آدم شیر کے افسانوں پر ارشد علی کا تبصرہ
آدم شیر کے افسانوں پر ارشد علی کا تبصرہ
Jun 12, 2019
یہ کہانیاں سماجی زندگی کا عکس
آدم شیر کی کہانیوں پر ارشد علی کا تبصرہ
آدم شیر اپنی کہانیوں میں زندگی کو اس کے حقیقی خدوخال کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور یوں یہ کہانیاں سماجی زندگی کا عکس معلوم ہونے لگتی ہیں۔ آدم شیر نے اپنی کہانیوں میں غریبوں، محتاجوں، لاچاروں اور بچوں کے استحصال کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہانیاں جدید معاشرتی نظام سے ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ پر بھی تنقید کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ آدم شیر اپنے افسانوں میں مرتی ہوئی اقدار کا نوحہ دلدوز انداز میں پیش کرتا ہے اور ان ٹوٹتی ہوئی اقدار کو بھی وہ لاہور شہر کی رہتیل میں آنے والی تبدیلیوں کی صورت بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
”اس شہر کی ٹیڑھی میڑھی گلیاں اندر سے بڑی کھلی ہوتی تھیں اور دل بھی کشادہ ہوتے تھے۔ پھر کھلی گلیوں اور تنگ دلوں کا زمانہ آگیا لیکن چھوٹی گلیاں اور بڑے دل اب بھی مل جاتے ہیں۔ اکثریت کو یہ تنگ گلیاں بھیڑ بکریوں کا باڑہ نظر آتی ہیں اور چند ان میں زندگی کا سمندر موج در موج اچھلتا کودتا دیکھتے ہیں جو ساحل کو ڈبوتا آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ شہر اب شہر نہیں رہا، انسانوں کا جنگل بن چکا ہے جہاں بچے زیادہ دیر بچے نہیں رہتے۔“
(افسانہ: دس ضرب دو برابر صفر)
مذکورہ افسانے میں آدم شیر نے بے زار اور بے جان زندگی کی چکی میں پستی نچلے طبقے کی عورت کے مصائب کو بیان کیا ہے اور اس کے دکھ درد اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے استحصال کو پیش کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ کہانی ہمارے سماج میں موجود منافقت پر بھی تازیانہ ہے جہاں کمزور ہونے کا مطلب ہی غلط ہونا طے کر لیا گیا ہے۔ حتی کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے اہلکار بھی اس عینک کے تحت کسی کے بھی گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا تعین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
افسانہ ”غیر دلچسپ کہانی“ سے اقتباس دیکھیں
”یہیں ایک لوہار تھا جو ہفتے کی رات گلی میں بیٹھ کر بونگ پکاتا تھا اور سویرے سویرے گلی کے بچے پیالے بھر بھر لے جاتے تھے، اس نے کبھی کسی سے نہیں پوچھا تھا کہ وہ کون ہے؟ البتہ جو پیالہ ختم نہیں کر پاتا تھا وہ لوہار سے جگتیں ضرور سنتا تھا۔ وہ پیالے نہیں رہے، کٹوریاں ہیں اب چھوٹی چھوٹی، ٹھوٹھیوں جیسی نظر آتی ہیں۔ ان دنوں کونڈے ہوتے تھے تو وہابیوں کے لڑکے بھی پڑھتے، کھاتے تھے، ختم پڑھے جاتے تھے تو ختم نہ کھانے والوں کا حصہ پڑھائی سے پہلے نکال لیا جاتا تھا، نفرتیں کم تھیں، پیار زیادہ تھا، بس جی وہ لاہوریے نہیں رہے، وہ لوہار نہیں رہا اور وہ موچی بھی نہیں رہا جو تہواروں پر مفت جوتے مرمت کرتا تھا، گاما بھی نہیں رہا جو محلے کے بچوں کو آوارہ گردی سے بچانے کے لیے پہلوانی سکھاتا تھا، لوک دانش بھری بیٹھکیں نہیں رہیں اور وہ تھڑے بھی نہیں رہے جو لوگوں کو جوڑتے تھے، اب چلتے پھرتے گوشت پوست کے روبوٹ ہیں اور روبوٹ کیا خاک دلچسپ ہوتے ہیں۔“
(افسانہ:غیر دلچسپ کہانی)
