دنیا کیسی بانوری
دنیا کیسی بانوری
May 4, 2020
رشتے اور جدید عہد کے المیے بیان کرتی ایک کہانی
دنیا کیسی بانوری رے
شازیہ مفتی
بلڈ پریشر کی آخری گولی کل رات کھالی تھی خالی پتہ اور پیسے ہاتھ میں لیے دن بھر انتظار کرتی رہی ! اتوار تھا ملازمہ اور بچوں کا ٹیچر کوئی نہیں آیا ۔ دکانیں بہت دور تھیں تیز دھوپ میں جانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ اب خون رگوں میں سنسناتا اور کنپٹیوں میں ٹھوکریں مارتا پھر رہا تھا ۔ دل کی تیز دھڑکن کانوں میں دھم دھم ہتھوڑے سے مار رہی تھی ۔ فرحت گیلا دوپٹہ اوڑھے لیٹی کروٹ پہ کروٹ بدل رہی تھی اور سوچ رہی تھی کیا یہ وقت کی عادت ہے یا صرف اسی کے لیے بار بار یہی سب دہراتا ہے ۔ نیند کے کسی مہربان جھونکے نے چند گھڑیوں کے لیے سلادیا خواب میں بیتی زندگی کی فلم سی چل پڑی ۔
. . . . . . . . . . . . . اس جھلستی دوپہر میں ملتان سے لاہور تک بس کا سفر یوں جیسے بھٹیارن بھٹی دہکائے دانے بھون رہی ہواور وہ بے بساط مکئ کا دانہ ہو ۔ بس کے شیشے کھلے تھے ۔ گرم ہوا کے تھپیڑے جھلسائے دے رہے تھے ۔ پانی کا تھرماس کب کا خالی ہوچکا تھا ۔ ورنہ اب تک ایک گھونٹ سے حلق تر کرنے کے بعد ایک چلو پانی ململ کی چادر پر انڈیل کر اس گیلے کونے سے منہ سر ہاتھ پونچھتے وقت گزررہا تھا ۔ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئ سڑک پر روڑی اور بجری بکھری تھی ۔چھ گھنٹے کا کمر توڑ سفر کہیں دوپہر کو جاکر تمام ہوا ۔ دل میں سکون تھا لاہور تبادلہ ہونے سے اب ملتان کے سفروں سے جان چھوٹ جائے گی ۔ فرحت باپ کی اچانک موت کے بعد چار سال میں ہر رشتہ کی اصلیت جان گئی تھی ۔ بھائ دوبئی نوکری کے لیے گئے اور آخر تینوں وہیں کے ہورہے ۔ کچھ دن پہلے ماں کو ماموں لاہور آبائی گھر لے گئے تھے ۔ ایک کمرے میں گم صم بیٹھی تسبیح کرتی عورت سے کسی کو کیا ضرر تھا ۔ چپکی سی باورچی خانے میں جاکر سارے برتن دھو مانجھ آتیں ۔ کسی ستون سے ٹیک لگا کر ڈھیروں لہسن چھیل ڈالتیں ۔ کپڑے دھونے والی ماسی کمر سیدھی کرتی رہتی اور وہ ساری دھلائ دھو نچوڑ الگنی پر پھیلا کر اسی خاموشی سے کمرے میں سرک جاتیں ۔دوپہر کی روٹیاں اور رات کے چاول بھی انہوں نے خاموشی سے اپنے ذمہ لگالیے تھے اور اب تو بیٹوں کے بھیجے ہوئے پیسوں میں سے کبھی گھر کا بجلی کا بل بھر آتیں کبھی بھاوج کو مہینے کا راشن لینے جاتا دیکھ کر چپکی چپکی ساتھ ہولیتیں اور پیسے چکا دیتیں ۔ صحت ٹھیک تھی دوا علاج کا کوئ خرچہ نہ تھا ۔اب تک فرحت کی تنخواہ اور مرحوم شوہر کی پنشن نے مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچائے رکھا ۔
