ڈاکٹر ابرار احمد کی نظمیں
ڈاکٹر ابرار احمد کی نظمیں
Mar 24, 2018
نظم اور ترجمہ
دیدبان شمارہ ۔
ڈاکٹر ابرار احمد کی نظمیں
1. ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے
-------------------------------
-اگر ہمارے دکھوں کا علاج نیند ہے
تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا
اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوب صورتی سے کوئی نیند میں چل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج جاگنا ہے
تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں
کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے
اور ہر دروازہ ہمارے دل میں کھل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج ہنسنا ہے
تو ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ پرندے ، درختوں سے اڑ جائیں
اور پہاڑ ہماری ہنسی کی گونج سے بھر جائیں
ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ کوئی مسخرہ یا پاگل اس کا تصور تک نہیں کر سکتا
اگر ہمارے دکھوں کا علاج رونا ہے
تو ہمارے پاس اتنے آنسو ہیں
کہ ان میں ساری دنیا کو ڈبویا جا سکتا ہے
جہنم ، بجھاے جا سکتے ہیں
اور ساری زمین کو پانی دیا جا سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج ...جینا ہے
تو ہم سے زیادہ با معنی زندگی کون گزار سکتا ہے
اور کون ایسے سلیقے اور اذیت سے
اس دنیا کو دیکھ سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج ...بولنا ہے
تو ہم ہوا کی طرح گفتگو کر سکتے ہیں
اور اپنے لفظوں کی خوشبو سے پھول کھلا سکتے ہیں
اور اگر تم کہتے ہو ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے
تو ہم چپ رہ سکتے ہیں قبروں سے بھی زیادہ
............
٢ - چہل قدمی کرتے ہوے
ابرار احمد
------------------------------------
کہیں کوئی بستی ہے
خود رو جھاڑیوں اور پھولوں سے بھری
جہاں بارش
بے آرام نہیں کرتی
چھینٹے نہیں اڑاتی
صرف مہکتی ہے
مٹی سے لپے گھروں میں
ہوا شور کرتی
آوازیں سوئی رہتی ہیں
کوئی سرسراہٹوں بھرا جنگل ہے
پگڈنڈیوں اور درختوں کے درمیان
انجان پانیوں کی جانب ، نہریں بہتی ہیں
اور راستے کہیں نہیں جاتے
پرندوں کی چہکاریں ، لا متناہی عرصے کے لیے
پتوں کو مرتعش کر دیتی ہیں
دنیا سے الگ
کہیں ایک باغ ہے
غیر حتمی دوری پر
سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا
کہیں کوئی آواز ہے
بے نہایت چپ کے عقب میں
بے خال و خد ، الوہی ، گھمبیر
کہیں کوئی دن ہے
بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا
اور کوئی رات ہے
اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ہمراہ
جس میں مجھے داخل ہو جانا ہے
یونہی چہل قدمی کرتے ہوے
اور بجھے آتش دان کے پاس
بیٹھ جانا ہے
تمھارے مرجھاے چہرے کی چاندنی میں
کسی مٹیالی دیوار سے
ٹیک لگا کر
-----------------
٣ - بہت یاد آتے ہیں
ابرار احمد
---------------
چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ،
فراموش کردہ تعلق
اور پرانی چوٹوں کے نشان
اولین قرب کی سرشاری
,سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوے ,ریتلے میدان
..پہلے پہل کی چاندنی میں
ڈھولک کی سنگت میں گاۓ ہوے کچھ گیت
اور نیم تاریک رہداریوں میں جگمگاتے لمس
...دوستوں کی ڈینگیں
..فراغت اور قہقہوں سے لدی کرسیاں
...کھیل کے میدان
...تنور پر پانی کا چھڑکاؤ
.گندم کی خوشبو اور مہربان آنکھیں
...بہت یاد آتے ہیں
...دسویں کے تعزیے
مٹی اور عرق گلاب سے مہکے سیاہ لباس
مستقبل کے دھندلے خاکے
.رخصت کی ماتمی شام
.کہیں کہیں جلتے اداس لیمپ
....سر پٹختی ہوا میں ہلتے ہوے
....اور رات کی بھاری خامشی میں دور ہوتی ہوئی ٹاپوں کی آواز
...بہت یاد آتے ہیں
بڑھے ہوے بال
منکوں کی مالا
سر منڈل کی تان
...پرانی کتابیں
....وقت بے وقت کیے ہوۓ غلط فیصلے
...پہلے سفر کی صعوبت
....دریا کے پل پر پھنسی ٹریفک اور ریل کی سیٹی
..وادی کا سینہ چیرتی ہوئی
......کچھ مکان اور دروازے
اور جب یہ دروازے بند ہوۓ
آہستہ آہستہ اترتے ہوے اضمحلال کی دھند میں
-بہت یاد آتے ہیں
دور کے آسمان ...اور پرندے
...ایک ان دیکھی دنیا
..اور اس پر بنا ہوا عشق پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا
...چھوٹی سرخ اینٹوں والا گھر
....آتش دان کے پاس کیتلی سے اٹھتی بھاپ
....چمپی مخروطی انگلیاں
...مضراب کو چھیڑتی ہوئیں.
