ڈیڈی راستہ بھول گئے

ڈیڈی راستہ بھول گئے

Mar 26, 2024

ڈیڈی راستہ بھول گئے

اقبال حسن آزاد

زندگی کی راہیں اس قدر پر بیچ ہیں کہ کبھی کبھی اچھا بھلا ہوش مند شخص بھی راستہ بھول جاتا ہے۔ کبھی اس لیے کہ اس کی رہ نمائی صحیح طور پر نہیں ہوپاتی اور کبھی کبھی خود اس کا اور اک اسے دھوکا دے جاتا ہے۔ ایسا ہی نادر کے ساتھ بھی ہوا۔

ہر انسان کی اپنی الگ پسند ، اپنی الگ نظر ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صالحہ جیسی خوب صورت سلیقہ شعار اور تعلیم یافتہ بیوی بھی نادر کو پسند نہ تھی۔ صالحہ جیسی بیوی نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔ مگر بات وہی پسند کی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نادر اسے پسند نہیں کرتا، وہ اسے دل و جان سے چاہتی تھی۔

نادر کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔ نادر ایک اعلیٰ عہدے پر فائزتھا۔ وہ ایک خوب رو شخص تھا۔ اس کی وجاہت پہلی ہی نظر میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی اور سنجیدگی نے اس کے چہرے کو ایک وقار بھی عطا کیا تھا۔ دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر دیکھنے والوں کی نگاہوں میں تحسین کے جذبات ابھر آتے۔ ایسے خوب صورت اور وجیہ مرد سے شادی ہونے کے بعد صالحہ کو بہت خوش ہونا چاہئے تھا۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ اس کا سب سے بڑا دکھ میں تھا کہ نادرا سے پسند نہیں کرتا تھا۔ صالحہ سے اس کی شادی ایک مجبوری تھی۔ نادر کے والد نے صالحہ کو اس کے لیے پسند کر رکھا تھا اور جب نادر نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تو اس کے والد نے اسے عاق کر دینے کی دھمکی دی۔ شادی تو ہو گئی مگر نادر اپنے والد کی پسند کواپنی پسند نہیں بنا سکا۔ اس نے کبھی صالحہ کو اپنے دل کے قریب نہیں رکھا۔ وہ اسے اس ایک ضرورت سمجھتا۔ اس کا زیادہ تر وقت یا تو آفس میں گزرتا یا پھر کلب میں۔ گھر میں کوئی اور نہ تھا۔ اکیلے پن کا احساس صالح کو کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ وہ ایک تنہائی پسند عورت تھی۔ پاس پڑوس سے بھی اس کی زیادہ دوستی نہ تھی۔ اگر اس کی دوستی کسی سے تھی تو صرف کتابوں سے تھی۔ مگر کتا ہیں آخر کتا بیں ہی ہوتی ہیں۔ وہ انسان کی دوست تو ہو سکتی ہیں، مگر انسان نہیں۔ اس تنہائی کے کرب کا واحد سبب نادر کا سر درد یہ تھا۔ وہ اسے کہیں گھمانے لے جاتا اور نہ اس سے سیدھے منھ بات کرتا۔ اگر نادر ایک بار بھی اس سے مسکرا کر بات کر لیتا تو اسے اپنی زندگی اتنی تنہا تنہانہ لگتی۔ مگر نادر اس سے ضرورت کے مطابق ہی بات کرتا۔ یہ چند لمحے بھی صالحہ اپنی مٹھی میں بند کر لینا چاہتی تھی، مگر وقت تو بہتا دریا ہے۔ یہ چند لمحے کیا معنی رکھتے ہیں ؟ نادر کروٹ بدل کرخراٹے لیتا رہتا اور وہ کروٹیں بدلتی رہتی۔ اسے یاد آتا کہ جب وہ چھوٹی تھی تو تتلیاں پکڑنے کی شوقین تھی۔ مگر ہوتا یہ کہ جب کسی تتلی کو دیکھ کر وہ چپکے چپکے اسے پکڑنے کے لیے اپنی چٹکی بڑھاتی تو تتلی پھسل کر اڑ جاتی اور اس کی چٹکی میں صرف تتلی کے پروں کا رنگ چمکتارہ جاتا۔ نادر کی محبت بھی اس کے لیے ایسی ہی تھی۔