ویگن سے اتر کر اٹیچی بیگ گھسیٹتی گھر والی گلی تک پہنچتی فرحت کل ہی سے دفتر کے معمولات شروع کرنے کا سوچتی جارہی تھی ۔ کھلے پھاٹک سے اندر کچے صحن میں برآمد ہ کسی ذی روح سے خالی تھا ۔ گیلری کے دائیں بائیں بنے کمروں کے دروازے بند تھے۔مرحوم نانا نانی کا کمرہ اب اس کی اماں کو الاٹ ہوچکا تھا جو گیلری کے آخری سرے پر تھا ایک دروازہ پچھلے برآ مدے میں کھلتا اور وہاں نانی کے ہاتھ کے لگے موتیے چنبیلی گلاب رات کی رانی کے پودے مہکتے رہتے ۔ اماں کمرے میں چوکی پر اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں ۔ تپائ پر خوان پوش سے ڈھکا بینگن کا بھرتہ ، سرکے والی پیاز اور کوفتے رکھے تھے ۔ کھانا کھاتے سفر کا حال سناتے اور سب کا حال پوچھتے شام ہوگئی ۔ لیکن گھر پر طاری سکوت نہ ٹوٹا تھا ۔ رات کہیں نو بجے کھانا لگنے کی خبر ملی اور بڑے کمرے میں سب سے ملاقات ہوئی ۔ فرحت ہر لقمے کے ساتھ سوچتی رہی یہ لوگ اتنی سرد مہری آج خاص طور پر دکھا رہے ہیں یا عادت ہے ۔
سال کی گرم ترین رات تھی ۔ گھوں گھوں چلتے پنکھے کے نیچے تنور کی لپٹیں لپکتی محسوس ہورہی تھیں ۔ سارے کمروں میں جنرل کے اے سی لگے تھے جن کی آواز کھلی کھڑکیوں سے یوں آرہی تھی جیسے کارخانے میں درجنوں مشینیں کام کررہی ہوں ۔
اماں اپنے کپڑوں سمیت نہاکر نماز کی چوکی پر کب کی سوچکی تھیں ۔وہ کپڑے گیلے کرنے کے بعد گیلا دوپٹہ اوڑھ کر لیٹی کروٹ پر کروٹ بدلتی فرحت نجانے کب نیند کی وادیوں میں کھوگئی تھی ۔
بہت نیچی پرواز کرتا ہوائی جہاز گزراجس کی گونج دار آواز نے نیند اور خواب کا سلسلہ توڑ ڈالا ۔
. . . . . . . . . . . . .اب تو سر میں دھمک بڑھتی جارہی تھی بار بار ٹھنڈا پانی پیتی دوپٹہ بھگوتی سیڑھیوں تک جاتی مگر اوپر جانے کی ہمت نہ پڑتی ۔
. . . . . . . . . . " سڑک پر جاکر دیکھوں شاید کوئی نظر آجائے دوا تو منگواوں " دھندلی ہوتی آنکھوں اور چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامے اس نے باہر نکل کر دیکھا ۔ نئی اور جدید آبادی میں کہیں دور دور کوئ گھر تھا باقی زیر تعمیر مکان تھے ۔ قریب ترین گھر بھی شاید آدھ کلومیٹر دور ہو ۔ رشتہ داروں کی وقت بے وقت آمد سے تنگ بہو بیٹے نے جہاں اس کالونی میں آکر سکھ کا سانس لیا تھا وہیں فرحت کو قید تنہائی کی سزا مل گئ ہو جیسے ۔
. . . . . . . . .
چند منٹ چل کرجانے اور واپس کمرے تک آنے میں دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے والا ہوگیا پھولے سانس کو سنبھالتی بمشکل بستر تک پہنچی ۔ پانی کے چند گھو نٹ پی کر پھربیہوشی نما غنودگی طاری ہوگئی ۔ہاتھ میں پکڑا گلاس چھوٹ کر اوپر ہی گر گیا اور کپڑے دوپٹہ سب بھگوگیا ۔ . . . . . . . . . . . . . . .