....ایک روشن جسم آنکھیں ملتا ہوا
یادوں اور خوابوں کے یہ چھوٹے چھوٹے دیے
....جلتے اور بجھتے رہتے ہیں-
...بجھتے اور جلتے رہتے ہیں
!!!اس روشنیوں بھرے شہر کی سرد مہر ، تاریک رات میں
----------------------------------
ابرار احمد
٤ - سیلویا پلاتھ کے لیے
------------------------
ایسے مونھ زور اندھیرے سے نمودار ہو کر
تم اب کیا دیکھتی ہو ؟
جب ہر طرف راکھ اڑتی ہے
بے چینی سے جگہیں بدلتے ہوے
تم کہاں جان پائیں
کہ بے پناہ دیوانگی کے لیے
کچھ بھی کافی نہیں ہوتا
کانپتے ہونٹوں پر ،
ڈولتے پنچھی
کسی کو دکھائی نہیں دیتے
تہ خانے میں چھپ کر
خواب آور گولیاں کھا لینے سے
دنیا پیچھا کہاں چھوڑتی ہے
نہ ہڈیوں کو کاٹ دینے والی
یخ بستہ ہواؤں کو
پھول سے چہرے کی نیلاہٹ
گرم جوش بنا سکتی ہے
تاسف سے تم دیکھتی رہیں
مہربان آنکھوں میں ،اترتی ہوئی سفاک لا تعلقی
اور لا متناہی اضطراب میں
اپنے ہونے کو لکھتی رہی
کتاب کے نام سوچتے سوچتے
ابد تک ...لو دیتا ہوا نشان بن گئیں
کاش تم جیتے چلے جانے پر خود کو آمادہ کر سکتیں
اور ہم ...کم از کم ایک مرتبہ
اس آسمان کے نیچے
ایک دوسرے کو دیکھ سکتے
درختوں کے درمیان
دھند اور مشترکہ نیند میں چلتے ہوے
گھاس کی جڑوں میں
اتر جانے تک
ابرار احمد
Abrar Ahmed (urdu poem translated by Yasmeen Hamid).
--------------------------------------------------------------------
If the remedy of our suffering lies in sleeping
None can sleep more soundly than us:
none can walk with such ease and grace in sleep
If the remedy of our suffering lies in staying awake,
we can stay awake to the point,
where night can rest in our eyes and every door can open into our hearts
If the remedy of our suffering lies in laughing
we can laugh away birds from trees,
fill up mountains with the echo of laughter:
We can laugh beyond the minds of comedians or madmen...
If the remedy of our suffering lies in crying,
we have tears,enough to drown the world,
extinguish hell and water the earth.
If the remedy of our suffering lies in living,
who can lead a life more meaningful than us:
who can view this world with such agony and discretion.
If the remedy of our suffering lies in speaking,
we can talk like the wind:with the scent of our words,
grow flowers..
