی اس کے بارے میں تاریخ کا قلم خاموش ہے گویا یہ ANADI یعنی ابتدا کے بغیر ہے جو لا محدود سناتن یعنی بہت ہی پراسرار آفاقیت ہے اس ضمن میں سب سے اہم تصور یوگ وششٹھ یعنی یوگا VISISTHA کا ہے جس کا مطلب ہے تہذیب کے مختلف ادوار میں ابھرنے والے تمام راستے ایک ہی عظیم تر حقیقت کی طرف جاتے ہیں یعنی ہر دور کا انسان اپنے اور فطرت کے رشتہ کو تلاش کرنے کی ہر ممکن سعی کرتا رہا ہے ، یہ رویہ تہذیب کا وہ منفرد ترین روشن پہلو دکھاتا ہے جو ہمارے تاریخی مزاج کی تشکیل میں مددگار رہا ہے جسے اس میدان کے ماہرین " انیک انت " قرار دیتے ہیں جو کہ ہماری تہذیب و ثقافت کو وہ لچک عطا کرتا ہے جو دنیا کی کسی دوسری تہذیب کی بنیاد میں موجود نہیں اسی انیک انت کی بدولت یہاں کے باشندے ابتدا ہی سے ایک گہرا ویژن رکھتے ہیں جو بہتر سماجی شعور اور اساس کی سچائی پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے صدیوں کے شعوری سفر کے اس تسلسل نے آج کے معاشرے میں موجود جس رنگا رنگی اور انفرادیت کو یکجا کیا ہے اس میں نفاست ہے خود آگاہی ہے اور زمین سے جڑت کا کیف آگیں احساس ہے اس خطے میں ہونے والی ثقافتی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے اگر مختصرا ً پرانے ادوار کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ تہذیب کے اس سفر میں کیسے کیسے دفینے مٹی کی تہ میں موجود ہیں وادئ سندھ کی تہذیب برصغیر کے تمام خطے میں سب سے قدیم تسلیم کی گئی ہے لیکن انیس سو ستتر میں فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ نے بلوچستان میں درہ بولان کے دامن میں مہر گڑھ کی مقام پر سات ہزار برس قبل مسیح کے آثار دریافت کئے ۔ ان کے مطابق مہر گڑھ کی تہذیب موئن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے بھی چار ہزار سال پرانی تھی۔ ان ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق یہاں کے لوگ مٹی کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے اور مویشی پالتے تھے، مکئی اور گندم کی کاشت کرتے تھے اور دھات اور مٹی کے بنے ہوئے برتن بھی استعمال کرتے تھے۔چناچہ جدید تحقیق کی رو سے انڈس ویلی سویلیزیشن وادئ مہران جو کہ صوفیاء کی یسرزمین کہلاتی ہے اور محبت اور رواداری کے رنگوں سے مالا مال ہے اسے موہن جو دڑ و اور ہڑپہ کے پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانے شہروں کے پس منظر میں دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ یہاں کے لوگ فن تعمیر ، سائنس اور تجارت صنعت وحرفت کے علاوہ فنون لطیفہ میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے کپاس کاشت کرتے اور نہایت خوب صورت کپڑا بنتے اور مٹی کے ساتھ کانسی کے برتنوں اور رقاصوں کے مجسمے بنانا انہوں نے پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے ہی سیکھ لیا تھا اور میسو پٹونیا سے سمندر کے راستے تجارت کیا کرتے تھے شہر میں چالیس ہزار سے زیادہ لوگ آباد تھے جس کی گلیاں اور دو منزلہ گھر پختہ اینٹوں سے تعمیر کر دہ ، پانی کی نکاسی کے لئے نالیوں کا نظام اور حمام اور تالاب جن کے کنارے رقص وسرود کی سماجی محفلیں ان کی سلیقہ مندی اور منظم طرز معاشرت کا منہ بولتا شاہکار ہیں انیس سو بائیس میں یہاں کی کھدائی سے ملنے والا کانسی کا رقاصہ کا مجسمہ جس کے بازوؤں میں تھر کی عورتوں کی مانند سفید کڑے ہیں مقامی لوگ جسے سمبارا کے نام سے جانتے ہیں اس قدیم تہذیب کی فنون لطیفہ سے آشنائی کا زبردست اشارہ ہے جو میرے