دلشاد نظمی کا شعری مجموعہ "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" : ایک شاعرانہ سفر
دلشاد نظمی کا شعری مجموعہ "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" : ایک شاعرانہ سفر
Apr 18, 2024
دیدبان شمارہ ۔۲۵
دلشاد نظمی کا شعری مجموعہ "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" : ایک شاعرانہ سفر
نسترن احسن فتیحی
دلشاد نظمی کی غزلوں کا مجموعہ، "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں،" ایک سحر انگیز مجموعہ ہے جو قارئین کو اردو شاعری کے حقیقی رنگ سے متعارف کراتا ہے۔ پروفیسر سید اشہد کریم کے دیباچے اور ڈاکٹر قاسم خورشید کے تعارف کے ساتھ، یہ شعری مجموعہ صرف غزلوں کا مجموعہ نہیں بلکہ جذبات، تجربات اور انسانی حالت کی گہرائی کی تصویر پیش کرتا ہے۔
پروفیسر سید اشہد کریم اپنے تمہیدی کلمات کے ساتھ اس شعری محموعے کے اسٹیج کو خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں اور قارئین کو نظمی کے شعری اظہار کی اہمیت اور گہرائی کی ایک واضح تصویر کچھ یوں ںپیش کرتے ہیں کہ عصری دور میں غزل کی پائیدار مطابقت اجاگر ہو جاتی ہے اور اس طرح ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کرنے اور پوری دنیا کے قارئین کے دلوں کو چھونے کی غزل کی صلاحیت واضح ہو جاتی ہے ۔
ڈاکٹر قاسم خورشید کا تعارف دلشاد نظمی کی شاعری کی دنیا میں ایک فکر انگیز داخلے کا کام کرتا ہے۔ گہری بصیرت کے ساتھ،ڈاکٹر قاسم خورشید نے نظمی کی غزلوں کی موضوعاتی فراوانی کو کھوج نکالا ہے اور اس طرح غزل میں پوشیدہ معنی اور علامت کی پیچیدہ تہوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ان کے تجزیے کے ذریعے قارئین نظمی کے فن کی باریکیوں اور ان کی شاعری میں سمائے ہوئے آفاقی سچائیوں سے بخوبی متعارف ہوتے ہیں ۔
جیسے ہی کوئی اس شعری مجموعے کی قراءت کے مرحلے سے گزرتاہے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ نظمی کے اشعار محض شعری اظہار نہیں ہیں بلکہ روح کے دریچے ہیں۔ ان کی غزلوںمیں صرف خام جذباتیت نہیں بلکہ محبت سے لے کر مایوسی اور خود شناسی کے بے شمار احساسات کی تصویر کشی ہے ۔ ہر شعر اپنے طور پر ایک شاہکار ہے، جو شاعری اور منظر کشی پر پوری توجہ کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔
نظمی کی شاعری موضوعات کاایک وسیع سلسلہ ،قطار یا صف پر محیط ہے، ہر ایک موضوع کو گہرائی اور باریک بینی کے ساتھ تلاش کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے مرکزی موضوعات میں سے ایک محبت ہے، جسے وہ مختلف شکلوں میں دریافت کرتے ہیں۔ اپنی غزلوں میں دلشاد نظمی اکثر محبت کو ایکسٹیسی اور اذیت دونوں کے ذریعہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو انسانی جذبات کے دوہرے پن کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی بے مثال محبت، آرزو، اور علیحدگی کی تصویریں ثقافتوں اور وقتی ادوار میں قارئین کے ساتھ رشتہ استوار کرنے میں کامیاب ہیں۔
عجب سا حبس ہے دلشاد ہر سو بے نوائی کا
لپٹ کر پتیوں سے کیوں ہوا خاموش بیٹھی ہے
جو ابھی بخشی ہوئی بیساکھیوں پر ہیں کھڑے
وہ اپاہج اب مری رفتار طے کرنے لگے