یہ افسانہ ایک ڈاکیے وحید کی داستان بیان کرتا ہے۔ جس سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ تو کی جاتی ہے کہ وہ پیسوں کے حوالے سے قابل اعتبار نہیں جہاں جاتا ہے قرض خواہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ مٹھائی کے پیسے طلب کرتا ہے۔ لیکن کسی نے بھی اس عمل کا باعث بننے والے دکھوں اور مصائب کی ٹوہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ ایک ڈاک بابو جس کے دو بچے ناقابل علاج ہیں اور اس پر کوئی ادارہ ایسا نہ دکھے جس سے وہ اپنے درد کا درماں طلب کر سکے تو وہ بچارا جبر کی اس بھٹی میں زندگی کو کیسے قائم رکھے؟ یہ افسانہ اس کے ساتھ مرکزی کردار جو ایک لکھاری اور صحافی بھی ہے کی لاچارگی کو بھی عمدگی سے بیان کرتا ہے کہ جب آپ جانتے ہوں کہ آپ کے الفاظ کس قدر بے وقعت ہیں لیکن ان الفاظ سے امید کشید کرنے کے خواہش مند کو بھی مایوس نہیں کرنا چاہتے تو کس درجہ بے بسی اور درد کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
آدم شیر نے اس کہانی کا عنوان بجا طور پر ”غیر دلچسپ کہانی“ رکھا کہ آج ہمارے سماج میں کسی کے دم توڑتے، بھوک سے بلکتے اور وینٹی لیٹر نہ ہونے کے باعث مرتے بچوں سے کسے دلچسپی ہے۔ اب وہ بچے کسی وحید کے ہوں یا کسی خرادئیے کے یا کسی سکول کے سامنے ہوئے قتل سے بننے والے خون میں کھیلتے بچے ہوں یہ کسی کے لیے بھی نہ دلچسپی کا سامان مہیا کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ان مناظر سے عبرت پکڑتا ہے۔ کیونکہ ہم یہ سب کچھ دہائیوں سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ”اک چپ، سو دکھ“ کے مصنف کے بقول
”جہاں میں رہتا ہوں وہاں بڑے بڑے عادی ہو جاتے ہیں۔ یوں بھی جب غیر معمولی بات معمول بن جائے تو غیر معمولی کہاں رہتی ہے۔“
(افسانہ: دبدھا)
پچھلے پیرا گراف میں جس خرادئیے کا زکر آیا تو لگے ہاتھوں اس کی کہانی بھی بیان کرتا جاؤں جو اپنے بیمار بچے کی سانسوں کو جاری رکھنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے لیکن ہمارے سماج میں ٹھوکروں سے نہ زندگی بنتی ہے اور نہ ہی سانسیں ملتی ہیں اور انجام قطعی اس سے مختلف نہیں نکلتا۔
”لیڈی ڈاکٹر نے اسے ڈیٹھ سرٹی فکیٹ پکڑایا تو خرادئیے کے منہ سے بلا سوچے سمجھے نکل گیا کہ وینٹی لیٹر نہ ہونے سے میرا بچہ مر گیا۔ ڈاکٹر کبھی خرادئیے اور کبھی اس کی بیوی کو دیکھتی اور بالآخر اس نے بتایا کہ بچے کا دم نہیں گھٹا، دل ڈوب گیا تھالیکن خرادئیے اور اس کی بیوی کو کچھ سمجھ نہ آیا اور انھوں نے وینٹی لیٹر کو عجیب نظروں سے دیکھا جیسے اس نے ایک باپ اور ایک ماں کو شکست دی ہو۔“
(افسانہ: ہیولا)
کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر کوئی بھی قاری اپنی آنکھوں کی نمی پر قابو نہیں رکھ سکتا جس طور آدم شیر نے اس افسانے کو بنا ہے اور اس میں جزئیات اور جذبات سے جو کاٹ پیدا کی ہے اس کے باعث یہ افسانہ تادیر یاد رکھے جانے والے افسانوں کی فہرست میں شامل رہے گا۔
آدم شیر کے اکثر افسانے کو مختلف صورتوں میں ہمارے سماج میں بچوں کی زندگی کس طور متاثر ہو رہی ہے اس کو زبان فراہم کرنے کی کوشش قرار دی جا سکتی ہے اور وہ تقریبا یہ نتیجہ اور درست نتیجہ نکالتا ہے کہ یہ سماج اب اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ بچوں تو کیا انسانوں کے ہی رہنے کے قابل نہیں رہا۔جس معاشرے میں مرد و عورت اور بچے تمام ہی بنیادی حقوق سے محروم ہیں وہاں آدم شیر ان سے سب سے الگ اور سب سے زیادہ استحصال کا شکار کمیونٹی سے بھی غافل نہیں یہی وجہ ہے کہ افسانہ ”انسان نما“ میں اس کی فنکاری مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔
”غرقاب“ ایسے شخص کی کہانی ہے جو سمندرکی الفت میں مبتلا ہے اور اپنی زندگی پانیوں کے بیچوں بیچ گزارنے کا خواہش مند ہے لیکن معروضی حالات اس کی اس خواہش کی تکمیل تو درکنار اتنی بھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ سمندر کی لہروں کے حقیقی مناظر سے ہی لطف اندوز ہو سکے۔
”میں خیالی پلاؤ ہی نہیں پکاتا بلکہ عملی طور پر بھی جانا چاہتا ہوں اور ایک بار گوادر جانے کی پوری تیاری کر لی لیکن۔۔۔ ایل سی ڈی پر سمندری دنیا کے مناظر ہی نہیں نظر آتے بلکہ ہر وقت ٹی وی پر گلا پھاڑ پھاڑ کر خبریں بھی سنائی جاتی ہیں۔ سوچا کہ وہ شہر پھر کبھی دیکھ لوں گا جو خواب دکھانے لگا ہے۔ اب کراچی جا کر دیرینہ خواہش پوری کر لیتاہوں، اس سے پہلے کہ حسرت بن جائے لیکن ٹی وی پر صرف گوادر کے متعلق خبریں نہیں آتیں، کراچی کا ذکر بھی صبح شام ہوتا ہے۔“
آدم شیر اپنے افسانوں میں زندگی کے بنیادی مسائل کو موضوع بناتا ہے اور موجودہ عہد کی سماجی زندگی کے آشوب کو حقیقت پسندانہ ڈھنگ سے پیش کرتا ہے۔ اس کی کہانیوں کی یہی خوبی جہاں اسے دیگر افسانہ نگاروں سے جدا کرتی ہے وہیں اس بات کی ضامن بھی ٹھہرتی ہے کہ اس ڈگر پر وہ نہ صرف خاص و عام قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرے گا بلکہ اس انداز کے باعث اس کے افسانے تادیر یاد بھی رکھے جائیں گے۔
ارشد علی
(25 مارچ 2019ء کو اکادمی ادبیات لاہور میں منعقدہ کتاب کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)
آدم شیر کی کہانیوں پر ارشد علی کا تبصرہ
آدم شیر اپنی کہانیوں میں زندگی کو اس کے حقیقی خدوخال کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور یوں یہ کہانیاں سماجی زندگی کا عکس معلوم ہونے لگتی ہیں۔ آدم شیر نے اپنی کہانیوں میں غریبوں، محتاجوں، لاچاروں اور بچوں کے استحصال کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہانیاں جدید معاشرتی نظام سے ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ پر بھی تنقید کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ آدم شیر اپنے افسانوں میں مرتی ہوئی اقدار کا نوحہ دلدوز انداز میں پیش کرتا ہے اور ان ٹوٹتی ہوئی اقدار کو بھی وہ لاہور شہر کی رہتیل میں آنے والی تبدیلیوں کی صورت بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
”اس شہر کی ٹیڑھی میڑھی گلیاں اندر سے بڑی کھلی ہوتی تھیں اور دل بھی کشادہ ہوتے تھے۔ پھر کھلی گلیوں اور تنگ دلوں کا زمانہ آگیا لیکن چھوٹی گلیاں اور بڑے دل اب بھی مل جاتے ہیں۔ اکثریت کو یہ تنگ گلیاں بھیڑ بکریوں کا باڑہ نظر آتی ہیں اور چند ان میں زندگی کا سمندر موج در موج اچھلتا کودتا دیکھتے ہیں جو ساحل کو ڈبوتا آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ شہر اب شہر نہیں رہا، انسانوں کا جنگل بن چکا ہے جہاں بچے زیادہ دیر بچے نہیں رہتے۔“
(افسانہ: دس ضرب دو برابر صفر)