افسانے جیرن جو دڑو کی مرکزی کردار بھی ہے موئن جو دڑو کو یونیسکو نے چھ قدیم ترین ثقافتی مقامات میں سے ایک تسلیم کیا ہے اس کی تباہی کے بارے میں متضاد رائے ہیں کچھ کہتے ہیں دریا ئے سندھ اور گگهر ہا دریا کی طغیانی اسے لے ڈوبی کچھ ایران اور اس سے اوپر کی طرف سے آنے والی آریائی نسل کے حملہ آوروں کی تخریبی کاروائی کا نتیجہ قرار دیتے گو یہ شہر وقت کی گرد میں دب گئے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں جب دنیا جہالت اور وحشت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اس خطے میں تہذیب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ تھی اس کے علاوہ راولپنڈی کے قریب ملنے والےتین ہزار سال پرانے شہر ٹیکسلا کے آثار جن کی جڑیں گندھارا تہذیب سے ملتی ہیں جو ہندو اور بدھ مت کی اولین بنیادیں سمجھی جاتی ہے اسی علاقے میں پروان چڑھیں تین سو چھبیس قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس شہر کو فتح کیا تھا اس کے بعد بھی صدیوں تک شہر کی رونق برقرار رہی اور بدھ مت کی تعلیم یہاں کے اسٹوپا ؤ ں میں جاری رہی -گندھارا آرٹ کے نمونے ثقافتی میوزیم میں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں جن میں زیورات ظروف اور دیگر نوادرات شامل ہیں یہی نہیں شہر پشاور اور اس کا قصہ خوانی بازار خود ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے جو درۂ خیبر سے گزرنے والوں کے لئے تہذیب و ثقافت کا مرکز تھا ہے یہاں سے اسی کلو میٹر کے فاصلے پر تخت بائی کے آثار جو بدھ مت کے پیرو کاروں کی یاد گار کے طور پر موجود ہے بدھ کمپلیکس کے کھنڈرات ہیں یہ چار عمارات پر مشتمل ہےاس میں اسٹوپا ، راہبوں کی خانقاہ ،مندر اور تنتری راہبوں کی خانقاہ کے آثار اس کی ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہیں اس کے علاوہ لاہور بھی ڈیڑھ ہزار سال قدیم شہروں میں سے ایک ہے یہاں پر موجود مغل بادشاہوں کے تعمیر کردہ محلات اور باغات آج بھی دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتے ہیں اور یہاں کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں ، مزید برآں سندھ کے دوسرے شہر ٹھٹہ میں بھی مغل تہذیب کے آثار جا بجا بکھرے ہوئے ہیں یہی نہیں روہی کے صحرا کے قرب میں روہتاس کا قلعہ اور دوسری یاد گاریں یہاں کے زرخیز تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کی آمین ہیں ایک بات واضح کرتی چلوں سرحدوں کے اس پار یعنی موجودہ بھارت کی تہذیبی میراث پاکستان سے علیحدہ نہیں یہ ایک مشترکہ اثاثہ ہے جس پر موجودہ اور آنے والی نسلوں کا برابر کا حق ہے اس لئے اس مضمون میں تہذیب و ثقافت کے حوالے سے جو بھی ذکر ہوا ہے اس میں اردو زبان کے بولنے والوں کی ایک ہی بنیاد تصور کی گئی ہے چودہویں صدی عیسوی میں مشہور سیاح ابن بطوطہ جب ہندوستان آیا تو یہاں کے شہروں خاص کر دہلی اور مہارشٹر کی بود و باش سے بے حد متاثر ہوا اس نے اپنے سفر نامے میں یہاں کے پان اور ناریل کا ذکر خاص طور پر کیا ، وہ یہاں کے شہروں کے بارے میں لکھتا ہے میں نے برصغیر ہند کے شہروں کو ان لوگوں کے لئے پرجوش مواقع سے بھرپور پایا جو محنتی ہنر مند اور وسائل سے آراستہ تھے ۔ یہ شہر گنجان آبادی والے ، خوشحال اور بارونق ہیں ابن بطوطہ کے بیان سے ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے زیادہ تر شہروں میں بھیڑبھاڑوالی گلیاں اور منور و رنگین بازار تھے جو مختلف اقسام کی اشیاء سے بھرے پڑے رہتے ہوں گے ۔