دلشاد نظمی کی شاعری کا ایک اور نمایاں موضوع وجودیت اور انسان کو درپیش وجودی بحران ہے۔ دلشاد نظمی اپنی انوکھی غزل کے ذریعے شناخت، فانی، اور زندگی کی عارضی نوعیت کے سوالات پر غور کرتے ہیں۔ وہ انسانی حالت کی پیچیدگیوں اور موت کی ناگزیریت کا کھوج لگاتے ہوئے، وجود کے تصور سے خود کو جوڑتےہیں۔ دلشاد نظمی کا وجودی نقطہ نظر اداسی اور مایوسی کے احساس سے متصف ہے، کیونکہ وہ انسانی وجود کی نزاکت کا سامنا کرتا ہے۔
میں گونگوں کے اشاروں پر بہت ہنستا تھا کچھ دِن سے
کئ بے ربط آوازیں مرے اندر سے آتی ہیں
رستہ بھی دیکھتا ہے مرے پاؤں کی طرف
لے جانا چاہتی ہے تھکن چھاؤں کی طرف
اس شہرِ بے پناہ کی گلیوں میں کھو گئی
جاتی تھی ایک کچی سڑک گاؤں کی طرف
دلشاد نظمی کی شاعری گہری روحانی بصیرت اور روحانی روشن خیالی کی جستجو کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ صوفی فلسفہ اور اسلامی تصوف سے متاثر، دلشاد نظمی کے اشعار میں اکثر صوفیانہ تصورات اور استعارے ہوتے ہیں، جو گہری روحانی سچائیوں کو بیان کرتے ہیں۔ وہ الہی محبت، ماورائی، اور افراتفری کی دنیا میں معنی کی تلاش کے موضوعات کو تلاش کرتا ہے۔ دلشاد نظمی کا روحانی سفر الٰہی کے ساتھ ملاپ کی آرزو اور روحانی تکمیل کی تڑپ سے نشان زد ہے۔
سورج کی کرنوں سے اغوا ہونے والا کھار ا پانی
آبادی میں گھوم رہا اب گدلایا بنجارہ پانی
میں نہ کہتا تھا کہ ضبط کی خوش فہمی کچھ ٹھیک نہیں ہے
دیکھ ذرا سا بند کھلا اور پھیل گیا آوارہ پانی
آگ کی لپیٹیں ناچ رہی ہیں دجلہ والوں کی بستی میں
پیاس کے ما رہے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی
حمد و ثنا رب العزت کی نا ممکن دلشاد ہے گرچہ
سارے پیڑ قلم بن جائیں اور سیاہی سارا پانی
اسلوب کے لحاظ سے دلشاد نظمی کی شاعری اس کی لسانی وسعت، پیچیدہ شاعری اسکیموں اور گہری علامت نگاری کی خصوصیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کمال مہارت سے اردو اور فارسی الفاظ کو ایک ساتھ باندھا، ایک منفرد شاعرانہ زبان تخلیق کی جو خوبصورت بھی ہے اور جذباتی بھی۔ دلشاد نظمی کا استعارہ اور امیجری کا استعمال ان کی شاعری میں گہرائی اور پیچیدگی کا اضافہ کرتا ہے، جو قارئین کو ان کی شاعری کے اندر چھپے گہرے معانی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
کسی پروہت پہ دیوداسی نثار ہو جاۓتوعجب کیا
گھٹی گھٹی جسم کی خموشی پکار ہو جانا چاہتی ہے
دلشاد نظمی کی غزلوں کی ایک خاص خصوصیت ان کے اشعار کی ساخت ہے ۔ ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل فکر ہے، پھر بھی باقی غزل کے ساتھ ایک مربوط شعری ڈھانچہ بناتا ہے۔ غزل کی شکل پر دلشاد نظمی کی مہارت انہیں ایک مقررہ شاعرانہ ڈھانچے کی پابندیوں کے اندر متنوع موضوعات اور جذبات کو تلاش کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
ہم نے سحری کی تھے باقر خانی سے
ہمسائے نے روزہ کھولا پانی سے
آؤ ورنہ برف بدن ہو جاؤ گے
چادر پھٹ جائے گی کھینچا تانی سے
مزید برآں، دلشاد نظمی کی شاعری اس کے ابہام اور کثیر الجہتی معانی سے نمایاں ہے۔ ان کے اشعاراکثر تشریح کے لیے کھلے ہوتے ہیں، جو قارئین کو متعدد سطحوں پر متاثر کرتے ہیں۔ دلشاد نظمی کا موضوعاتی تضاد، حالات کی ستم ظریفی کا بیان اور لفظوں کا استعمال ان کی شاعری میں گہرائی اور پیچیدگی کا اضافہ کرتا ہے، جو قارئین کو ان کی شاعری کی پیچیدگیوں سے پردہ اٹھانے کا چیلنج دیتا ہے۔