پھر شاید قدرت کو اس کی تنہائی پر رحم آگیا۔ ایک دن اسے پتہ چلا کہ اب اس کے ساتھ ایک ننھی سی جان بھی رہنے لگی ہے۔ نادر کو اس نے یہ خوش خبری جذبات کی شدت کے ساتھ لرزتے ہونٹوں سے سنائی، مگر نادر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پھر بھی صالحہ کے دل میں امید کی کرن پیدا ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک ننھا سابچہ شوہر اور بیوی کے دلوں کو جوڑنے والاپل بن سکتا ہے۔ اس لیے اب وہ نادر کی سرد مہری سے دل برداشتہ نہیں ہوتی کیوں کہ اب نادر تو خود اس کے وجود میں دھڑک رہا تھا۔ وہ گھنٹوں اس کے تصور میں کھوئی رہتی، تنہائی میں اس سے باتیں کرتی اور اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے شکم میں پرورش پانے والا بچہ اس کی ساری باتیں سمجھتا ہے۔ وہ اس کا ہم دم تھا،ہمر از تھا، دوست اور ساتھی تھا اور پھر ایک دن اس کا یہ ہمر ازشکم سے اس کی گود میں آگیا۔

عادل ہو بہو اپنے باپ کی تصویر تھا۔ وہی خوب صورت ناک نقشہ اور وہی عادل ہو بہو اپنے باپ کی تصویر تھا۔ وہی خوب صورت ناک نقشہ اور وہی رنگت....صالحہ کی زندگی کو ایک نیا مفہوم مل گیا۔ زندگی میں نئے رنگ شامل ہو گئے۔ ان کے گھر میں پہلے بھی کوئی نو کر نہیں تھا۔ عادل کی پیدائش کے بعد بھی اس نے کوئی نو کر نہیں رکھا۔ وہ عادل کا سارا کام خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی۔ اس کا کام کرنے میں اسے ایک روحانی سکون ملتا۔ مگر اسے یہ دیکھ کر سخت تکلیف ہوتی کہ نادر کو اس بچے سے بھی کوئی لگاو¿ نہ تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ صالحہ کا بچہ تھا۔ مگر اب صالحہ نے صبر کرنا سیکھ لیا تھا اور پھر اسے زندگی گزارنے کا ایک سہار ابھی مل گیا تھا۔

پانچ سال بیت گئے۔ اس دوران نادر کے والدین ایک ایک کر کے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ نادر کارویہ روز بروز سرد تر ہوتا گیا۔ اس کے دل میں کہیں یہ گرہ پڑی ہوئی تھی کہ اس کے والد نے اس کی مجبوری کا نا جائز فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے اوپر ہوئے اس ظلم کا بدلہ وہ صالحہ سے لیتا آرہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صالحہ عادل کو بے انتہا چاہتی ہے، لہٰذادہ جان بو جھ کر عادل کو بھی خود سے دور رکھتا۔ جب وہ آفس سے گھر آتا تو عادل اپنے ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر اس کی گود میں جانا چاہتا، مگر نادر ناگواری سے اس کے ہاتھ جھٹک دیتا۔ عادل کے ننھے دل میں محرومی کا احساس جاگزیں ہو گیا، مگر اپنی ماں کی طرح اسے بھی اپنے ڈیڈی سے پیار تھا۔ وہ اپنے ڈیڈی سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی گود میں ہمکنا چاہتا تھا۔ اس کی بانہوں میں جھولنا چاہتا تھا۔ مگر اس کی معصوم مسکراہٹ بھی نادر کا دل نہیں جیت سکی بلکہ وہ اس کی معمولی شرارت پر اسے پیٹ ڈالتا اور اسے پیٹ چکنے کے بعد وہ ایک انجانی کی مسرت محسوس کرتا۔

