دلہن اور دوسرے مائکروفکشن/ صنفی شناخت

دلہن اور دوسرے مائکروفکشن/ صنفی شناخت

Sep 25, 2023

مصنف

سید ماجد شاہ

شمارہ

شمارہ - ١٩

دیدبان شمارہ مئ تا اگست

دلہن اور دوسرے مائکروفکشن/ صنفی شناخت

  (سید ماجد شاہ)تبصرہ

     ایک مدت سے مختصر افسانے یا مائیکرو فکشن پر لکھنے کا ارادہ تھا۔خصوصاً اس صنف کے ان اوصاف یا عناصر کو ظاہر کرنے کا خیال تھا  جن کی مدد سے نہ صرف اس کی ہیئت کا تعین ہو سکے بلکہ اس صنف کی الگ شناخت بھی عام قاری کے ذہن میں واضح ہو جائے۔

      سب سے پہلے، میں فکشن کی ان تین کمزور تعریفوں کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں جن سے فکشن کی مختلف اصناف (ناول، ناولہ،ناولٹ، افسانہ، مختصر افسانہ/ مائکرو فکشن، افسانچہ اور لفظی کہانیاں وغیرہ)کی صنفی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

     ۱۔    الفاظ کی گنتی سے صنف کی پہچان۔

     ۲۔   متن کی لمبائی چوڑائی یا صفحوں کی تعدادسے ایک صنف کا دوسری سے جدا ہونا۔

     ۳۔   پڑھت کے وقت کا تعین کردینا، آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے میں ختم ہونے والی صنف یا ایک نشست میں ختم ہونے والی صنف وغیرہ۔

       جب ہم کسی صنف کی شناخت، اس کے متن میں موجود لفظوں کی تعداد گن کر کرتے ہیں تو اس کی ہیئت کی پہچان مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے۔ یوں روزمرّہ کے موضوعات پر صحافتی کہانیوں (جیسے سو لفظوں کی کہانی، تیس لفظوں کی کہانی)، کہانچیوں،افسانچے اور مختصر افسانے /مائیکرو فکشن کو الگ صنف ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورت ِ حال سے فائدہ اٹھا کر ہر لکھاری لفظوں کی تعداد میں ایک ایک لفظ کا اضافہ یا کمی کر کے نئی صنف ایجاد کرتا چلا جائے گا جس کے نتیجے میں اصناف کی کوئی حد مقرر نہیں ہوسکے گی۔دوسرا چھ سو لفظوں کی کہانی اور ایک ہزار لفظوں کی کہانی ایجاد ہونے کے بعد آپ اسے دیگر اصناف سے کیسے جدا کر کے ان کی الگ شناخت قائم کریں گے؟

      متن کی لمبائی ناپ کر یا صفحوں کی تعداد سے اصناف کی شناخت قائم کرنے کی غلطی سے ناولٹ نے جنم لیا حالانکہ ناولٹ کوئی صنف نہیں ہے۔فکشن کی ایسی تعریفوں نے ہمارے ہاں ناول کوبہت نقصان پہنچایا۔ ناولٹ کے لیے ہر ناولٹ نگار کے صفحوں کی تعداد بھی اپنی اپنی ہے۔یہ تعداد ۰۷، ۰۸ سے شروع ہوکر دو سو صفحات تک چلی جاتی ہے۔اپنی لکھت کو ناول ثابت کرنے کے چکر میں ہمارے لکھاری غیر ضروری اور بعض اوقات غیر منطقی واقعات بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ایک ایک واقعے کو بعض اوقات تین تین بارد ہرایا جاتا ہے اور کچھ نہیں بن پڑتا تو صفحے کی نارمل سیٹنگ سے ایک دو سطریں کم کر نے کے ساتھ ہر سطر میں الفاظ کی تعداد گھٹا دیتے ہیں تاکہ مجموعی طور پر صفحات کی تعداد ناولٹ کی حدود سے تجاوز کر کے ناول کی حدود میں داخل ہو جائے۔ ایسی مضحکہ خیز حرکتوں پر وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جب ہمارے پاس ناول کے عناصر، اس کا وسیع کینوس اور زندگی کے وسیع منظر کا احاطہ وغیرہ اس کی شناخت ہیں تو صفحے پچاس ہوں یا دو ہزار کیا فرق پڑتا ہے؟

     ایسی ہی غلط فہمی افسانے میں، اس معروف تعریف کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ افسانہ وہ کہانی ہے جو ایک نشست میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ایک نشست کی آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک کی پیمائش شروع ہو گئی،نتیجے کے طور پر افسانے کی طویل صورت سامنے آئی۔ طویل افسانہ لکھنے والوں نے یہ سوچے سمجھے بغیر منظر کشی کی بھرمار کر دی کہ آیا کہانی میں اس منظرکی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟اس عمل سے کہانی سست روی کا شکار ہو گئی۔خصوصاً علامتی افسانے کے بعد سادہ بیانیہ پر، کہانی لوٹ آنے کا جشن منانے والوں نے، کہانی اتنی ڈھیلی ڈھالی کردی کہ خدا کی پناہ!!!

     افسانے کے عناصر اور اس کا متعین وقت پورا کرنا اتنا اہم ہو گیا،کہ ہر ہر عنصر کو خوب کھینچا گیا کہ تکنیکی اعتبار سے افسانہ تعریف پر پورا اترنے لگا۔ناپ تول، پڑھت کا وقت سب درست لیکن ساتھ ہی ساتھ افسانے میں فنی جمالیات اور آرٹ کا شدید فقدان پیداہو گیا۔یوں محسوس ہونے لگا کہ ڈاکٹر انور سجاد اور انتظارحسین افسانے کوجس بلندی پر لے گئے تھے سیدھی سادی کہانی نما تحریروں نے اسے کسی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔اس سے نقصان یہ ہوا کہ تخلیقی ذہن جس نے اسلوب اور ٹریٹمنٹ کے نئے نئے تجربات کرنے تھے۔ ان کی بجائے سطحی ذہن کے لکھاری افسانے پر ٹوٹ پڑے۔ حد تو یہ ہے کہ اس جم غفیر نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ اکثر خود ہی نقاد بھی بن گئے۔ خود ہی مدعی، خود ہی منصف کے مصداق افسانے کی علمی،تحقیقی، مشاہداتی اور ادبی سطح متاثر ہوئی اور صحافتی اسلوب اور واقعات کی بھر مار نے افسانے کو سطحی جذباتیت سے جوڑ دیا۔

       اس صحافتی سلسلے سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ افسانہ واقعات کا محتاج ہو گیا۔اب واقعہ ہوا نہیں اور افسانہ آ گیا، پھر واقعات کا انتظار ہونے لگا۔ادھر واقعہ ہوا ادھر افسانوں کی کتاب تیار۔ تقسیم کے بعدشروع ہونے والا یہ سلسلہ دہشت گردی سے ہوتا ہوا’کرونا‘ تک آپہنچا۔یار لوگ اب بھی حادثے کے انتظار میں ہیں۔یہ تو بھلا ہو مائیکرو فکشن کا جس نے کہانی کو واقعات سے الگ کر کے خیال، نظریے، کسی فلسفے کے زیر اثر کرتے ہوئے مکمل تخلیقی تخیل کے تحت کردیا۔ جس کا اثر اب اکیسویں صدی کے افسانے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس سے غیر ضروری مواد غائب ہو چکا ہے۔ موضوع،اسلوب اور ٹریٹ منٹ کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔        

      میں عقیل عباس کا ممنون ہوں جس نے، اپنی کتاب”دلہن اور دوسرے مائیکرو فکشن“ ارسال کی اوراس کتاب سے میرے پاس ایسی کئی مثالیں اکٹھی ہو گئیں جن سے اس صنف کے اصل خد و خال مزیدواضح ہورہے ہیں۔ میں اپنی مختصر افسانوں کی کتاب ” ر “کے آغاز میں مختصر افسانے(مائیکرو فکشن) کا مقدمہ لکھنا چاہتا تھا، لیکن پھر کچھ مناسب نہ لگا کہ صرف اپنی تخلیقات کی مثالوں پر مبنی کوئی تحریر لکھی جائے۔  