دلشاد نظمی کی شاعری محبت، وجودیت، اور روحانیت جیسے موضوعات کی اپنی کھوج کے ذریعےانسانی تجربے کی گہرائیوں میں جھانکتے ہیں، زندگی کی پیچیدگیوں اور انسانی حالت کے بارے میں گہری بصیرت پیش کرتے ہیں۔ اپنی لسانی چمک دمک، اسلوبیاتی جدت اور گہری فلسفیانہ بصیرت کے ساتھ، دلشاد نظمی نے اردو قارئین کو متاثر اور مسحور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
نظمی ایک ایسا شاعر ہیں جس نے نہ صرف اپنی ذات کی قید سے آزاد ہونے کی سنجیدہ کوشش کی ہے بلکہ آزادی کے بعد افقی طور پر پھیلنے کے بجائے چیلنجنگ عمودی فاصلے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور زندگی اس کے اسرار و رموز سے آشنا ہوتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ اس دوری میں منزل تک پہنچنے کے بجائے عمل خود ہی اہم ہو جاتا ہے۔ نظمی صرف جسم کی قید سے بچنا نہیں چاہتے۔ اس کی مستقل تبدیلی کی خواہش شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔
صرف دشمن کو تباہی کا سبب جانتے ہیں
آپ اپنوں میں منافق نہیں پہچانتے ہیں
مانتے ہی نہیں احکامِ خداوندی کو
اور کہتے ہیں کہ اللہ کو ہم مانتے ہیں
سمجھ رہے ہیں مکمل شعور آ گیا ہے
نئے پرندوں میں کتنا غرور آ گیا ہے
میرے قصے کے لیے کردار طے کرنے لگے
ایسے ویسے لوگ اب معیار طے کرنے لگے
جو ابھی بخشی ہوئی بیسا کھیوں پر ہیں کھڑے
وہ اپاہج اب مری رفتار طے کرنے لگے
روح کو جسم کی قید سے آزاد کرنے کا عمل ایک طویل کوشش کا متقاضی ہے۔ یہ پھول سے خوشبو کی جدائی کے مترادف ہے لیکن جسم اور روح کے درمیان پیچیدہ بندھن اور جذبات انسانی نفسیات کے ساتھ عجیب کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور آزادی کا عمل اسے مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ یہ ایک الجھے ہوئے دھاگے کی مانند ہے کہ الجھتے ہوئے، اس فاصلے پر زیادہ تر مسافر اپنی منزل کا اعلان کرتے ہیں اور راستے میں اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں منزل کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا۔ ’’کوئی لمحہ بھی معمولی نہیں‘‘ شاعر اس معاملے میں کسی الجھن کا شکار نظر نہیں آتا۔ وہ منزل کی پیچیدگی سے واقف ہے اور سفر کے دوران اپنی عارضی تھکن کے آگے ہتھیار ڈالنے میں کوئی کراہت محسوس نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ منزل مسلسل جدوجہد کے بعد حاصل ہوتی ہے اور راستے کے چھوٹے اتار چڑھاؤ منزل کی سمت بتاتے ہیں۔
نظمی کی شاعری کا ایک سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں انسانی وجود کی عارضی نوعیت کو گرفت میں لینے کی صلاحیت ہے۔ "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" وقت کی غیر معمولی نوعیت سے بات کرتا ہے، قارئین کو ہر لمحے کی قدر کرنے اور عدم استحکام کے حسن کو گلے لگانے کی تاکید کرتا ہے۔ نظمی اپنی غزلوں کے ذریعے ہمیں زندگی کی نزاکت اور مقصد اور جذبے کے ساتھ جینے کی اہمیت کی یاد دلاتا ہے۔
رستہ بھی دیکھتا ہے مرے پاؤں کی طرف
لے جانا چاہتی ہے تھکن چھا ؤں کی طرف
اس شہرِ ہے پناہ کی گلیوں میں کھو گئی
جاتی تھی ایک پتلی سڑک گاؤں کی طرف
وقت کی تھاپ تقاضوں کی تھرک ۔لے غم کی
جسم سے سانس کا رشتہ بھی ہی گھنگرو جیسا
عجب سا حبس ہے دلشاد ہر سُو بے نوائی کا