انتقام کے بھی کتنے رنگ ہوتے ہیں۔

عادل کی عمر کے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں، مگر عادل کو صرف ایک ہی شوق تھا.... کہانیاں سننے کا۔ شروع شروع میں تو صالحہ نے اپنا دل بہلانے کے لیے اسے کہانیاں سنانی شروع کیں، لیکن رفتہ رفتہ عادل کو کہانیاں سننے کا جنون سا ہو گیا اور پھر یہ حال ہو گیا کہ صبح سے لے کر رات گئے تک وہ اس سے کہانیاں سنانے کی فرمائش کرتا۔ وہ کہتی۔” بیٹے دودھ پی لو۔“ جواب ملتا ،”نہیں، پہلے کہانی سنائیے۔“ وہ کہتی،”بیٹاکھانا کھالو۔ “فرمائش ہوتی۔ ” پہلے کہانی سنائیے۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ صالحہ کو جتنی کہانیاں یاد تھیں وہ سب اس نے سیکڑوں بار عادل کو سناڈالیں۔ مگر مچھ، شیر، چیتے، ہاتھی گھوڑے سے لے کر گل بکاو¿لی ، قصہ چہار درویش اور گلزار نسیم تک کے قصے اسے سناڈالے ، مگر اس کی سیری نہ ہوئی۔ آخر کار صالحہ کو بیدی کی کہانی ”بھولا“ یاد آئی اور اس نے عادل کو یہ کہانی سنا کر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ مگر وہ پھر بھی باز نہ آیا۔ وہ ایک ذہین بچہ تھا۔ اس نے فورا ًکہا۔

” مگر بھولا کے ماما تو راستہ نہیں بھولے تھے۔ وہ تو صرف دیر سے گھر آئے تھے۔“

صالحہ لاجواب ہو گئی۔ آخر زچ ہو کر بولی۔

”بھولا کے ماما تو راستہ نہیں بھولے تھے ، لیکن اگر تم اسی طرح دن میں کہانیاں سنتے رہے تو کوئی نہ کوئی مسافر ضرور راستہ بھول جائے گا۔“

ادھر کئی دنوں سے نادر کے رنگ ڈھنگ صالحہ کو کچھ عجیب سے لگ رہے تھے۔ اس نے خود پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دیا تھا۔ اس کی سنجیدگی رخصت ہو گئی تھی۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ گنگناتا رہتا۔ صالحہ کو یہ تبدیلی کچھ عجیب سی لگی، مگر اس کا سادہ ذہن معاملے کی گہرائی تک نہ پہنچ سکا اور ایک دن تو نادر رات بھر غائب رہا۔ اس رات کو وہ بہت دیر تک بیٹھی جاگتی رہی۔ عادل بستر پر گہری نیند سو رہا تھا۔ اچانک اس کی نیند ٹوٹ گئی اور جب اس نے اپنی ماں کو بستر پر بیٹھے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔

”کیا بات ہے ممی ؟ آپ ابھی تک سوئی نہیں ؟“

”نیند نہیں آرہی ہے بیٹے!“

”ڈیڈی کہاں ہیں ؟ ڈیڈی ابھی تک نہیں آئے ؟“

”ڈیڈی ! “ ایک پھانس کی صالحہ کے دل میں اترگئی۔

”ہاں ، وہ ابھی تک نہیں آئے۔“

عادل چپ ہو گیا۔ صالحہ نے اسے تھپک تھپک کر سلا دیا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگی۔ کافی دیر تک بستر پر کروٹیں بدلتی رہی۔ کبھی وہ خود سے سوال کرتی کہ آخر اسے کسی کا انتظار ہے ؟ ایک ایسے شوہر کا جس کی نظر میں اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے ؟ پھر وہ خود کو سمجھاتی کہ اگر اسے اپنے شوہر کی محبت حاصل نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ شوہر کا نام تو اس کے ساتھ ہے۔ اس کے پاو¿ں زمین پرٹکے ہوئے تو ہیں اور پھر عادل نے تو اس کی محبت کو اپنی طرف موڑ ہی رکھا تھا۔ اب نادر بھی اس کی ایک ضرورت تھا۔ وہ عادل کا باپ تھا اور عادل کی پرورش کے لیے ایک باپ کو ہونا بہت ضروری ہے۔ یہی سب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ سپنے میں وہ جانے کیا کیا دیکھتی رہی۔ عجیب اوٹ پٹانک سے خواب آڑی ترچھی لکیریں۔ اور پھر اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ سامنے دیوار گھڑی رات کے دو بجارہی تھی اور پھر اسے احساس ہوا کہ عادل اپنے بستر پر موجود نہیں ہے۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔ کمرے کا دروازہ اس نے کھلا چھوڑ رکھا تھا۔ عادل ایک ہاتھ میں ٹارچ لیے مین گیٹ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس نے پوچھا۔

”کیا کر رہے ہو ، عادل ؟ “عادل نے ماں کو دیکھا توسہم گیا۔ پھر ڈرتے ڈرتے بولا۔

”شاید ڈیڈی راستہ بھول گئے ہیں۔ میں انہیں ڈھونڈ نے جارہا ہوں۔ “

”ایں!“ وہ چونک پڑی۔

عادل کہے جارہا تھا۔

”اب میں آپ سے دن میں کبھی کہانیاں نہیں سنوں گا۔ ڈیڈی سچ مچ راستہ بھول گئے ہیں۔“

٭٭٭

Shah Colony,Shah Zubair Road,Munger-811201

Mobile: 8210498674







ڈیڈی راستہ بھول گئے

اقبال حسن آزاد

زندگی کی راہیں اس قدر پر بیچ ہیں کہ کبھی کبھی اچھا بھلا ہوش مند شخص بھی راستہ بھول جاتا ہے۔ کبھی اس لیے کہ اس کی رہ نمائی صحیح طور پر نہیں ہوپاتی اور کبھی کبھی خود اس کا اور اک اسے دھوکا دے جاتا ہے۔ ایسا ہی نادر کے ساتھ بھی ہوا۔

ہر انسان کی اپنی الگ پسند ، اپنی الگ نظر ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صالحہ جیسی خوب صورت سلیقہ شعار اور تعلیم یافتہ بیوی بھی نادر کو پسند نہ تھی۔ صالحہ جیسی بیوی نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔ مگر بات وہی پسند کی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نادر اسے پسند نہیں کرتا، وہ اسے دل و جان سے چاہتی تھی۔