       ”دلہن اور دوسرے مائیکرو فکشن“  چونکہ کتاب کے نام میں مائیکروفکشن کا لفظ شامل ہے سو میں اب مختصر افسانہ (جسے میں درست نام سمجھتا ہو ں)کی جگہ مائیکرو فکشن ہی استعمال کروں گا۔  

       مائیکروفکشن کے عناصر کہانی، پلاٹ، کردارنگاری، مکالمہ، وحدت تاثر، منظرکشی اور عنوان وغیرہ افسانے،لفظی کہانیوں اور افسانچے کے قریب تر ہیں لیکن یہ تمام عناصرمائیکرو فکشن میں اپنے مخصوص برتاؤ کی وجہ سے اس صنف کی الگ شناخت قائم کرتے ہیں۔

میں اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے ”دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن“ سے مثالیں پیش کر کے تمام عناصر پر فرداً فرداً بات کروں گا۔

کہانی:

       مائیکرو فکشن کہانی سنانے کی بجائے قاری کے ذہن میں کہانی متحرک کرنے کا نام ہے۔ اس لیے یہ صنف کبھی قاری کو صرف مکالمے سے، کہیں منظر کی ایک چھب دکھا کر اور کبھی کردار کے ایک رخ سے آشناکر کے اس کی تشنگی کو اس طرح بڑھاتی ہے کہ متجسس قاری، تخلیق کار کے تخلیقی تجربے میں شامل ہو جاتاہے۔اس لیے مائیکرو فکشن کی عمارت کسی حادثے یا سیاسی واقعے کی بجائے کسی خیال،نفسیاتی پیچیدگی، نظریے یا فلسفے پر کھڑی ہوتی ہے۔”دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن“ میں عقیل عباس نے کہانی کو واقعات کی جگہ خیال کی بنیاد فراہم کی ہے۔کتاب میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، خصوصاً”تہذیب کے قیدی“،”پینسل اور چڑیا“،”چاک“،”بھوک“ دیکھے جا سکتے ہیں۔      

موضوع:

       ”دلہن اور دوسرے مائیکرو فکشن“ پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ فکشن کی تقریباً تمام اصناف کا زیادہ تر موضوعاتی مواد،واقعات یا حادثات سے لیا جاتا ہے جیسے، ہند کی تقسیم، پھرپاکستان کی تقسیم، دہشت گردی، کورونا،معاشرتی مسائل، سیاسی یا سماجی حادثات مثلاً زینب سے جنسی زیادتی اور معاشرتی اونچ نیچ کے واقعات،مارشل لا وغیرہ۔ جبکہ مائیکرو فکشن واقعہ کو متن کا حصہ بنانے کی بجائے اس واقعہ کے پس ِپردہ، حقائق کو متن کا حصہ بناتا ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مائیکرو فکشن کا موضوع، تخلیق کار کی فکراوراس کے تخیل کا مرہون منت ہے۔ یوں مائیکروفکشن کسی بھی، تھیوری، بیانیے،رجحان یا تحریک سے بلند سطح پر جا کر دنیا کی کل کو اپنے اندر سمو لیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنف میں موضوعاتی تنوع ہونے کے ساتھ عہد ِ حاضر کو درپیش خطرات کو محسوس کرنے کی صلاحیت اور انھیں فنی پختگی سے پیش کرنے کی مہارت،دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ موجود ہے۔

عنوان:

      مائیکرو فکشن لکھنے والوں کے لیے سب سے بڑا امتحان،عنوان ہوتا ہے۔ متن کا چست ہونا لازمی عنصر ہے اس لیے عنوان میں روایتی انداز نہیں برتا جاسکتا۔ افسانچے یا افسانے میں عموماً موضوع کے قریب کا کوئی لفظ اوراکثر وہ بھی ایسا لفظ جوافسانچے یا افسانے کے متن میں بار بار دہرایا گیا ہو، ان کے ماتھے پر سجا دیا جاتا ہے، جبکہ مائکرو فکشن میں اسے کہانی کا جزو بنایا جاتا ہے۔آئیڈیل عنوان وہ ہوتا ہے جس کے بغیر مائیکروفکشن سمجھ ہی نہ آئے۔ یعنی صرف متن پڑھ لینے سے مسئلہ حل نہ ہو۔اس سلسلے میں عقیل عباس کے مائیکروفکشن ”لزباس کی ملکہ“  اور ”لا شعور کی سازش“ خاص طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔  

وحدت تاثر:

    افسانے اور افسانچے کی طرح وحدت تاثر مائیکروفکشن کا بھی لازمی جزو ہے لیکن یہاں شعوری طور پر وحدت تاثر کو مائیکروفکشن کا مخصوص اسلوب اور ٹریٹ منٹ ”یک رخا“ نہیں رہنے دیتی۔ اس لیے یہاں وحدت تاثر کے دو یا دو سے زیادہ شیڈز بن جاتے ہیں جو کہانی کو موضوعاتی سطح پر تنوع بخشتے ہیں۔ عقیل عباس کے مائیکروفکشن”دلہن“ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں، مذہب پر طنز، خدا کے نام پر مذہبی پیشواؤں کا دوغلہ پن اور عورت کی نفسیات کو اس طور بیان کیا گیا ہے کہ قاری کو وحدت تاثر کے مختلف شیڈز دکھائی دیتے ہیں۔

          مثال دیکھیے۔ مائیکروفکشن ”دلہن“ کا پادری جب لڑکی کو یہ بتاتا ہے کہ اس میں خدا کی روح حلول کر جائے گی اور خدا اس سے شادی کرے گا۔پھر اس بات کی تصدیق لڑکی سے یہ کہہ کر کرواتا ہے کہ کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں تو لڑکی کا مکالمہ دیکھیں۔ ”نہیں فادر“ اس دو لفظی مکالمے سے لڑکی کی سادگی ہی نہیں بلکہ جنسی عمل کے لیے اس کی رضا مندی بھی ظاہر ہو رہی ہے۔دوسرا پادری کو بھی مکمل تحفظ کا احساس فراہم کیا جا رہا ہے۔

  اسی طرح جنسی عمل کے دوران، لڑکی جسے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ عورت ازلی گناہ گار ہے۔ اب پادری اس کے پاؤں اور جائے خفی کو بوسے دیتا ہے تو وہ سوچتی ہے کہ جب خدا اس شخص میں حلول کرکے، میرے تلوے چاٹ رہا ہے تو اس میں غرور پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اسی غرور میں یہ سمجھتی ہے کہ آج خدا اس کی دسترس میں ہے۔ اب اس مائیکروفکشن کے متن میں کہیں کسی جگہ پر کوئی طنزیہ جملہ موجودنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وحدت تاثر کو آپ جتنی بار سوچیں گے وہ نئے معنی میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہوگا۔ اگر اس مائیکروف میں مصنف کسی ایک کردار کے حق یا مخالفت میں ایک لفظ کا بھی اضافہ کر دیتا مثلاً وحشی، ہوس پرست، جسم نوچتا رہا، یا لڑکی کے لیے معصوم، مجبور وغیرہ تو اس سے بھی وحدت تاثر”یک رخا“ ہو جاتا۔    

آغاز:

      مائیکروفکشن نہ صرف مختصر نویسی کے ذیل میں آتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے توسط سے، قاری کی جو تربیت ہو رہی ہے اس سے بھی آگاہ ہے۔  مائیکروفکشن کے پہلے دو تین جملوں میں قاری کو اس طرح گرفت میں لینا ہوتا ہے کہ اس کا موضوع سے تعارف بھی ہو جائے اوروہ اسلوب کے علامتی نظام سے بھی جڑ جائے۔ ذہین تخلیق کاریہ فائدہ بیک وقت عنوان اور آغاز کے چند جملوں سے اس طرح لیتا ہے کہ قاری کا تجسس اختتام تک کہانی سے جڑا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں عقیل عباس کا مائیکروفکشن ”سپارٹکس“ دیکھیے:

                 ”دھوپ میں اس کے چمکتے بدن کی لچک اور اس کے وار کی گرمی دیکھ کر اکھاڑے کی

                   سیڑھیوں پر بیٹھی خوش بدن لڑکیاں اپنی قبائیں پھاڑ لیتی تھیں۔“

     عنوان ”سپارٹکس“ پڑھتے ہی آپ تاریخ سے جڑ جاتے ہیں اور آغاز،ہیرو کی وجاہت اور بہادری دکھا کر کہانی میں تجسس بھی پیدا کرتا ہے اور موضوع کا اعلان بھی کافی حد تک ہوجاتا ہے۔  