لپٹ کے پتیوں سے کیوں ہوا خاموش بیٹھی ہے
بہت کچھ سیکھتا ہے آدمی باہر کی دنیا سے
مگر کچھ عادتیں دلشاد نظمی گھر سے آتی ہیں ۔
"کوئ ایک لمحہ رقم نہیں " میں اپنی ذات سے دور رہنے کی خواہش کی تکمیل میں شاعر کو ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ یہ کہ حقیقت سے فرار کا عنصر کسی طور پر موجود دکھائی نہیں دیتا۔ ایک صوفی کی بے سکونی نہیں بلکہ جنون کا احساس ہے۔ اس نے اپنے فکری معیار کی بنیاد پر اپنی منزل کی تعریف متعین کی ہے۔ سماجی مسائل اور اس سے منسلک مشکلات سے آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے اس سفر کا انتخاب کیا ہے۔ اسے اپنے قد کا اندازہ بھی ہے اور عزت نفس کا بھی۔ اس معاشرے میں عمودی فاصلے پر فرار ہونا کسی کی عزت بچانے کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں۔
دھکیل دیتا ہے بھیڑ کی اس پناہ سے کوئی ہاتھ باہر
مری اکائی جب ان گنت بے شمار ہی جانا چاہتی ہے۔
سوال ننھا فرشتہ کرتا ہے جب کبھی تو تلی زباں سے
پڑھی لکھی شخصیت اچانک گنوار ہو جانا چاہتی ہے
ہمارا شاعر جس معاشرے میں سانس لیتا ہے اس میں جب سانس لیتا ہے تو وہ عدم مساوات کو بھی شدت سے محسوس کرتا ہے لیکن ردعمل کے طور پر رونا نہیں بلکہ احتجاج ہوتا ہے۔ یہ شور کا معیار نہیں ہے بلکہ صرف ایک حل شدہ اعتراض ہے۔ اس احتجاج کے لیے اس نے کچھ مخصوص علامتوں کا انتخاب کیا ہے۔ 'صحرا'، 'برف' اور 'پتھر' اس کی پسندیدہ علامتیں ہیں۔ 'پتھر' کی علامت سماجی بے حسی، جذبات کی موت اور ذاتی بے بسی کا شدت سے اظہار کرتی ہے۔
مجھے معلوم ہے اس دیوتا کی عظمتیں ساری
وہ پتھر تھا کسی دستِ ہنر تک آ گیا ہوگا
سورج کی کرنوں سے اغوا ہو نے والا کھا را پانی
آبادی میں گھوم رہا ہے گدلایا بنجارہ پانی
آگ کے شعلے ناچ رہے ہیں دجلہ والوں کی بستی میں
پیاس کے مارے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی
حمد و ثنا رب العزت کی ناممکن دلشاد ہے گرچہ
سارے پیڑ قلم بن جائیں اور سیاہی سارا پانی
ہم نے سحری کی تھے باقر خانی سے
ہمسائے نے روزہ کھولا پانی سے
آؤ ورنہ برف بدن ہو جاؤ گے
چادر پھٹ جاۓ گی کھینچا تانی سے
ایک اچھا فنکار اپنے فن کا اچھا نقاد بھی ہوتا ہے اور اس کا اپنے فن پر تنقیدی رویہ بھی اس کے فن کے حقیقی معیار کا تعین کرتا ہے۔ لیکن یہ خوبی ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔
ایں مزید برآں، نظمی کی شاعری روحانیت اور وجودی تحقیقات کے گہرے احساس سے لبریز ہے۔ ان کے اشعاراکثر کائنات کے اسرار پر کچھ اس انداز میں غور کرتے ہیں کہ وجود کی نوعیت ظاہر ہوتی ہے ۔ چاہے محبت کی گہرائیوں کو تلاش کرنا ہو یا عقیدے کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہونا، نظمی کی غزلیں انسانی حالت اور افراتفری کی دنیا میں معنی کی تلاش کے بارے میں گہری بصیرت پیش کرتی ہیں۔
، "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" ایک دلکش شعری مجموعہ ہے جو اردو غزل کے لازوال حسن کو ظاہر کرتا ہے۔ پروفیسر سید اشہد کریم اور ڈاکٹر قاسم خورشید کی طرف سے فراہم کردہ بصیرت افروز تبصروں کے ساتھ مل کر دلشاد نظمی کی ہنر میں مہارت، اس مجموعہ کو شاعری کے شائقین اور اہل علم کے لیے یکساں طور پر پڑھنا چاہیے۔ اپنی پُرجوش اشعار کے ذریعے، نظمی قارئین کو خود کی دریافت اور روشن خیالی کے ایک ماورائی سفر پر مدعو کرتے ہیں، جو ان کے کام کا سامنا کرنے والے تمام لوگوں کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیدبان شمارہ ۔۲۵