ابن بطوطہ دہلی کو نہایت وسیع اور بڑی آبادی کے ساتھ ہندوستان کا سب سے بڑا شہر بتاتا ہے مزید برآں اس کے سفر نامے میں مہاراشٹر کی شان و شوکت کا بھی ذکر ہے جو کہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دہلی کے مدمقابل تھا۔

دلی کا تذکرہ ابن بطوطہ یوں کرتا ہے ۔ دلی ایک وسیع رقبے میں پھیلا گنجان آبادی والا شہر ہے جس کے چاروں طرف حصاریعنی شہر پناہ کی دیوارقائم ہے اس کی چوڑائی نیم گز ہے ۔ اس کے اندر رات کے پہرے دار اور دربانوں کے مکانات ہیں جہاں اشیائے خوردنی، سامان جنگ( میگزین، گولہ بارود، منحبتقیں اور محاصرہ میں کام آنے والی مشینوں کو رکھنے کیلئے گودام بنے ہوئے ہیں ، ان میں اناج طویل عرصہ تک بغیر خراب ہوئے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔۔۔۔ حصار کے اندرونی حصہ میں گھوڑا سوار اور پیادہ فوجی شہر کے ایک جانب سے دوسری جانب جایا کرتے ہیں ان کی کھڑکیاں شہر کے جانب کھلتی ہیں ۔ ان ہی کھڑکیوں کے ذریعہ روشنی اندر آتی ہے ۔ حصار کا نچلہ حصہ پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے جب کہ اوپری حصہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ اس میں ایک دوسرے کے قریب قریب کئی مینار بنی ہیں ۔ اس شہر کے اٹھائیس ابواب ہیں جن میں بدایوں دروازہ سب سے بڑا ہے ۔ مانڈوی، دروازے کے اندر ایک اناج منڈی ہے ۔ گل دروازے کی بغل میں پھولوں کا باغیچہ ہے ۔ اس شہر میں ایک بہترین قبرستان ہے جس میں موجود اکثر قبروں کے اوپر گنبد بنے ہیں اور جن قبروں کے اوپر گنبد نہیں ہے ان پر ایک محراب ہے ۔ قبرستان میں بصلہ دار پودا یاسمین اور جنگلی گلاب وغیرہ پھول اگائے جاتے ہیں اور یہاں پھول سبھی موسم میں کھلے رہتے ہیں ۔

اوپر دیئے گئے تذکرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں تہذیب و ثقافت کی موجودہ عمارت کتنی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوئی گویا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں یہ ہزاروں برس کا قصہ ہے کوئی پل دو پل کی بات نہیں برصغیر کا عظیم ثقافتی ورثہ نا صرف ایک تاریخی حقیقت ہے بلکہ عہد قدیم کی ایسی یادگاریں ہیں جس میں گئے زمانوں کے علم و فن کے حیرت انگیز نمونے آج کے ترقی یافتہ دور کے انسان کے لئے فکر انگیز مواد رکھتے ہیں۔ ان آثار کا مشاہدہ ایک جہان گم شدہ سے متعارف کراتا ہے اور انسانی عروج و زوال کی یہ نشانیاں یقینا اپنے اندر گہرائی اور سوچ کے لئے کثیر جہتی زاویے رکھتی ہیں۔ اورجب کسی بھی معاشرے کے لوگوں اور ان کی زبان کی جڑیں اپنی تہذیب و ثقافت میں گہرائی سے پیو ست ہوں تو پھر وقت اور حالات ساز گار نہ ہو نے کے باجود اس معاشرے اور اس کی زبانوں کی بقا اور ارتقاء کے سوتے خشک نہیں ہوتے- اسی ابدی سچائی کی تلاش جس کے ان گنت رنگ لاتعداد پہلو ہیں درحقیقت روز اول سے لے کر آج تک انسان کی زندگی کا حاصل قرار پائے ہیں اب آتے ہیں اردو ادب اور اس سے وابستہ موجودہ حالات کی طرف دور حاضر میں اردو زبان سے منسلک سماجی ، سیاسی اور ثقافتی صورت حال نے اُردومیں لکھنے والوں کو پس ما ندگی اور احساس ِ کم تری اور عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے ۔ سماجی اور ثقافتی ڈسکورس کے حوالے سے اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقا ء کے لئے یہ کام اُردو شاعروں اور فکشن نگاروں سے زیادہ کون کر سکتا ہے لیکن اسے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اس کے لئے اُردو زبان کے ماہرین ِ سماجیات و معاشیات ، صحافی، سیاست داں اور سائنس و ٹکنا لوجی سے وابستہ دانشور سب مل کر کام کریں گے تو ہی روشنی ہو گی لیکن شرط یہ ہے کہ اردو دوستی کے معیارکو عملی اور نتیجہ خیز بنانا ہوگا اور حکومت کی جانب سے بھی اردو ا داروں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی ہو ، کیونکہ حکومت کی سرپر ستی اور حوصلہ افزائی سے ہی اُردو کا سماجی اور ثقافتی فروغ ہو سکتا ہے اور اُردو ادب کے عالمی ادب کے دھارے میں شامل ہونے کے امکا نات روشن ہو سکتے ہیں- صرف اردو ہی نہیں بلکہ خطے کی دیگر زبانوں مثلا ً سندھی پنجابی سرائیکی پشتو بلوچی ہندی اور دوسری تمام زبانوں میں تخلیق ہونے والا ادب بھی اس ادبی کارواں کا حصہ اور اٹوٹ آہنگ ہے اس شمارے میں بھی دوسری زبانوں کے ادیب اور شعرا نے جس طرح اردو ادب کی پزیرائی کی اور اپنی تخلیقات اردو قارئین کے مطالعہ کے لئے پیش کیں اردو ادباء کا بھی فرض ہے کہ ان کو اپنے ساتھ لے کر چلیں اور اسی محبت اور یگانگت کو فروغ دیں جو اس تہذیب کا ہمیشہ سے خاصہ رہا ہے.