پلاٹ:

      مائیکروفکشن میں اختصار اور جامعیت کوپیش ِ نظر رکھا جاتا ہے۔اس کا اسلوب وضاحتی انداز کی جگہ ایمائیت اور اشارے میں کہانی بیان کرتا ہے اس لیے کسی پیچیدہ اور غیر منظم پلاٹ کی گنجائیش کم ہوتی ہے عموماً پلاٹ سادہ مگر چست ہوتا ہے۔کیونکہ زیادہ تر دو یا تین واقعات میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ اس لیے مائیکرو فکشن میں مربوط پلاٹ، ہی کہانی میں تجسس کو قائم رکھتا ہے مثلاً”لاشعور کی سازش“ میں صرف دو واقعات ہیں پہلے میں، مرکزی کردار ایک مشہور ایکٹریس کی مخملیں بانہوں میں جھول رہا ہے اور اس کا لمس محسوس کر رہا ہے جبکہ دوسرے منظر میں وہ بیدار ہو جاتا ہے اوررانوں میں پھسلتے سیال سے، ناگواری اس کے چہرے کی ہیئت تبدیل کر دیتی ہے۔اب ان دو واقعات کی ترتیب ہی مائیکروفکشن کی دلچسپی کو برقرار رکھتی ہے اور لاشعور کی سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔

اسلوب:  

      مائیکروفکشن کے علامتی اسلوب میں ایمائیت اور اشارے سے کام لیا جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں افسانچہ سادہ بیانیے میں موضوع کوسطحی انداز میں یوں برت دیتا ہے کہ واقعے کی ایک ظاہری صورت، بڑے واضح اور غیر پیچیدہ انداز میں قاری تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ مائیکروفکشن کا خاص اسلوب کہانی کو یوں بڑھاتا ہے کہ موضوع کے پس منظر میں پوشیدہ وہ حقائق جو عام نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں وہ بھی قاری پر آشکار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً،مائیکروفکشن”ڈرپوک“کی یہ لائنیں دیکھیں۔

                   ”باہر بجلیاں کڑک رہی تھیں۔بادل اپنے بھاری بھرکم رتھ کھینچ رہے تھے بد شکل آدم خور۔

                    میرے لیپ ٹاپ کی سکرین پر گروپ میں نکلے دوستوں کے شکار کے مزا لے رہے تھے

                   ۔۔۔۔لیپ ٹاپ بند ہو گیا اور  Wrong Turn کا آدم خور اندھیرے میں آنکھیں

                   پھاڑے مجھے گھورنے لگا۔ میں نے کمبل کھینچ کر اوپر لے لیا اور کچھ پڑھ کر اپنے اطراف

                         پھونکنے لگا۔“

             

منظر:

      مائیکرو فکشن میں چونکہ تمام عناصر کو الگ الگ نہیں برتا جا تا، بعض اوقات ایک دو عناصر سے ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ، ان خاص عناصر کی تمام باریکیاں متن میں در آئیں اور دوسرے عناصر کی عدم موجودگی کا احساس بھی نہ ہو (مکالمے کی ہیڈنگ کے تحت اس بات کی مزید وضاحت دیکھی جا سکتی ہے۔)  عقیل عباس کے ہاں مائیکروفکشن ”ڈر“ میں منظر نگاری کی عمدہ مثال موجود ہے۔۔۔۔ کوری ڈور کا آخری کمرہ،رات کی وحشت، اندھیرے میں تنہائی سے عدم تحفظ کا احساس، ایسی حالت میں خوف کو سہلانے اور بھلانے کے لیے فیس بک، بدنام ویب سائیٹ سے توجہ ادھر ادھر کرنا۔۔۔  چند لائینوں میں ایسی منظر نگاری کی گئی ہے کہ قاری،کو وہی احساس جکڑ لیتا ہے جیسے کوئی ہارر فلم دیکھنے سے محسوس ہوتاہے۔

مکالمہ:

      مائیکرو فکشن میں مکالمہ انتہائی اہم عنصرہے۔ مائیکروفکشن چونکہ اختصار اور جامعیت کی کامل صورت ہے اس لیے بعض اوقات صرف ایک مکالمے سے وہ فضا پیدا کی جاتی ہے

کہ گھر کا منظر،موضوع کی شدت، کرداروں کے حلیے، ان کی معاشی حالت،وغیرہ سب صرف ایک جملے میں سمٹ آتے ہیں۔ اس سلسلے میں ”افلاس“  ایک عمدہ مثال ہے۔جو غربت کے موضوع پر تحریر کیا گیا ہے۔ بھوک پر دنیا کی ہر زبان میں اور ہر صنف میں لکھا گیا ہے، لیکن جب یہ مسئلہ مائیکروفکشن میں آتا ہے تو ”افلاس“ کا صرف ایک مکالمہ دیکھیے، جب بھوکے بچے ماں کو مینڈک پکڑ کر دیتے ہوئے کہتے ہیں،”یہ پکا دو۔“ اس معصومانہ شدت سے یہ مکالمہ آیا ہے کہ اس کے بعد ان بھوکے بچوں کے حلیے، ان کے گھر کی حالت زار،ان کی ماں کا لباس سب کچھ قاری کی آنکھوں میں خود بخود گھوم جاتا ہے اور ہر قاری اپنے ثقافتی اور سماجی پس منظر میں اس کہانی کے گمشدہ گوشوں کو مکمل کرتا ہے۔ایسی عالم گیر فضا، صرف مائیکرو فکشن ہی پیدا کر سکتا ہے۔

کردار نگاری:

     ”دلہن اور دوسرے مائکروفکشن“میں کردار نگاری کی وہ عمدہ مثالیں موجود ہیں جو ایک کامیاب مائیکروفکشن کا خاصا ہوا کرتی ہیں اور اسے دوسری اصناف سے ممتاز بھی کرتی ہیں۔جیسے اوپر مکالمے میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کردار کا حلیہ اور منظر بعض اوقات ایک مکالمے میں اس طرح غیر محسوس طریقے سے جڑ دیا جاتا ہے کہ باقی تفصیلات اضافی ہو جاتی ہیں۔ مائیکروفکشن میں کردار نگاری کو سمجھنے کے لیے،مرزاغالب کے اس شعر کے کرداروں کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ مائیکروفکشن کی کردارنگاری، مکالمہ،جزئیات نگاری،،منظر نگاری غزل کے زیادہ قریب ہے۔

      پہلے شعر دیکھیے،

        ہاں وہ نہیں  خدا پرست ،  جاؤ  وہ  بے وفا  سہی

        جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

  ان دو مصرعوں میں آپ کو تین کردار ملتے ہیں۔ ایک محبوب جو نہ خدا کو مانتا ہے نہ با وفا ہے۔یعنی شدید نرگسیت کا شکار ہے۔ محبوب کے عشوہ و نازو ادا کا اندازہ آپ بغیر کچھ جانے لگا سکتے ہیں۔ دوسرا کردار عاشق کا ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود کسی پروانے کی طرح شمع پر فنا ہونے کے لیے تیار ہے۔وہ سود وزیاں سے بے نیاز ہے۔ جبکہ تیسرا کردار، ناصح کا ہے جو صرف نصیحت نہیں کر رہا بلکہ مسلسل عاشق سے ترک تعلق پر اصراربھی کر رہا ہے۔ ناصح کا مسلسل اصرار شعر کے پہلے لفظ ”ہاں“ سے ظاہر ہو رہا ہے۔اب اس ایک شعر میں ہم تین کرداروں کی صرف ذہنی حالت سے آگاہ نہیں ہورہے بلکہ ان کی مکمل تصویر کشی بھی کر سکتے ہیں۔

      کردارنگاری کی ایسی ہی مثالیں مائیکروفکشن کی جان ہیں۔جو دوسری نثری اصناف میں ناپید ہیں۔کردار نگاری کے سلسلے میں آپ عقیل عباس کے مائیکروفکشن ”دلھن“  کے کرداروں، داسی اور فادر کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔اسی طرح ”لاشعور کی سازش“ کے مرکزی کردار کا تجزیہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

سراپا:

       عقیل عباس کا مائیکروفکشن ”زمین“۔۔۔۔ جو آدھے صفحے کی کہانی ہے۔۔۔۔اس میں ایک شخص جو، زمین کے تباہ ہوجانے کے بعد خلاؤں میں زندہ رہ رہا ہے اور زمین کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔ اس کے مکالمے اس کی عمر کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ،اس کا حلیہ بھی بیان کر رہے ہیں۔

        ہائے میرے بچو!