دلشاد نظمی کا شعری مجموعہ "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" : ایک شاعرانہ سفر
نسترن احسن فتیحی
دلشاد نظمی کی غزلوں کا مجموعہ، "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں،" ایک سحر انگیز مجموعہ ہے جو قارئین کو اردو شاعری کے حقیقی رنگ سے متعارف کراتا ہے۔ پروفیسر سید اشہد کریم کے دیباچے اور ڈاکٹر قاسم خورشید کے تعارف کے ساتھ، یہ شعری مجموعہ صرف غزلوں کا مجموعہ نہیں بلکہ جذبات، تجربات اور انسانی حالت کی گہرائی کی تصویر پیش کرتا ہے۔
پروفیسر سید اشہد کریم اپنے تمہیدی کلمات کے ساتھ اس شعری محموعے کے اسٹیج کو خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں اور قارئین کو نظمی کے شعری اظہار کی اہمیت اور گہرائی کی ایک واضح تصویر کچھ یوں ںپیش کرتے ہیں کہ عصری دور میں غزل کی پائیدار مطابقت اجاگر ہو جاتی ہے اور اس طرح ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کرنے اور پوری دنیا کے قارئین کے دلوں کو چھونے کی غزل کی صلاحیت واضح ہو جاتی ہے ۔
ڈاکٹر قاسم خورشید کا تعارف دلشاد نظمی کی شاعری کی دنیا میں ایک فکر انگیز داخلے کا کام کرتا ہے۔ گہری بصیرت کے ساتھ،ڈاکٹر قاسم خورشید نے نظمی کی غزلوں کی موضوعاتی فراوانی کو کھوج نکالا ہے اور اس طرح غزل میں پوشیدہ معنی اور علامت کی پیچیدہ تہوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ان کے تجزیے کے ذریعے قارئین نظمی کے فن کی باریکیوں اور ان کی شاعری میں سمائے ہوئے آفاقی سچائیوں سے بخوبی متعارف ہوتے ہیں ۔
جیسے ہی کوئی اس شعری مجموعے کی قراءت کے مرحلے سے گزرتاہے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ نظمی کے اشعار محض شعری اظہار نہیں ہیں بلکہ روح کے دریچے ہیں۔ ان کی غزلوںمیں صرف خام جذباتیت نہیں بلکہ محبت سے لے کر مایوسی اور خود شناسی کے بے شمار احساسات کی تصویر کشی ہے ۔ ہر شعر اپنے طور پر ایک شاہکار ہے، جو شاعری اور منظر کشی پر پوری توجہ کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔
نظمی کی شاعری موضوعات کاایک وسیع سلسلہ ،قطار یا صف پر محیط ہے، ہر ایک موضوع کو گہرائی اور باریک بینی کے ساتھ تلاش کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے مرکزی موضوعات میں سے ایک محبت ہے، جسے وہ مختلف شکلوں میں دریافت کرتے ہیں۔ اپنی غزلوں میں دلشاد نظمی اکثر محبت کو ایکسٹیسی اور اذیت دونوں کے ذریعہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو انسانی جذبات کے دوہرے پن کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی بے مثال محبت، آرزو، اور علیحدگی کی تصویریں ثقافتوں اور وقتی ادوار میں قارئین کے ساتھ رشتہ استوار کرنے میں کامیاب ہیں۔
عجب سا حبس ہے دلشاد ہر سو بے نوائی کا
لپٹ کر پتیوں سے کیوں ہوا خاموش بیٹھی ہے
جو ابھی بخشی ہوئی بیساکھیوں پر ہیں کھڑے
وہ اپاہج اب مری رفتار طے کرنے لگے