نادر کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔ نادر ایک اعلیٰ عہدے پر فائزتھا۔ وہ ایک خوب رو شخص تھا۔ اس کی وجاہت پہلی ہی نظر میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی اور سنجیدگی نے اس کے چہرے کو ایک وقار بھی عطا کیا تھا۔ دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر دیکھنے والوں کی نگاہوں میں تحسین کے جذبات ابھر آتے۔ ایسے خوب صورت اور وجیہ مرد سے شادی ہونے کے بعد صالحہ کو بہت خوش ہونا چاہئے تھا۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ اس کا سب سے بڑا دکھ میں تھا کہ نادرا سے پسند نہیں کرتا تھا۔ صالحہ سے اس کی شادی ایک مجبوری تھی۔ نادر کے والد نے صالحہ کو اس کے لیے پسند کر رکھا تھا اور جب نادر نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تو اس کے والد نے اسے عاق کر دینے کی دھمکی دی۔ شادی تو ہو گئی مگر نادر اپنے والد کی پسند کواپنی پسند نہیں بنا سکا۔ اس نے کبھی صالحہ کو اپنے دل کے قریب نہیں رکھا۔ وہ اسے اس ایک ضرورت سمجھتا۔ اس کا زیادہ تر وقت یا تو آفس میں گزرتا یا پھر کلب میں۔ گھر میں کوئی اور نہ تھا۔ اکیلے پن کا احساس صالح کو کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ وہ ایک تنہائی پسند عورت تھی۔ پاس پڑوس سے بھی اس کی زیادہ دوستی نہ تھی۔ اگر اس کی دوستی کسی سے تھی تو صرف کتابوں سے تھی۔ مگر کتا ہیں آخر کتا بیں ہی ہوتی ہیں۔ وہ انسان کی دوست تو ہو سکتی ہیں، مگر انسان نہیں۔ اس تنہائی کے کرب کا واحد سبب نادر کا سر درد یہ تھا۔ وہ اسے کہیں گھمانے لے جاتا اور نہ اس سے سیدھے منھ بات کرتا۔ اگر نادر ایک بار بھی اس سے مسکرا کر بات کر لیتا تو اسے اپنی زندگی اتنی تنہا تنہانہ لگتی۔ مگر نادر اس سے ضرورت کے مطابق ہی بات کرتا۔ یہ چند لمحے بھی صالحہ اپنی مٹھی میں بند کر لینا چاہتی تھی، مگر وقت تو بہتا دریا ہے۔ یہ چند لمحے کیا معنی رکھتے ہیں ؟ نادر کروٹ بدل کرخراٹے لیتا رہتا اور وہ کروٹیں بدلتی رہتی۔ اسے یاد آتا کہ جب وہ چھوٹی تھی تو تتلیاں پکڑنے کی شوقین تھی۔ مگر ہوتا یہ کہ جب کسی تتلی کو دیکھ کر وہ چپکے چپکے اسے پکڑنے کے لیے اپنی چٹکی بڑھاتی تو تتلی پھسل کر اڑ جاتی اور اس کی چٹکی میں صرف تتلی کے پروں کا رنگ چمکتارہ جاتا۔ نادر کی محبت بھی اس کے لیے ایسی ہی تھی۔

پھر شاید قدرت کو اس کی تنہائی پر رحم آگیا۔ ایک دن اسے پتہ چلا کہ اب اس کے ساتھ ایک ننھی سی جان بھی رہنے لگی ہے۔ نادر کو اس نے یہ خوش خبری جذبات کی شدت کے ساتھ لرزتے ہونٹوں سے سنائی، مگر نادر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پھر بھی صالحہ کے دل میں امید کی کرن پیدا ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک ننھا سابچہ شوہر اور بیوی کے دلوں کو جوڑنے والاپل بن سکتا ہے۔ اس لیے اب وہ نادر کی سرد مہری سے دل برداشتہ نہیں ہوتی کیوں کہ اب نادر تو خود اس کے وجود میں دھڑک رہا تھا۔ وہ گھنٹوں اس کے تصور میں کھوئی رہتی، تنہائی میں اس سے باتیں کرتی اور اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے شکم میں پرورش پانے والا بچہ اس کی ساری باتیں سمجھتا ہے۔ وہ اس کا ہم دم تھا،ہمر از تھا، دوست اور ساتھی تھا اور پھر ایک دن اس کا یہ ہمر ازشکم سے اس کی گود میں آگیا۔