        مجھے بتاؤ میں کیوں اپنی چھاتی کے بال نہ نوچ لوں جبکہ زمین تباہ ہو چکی۔۔۔۔

        کیونکر میں اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں کو اپنے گنجے سر پر زخم لگانے سے روک رکھوں۔۔۔۔

        ان مثالوں میں، میرے بچو! کہنے سے اس کی عمر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح چھاتی پر بال، بڑھے ہوئے ناخن، گنجا سر، سراپا نگاری کی وہ عمدہ مثال ہے جومائیکروفکشن کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی طرح عقیل عباس کامائیکروفکشن ”نظم“ بھی سراپا نگاری کی عمدہ مثال ہے۔

جامعیت:

      عقیل عباس کی کتاب ”دلھن اور دوسرے مائکرو فکشن“ میں جامعیت کی عمدہ مثالیں موجود ہیں اس سلسلے میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ خصوصاً ”تیسری تصویر“  میں اپنے عہد کے مسئلے کو جس طرح ماضی کی اولین تاریخی صورت سے ملا کر دیکھا گیا ہے، وہ کمال کا درجہ رکھتی ہے۔کہانی کا دورانیہ صرف اتنا ہے کہ راوی ایک تصویر انٹر نیٹ پر دیکھتا ہے جس میں دو عورتیں محبت کے رشتے میں بندھی ہوئی دکھائی گئی ہیں۔ اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کسی سازش کے تحت ہمیں دکھایا جارہا ہے۔ پھر اس کا خیال لزباس کی شاعرہ سیفو کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس مختصر ترین دورانیے کے مائیکرو فکشن کو جوہزاروں سال پرمحیط ہے ایک مختصر مگر جامع فکشن میں پیش کیا گیا ہے۔ در اصل یہی مائیکرو فکشن ہے۔اس سلسلے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مائیکرو فکشن کی روح روزمرہ کے واقعاتی ادب کی ہرگز نہیں ہے۔ یہ صنف اپنی منفرد بنت میں تخیل،تجسس، علم، تحقیق اور تجربے کی

آمیزش کا نام ہے۔

انجام:

      عموماً،مائیکروفکشن کا انجام نہ تو افسانچے کی طرح انتہائی وضاحتی، صحافیانہ یا ناصحانہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی واقعے کی تکمیلی صورت اختیار کرتا ہے۔ ایک بہترین مائیکروفکشن کی پنچ لائن میں تکمیلیت کی بجائے، کہانی کے جاری ہونے کا احساس ملتا ہے جسے ادھورے پن سے بھی مثال دی جا سکتی ہے۔ جیسے عقیل عباس کے مائیکرو فکشن”ادھیڑبن“ کی پنچ لائن دیکھیں:”ایک شاعر کے تخیل کا تجربہ ابھی پوری طرح کا میاب نہ ہو سکا تھا۔“

      اسی طرح مائیکروفکشن ”سپارٹکس“ جو عظیم باغی تھا۔ صدیوں پہلے اس کی تحریک ناکام ہوئی۔ اس کی گمنام قبر کا ذکر کرتے ہوئے مائیکروفکشن کا اختتامی جملہ دیکھیں:”میرا ذہن ہے کہ آج بھی اس کی کہیں نہ بننے والی قبر کے سرہانے بیٹھاایک عظیم ایمپائر کی تباہی کے تانے بانے بنتا رہتا ہے۔“

       جس مائیکروفکشن کاانجام وضاحتی یا تکمیلی انداز کا ہو تو وہاں کہانی کی مجموعی فضا میں کچھ ایسے حصے ضرور موجودہوتے ہیں جن کی تکمیل قاری کے ذہن میں ہی ممکن ہے۔ مثلاً کردارکے کچھ حصے کو پوشیدہ رکھنا، مکالمے کو استفہامیہ کر دینایا  منظر کی ایسی چھب دکھانا کہ نہ پورا واضح ہو نہ پوشیدہ یعنی کہیں ایسی تشنگی ضرور چھوڑی جاتی ہے کہ اس کی تکمیل ہر قاری اپنے ثقافتی ماحول یا تجربے کے مطابق کر سکتا ہے۔

      شاید چندعناصر میں آپ کو افسانے، افسانچے اور مائیکروفکشن میں مماثلتیں نظر آئیں لیکن اگر مجموعی طور پر آپ اس صنف کا جائزہ لیں گے تو یقیناً آپ کو مائیکروفکشن ایک الگ صنف نظر آئے گی۔جو ادبی اصناف میں اپنی جدا شناخت کے ساتھ اعتماد سے کھڑی ہے۔

      مائیکرو فکشن وقت کی اہم ضرورت ہے، یہ صنف موجودہ دور کی روح عصر(اختصار اور جامعیت) سے جڑی ہوئی ہے۔ آپ کو زندگی کے ہر میدان میں یہی اختصار اور جامعیت نظر آئے گی۔ ٹک ٹاک جو بلامبالغہ کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں اُن لوگوں پر اِن مختصر ٹکڑوں کا اثر ہو رہا ہے۔ اسی طرح کرکٹ میں ٹی ٹونٹی سے ٹی ۰۱ کا سفر، فلم کاتین گھنٹے کی بجائے منٹوں میں سمٹ آنا،یہ سب چیزیں جنریشن ایلفا کی سائیکی کا حصہ بن رہی ہیں۔

      مائیکروفکشن میں، عناصر کا اختصار اور جامعیت کے ساتھ منفرد برتاؤ ہی وہ خوبی ہے کہ اس میں باقی اصناف سے کہیں زیادہ کامیاب موضوعاتی تجربات ہو چکے ہیں۔اس سلسلے میں کریڈٹ سید تحسین گیلانی کو جاتا ہے۔جنھوں نے فیس بک پر انہماک انٹرنیشنل فورم بنا کرکئی کامیاب موضوعاتی تجربات کیے ہیں۔ ان موضوعاتی ایونٹس کی تفصیل دیکھیے۔تجریدی مائیکروف،علامتی مائیکروف، سائنس فکشن،کرائم مائیکروف، سائی بورگ مائیکروف، ہارر مائیکروف، نفسیاتی مائیکروف، فینٹسی مائیکروف، مسٹری مائیکروف،تھرلر مائیکروف، رومانٹک فینٹسی مائیکروف،ٹریجڈی مائیکروف، فیو چر سٹک مائیکروف، مکالماتی مائیکروف وغیرہ۔

      بعض کم فہم نقاد اس صنف کو افسانچہ سمجھ لیتے ہیں جبکہ افسانچہ اسم تصغیر ہے۔ اسم تصغیر چھوٹی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے افسانچہ صنف کے اعتبار سے ایسی سیدھی سادی،عام سی کہانی، جو روزمرہ کے واقعات پر مبنی ہو،اسلوب صحافتی ہو،پنچ لائن وضاحتی یا تفہیمی ہو۔ایسی کہانیوں کو افسانچہ کہا جاتا ہے۔افسانچے پرچٹکلے اور لطیفے کی پھبتیاں کسی جاتی ہیں لیکن یہ مناسب نہیں وہ ان کے قریب ضرور ہے لیکن ایک ادبی صنف کی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ مائیکرو فکشن اپنی تہہ داری، علامتی انداز، فکری موضوعات کے علاوہ اپنے مخصوص اسلوب میں منظر نگاری، مکالمہ، پلاٹ، کردار نگاری وغیرہ کو،اختصار اور جامعیت کے ساتھ ادبی جمالیاتی سطح پر برتنے کا نام ہے۔

      کتاب ”دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن“ جہاں مائیکروفکشن کی پہلی کتاب ہے وہاں اس نے مائیکرو فکشن کے صنفی اصول و ضوابط میں بھی اہم فریضہ انجام دیا ہے۔عقیل عباس نے اپنی تازہ فکر اور ادبی جمالیات سے جو گلدستہ سجایا ہے اس نے نہ صرف ادبی اصناف میں مائیکروفکشن کو الگ صنفی شناخت دی ہے بلکہ اس کے وقار میں بھی اضافہ کیا ہے۔