دلشاد نظمی کی شاعری کا ایک اور نمایاں موضوع وجودیت اور انسان کو درپیش وجودی بحران ہے۔ دلشاد نظمی اپنی انوکھی غزل کے ذریعے شناخت، فانی، اور زندگی کی عارضی نوعیت کے سوالات پر غور کرتے ہیں۔ وہ انسانی حالت کی پیچیدگیوں اور موت کی ناگزیریت کا کھوج لگاتے ہوئے، وجود کے تصور سے خود کو جوڑتےہیں۔ دلشاد نظمی کا وجودی نقطہ نظر اداسی اور مایوسی کے احساس سے متصف ہے، کیونکہ وہ انسانی وجود کی نزاکت کا سامنا کرتا ہے۔
میں گونگوں کے اشاروں پر بہت ہنستا تھا کچھ دِن سے
کئ بے ربط آوازیں مرے اندر سے آتی ہیں
رستہ بھی دیکھتا ہے مرے پاؤں کی طرف
لے جانا چاہتی ہے تھکن چھاؤں کی طرف
اس شہرِ بے پناہ کی گلیوں میں کھو گئی
جاتی تھی ایک کچی سڑک گاؤں کی طرف
دلشاد نظمی کی شاعری گہری روحانی بصیرت اور روحانی روشن خیالی کی جستجو کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ صوفی فلسفہ اور اسلامی تصوف سے متاثر، دلشاد نظمی کے اشعار میں اکثر صوفیانہ تصورات اور استعارے ہوتے ہیں، جو گہری روحانی سچائیوں کو بیان کرتے ہیں۔ وہ الہی محبت، ماورائی، اور افراتفری کی دنیا میں معنی کی تلاش کے موضوعات کو تلاش کرتا ہے۔ دلشاد نظمی کا روحانی سفر الٰہی کے ساتھ ملاپ کی آرزو اور روحانی تکمیل کی تڑپ سے نشان زد ہے۔
سورج کی کرنوں سے اغوا ہونے والا کھار ا پانی
آبادی میں گھوم رہا اب گدلایا بنجارہ پانی
میں نہ کہتا تھا کہ ضبط کی خوش فہمی کچھ ٹھیک نہیں ہے
دیکھ ذرا سا بند کھلا اور پھیل گیا آوارہ پانی
آگ کی لپیٹیں ناچ رہی ہیں دجلہ والوں کی بستی میں
پیاس کے ما رہے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی
حمد و ثنا رب العزت کی نا ممکن دلشاد ہے گرچہ
سارے پیڑ قلم بن جائیں اور سیاہی سارا پانی
اسلوب کے لحاظ سے دلشاد نظمی کی شاعری اس کی لسانی وسعت، پیچیدہ شاعری اسکیموں اور گہری علامت نگاری کی خصوصیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کمال مہارت سے اردو اور فارسی الفاظ کو ایک ساتھ باندھا، ایک منفرد شاعرانہ زبان تخلیق کی جو خوبصورت بھی ہے اور جذباتی بھی۔ دلشاد نظمی کا استعارہ اور امیجری کا استعمال ان کی شاعری میں گہرائی اور پیچیدگی کا اضافہ کرتا ہے، جو قارئین کو ان کی شاعری کے اندر چھپے گہرے معانی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
کسی پروہت پہ دیوداسی نثار ہو جاۓتوعجب کیا
گھٹی گھٹی جسم کی خموشی پکار ہو جانا چاہتی ہے
دلشاد نظمی کی غزلوں کی ایک خاص خصوصیت ان کے اشعار کی ساخت ہے ۔ ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل فکر ہے، پھر بھی باقی غزل کے ساتھ ایک مربوط شعری ڈھانچہ بناتا ہے۔ غزل کی شکل پر دلشاد نظمی کی مہارت انہیں ایک مقررہ شاعرانہ ڈھانچے کی پابندیوں کے اندر متنوع موضوعات اور جذبات کو تلاش کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
ہم نے سحری کی تھے باقر خانی سے
ہمسائے نے روزہ کھولا پانی سے
آؤ ورنہ برف بدن ہو جاؤ گے
چادر پھٹ جائے گی کھینچا تانی سے
مزید برآں، دلشاد نظمی کی شاعری اس کے ابہام اور کثیر الجہتی معانی سے نمایاں ہے۔ ان کے اشعاراکثر تشریح کے لیے کھلے ہوتے ہیں، جو قارئین کو متعدد سطحوں پر متاثر کرتے ہیں۔ دلشاد نظمی کا موضوعاتی تضاد، حالات کی ستم ظریفی کا بیان اور لفظوں کا استعمال ان کی شاعری میں گہرائی اور پیچیدگی کا اضافہ کرتا ہے، جو قارئین کو ان کی شاعری کی پیچیدگیوں سے پردہ اٹھانے کا چیلنج دیتا ہے۔