عادل ہو بہو اپنے باپ کی تصویر تھا۔ وہی خوب صورت ناک نقشہ اور وہی عادل ہو بہو اپنے باپ کی تصویر تھا۔ وہی خوب صورت ناک نقشہ اور وہی رنگت....صالحہ کی زندگی کو ایک نیا مفہوم مل گیا۔ زندگی میں نئے رنگ شامل ہو گئے۔ ان کے گھر میں پہلے بھی کوئی نو کر نہیں تھا۔ عادل کی پیدائش کے بعد بھی اس نے کوئی نو کر نہیں رکھا۔ وہ عادل کا سارا کام خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی۔ اس کا کام کرنے میں اسے ایک روحانی سکون ملتا۔ مگر اسے یہ دیکھ کر سخت تکلیف ہوتی کہ نادر کو اس بچے سے بھی کوئی لگاو¿ نہ تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ صالحہ کا بچہ تھا۔ مگر اب صالحہ نے صبر کرنا سیکھ لیا تھا اور پھر اسے زندگی گزارنے کا ایک سہار ابھی مل گیا تھا۔

پانچ سال بیت گئے۔ اس دوران نادر کے والدین ایک ایک کر کے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ نادر کارویہ روز بروز سرد تر ہوتا گیا۔ اس کے دل میں کہیں یہ گرہ پڑی ہوئی تھی کہ اس کے والد نے اس کی مجبوری کا نا جائز فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے اوپر ہوئے اس ظلم کا بدلہ وہ صالحہ سے لیتا آرہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صالحہ عادل کو بے انتہا چاہتی ہے، لہٰذادہ جان بو جھ کر عادل کو بھی خود سے دور رکھتا۔ جب وہ آفس سے گھر آتا تو عادل اپنے ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر اس کی گود میں جانا چاہتا، مگر نادر ناگواری سے اس کے ہاتھ جھٹک دیتا۔ عادل کے ننھے دل میں محرومی کا احساس جاگزیں ہو گیا، مگر اپنی ماں کی طرح اسے بھی اپنے ڈیڈی سے پیار تھا۔ وہ اپنے ڈیڈی سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی گود میں ہمکنا چاہتا تھا۔ اس کی بانہوں میں جھولنا چاہتا تھا۔ مگر اس کی معصوم مسکراہٹ بھی نادر کا دل نہیں جیت سکی بلکہ وہ اس کی معمولی شرارت پر اسے پیٹ ڈالتا اور اسے پیٹ چکنے کے بعد وہ ایک انجانی کی مسرت محسوس کرتا۔

انتقام کے بھی کتنے رنگ ہوتے ہیں۔

عادل کی عمر کے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں، مگر عادل کو صرف ایک ہی شوق تھا.... کہانیاں سننے کا۔ شروع شروع میں تو صالحہ نے اپنا دل بہلانے کے لیے اسے کہانیاں سنانی شروع کیں، لیکن رفتہ رفتہ عادل کو کہانیاں سننے کا جنون سا ہو گیا اور پھر یہ حال ہو گیا کہ صبح سے لے کر رات گئے تک وہ اس سے کہانیاں سنانے کی فرمائش کرتا۔ وہ کہتی۔” بیٹے دودھ پی لو۔“ جواب ملتا ،”نہیں، پہلے کہانی سنائیے۔“ وہ کہتی،”بیٹاکھانا کھالو۔ “فرمائش ہوتی۔ ” پہلے کہانی سنائیے۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ صالحہ کو جتنی کہانیاں یاد تھیں وہ سب اس نے سیکڑوں بار عادل کو سناڈالیں۔ مگر مچھ، شیر، چیتے، ہاتھی گھوڑے سے لے کر گل بکاو¿لی ، قصہ چہار درویش اور گلزار نسیم تک کے قصے اسے سناڈالے ، مگر اس کی سیری نہ ہوئی۔ آخر کار صالحہ کو بیدی کی کہانی ”بھولا“ یاد آئی اور اس نے عادل کو یہ کہانی سنا کر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ مگر وہ پھر بھی باز نہ آیا۔ وہ ایک ذہین بچہ تھا۔ اس نے فورا ًکہا۔