مذکورہ افسانے میں آدم شیر نے بے زار اور بے جان زندگی کی چکی میں پستی نچلے طبقے کی عورت کے مصائب کو بیان کیا ہے اور اس کے دکھ درد اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے استحصال کو پیش کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ کہانی ہمارے سماج میں موجود منافقت پر بھی تازیانہ ہے جہاں کمزور ہونے کا مطلب ہی غلط ہونا طے کر لیا گیا ہے۔ حتی کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے اہلکار بھی اس عینک کے تحت کسی کے بھی گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا تعین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
افسانہ ”غیر دلچسپ کہانی“ سے اقتباس دیکھیں
”یہیں ایک لوہار تھا جو ہفتے کی رات گلی میں بیٹھ کر بونگ پکاتا تھا اور سویرے سویرے گلی کے بچے پیالے بھر بھر لے جاتے تھے، اس نے کبھی کسی سے نہیں پوچھا تھا کہ وہ کون ہے؟ البتہ جو پیالہ ختم نہیں کر پاتا تھا وہ لوہار سے جگتیں ضرور سنتا تھا۔ وہ پیالے نہیں رہے، کٹوریاں ہیں اب چھوٹی چھوٹی، ٹھوٹھیوں جیسی نظر آتی ہیں۔ ان دنوں کونڈے ہوتے تھے تو وہابیوں کے لڑکے بھی پڑھتے، کھاتے تھے، ختم پڑھے جاتے تھے تو ختم نہ کھانے والوں کا حصہ پڑھائی سے پہلے نکال لیا جاتا تھا، نفرتیں کم تھیں، پیار زیادہ تھا، بس جی وہ لاہوریے نہیں رہے، وہ لوہار نہیں رہا اور وہ موچی بھی نہیں رہا جو تہواروں پر مفت جوتے مرمت کرتا تھا، گاما بھی نہیں رہا جو محلے کے بچوں کو آوارہ گردی سے بچانے کے لیے پہلوانی سکھاتا تھا، لوک دانش بھری بیٹھکیں نہیں رہیں اور وہ تھڑے بھی نہیں رہے جو لوگوں کو جوڑتے تھے، اب چلتے پھرتے گوشت پوست کے روبوٹ ہیں اور روبوٹ کیا خاک دلچسپ ہوتے ہیں۔“
(افسانہ:غیر دلچسپ کہانی)
یہ افسانہ ایک ڈاکیے وحید کی داستان بیان کرتا ہے۔ جس سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ تو کی جاتی ہے کہ وہ پیسوں کے حوالے سے قابل اعتبار نہیں جہاں جاتا ہے قرض خواہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ مٹھائی کے پیسے طلب کرتا ہے۔ لیکن کسی نے بھی اس عمل کا باعث بننے والے دکھوں اور مصائب کی ٹوہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ ایک ڈاک بابو جس کے دو بچے ناقابل علاج ہیں اور اس پر کوئی ادارہ ایسا نہ دکھے جس سے وہ اپنے درد کا درماں طلب کر سکے تو وہ بچارا جبر کی اس بھٹی میں زندگی کو کیسے قائم رکھے؟ یہ افسانہ اس کے ساتھ مرکزی کردار جو ایک لکھاری اور صحافی بھی ہے کی لاچارگی کو بھی عمدگی سے بیان کرتا ہے کہ جب آپ جانتے ہوں کہ آپ کے الفاظ کس قدر بے وقعت ہیں لیکن ان الفاظ سے امید کشید کرنے کے خواہش مند کو بھی مایوس نہیں کرنا چاہتے تو کس درجہ بے بسی اور درد کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
آدم شیر نے اس کہانی کا عنوان بجا طور پر ”غیر دلچسپ کہانی“ رکھا کہ آج ہمارے سماج میں کسی کے دم توڑتے، بھوک سے بلکتے اور وینٹی لیٹر نہ ہونے کے باعث مرتے بچوں سے کسے دلچسپی ہے۔ اب وہ بچے کسی وحید کے ہوں یا کسی خرادئیے کے یا کسی سکول کے سامنے ہوئے قتل سے بننے والے خون میں کھیلتے بچے ہوں یہ کسی کے لیے بھی نہ دلچسپی کا سامان مہیا کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ان مناظر سے عبرت پکڑتا ہے۔ کیونکہ ہم یہ سب کچھ دہائیوں سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ”اک چپ، سو دکھ“ کے مصنف کے بقول
”جہاں میں رہتا ہوں وہاں بڑے بڑے عادی ہو جاتے ہیں۔ یوں بھی جب غیر معمولی بات معمول بن جائے تو غیر معمولی کہاں رہتی ہے۔“