دلشاد نظمی کی شاعری محبت، وجودیت، اور روحانیت جیسے موضوعات کی اپنی کھوج کے ذریعےانسانی تجربے کی گہرائیوں میں جھانکتے ہیں، زندگی کی پیچیدگیوں اور انسانی حالت کے بارے میں گہری بصیرت پیش کرتے ہیں۔ اپنی لسانی چمک دمک، اسلوبیاتی جدت اور گہری فلسفیانہ بصیرت کے ساتھ، دلشاد نظمی نے اردو قارئین کو متاثر اور مسحور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
نظمی ایک ایسا شاعر ہیں جس نے نہ صرف اپنی ذات کی قید سے آزاد ہونے کی سنجیدہ کوشش کی ہے بلکہ آزادی کے بعد افقی طور پر پھیلنے کے بجائے چیلنجنگ عمودی فاصلے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور زندگی اس کے اسرار و رموز سے آشنا ہوتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ اس دوری میں منزل تک پہنچنے کے بجائے عمل خود ہی اہم ہو جاتا ہے۔ نظمی صرف جسم کی قید سے بچنا نہیں چاہتے۔ اس کی مستقل تبدیلی کی خواہش شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔
صرف دشمن کو تباہی کا سبب جانتے ہیں
آپ اپنوں میں منافق نہیں پہچانتے ہیں
مانتے ہی نہیں احکامِ خداوندی کو
اور کہتے ہیں کہ اللہ کو ہم مانتے ہیں
سمجھ رہے ہیں مکمل شعور آ گیا ہے
نئے پرندوں میں کتنا غرور آ گیا ہے
میرے قصے کے لیے کردار طے کرنے لگے
ایسے ویسے لوگ اب معیار طے کرنے لگے
جو ابھی بخشی ہوئی بیسا کھیوں پر ہیں کھڑے
وہ اپاہج اب مری رفتار طے کرنے لگے
روح کو جسم کی قید سے آزاد کرنے کا عمل ایک طویل کوشش کا متقاضی ہے۔ یہ پھول سے خوشبو کی جدائی کے مترادف ہے لیکن جسم اور روح کے درمیان پیچیدہ بندھن اور جذبات انسانی نفسیات کے ساتھ عجیب کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور آزادی کا عمل اسے مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ یہ ایک الجھے ہوئے دھاگے کی مانند ہے کہ الجھتے ہوئے، اس فاصلے پر زیادہ تر مسافر اپنی منزل کا اعلان کرتے ہیں اور راستے میں اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں منزل کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا۔ ’’کوئی لمحہ بھی معمولی نہیں‘‘ شاعر اس معاملے میں کسی الجھن کا شکار نظر نہیں آتا۔ وہ منزل کی پیچیدگی سے واقف ہے اور سفر کے دوران اپنی عارضی تھکن کے آگے ہتھیار ڈالنے میں کوئی کراہت محسوس نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ منزل مسلسل جدوجہد کے بعد حاصل ہوتی ہے اور راستے کے چھوٹے اتار چڑھاؤ منزل کی سمت بتاتے ہیں۔
نظمی کی شاعری کا ایک سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں انسانی وجود کی عارضی نوعیت کو گرفت میں لینے کی صلاحیت ہے۔ "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" وقت کی غیر معمولی نوعیت سے بات کرتا ہے، قارئین کو ہر لمحے کی قدر کرنے اور عدم استحکام کے حسن کو گلے لگانے کی تاکید کرتا ہے۔ نظمی اپنی غزلوں کے ذریعے ہمیں زندگی کی نزاکت اور مقصد اور جذبے کے ساتھ جینے کی اہمیت کی یاد دلاتا ہے۔
رستہ بھی دیکھتا ہے مرے پاؤں کی طرف
لے جانا چاہتی ہے تھکن چھا ؤں کی طرف
اس شہرِ ہے پناہ کی گلیوں میں کھو گئی
جاتی تھی ایک پتلی سڑک گاؤں کی طرف
وقت کی تھاپ تقاضوں کی تھرک ۔لے غم کی
جسم سے سانس کا رشتہ بھی ہی گھنگرو جیسا
عجب سا حبس ہے دلشاد ہر سُو بے نوائی کا
لپٹ کے پتیوں سے کیوں ہوا خاموش بیٹھی ہے
بہت کچھ سیکھتا ہے آدمی باہر کی دنیا سے
مگر کچھ عادتیں دلشاد نظمی گھر سے آتی ہیں ۔