دیدبان شمارہ مئ تا اگست

دلہن اور دوسرے مائکروفکشن/ صنفی شناخت

  (سید ماجد شاہ)تبصرہ

     ایک مدت سے مختصر افسانے یا مائیکرو فکشن پر لکھنے کا ارادہ تھا۔خصوصاً اس صنف کے ان اوصاف یا عناصر کو ظاہر کرنے کا خیال تھا  جن کی مدد سے نہ صرف اس کی ہیئت کا تعین ہو سکے بلکہ اس صنف کی الگ شناخت بھی عام قاری کے ذہن میں واضح ہو جائے۔

      سب سے پہلے، میں فکشن کی ان تین کمزور تعریفوں کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں جن سے فکشن کی مختلف اصناف (ناول، ناولہ،ناولٹ، افسانہ، مختصر افسانہ/ مائکرو فکشن، افسانچہ اور لفظی کہانیاں وغیرہ)کی صنفی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

     ۱۔    الفاظ کی گنتی سے صنف کی پہچان۔

     ۲۔   متن کی لمبائی چوڑائی یا صفحوں کی تعدادسے ایک صنف کا دوسری سے جدا ہونا۔

     ۳۔   پڑھت کے وقت کا تعین کردینا، آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے میں ختم ہونے والی صنف یا ایک نشست میں ختم ہونے والی صنف وغیرہ۔

       جب ہم کسی صنف کی شناخت، اس کے متن میں موجود لفظوں کی تعداد گن کر کرتے ہیں تو اس کی ہیئت کی پہچان مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے۔ یوں روزمرّہ کے موضوعات پر صحافتی کہانیوں (جیسے سو لفظوں کی کہانی، تیس لفظوں کی کہانی)، کہانچیوں،افسانچے اور مختصر افسانے /مائیکرو فکشن کو الگ صنف ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورت ِ حال سے فائدہ اٹھا کر ہر لکھاری لفظوں کی تعداد میں ایک ایک لفظ کا اضافہ یا کمی کر کے نئی صنف ایجاد کرتا چلا جائے گا جس کے نتیجے میں اصناف کی کوئی حد مقرر نہیں ہوسکے گی۔دوسرا چھ سو لفظوں کی کہانی اور ایک ہزار لفظوں کی کہانی ایجاد ہونے کے بعد آپ اسے دیگر اصناف سے کیسے جدا کر کے ان کی الگ شناخت قائم کریں گے؟

      متن کی لمبائی ناپ کر یا صفحوں کی تعداد سے اصناف کی شناخت قائم کرنے کی غلطی سے ناولٹ نے جنم لیا حالانکہ ناولٹ کوئی صنف نہیں ہے۔فکشن کی ایسی تعریفوں نے ہمارے ہاں ناول کوبہت نقصان پہنچایا۔ ناولٹ کے لیے ہر ناولٹ نگار کے صفحوں کی تعداد بھی اپنی اپنی ہے۔یہ تعداد ۰۷، ۰۸ سے شروع ہوکر دو سو صفحات تک چلی جاتی ہے۔اپنی لکھت کو ناول ثابت کرنے کے چکر میں ہمارے لکھاری غیر ضروری اور بعض اوقات غیر منطقی واقعات بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ایک ایک واقعے کو بعض اوقات تین تین بارد ہرایا جاتا ہے اور کچھ نہیں بن پڑتا تو صفحے کی نارمل سیٹنگ سے ایک دو سطریں کم کر نے کے ساتھ ہر سطر میں الفاظ کی تعداد گھٹا دیتے ہیں تاکہ مجموعی طور پر صفحات کی تعداد ناولٹ کی حدود سے تجاوز کر کے ناول کی حدود میں داخل ہو جائے۔ ایسی مضحکہ خیز حرکتوں پر وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جب ہمارے پاس ناول کے عناصر، اس کا وسیع کینوس اور زندگی کے وسیع منظر کا احاطہ وغیرہ اس کی شناخت ہیں تو صفحے پچاس ہوں یا دو ہزار کیا فرق پڑتا ہے؟

     ایسی ہی غلط فہمی افسانے میں، اس معروف تعریف کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ افسانہ وہ کہانی ہے جو ایک نشست میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ایک نشست کی آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک کی پیمائش شروع ہو گئی،نتیجے کے طور پر افسانے کی طویل صورت سامنے آئی۔ طویل افسانہ لکھنے والوں نے یہ سوچے سمجھے بغیر منظر کشی کی بھرمار کر دی کہ آیا کہانی میں اس منظرکی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟اس عمل سے کہانی سست روی کا شکار ہو گئی۔خصوصاً علامتی افسانے کے بعد سادہ بیانیہ پر، کہانی لوٹ آنے کا جشن منانے والوں نے، کہانی اتنی ڈھیلی ڈھالی کردی کہ خدا کی پناہ!!!

     افسانے کے عناصر اور اس کا متعین وقت پورا کرنا اتنا اہم ہو گیا،کہ ہر ہر عنصر کو خوب کھینچا گیا کہ تکنیکی اعتبار سے افسانہ تعریف پر پورا اترنے لگا۔ناپ تول، پڑھت کا وقت سب درست لیکن ساتھ ہی ساتھ افسانے میں فنی جمالیات اور آرٹ کا شدید فقدان پیداہو گیا۔یوں محسوس ہونے لگا کہ ڈاکٹر انور سجاد اور انتظارحسین افسانے کوجس بلندی پر لے گئے تھے سیدھی سادی کہانی نما تحریروں نے اسے کسی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔اس سے نقصان یہ ہوا کہ تخلیقی ذہن جس نے اسلوب اور ٹریٹمنٹ کے نئے نئے تجربات کرنے تھے۔ ان کی بجائے سطحی ذہن کے لکھاری افسانے پر ٹوٹ پڑے۔ حد تو یہ ہے کہ اس جم غفیر نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ اکثر خود ہی نقاد بھی بن گئے۔ خود ہی مدعی، خود ہی منصف کے مصداق افسانے کی علمی،تحقیقی، مشاہداتی اور ادبی سطح متاثر ہوئی اور صحافتی اسلوب اور واقعات کی بھر مار نے افسانے کو سطحی جذباتیت سے جوڑ دیا۔

       اس صحافتی سلسلے سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ افسانہ واقعات کا محتاج ہو گیا۔اب واقعہ ہوا نہیں اور افسانہ آ گیا، پھر واقعات کا انتظار ہونے لگا۔ادھر واقعہ ہوا ادھر افسانوں کی کتاب تیار۔ تقسیم کے بعدشروع ہونے والا یہ سلسلہ دہشت گردی سے ہوتا ہوا’کرونا‘ تک آپہنچا۔یار لوگ اب بھی حادثے کے انتظار میں ہیں۔یہ تو بھلا ہو مائیکرو فکشن کا جس نے کہانی کو واقعات سے الگ کر کے خیال، نظریے، کسی فلسفے کے زیر اثر کرتے ہوئے مکمل تخلیقی تخیل کے تحت کردیا۔ جس کا اثر اب اکیسویں صدی کے افسانے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس سے غیر ضروری مواد غائب ہو چکا ہے۔ موضوع،اسلوب اور ٹریٹ منٹ کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔        

      میں عقیل عباس کا ممنون ہوں جس نے، اپنی کتاب”دلہن اور دوسرے مائیکرو فکشن“ ارسال کی اوراس کتاب سے میرے پاس ایسی کئی مثالیں اکٹھی ہو گئیں جن سے اس صنف کے اصل خد و خال مزیدواضح ہورہے ہیں۔ میں اپنی مختصر افسانوں کی کتاب ” ر “کے آغاز میں مختصر افسانے(مائیکرو فکشن) کا مقدمہ لکھنا چاہتا تھا، لیکن پھر کچھ مناسب نہ لگا کہ صرف اپنی تخلیقات کی مثالوں پر مبنی کوئی تحریر لکھی جائے۔  

       ”دلہن اور دوسرے مائیکرو فکشن“  چونکہ کتاب کے نام میں مائیکروفکشن کا لفظ شامل ہے سو میں اب مختصر افسانہ (جسے میں درست نام سمجھتا ہو ں)کی جگہ مائیکرو فکشن ہی استعمال کروں گا۔  