اب کے خواب ماضی کے کسی اور دھندلکے میں لے گیا ۔ تنگ گلی کی تیسری منزل پر بنے دو کمرے اور غسلخانہ ۔ سیڑھیوں کے نیچے لکڑی کی بغیر پٹ کی الماری جس میں نمک مرچ آٹا دال برتن سب رکھا ہے اور اس کے ساتھ گیس سلنڈر اور چولہا ۔ فرحت پلا سٹک کی چوکی پر بیٹھی تینوں بچوں کے بستوں میں ٹفن رکھ رہی ہے اور کھچڑی بالوں سرد مہر آنکھوں والے شوہر کی مسلسل ڈانٹ پھٹکار سن کر ان سنی کرتی جارہی ہے ۔ کھلی کھڑکی سے آتے لو کے تھپیڑوں اور سینے میں بھڑکتی بے بسی بھری آگ سے بچنے کے لیے بار بار پانی سر اور کندھوں پر انڈیل رہی ہے ۔
. . . . . . . . . . . . . . پھر وہی ہوائی جہاز کی گونج جس نے خواب سے جگا دیا ۔ چاروں طرف سرخ غبار سا تھا اور گھٹن اور شدید گرمی ۔ بچی کھچی ہمت جمع کرکے اٹھی اور دیوار کا سہارا لیتی فریج تک پہنچی ٹھنڈے پانی سے یحلق تر کرتی پھر بستر پر ڈھیر ہوگئ
. . . . . . . . . . . .
انگلیوں کی پوروں پر گنتے گنتے یاد آیا تیس سال گزر گئے تھے ۔ اماں کا آخری وقت میں دور کے رشتہ دار رنڈوے حامد سے اس کا نکاح کروانا ۔ اماں کے سوئم کے بعد اس کی رخصتی اور پھر کوہلو کے بیل والی زندگی ۔ کتنی ہی گرم ترین راتیں گیلے دوپٹے اوڑھ کر سوتے جاگتے گزار دیں ۔ نوکری ، سسرال شوہر بچے ان کی شادیاں ، پوتے پوتیاں اور شوہر کی جدائی دو بیٹوں کی دوبئ ہجرت! جیسے زندگی کی فلم تیز کرکے چلادی ہو
. . . . . . . . آج پھرجون کا گرم ترین دن اور اتفاقا" دوپہر کے کھانے میں بینگن کا بھرتہ ،کوفتے اور سرکے والی پیاز تھی ۔ بہو بچوں کے لیے کھانا اوپر لے جاچکی تھی۔ اور بیٹا کئی دن شہر کے باہر دورے پر گزار کر دیر سے آنے والا تھا ۔ وہی دہکتے تنور کی سی گرم لپٹیں ۔ وہی بند دروازوں سے اجنبیت کا شدید احساس ۔ اور اسی طرح کی سرد مہری لیکن وہاں اماں کی دوسراہٹ تھی ۔ یہاں تنہائی مارے ڈال رہی تھی ۔
دو سپلٹ اوپر کے کمروں میں لگے تھے۔ نیچے کے گھر میں خس کی ٹٹیوں والا کولر لگایا گیا تھا جس سے بقول بہو پورا گھر ٹھنڈا رہتا ہے ۔ اس سال بیٹے کو دوسرے شہروں کے دوروں سے فرصت ہی نہ مل سکی جو کولر کی چقیں مرمت ہوتیں دن گرم اور راتیں گرم ترین ہوتی جارہی تھیں ۔ . . . . . .
گیلے دوپٹے کی ٹھنڈک کب کی ختم ہوچکی تھی نجانے کب گرم ہوا کی لپٹیں خواب دیکھتی روح کو ساتھ لے اڑی تھیں ۔. . . . . . . .