” مگر بھولا کے ماما تو راستہ نہیں بھولے تھے۔ وہ تو صرف دیر سے گھر آئے تھے۔“

صالحہ لاجواب ہو گئی۔ آخر زچ ہو کر بولی۔

”بھولا کے ماما تو راستہ نہیں بھولے تھے ، لیکن اگر تم اسی طرح دن میں کہانیاں سنتے رہے تو کوئی نہ کوئی مسافر ضرور راستہ بھول جائے گا۔“

ادھر کئی دنوں سے نادر کے رنگ ڈھنگ صالحہ کو کچھ عجیب سے لگ رہے تھے۔ اس نے خود پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دیا تھا۔ اس کی سنجیدگی رخصت ہو گئی تھی۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ گنگناتا رہتا۔ صالحہ کو یہ تبدیلی کچھ عجیب سی لگی، مگر اس کا سادہ ذہن معاملے کی گہرائی تک نہ پہنچ سکا اور ایک دن تو نادر رات بھر غائب رہا۔ اس رات کو وہ بہت دیر تک بیٹھی جاگتی رہی۔ عادل بستر پر گہری نیند سو رہا تھا۔ اچانک اس کی نیند ٹوٹ گئی اور جب اس نے اپنی ماں کو بستر پر بیٹھے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔

”کیا بات ہے ممی ؟ آپ ابھی تک سوئی نہیں ؟“

”نیند نہیں آرہی ہے بیٹے!“

”ڈیڈی کہاں ہیں ؟ ڈیڈی ابھی تک نہیں آئے ؟“

”ڈیڈی ! “ ایک پھانس کی صالحہ کے دل میں اترگئی۔

”ہاں ، وہ ابھی تک نہیں آئے۔“

عادل چپ ہو گیا۔ صالحہ نے اسے تھپک تھپک کر سلا دیا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگی۔ کافی دیر تک بستر پر کروٹیں بدلتی رہی۔ کبھی وہ خود سے سوال کرتی کہ آخر اسے کسی کا انتظار ہے ؟ ایک ایسے شوہر کا جس کی نظر میں اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے ؟ پھر وہ خود کو سمجھاتی کہ اگر اسے اپنے شوہر کی محبت حاصل نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ شوہر کا نام تو اس کے ساتھ ہے۔ اس کے پاو¿ں زمین پرٹکے ہوئے تو ہیں اور پھر عادل نے تو اس کی محبت کو اپنی طرف موڑ ہی رکھا تھا۔ اب نادر بھی اس کی ایک ضرورت تھا۔ وہ عادل کا باپ تھا اور عادل کی پرورش کے لیے ایک باپ کو ہونا بہت ضروری ہے۔ یہی سب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ سپنے میں وہ جانے کیا کیا دیکھتی رہی۔ عجیب اوٹ پٹانک سے خواب آڑی ترچھی لکیریں۔ اور پھر اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ سامنے دیوار گھڑی رات کے دو بجارہی تھی اور پھر اسے احساس ہوا کہ عادل اپنے بستر پر موجود نہیں ہے۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔ کمرے کا دروازہ اس نے کھلا چھوڑ رکھا تھا۔ عادل ایک ہاتھ میں ٹارچ لیے مین گیٹ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس نے پوچھا۔

”کیا کر رہے ہو ، عادل ؟ “عادل نے ماں کو دیکھا توسہم گیا۔ پھر ڈرتے ڈرتے بولا۔

”شاید ڈیڈی راستہ بھول گئے ہیں۔ میں انہیں ڈھونڈ نے جارہا ہوں۔ “

”ایں!“ وہ چونک پڑی۔

عادل کہے جارہا تھا۔

”اب میں آپ سے دن میں کبھی کہانیاں نہیں سنوں گا۔ ڈیڈی سچ مچ راستہ بھول گئے ہیں۔“

٭٭٭

Shah Colony,Shah Zubair Road,Munger-811201

Mobile: 8210498674







خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024