مزید برآں ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جو اردو سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ان کے لئےمیگ میں وقتا ً فوقتا ً انگریزی آرٹیکلز اور ٹرانسلیشن جو ہمارے اردو ادباء کی تخلیق کردہ ہیں بھی شامل کرتے رہیں گے جیسا کہ اس مرتبہ جناب ستیہ پال آنند صاحب کا انگریزی مضمون دیدبان کی زینت ہے ان مضامین کی اشاعت سے ہمارا مقصد انہیں اردو کی طرف لانا ہے

دعا ہے کہ ہم اپنے اس اون لائن جریدے کی وساطت سے اردو ادب کے اس تہذیبی اور ثقافتی سفر کو نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ چراغ سے چراغ جلاتے ہوئے ظلم و جہالت کے اندھیرے دور کرنے کا عزم کرتے ہیں خدائے بزرگ و برتر ہماری کاوشوں کو قبول فرمائے آمین --------------

دیدبان شمارہ ۔۱

اداریہ : دید بان کا پہلا شمارہ اور برصغیر کی تہذیب و ثقافت 

سلمیٰ جیلانی 

 بتاریخ پچیس مارچ دو ہزار سولہ .اردو زبان کا جدید اون لائن ادبی جریدہ دید بان جس کا موٹو مولانا رومی کے اس کوٹ پر مبنی ہے ...تم ایک نہیں ہزاروں ہو پس اپنی شمع جلاؤ ہم نے اس کا نام دیدبان یعنی مرغ باد نما یا سمت نما کیوں رکھا اس ضمن میں کچھ کے بجائے اس جریدے کو اردو ادب کے قاری کے بازوق مطالعہ کی نذر کرتے ہیں جو کہ تین ،مصنفاؤں  ڈاکٹر نسترن فتیحی ، سلمیٰ جیلانی اور سبین علی کی کوششوں کا ثمر ہے یہ جریدہ مکمل نہیں ہوتا اگر وہ تمام ساتھی جن کے فن پارے اس اشاعت کا حصہ ہیں ہم تینوں  نئی ایڈیٹرز پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی بیش قیمت تخلیقات پیش نہ کرتے جس کے لئے دید بان ٹیم ان کی دلی سپاس گزار ہے اور میں خود ذاتی طور پر انتہائی ممنون ہوں ، ابھی تو اس سفر کی ابتدا ہے اور امید ہے کارواں بنتا جائے گا اور آج جو شمع ہم نے جلائی ہے اسے نوجوان اور بزرگ اور کم بزرگ و معتبر ادیب ، شعرا، دانشور اور ادب کے طالب علم مزید جلاء بخشیں گے، دید بان کے ٹائٹل کور پرپاکستان کے مایہ ناز مصورعجب خان کی پینٹنگ کا عکس ہے جس کے لئے دلی شکریہ عجب خان موجودہ دور کی ثقافت کو اپنی پینٹنگز میں جس طرح پیش کر رہے ہیں وہ نہایت قابل تعریف ہے یہ پینٹنگ بھی تمام محنت کشوں کی ترجمانی کر رہی ہے جو اپنا پسینہ بہا کر دنیا کو حسین روپ عطا کرتے ہیں . یہ اس سفر کا پہلا پڑاؤ ہے جہاں بیٹھ کر کچھ دیر کے لئے ہم برصغیر پاک و ہند کی صدیوں پرانی زرخیز مٹی سے گندھی ثقافت و تہذیب کے ذکر سے خود کو سیراب کریں گے یہی نہیں دنیا بھر کی تہذیب و ثقافت پر ہماری اجارہ داری ہو گی اور جہاں کہیں بھی کوئی خوشبو دار تخلیق ہمیں نظر آئے گی اس جریدے کے ثقافت ایڈیشن کا لازمی جزو قرار پائے گی مگر اس سے پہلے اس کے مفھوم کو سمجھ لیتے ہیں ثقافت کے بے شمار لغوی معنوں میں سے ایک تہذیب و تمدن بھی ہے یعنی کسی بھی گروہ کے رسم و رواج ، باہمی سلوک اور عادات و اطوار رہن سہن کے طریقے ، فنون لطیفہ سے شناسائی اور دوسرے مثبت مادی اوصاف جو وہ آنے والی نسلوں کو منتقل کریں گویا ثقافت دراصل وہ عمارت ہے جو کسی بھی قوم یا گروہ کی اقدار و روایات کی مضبوط بنیاد پر قائم ہوتی ہے یوں تو تہذیب و ثقافت دو الگ الگ لیکن ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم حقیقتیں ہے اسی لئے ہم انہیں ساتھ ساتھ رکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھیں گے برصغیر کی تہذیب و تمدن جس کی مٹی سے اردو اور دوسری علاقائی زبانوں کا خمیر اٹھا ،اس کی ابتدا کے بارے میں شکیل الرحمٰن اپنی کتاب ہندوستانی جمالیات میں لکھتے ہیں ہندستانی تہذیب مانو سنسکرتی