اب سرد ہوئ فرحت کے کمرے کو برف کی سلوں سے سرد ترین کیے آنسو بہاتا بیٹا پردیس سے آنے والے ماں جائیوں کا منتظر تھا تاکہ مل کر ماں کو مٹی دیں ۔
دنیا کیسی بانوری رے ۔
شاذیہ مفتی
دنیا کیسی بانوری رے
شازیہ مفتی
بلڈ پریشر کی آخری گولی کل رات کھالی تھی خالی پتہ اور پیسے ہاتھ میں لیے دن بھر انتظار کرتی رہی ! اتوار تھا ملازمہ اور بچوں کا ٹیچر کوئی نہیں آیا ۔ دکانیں بہت دور تھیں تیز دھوپ میں جانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ اب خون رگوں میں سنسناتا اور کنپٹیوں میں ٹھوکریں مارتا پھر رہا تھا ۔ دل کی تیز دھڑکن کانوں میں دھم دھم ہتھوڑے سے مار رہی تھی ۔ فرحت گیلا دوپٹہ اوڑھے لیٹی کروٹ پہ کروٹ بدل رہی تھی اور سوچ رہی تھی کیا یہ وقت کی عادت ہے یا صرف اسی کے لیے بار بار یہی سب دہراتا ہے ۔ نیند کے کسی مہربان جھونکے نے چند گھڑیوں کے لیے سلادیا خواب میں بیتی زندگی کی فلم سی چل پڑی ۔
. . . . . . . . . . . . . اس جھلستی دوپہر میں ملتان سے لاہور تک بس کا سفر یوں جیسے بھٹیارن بھٹی دہکائے دانے بھون رہی ہواور وہ بے بساط مکئ کا دانہ ہو ۔ بس کے شیشے کھلے تھے ۔ گرم ہوا کے تھپیڑے جھلسائے دے رہے تھے ۔ پانی کا تھرماس کب کا خالی ہوچکا تھا ۔ ورنہ اب تک ایک گھونٹ سے حلق تر کرنے کے بعد ایک چلو پانی ململ کی چادر پر انڈیل کر اس گیلے کونے سے منہ سر ہاتھ پونچھتے وقت گزررہا تھا ۔ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئ سڑک پر روڑی اور بجری بکھری تھی ۔چھ گھنٹے کا کمر توڑ سفر کہیں دوپہر کو جاکر تمام ہوا ۔ دل میں سکون تھا لاہور تبادلہ ہونے سے اب ملتان کے سفروں سے جان چھوٹ جائے گی ۔ فرحت باپ کی اچانک موت کے بعد چار سال میں ہر رشتہ کی اصلیت جان گئی تھی ۔ بھائ دوبئی نوکری کے لیے گئے اور آخر تینوں وہیں کے ہورہے ۔ کچھ دن پہلے ماں کو ماموں لاہور آبائی گھر لے گئے تھے ۔ ایک کمرے میں گم صم بیٹھی تسبیح کرتی عورت سے کسی کو کیا ضرر تھا ۔ چپکی سی باورچی خانے میں جاکر سارے برتن دھو مانجھ آتیں ۔ کسی ستون سے ٹیک لگا کر ڈھیروں لہسن چھیل ڈالتیں ۔ کپڑے دھونے والی ماسی کمر سیدھی کرتی رہتی اور وہ ساری دھلائ دھو نچوڑ الگنی پر پھیلا کر اسی خاموشی سے کمرے میں سرک جاتیں ۔دوپہر کی روٹیاں اور رات کے چاول بھی انہوں نے خاموشی سے اپنے ذمہ لگالیے تھے اور اب تو بیٹوں کے بھیجے ہوئے پیسوں میں سے کبھی گھر کا بجلی کا بل بھر آتیں کبھی بھاوج کو مہینے کا راشن لینے جاتا دیکھ کر چپکی چپکی ساتھ ہولیتیں اور پیسے چکا دیتیں ۔ صحت ٹھیک تھی دوا علاج کا کوئ خرچہ نہ تھا ۔اب تک فرحت کی تنخواہ اور مرحوم شوہر کی پنشن نے مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچائے رکھا ۔