And if u say OUR SUFFERING HAS NO REMEDY..
we can remain silent: more silent than graves!
---------------------------------
دیدبان شمارہ ۔
ڈاکٹر ابرار احمد کی نظمیں
1. ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے
-------------------------------
-اگر ہمارے دکھوں کا علاج نیند ہے
تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا
اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوب صورتی سے کوئی نیند میں چل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج جاگنا ہے
تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں
کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے
اور ہر دروازہ ہمارے دل میں کھل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج ہنسنا ہے
تو ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ پرندے ، درختوں سے اڑ جائیں
اور پہاڑ ہماری ہنسی کی گونج سے بھر جائیں
ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ کوئی مسخرہ یا پاگل اس کا تصور تک نہیں کر سکتا
اگر ہمارے دکھوں کا علاج رونا ہے
تو ہمارے پاس اتنے آنسو ہیں
کہ ان میں ساری دنیا کو ڈبویا جا سکتا ہے
جہنم ، بجھاے جا سکتے ہیں
اور ساری زمین کو پانی دیا جا سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج ...جینا ہے
تو ہم سے زیادہ با معنی زندگی کون گزار سکتا ہے
اور کون ایسے سلیقے اور اذیت سے
اس دنیا کو دیکھ سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج ...بولنا ہے
تو ہم ہوا کی طرح گفتگو کر سکتے ہیں
اور اپنے لفظوں کی خوشبو سے پھول کھلا سکتے ہیں
اور اگر تم کہتے ہو ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے
تو ہم چپ رہ سکتے ہیں قبروں سے بھی زیادہ
............
٢ - چہل قدمی کرتے ہوے
ابرار احمد
------------------------------------
کہیں کوئی بستی ہے
خود رو جھاڑیوں اور پھولوں سے بھری
جہاں بارش
بے آرام نہیں کرتی
چھینٹے نہیں اڑاتی
صرف مہکتی ہے
مٹی سے لپے گھروں میں
ہوا شور کرتی
آوازیں سوئی رہتی ہیں
کوئی سرسراہٹوں بھرا جنگل ہے
پگڈنڈیوں اور درختوں کے درمیان
انجان پانیوں کی جانب ، نہریں بہتی ہیں
اور راستے کہیں نہیں جاتے
پرندوں کی چہکاریں ، لا متناہی عرصے کے لیے
پتوں کو مرتعش کر دیتی ہیں
دنیا سے الگ
کہیں ایک باغ ہے
غیر حتمی دوری پر
سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا
کہیں کوئی آواز ہے
بے نہایت چپ کے عقب میں
بے خال و خد ، الوہی ، گھمبیر
کہیں کوئی دن ہے
بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا
اور کوئی رات ہے
اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ہمراہ
جس میں مجھے داخل ہو جانا ہے
یونہی چہل قدمی کرتے ہوے
اور بجھے آتش دان کے پاس
بیٹھ جانا ہے
تمھارے مرجھاے چہرے کی چاندنی میں
کسی مٹیالی دیوار سے
ٹیک لگا کر
-----------------
٣ - بہت یاد آتے ہیں
ابرار احمد
---------------
چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ،
فراموش کردہ تعلق
اور پرانی چوٹوں کے نشان
اولین قرب کی سرشاری
,سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوے ,ریتلے میدان
..پہلے پہل کی چاندنی میں
ڈھولک کی سنگت میں گاۓ ہوے کچھ گیت
اور نیم تاریک رہداریوں میں جگمگاتے لمس
...دوستوں کی ڈینگیں
..فراغت اور قہقہوں سے لدی کرسیاں
...کھیل کے میدان
...تنور پر پانی کا چھڑکاؤ
.گندم کی خوشبو اور مہربان آنکھیں
...بہت یاد آتے ہیں
...دسویں کے تعزیے
مٹی اور عرق گلاب سے مہکے سیاہ لباس
مستقبل کے دھندلے خاکے
.رخصت کی ماتمی شام
.کہیں کہیں جلتے اداس لیمپ
....سر پٹختی ہوا میں ہلتے ہوے
....اور رات کی بھاری خامشی میں دور ہوتی ہوئی ٹاپوں کی آواز
...بہت یاد آتے ہیں
بڑھے ہوے بال
منکوں کی مالا
سر منڈل کی تان
...پرانی کتابیں
....وقت بے وقت کیے ہوۓ غلط فیصلے
...پہلے سفر کی صعوبت
....دریا کے پل پر پھنسی ٹریفک اور ریل کی سیٹی
..وادی کا سینہ چیرتی ہوئی
......کچھ مکان اور دروازے
اور جب یہ دروازے بند ہوۓ
آہستہ آہستہ اترتے ہوے اضمحلال کی دھند میں
-بہت یاد آتے ہیں
دور کے آسمان ...اور پرندے
...ایک ان دیکھی دنیا
..اور اس پر بنا ہوا عشق پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا
...چھوٹی سرخ اینٹوں والا گھر
....آتش دان کے پاس کیتلی سے اٹھتی بھاپ
....چمپی مخروطی انگلیاں
...مضراب کو چھیڑتی ہوئیں.