یا مانو دھرم کے نام سے یاد کی جاتی ہے جو کہ آفاقی اقدار کی ترجمان ہے ، اس قدیم ترین خطے میں تہذیب کی ابتدا کب سے ہوئی اس کے بارے میں تاریخ کا قلم خاموش ہے گویا یہ ANADI یعنی ابتدا کے بغیر ہے جو لا محدود سناتن یعنی بہت ہی پراسرار آفاقیت ہے اس ضمن میں سب سے اہم تصور یوگ وششٹھ یعنی یوگا VISISTHA کا ہے جس کا مطلب ہے تہذیب کے مختلف ادوار میں ابھرنے والے تمام راستے ایک ہی عظیم تر حقیقت کی طرف جاتے ہیں یعنی ہر دور کا انسان اپنے اور فطرت کے رشتہ کو تلاش کرنے کی ہر ممکن سعی کرتا رہا ہے ، یہ رویہ تہذیب کا وہ منفرد ترین روشن پہلو دکھاتا ہے جو ہمارے تاریخی مزاج کی تشکیل میں مددگار رہا ہے جسے اس میدان کے ماہرین " انیک انت " قرار دیتے ہیں جو کہ ہماری تہذیب و ثقافت کو وہ لچک عطا کرتا ہے جو دنیا کی کسی دوسری تہذیب کی بنیاد میں موجود نہیں اسی انیک انت کی بدولت یہاں کے باشندے ابتدا ہی سے ایک گہرا ویژن رکھتے ہیں جو بہتر سماجی شعور اور اساس کی سچائی پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے صدیوں کے شعوری سفر کے اس تسلسل نے آج کے معاشرے میں موجود جس رنگا رنگی اور انفرادیت کو یکجا کیا ہے اس میں نفاست ہے خود آگاہی ہے اور زمین سے جڑت کا کیف آگیں احساس ہے اس خطے میں ہونے والی ثقافتی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے اگر مختصرا ً پرانے ادوار کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ تہذیب کے اس سفر میں کیسے کیسے دفینے مٹی کی تہ میں موجود ہیں وادئ سندھ کی تہذیب برصغیر کے تمام خطے میں سب سے قدیم تسلیم کی گئی ہے لیکن انیس سو ستتر میں فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ نے بلوچستان میں درہ بولان کے دامن میں مہر گڑھ کی مقام پر سات ہزار برس قبل مسیح کے آثار دریافت کئے ۔ ان کے مطابق مہر گڑھ کی تہذیب موئن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے بھی چار ہزار سال پرانی تھی۔ ان ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق یہاں کے لوگ مٹی کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے اور مویشی پالتے تھے، مکئی اور گندم کی کاشت کرتے تھے اور دھات اور مٹی کے بنے ہوئے برتن بھی استعمال کرتے تھے۔چناچہ جدید تحقیق کی رو سے انڈس ویلی سویلیزیشن وادئ مہران جو کہ صوفیاء کی یسرزمین کہلاتی ہے اور محبت اور رواداری کے رنگوں سے مالا مال ہے اسے موہن جو دڑ و اور ہڑپہ کے پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانے شہروں کے پس منظر میں دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ یہاں کے لوگ فن تعمیر ، سائنس اور تجارت صنعت وحرفت کے علاوہ فنون لطیفہ میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے کپاس کاشت کرتے اور نہایت خوب صورت کپڑا بنتے اور مٹی کے ساتھ کانسی کے برتنوں اور رقاصوں کے مجسمے بنانا انہوں نے پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے ہی سیکھ لیا تھا اور میسو پٹونیا سے سمندر کے راستے تجارت کیا کرتے تھے شہر میں چالیس ہزار سے زیادہ لوگ آباد تھے جس کی گلیاں اور دو منزلہ گھر پختہ اینٹوں سے تعمیر کر دہ ، پانی کی نکاسی کے لئے نالیوں کا نظام اور حمام اور تالاب جن کے کنارے رقص وسرود کی سماجی محفلیں ان کی سلیقہ مندی اور منظم طرز معاشرت کا منہ بولتا شاہکار ہیں انیس سو بائیس میں یہاں کی کھدائی سے ملنے والا کانسی کا رقاصہ کا مجسمہ جس کے بازوؤں میں تھر کی عورتوں کی مانند سفید کڑے ہیں مقامی لوگ جسے سمبارا کے نام سے جانتے ہیں اس قدیم