ویگن سے اتر کر اٹیچی بیگ گھسیٹتی گھر والی گلی تک پہنچتی فرحت کل ہی سے دفتر کے معمولات شروع کرنے کا سوچتی جارہی تھی ۔ کھلے پھاٹک سے اندر کچے صحن میں برآمد ہ کسی ذی روح سے خالی تھا ۔ گیلری کے دائیں بائیں بنے کمروں کے دروازے بند تھے۔مرحوم نانا نانی کا کمرہ اب اس کی اماں کو الاٹ ہوچکا تھا جو گیلری کے آخری سرے پر تھا ایک دروازہ پچھلے برآ مدے میں کھلتا اور وہاں نانی کے ہاتھ کے لگے موتیے چنبیلی گلاب رات کی رانی کے پودے مہکتے رہتے ۔ اماں کمرے میں چوکی پر اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں ۔ تپائ پر خوان پوش سے ڈھکا بینگن کا بھرتہ ، سرکے والی پیاز اور کوفتے رکھے تھے ۔ کھانا کھاتے سفر کا حال سناتے اور سب کا حال پوچھتے شام ہوگئی ۔ لیکن گھر پر طاری سکوت نہ ٹوٹا تھا ۔ رات کہیں نو بجے کھانا لگنے کی خبر ملی اور بڑے کمرے میں سب سے ملاقات ہوئی ۔ فرحت ہر لقمے کے ساتھ سوچتی رہی یہ لوگ اتنی سرد مہری آج خاص طور پر دکھا رہے ہیں یا عادت ہے ۔
سال کی گرم ترین رات تھی ۔ گھوں گھوں چلتے پنکھے کے نیچے تنور کی لپٹیں لپکتی محسوس ہورہی تھیں ۔ سارے کمروں میں جنرل کے اے سی لگے تھے جن کی آواز کھلی کھڑکیوں سے یوں آرہی تھی جیسے کارخانے میں درجنوں مشینیں کام کررہی ہوں ۔
اماں اپنے کپڑوں سمیت نہاکر نماز کی چوکی پر کب کی سوچکی تھیں ۔وہ کپڑے گیلے کرنے کے بعد گیلا دوپٹہ اوڑھ کر لیٹی کروٹ پر کروٹ بدلتی فرحت نجانے کب نیند کی وادیوں میں کھوگئی تھی ۔
بہت نیچی پرواز کرتا ہوائی جہاز گزراجس کی گونج دار آواز نے نیند اور خواب کا سلسلہ توڑ ڈالا ۔
. . . . . . . . . . . . .اب تو سر میں دھمک بڑھتی جارہی تھی بار بار ٹھنڈا پانی پیتی دوپٹہ بھگوتی سیڑھیوں تک جاتی مگر اوپر جانے کی ہمت نہ پڑتی ۔
. . . . . . . . . . " سڑک پر جاکر دیکھوں شاید کوئی نظر آجائے دوا تو منگواوں " دھندلی ہوتی آنکھوں اور چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامے اس نے باہر نکل کر دیکھا ۔ نئی اور جدید آبادی میں کہیں دور دور کوئ گھر تھا باقی زیر تعمیر مکان تھے ۔ قریب ترین گھر بھی شاید آدھ کلومیٹر دور ہو ۔ رشتہ داروں کی وقت بے وقت آمد سے تنگ بہو بیٹے نے جہاں اس کالونی میں آکر سکھ کا سانس لیا تھا وہیں فرحت کو قید تنہائی کی سزا مل گئ ہو جیسے ۔
. . . . . . . . .
چند منٹ چل کرجانے اور واپس کمرے تک آنے میں دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے والا ہوگیا پھولے سانس کو سنبھالتی بمشکل بستر تک پہنچی ۔ پانی کے چند گھو نٹ پی کر پھربیہوشی نما غنودگی طاری ہوگئی ۔ہاتھ میں پکڑا گلاس چھوٹ کر اوپر ہی گر گیا اور کپڑے دوپٹہ سب بھگوگیا ۔ . . . . . . . . . . . . . . .