       مائیکروفکشن کے عناصر کہانی، پلاٹ، کردارنگاری، مکالمہ، وحدت تاثر، منظرکشی اور عنوان وغیرہ افسانے،لفظی کہانیوں اور افسانچے کے قریب تر ہیں لیکن یہ تمام عناصرمائیکرو فکشن میں اپنے مخصوص برتاؤ کی وجہ سے اس صنف کی الگ شناخت قائم کرتے ہیں۔

میں اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے ”دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن“ سے مثالیں پیش کر کے تمام عناصر پر فرداً فرداً بات کروں گا۔

کہانی:

       مائیکرو فکشن کہانی سنانے کی بجائے قاری کے ذہن میں کہانی متحرک کرنے کا نام ہے۔ اس لیے یہ صنف کبھی قاری کو صرف مکالمے سے، کہیں منظر کی ایک چھب دکھا کر اور کبھی کردار کے ایک رخ سے آشناکر کے اس کی تشنگی کو اس طرح بڑھاتی ہے کہ متجسس قاری، تخلیق کار کے تخلیقی تجربے میں شامل ہو جاتاہے۔اس لیے مائیکرو فکشن کی عمارت کسی حادثے یا سیاسی واقعے کی بجائے کسی خیال،نفسیاتی پیچیدگی، نظریے یا فلسفے پر کھڑی ہوتی ہے۔”دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن“ میں عقیل عباس نے کہانی کو واقعات کی جگہ خیال کی بنیاد فراہم کی ہے۔کتاب میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، خصوصاً”تہذیب کے قیدی“،”پینسل اور چڑیا“،”چاک“،”بھوک“ دیکھے جا سکتے ہیں۔      

موضوع:

       ”دلہن اور دوسرے مائیکرو فکشن“ پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ فکشن کی تقریباً تمام اصناف کا زیادہ تر موضوعاتی مواد،واقعات یا حادثات سے لیا جاتا ہے جیسے، ہند کی تقسیم، پھرپاکستان کی تقسیم، دہشت گردی، کورونا،معاشرتی مسائل، سیاسی یا سماجی حادثات مثلاً زینب سے جنسی زیادتی اور معاشرتی اونچ نیچ کے واقعات،مارشل لا وغیرہ۔ جبکہ مائیکرو فکشن واقعہ کو متن کا حصہ بنانے کی بجائے اس واقعہ کے پس ِپردہ، حقائق کو متن کا حصہ بناتا ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مائیکرو فکشن کا موضوع، تخلیق کار کی فکراوراس کے تخیل کا مرہون منت ہے۔ یوں مائیکروفکشن کسی بھی، تھیوری، بیانیے،رجحان یا تحریک سے بلند سطح پر جا کر دنیا کی کل کو اپنے اندر سمو لیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنف میں موضوعاتی تنوع ہونے کے ساتھ عہد ِ حاضر کو درپیش خطرات کو محسوس کرنے کی صلاحیت اور انھیں فنی پختگی سے پیش کرنے کی مہارت،دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ موجود ہے۔

عنوان:

      مائیکرو فکشن لکھنے والوں کے لیے سب سے بڑا امتحان،عنوان ہوتا ہے۔ متن کا چست ہونا لازمی عنصر ہے اس لیے عنوان میں روایتی انداز نہیں برتا جاسکتا۔ افسانچے یا افسانے میں عموماً موضوع کے قریب کا کوئی لفظ اوراکثر وہ بھی ایسا لفظ جوافسانچے یا افسانے کے متن میں بار بار دہرایا گیا ہو، ان کے ماتھے پر سجا دیا جاتا ہے، جبکہ مائکرو فکشن میں اسے کہانی کا جزو بنایا جاتا ہے۔آئیڈیل عنوان وہ ہوتا ہے جس کے بغیر مائیکروفکشن سمجھ ہی نہ آئے۔ یعنی صرف متن پڑھ لینے سے مسئلہ حل نہ ہو۔اس سلسلے میں عقیل عباس کے مائیکروفکشن ”لزباس کی ملکہ“  اور ”لا شعور کی سازش“ خاص طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔  

وحدت تاثر:

    افسانے اور افسانچے کی طرح وحدت تاثر مائیکروفکشن کا بھی لازمی جزو ہے لیکن یہاں شعوری طور پر وحدت تاثر کو مائیکروفکشن کا مخصوص اسلوب اور ٹریٹ منٹ ”یک رخا“ نہیں رہنے دیتی۔ اس لیے یہاں وحدت تاثر کے دو یا دو سے زیادہ شیڈز بن جاتے ہیں جو کہانی کو موضوعاتی سطح پر تنوع بخشتے ہیں۔ عقیل عباس کے مائیکروفکشن”دلہن“ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں، مذہب پر طنز، خدا کے نام پر مذہبی پیشواؤں کا دوغلہ پن اور عورت کی نفسیات کو اس طور بیان کیا گیا ہے کہ قاری کو وحدت تاثر کے مختلف شیڈز دکھائی دیتے ہیں۔

          مثال دیکھیے۔ مائیکروفکشن ”دلہن“ کا پادری جب لڑکی کو یہ بتاتا ہے کہ اس میں خدا کی روح حلول کر جائے گی اور خدا اس سے شادی کرے گا۔پھر اس بات کی تصدیق لڑکی سے یہ کہہ کر کرواتا ہے کہ کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں تو لڑکی کا مکالمہ دیکھیں۔ ”نہیں فادر“ اس دو لفظی مکالمے سے لڑکی کی سادگی ہی نہیں بلکہ جنسی عمل کے لیے اس کی رضا مندی بھی ظاہر ہو رہی ہے۔دوسرا پادری کو بھی مکمل تحفظ کا احساس فراہم کیا جا رہا ہے۔

  اسی طرح جنسی عمل کے دوران، لڑکی جسے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ عورت ازلی گناہ گار ہے۔ اب پادری اس کے پاؤں اور جائے خفی کو بوسے دیتا ہے تو وہ سوچتی ہے کہ جب خدا اس شخص میں حلول کرکے، میرے تلوے چاٹ رہا ہے تو اس میں غرور پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اسی غرور میں یہ سمجھتی ہے کہ آج خدا اس کی دسترس میں ہے۔ اب اس مائیکروفکشن کے متن میں کہیں کسی جگہ پر کوئی طنزیہ جملہ موجودنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وحدت تاثر کو آپ جتنی بار سوچیں گے وہ نئے معنی میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہوگا۔ اگر اس مائیکروف میں مصنف کسی ایک کردار کے حق یا مخالفت میں ایک لفظ کا بھی اضافہ کر دیتا مثلاً وحشی، ہوس پرست، جسم نوچتا رہا، یا لڑکی کے لیے معصوم، مجبور وغیرہ تو اس سے بھی وحدت تاثر”یک رخا“ ہو جاتا۔    

آغاز:

      مائیکروفکشن نہ صرف مختصر نویسی کے ذیل میں آتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے توسط سے، قاری کی جو تربیت ہو رہی ہے اس سے بھی آگاہ ہے۔  مائیکروفکشن کے پہلے دو تین جملوں میں قاری کو اس طرح گرفت میں لینا ہوتا ہے کہ اس کا موضوع سے تعارف بھی ہو جائے اوروہ اسلوب کے علامتی نظام سے بھی جڑ جائے۔ ذہین تخلیق کاریہ فائدہ بیک وقت عنوان اور آغاز کے چند جملوں سے اس طرح لیتا ہے کہ قاری کا تجسس اختتام تک کہانی سے جڑا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں عقیل عباس کا مائیکروفکشن ”سپارٹکس“ دیکھیے:

                 ”دھوپ میں اس کے چمکتے بدن کی لچک اور اس کے وار کی گرمی دیکھ کر اکھاڑے کی

                   سیڑھیوں پر بیٹھی خوش بدن لڑکیاں اپنی قبائیں پھاڑ لیتی تھیں۔“

     عنوان ”سپارٹکس“ پڑھتے ہی آپ تاریخ سے جڑ جاتے ہیں اور آغاز،ہیرو کی وجاہت اور بہادری دکھا کر کہانی میں تجسس بھی پیدا کرتا ہے اور موضوع کا اعلان بھی کافی حد تک ہوجاتا ہے۔  