تہذیب کی فنون لطیفہ سے آشنائی کا زبردست اشارہ ہے جو میرے افسانے جیرن جو دڑو کی مرکزی کردار بھی ہے موئن جو دڑو کو یونیسکو نے چھ قدیم ترین ثقافتی مقامات میں سے ایک تسلیم کیا ہے اس کی تباہی کے بارے میں متضاد رائے ہیں کچھ کہتے ہیں دریا ئے سندھ اور گگهر ہا دریا کی طغیانی اسے لے ڈوبی کچھ ایران اور اس سے اوپر کی طرف سے آنے والی آریائی نسل کے حملہ آوروں کی تخریبی کاروائی کا نتیجہ قرار دیتے گو یہ شہر وقت کی گرد میں دب گئے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں جب دنیا جہالت اور وحشت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اس خطے میں تہذیب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ تھی اس کے علاوہ راولپنڈی کے قریب ملنے والےتین ہزار سال پرانے شہر ٹیکسلا کے آثار جن کی جڑیں گندھارا تہذیب سے ملتی ہیں جو ہندو اور بدھ مت کی اولین بنیادیں سمجھی جاتی ہے اسی علاقے میں پروان چڑھیں تین سو چھبیس قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس شہر کو فتح کیا تھا اس کے بعد بھی صدیوں تک شہر کی رونق برقرار رہی اور بدھ مت کی تعلیم یہاں کے اسٹوپا ؤ ں میں جاری رہی -گندھارا آرٹ کے نمونے ثقافتی میوزیم میں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں جن میں زیورات ظروف اور دیگر نوادرات شامل ہیں یہی نہیں شہر پشاور اور اس کا قصہ خوانی بازار خود ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے جو درۂ خیبر سے گزرنے والوں کے لئے تہذیب و ثقافت کا مرکز تھا ہے یہاں سے اسی کلو میٹر کے فاصلے پر تخت بائی کے آثار جو بدھ مت کے پیرو کاروں کی یاد گار کے طور پر موجود ہے بدھ کمپلیکس کے کھنڈرات ہیں یہ چار عمارات پر مشتمل ہےاس میں اسٹوپا ، راہبوں کی خانقاہ ،مندر اور تنتری راہبوں کی خانقاہ کے آثار اس کی ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہیں اس کے علاوہ لاہور بھی ڈیڑھ ہزار سال قدیم شہروں میں سے ایک ہے یہاں پر موجود مغل بادشاہوں کے تعمیر کردہ محلات اور باغات آج بھی دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتے ہیں اور یہاں کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں ، مزید برآں سندھ کے دوسرے شہر ٹھٹہ میں بھی مغل تہذیب کے آثار جا بجا بکھرے ہوئے ہیں یہی نہیں روہی کے صحرا کے قرب میں روہتاس کا قلعہ اور دوسری یاد گاریں یہاں کے زرخیز تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کی آمین ہیں ایک بات واضح کرتی چلوں سرحدوں کے اس پار یعنی موجودہ بھارت کی تہذیبی میراث پاکستان سے علیحدہ نہیں یہ ایک مشترکہ اثاثہ ہے جس پر موجودہ اور آنے والی نسلوں کا برابر کا حق ہے اس لئے اس مضمون میں تہذیب و ثقافت کے حوالے سے جو بھی ذکر ہوا ہے اس میں اردو زبان کے بولنے والوں کی ایک ہی بنیاد تصور کی گئی ہے چودہویں صدی عیسوی میں مشہور سیاح ابن بطوطہ جب ہندوستان آیا تو یہاں کے شہروں خاص کر دہلی اور مہارشٹر کی بود و باش سے بے حد متاثر ہوا اس نے اپنے سفر نامے میں یہاں کے پان اور ناریل کا ذکر خاص طور پر کیا ، وہ یہاں کے شہروں کے بارے میں لکھتا ہے میں نے برصغیر ہند کے شہروں کو ان لوگوں کے لئے پرجوش مواقع سے بھرپور پایا جو محنتی ہنر مند اور وسائل سے آراستہ تھے ۔ یہ شہر گنجان آبادی والے ، خوشحال اور بارونق ہیں ابن بطوطہ کے بیان سے ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے زیادہ تر شہروں میں بھیڑبھاڑوالی گلیاں اور منور و رنگین بازار تھے جو مختلف اقسام کی اشیاء سے بھرے پڑے رہتے ہوں گے ۔