....ایک روشن جسم آنکھیں ملتا ہوا
یادوں اور خوابوں کے یہ چھوٹے چھوٹے دیے
....جلتے اور بجھتے رہتے ہیں-
...بجھتے اور جلتے رہتے ہیں
!!!اس روشنیوں بھرے شہر کی سرد مہر ، تاریک رات میں
----------------------------------
ابرار احمد
٤ - سیلویا پلاتھ کے لیے
------------------------
ایسے مونھ زور اندھیرے سے نمودار ہو کر
تم اب کیا دیکھتی ہو ؟
جب ہر طرف راکھ اڑتی ہے
بے چینی سے جگہیں بدلتے ہوے
تم کہاں جان پائیں
کہ بے پناہ دیوانگی کے لیے
کچھ بھی کافی نہیں ہوتا
کانپتے ہونٹوں پر ،
ڈولتے پنچھی
کسی کو دکھائی نہیں دیتے
تہ خانے میں چھپ کر
خواب آور گولیاں کھا لینے سے
دنیا پیچھا کہاں چھوڑتی ہے
نہ ہڈیوں کو کاٹ دینے والی
یخ بستہ ہواؤں کو
پھول سے چہرے کی نیلاہٹ
گرم جوش بنا سکتی ہے
تاسف سے تم دیکھتی رہیں
مہربان آنکھوں میں ،اترتی ہوئی سفاک لا تعلقی
اور لا متناہی اضطراب میں
اپنے ہونے کو لکھتی رہی
کتاب کے نام سوچتے سوچتے
ابد تک ...لو دیتا ہوا نشان بن گئیں
کاش تم جیتے چلے جانے پر خود کو آمادہ کر سکتیں
اور ہم ...کم از کم ایک مرتبہ
اس آسمان کے نیچے
ایک دوسرے کو دیکھ سکتے
درختوں کے درمیان
دھند اور مشترکہ نیند میں چلتے ہوے
گھاس کی جڑوں میں
اتر جانے تک
ابرار احمد
Abrar Ahmed (urdu poem translated by Yasmeen Hamid).
--------------------------------------------------------------------
If the remedy of our suffering lies in sleeping
None can sleep more soundly than us:
none can walk with such ease and grace in sleep
If the remedy of our suffering lies in staying awake,
we can stay awake to the point,
where night can rest in our eyes and every door can open into our hearts
If the remedy of our suffering lies in laughing
we can laugh away birds from trees,
fill up mountains with the echo of laughter:
We can laugh beyond the minds of comedians or madmen...
If the remedy of our suffering lies in crying,
we have tears,enough to drown the world,
extinguish hell and water the earth.
If the remedy of our suffering lies in living,
who can lead a life more meaningful than us:
who can view this world with such agony and discretion.
If the remedy of our suffering lies in speaking,
we can talk like the wind:with the scent of our words,
grow flowers..
And if u say OUR SUFFERING HAS NO REMEDY..
we can remain silent: more silent than graves!
---------------------------------