پلاٹ:

      مائیکروفکشن میں اختصار اور جامعیت کوپیش ِ نظر رکھا جاتا ہے۔اس کا اسلوب وضاحتی انداز کی جگہ ایمائیت اور اشارے میں کہانی بیان کرتا ہے اس لیے کسی پیچیدہ اور غیر منظم پلاٹ کی گنجائیش کم ہوتی ہے عموماً پلاٹ سادہ مگر چست ہوتا ہے۔کیونکہ زیادہ تر دو یا تین واقعات میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ اس لیے مائیکرو فکشن میں مربوط پلاٹ، ہی کہانی میں تجسس کو قائم رکھتا ہے مثلاً”لاشعور کی سازش“ میں صرف دو واقعات ہیں پہلے میں، مرکزی کردار ایک مشہور ایکٹریس کی مخملیں بانہوں میں جھول رہا ہے اور اس کا لمس محسوس کر رہا ہے جبکہ دوسرے منظر میں وہ بیدار ہو جاتا ہے اوررانوں میں پھسلتے سیال سے، ناگواری اس کے چہرے کی ہیئت تبدیل کر دیتی ہے۔اب ان دو واقعات کی ترتیب ہی مائیکروفکشن کی دلچسپی کو برقرار رکھتی ہے اور لاشعور کی سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔

اسلوب:  

      مائیکروفکشن کے علامتی اسلوب میں ایمائیت اور اشارے سے کام لیا جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں افسانچہ سادہ بیانیے میں موضوع کوسطحی انداز میں یوں برت دیتا ہے کہ واقعے کی ایک ظاہری صورت، بڑے واضح اور غیر پیچیدہ انداز میں قاری تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ مائیکروفکشن کا خاص اسلوب کہانی کو یوں بڑھاتا ہے کہ موضوع کے پس منظر میں پوشیدہ وہ حقائق جو عام نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں وہ بھی قاری پر آشکار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً،مائیکروفکشن”ڈرپوک“کی یہ لائنیں دیکھیں۔

                   ”باہر بجلیاں کڑک رہی تھیں۔بادل اپنے بھاری بھرکم رتھ کھینچ رہے تھے بد شکل آدم خور۔

                    میرے لیپ ٹاپ کی سکرین پر گروپ میں نکلے دوستوں کے شکار کے مزا لے رہے تھے

                   ۔۔۔۔لیپ ٹاپ بند ہو گیا اور  Wrong Turn کا آدم خور اندھیرے میں آنکھیں

                   پھاڑے مجھے گھورنے لگا۔ میں نے کمبل کھینچ کر اوپر لے لیا اور کچھ پڑھ کر اپنے اطراف

                         پھونکنے لگا۔“

             

منظر:

      مائیکرو فکشن میں چونکہ تمام عناصر کو الگ الگ نہیں برتا جا تا، بعض اوقات ایک دو عناصر سے ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ، ان خاص عناصر کی تمام باریکیاں متن میں در آئیں اور دوسرے عناصر کی عدم موجودگی کا احساس بھی نہ ہو (مکالمے کی ہیڈنگ کے تحت اس بات کی مزید وضاحت دیکھی جا سکتی ہے۔)  عقیل عباس کے ہاں مائیکروفکشن ”ڈر“ میں منظر نگاری کی عمدہ مثال موجود ہے۔۔۔۔ کوری ڈور کا آخری کمرہ،رات کی وحشت، اندھیرے میں تنہائی سے عدم تحفظ کا احساس، ایسی حالت میں خوف کو سہلانے اور بھلانے کے لیے فیس بک، بدنام ویب سائیٹ سے توجہ ادھر ادھر کرنا۔۔۔  چند لائینوں میں ایسی منظر نگاری کی گئی ہے کہ قاری،کو وہی احساس جکڑ لیتا ہے جیسے کوئی ہارر فلم دیکھنے سے محسوس ہوتاہے۔

مکالمہ:

      مائیکرو فکشن میں مکالمہ انتہائی اہم عنصرہے۔ مائیکروفکشن چونکہ اختصار اور جامعیت کی کامل صورت ہے اس لیے بعض اوقات صرف ایک مکالمے سے وہ فضا پیدا کی جاتی ہے

کہ گھر کا منظر،موضوع کی شدت، کرداروں کے حلیے، ان کی معاشی حالت،وغیرہ سب صرف ایک جملے میں سمٹ آتے ہیں۔ اس سلسلے میں ”افلاس“  ایک عمدہ مثال ہے۔جو غربت کے موضوع پر تحریر کیا گیا ہے۔ بھوک پر دنیا کی ہر زبان میں اور ہر صنف میں لکھا گیا ہے، لیکن جب یہ مسئلہ مائیکروفکشن میں آتا ہے تو ”افلاس“ کا صرف ایک مکالمہ دیکھیے، جب بھوکے بچے ماں کو مینڈک پکڑ کر دیتے ہوئے کہتے ہیں،”یہ پکا دو۔“ اس معصومانہ شدت سے یہ مکالمہ آیا ہے کہ اس کے بعد ان بھوکے بچوں کے حلیے، ان کے گھر کی حالت زار،ان کی ماں کا لباس سب کچھ قاری کی آنکھوں میں خود بخود گھوم جاتا ہے اور ہر قاری اپنے ثقافتی اور سماجی پس منظر میں اس کہانی کے گمشدہ گوشوں کو مکمل کرتا ہے۔ایسی عالم گیر فضا، صرف مائیکرو فکشن ہی پیدا کر سکتا ہے۔

کردار نگاری:

     ”دلہن اور دوسرے مائکروفکشن“میں کردار نگاری کی وہ عمدہ مثالیں موجود ہیں جو ایک کامیاب مائیکروفکشن کا خاصا ہوا کرتی ہیں اور اسے دوسری اصناف سے ممتاز بھی کرتی ہیں۔جیسے اوپر مکالمے میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کردار کا حلیہ اور منظر بعض اوقات ایک مکالمے میں اس طرح غیر محسوس طریقے سے جڑ دیا جاتا ہے کہ باقی تفصیلات اضافی ہو جاتی ہیں۔ مائیکروفکشن میں کردار نگاری کو سمجھنے کے لیے،مرزاغالب کے اس شعر کے کرداروں کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ مائیکروفکشن کی کردارنگاری، مکالمہ،جزئیات نگاری،،منظر نگاری غزل کے زیادہ قریب ہے۔

      پہلے شعر دیکھیے،

        ہاں وہ نہیں  خدا پرست ،  جاؤ  وہ  بے وفا  سہی

        جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

  ان دو مصرعوں میں آپ کو تین کردار ملتے ہیں۔ ایک محبوب جو نہ خدا کو مانتا ہے نہ با وفا ہے۔یعنی شدید نرگسیت کا شکار ہے۔ محبوب کے عشوہ و نازو ادا کا اندازہ آپ بغیر کچھ جانے لگا سکتے ہیں۔ دوسرا کردار عاشق کا ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود کسی پروانے کی طرح شمع پر فنا ہونے کے لیے تیار ہے۔وہ سود وزیاں سے بے نیاز ہے۔ جبکہ تیسرا کردار، ناصح کا ہے جو صرف نصیحت نہیں کر رہا بلکہ مسلسل عاشق سے ترک تعلق پر اصراربھی کر رہا ہے۔ ناصح کا مسلسل اصرار شعر کے پہلے لفظ ”ہاں“ سے ظاہر ہو رہا ہے۔اب اس ایک شعر میں ہم تین کرداروں کی صرف ذہنی حالت سے آگاہ نہیں ہورہے بلکہ ان کی مکمل تصویر کشی بھی کر سکتے ہیں۔

      کردارنگاری کی ایسی ہی مثالیں مائیکروفکشن کی جان ہیں۔جو دوسری نثری اصناف میں ناپید ہیں۔کردار نگاری کے سلسلے میں آپ عقیل عباس کے مائیکروفکشن ”دلھن“  کے کرداروں، داسی اور فادر کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔اسی طرح ”لاشعور کی سازش“ کے مرکزی کردار کا تجزیہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

سراپا:

       عقیل عباس کا مائیکروفکشن ”زمین“۔۔۔۔ جو آدھے صفحے کی کہانی ہے۔۔۔۔اس میں ایک شخص جو، زمین کے تباہ ہوجانے کے بعد خلاؤں میں زندہ رہ رہا ہے اور زمین کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔ اس کے مکالمے اس کی عمر کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ،اس کا حلیہ بھی بیان کر رہے ہیں۔

        ہائے میرے بچو!