(افسانہ: دبدھا)
پچھلے پیرا گراف میں جس خرادئیے کا زکر آیا تو لگے ہاتھوں اس کی کہانی بھی بیان کرتا جاؤں جو اپنے بیمار بچے کی سانسوں کو جاری رکھنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے لیکن ہمارے سماج میں ٹھوکروں سے نہ زندگی بنتی ہے اور نہ ہی سانسیں ملتی ہیں اور انجام قطعی اس سے مختلف نہیں نکلتا۔
”لیڈی ڈاکٹر نے اسے ڈیٹھ سرٹی فکیٹ پکڑایا تو خرادئیے کے منہ سے بلا سوچے سمجھے نکل گیا کہ وینٹی لیٹر نہ ہونے سے میرا بچہ مر گیا۔ ڈاکٹر کبھی خرادئیے اور کبھی اس کی بیوی کو دیکھتی اور بالآخر اس نے بتایا کہ بچے کا دم نہیں گھٹا، دل ڈوب گیا تھالیکن خرادئیے اور اس کی بیوی کو کچھ سمجھ نہ آیا اور انھوں نے وینٹی لیٹر کو عجیب نظروں سے دیکھا جیسے اس نے ایک باپ اور ایک ماں کو شکست دی ہو۔“
(افسانہ: ہیولا)
کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر کوئی بھی قاری اپنی آنکھوں کی نمی پر قابو نہیں رکھ سکتا جس طور آدم شیر نے اس افسانے کو بنا ہے اور اس میں جزئیات اور جذبات سے جو کاٹ پیدا کی ہے اس کے باعث یہ افسانہ تادیر یاد رکھے جانے والے افسانوں کی فہرست میں شامل رہے گا۔
آدم شیر کے اکثر افسانے کو مختلف صورتوں میں ہمارے سماج میں بچوں کی زندگی کس طور متاثر ہو رہی ہے اس کو زبان فراہم کرنے کی کوشش قرار دی جا سکتی ہے اور وہ تقریبا یہ نتیجہ اور درست نتیجہ نکالتا ہے کہ یہ سماج اب اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ بچوں تو کیا انسانوں کے ہی رہنے کے قابل نہیں رہا۔جس معاشرے میں مرد و عورت اور بچے تمام ہی بنیادی حقوق سے محروم ہیں وہاں آدم شیر ان سے سب سے الگ اور سب سے زیادہ استحصال کا شکار کمیونٹی سے بھی غافل نہیں یہی وجہ ہے کہ افسانہ ”انسان نما“ میں اس کی فنکاری مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔
”غرقاب“ ایسے شخص کی کہانی ہے جو سمندرکی الفت میں مبتلا ہے اور اپنی زندگی پانیوں کے بیچوں بیچ گزارنے کا خواہش مند ہے لیکن معروضی حالات اس کی اس خواہش کی تکمیل تو درکنار اتنی بھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ سمندر کی لہروں کے حقیقی مناظر سے ہی لطف اندوز ہو سکے۔
”میں خیالی پلاؤ ہی نہیں پکاتا بلکہ عملی طور پر بھی جانا چاہتا ہوں اور ایک بار گوادر جانے کی پوری تیاری کر لی لیکن۔۔۔ ایل سی ڈی پر سمندری دنیا کے مناظر ہی نہیں نظر آتے بلکہ ہر وقت ٹی وی پر گلا پھاڑ پھاڑ کر خبریں بھی سنائی جاتی ہیں۔ سوچا کہ وہ شہر پھر کبھی دیکھ لوں گا جو خواب دکھانے لگا ہے۔ اب کراچی جا کر دیرینہ خواہش پوری کر لیتاہوں، اس سے پہلے کہ حسرت بن جائے لیکن ٹی وی پر صرف گوادر کے متعلق خبریں نہیں آتیں، کراچی کا ذکر بھی صبح شام ہوتا ہے۔“
آدم شیر اپنے افسانوں میں زندگی کے بنیادی مسائل کو موضوع بناتا ہے اور موجودہ عہد کی سماجی زندگی کے آشوب کو حقیقت پسندانہ ڈھنگ سے پیش کرتا ہے۔ اس کی کہانیوں کی یہی خوبی جہاں اسے دیگر افسانہ نگاروں سے جدا کرتی ہے وہیں اس بات کی ضامن بھی ٹھہرتی ہے کہ اس ڈگر پر وہ نہ صرف خاص و عام قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرے گا بلکہ اس انداز کے باعث اس کے افسانے تادیر یاد بھی رکھے جائیں گے۔
ارشد علی
(25 مارچ 2019ء کو اکادمی ادبیات لاہور میں منعقدہ کتاب کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)