ابن بطوطہ دہلی کو نہایت وسیع اور بڑی آبادی کے ساتھ ہندوستان کا سب سے بڑا شہر بتاتا ہے مزید برآں اس کے سفر نامے میں مہاراشٹر کی شان و شوکت کا بھی ذکر ہے جو کہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دہلی کے مدمقابل تھا۔

دلی کا تذکرہ ابن بطوطہ یوں کرتا ہے ۔ دلی ایک وسیع رقبے میں پھیلا گنجان آبادی والا شہر ہے جس کے چاروں طرف حصاریعنی شہر پناہ کی دیوارقائم ہے اس کی چوڑائی نیم گز ہے ۔ اس کے اندر رات کے پہرے دار اور دربانوں کے مکانات ہیں جہاں اشیائے خوردنی، سامان جنگ( میگزین، گولہ بارود، منحبتقیں اور محاصرہ میں کام آنے والی مشینوں کو رکھنے کیلئے گودام بنے ہوئے ہیں ، ان میں اناج طویل عرصہ تک بغیر خراب ہوئے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔۔۔۔ حصار کے اندرونی حصہ میں گھوڑا سوار اور پیادہ فوجی شہر کے ایک جانب سے دوسری جانب جایا کرتے ہیں ان کی کھڑکیاں شہر کے جانب کھلتی ہیں ۔ ان ہی کھڑکیوں کے ذریعہ روشنی اندر آتی ہے ۔ حصار کا نچلہ حصہ پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے جب کہ اوپری حصہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ اس میں ایک دوسرے کے قریب قریب کئی مینار بنی ہیں ۔ اس شہر کے اٹھائیس ابواب ہیں جن میں بدایوں دروازہ سب سے بڑا ہے ۔ مانڈوی، دروازے کے اندر ایک اناج منڈی ہے ۔ گل دروازے کی بغل میں پھولوں کا باغیچہ ہے ۔ اس شہر میں ایک بہترین قبرستان ہے جس میں موجود اکثر قبروں کے اوپر گنبد بنے ہیں اور جن قبروں کے اوپر گنبد نہیں ہے ان پر ایک محراب ہے ۔ قبرستان میں بصلہ دار پودا یاسمین اور جنگلی گلاب وغیرہ پھول اگائے جاتے ہیں اور یہاں پھول سبھی موسم میں کھلے رہتے ہیں ۔