        مجھے بتاؤ میں کیوں اپنی چھاتی کے بال نہ نوچ لوں جبکہ زمین تباہ ہو چکی۔۔۔۔

        کیونکر میں اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں کو اپنے گنجے سر پر زخم لگانے سے روک رکھوں۔۔۔۔

        ان مثالوں میں، میرے بچو! کہنے سے اس کی عمر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح چھاتی پر بال، بڑھے ہوئے ناخن، گنجا سر، سراپا نگاری کی وہ عمدہ مثال ہے جومائیکروفکشن کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی طرح عقیل عباس کامائیکروفکشن ”نظم“ بھی سراپا نگاری کی عمدہ مثال ہے۔

جامعیت:

      عقیل عباس کی کتاب ”دلھن اور دوسرے مائکرو فکشن“ میں جامعیت کی عمدہ مثالیں موجود ہیں اس سلسلے میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ خصوصاً ”تیسری تصویر“  میں اپنے عہد کے مسئلے کو جس طرح ماضی کی اولین تاریخی صورت سے ملا کر دیکھا گیا ہے، وہ کمال کا درجہ رکھتی ہے۔کہانی کا دورانیہ صرف اتنا ہے کہ راوی ایک تصویر انٹر نیٹ پر دیکھتا ہے جس میں دو عورتیں محبت کے رشتے میں بندھی ہوئی دکھائی گئی ہیں۔ اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کسی سازش کے تحت ہمیں دکھایا جارہا ہے۔ پھر اس کا خیال لزباس کی شاعرہ سیفو کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس مختصر ترین دورانیے کے مائیکرو فکشن کو جوہزاروں سال پرمحیط ہے ایک مختصر مگر جامع فکشن میں پیش کیا گیا ہے۔ در اصل یہی مائیکرو فکشن ہے۔اس سلسلے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مائیکرو فکشن کی روح روزمرہ کے واقعاتی ادب کی ہرگز نہیں ہے۔ یہ صنف اپنی منفرد بنت میں تخیل،تجسس، علم، تحقیق اور تجربے کی

آمیزش کا نام ہے۔

انجام:

      عموماً،مائیکروفکشن کا انجام نہ تو افسانچے کی طرح انتہائی وضاحتی، صحافیانہ یا ناصحانہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی واقعے کی تکمیلی صورت اختیار کرتا ہے۔ ایک بہترین مائیکروفکشن کی پنچ لائن میں تکمیلیت کی بجائے، کہانی کے جاری ہونے کا احساس ملتا ہے جسے ادھورے پن سے بھی مثال دی جا سکتی ہے۔ جیسے عقیل عباس کے مائیکرو فکشن”ادھیڑبن“ کی پنچ لائن دیکھیں:”ایک شاعر کے تخیل کا تجربہ ابھی پوری طرح کا میاب نہ ہو سکا تھا۔“

      اسی طرح مائیکروفکشن ”سپارٹکس“ جو عظیم باغی تھا۔ صدیوں پہلے اس کی تحریک ناکام ہوئی۔ اس کی گمنام قبر کا ذکر کرتے ہوئے مائیکروفکشن کا اختتامی جملہ دیکھیں:”میرا ذہن ہے کہ آج بھی اس کی کہیں نہ بننے والی قبر کے سرہانے بیٹھاایک عظیم ایمپائر کی تباہی کے تانے بانے بنتا رہتا ہے۔“

       جس مائیکروفکشن کاانجام وضاحتی یا تکمیلی انداز کا ہو تو وہاں کہانی کی مجموعی فضا میں کچھ ایسے حصے ضرور موجودہوتے ہیں جن کی تکمیل قاری کے ذہن میں ہی ممکن ہے۔ مثلاً کردارکے کچھ حصے کو پوشیدہ رکھنا، مکالمے کو استفہامیہ کر دینایا  منظر کی ایسی چھب دکھانا کہ نہ پورا واضح ہو نہ پوشیدہ یعنی کہیں ایسی تشنگی ضرور چھوڑی جاتی ہے کہ اس کی تکمیل ہر قاری اپنے ثقافتی ماحول یا تجربے کے مطابق کر سکتا ہے۔

      شاید چندعناصر میں آپ کو افسانے، افسانچے اور مائیکروفکشن میں مماثلتیں نظر آئیں لیکن اگر مجموعی طور پر آپ اس صنف کا جائزہ لیں گے تو یقیناً آپ کو مائیکروفکشن ایک الگ صنف نظر آئے گی۔جو ادبی اصناف میں اپنی جدا شناخت کے ساتھ اعتماد سے کھڑی ہے۔

      مائیکرو فکشن وقت کی اہم ضرورت ہے، یہ صنف موجودہ دور کی روح عصر(اختصار اور جامعیت) سے جڑی ہوئی ہے۔ آپ کو زندگی کے ہر میدان میں یہی اختصار اور جامعیت نظر آئے گی۔ ٹک ٹاک جو بلامبالغہ کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں اُن لوگوں پر اِن مختصر ٹکڑوں کا اثر ہو رہا ہے۔ اسی طرح کرکٹ میں ٹی ٹونٹی سے ٹی ۰۱ کا سفر، فلم کاتین گھنٹے کی بجائے منٹوں میں سمٹ آنا،یہ سب چیزیں جنریشن ایلفا کی سائیکی کا حصہ بن رہی ہیں۔

      مائیکروفکشن میں، عناصر کا اختصار اور جامعیت کے ساتھ منفرد برتاؤ ہی وہ خوبی ہے کہ اس میں باقی اصناف سے کہیں زیادہ کامیاب موضوعاتی تجربات ہو چکے ہیں۔اس سلسلے میں کریڈٹ سید تحسین گیلانی کو جاتا ہے۔جنھوں نے فیس بک پر انہماک انٹرنیشنل فورم بنا کرکئی کامیاب موضوعاتی تجربات کیے ہیں۔ ان موضوعاتی ایونٹس کی تفصیل دیکھیے۔تجریدی مائیکروف،علامتی مائیکروف، سائنس فکشن،کرائم مائیکروف، سائی بورگ مائیکروف، ہارر مائیکروف، نفسیاتی مائیکروف، فینٹسی مائیکروف، مسٹری مائیکروف،تھرلر مائیکروف، رومانٹک فینٹسی مائیکروف،ٹریجڈی مائیکروف، فیو چر سٹک مائیکروف، مکالماتی مائیکروف وغیرہ۔

      بعض کم فہم نقاد اس صنف کو افسانچہ سمجھ لیتے ہیں جبکہ افسانچہ اسم تصغیر ہے۔ اسم تصغیر چھوٹی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے افسانچہ صنف کے اعتبار سے ایسی سیدھی سادی،عام سی کہانی، جو روزمرہ کے واقعات پر مبنی ہو،اسلوب صحافتی ہو،پنچ لائن وضاحتی یا تفہیمی ہو۔ایسی کہانیوں کو افسانچہ کہا جاتا ہے۔افسانچے پرچٹکلے اور لطیفے کی پھبتیاں کسی جاتی ہیں لیکن یہ مناسب نہیں وہ ان کے قریب ضرور ہے لیکن ایک ادبی صنف کی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ مائیکرو فکشن اپنی تہہ داری، علامتی انداز، فکری موضوعات کے علاوہ اپنے مخصوص اسلوب میں منظر نگاری، مکالمہ، پلاٹ، کردار نگاری وغیرہ کو،اختصار اور جامعیت کے ساتھ ادبی جمالیاتی سطح پر برتنے کا نام ہے۔

      کتاب ”دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن“ جہاں مائیکروفکشن کی پہلی کتاب ہے وہاں اس نے مائیکرو فکشن کے صنفی اصول و ضوابط میں بھی اہم فریضہ انجام دیا ہے۔عقیل عباس نے اپنی تازہ فکر اور ادبی جمالیات سے جو گلدستہ سجایا ہے اس نے نہ صرف ادبی اصناف میں مائیکروفکشن کو الگ صنفی شناخت دی ہے بلکہ اس کے وقار میں بھی اضافہ کیا ہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024