"کوئ ایک لمحہ رقم نہیں " میں اپنی ذات سے دور رہنے کی خواہش کی تکمیل میں شاعر کو ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ یہ کہ حقیقت سے فرار کا عنصر کسی طور پر موجود دکھائی نہیں دیتا۔ ایک صوفی کی بے سکونی نہیں بلکہ جنون کا احساس ہے۔ اس نے اپنے فکری معیار کی بنیاد پر اپنی منزل کی تعریف متعین کی ہے۔ سماجی مسائل اور اس سے منسلک مشکلات سے آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے اس سفر کا انتخاب کیا ہے۔ اسے اپنے قد کا اندازہ بھی ہے اور عزت نفس کا بھی۔ اس معاشرے میں عمودی فاصلے پر فرار ہونا کسی کی عزت بچانے کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں۔
دھکیل دیتا ہے بھیڑ کی اس پناہ سے کوئی ہاتھ باہر
مری اکائی جب ان گنت بے شمار ہی جانا چاہتی ہے۔
سوال ننھا فرشتہ کرتا ہے جب کبھی تو تلی زباں سے
پڑھی لکھی شخصیت اچانک گنوار ہو جانا چاہتی ہے
ہمارا شاعر جس معاشرے میں سانس لیتا ہے اس میں جب سانس لیتا ہے تو وہ عدم مساوات کو بھی شدت سے محسوس کرتا ہے لیکن ردعمل کے طور پر رونا نہیں بلکہ احتجاج ہوتا ہے۔ یہ شور کا معیار نہیں ہے بلکہ صرف ایک حل شدہ اعتراض ہے۔ اس احتجاج کے لیے اس نے کچھ مخصوص علامتوں کا انتخاب کیا ہے۔ 'صحرا'، 'برف' اور 'پتھر' اس کی پسندیدہ علامتیں ہیں۔ 'پتھر' کی علامت سماجی بے حسی، جذبات کی موت اور ذاتی بے بسی کا شدت سے اظہار کرتی ہے۔
مجھے معلوم ہے اس دیوتا کی عظمتیں ساری
وہ پتھر تھا کسی دستِ ہنر تک آ گیا ہوگا
سورج کی کرنوں سے اغوا ہو نے والا کھا را پانی
آبادی میں گھوم رہا ہے گدلایا بنجارہ پانی
آگ کے شعلے ناچ رہے ہیں دجلہ والوں کی بستی میں
پیاس کے مارے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی
حمد و ثنا رب العزت کی ناممکن دلشاد ہے گرچہ
سارے پیڑ قلم بن جائیں اور سیاہی سارا پانی
ہم نے سحری کی تھے باقر خانی سے
ہمسائے نے روزہ کھولا پانی سے
آؤ ورنہ برف بدن ہو جاؤ گے
چادر پھٹ جاۓ گی کھینچا تانی سے
ایک اچھا فنکار اپنے فن کا اچھا نقاد بھی ہوتا ہے اور اس کا اپنے فن پر تنقیدی رویہ بھی اس کے فن کے حقیقی معیار کا تعین کرتا ہے۔ لیکن یہ خوبی ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔
ایں مزید برآں، نظمی کی شاعری روحانیت اور وجودی تحقیقات کے گہرے احساس سے لبریز ہے۔ ان کے اشعاراکثر کائنات کے اسرار پر کچھ اس انداز میں غور کرتے ہیں کہ وجود کی نوعیت ظاہر ہوتی ہے ۔ چاہے محبت کی گہرائیوں کو تلاش کرنا ہو یا عقیدے کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہونا، نظمی کی غزلیں انسانی حالت اور افراتفری کی دنیا میں معنی کی تلاش کے بارے میں گہری بصیرت پیش کرتی ہیں۔
، "کوئی ایک لمحہ رقم نہیں" ایک دلکش شعری مجموعہ ہے جو اردو غزل کے لازوال حسن کو ظاہر کرتا ہے۔ پروفیسر سید اشہد کریم اور ڈاکٹر قاسم خورشید کی طرف سے فراہم کردہ بصیرت افروز تبصروں کے ساتھ مل کر دلشاد نظمی کی ہنر میں مہارت، اس مجموعہ کو شاعری کے شائقین اور اہل علم کے لیے یکساں طور پر پڑھنا چاہیے۔ اپنی پُرجوش اشعار کے ذریعے، نظمی قارئین کو خود کی دریافت اور روشن خیالی کے ایک ماورائی سفر پر مدعو کرتے ہیں، جو ان کے کام کا سامنا کرنے والے تمام لوگوں کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