اوپر دیئے گئے تذکرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں تہذیب و ثقافت کی موجودہ عمارت کتنی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوئی گویا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں یہ ہزاروں برس کا قصہ ہے کوئی پل دو پل کی بات نہیں برصغیر کا عظیم ثقافتی ورثہ نا صرف ایک تاریخی حقیقت ہے بلکہ عہد قدیم کی ایسی یادگاریں ہیں جس میں گئے زمانوں کے علم و فن کے حیرت انگیز نمونے آج کے ترقی یافتہ دور کے انسان کے لئے فکر انگیز مواد رکھتے ہیں۔ ان آثار کا مشاہدہ ایک جہان گم شدہ سے متعارف کراتا ہے اور انسانی عروج و زوال کی یہ نشانیاں یقینا اپنے اندر گہرائی اور سوچ کے لئے کثیر جہتی زاویے رکھتی ہیں۔ اورجب کسی بھی معاشرے کے لوگوں اور ان کی زبان کی جڑیں اپنی تہذیب و ثقافت میں گہرائی سے پیو ست ہوں تو پھر وقت اور حالات ساز گار نہ ہو نے کے باجود اس معاشرے اور اس کی زبانوں کی بقا اور ارتقاء کے سوتے خشک نہیں ہوتے- اسی ابدی سچائی کی تلاش جس کے ان گنت رنگ لاتعداد پہلو ہیں درحقیقت روز اول سے لے کر آج تک انسان کی زندگی کا حاصل قرار پائے ہیں اب آتے ہیں اردو ادب اور اس سے وابستہ موجودہ حالات کی طرف دور حاضر میں اردو زبان سے منسلک سماجی ، سیاسی اور ثقافتی صورت حال نے اُردومیں لکھنے والوں کو پس ما ندگی اور احساس ِ کم تری اور عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے ۔ سماجی اور ثقافتی ڈسکورس کے حوالے سے اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقا ء کے لئے یہ کام اُردو شاعروں اور فکشن نگاروں سے زیادہ کون کر سکتا ہے لیکن اسے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اس کے لئے اُردو زبان کے ماہرین ِ سماجیات و معاشیات ، صحافی، سیاست داں اور سائنس و ٹکنا لوجی سے وابستہ دانشور سب مل کر کام کریں گے تو ہی روشنی ہو گی لیکن شرط یہ ہے کہ اردو دوستی کے معیارکو عملی اور نتیجہ خیز بنانا ہوگا اور حکومت کی جانب سے بھی اردو ا داروں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی ہو ، کیونکہ حکومت کی سرپر ستی اور حوصلہ افزائی سے ہی اُردو کا سماجی اور ثقافتی فروغ ہو سکتا ہے اور اُردو ادب کے عالمی ادب کے دھارے میں شامل ہونے کے امکا نات روشن ہو سکتے ہیں- صرف اردو ہی نہیں بلکہ خطے کی دیگر زبانوں مثلا ً سندھی پنجابی سرائیکی پشتو بلوچی ہندی اور دوسری تمام زبانوں میں تخلیق ہونے والا ادب بھی اس ادبی کارواں کا حصہ اور اٹوٹ آہنگ ہے اس شمارے میں بھی دوسری زبانوں کے ادیب اور شعرا نے جس طرح اردو ادب کی پزیرائی کی اور اپنی تخلیقات اردو قارئین کے مطالعہ کے لئے پیش کیں اردو ادباء کا بھی فرض ہے کہ ان کو اپنے ساتھ لے کر چلیں اور اسی محبت اور یگانگت کو فروغ دیں جو اس تہذیب کا ہمیشہ سے خاصہ رہا ہے.

مزید برآں ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جو اردو سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ان کے لئےمیگ میں وقتا ً فوقتا ً انگریزی آرٹیکلز اور ٹرانسلیشن جو ہمارے اردو ادباء کی تخلیق کردہ ہیں بھی شامل کرتے رہیں گے جیسا کہ اس مرتبہ جناب ستیہ پال آنند صاحب کا انگریزی مضمون دیدبان کی زینت ہے ان مضامین کی اشاعت سے ہمارا مقصد انہیں اردو کی طرف لانا ہے

دعا ہے کہ ہم اپنے اس اون لائن جریدے کی وساطت سے اردو ادب کے اس تہذیبی اور ثقافتی سفر کو نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ چراغ سے چراغ جلاتے ہوئے ظلم و جہالت کے اندھیرے دور کرنے کا عزم کرتے ہیں خدائے بزرگ و برتر ہماری کاوشوں کو قبول فرمائے آمین --------------

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024