اب کے خواب ماضی کے کسی اور دھندلکے میں لے گیا ۔ تنگ گلی کی تیسری منزل پر بنے دو کمرے اور غسلخانہ ۔ سیڑھیوں کے نیچے لکڑی کی بغیر پٹ کی الماری جس میں نمک مرچ آٹا دال برتن سب رکھا ہے اور اس کے ساتھ گیس سلنڈر اور چولہا ۔ فرحت پلا سٹک کی چوکی پر بیٹھی تینوں بچوں کے بستوں میں ٹفن رکھ رہی ہے اور کھچڑی بالوں سرد مہر آنکھوں والے شوہر کی مسلسل ڈانٹ پھٹکار سن کر ان سنی کرتی جارہی ہے ۔ کھلی کھڑکی سے آتے لو کے تھپیڑوں اور سینے میں بھڑکتی بے بسی بھری آگ سے بچنے کے لیے بار بار پانی سر اور کندھوں پر انڈیل رہی ہے ۔
. . . . . . . . . . . . . . پھر وہی ہوائی جہاز کی گونج جس نے خواب سے جگا دیا ۔ چاروں طرف سرخ غبار سا تھا اور گھٹن اور شدید گرمی ۔ بچی کھچی ہمت جمع کرکے اٹھی اور دیوار کا سہارا لیتی فریج تک پہنچی ٹھنڈے پانی سے یحلق تر کرتی پھر بستر پر ڈھیر ہوگئ
. . . . . . . . . . . .
انگلیوں کی پوروں پر گنتے گنتے یاد آیا تیس سال گزر گئے تھے ۔ اماں کا آخری وقت میں دور کے رشتہ دار رنڈوے حامد سے اس کا نکاح کروانا ۔ اماں کے سوئم کے بعد اس کی رخصتی اور پھر کوہلو کے بیل والی زندگی ۔ کتنی ہی گرم ترین راتیں گیلے دوپٹے اوڑھ کر سوتے جاگتے گزار دیں ۔ نوکری ، سسرال شوہر بچے ان کی شادیاں ، پوتے پوتیاں اور شوہر کی جدائی دو بیٹوں کی دوبئ ہجرت! جیسے زندگی کی فلم تیز کرکے چلادی ہو
. . . . . . . . آج پھرجون کا گرم ترین دن اور اتفاقا" دوپہر کے کھانے میں بینگن کا بھرتہ ،کوفتے اور سرکے والی پیاز تھی ۔ بہو بچوں کے لیے کھانا اوپر لے جاچکی تھی۔ اور بیٹا کئی دن شہر کے باہر دورے پر گزار کر دیر سے آنے والا تھا ۔ وہی دہکتے تنور کی سی گرم لپٹیں ۔ وہی بند دروازوں سے اجنبیت کا شدید احساس ۔ اور اسی طرح کی سرد مہری لیکن وہاں اماں کی دوسراہٹ تھی ۔ یہاں تنہائی مارے ڈال رہی تھی ۔
دو سپلٹ اوپر کے کمروں میں لگے تھے۔ نیچے کے گھر میں خس کی ٹٹیوں والا کولر لگایا گیا تھا جس سے بقول بہو پورا گھر ٹھنڈا رہتا ہے ۔ اس سال بیٹے کو دوسرے شہروں کے دوروں سے فرصت ہی نہ مل سکی جو کولر کی چقیں مرمت ہوتیں دن گرم اور راتیں گرم ترین ہوتی جارہی تھیں ۔ . . . . . .
گیلے دوپٹے کی ٹھنڈک کب کی ختم ہوچکی تھی نجانے کب گرم ہوا کی لپٹیں خواب دیکھتی روح کو ساتھ لے اڑی تھیں ۔. . . . . . . .
اب سرد ہوئ فرحت کے کمرے کو برف کی سلوں سے سرد ترین کیے آنسو بہاتا بیٹا پردیس سے آنے والے ماں جائیوں کا منتظر تھا تاکہ مل کر ماں کو مٹی دیں ۔
دنیا کیسی بانوری رے ۔
شاذیہ مفتی